امام حسن عسکری (علیہ السلام) کے علم غیب کے چند واقعات

خلاصہ: اللہ تعالی جسے چاہتا ہے اسے علم غیب عطا فرماتا ہے اور وہ عطا بھی مصلحت کی بنیاد پر ہوا کرتی ہے، پروردگار نے انبیاء اور اہل بیت (علیہم السلام) کو علم غیب عطا کیا ہے۔ ائمہ معصومین (علیہم السلام) میں سے ایک حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) ہیں جو علم غیب کے حامل تھے۔ آپ(علیہ السلام) کی حیات طیبہ میں آپ(علیہ السلام) کے علم غیب کے متعلق کئی واقعات پائے جاتے ہیں۔

امام حسن عسکری (علیہ السلام) کے علم غیب کے چند واقعات

بسم اللہ الرحمن الرحیم

     علم غیب یا علم لدنی وہ علم ہے جسے عام اور معمولی حالات میں انسان حاصل نہیں کرسکتا اور اللہ تعالی، اپنے بعض بندوں کو عطا فرماتا ہے۔ شیعہ کے عقائد کے مطابق، غیب کا علم، صرف اللہ تعالی کے پاس ہے، لیکن پروردگار کچھ مصلحتوں کی بنا پر بعض لوگوں کو علم غیب عطا کرتا ہے، اس کے باوجود بعض غیبی علوم جیسے اللہ کی ذات کا علم، صرف اللہ ہی کے پاس ہے اور کسی کی اُس علم تک رسائی نہیں ہے۔
انبیاء علم غیب سے فیضیاب: انبیاء(علیہم السلام) کی خصوصیات میں سے ایک، غیبی امور سے مطلع اور ان کا عالم ہونا ہے کیونکہ انہیں اپنی رسالت کے فرائض کی ادائیگی کے لئے علم غیب کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالی اپنے انبیاء کو وحی کے ذریعہ آئندہ یا ماضی سے آگاہ کرتا ہے۔[1] پروردگار عالم نے سورہ جن میں انبیاء کو غیب پر مطلع کرنے کے بارے میں فرمایا ہے: عالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا  إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا[2]، ” وہ عالم الغیب ہے اور اپنے غیب پر کسی کو بھی مطلع نہیں کرتا ہے۔ مگر جس رسول کو پسند کرلے تو اس کے آگے پیچھے نگہبان فرشتے مقرر کردیتا ہے”۔ نیز سورہ آل عمران میں فرمایا ہے: وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ[3]، “اور وہ تم کو غیب پر مطلع بھی نہیں کرنا چاہتا ہاں اپنے نمائندوں میں سے کچھ لوگوں کو اس کام کے لئے منتخب کرلیتا ہے”۔ شیخ طوسی (علیہ الرحمہ) کا مِن رُّسُلِهِ  کے بارے میں یہ نظریہ ہے کہ اس آیت سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ سب انبیاء، علم غیب سے مطلع تھے، خاصکر اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اس آیت میں  “مِنْ” اس کو بیان کررہا ہے جسے اللہ نے منتخب کیا ہے۔[4] اللہ تعالی نے سورہ آل عمران میں حضرت عیسی ابن مریم (علیہماالسلام) کا بعض غیبی امور سے مطلع ہونے کو واضح طور پر بیان کیا ہے کہ حضرت عیسی (علیہ السلام) نے فرمایا: وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ[5]، “اور تمہیں اس بات کی خبردوں گا کہ تم کیا کھاتے ہو اور کیا گھر میں ذخیرہ کرتے ہو”۔
ائمہ اطہار (علیہم السلام) کا علم غیب سے مطلع ہونا: شیعہ کی نظر میں امام معصوم کا علم غیب، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم جیسا، اللہ کی طرف سے[6] اور علم حضوری کی صورت میں ہے، اس طرح سے کہ جب وہ چاہیں، ان کے پاس حاضر ہے اور وہ اس سے آگاہ ہیں، نہ یہ کہ ہمیشہ ان کے پاس فعلی طور پر حاضر ہو۔[7] یہ بات ائمہ معصومین (علیہم السلام) کی چند روایات میں بیان ہوئی ہے کہ امام اگر کسی چیز کو جاننا چاہے تو اللہ اسے اس چیز کے بارے میں مطلع کردیتا ہے۔[8] شیعہ روایات میں ائمہ اطہار (علیہم السلام) کی بعض پیشین گوئیاں اور غیبی خبریں نقل ہوئی ہیں جن میں سے بعض نہج البلاغہ کے مختلف خطبوں میں بیان ہوئی ہیں، جیسے: کوفہ کی تباہی و بربادی[9]، عبدالملک مروان کا کوفہ پر حملہ[10]، حجاج ابن یوسف ثقفی کی خونریزی کی خبر[11]، بصرہ کے قتل و غارت بھرے مستقبل کی خبر[12]، مغلوں کے حملہ اور ان کے ظلم کی خبر[13]۔
حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) اور علم غیب: آپ(علیہ السلام) نے اپنے چھ سال کے امامت کے دور میں بہت ساری دشواریوں کو برداشت کیا اور ظالم خلفاء، آپ(علیہ السلام) کے معنوی اثرورسوخ کی روک تھام کرنے کے لئے، آپ(علیہ السلام) اور آپ(علیہ السلام) کے شیعوں پر انتہائی دباؤ ڈالتے تھے اور انہوں نے ان سے ہر طرح کی سرگرمی اور اقدام کا موقع چھین لیا تھا، یہاں تک کہ آپ(علیہ السلام) نے اپنے ایک غلام سے جس کا نام “داود ابن اسود” تھا، فرمایا: “اگر تم نے سنا کہ کوئی ہمارے لئے بدگوئی کررہا ہے تو تم توجہ نہ کرو اور اس سے بحث نہ کرو کیونکہ ہم بُرے شہر میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ تم صرف اپنا کام کرو اور جان لو کہ تمہارے کاموں کی خبر ہم تک پہنچتی ہے”۔[14]
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کے دوسرے صحابی کا کہنا ہے: ہم گروہ کی صورت میں سامرا میں داخل ہوئے اور اس دن کے منتظر تھے جس دن امام(علیہ السلام) گھر سے باہر تشریف لائیں تاکہ ہم آنحضرت(علیہ السلام) کو گلی اور سڑک پر دیکھ سکیں تو اس وقت ایک خط امام(علیہ السلام) کی طرف سے ہمیں ملا جو ان مطالب پر مشتمل تھا: “تم میں سے کوئی مجھے سلام نہ کرے، تم میں سے کوئی میری طرف اشارہ نہ کرے، کیونکہ تمہاری جان کا خطرہ ہے[15]”۔
عبدالعزیز بلخی کا کہنا ہے: میں ایک دن سڑک پر بیٹھا تھا تو اچانک میں نے امام حسن عسکری (علیہ السلام) کو دیکھا کہ شہر کے دروازہ کی طرف تشریف لے جارہے ہیں۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ بہتر ہے کہ بلند آواز سے کہوں کہ اے لوگو! یہ اللہ کی حجت ہے، اسے پہچانو۔ لیکن میں نے خود سے کہا کہ اگر ایسا کروں گا تو مجھے قتل کردیں گے! اسی لیے میں نے خاموشی اختیار کی۔ جب امام(علیہ السلام) میرے قریب پہنچے تو آپ(علیہ السلام) نے اشارہ والی انگلی سے مجھے اشارہ کیا۔ میں تیزی کے ساتھ آگے بڑھا اور آنحضرت(علیہ السلام) نے مجھے فرمایا: “خیال رکھو، اگر تم فاش کروگے تو ہلاک ہوجاوگے”۔ رات کو جب میں امام(علیہ السلام) کے حضور میں شرفیاب ہوا تو آنحضرت(علیہ السلام) نے فرمایا: ” تم لوگوں کو  رازداری کرنا چاہیے ورنہ قتل کردیے جاؤگے، اپنے آپ کو خطرہ میں نہ ڈالو”۔[16]
ابوہاشم جعفری جب قید میں تھے تو انہوں نے خفیہ طور پر حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) کو ایک خط لکھا اور زندان میں سزا کی صورتحال سے آنحضرت(علیہ السلام) سے شکایت کی۔ امام(علیہ السلام) نے جواب میں تحریر فرمایا: “تم آج آزاد ہوجاوگے اور اپنی نماز ظہر اپنے گھر میں پڑھوگے”۔ جیسا امام(علیہ السلام) نے فرمایا تھا اسی طرح وہ اسی دن آزاد ہوگئے اور اپنی نماز ظہر گھر میں پڑھی۔ ابوہاشم کہتے ہیں کہ قید سے رہائی کے بعد زندگی کے اخراجات کو پورا کرنے کے لحاظ سے میں مشکل میں تھا، اسی لیے میں نے ارادہ کیا کہ امام(علیہ السلام) کو خط لکھتے ہوئے چند دینار طلب کروں، لیکن مجھے شرم آتی تھی۔ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ امام(علیہ السلام) نے میرے لیے سو دینار بھیجے اور مجھے تحریر فرمایا: “جب تمہیں ضرورت پڑے، شرم نہ کرو اور ڈرو نہیں۔ مجھ سے مانگو کہ اللہ کے ارادہ سے تم اپنی خواہش تک پہنچ جاوگے”۔[17]
کسی اور موقع پر جب ابوہاشم جعفری نے امام(علیہ السلام) کو اپنی مالی ضرورت کی اطلاع دی تو ان کے لئے امام(علیہ السلام) نے پانچ سو دینار کی تھیلی بھیجی اور تعجب خیز اور محبت و ہمدردی سے بھرپور بات فرمائی: “ابوہاشم! یہ لے لو اور اگر کم ہے تو ہمارا عذر قبول کرو”۔
نتیجہ: علم غیب، ذاتی طور پر صرف اللہ تعالی کے پاس ہے اور مخلوق کے پاس اگر غیبی خبر ہو تو یقیناً اسے پروردگار نے ہی اس خبر سے مطلع کیا ہے اور دوسری طرف سے خاص افراد کے پاس علم غیب کا ہونا، ناممکن نہیں، کیونکہ جب عطا کرنے والا، اللہ ہے اور وہ اس عطا پر قادر بھی ہے تو جسے چاہے عطا کردیتا ہے جیسے انبیاء اور ائمہ طاہرین (علیہم السلام) کو۔ ائمہ اطہار (علیہم السلام) میں سے ایک امام حسن عسکری (علیہ السلام) ہیں جن کو اللہ تعالی نے علم غیب سے نوازا ہے جس کی چند مثالیں بیان ہوئیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] طوسی، التبیان، ج2، ص459۔
[2] سورہ جن، آیت 26، 27۔
[3] سورہ آل عمران، آیت 179۔
[4] طوسی، التبیان، ج3، ص63۔ یعنی اس آیت میں من بیانیہ ہے نہ کہ تبعیضیہ۔
[5] سورہ آل عمران، آیت 49۔
[6] خرازی، بدایة المعارف الالهیه فی شرح عقائدالامامیه للمظفر، ج2‌، ص46۔
[7] مظفر، ص62
[8] کلینی، اصول کافی، ج1، ص258۔
[9]  نهج البلاغه، خطبه101۔
[10]  نهج البلاغه، خطبه 101
[11]  نهج البلاغه، خطبه 116
[12]  نهج البلاغه، خطبه 102
[13]  نهج البلاغه، خطبه128۔
[14] مناقب آل ابى طالب، ج 4، ص427، بہ نقل از کتاب بیست منبر از دریای معارف امام حسن عسکری (علیہ السلام)۔
[15] بحارالانوار، ج 50 ، ص 269، مذکورہ بالا کتاب سے منقول۔
[16] اثبات الوصیه، مسعودى، ص 243، مذکورہ بالا کتاب سے منقول۔
[17] کافى، ج 1، ص 508، مذکورہ بالا کتاب سے منقول۔

تبصرے
Loading...