سوره نساء آيات 41 – 60

سوره نساء آيات 41 – 60

فَکَیۡفَ اِذَا جِئۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍۭ بِشَہِیۡدٍ وَّ جِئۡنَا بِکَ عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ؃۴۱﴾

۴۱۔پس (اس دن) کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو ان لوگوں پر بطور گواہ پیش کریں گے۔

41۔ انسانی اعمال اللہ کی طرف سے متعین شہادتوں کی گرفت میںہوتے ہیں۔ اعضا و جوارح، ملائکہ کے ساتھ ساتھ ہر امت کے نبی اس امت کے اعمال پر شاہد ہیں۔ رسول ختمی مرتبتؐ بھی اپنی امت کے اعمال کے شاہد ہیں۔ اگر ہٰۤؤُلَآءِ کا اشارہ ہر امت کے گواہ کی طرف سمجھا جائے تو آیت کا مطلب یہ بنے گا:رسالتمآبؐ تمام نبیوں پر شاہد ہیں اور شاہد کے لیے حضور شرط ہے، لہٰذا رسول کریمؐ کو تمام انبیاء کے اعمال پر علم حضوری حاصل ہے۔


یَوۡمَئِذٍ یَّوَدُّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ عَصَوُا الرَّسُوۡلَ لَوۡ تُسَوّٰی بِہِمُ الۡاَرۡضُ ؕ وَ لَا یَکۡتُمُوۡنَ اللّٰہَ حَدِیۡثًا﴿٪۴۲﴾

۴۲۔ اس روز کافر اور جو لوگ رسول کی نافرمانی کرتے رہے تمنا کریں گے کہ کاش (زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں دفن ہو کر) زمین کے برابر ہو جائیں اور وہ اللہ سے کوئی بات چھپا نہ سکیں گے۔


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقۡرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنۡتُمۡ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعۡلَمُوۡا مَا تَقُوۡلُوۡنَ وَ لَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیۡ سَبِیۡلٍ حَتّٰی تَغۡتَسِلُوۡا ؕ وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مَّرۡضٰۤی اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ اَوۡ جَآءَ اَحَدٌ مِّنۡکُمۡ مِّنَ الۡغَآئِطِ اَوۡ لٰمَسۡتُمُ النِّسَآءَ فَلَمۡ تَجِدُوۡا مَآءً فَتَیَمَّمُوۡا صَعِیۡدًا طَیِّبًا فَامۡسَحُوۡا بِوُجُوۡہِکُمۡ وَ اَیۡدِیۡکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا غَفُوۡرًا﴿۴۳﴾

۴۳۔اے ایمان والو! نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جایا کرو یہاں تک کہ تم جان لو کہ تم کیا کہ رہے ہو اور جنابت کی حالت میں بھی، یہاں تک کہ غسل کر لو مگر یہ کہ کسی راستے سے گزر رہے ہو اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی رفع حاجت کر آیا ہو یا تم نے عورتوں سے ہمبستری کی ہو اور تمہیں پانی میسر نہ آئے تو پاک مٹی پر تیمم کرو چنانچہ اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں کا مسح کرو، بے شک اللہ بڑا معاف کرنے والا، بخشنے والا ہے۔

43۔ حرمت شراب کا حکم بتدریج نافذ ہوا۔ اس آیت میں نشے کی حالت میں نماز کے نزدیک جانے سے منع کیا گیا ہے۔ اسی طرح حالت جنابت میں بھی نماز کے قریب جانے سے روکا گیا ہے۔ اِلَّا عَابِرِیۡ سَبِیۡلٍ مگر یہ کہ راستے سے گزر رہا ہو۔ اس تعبیرسے مسجد کی طرف اشارہ آگیا کہ جنابت کی حالت میں مسجد کے قریب نہ جاؤ مگر یہ کہ راستے سے گزر رہے ہو۔ اس طرح مسجد عبور کرنے کی اجازت مل گئی۔ البتہ مسجد میں بیٹھنے سے منع کیا گیا۔ مگر حضرت علی (ع) و دیگر افراد اہل بیت(ع) کو اجازت حاصل رہی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مسجد کی طرف کھلنے والے سارے دروازے بند کرنے کا حکم دیا لیکن صرف حضرت علی علیہ السلام کو اجازت دے دی کہ دروازہ کھلا رکھیں۔ چنانچہ اس بات کو بارہ سے زائد جلیل القدر اصحاب نے روایت کیا ہے۔

تیمم کے موارد: مرض کی حالت میں ہو، پانی کا استعمال مضر ہو، رفع حاجت یا عورتوں سے مباشرت کی صورت میں پانی میسر نہ ہو۔ تیمم کی احتیاطی صورت یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کو ایک مرتبہ مٹی پر مارے، پھر پوری پیشانی اور دونوں ہاتھوں پر کلائی سے انگلیوں کے سرے تک پھیر دے، دوسری دفعہ دونوں ہاتھوں کو پھر زمین پر مارے اور دونوں ہاتھوں پر کلائی سے انگلیوں کے سرے تک پھیر دے۔


اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ اُوۡتُوۡا نَصِیۡبًا مِّنَ الۡکِتٰبِ یَشۡتَرُوۡنَ الضَّلٰلَۃَ وَ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَضِلُّوا السَّبِیۡلَ ﴿ؕ۴۴﴾

۴۴۔ کیا آپ نے ان لوگوں کا حال نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا تھا (لیکن) وہ ضلالت خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم (بھی) گمراہ ہو جاؤ۔


وَ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِاَعۡدَآئِکُمۡ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَلِیًّا ٭۫ وَّ کَفٰی بِاللّٰہِ نَصِیۡرًا﴿۴۵﴾

۴۵۔ اور اللہ تمہارے دشمنوں کو بہتر جانتا ہے اور تمہاری سرپرستی کے لیے اللہ کافی ہے اور تمہاری مدد کے لیے بھی اللہ کافی ہے۔

44۔45۔ یہود و نصاریٰ کو اہل کتاب اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس کتاب کا کچھ حصہ موجود ہے۔ اکثر حصہ یا تو ان سے گم ہو گیا ہے یا تحریف کر کے بدل دیا گیا ہے۔ سیاق آیت سے مفہوم یہ ہوتا ہے کہ اہل کتاب مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک او ر محبت کا اظہار کر کے یہ عندیہ دینے کی کوشش کرتے تھے کہ ہم مسلمانوں کے بہی خواہ ہمدرد ہیں اور مسلمانوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ آج کل کے اہل کتاب بھی دوستی اور امداد کے پیچھے اپنے برے عزائم پورے کرتے ہیں۔ قرآن ہمیشہ امت مسلمہ کو اس کے دشمن کی مکاریوں سے آگاہ رکھتا ہے اور بار بار اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ تمہارا مددگار اللہ ہی ہو سکتا ہے، اس پر بھروسہ کرو۔ ان دشمنوں پر ہرگز بھروسہ نہ کرو۔


مِنَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا یُحَرِّفُوۡنَ الۡکَلِمَ عَنۡ مَّوَاضِعِہٖ وَ یَقُوۡلُوۡنَ سَمِعۡنَا وَ عَصَیۡنَا وَ اسۡمَعۡ غَیۡرَ مُسۡمَعٍ وَّ رَاعِنَا لَـیًّۢا بِاَلۡسِنَتِہِمۡ وَ طَعۡنًا فِی الدِّیۡنِ ؕ وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ قَالُوۡا سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا وَ اسۡمَعۡ وَ انۡظُرۡنَا لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ وَ اَقۡوَمَ ۙ وَ لٰکِنۡ لَّعَنَہُمُ اللّٰہُ بِکُفۡرِہِمۡ فَلَا یُؤۡمِنُوۡنَ اِلَّا قَلِیۡلًا﴿۴۶﴾

۴۶۔ یہودیوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کلمات کو ان کی جگہ سے بدل دیتے ہیں اور کہتے ہیں: ہم نے سنا اور نہ مانا اور سنو (لیکن) تیری بات نہ سنی جائے اور اپنی زبانوں کو مروڑ کر دین پر طعن کرتے ہوئے کہتے ہیں: [رَاعِنَا] اور اگر وہ کہتے: ہم نے سنا اور مان لیا اور سنیے ہم پر نظر کیجیے تو یہ ان کے حق میں بہتر اور درست ہوتا لیکن اللہ نے ان کے کفر کے سبب ان پر لعنت کر رکھی ہے اس لیے سوائے تھوڑے لوگوں کے وہ ایمان نہیں لاتے۔

46۔ تحریف معنوی یہ ہو گی کہ اپنی خواہش کے مطابق کتاب کی تاویلات کر کے کچھ سے کچھ بنا دیا جائے۔ ممکن ہے کہ یہاں اہل کتاب کی طرف سے تحریف کا مطلب کلمات کو توڑ مروڑ کر تبدیل کرنا اور دین کا مذاق اڑانا ہو۔


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ اٰمِنُوۡا بِمَا نَزَّلۡنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّطۡمِسَ وُجُوۡہًا فَنَرُدَّہَا عَلٰۤی اَدۡبَارِہَاۤ اَوۡ نَلۡعَنَہُمۡ کَمَا لَعَنَّاۤ اَصۡحٰبَ السَّبۡتِ ؕ وَ کَانَ اَمۡرُ اللّٰہِ مَفۡعُوۡلًا﴿۴۷﴾

۴۷۔ اے وہ لوگو جنہیں کتاب دی گئی تھی اس پر ایمان لے آؤ جسے ہم نے نازل کیا ہے جو تمہارے پاس موجود کتاب کی بھی تصدیق کرتا ہے قبل اس کے کہ ہم (بہت سے) چہروں کو بگاڑ کر ان کی پیٹھ کی طرف پھیر دیں یا ہم ان پر اسی طرح لعنت کریں جس طرح ہم نے ہفتہ (کے دن) والوں پر لعنت کی اور اللہ کا حکم تو ہو کر رہتا ہے ۔

47۔ نَّطۡمِسَ وُجُوۡہًا : چہروں کی نشانیاں مٹانے سے مراد ممکن ہے کہ بروز قیامت چہروں کا مسخ شدہ حالت میں ہونا ہویا ممکن ہے کہ چہرے سے مراد مقام و عزت ہو اور بگاڑنے سے مراد یہ ہو کہ انہیں ذلیل وخوار کیاجائے۔


اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدِ افۡتَرٰۤی اِثۡمًا عَظِیۡمًا﴿۴۸﴾

۴۸۔ اللہ اس بات کو یقینا معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ (کسی کو) شریک ٹھہرایا جائے اور اس کے علاوہ دیگر گناہوں کو جس کے بارے میں وہ چاہے گا معاف کر دے گا اور جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا اس نے تو عظیم گناہ کا بہتان باندھا۔

48۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ شرک کے علاوہ باقی گناہوں کے ارتکاب میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہاں یہ بتانا مقصود ہے اللہ کی رحمت و مغفرت ہر گناہ سے زیادہ وسیع ہونے کے باوجود شرک اس کے دائرۂ رحمت و مغفرت میں نہیں آتا، لہٰذا اگر کوئی شخص مشرک نہ ہو اور گناہ گار مر جائے تو اس کے سارے گناہ معاف ہو سکتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص مشرک مرتا ہے تو اس کے لیے مغفرت کی کوئی گنجائش نہیں۔ شرک یہ ہے کہ تدبیر کائنات میں اللہ کے ساتھ کسی ایسے کو شریک بنائے جو اللہ کی تدبیر کے ذیل میں نہیں آتا ہے۔ اپنے آپ کو شرک باللہ سے دور رکھنے کے بعد مومن کے لیے اس آیت میں بہت بڑی خوشخبری ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے: ما فی القرآن ارجی من ھذہ الایۃ ۔اس آیت سے زیادہ امید افزا آیت قرآن میں نہیں ہے۔ (مجمع البیان)


اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ یُزَکُّوۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ ؕ بَلِ اللّٰہُ یُزَکِّیۡ مَنۡ یَّشَآءُ وَ لَا یُظۡلَمُوۡنَ فَتِیۡلًا﴿۴۹﴾

۴۹۔کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے آپ کو پاکباز خیال کرتے ہیں، (نہیں) بلکہ اللہ ہی جسے چاہتا ہے پاکیزہ کرتا ہے اور ان پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں ہو گا۔

49۔ اہلِ کتاب کی ایک نہایت خطرناک خصلت کی طرف اشارہ ہے۔ وہ اپنے آپ کو پاکیزہ نسل اور برگزیدہ قوم تصور کرتے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ تکبرہے اور تکبر ہی کے نتیجے میں دوسری قوموں کا استحصال ہوتا ہے۔


اُنۡظُرۡ کَیۡفَ یَفۡتَرُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ ؕ وَ کَفٰی بِہٖۤ اِثۡمًا مُّبِیۡنًا﴿٪۵۰﴾

۵۰۔دیکھ لیجیے: یہ لوگ اللہ پر کیسے جھوٹ باندھتے ہیں اور صریح گناہ کے لیے یہی کافی ہے۔


اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ اُوۡتُوۡا نَصِیۡبًا مِّنَ الۡکِتٰبِ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡجِبۡتِ وَ الطَّاغُوۡتِ وَ یَقُوۡلُوۡنَ لِلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ہٰۤؤُلَآءِ اَہۡدٰی مِنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا سَبِیۡلًا﴿۵۱﴾

۵۱۔ کیا آپ نے ان لوگوں کا حال نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا ہے؟ جو غیر اللہ معبود اور طاغوت پر ایمان رکھتے ہیں اور کافروں کے بارے میں کہتے ہیں: یہ لوگ تو اہل ایمان سے بھی زیادہ راہ راست پر ہیں۔


اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ ؕ وَ مَنۡ یَّلۡعَنِ اللّٰہُ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ نَصِیۡرًا ﴿ؕ۵۲﴾

۵۲۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور جس پر اللہ لعنت کرے اس کے لیے آپ کوئی مددگار نہیں پائیں گے۔

51۔ 52۔اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ کفار قریش نے یہود کی ایک جماعت سے پوچھا کہ تم اہل کتاب ہو،بتاؤ ہمارا دین برحق ہے یا محمد (ص) کا دین؟ یہود کی اس جماعت نے کہا : تمہارا دین زیادہ ہدایت یافتہ اور راہ راست پر ہے۔

جبت پر ایمان کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ لیکن اگر جبت کا مطلب، بے اصل اور بے بنیاد چیز لیا جائے تو تمام اقوال میں کچھ چیزیں قدر مشترک کے طور پر سامنے آتی ہیں، جن میں بت، سحر، شیطان، اوہام پرستی اور بدشگونی وغیرہ، یعنی وہ چیزیں جو حقیقت پر مبنی نہیں، شامل ہیں۔

الطَّاغُوۡتِ سے مراد وہ قوتیں ہیں جو حدود اللہ اور احکام شریعت کے مقابلے میں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ آیت میں جبت اور طاغوت پر ایمان لانے والوں اور کافروں کو اہل ایمان سے زیادہ ہدایت یافتہ قرار دینے والوں کو لعنت کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔


اَمۡ لَہُمۡ نَصِیۡبٌ مِّنَ الۡمُلۡکِ فَاِذًا لَّا یُؤۡتُوۡنَ النَّاسَ نَقِیۡرًا ﴿ۙ۵۳﴾

۵۳۔ کیا حکومت میں ان کا کوئی حصہ ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو یہ (دوسرے) لوگوں کو کوڑی برابر بھی نہ دیتے۔

53۔ نَقِیۡرًا :کھجور کی گٹھلی کے گڑھے کو کہتے ہیں اور نہایت حقیر چیز کے لیے ضرب المثل ہے۔

یہ لوگ جو فیصلہ سنارہے ہیں کہ کون ہدایت پر ہے، انہیں یہ فیصلہ سنانے کا حق اور اختیار کس نے دیا ہے؟ اگر اس قسم کے فیصلے کا حق اور اختیار ان کے پاس ہوتا تو یہ اس قدر کم ظرف اور تنگ نظر ہیں کہ کسی دوسرے کو ایک ذرہ برابر بھی انصاف نہ دیتے ۔


اَمۡ یَحۡسُدُوۡنَ النَّاسَ عَلٰی مَاۤ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ۚ فَقَدۡ اٰتَیۡنَاۤ اٰلَ اِبۡرٰہِیۡمَ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ اٰتَیۡنٰہُمۡ مُّلۡکًا عَظِیۡمًا﴿۵۴﴾

۵۴۔کیا یہ( دوسرے) لوگوں سے اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نوازا ہے؟ (اگر ایسا ہے) تو ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت عطا کی اور انہیں عظیم سلطنت عنایت کی۔

54۔ سابقہ آیت میں مذکور اہل کتاب کا یہ فیصلہ کہ مشرکین کا مذہب مسلمانوں سے زیادہ ہدایت پر ہے، اس حسد پر مبنی ہے کہ جو اہل کتاب آل اسماعیل سے، بالخصوص رسول خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رکھتے ہیں۔

مُّلۡکًا عَظِیۡمًا : جس حکومت اور امامت کو اللہ نے عظیم کہا ہے وہ اپنی وسعت مکانی، وسعت زمانی اور وسعت معنوی کے اعتبار سے نہایت عظیم ہے، چونکہ نبوت الہٰی اور ولایت حقیقی کا دائرہ پوری کائنات تک پھیلا ہوا ہے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے: نحن الناس المحسدون (شواہد التنزیل 1 : 183) وہ لوگ جن سے یہود حسد کرتے ہیں ہم ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے معاویہ کے نام ایک خط میں لکھا: نحن آل ابراہیم المحسدون و انت الحاسد لنا ۔ (الغارات 1: 115)۔


فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ اٰمَنَ بِہٖ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ صَدَّ عَنۡہُ ؕ وَ کَفٰی بِجَہَنَّمَ سَعِیۡرًا﴿۵۵﴾

۵۵۔ پس ان میں سے کچھ اس پر ایمان لے آئے اور کچھ نے روگردانی کی اور (ان کے لیے) جہنم کی بھڑکتی آگ ہی کافی ہے۔


اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِاٰیٰتِنَا سَوۡفَ نُصۡلِیۡہِمۡ نَارًا ؕ کُلَّمَا نَضِجَتۡ جُلُوۡدُہُمۡ بَدَّلۡنٰہُمۡ جُلُوۡدًا غَیۡرَہَا لِیَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا﴿۵۶﴾

۵۶۔جنہوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کیا ہے یقینا انہیں ہم عنقریب آگ میں جھلسا دیں گے، جب بھی ان کی کھالیں گل جائیں گی (ان کی جگہ) ہم دوسری کھالیں پیدا کریں گے تاکہ یہ لوگ عذاب چکھتے رہیں، بے شک اللہ غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔


وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَنُدۡخِلُہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ لَہُمۡ فِیۡہَاۤ اَزۡوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ ۫ وَّ نُدۡخِلُہُمۡ ظِلًّا ظَلِیۡلًا﴿۵۷﴾

۵۷۔اور جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ہیں انہیں ہم جلد ہی ایسی جنتوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جن میں وہ ابد تک رہیں گے، جن میں ان کے لیے پاکیزہ بیویاں ہیں اور ہم انہیں گھنے سایوں میں داخل کریں گے۔


اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا ۙ وَ اِذَا حَکَمۡتُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡکُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمۡ بِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا﴿۵۸﴾

۵۸۔بے شک اللہ تم لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل کے سپرد کر دو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ کرو، اللہ تمہیں مناسب ترین نصیحت کرتا ہے، یقینا اللہ تو ہر بات کو خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔

58۔اسلامی دستور میں ادائے امانت اور فیصلوں میں عدل و انصاف محض انسانی حقوق میں سے ہے۔ امّت مسلمہ کو حکم ہے کہ وہ ان دو باتوں کے بارے میں تمام انسانوں کے ساتھ یکساں سلوک کرے۔ جس کی امانت ہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم، اسے ادا کرنی چاہیے۔ اسی طرح فیصلوں میں انصاف ملنا چاہیے خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم۔ یہ اُمّت مسلمہ کی ہادیانہ ذمہ داری اور قائدانہ مسؤلیت ہے کہ پوری نوع انسانی کو عدل و انصاف فراہم کرے اور امانت داری کو فروغ دے۔


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ وَّ اَحۡسَنُ تَاۡوِیۡلًا﴿٪۵۹﴾

۵۹۔ اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو پھر اگر تمہارے درمیان کسی بات میں نزاع ہو جائے تو اس سلسلے میں اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی بھلائی ہے اور اس کا انجام بھی بہتر ہو گا۔

59۔ اطاعت بالذات اللہ کی ہوتی ہے۔ رسولؐ کی اطاعت اللہ کی اطاعت کے لیے واحد ذریعہ اور سند ہے۔ اولی الامر کی اطاعت رسولؐ کی اطاعت کے ساتھ منسلک ہے، اس لیے اس اطاعت کو رسولؐ کی اطاعت پرعطف کیا ہے۔

اولی الامر کون ہیں؟ قدیم مضطرب اقوال کے علاوہ غیر امامیہ کے بعض جدید مفسرین حکومتی سربراہوں، تاجروں، صنعتکاروں، کسانوں اور مزدور لیڈروں اور جرائد کے ایڈیٹر حضرات کو اولی الامر جانتے ہیں۔ (تفسیر مراغی 5 : 73) تفسیر المنار نے ان کے ساتھ کمپنیوں کے ڈائریکٹرز ‘ جماعتوں کے سربراہان نیز ڈاکٹروں اور وکلاء حضرات کو بھی شامل کیا ہے۔ محمد عبدہ فرماتے ہیں: میرا خیال تھا کہ مجھ سے پہلے کسی مفسر نے اولی الامر کی تفسیر ارباب حل و عقد کے ساتھ نہیں کی ہے، لیکن نیشاپوری نے بھی یہی تفسیر کی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان سے پہلے کسی صحابی، تابعی، فقیہ، مفسر ،محدث کو معلو م نہ ہو سکا کہ اولی الامر کون ہیں؟

امامیہ کا مؤقف یہ ہے کہ اولی الامر سے مراد ائمہ اہلِ البیت علیہم السلام ہیں۔ جس طرح رسولؐ کی ہر بات وحئ الٰہی کے مطابق ہوتی ہے، بالکل اسی طرح ائمہ اہل البیت علیہم السلام ہر بات سنت رسولؐ کے مطابق کرتے ہیں۔ چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے: میری حدیث میرے پدر بزرگوار کی حدیث ہے، ان کی حدیث میرے جد بزرگوار کی حدیث ہے، ان کی حدیث رسول خدا ؐکی حدیث ہے۔ (بحار الانوار 2: 179) دوسری جگہ آپؑ سے روایت ہے: نحدثکم باحادیث نکنزھا عن رسول اللّٰہ کما یکنز ھؤلاء ذھبہم و فضتہم ۔ (بحارالانوار 2:172 ۔173) ’’ ہم تمہارے لیے رسول اللہؐ کی احادیث بیان کرتے

ہیں جنہیں ہم اس طرح ذخیرہ رکھتے ہیں جس طرح لوگ سونا اور چاندی ذخیرہ کر کے رکھتے ہیں۔‘‘ چنانچہ رسول اللہؐ نے متعدد احادیث میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ ان کے بعد کن کی طرف رجوع کرنا ہو گا: 1۔ حدیثِ ثقلین: جس میں رسول اکرمؐ نے فرمایا: انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللّٰہ و عترتی اھل بیتی ما ان تمسکتم بہما لن تضلوا بعدی ابدا اس حدیث کو بیس سے زائد اصحاب نے روایت کیا ہے۔ 2۔ حدیث اثنا عشر خلیفہ: اسے امام احمد بن حنبل نے 34 طرق سے روایت کیا ہے۔


اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ یَزۡعُمُوۡنَ اَنَّہُمۡ اٰمَنُوۡا بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یَّتَحَاکَمُوۡۤا اِلَی الطَّاغُوۡتِ وَ قَدۡ اُمِرُوۡۤا اَنۡ یَّکۡفُرُوۡا بِہٖ ؕ وَ یُرِیۡدُ الشَّیۡطٰنُ اَنۡ یُّضِلَّہُمۡ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا﴿۶۰﴾

۶۰۔کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ جو کتاب آپ پر نازل ہوئی اور جو کچھ آپ سے پہلے نازل کیا گیا ہے، (سب) پر ایمان لائے ہیں مگر اپنے فیصلوں کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کرنا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں طاغوت کا انکار کرنے کا حکم دیا گیا تھا، اور شیطان انہیں گمراہ کر کے راہ حق سے دور لے جانا چاہتا ہے۔


تبصرے
Loading...