سوره نساء آيات 21 – 40

سوره نساء آيات 21 – 40

وَ کَیۡفَ تَاۡخُذُوۡنَہٗ وَ قَدۡ اَفۡضٰی بَعۡضُکُمۡ اِلٰی بَعۡضٍ وَّ اَخَذۡنَ مِنۡکُمۡ مِّیۡثَاقًا غَلِیۡظًا﴿۲۱﴾

۲۱۔ اور دیا ہوا مال تم کیسے واپس لے سکتے ہو جب کہ تم ایک دوسرے سے مباشرت کر چکے ہو اور وہ تم سے شدید عہد و قرار لے چکی ہیں؟

20۔21۔ ایک شخص محض اپنی خواہشات کی بنا پر اپنی موجودہ بیوی کو طلاق دے کر دوسری عورت سے شادی کرنا چاہتا ہے، اس صورت میں اگر وہ اپنی زوجہ کو حق مہر میں مال دے چکا ہے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ یہ پورا مال یا اس میں سے ایک حصہ طلاق کے معاوضہ میں واپس لے لے۔

دوسری آیت میں فرمایا حق مہر واپس لینا اس لیے جائز نہیں ہے کہ تم نے آپس میں ازدواجی مباشرت کی ہے اور عورت نے اپنے وجود کو تمہارے حوالہ کیا ہے اور تم نے آپس میں عقد و پیمان کیا ہے۔


وَ لَا تَنۡکِحُوۡا مَا نَکَحَ اٰبَآؤُکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا قَدۡ سَلَفَ ؕ اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَّ مَقۡتًا ؕ وَ سَآءَ سَبِیۡلًا﴿٪۲۲﴾

۲۲۔اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپ نکاح کر چکے ہوں مگر جو کچھ ہو چکا سو ہو چکا، یہ ایک کھلی بے حیائی اور ناپسندیدہ عمل ہے اور برا طریقہ ہے۔

22۔ زمان جاہلیت میں کچھ لوگ سوتیلی ماؤں سے شادیاں کر لیا کرتے تھے۔ گو کہ یہ عمل اس وقت بھی لوگوں کی نظر میں مبغوض تھا۔ چنانچہ اسے نکاح المقت کہتے تھے۔ اِلَّا مَا قَدۡ سَلَفَ سے نزول حکم سے قبل کا حکم بیان فرمایا کہ اس سے پہلے جو اس قسم کی شادیاں ہو چکی ہیں، ان سے درگزر کیا جاتا ہے۔ باپ کی منکوحہ سے شادی کرنا کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔ خواہ باپ نے اس عورت سے مباشرت کی ہو یا نہ کی ہو۔ لہٰذا اگر باپ نے کسی عورت سے صرف عقد ہی کیا ہے اور مباشرت نہیں کی تو بھی وہ عورت بیٹے پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اگر باپ نے کسی عورت سے ناجائز تعلق قائم کیا ہو اور حرام طور پر مقاربت کی ہو تو وہ عورت بھی اس کے بیٹے پرہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی ہے۔


حُرِّمَتۡ عَلَیۡکُمۡ اُمَّہٰتُکُمۡ وَ بَنٰتُکُمۡ وَ اَخَوٰتُکُمۡ وَ عَمّٰتُکُمۡ وَ خٰلٰتُکُمۡ وَ بَنٰتُ الۡاَخِ وَ بَنٰتُ الۡاُخۡتِ وَ اُمَّہٰتُکُمُ الّٰتِیۡۤ اَرۡضَعۡنَکُمۡ وَ اَخَوٰتُکُمۡ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ وَ اُمَّہٰتُ نِسَآئِکُمۡ وَ رَبَآئِبُکُمُ الّٰتِیۡ فِیۡ حُجُوۡرِکُمۡ مِّنۡ نِّسَآئِکُمُ الّٰتِیۡ دَخَلۡتُمۡ بِہِنَّ ۫ فَاِنۡ لَّمۡ تَکُوۡنُوۡا دَخَلۡتُمۡ بِہِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ ۫ وَ حَلَآئِلُ اَبۡنَآئِکُمُ الَّذِیۡنَ مِنۡ اَصۡلَابِکُمۡ ۙ وَ اَنۡ تَجۡمَعُوۡا بَیۡنَ الۡاُخۡتَیۡنِ اِلَّا مَا قَدۡ سَلَفَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿ۙ۲۳﴾

۲۳۔تم پر حرام کر دی گئی ہیں تمہاری مائیں، تمہاری بیٹیاں، تمہاری بہنیں، تمہاری پھوپھیاں، تمہاری خالائیں، تمہاری بھتیجیاں، تمہاری بھانجیاں، تمہاری وہ مائیں جو تمہیں دودھ پلا چکی ہوں اور تمہاری دودھ شریک بہنیں، تمہاری بیویوں کی مائیں اور جن بیویوں سے تم مقاربت کر چکے ہو ان کی وہ بیٹیاں جو تمہاری پرورش میں رہی ہوں، لیکن اگر ان بیویوں سے (صرف عقد ہوا ہو) مقاربت نہ ہوئی ہو تو کوئی حرج نہیں ہے نیز تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویاں اور دو بہنوں کا باہم جمع کرنا، مگر جو پہلے ہو چکا سو ہو چکا، بے شک اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

23۔آیت میں تو صرف رضاعی ماؤں اور بہنوں کا ذکر ہے۔ لیکن فریقین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اس فرمان کو ماخذ قرار دیا ہے: ان اللّہ حرم من الرضاعۃ ما حرم من نسب (مستدرک الوسائل 14 : 336۔ صحیح البخاری کتاب النکاح ۔ عبارت وسائل کی ہے۔) یعنی اللہ نے جس چیز کو نسب کے رشتے سے حرام قرا ر دیا ہے، رضاعت کے رشتے سے بھی حرام قرار دیا ہے۔ لہٰذا اگر کسی بچے نے کسی عورت کا دودھ پیا ہو تو وہ عورت اس بچے کی ماں، اس کا شوہر اس بچے کا باپ، اس کی اولاد اس بچے کے بہن بھائی، اس کی بہنیں اس بچے کی خالائیں بن جاتی ہیں اور اس کے شوہر کی بہنیں اس بچے کی پھوپھیاں بن جاتی ہیں۔


وَّ الۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ۚ کِتٰبَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ ۚ وَ اُحِلَّ لَکُمۡ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُمۡ اَنۡ تَبۡتَغُوۡا بِاَمۡوَالِکُمۡ مُّحۡصِنِیۡنَ غَیۡرَ مُسٰفِحِیۡنَ ؕ فَمَا اسۡتَمۡتَعۡتُمۡ بِہٖ مِنۡہُنَّ فَاٰتُوۡہُنَّ اُجُوۡرَہُنَّ فَرِیۡضَۃً ؕ وَ لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ فِیۡمَا تَرٰضَیۡتُمۡ بِہٖ مِنۡۢ بَعۡدِ الۡفَرِیۡضَۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا﴿۲۴﴾

۲۴۔ اور شوہر دار عورتیں بھی (تم پر حرام ہیں) مگر جو تمہاری ملکیت میں آ جائیں، (یہ) تم پر اللہ کا فرض ہے اور ان کے علاوہ باقی عورتیں تم پر حلال ہیں ان عورتوں کو تم مال خرچ کر کے اپنے عقد میں لا سکتے ہو بشرطیکہ (نکاح کا مقصد) عفت قائم رکھنا ہو بے عفتی نہ ہو، پھر جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہے ان کا طے شدہ مہر بطور فرض ادا کرو البتہ طے کرنے کے بعد آپس کی رضا مندی سے (مہر میں کمی بیشی) کرو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے،یقینا اللہ بڑا جاننے والا، حکمت والا ہے۔

24۔ فَمَا اسۡتَمۡتَعۡتُمۡ بِہٖ مِنۡہُنَّ : یہ آیت متعہ مشہور ہے جس میں متعہ کی تشریع کا نہیں، بلکہ پہلے سے تشریع شدہ متعہ کے مہر کا حکم بیان ہو رہا ہے۔

عقد متعہ سے منکوحہ عورت شرعاً زوجہ شمار ہوتی ہے۔ چنانچہ عصر رسالتؐ میں جب متعہ بالاجماع جائز اور رائج تھا تو اس وقت اس کو زوجہ شمار کیا گیا، جبکہ مملوکہ کنیز کا ذکر زوجہ کے مقابلہ میں آیا ہے۔ چنانچہ مکہ میں نازل ہونے والے سورۂ مؤمنون آیت 5، 6 میں فرمایا: وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِفُرُوۡجِہِمۡ حٰفِظُوۡنَ ۙ﴿۵﴾ اِلَّا عَلٰۤی اَزۡوَاجِہِمۡ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُمۡ… ۔ مؤمن اپنی جنسی خواہشات پر قابو رکھتے ہیں سوائے اپنی زوجات اور کنیز کے۔ ظاہر ہے کہ متعہ کی عورت یقینا کنیز نہیں ہے۔ اگروہ زوجہ بھی نہیں ہے تو یہ تیسری عورت ہو گئی، جبکہ نکاح متعہ عہد رسالت میں بالخصوص مکی زندگی میں (بعض کے نزدیک جنگ خیبر اور بعض کے نزدیک فتح مکہ تک) جائز اور رائج تھا، تو اگر عقد متعہ کی عورت زوجہ نہیں ہے تو تیسری قسم کی عورت کے عنوان سے اس کا ذکر آیت میں ضرور آتا۔ چنانچہ امام قرطبی، اپنی تفسیر 5 : 132 میں لکھتے ہیں: لم یختلف العلماء من السلف و الخلف ان المتعۃ نکاح الی اجل لامیراث فیہ۔ علمائے سلف اور بعد کے علماء کو اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ متعہ ایک مدت کا نکاح ہے، البتہ اس میں زوجین کے لیے میراث نہیں ہوتی۔

اصحاب رسول ؐ میں سے حضرت ابن عباس، عمران بن حصین، ابی بن کعب اور عبد اللہ بن مسعود نے روایت کی ہے کہ یہ آیت متعہ کے بارے میں نازل ہوئی اور یہ ائمہ و اصحاب و تابعین حلیت متعہ کے قائل تھے: ٭ حضرت علی بن ابی طالبؑ ٭ ابن عباس ٭ عمران بن حصین ٭جابر بن عبد اللہ انصاری ٭ عبداللہ بن مسعود ٭ عبداللہ بن عمر ٭ ابوسعید خدری ٭ ابی بن کعب ٭ ابوذر غفاری ٭ زبیر بن عوام ٭ اسماء بنت ابی بکر ٭ سمرہ بن جندب ٭ سلمہ بن امیہ ٭ معبد ابن امیہ ٭ خالد بن مہاجر ٭ ربیعہ بن امیہ۔

ایک قراءت اس آیت کی یہ ہے: فما استمتعتم بہ منھن الی اجل مسمی فاتوھن اجورھن یعنی پھر جن عورتوں سے ایک مقررہ مدت تک تم نے متعہ کیا ہے ان کا طے شدہ مہر بطور فرض ادا کرو۔ اس قراء ت کو ابن عباس، ابی بن کعب، حبیب بن ثابت، سعید بن جبیر، سدی اور عبد اللہ بن مسعود نے اختیار کیا ہے۔ ملاحظہ ہو روح المعانی 5 : 5، تفسیر طبری 5 : 9 ، تفسیر کشاف، قرطبی، شرح صحیح مسلم نووی 9 : 181 وغیرہ۔ حضرات ابن عباس، ابی بن کعب اور عبد اللہ مسعود جیسے معلمین قرآن کی قراءت کو شاذہ نہیں کہا جا سکتا۔ غیر امامیہ علماء کا یہ مؤقف ہے کہ قراء ت شاذہ کے مطابق نماز میں قرآن کی تلاوت درست ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قراءت شاذہ سے قرآن ثابت ہو جاتا ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود متعہ پر پابندی کیوں لگی ہے؟ یہ جاننے کے لیے صحیح مسلم، باب نکاح المتعۃ کا مطالعہ کافی ہے۔


وَ مَنۡ لَّمۡ یَسۡتَطِعۡ مِنۡکُمۡ طَوۡلًا اَنۡ یَّنۡکِحَ الۡمُحۡصَنٰتِ الۡمُؤۡمِنٰتِ فَمِنۡ مَّا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ مِّنۡ فَتَیٰتِکُمُ الۡمُؤۡمِنٰتِ ؕ وَ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِاِیۡمَانِکُمۡ ؕ بَعۡضُکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡضٍ ۚ فَانۡکِحُوۡہُنَّ بِاِذۡنِ اَہۡلِہِنَّ وَ اٰتُوۡہُنَّ اُجُوۡرَہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ مُحۡصَنٰتٍ غَیۡرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّ لَا مُتَّخِذٰتِ اَخۡدَانٍ ۚ فَاِذَاۤ اُحۡصِنَّ فَاِنۡ اَتَیۡنَ بِفَاحِشَۃٍ فَعَلَیۡہِنَّ نِصۡفُ مَا عَلَی الۡمُحۡصَنٰتِ مِنَ الۡعَذَابِ ؕ ذٰلِکَ لِمَنۡ خَشِیَ الۡعَنَتَ مِنۡکُمۡ ؕ وَ اَنۡ تَصۡبِرُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿٪۲۵﴾

۲۵ ۔ اور اگر تم میں سے کوئی مالی رکاوٹ کی وجہ سے آزاد مسلم عورتوں سے نکاح کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو تو (اسے چاہیے کہ) وہ تمہاری مملوکہ مسلمان لونڈی سے نکاح کرے اور اللہ تمہارے ایمان کو اچھی طرح جانتا ہے، تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کا حصہ ہو لہٰذا ان کے سرپرستوں کی اجازت سے ان کے ساتھ نکاح کرو اور شائستہ طریقے سے ان کے مہر ادا کرو وہ نکاح کے تحفظ میں رہنے والی ہوں بدچلنی کا ارتکاب کرنے والی نہ ہوں اور درپردہ آشنا رکھنے والی نہ ہوں، پھر جب وہ (کنیزیں) نکاح میں آنے کے بعد بدکاری کا ارتکاب کریں تو ان کے لیے اس سزا کا نصف ہے جو آزاد عورتوں کے لیے مقرر ہے، یہ اجازت اسے حاصل ہے جسے (شادی نہ کرنے سے) تکلیف اور مشقت کا خطرہ لاحق ہو، لیکن صبر کرنا تمہارے حق میں زیادہ اچھا ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا،رحم کرنے والا ہے۔


یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمۡ وَ یَہۡدِیَکُمۡ سُنَنَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَ یَتُوۡبَ عَلَیۡکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ﴿۲۶﴾

۲۶۔اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے لیے (اپنے احکام) کھول کھول کر بیان کرے اور تمہیں گزشتہ اقوام کے طریقوں پر چلائے نیز تمہاری طرف توجہ کرے اور اللہ بڑا جاننے والا، حکمت والا ہے۔

26۔ اللہ تعالیٰ انسانی فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق احکام بیان فرمانے کے بعد یہ باور کراتا ہے کہ یہی سلف صالح انبیاء و مرسلین کا طریقہ حیات اور طرز زندگی ہے ، جس پر چل کر توجہات الٰہی کے سزاوار بن سکتے ہیں ۔


وَ اللّٰہُ یُرِیۡدُ اَنۡ یَّتُوۡبَ عَلَیۡکُمۡ ۟ وَ یُرِیۡدُ الَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الشَّہَوٰتِ اَنۡ تَمِیۡلُوۡا مَیۡلًا عَظِیۡمًا﴿۲۷﴾

۲۷۔ اور اللہ (اپنی رحمتوں کے ساتھ) تم پر توجہ کرنا چاہتا ہے اور جو لوگ اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم بڑی بے راہ روی میں پڑ جاؤ ۔

27۔ 28۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایسے طریقے بتا دیے جن سے اس کی خواہشات بھی پوری ہو جاتی ہیں اور نسل بھی محفوظ رہتی ہے۔ اللہ نے ان خواہشات کو روکنے کا حکم نہیں دیا بلکہ انہیں پورا کرنے کے آسان طریقے بیان فرمائے، اس کمزور اور ناتواں انسا ن سے بوجھ ہلکا کر دیا۔


یُرِیۡدُ اللّٰہُ اَنۡ یُّخَفِّفَ عَنۡکُمۡ ۚ وَ خُلِقَ الۡاِنۡسَانُ ضَعِیۡفًا﴿۲۸﴾

۲۸۔ اور اللہ تمہارا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَ تِجَارَۃً عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡکُمۡ ۟ وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمۡ رَحِیۡمًا﴿۲۹﴾

۲۹۔ اے ایمان والو! تم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے نہ کھایا کرو مگر یہ کہ آپس کی رضامندی سے تجارت کرو ( تو کوئی حرج نہیں ہے) اور تم اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بڑا رحم کرنے والا ہے۔


وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ عُدۡوَانًا وَّ ظُلۡمًا فَسَوۡفَ نُصۡلِیۡہِ نَارًا ؕ وَ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرًا﴿۳۰﴾

۳۰۔اور جو شخص ظلم و زیادتی سے ایسا کرے گا ہم اسے (جہنم کی) آگ میں جھلسا دیں گے اور یہ کام اللہ کے لیے آسان ہے۔


اِنۡ تَجۡتَنِبُوۡا کَبَآئِرَ مَا تُنۡہَوۡنَ عَنۡہُ نُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ نُدۡخِلۡکُمۡ مُّدۡخَلًا کَرِیۡمًا﴿۳۱﴾

۳۱۔ اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کرو جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے تو ہم تمہارے (چھوٹے چھوٹے) گناہ معاف کر دیں گے اور تمہیں عزت کے مقام میں داخل کر دیں گے۔

31۔ گناہ کبیرہ کی تعریف حدیث میں اس طرح آئی ہے: کل ما وعد اللّہ علیھا النار گناہ کبیرہ وہ ہے جس کے ارتکاب پر جہنم کی سزا مقرر ہو۔ جیسے قتل، زنا، عقوق والدین، جنگ سے فرار، ولایت اہل البیت (ع) سے انکار وغیرہ۔ کبائر کے مقابلے میں سیئات کا ذکر ہے۔ یعنی چھوٹے گناہ جن کے بارے میں دوسری جگہ فرمایا: ان الحسنات یذھبن السیئات ۔ نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں۔ ان دونوں آیات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگر بڑے گناہوں سے اجتناب کیا جائے تو چھوٹے گناہوں کو اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے: اشد الذنوب ما استھان بہ صاحبہ ۔ ( نہج البلاغہ) ’’ بدترین گناہ وہ ہے جس کا مرتکب اسے خفیف سمجھے۔ حدیث میں آیا ہے: لا صغیرۃ مع الاصرار و لا کبیرۃ مع الاستغفار۔ یعنی گناہ کو مکرر بجا لانے کی صورت میں وہ گناہ صغیرہ نہیں رہتا اور استغفار کی صورت میں گناہ کبیرہ نہیں رہتا۔ (الکافی 2: 288)


وَ لَا تَتَمَنَّوۡا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعۡضَکُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ؕ لِلرِّجَالِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا اکۡتَسَبُوۡا ؕ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا اکۡتَسَبۡنَ ؕ وَ سۡئَلُوا اللّٰہَ مِنۡ فَضۡلِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا﴿۳۲﴾

۳۲۔ اور جس چیز میں اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اس کی تمنا نہ کیا کرو، مردوں کو اپنی کمائی کا حصہ مل جائے گا اور عورتوں کو اپنی کمائی کا حصہ مل جائے گا اور اللہ سے اس کا فضل مانگتے رہو، یقینا اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔


وَ لِکُلٍّ جَعَلۡنَا مَوَالِیَ مِمَّا تَرَکَ الۡوَالِدٰنِ وَ الۡاَقۡرَبُوۡنَ ؕ وَ الَّذِیۡنَ عَقَدَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ فَاٰتُوۡہُمۡ نَصِیۡبَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدًا﴿٪۳۳﴾

۳۳۔اور ہم نے ان سب کے ترکوں کے وارث مقرر کیے ہیں جو ماں باپ اور رشتے دار چھوڑ جاتے ہیں اور جن سے تم نے معاہدہ کیا ہے انہیں بھی ان کے حق دے دو، بے شک اللہ ہر چیز پر حاضر و ناظر ہے۔


اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ وَّ بِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ ؕ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلۡغَیۡبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ ؕ وَ الّٰتِیۡ تَخَافُوۡنَ نُشُوۡزَہُنَّ فَعِظُوۡہُنَّ وَ اہۡجُرُوۡہُنَّ فِی الۡمَضَاجِعِ وَ اضۡرِبُوۡہُنَّ ۚ فَاِنۡ اَطَعۡنَکُمۡ فَلَا تَبۡغُوۡا عَلَیۡہِنَّ سَبِیۡلًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیۡرًا﴿۳۴﴾

۳۴۔ مرد عورتوں پر نگہبان ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس لیے کہ مردوں نے اپنا مال خرچ کیا ہے، پس جو نیک عورتیں ہیں وہ فرمانبردار ہوتی ہیں، اللہ نے جن چیزوں (مال اور آبرو) کا تحفظ چاہا ہے، (خاوند کی) غیر حاضری میں ان کی محافظت کرتی ہیں اور جن عورتوں کی سرکشی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو (اگر باز نہ آئیں تو) خواب گاہ الگ کر دو اور (پھر بھی باز نہ آئیں تو) انہیں مارو، پھر اگر وہ تمہاری فرمانبردار ہو جائیں تو ان کے خلاف بہانہ تلاش نہ کرو، یقینا اللہ بالاتر اور بڑا ہے۔

34۔ مرد عورتوں کے محافظ اور نگہبان ہیں۔ یعنی عائلی نظام میں مرد کو قیّم اور ستون کی حیثیت حاصل ہے۔ چونکہ مردوں کو عقل و تدبر اور زندگی کی مشکلات کا تحمل اور مقابلہ کرنے میں عورتوں پر برتری حاصل ہے اور عورتوں کو جذباتیت اور مہر و شفقت میں مردوں پر برتری حاصل ہے۔ یہاں سے ان دونوں کی ذمہ داریاں بھی منقسم ہو جاتی ہیں۔

اسلام کے عائلی نظام میں مرد کو جو برتری حاصل ہے۔ اس سے عورت کا استقلال و اختیار سلب نہیں ہوتا۔ اپنے اپنے مقام پر مرد و زن کی ذمے داریاں ہیں۔ عورت بچوں کو مہر و محبت کے ذریعے نفسیاتی غذا بہم پہنچاتی ہے۔ مرد طاقت و قوت کے ذریعے جسمانی غذا فراہم کرتے ہیں۔ عورت بچوں کی دیکھ بھال میں راتیں جاگتی ہے۔ مرد حصول رزق کے لیے دن رات ایک کرتا ہے۔ عورت بچوں کو داخلی خطرات سے بچاتی ہے، مرد بیرونی دشمن کا مقابلہ کرتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ عورت کو انسانی زندگی سے مربوط داخلی امور کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں، جبکہ مرد کو بیرونی امور کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ یہ بات مرد و زن کی جسمانی ساخت و بافت اور نفسیاتی خصوصیات سے بھی عیاں ہے۔ عورت ضعیف النفس، نازک مزاج، حساس ہوتی ہے اور اس کے ہر عمل پر جذبات غالب ہوتے ہیں، جب کہ مرد طاقتور، جفاکش اور اس کے ہر عمل پر عقل و فکر حاکم ہوتی ہے۔


وَ اِنۡ خِفۡتُمۡ شِقَاقَ بَیۡنِہِمَا فَابۡعَثُوۡا حَکَمًا مِّنۡ اَہۡلِہٖ وَ حَکَمًا مِّنۡ اَہۡلِہَا ۚ اِنۡ یُّرِیۡدَاۤ اِصۡلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰہُ بَیۡنَہُمَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیۡمًا خَبِیۡرًا﴿۳۵﴾

۳۵۔ اور اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان ناچاقی کا اندیشہ ہو تو ایک منصف مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک منصف عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو اگر وہ دونوں اصلاح کی کوشش کریں تو اللہ ان کے درمیان اتفاق پیدا کرے گا، یقینا اللہ بڑا علم رکھنے والا، باخبر ہے۔

35۔خطاب، حکومت جس کے پاس مسئلہ پیش ہوا، سے ہے کہ وہ طرفین سے ایسے منصف کے تقرر کا فریضہ انجام دے کہ جن کا مطمع نظر میاں بیوی میں اصلاح کرنے کا پختہ عزم ہو۔ عدالت کی ذمہ داریوںمیں سے اہم ذمے د اری یہ ہے کہ خاندانوں کے مسائل ان کے اپنے اندر سے مقرر شدہ ثالثوں کے ذریعے حل کرنے کے لیے طرفین میں سے ثالث کا تقرر کرے اور خاندانی راز کو اپنے ہی خاندان کی راز داری تک محدود رہنے دیا جائے، کیونکہ زن و شوہر کے تعلقات اور ان میں ناچاقی بعض ایسی باتوں پر مشتمل ہو سکتی ہے جس کا افشا خاندانی وقار کے منافی ہو نیز خاندانی حالات کا قریب سے علم ہونے کی وجہ سے فیصلہ صائب اور سریع ہو سکتا ہے۔


وَ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ بِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡجَارِ الۡجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا ﴿ۙ۳۶﴾

۳۶۔ اور تم لوگ اللہ ہی کی بندگی کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک قرار نہ دو اور ماں باپ، قریب ترین رشتے داروں، یتیموں، مسکینوں، قریب ترین رشتہ دار پڑوسی، اجنبی پڑوسی، پاس بیٹھنے والے رفیقوں، مسافروں اور جو (غلام و کنیز) تمہارے قبضے میں ہیں سب کے ساتھ احسان کرو، بے شک اللہ کو غرور کرنے والا، (اپنی بڑائی پر) فخر کرنے والا پسند نہیں۔

36۔ خدائے واحد کی پرستش کے بعد اللہ نے والدین پر احسان کو حکماً اور اولاد کی محبت کو فطرتاً لازم قرار دیا ہے۔ چنانچہ ایک دین دار گھرانہ فطرت اور شریعت دونوں کے سایے میں محبت و احسان کی پرسکون فضا قائم کر سکتا ہے۔ اسی طرح معاشرے کے جن افر اد کا اس آیت میں ذکر ہے ان پر احسان سے اسلامی معاشرے کا انسانی تصور سامنے آتا ہے۔


ۣالَّذِیۡنَ یَبۡخَلُوۡنَ وَ یَاۡمُرُوۡنَ النَّاسَ بِالۡبُخۡلِ وَ یَکۡتُمُوۡنَ مَاۤ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ؕ وَ اَعۡتَدۡنَا لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابًا مُّہِیۡنًا ﴿ۚ۳۷﴾

۳۷۔ (وہ لوگ بھی اللہ کو پسند نہیں) جو خود بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی بخل کی تلقین کرتے ہیں اور اللہ نے اپنے فضل سے جو انہیں عطا کیا ہے اسے چھپاتے ہیں اور ہم نے کافروں کے لیے ذلت آمیز سزا مہیا کر رکھی ہے۔

37۔ فیاضی ایک آفاقی عمل ہے سورج ، زمین اور پانی اپنی فیاضی سے کائنات کو رونق فراہم کرتے ہیں۔ اس کے خلاف بخل ایک نہایت گھٹیا مزاج ہے۔ بخیل اپنے بود و باش میں فقیروں کی طرح زندگی کرتا ہے اس طرح وہ اللہ کے فضل و کرم کو چھپاتا ہے ۔ حدیث میں آیا ہے: اِنَّ اللّٰہَ جَمِیلٌ یُحِبُ الْجَمَالَ وَ یُحِبُّ اَنْ یَرَی أَثَرَ نِعَمِہِ عَلَی عَبْدِہِ (الوسائل 5: 5 باب استحباب التجمل۔ صحیح مسلم، کتاب الایمان، یحب الجمال تک۔) اللہ زیبا ہے، زیبائی کو پسند کرتا ہے اور یہ بھی پسند کرتا ہے اس کی نعمت کے آثار بندے پر ظاہر ہوں۔ اس حدیث کا مطلب یہ بھی ہے کہ انسان کو اپنا حلیہ ایسا نہیں رکھنا چاہیے کہ بد زیب نظر آئے۔


وَ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ لَا بِالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ وَ مَنۡ یَّکُنِ الشَّیۡطٰنُ لَہٗ قَرِیۡنًا فَسَآءَ قَرِیۡنًا﴿۳۸﴾

۳۸۔اور (وہ لوگ بھی اللہ کو پسند نہیں) جو اپنا مال صرف لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور وہ نہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ روز آخرت پر اور (بات یہ ہے کہ) شیطان جس کا رفیق ہو جائے تو وہ بہت ہی برا رفیق ہے۔

38۔ اگر وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے تو مال خرچ کرتے ہوئے ریاکاری کی ضرور ت نہ تھی۔ وہ رضائے خدا اور زاد آخرت کے لیے مال خرچ کر کے مال سے خوب فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ لیکن چونکہ اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور صرف اسی چند روزہ زندگی پر ایمان رکھتے ہیں، لہٰذا مال وہ ایسی جگہ خرچ کریں گے جہاں ان کے خیال خام میں دنیاوی فائدہ ہے۔


وَ مَاذَا عَلَیۡہِمۡ لَوۡ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ اَنۡفَقُوۡا مِمَّا رَزَقَہُمُ اللّٰہُ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِہِمۡ عَلِیۡمًا﴿۳۹﴾

۳۹۔ اور اگر یہ لوگ اللہ اور روز آخرت پر ایمان لاتے اور اللہ کی عطا کردہ روزی میں سے خرچ کرتے تو اس میں انہیں کوئی نقصان نہ تھا اور اللہ تو ان کا حال اچھی طرح جانتا ہے ۔

39۔حالانکہ اگر وہ ایمان باللہ کے ساتھ اپنا مال رضائے رب کے لیے خرچ کرتے تو اس میں ان کا کوئی نقصان نہ تھا ۔


اِنَّ اللّٰہَ لَا یَظۡلِمُ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ ۚ وَ اِنۡ تَکُ حَسَنَۃً یُّضٰعِفۡہَا وَ یُؤۡتِ مِنۡ لَّدُنۡہُ اَجۡرًا عَظِیۡمًا﴿۴۰﴾

۴۰۔ یقینا اللہ ( کسی پر) ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا اور اگر (کسی کی ) ایک نیکی ہو تو (اللہ) اسے دگنا کر دیتا ہے اور اپنے ہاں سے اسے اجر عظیم عطا فرماتا ہے۔

40۔ راہ خدا میں مال خرچ کرنے سے نقصان اس لیے نہیں ہوتا کہ اللہ ذرہ برابر بھی کسی پرظلم نہیں کرتا اور ان کے خرچ کردہ مال کی جزا دیتا ہے، بلکہ ان کی نیکیوں میں مزید اضافہ کرتا ہے اور اجر عظیم عنایت فرماتا ہے۔


تبصرے
Loading...