فاتح کربلاحضرت زینب سلام اللہ علیھا

چکیده:حضرت زینب سلام اللہ علیہا امیر المومنین علی و فاطمہ علیہم السلام  کی بیٹی اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نواسی ہیں۔ آپ بہت ہی بافضیلت و باتقوا خاتون تھیں۔ آپکی فضیلتوں کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ امام سجاد علیہ السلام آپ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میری پھوپھی جان عالمہ غیر معلمہ ہیں۔اور آپکی پوری زندگی علم،سخاوت شجاعت اور تقوی سے عبارت ہے

فاتح کربلاحضرت زینب  سلام اللہ علیھا

حضرت زینب سلام اللہ علیہا امیر المومنین علی و فاطمہ علیہم السلام  کی بیٹی اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نواسی ہیں۔ آپ بہت ہی بافضیلت و باتقوا خاتون تھیں۔ آپکی فضیلتوں کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ امام سجاد علیہ السلام آپ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میری پھوپھی جان عالمہ غیر معلمہ ہیں۔ آپ کے کمالات صرف علم تک ہی محدود نہیں بلکہ زندگی کے مختلف حصوں میں آپ کی شخصیت کے مختلف پہلو منظر عام پر آئے ہم ذیل میں آپکے اہم صفات اور کمالات کی طرف اختصار کیساتھ اشارہ کرتے ہیں
علم:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کو جب کوئی مسئلہ سمجھ میں نہ آتا اور کوئی بھی اس مسئلہ کو نہ جانتا ہوتا تو حضرت زینب ؑ کی طرف رجوع فرماتے جو بھی سوال کرتے اس کا جواب پاتے اور پھر جب اس مسئلہ کو اپنے شاگردوں میں بیان کرتے تو فرمایا کرتے تھے، “حدثنا عقیلتنا” کہ اس مسئلہ کو ہماری عقیلہ یعنی حضرت زینب بنت علی ؑ نے بیان کیا ہے آپ کی عظمت ہے کہ امت جسے سب سے بڑا عالم اور مفسر قرآن کہتی ہے وہ مشکل مسائل میں آپ کی طرف رجوع کرتے تھے یہ صحبت نبی (ص)، تعلیم علی ؑ اور تربیت زہراء ؑ کا اثر تھا حضرت امام زین العابدین ؑفرماتے ہیں۔  
اَنْتِ بِحَمدِ اللّهِ عالِمَةٌ غَیرَ مُعَلَّمَة وَ فَهِیمَةٌ غَیرَ مُفَهَّمَة
اے پھوپھی جان خدا کا شکر ہےکہ آپ عالمہ غیر معلمہ ہیں آپ ایسی فہم و فراست رکھتی ہیں جو آپ کو کسی نے دی نہیں ہے

سخاوت:
آپ کے بچپن کا عالم ہے آپ  کے گھر میں ایک مہمان آ گئے حضرت علی ؑ نے حضرت فاطمہ ؑ سے پوچھا کہ گھر میں کچھ کھانے کو ہے تو بی بی معظمہ نے فرمایا کہ تھوڑا سا کھانا تو ہے مگر وہ زینب ؑ کے لیے ہے حضرت زینب ؑ  یہ سن رہیں تھیں، فورا مادر گرامی سے کہا اماں جان کھانا مہمان کو دے دیں  میں بعد میں کھا لوں گی یہ خاندان نبوت کی تربیت تھی، حضرت زہراء نے بیٹی کا جذبہ دیکھ کر گلے سے لگا لیا۔ یہ تو عام مہمان تھا دروازہ حضرت زینب ؑ پر دشمن بھی آ جائے تو بھوکا نہیں جاتا۔  واقعہ کربلا کے بعد حضرت علی اکبرؑ کا قاتل مہمان بن کے حضرت امام زین العابدین ؑ کے پاس آیا، بھوکا پیاسا تھا امام گھر تشریف لائے اور حضرت زینب ؑ سے کھانے تیار کرنے کو کہا، بی بی نے دریافت کیا مہمان کون ہے؟  امام نے غمگین لہجے میں بتایا کہ آج ہمارا مہمان کوئی عام آدمی نہیں ہے بلکہ حضرت علی اکبر ؑ کا قاتل ہے، بی بی کی حضرت علی اکبر ؑ سے محبت ناقابل بیان ہے مگر بی بی نے کمال ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھانا پکا کر دیا وہ جب تک رہا بی بی کھانے دیتی رہیں کیا اخلاق اہلبیتؑ ہے؟ اپنے قاتلوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں جنہوں ان کے جگر کے ٹکڑوں شہید کیا، نہ صرف شہید کیا بلکہ ان کے سروں کو تن سے جدا کیا، جنہوں  نےخاندان نبوت کو کوچہ کوچہ شہر شہر پھرایا ان کی مہمان نوازی اللہ اللہ  ایسا کیوں نہ ہو یہ اس کی نواسی ہے جس نے کوڑا پھینکنے والی کو دعائیں دیں، جنہوں نے پتھر مار کر لہولہان کر دیا ان کی ہدایت کے لیے گڑگڑا کر اللہ سے ان کی مغفرت مانگی، یہ سیرت ہمارے لیے نمونہ عمل ہے ہم نے معاشرے میں جو خود ساختہ دیواریں بنا لی ہیں ان کو گرانے کی ضرورت ہے۔

عبادت:
مصر کی ایک خاتون مصنفہ نے لکھا ہے میں حیران ہوں علی ؑ کی بیٹی پر جس کی صبح سے لیکر عصر تک اٹھارہ بھائی شہید ہو گئے تھے جس کے بیٹوں کو نیزوں پر چڑھا دیا گیا تھا مگر کربلا کی شام سے لیکر کوفہ کے کوچہ و بازار تک اور کوفہ کے بازار سے شام کے دربار تک بی بی کی ایک نماز بھی قضا نہیں ہوئی، ایسا کیوں نہ ہو  یہ معظمہ اس خاتون کی بیٹی جو اللہ سے دعا کرتی ہیں کہ راتوں کو لمبا کر دے تاکہ میں تیرے حضور لمبے سجدے کرسکوں۔ اس مرد حق کی دختر ہیں جو شب و روز میں ایک ہزار رکعت نماز ادا کرتے تھے، ان کے نانا نے خدا کی اتنی بندگی کی  کہ خدا نے قرآن کی آیت نازل کر دی، “میرے نبی اپنے عبادت کو کم کر دو” یہ اس حسین (ع) کی بہن  ہے جس نے عین جنگ کے عالم میں اول وقت میں نماز ادا کی اور جب شہید ہونے کو جا رہے تھے تو اپنی اس عابدہ بہن سے ایک گذارش کی، کہ اے بہن مجھے نماز شب کی دعا میں ضرور یاد رکھنا۔ آج ہم لوگ آفس میں کام زیادہ ہے، امتحان نزدیک ہے، مہمان بیٹھے ہیں کہہ کے نماز چھوڑ دیتے ہیں، مگر اہلبیتؑ خدا کی عبادت کے لیے ان سب کو چھوڑ دیتے ہیں۔

شجاعت:
شجاعت خاندان اہلبیتؑ کی میراث ہے، حضرت زینب ؑ حضرت علی ؑ جنہیں اشجع الناس کہا گیا یعنی  لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر کی بیٹی ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نواسی ہیں جن کے بارے میں حضرت علیؑ  فرماتے ہیں جب جنگ کے شعلے بھڑک اٹھتے، دشمن کے حملے تیز ہوتے، تو ہم نبی اکرم (ص) کے پاس آ کر پناہ لیتے تھے۔ بی بی نے مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کربلا تک تمام مشکلات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا بلکہ ہر جگہ اپنے بھائی کی ڈھارس بندھاتی تھیں۔ دس محرم کے دن پیش آنے والے واقعات جنہیں سن کر انسان برداشت نہیں کر سکتا بی بی کی آنکھوں کے سامنے ہوئے مگر بی بی نے ان تمام کا جوانمردی سے مقابلہ کیا۔ دس محرم کی شام کو جب خیام کو جلا دیا گیا جب سب مرد شہید کر دیئے گئے تو خاندان نبوت کو آپ نے ہی سہارا دیا۔ بھائیوں کے کٹے ہوئے سروں  کے ساتھ کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں جانا آسان نہ تھا، ایسا مشکل کام تھا کہ جب امام زین العابدین سے پوچھا جاتا کہاں  سب سے زیادہ دکھ اٹھائے تو فرماتے تھے الشام الشام۔  بی بی نے ان تمام معرکوں کو کامیابی کے ساتھ سر کیا، یہ آپ کی شجاعت تھی کہ ہر جگہ یزید کو رسوا کر دیا۔

 

تبصرے
Loading...