یوم رفع القلم کی توضیح و تشریح

یوم رفع القلم کی توضیح و تشریح

بچپن سے سنتے اور دیکھتے چلے آرہے ہیں نو ربیع الاول عید کا دن ہے اوربہت سی روایات سے بھی ثابت ہے کہ  یہ مبارک دن عید کا دن ہے،  اس کو بعض لوگ عید الزہراء سلام اللہ علیہا یا عید الشجاع کا نام بھی دیتے ہیں اور مخالفین بھی کہتے ہیں کہ اس دن شیعہ عمر بن خطاب کے قتل کا جشن مناتے ہیں جبکہ شیعہ علماء کا کہنا ہے کہ اس دن امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں کو مختار نے قتل کیا تھا اس لئے جشن منایا جاتا ہے جبکہ رویات سے  یہ بات بھی ثابت ہے کہ یہ  دن امام مہدی کی تاج پوشی کا دن ہے۔

بہر کیف اس دن کی اپنی ایک عظمت ہے ، اور روایات کی روشنی میں کافی اہمیت ہے اسکی اہمیت کے لئے پیغمبر اسلام کی یہ حدیث کافی ہے کہ آپ   صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: کہ آپ نے امام حسن  اور امام حسین علیہما السلام سے فرمایا: مبارک ہو ں تمہیں  اس دن (۹/ ربیع الاول ) کی برکتیں۔۔۔۔خدا وند متعال نے وحی  کی مجھ پر کہ اے محمد(ص)! میں نے اس دن کو تمہارے لئے اور تمہارے اہلبیت کے لئے اور مومنین اور شیعوں میں سے ہر اس شخص کے لئے کہ  جو ان کی پیروی کرے، اسکے لئے عید کا دن قرار دیا اور خود کو اپنی عزت و جلال کی قسم دیا کہ۔۔۔۔ ہر سال اس روز ، اپکے شیعوں، محبوں اور دوستوں میں ہزاروں  لوگوں کو آتش جہنم سے نجات دوں اور انکی کوششوں کی جزا دوں، ان کے گناہوں کو معاف کروں اور انکے اعمال کو قبول کروں۔

اس دن کی اہمیت میں چار چاند اس وقت لگ جاتے ہیں جب ہم روایات میں  اس دن کے لئے تقریبا ۷۲ اسماءکو پڑھتے ہیں جس میں سے بعض یہ ہیں:

کرب و غم کے زائل ہونے کا دن ہے، یوم غدیر ثانی ہے، شیعوں کے گناہوں میں تخفیف کا دن ہے، مومنوں کے لئے نیکی اختیار کرنے کا دن ہے، یوم عافیت ہے، یوم برکت ہے، یوم عید عظیم ہے، شیعوں کے گناہوں کی بخشش کا دن ہے،  ، یوم توبہ ہے، عید اہلبیت (ع) کا دن ہے، شیعوں کے اعمال کے مقبول ہونے کا دن ہے، یوم سرور اہلبیت (ع) ہے،  گمراہی کی نابودی کا دن ہے، یوم تزکیہ ہے،،  گناہان کبیرہ سے بچنے کا دن ہے،  یوم رفع قلم ہے ، اسکے علاوہ اور بھی اسماء ہیں مگر ہم نے اختصار کیا ہے۔[1]

اصل عرض یہ ہے کہ ہمارے سماج میں بہت سے سادہ لوح افراد اس مبارک دن کے اسماء میں سے صرف ایک کو زیادہ اجاگر کرتے ہیں وہ “یوم رفع القلم” ہے جس کے ظاہری معنا یہ ہیں کہ اس دن  اللہ نے تمام انسانوں سے اپنے فرامین و احکام کو اٹھالیا ہے یعنی اس دن انسان جتنا بھی گناہ کرے، جتنی بھی نافرمانی خدا کرے اسکی کوئی سزا نہیں ہوگی ، سادہ لفظوں میں انسان الہی ہر قید و بند سے آزاد ہے، اس دن کوئی گناہ نہیں لکھا جائے گا  اور اسی بات کو بعض مخالفین دلیل بنا کر ہمارے مقدس مذہب تشیع پر طرح طرح کے الزامات لگاتے ہیں ، جبکہ حقیقت اسکے برعکس ہے۔

اصل حقیقت یہ ہے کہ اگر حدیث مذکور کو ہر طرح کی آزادی (گناہ و آلودگی )سے تعبیر کیا جائے تو یہ بات مندرجہ ذیل مسلمات کے منافی ہو گا:

۱۔ یہ بات ہمارے مسلم عقائد  کے ساتھ ساتھ عقل کے خلاف بھی ہے کہ انسان سال بھر تو اچھے اعمال کرے اور پھر ایک دن میں ان سارے اچھے اعمال کو خراب کردے ۔اور یہ بات قطعی ہے کہ ہمارے عقائد  قرآن و سنت اور عقل سے ہٹ کر نہیں ہے ۔

قرآن میں صاف اعلان ہے : فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَه وَ مَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ [2]پھر جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہے وہ اسے دیکھے گا۔ اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہے وہ اسے دیکھے گا ۔ ان آیات کریمہ سے صاف واضح ہوجاتا ہے کہ خدا نے کوئی ایسا دن نہیں رکھا جس میں گناہ کرنے کی آزادی ہو ورنہ حد اقل ان آیات یا اس طرح کی دوسری آیات میں استثناء ضرور ملتا جب کہ قرآن کریم کی کوئی ایسی آیت نہیں ہے جس میں کوئی خاص دن گناہ کرنے کی اجازت دے تی ہو۔لہذا رفع القلم کے معنا گناہ سے آزادی کے نہیں ہو سکتے ہیں۔

2۔  اس دن کو عید سے تعبیر کیا گیا ہے اور عید، ائمہ علیھم السلام کے نظر میں :كُلُ‏ يَوْمٍ‏ لَا يُعْصَى‏ اللَّهُ‏ فِيهِ فَهُوَ يَوْمُ عِيد۔[3]  ہر وہ دن عید کا ہے جس دن گناہ نہ ہو پس اگر رفع القلم کے معنا ہر طرح کی آزادی لیں گے تو یہ بات مفہوم عید کے خلاف ہوگی جب کہ اس دن کو عید کا دن کہا گیا ہے اور مفہوم عید اس بات کا متقاضی ہے کہ اس دن ہر گناہ سے پرہیز کیا جائے۔

۳۔اس دن کےناموں میں سے  رفع القلم کے علاوہ اور اسماء ہیں ، اگر ان اسماء کو مد نظر رکھے جائیں  تو قطعی طور سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اُس کے معنا ہر طرح کی آزادی کے نہیں ہوں گے مندرجہ بالا اسماء میں سے یوم عافیت ہے ظاہر ہے گناہ کے ساتھ عافیت کیا معنا رکھتا ہے۔اسکے علاوہ یوم توبہ ہے یعنی توبہ کا دن گناہ کے ساتھ توبہ کیسا مذاق لگے گا؟  یوم تزکیہ ، گناہوں سے بچنے کا دن اور ساتھ میں گناہ؟ کتنا بیہودہ معلوم ہوتا ہے اسکے علاوہ اور بھی اسماء ہیں جس کا انسان کی ہر طرح کی قید و بند کے معنا سے منافی ہیں۔

انھیں باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ لوگوں نے اس حدیث کا انکار کرتے ہوئے  کہا ہے  کہ سال کا کوئی ایسا دن نہیں ہے جس میں انسان ہر قید و بند سے آزاد ہو جائے اور  جو چاہے کرے لہذا یہ حدیث ہی غلط ہے ایسے افراد کی دلیل یہ ہے کہ یہ حدیث شیعوں کی اولی منابع جیسے کافی ، من لا یحضرہ الفقیہ استبصار، تہذیب الاحکام میں نہیں ہے اور یہ حدیث صرف چار مقام پر آئی ہے جس میں دو جگہ بحار الانوار ہے پہلے جلد 98 صفحہ127۔ دوسرے جلد 354۔ اسکے علاوہ ایک جگہ زاد المعاد مفاتیح الجنان صفحہ 256میں ہے اور ایک جگہ سفینۃ البحار جلد 1 صفحہ 462 پر ہے ۔

لیکن یہ بات قطعی طور سے غلظ ہے کہ اس حدیث کو صرف اس لئے رد کردی جائے کہ یہ شیعوں کے اولی منابع میں نہیں ہے ، اگر ایسا کرنا صحیح ہوتا تو بعد میں احادیث سے مربوط کتابوں کا وجود زیر سوال آجائے گا اور اسمیں موجود احادیث شک کے دائرہ میں آجائیں گی۔جب کہ حقیقت اس سے برعکس ہے ،بعد والی احادیث سے مربوط کتابیں لکھی ہی اسی لئے گئیں ہیں تاکہ جو احادیث قبل والی کتابوں میں نہیں ہیں بعد والی کتابوں میں لاکر اس کا جبران کیا جاسکے۔

البتہ اگر انکار مصادیق رفع القلم کے ابہام سے کیا گیا ہے تو بات قابل بحث ہے۔ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ کیا واقعی میں رفع القلم کے وہی مصادیق ہیں  جو غیر لیتے ہیں ؟ یا کوئی اور؟

اشکالات بالا اور ساتھ میں جواب سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ رفع القلم کےوہ مصادیق   نہیں ہیں جو سادہ لوح افراد یا مخالف کرتے ہیں ، پھر سوال یہی اٹھے گا کہ وہ کون ہیں جو رفع القلم کے دائرہ میں آتے ہیں؟

جس طریقہ سے ہر دن عید کا ہے جس دن گناہ ہو اسی طریقہ سے ہر دن رفع القلم ہے جس کے مصادیق کو  دیگر احادیث میں بیان کیا گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طریقہ سے عید کا دن فرد کے اعمال پر منحصر ہے اسی طریقہ سے رفع القلم کا دن بھی انسان کی حالت پر ہی منحصر ہے۔

چنانچہ امام جعفر صادق (ع)سے مروی ہے کہ : آپ فرماتے ہیں کہ رسول اسلام (ص)نے رُفِعَ‏ عَنْ‏ أُمَّتِي‏ أَرْبَع‏ خِصَالٍ خَطَأُهَا وَ نِسْيَانُهَا وَ مَا أُكْرِهُوا عَلَيْهِ وَ مَا لَمْ يُطِيقُوا”. چار  چیزوں میں میری امت رفع القلم ہے ۔ ۱۔ وہ کام جو غلطی  سے انجام دے دیاہو ۔ ۲۔ وہ کام جو انجانے میں انجام دے دیا ہو۔۳۔ وہ کام جو کراہۃً  اور مجبوراً انجام دیا ہو۔۴۔ وہ کام جسے کرنے کی طاقت و قوت نہیں رکھتا تھا ۔[4]

اس حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ رفع القلم کے مصادیق وہ ہیں جسے امام جعفر صادق (ع)نے پیغمبر اسلام کے زبانی فرمایا ہے، اسکے علاوہ ایک حدیث اور ہے جس میں رفع القلم کے مصادیق بیان ہوئے ہیں: ارشاد نبوی بزبان مولائے کائنات ہوتا ہے: رفع القلم عن ثلاثة عن النائم حتى یستیقظ و عن المجنون حتى یفیق و عن الطفل حتى یحتلم‏”. میری امت میں تین طرح کے لوگ رفع القلم ہیں ۱۔ سونے والا جب تک کہ وہ بیدار نہ ہو جائے۔  ۲۔ پاگل جب تک کہ وہ عاقل نہ ہوجائے۔  ۳۔ بچہ جب تک کہ بالغ نہ ہوجائے۔[5]

مقالہ  ھذا کے  آخر میں بات ذہن نشین کرانا ضروری ہے  کہ ممکن ہے کوئی احادیث بالا کو ملاحظہ کرنے کے بعد کہے ، آپ نے جو مصادیق بیان کئے ہیں وہ تو اس دن کے علاوہ بھی رفع القلم ہے پھر اسی دن کو رفع القلم کا نام دینے کی کیا ضرورت ہے ؟ اس کا جواب یہی ہوگا جس طریقہ سے اس دن کے علاوہ بھی جس دن گناہ نہ ہو وہ دن عید کا ہوتا ہے لیکن اس دن کی اپنی عظمت بیان کرنے کے لئے عید کا نام دیا گیا ہے ، اسی طریقہ سے احادیث بالا کے مصادیق اس دن کے علاوہ بھی رفع القلم ہوں گے مگر اس دن کی اہمیت اور عظمت کو بیان کرنے لئے اس دن کو خاص “یوم رفع القلم “سے تعبیر کیا گیا ہے۔

………………………………………..

حوالہ جات

[1] بحار الانوار، ج۳۱، ص 127۔

[2] زلزال/7،8۔

[3] وسائل الشیعہ، ج ۱۰، ص 398۔

[4] اصول کافی، ج۲،462۔

[5] دعائم الاسلام، ج1، ص194۔ و بحار الانوار، ج85، ص 134۔

تبصرے
Loading...