اسلام میں جنگ کا تصور اور اسکی مصلحت (۲)

اسلام ایک دین امن و امان کا نام ہے لہذا اس میں جنگ ہدف نہیں ہے بلکہ آخری وسیلہ ہے باغی اور ان کی بغاوت کو کچلنے کا، در حقیقت اسلام میں جنگ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک ماہر اور متخصص ڈاکٹر کے لئے کسی مرض کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے اپریشن۔

اسلام میں جنگ کا تصور اور اسکی مصلحت (۲)

گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جنگ کی اسی مصلحت و ضرورت کو خدائے حکیم و خبیر نے اپنے حکیمانہ ارشاد میں ظاہرفرمایا ہے: “وَ لَوْ لا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوامِعُ وَ بِيَعٌ وَ صَلَواتٌ وَ مَساجِدُ يُذْكَرُ فيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثيراً وَ لَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزيزٌ”اگر خدا بعض لوگوں کو بعض کے ذریعہ نہ روکتا ہوتا تو تمام گرجہ اور یہودیوں کے عبادت خانے اور مجوسیوں کے عبادت خانے اور مسجدیں سب منہدم کردی جاتیں اور اللہ اپنے مددگاروں کی یقینا مدد کرے گا کہ وہ یقینا صاحب قوت بھی ہے اور صاحب عزت بھی ہے۔[1]
 اس آیہ کریمہ میں صرف مسلمانوں کی مسجدوں ہی کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ تین اور چیزوں کا بھی ذکر فرمایا ہے، یعنی صوامع، بیع اور صلوات۔ صوامع سے مراد عیسائیوں کے راہب خانے ، مجوسیوں کے معابد اور صابیوں کے عبادت خانے ہیں ، بیع کے لفظ میں عیسائیوں کے گرجے اور یہودیوں کے کنائس دونوں داخل ہیں، یہ جامع الفاظ استعمال کرنے کے بعد پھر صلوات کا ایک وسیع لفظ استعمال کیا جس کا اطلاق ہر موضع عبادت الہی پر ہوتا ہے، اور ان سب کے آخر میں مساجد کا ذکر کیا ہے، اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر اللہ عادل انسانوں کے ذریعہ سے ظالم انسانوں کو دفع نہ کرتا رہتا تو اتنا فساد ہوتا کہ عبادت گاہیں تک بربادی سے نہ بچ پاتیں جن سے ضرر کا کسی اندیشہ نہیں ہوسکتا، اس کے ساتھ ہی یہ بھی بتادیا کہ فساد کی سب سے زیادہ مکروہ صورت یہ ہے کہ ایک قوم عداوت کی راہ سے دوسری قوم کے معبدوں تک کو برباد کردے، پھر نہایت بلیغ انداز میں اپنے اس منشا کا بھی اظہار کردیا کہ جب کوئی گروہ ایسا فساد برپا کرتا ہے تو ہم کسی دوسرے گروہ کے ذریعہ سے اس کی شرارت کا استیصال کردینا ضروری سمجھتے ہیں ۔
جنگ کی اسی مصلحت کو دوسری جگہ جالوت کی سرکشی اور حضرت داود کے ہاتھ سے اس کے مارے جانے کا ذکر کرتے ہوئے یوں بیان فرمایا ہے:
ُ “وَ لَوْ لا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَ لكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعالَمينَ” اگر اسی طرح خدا بعض کو بعض سے نہ روکتا رہتا تو ساری زمین میں فساد پھیل جاتا لیکن خدا عالمین پر بڑا فضل کرنے والا ہے۔ [2]
ایک اور جگہ قوموں کی باہمی عداوت و دشمنی کا ذکر کرکے ارشاد ہوتا ہے ِ “كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ وَ يَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً وَ اللَّهُ لا يُحِبُّ الْمُفْسِدينَ” جب بغض رکھنے والے جنگ  کی آگ بھڑ کانا چاہیں گے خدا بجھا دے گا اور یہ زمین میں فساد کی کوشش کررہے ہیں اور خدا مفسدوں کو دوست نہیں رکھتا ۔[3]
یہی فساد و بدامنی، طمع و ہوس، بغض و عداوت اور تعصب و تنگ نظری کی جنگ ہے جس کی آگ کو فرو کرنے کے لئے اللہ تعالی نے اپنے نیک بندوں کو تلوار اٹھانے کا حکم دیا ہے۔چنانچہ فرمایا:“أُذِنَ لِلَّذينَ يُقاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللَّهَ عَلى‏ نَصْرِهِمْ لَقَديرٌ الَّذينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلاَّ أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ”جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم ہوا ہے، اور اللہ ان کی مدد پر یقینا قدرت رکھتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے بے قصور نکالے گئے ہیں، ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ کہتے تھے ہمارا رب اللہ ہے۔[4]
یہ قرآن میں پہلی آیت ہے جو قتال کے بارے میں اتری، اس میں جن لوگوں کے خلاف جنگ کا حکم دیا گیا ہے ان کا قصور یہ نہیں بتایا کہ ان کے پاس ایک زر خیز ملک ہے، یا وہ تجارت کی ایک بڑی منڈی کے مالک ہیں، یا وہ ایک دوسرے کے مذہب کی پیروی کرتے ہیں ، بلکہ ان کا جرم صاف طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ وہ ظلم کرتے ہیں، لوگوں کو بے قصور ان کے گھروں سے نکالتے ہیں، اور اس قدر متعصبب ہیں کہ محض اللہ کو رب کہنے پر تکلفیں پہنچاتے ہیں اور مصیبتیں توڑتے ہیں، ایسے لوگوں کے خلاف صرف اپنی مدافعت ہی میں جنگ کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ دوسرے مظلوموں کی اعانت و حمایت کا بھی حکم دیا گیا ہے اور تاکید کی گئی ہے کہ کمزورو بے بس لوگوں کو ظالموں کے پنجہ چھڑاو: “وَ ما لَكُمْ لا تُقاتِلُونَ في‏ سَبيلِ اللَّهِ وَ الْمُسْتَضْعَفينَ مِنَ الرِّجالِ وَ النِّساءِ وَ الْوِلْدانِ الَّذينَ يَقُولُونَ رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْ هذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُها وَ اجْعَلْ لَنا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَ اجْعَلْ لَنا مِنْ لَدُنْكَ نَصيراً ““تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کی راہ میں ان کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو کہتے ہیں کہ اے خدا ہمیں اس بستی سے نکال جہاں کے لوگ بڑے ظالم و جفا کار ہیں، اور ہمارے لئے خاص اپنی طرف سے ایک محافظ و مددگار مقرب فرما”۔[5]
ایسی جنگ کو جو ظالموں اور مفسدوں کے مقابلہ میں اپنی مدافعت اور کمزوروں ، بے بسوں اور مظلوموں کی اعانت کے لئےکی جائے، اللہ نے خاص راہ خدا کی جنگ قرار دیا ہے جس سے یہ ظاہرکرنا مقصود ہے کہ یہ جنگ بندوں کے لئے نہیں بلکہ خدا کے لئے  ہے، اور بندوں کی اغراض کے لئے نہیں بلکہ خاص خدا کی خوشنودی کے لئے ہے، اس جنگ کو اس وقت تک جاری رکھنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک خدا کے بے گناہ بندوں پر نفسانی اغراض کے لئے دست درازی اور جبر و ظلم کرنے کا سلسلہ بند نہ ہوجائے، چنانچہ فرمایا: فاقتلوھم۔۔۔۔۔۔۔ان سے لڑے جاو یہاں تک کہ وہ فتنہ باقی نہ رہے اور “حتی تضع۔۔۔۔۔۔یہاں تک کہ جنگ میں اپنے ہتھیار ڈال دے، اور فساد کا نام و نشان اس طرح مٹ جائے کہ اس کے مقابلہ پر جنگ کی ضرورت باقی نہ رہے” اس کے ساتھ یہ بھی بتادیا ہے کہ اس مبنی بر حق جنگ کو خونریزی سمجھ کر چھوڑ دینے یا اس میں جان و مال کا نقصان دیکھ کر تامل کرنے کا نتیجہ کس قدر خراب ہے۔
مذکورہ معروضات اور آیات سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اسلام ایک دین امن و امان کا نام ہے لہذا اس میں جنگ ہدف نہیں ہے بلکہ آخری وسیلہ ہے باغی اور ان کی بغاوت کو کچلنے کا، در حقیقت اسلام میں جنگ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک ماہر اور متخصص ڈاکٹر کے لئے کسی مرض کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے اپریشن۔

 

 

……………………………………………………………………………………………

حوالہ جات

[1] الحج /۴۰

  [2] البقرہ /۲۵۱

[3] المائدہ /۶۴

[4]  الحج /۳۹ و۴۰

[5]  النساء/۷۵

تبصرے
Loading...