امام خمینیؒ اور ایران کا اسلامی انقلاب(۱)

چکیده:امام خمینی(رہ) ایک ایسے عظیم انقلاب کے موجد و بانی تھے جس نے شہنشاہوں کے2500سالہ اقتدار کا یکسر خاتمہ کیا ۔ انہوں نے اپنی بے لوث و پرخلوص قیادت کے بل پر امریکہ ، روس اور دیگر عالمی طاقتوں کے اثر و رسوخ کو ختم کرکے اسلامی معاشرے کو پاک و صاف کرانے کی جدوجہد آخری دم تک جاری رکھی.اس پرخلوص اور دیانتدارانہ قیادت کے زیر اثرخوابیدہ قوم کواسلامی انقلاب کے طلوع کی خوش خبری سننے کو ملی ۔ 

امام خمینیؒ اور ایران کا اسلامی انقلاب(۱)

بیس جمادی الثانی 1320 ہجری قمری مطابق   24ستمبر 1902 عیسوی کو ایران کے صوبہ مرکزی کے شہرخمین میں بنت رسول حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی طیب وطاہر نسل کے خاندان میں آپ ہی کے یوم ولادت با سعادت پر روح اللہ الموسوی الخمینی کی پیدائش ہوئي۔  وہ اپنے آباؤ اجداد کے اخلاق حسنہ کے وارث تھے جنہوں نے نسل درنسل لوگوں کی ہدایت ورہنمائی اورمعارف الہی کے حصول کے لئے خود کو وقف کررکھا تھا۔ یہ وہ گھرانہ تھا جو اعلی علمی مفاہیم سے مکمل طور پر آشنا تھا ۔آپ کے  والد کا نام شھید مصطفی موسوی اور دادا کا نام سید احمد موسوی تھا۔ ایک روایت کے مطابق آپ کے دادا کا تعلق مشہور و معروف عالم ، محقق اور مصنف  سیدمیر حامد حسین نیشاپوری کے خاندان سے ہے جو لکھنؤ میں آباد تھے ۔ سید مصطفی امام خمینی کے والد نے ابتدا ئی تعلیم نجف اشرف میں حاصل  کیا ۔ ان کا شمار بہت ہی کم عمری میں نامور علماء اور مجتہدین میں کیا جانے لگا ۔ تعلیم سے فراغت کے بعد وہ خمین چلے آئے ۔ آیت اللہ سید مصطی موسوی نہ صرف عوام کی رھنمائی کے فرائض انجام دیئے بلکہ وہ اس کے جا گیردارانہ نظام کے بھی سخت مخالف تھے چنانچہ  آپ کے علاقہ کے ایک مشہور جا گیر دارکی سازش کے تحت صرف ۴۷سال عمر میں آپ کو قتل کردیاگیا۔ شہید سید مصطفی موسوی نے اپنے پیچھے چھ اولاد یں چھوڑیں جن میں تین لڑکے اور تیں لڑکیاں تھیں۔ ان میں سے ایک امام خمینی بھی تھے۔والد کی شھادت کے وقت امام خمینی صرف نو ماہ کے تھے ۔ اس یے آپ کی ابتدائی تربیت آپ کی والدہ گرامی بانو ھاجرہ اور پھوپھی بانو صاحبہ نے کی لیکن ان دونوں کا بھی کچھ عرصہ بعد انتقال ہوگیا۔حضرت امام خمینی نے ان مصائب اور مشکلات میں بھی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا ۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد آپ قم کی در گاہ یعنی حوزہ علمیہ میں معلم اور استاد مقرر ہو گئے ۔ جلد ہی آپ کا شمار قم کی منتخب علماء میں کیا جانے لگا ۔ عوام میں دینی رجحا نات کو فروغ دینے کے لئے آپ نے خصوصی اجتماعات کا آغاز کیا۔ آپ کے زور خطابات اور عالمانہ انداز گفتگو سے یہ اجتماعات اس قدر مقبول ہوئے کہ بیرون قم سے بھی لوگ آنے لگے ۔ امام خمینی کو عوام میں شہرت سے رضاخان کے کان کھڑے ہو ے اس نے پولیس کہ ذریعہ ان اجتماعات کو ختم کرنے کی ہدایت کی لیکن کامیاب نہ ہوئی۔ 
بانی انقلاب کی زندگی کا مختصر جائزہ لینے کے بعد ہم آپ کی خدمت میں ایران کے اسلامی انقلاب میں امام خمینیؒ کی کارکردگی کو مختصراً بیان کرنے کا شرف حاصل کر رہے ہیں۔

۱ : محکم قیادت: امام خمینی(رہ) ایک ایسے عظیم انقلاب کے موجد و بانی تھے جس نے شہنشاہوں کے2500سالہ اقتدار کا یکسر خاتمہ کیا ۔ انہوں نے اپنی بے لوث و پرخلوص قیادت کے بل پر امریکہ ، روس اور دیگر عالمی طاقتوں کے اثر و رسوخ کو ختم کرکے اسلامی معاشرے کو پاک و صاف کرانے کی جدوجہد آخری دم تک جاری رکھی ….دیکھتے ہی دیکھتے سرزمین ایران کے کلمہ گو نوجوان اور بزرگ مع خواتین جن کے سینوں میں جوش وخروش اور انقلابی لہر موجزن تھی ‘ عیش وآرام چھوڑ کر سڑکوں پر نکل آئے ۔ انہوں نے شاہی لوازمات ٹھکرائے ،امام خمینی(رہ) کے فرمان کو دلوں سے لگائے ،سلطنتی نظام کے خاتمے اور اسلامی حکومت کے قیام کا نعرہ بلند کیا ۔ الغرض پرخلوص اور دیانتدارانہ قیادت کے زیر اثرخوابیدہ قوم کواسلامی انقلاب کے طلوع کی خوش خبری سننے کو ملی ۔
امام خمینی (رہ) کو ابتداء ہی سے اس بات کا احساس تھا کہ دنیا کے ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کی نمائندگی کرنے دو عظیم طاقتوں کے سیاسی ونظریاتی حملوں کا مقابلہ کرنے اور اسلامی مقاصد کے دفاع وتحفظ کے لئے ایرانی جیالوں کو صف اوّل میں کھڑا ہونا ہے ۔ دنیا والوں پر یہ حقیقت آشکار ہوگی کہ امام کی بے لوث اور بروقت رہنمائی میں امت نے تمام رکیک حملوں کا مقابلہ کیا ۔
امام خمینی کی قیادت کتاب خدا پر عمل اور معصومین علیہم السلام کی اتباع کا ثمرہ ہے  ۔ جس میں انبیاء کے کردار کا عکس ہے ۔ باطل کے مقابلے کے لیے خدا کے بھیجےہوئے رہنماؤں نے جم کر قیام کیا ہے ۔ جب تباہی و بربادی اپنی انتہا کو پہنچ چکی تو آپ نے بھی اپنی کامیاب قیادت سے افراد ملت کو یہ احساس دلانا شروع کیا کہ اگر وہ اب بھی بیدار نہ ہوں گے تو رضا خان کے دور سے بھی بدتر اس دور میں انھیں غلامی کی زندگی بسر کرنی پڑے گی ۔ دین و مذہب سے ہاتھ دھونا پڑے گا، ملک طغیانیوں کی نذرہوجائے گا ۔ 
آپ قیادت کی تمام خوبیوں سے آراستہ تھے جس کی بنا پر انقلاب اسلامی کو کامیابی ملی اور آج ملت ہدایت کے نور میں سکون کی زندگی گزار رہی ہے ۔ آپ کی سیاسی بصیرت کا اندازہ اسی سےہوتا ہے کہ آیۃ اللہ العظمیٰ آقائے بروجردی جیسی عظیم شخصیت بھی آپ کے مشورے کے بعد ہی کوئی سیاسی اقدام کرتی تھی ۔ آپ کے معین کردہ سیاسی خطوط پرہر بافہم عمل کرتا تھا ۔ چنانچہ شاہی حکومت کے مجرمانہ افعال کا سلسلہ برابر جاری تھا، اصلاح کی کوئی تدبیر موثر نہ ثابت ہوئی تو آخر کار آیۃ اللہ حسین قمی بغرض احتجاج مشہد مقدس سے تشریف لائے ۔ صلح و آشتی پر مبنی قابل عمل تجویزیں پیش کیں لیکن حکومت نے قبول کرنے سے انکار کردیا ۔ یقیناً یہ بےپروائی ایک عظیم مرجع وقت کی توہین تھی جو دراصل تمام مراجعِ وقت اور دین اسلام کی اہانت تھی جسے نظر انداز کرنا مناسب نہ تھا بلکہ مرجع وقت کی عظمت اور اسلام کی حاکمیت کا تحفظ ضروری تھا ۔ چنانچہ کچھ مجاہد علماء نے امام خمینی کی قیادت میں ایک تحریک چلائی تاکہ حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کے لیے مجبورہو ۔ اسی سلسلے میں امام خمینی ایک عالمِ دین کوہمراہ لے کر آیۃ اللہ بروجردی کی خدمت میں گئے اور حقیقت حال سے آگاہ کیا ۔ جناب مغفور آیۃ اللہ بروجردی نے امام خمینی کے مشورے سے حکومت کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ اگر وہ آیۃ اللہ حسین قمی کی تجویز پر غور نہیں کرتی ہے تو میں رستانی قبائل کےہمراہ تہران آرہا ہوں ۔ اس دہمکی نے حکومت کو اس کے اٹل عزائم میں وقتی طور سے تبدیلی پر مجبور کردیا ۔

2: تزکیہ نفس و تعلیم حکمت: احکام الٰہی کے سیکهنے اور معاشرے میں اس کی نشرواشاعت  کے ذریعے انسانوں کو ان کے شرعی فرائض اور ذمه داریوں سے آگاہ کرنے کے معنی میں اور تربیت:انسانوں کی فکراور اخلاق کی عملی نشوو نما کے معنی میں ہے ؛ تاکہ ان کی استعداد کے ظاہر ہونے کے علاوہ  ” زمین میں خدا کا خلیفہ ” بننے کے مقام تک رسائی کے لئے راہ ہموار ہو جو انسان کی خلقت کا راز ہے۔ یہ دو بنیادی امور؛ یعنی : انسانی معاشرے کی تعلیم و تربیت ، پیغمبر اکرم ؐ کی بعثت کے بڑے مقاصد میں سے ہے۔
امام ْخمینی کے وظائف  میں سے ایک اہم چیز آپ کا تقدس اور پاکیزہ نفس تھا گویا خود امام طلب ثراہ ابتدائے زندگی اس بات کی طرف متوجہ تھے کہ خداوند عالم نے آپ کو ایک عظیم کام کے لیئے خلق کیا ہے ۔ اسلامی انقلاب کے بانی نے بھی مکرر اسی بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس پر تاکید کی ہے۔
” تزکیہ نفس کی اہمیت کتاب و حکمت کی تعلیم سے بڑه کر ہے۔ انسانی نفس کے اندر  کتاب و حکمت کے اترنے کے لئے تزکیہ ایک مقدمہ ہے ۔ اگر انسان کا تزکیہ ہو جائے ، اس کی ایسی تربیت ہو جائے جو انبیاء علیہم السلام بشریت کے لئے ہدیہ لے آئے ہیں، تو اس تزکیے کے بعد کتاب و حکمت اپنے صحیح معنوں میں انسان کے نفس کے اندر اثر کریں گے اور مطلوبہ کمال تک انسان کی رسائی ہو جائے گی۔ ” [1]
تزکیہ نفس اور تعلیم حکمت کا کام آپ نے انقلاب سے پہلے ہی شروع کردیا تھا تاکہ اس طرح انقلاب کو دوام ملے اور لوگ ہمیشہ بیدار رہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

[1] صحیفہ امام ؒ، ج۱۳، ص ۵۰۵

تبصرے
Loading...