فضائل ماہ رمضان حضرت امیرالمومنین (ع) کے دو خطبوں کی روشنی میں

خلاصہ: حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے دو بالکل مختصر سے خطبے نقل کیے ہیں جن میں آپ نے ماہ رمضان کے متعلق گفتگو فرمائی ہے۔

فضائل ماہ رمضان حضرت امیرالمومنین (ع) کے دو خطبوں کی روشنی میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ماہ رمضان، قرآن اور احادیث کی روشنی میں بہت سے فضائل کا حامل ہے، اہل بیت (علیہم السلام) کے خطبوں اور احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ اس مہینے میں برکات اور اللہ کی رحمت، بھرپور طور پر نازل ہوتی ہے، ماہ رمضان کے متعلق خطبوں اور روایات مین مختلف اعمال کو اس مہینہ میں بجالانے پر تاکید کی گئی ہے، جن میں سے حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) سے منقول دو ٘مختصر خطبے مندرجہ ذیل ہیں:
الإمام عليّ عليه السلام ـ كانَ إذا جاءَ شَهرُ رَمَضانَ خَطَبَ النّاسَ قائِلاً:
إنَّ هذَا الشَّهرَ المُبارَكَ الَّذِي افتَرَضَ اللّهُ صِيامَهُ ولَم يَفتَرِض قِيامَهُ قَد أتاكُم.
ألا إنَّ الصَّومَ لَيسَ مِنَ الطَّعامِ وَالشَّرابِ وَحدَهُما ، ولكِن مِنَ اللَّغوِ وَالكَذِبِ وَالباطِلِ.[1]
جب ماہ رمضان آیا تو حضرت امام علی (علیہ السلام) نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
بیشک یہ مبارک مہینہ جس کے روزہ کو اللہ نے واجب کیا ہے اور اس کے قیام (رات کی عبادت) کو واجب نہیں کیا، تم تک پہنچ آیا ہے۔
جان لو کہ روزہ، صرف کھانے اور پینے سے (پرہیز) نہیں بلکہ بے فائدہ کام، جھوٹ اور باطل عمل سے (بھی پرہیز) ہے۔

السنن الكبرى ـ عَنِ الشَّعبِيِّ ـ : إنّ عليّا عليه السلام كانَ يَخطُبُ إذا حَضَرَ رَمَضانُ ، ثُمَّ يَقولُ:
هذَا الشَّهرُ المُبارَكُ الَّذي فَرَضَ اللّه ُ صِيامَهُ ولَم يَفرِض قِيامَهُ ؛ لِيَحذَرَ رَجُلٌ أن يَقولَ : أصومُ إذا صامَ فُلانٌ أو اُفطِرُ إذا أفطَرَ فُلانٌ.
ألا إنَّ الصِّيامَ لَيسَ مِنَ الطَّعامِ وَالشَّرابِ ولكِن مِنَ الكَذِب وَالباطِلِ وَاللَّغوِ.
ألا لا تَقَدَّمُوا الشَّهرَ ؛ إذا رَأَيتُمُ الهِلالَ فَصوموا ، وإذا رَأَيتُموهُ فَأَفطِروا ، فَإِن غُمَّ عَلَيكُم فَأَكمِلُوا العِدَّةَ .[2]
شعبی سے منقول ہے کہ جب بھی ماہ رمضان آتا تھا، حضرت علی (علیہ السلام) خطبہ دیتے اور فرماتے تھے:
یہ مبارک مہینہ، (وہ مہینہ ہے) جس میں اللہ نے اس کا روزہ واجب کیا ہے۔
اور اس کا قیام (رات کی عبادت) واجب نہیں قرار دی تاکہ کوئی اس طرح  نہ کہے: جب فلاں شخص روزہ رکھے گا تو میں روزہ رکھوں گا اور جب فلاں شخص کھائے گا تو میں بھی کھاوں گا،
آگاہ رہو کہ روزہ (صرف) کھانے پینے سے (پرہیز) نہیں بلکہ جھوٹ، باطل اور عبث کام سے پرہیز ہے۔
آگاہ رہو کہ مہینہ پر سبقت مت کرنا، جب چاند دیکھا تو روزہ رکھنا
اور جب اسے (شوال کے آغاز میں) دیکھنا تب کھانا پینا شروع کرنا۔
پس اگر چاند نظر نہ آئے تو مہینہ کے دنوں کو پورا کرنا۔
نتیجہ: حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے ان بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ ہمیں ماہ رمضان میں روزہ رکھنا چاہیے، راتوں کو عبادت کرنا چاہیے، زبان پر قابو رکھتے ہوئے ہر طرح کی فضول باتوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ نیز ماہ رمضان کی ابتدا اور انتہاء میں کسی قسم کی جلدبازی نہیں کرنی چاہیے بلکہ روزوں کا آغاز اور عید کا دن صرف چاند کے نظر آنے پر منحصر ہے اور اپنی رائے سے اس میں بالکل دخالت نہیں کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] درر الأحاديث النبويّة : 75 عن يحيى بن الحسين.
[2] السنن الكبرى : 4 / 351 / 7955 ، فضائل الأوقات للبيهقي : 47 / 78 ، كنز العمّال : 8 / 582 / 24272

تبصرے
Loading...