بارالہا! میری طرف توجہ فرما جب تجھ سے مناجات کروں – مناجات شعبانیہ کی تشریح

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مناجات شعبانیہ جو حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) سے نقل ہوئی ہے اور اس مناجات کو سب ائمہ اطہار (علیہم السلام) پڑھا کرتے تھے، اس کے چوتھے فقرہ کی تشریح کرتے ہوئے، اس سلسلہ میں چوتھا مضمون پیش کیا جارہا ہے۔ امام العارفین حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) محمدؐ و آل محمدؐ پر صلوات بھیجتے ہوئے مناجات کو شروع کرتے ہیں، اس کے بعد بارگاہ الہی میں عرض کرتے ہیں: “وَ اسْمَعْ دُعَائِی إِذَا دَعَوْتُك وَ اسْمَعْ نِدَائِی إِذَا نَادَیتُك وَ أَقْبِلْ عَلَی إِذَا نَاجَیتُك”، “اور میری دعا سن جب تجھے پکاروں اور میری آواز (نداء) سن جب تجھے آواز (نداء) دوں اور میری طرف توجہ فرما جب تجھ سے رازونیاز (مناجات) کروں”۔ اس مضمون میں “وَ أَقْبِلْ عَلَی إِذَا نَاجَیتُك“، “اور میری طرف توجہ فرما جب تجھ سے رازونیاز (مناجات) کروں” کے فقرہ کے بارے میں گفتگو کی جارہی ہے۔
تشریح
مناجات کا لغوی اور اصطلاحی مفہوم:
نجوی، سرگوشی کرنے اور راز کی بات کرنے کو کہا جاتا ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ سرگوشی ہو، بلکہ نجوی ایسی بات ہے جو اغیار (دوسروں) سے دور ہو۔[1] طبرسیؒ کا کہنا ہے کہ اللہ کا یہ فرمان: “ویتناجون” یعنی بعض نے دیگر بعض سے رازگوئی کی، اور نجوی یعنی راز اور “نجواھم” یعنی ان کے راز۔[2] نجوی کسی سے اکیلے میں بات کرنا کہ کوئی دوسرا شخص نہ سن سکے، لہذا نجوا دو افراد کے درمیان ہوتا ہے کہ تیسرا شخص اسے نہیں سن سکتا۔
حضرتؑ کے اس فقرہ کی تشریح: کبھی انسان اللہ سے نجوا کرتا ہے جیسے یہی مناجات شعبانیہ، جس میں حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) اللہ سے نجوا اور راز و نیاز کررہے ہیں اور کبھی اللہ انسان سے نجوا کرتا ہے جیسے حضرت امام علی (علیہ السلام) کا بعض افراد کے بارے میں ارشاد ہے: “ناجاهُمْ في فِكْرِهِمْ وَكَلَّمَهُم في ذاتِ عُقُوْلِهِمْ[3]، “(اللہ) جن کی فکر وں میں سر گوشیوں کی صورت میں (حقائق و معارف کا) القا ء کرتا ہے اور ا ن کی عقلوں سے الہامی آوازوں کے ساتھ کلام کرتا ہے”۔ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے مناجات شعبانیہ کے اس فقرہ میں یہ نہیں فرمایا: “واسمع نجواى” يا “واسمع مناجاتى ” کہ “میرے نجوی” یا “میری مناجات کو سن”، بلکہ سابقہ فقروں سے الگ طریقہ سے، عرض کیا ہے کہ “وَأَقْبِلْ عَلَی إِذَا نَاجَیتُك”، “اور میری طرف توجہ فرما جب تجھ سے رازونیاز (مناجات) کروں“۔ اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ نجوی اور سرگوشی کرتے ہوئے، اس چیز کی ضرورت ہوتی ہے کہ سامنے والا مکمل طور پر توجہ کرے ورنہ نجوی کا مقصد حاصل نہیں ہوگا اور کہا جاسکتا ہے کہ نجوی کرنے سے اصل مقصد، محبوب سے اکیلے میں بات کرنا اور محبوب سے مانوس ہونا مقصد ہوتا ہے اور اگر محبوب توجہ نہ کرے اور رُخ موڑ لے تو مقصد ضائع ہوجاتا ہے۔ لہذا انسان چاہے یا نہ چاہے، اللہ اس کی بات سن لیتا ہے، مگر جو مطلوب ہے وہ اپنی طرف متوجہ کرنا ہے اور حاجتوں کی استجابت اللہ تعالی کی طرف سے دوسرے مرحلہ میں ہوتی ہے، جیسا کہ بعض مناجات میں بالکل کوئی حاجت بیان ہی نہیں ہوتی، بلکہ انسان کو یہی پسند ہوتا ہے کہ اللہ اس کی طرف توجہ فرمائے۔
مناجات اور رازو نیازکے اسباب اور رکاوٹ: عموماً روزمرہ کی زندگی میں سب لوگ طبعی طور پر خواہشمند ہوتے ہیں کہ اکیلے میں بڑے لوگوں کے ساتھ ہم نشینی اختیار کریں۔ مومن شخص بھی کیونکہ عظمت الہی سے واقف ہے، ہمیشہ کوشش میں رہتا ہے کہ خلوت پا کر اپنے معبود سے رازونیاز اور مناجات کرے، جس انسان کی زیادہ سے زیادہ توجہ اللہ تعالی کی طرف ہو، اللہ تعالی بھی اپنی عنایات اس کو نصیب کرتا ہے اور مناجات کی لذت اسے چکھاتا ہے۔ لیکن جس شخص کی ہمت اور مقصد دنیا ہو اور دنیا کی محبت اس کے دل میں ہو، وہ پروردگار سے مناجات کرنے سے محروم رہتا ہے۔ گناہ، دنیا کی محبت، خودپسندی، دکھاوا اور شہرت پسندی ان اہم رکاوٹوں میں سے ہیں جو پروردگار عالم سے مناجات کرنے سے محرومیت کا باعث بنتی ہیں۔
دعا و مناجات کرنے اور پڑھنے میں فرق: لفظ مناجات جو نجوا کے مادہ سے ہے، عربی لغت میں “کان میں بات کرنے، راز کی بات کرنے اور اکیلے میں کسی سے بات کرنے” کے معنی میں ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ نجوا کے معنی یہ ہیں کہ کچھ افراد یا دو آدمی اکیلے میں، آہستہ یا بلند آواز سے ایک دوسرے سے بات کریں۔ بنابریں آہستہ اور کان میں بات کرنا، مناجات کے معنی میں نہیں پایا جاتا، بلکہ مناجات ایسی بات ہے جو اغیار (دوسروں) سے دور ہوکر کی جائے۔ لہذا مناجات، آہستہ بات کرنے سے زیادہ ملتی جلتی ہے بہ نسبت اونچی آواز میں بات کرنے کے۔ بنابریں جو مناجات اہل بیت (علیہم السلام) سے نقل ہوئی ہیں انہیں پڑھنا یا ان اشعار کو پڑھنا جنہیں  کسی نے اللہ سے نجوا کرتے ہوئے نظم کیا ہے، وہ مناجات اور رازونیاز “کرنا” نہیں ہے، بلکہ مناجات کا “پڑھنا” ہے، جیسا کہ دعا کرنے میں انسان کو انشاء اور ایجاد کا قصد کرنا چاہیے اور اللہ سے طلب کرنا چاہیے، جو دعائیں اہل بیت (علیہم السلام) سے نقل ہوئی ہیں، ان کو پڑھنا، انسان کی اپنی دعا شمار نہیں ہوتی، کیونکہ انسان ان کو پڑھتے ہوئے، انشاء اورطلب کی نیت نہیں رکھتا، بلکہ حکایت اور نقل کے قصد سے جملات کو بیان کرتا ہے تو اس صورت میں انسان دعا نہیں کرتا، بلکہ دعا پڑھتا ہے، اسی وجہ سے بعض اوقات ایسی دعاوں کے معنی پر توجہ ہی نہیں کررہا ہوتا، صرف جملات کو یکے بعد دیگرے پڑھ رہا ہوتا ہے۔[4]
اللہ سے مناجات کی ضرورت: کلی طور پر نجوا کبھی دو انسانوں کے درمیان ہوتا ہے، کبھی انسان اور خدا کے درمیان اور کبھی خدا اور انسان کے درمیان۔ طبعی طور پر ہر انسان چاہتا ہے کہ بڑے لوگوں سے تنہائی اور خلوت میں بات چیت کرے، شاگرد چاہتا ہے کہ استاد کو اپنی طرف متوجہ کرے لہذا درس کے اختتام کے بعد استاد کے پاس جاکر اکیلے میں اپنے سوالات پوچھتا ہے۔ مومن شخص جو عظمتِ پروردگار سے واقف ہے اور پروردگار کے مقام رحمانیت اور نعمتوں کو جانتا ہے تو وہ اللہ سے نجوا اور رازونیاز کی لذت کا ادراک کرتا ہے اور ہمیشہ اس کوشش میں رہتا ہے کہ خلوت جگہ پا کر اللہ سے رازونیاز کرے۔ غافل لوگوں نے کیونکہ پروردگار سے گفتگو کرنے کی لذت نہیں چکھی ہوتی تو انہیں اللہ سے تنہائی میں مناجات کرنے کی کوئی دلچسپی بھی نہیں ہوتی۔ حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) خوب جانتے ہیں کہ اللہ تعالی سے گفتگو کرنے میں کتنی لذت ہے اور جس شخص کو اللہ نے مناجات کی توفیق دی ہے وہ شخص کیسے مقام و منزلت پر فائز ہوا ہے۔ بعض روایات میں وہ چیزیں جو اللہ سے مناجات کا باعث بنتی ہیں، نقل ہوئی ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نقل کرتے ہیں کہ اللہ سبحانہ نے فرمایا: إذا عَلِمتُ أنَّ الغالِبَ على عَبدِي الاشتِغالُ بِي نَقَلتُ شَهوَتَهُ في مَسألَتِي و مُناجاتِي ، فإذا كانَ عَبدِي كَذلِكَ فأَرَادَ أن يَسهُوَ حُلْتُ بَينَهُ و بَينَ أن يَسهُوَ ، اُولئكَ أوليائي حقّاً ، اُولئكَ الأبطالُ حقّاً[5]، “جب میں جان لوں کہ میری یاد میرے بندہ پر غالب ہے تو میں اس کی خواہش کو اپنے سے سوال اور مناجات کرنے کی طرف متوجہ کردیتا ہوں، لہذا جب میرا بندہ ایسا ہوجائے تو جب غفلت میں پڑنے لگے تو میں اس کی غفلت سے رکاوٹ بن جاتا ہے، یہ میرے حقیقی اولیاء (دوست) اور حقیقی پہلوان ہیں”۔
مناجات کی اہمیت روایات کی روشنی میں: حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: في المُناجاةِ سَبَبُ النَّجاةِ[6]، “(اللہ سے) مناجات میں نجات کا سبب (پایا جاتا) ہے”۔ حضرت امام سجاد (علیہ السلام) دعائے یوم عرفہ میں اللہ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں: و زَيِّنْ ليَ التَّفرُّدَ بمُناجاتِكَ باللَّيلِ و النَّهارِ[7]، “اور میرے لیے خلوت کو رات اور دن میں اپنے سے مناجات کے ذریعہ زینت دے”۔
نقل ہوا ہے کہ اللہ نے حضرت داود (علیہ السلام) سے فرمایا: ما لِأولِيائي و الهَمَّ بالدّنيا؟! إنّ الهَمَّ يُذهِبُ حَلاوَةَ مُناجاتي مِن قُلوبِهِم . يا داوودُ، إنَّ مَحَبَّتي مِن أولِيائي أن يَكونوا رُوحانِيّينَ لا يَغتَمّونَ[8]،  “میرے دوستوں کو دنیا کا غم کھانے سے کیا تعلق، دنیا کا غم میری مناجات کی مٹھاس کو ان کے دل سے ختم کردیتا ہے، اے داود، میں چاہتا ہوں کہ میرے دوست روحانی ہوں اور (دنیا کا غم) نہ کھائیں۔
نتیجہ: مناجات شعبانیہ اور اس جیسی دیگر مناجات، لوگوں کو اللہ سے دعا و مناجات کرنے کا طریقہ سکھاتی ہیں۔ کیونکہ پروردگار سے گفتگو کرنے کے لئے مختلف طرح کے آداب و احترام کا خیال رکھنا چاہیے اور اللہ تعالی کی عظمت کو اہل بیت (علیہم السلام) سے بہتر کوئی نہیں جانتا، تو اس عظیم پروردگار کی بارگاہ میں اہل بیت (علیہم السلام) نے خود رازونیاز کرتے ہوئے ہمیں گفتگو کا طریقہ سکھا دیا ہے، لہذا اہل بیت (علیہم السلام) کی مختلف مناجات کے ہوتے ہوئے ہمیں اپنی ناقص سوچ کے ذریعہ اپنی طرف سے جملات بنانے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اہل بیت (علیہم السلام) کی ہی مناجات کے مطلب پر ذرا سا غور کرتے ہوئے ادب و احترام کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں ان جملات اور مناجات کو عرض کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] قاموس قرآن، ج7، ص26، 27۔
[2] مجمع البیان، علامہ طبرسی، ج1، ص407۔
[3] نهج البلاغہ، خطبہ 219۔
[4] نشریه معرفت، ج139، ص3، (یہ در اصل آیت اللہ مصباح یزدی کے بیانات سے ماخوذ ہے)۔
[5] عدّة الداعي، ص235۔
[6] میزان الحکمہ، محمدی ری شہری، ج12، ص164۔
[7] صحیفہ سجادیہ ، دعا 47۔
[8] بحارالانوار، علامہ مجلسی، ج 82، ب 61، ص 143، ح 26۔

تبصرے
Loading...