سوره بقره آيات 21 – 40

سوره بقره آيات 21 – 40

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿ۙ۲۱﴾

۲۱۔ اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے والے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم (خطرات سے) بچاؤ کرو۔

21۔ ربوبیت کے ادراک کے بعد عبودیت ہے اور جب انسان اپنے آپ کو مخلوق سمجھتا ہے تو اپنے خالق کی طرف متوجہ ہونا ایک فطری امر ہے۔


الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الۡاَرۡضَ فِرَاشًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً ۪ وَّ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخۡرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزۡقًا لَّکُمۡ ۚ فَلَا تَجۡعَلُوۡا لِلّٰہِ اَنۡدَادًا وَّ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۲۲﴾

۲۲۔ جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے تمہاری غذا کے لیے پھل پیدا کیے، پس تم جانتے بوجھتے ہوئے کسی کو اللہ کا مدمقابل نہ بناؤ۔

22۔ جَعَلَ کا مطلب یہ ہے کہ پہلے نہیں تھا، بعد میں بنایا۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ زمین پہلے قابل سکونت نہ تھی، بعد میں اللہ تعالیٰ نے اسے انسانی زندگی کے قابل بنایا۔ بچھونے کی تعبیر اختیار کرنے سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اس میں آرام و آسائش کے تمام وسائل فراہم ہیں۔ نہ تو اسے زیادہ سخت بنایا کہ دانہ اگ نہ سکے اور نہ ہی اسے اتنا نرم بنایا کہ چیزیں اس میں دھنس جائیں، نہ اتنی چھوٹی بنائی کہ آکسیجن کے ذرات فضا میں زمین سے منسلک نہ رہ سکیں، نہ اتنی بڑی بنائی کہ ہوائی ذرات فضا میں معلق نہ رہ سکیں۔


وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ رَیۡبٍ مِّمَّا نَزَّلۡنَا عَلٰی عَبۡدِنَا فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَۃٍ مِّنۡ مِّثۡلِہٖ ۪ وَ ادۡعُوۡا شُہَدَآءَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۲۳﴾

۲۳۔ اور اگر تم لوگوں کو اس(کتاب)کے بارے میں شبہ ہو جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے تو اس جیسا کوئی سورہ بنا لاؤ اور اللہ کے علاوہ اپنے حامیوں کو بھی بلا لو، اگر تم سچے ہو۔

23۔ انسانیت کی بلوغت سے پہلے انبیاء کو محسوس معجزے دیے گئے اور لوگوں کی فکری سطح کے مطابق محسوسات کے ذریعے ان کی تربیت ہوئی۔ انسانی فکر کے حد بلوغت تک پہنچنے کے بعد ایک فکری اور مکمل دستور حیات پر مشتمل معجزہ قرآن کی شکل میں دیا گیا۔سابقہ محسوس معجزات کی طرح یہ معجزہ کسی زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ یہ ایک ابدی معجزہ ہے جو رہتی دنیا تک تمام انسانوں کے لیے ایک چیلنج ہے۔ آج کے محسوس پرستوں کا یہ اعتراض کہ رسولِ کریمؐ نے کوئی محسوس معجزہ پیش نہیں کیا، ایسا ہے جیسے کوئی کسی تعلیمی ادارے پر یہ اعتراض کرے کہ ہائی سکول کے لیے نرسری کلاس کا طرز تعلیم کیوں اختیار نہیں کیا جاتا۔ البتہ رسولِ کریمؐ نے اپنے زمانے کے محسوس پرستوں کے لیے محسوس (حسیاتی) معجزات بھی دکھائے ہیں۔

کیا معجزات طبیعیاتی قوانین کے دائرے میں وقوع پذیر ہوتے ہیں یا طبیعیاتی قانون کی عام دفعات کے ماوراء میں ہوتے ہیں، اس پر ہم آیندہ بحث کریں گے۔


فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا وَ لَنۡ تَفۡعَلُوۡا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیۡ وَقُوۡدُہَا النَّاسُ وَ الۡحِجَارَۃُ ۚۖ اُعِدَّتۡ لِلۡکٰفِرِیۡنَ﴿۲۴﴾

۲۴۔ اور اگر تم نے ایسا نہ کیا اور ہرگز تم ایسا نہ کر سکو گے تو اس آتش سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں (یہ آگ) کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے ۔


وَ بَشِّرِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ؕ کُلَّمَا رُزِقُوۡا مِنۡہَا مِنۡ ثَمَرَۃٍ رِّزۡقًا ۙ قَالُوۡا ہٰذَا الَّذِیۡ رُزِقۡنَا مِنۡ قَبۡلُ ۙ وَ اُتُوۡا بِہٖ مُتَشَابِہًا ؕ وَ لَہُمۡ فِیۡہَاۤ اَزۡوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ ٭ۙ وَّ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿۲۵﴾

۲۵۔اور ان لوگوں کو خوشخبری سنا دیجئے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال انجام دیے کہ ان کے لیے(بہشت کے) باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، اس میں سے جب بھی کوئی پھل کھانے کو ملے گا تو وہ کہیں گے: یہ تو وہی ہے جو اس سے پہلے بھی مل چکا ہے، حالانکہ انہیں ملتا جلتا دیا گیا ہے اور ان کے لیے جنت میں پاک بیویاں ہوں گی اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

25۔ ایمان و عمل کے بارے میں تین صورتیں سامنے آتی ہیں: 1۔ ایمان بلا عمل 2۔ عمل بلا ایمان 3۔ ایمان باعمل۔ پہلی صورت میں وہ ایمان جو انسان کے شعور و کردار پر کوئی اثر نہیں چھوڑتا ایمان نہیں ہے۔ دوسری صورت میں اس عمل میں حسن پیدا نہیں ہو سکتا جس کے انجام دینے والے میں حسن نہ ہو نیز ایمان نہ ہونے کی صورت میں جو عمل انجام دیا جاتا ہے تو اس کا محرک کیا ہو سکتا ہے؟ لہٰذا جو لوگ رفاہی کام انجام دیتے ہیں، اگر ان کے اعمال کا محرک ایمان باللہ کے علاوہ کوئی اور عقیدہ ہو تو ان کا ثواب بھی اسی کے ذمے ہے جس کے لیے انہوں نے یہ عمل انجام دیا ہے۔ تیسری صورت ہی ذریعہ نجات ہے جس کی طرف قرآن دعوت دیتا ہے۔

جنت کی نعمتیں دنیا کی نعمتوں کے مشابہ ضرور ہیں لیکن درحقیقت ان سے جدا ہیں۔ دنیا کی نعمتوں میں تکرار ہے۔ یعنی ایک چیز کئی بار کھائیں تو ہر مرتبہ وہی لذت ملتی ہے، جبکہ جنت میں ہر مرتبہ نئی لذت اور نیا ذائقہ ہو گا ہر چند کہ پھل ملتے جلتے دیے جائیں گے۔


اِنَّ اللّٰہَ لَا یَسۡتَحۡیٖۤ اَنۡ یَّضۡرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوۡضَۃً فَمَا فَوۡقَہَا ؕ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فَیَعۡلَمُوۡنَ اَنَّہُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ۚ وَ اَمَّا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فَیَقُوۡلُوۡنَ مَا ذَاۤ اَرَادَ اللّٰہُ بِہٰذَا مَثَلًا ۘ یُضِلُّ بِہٖ کَثِیۡرًا ۙ وَّ یَہۡدِیۡ بِہٖ کَثِیۡرًا ؕ وَ مَا یُضِلُّ بِہٖۤ اِلَّا الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿ۙ۲۶﴾

۲۶۔اللہ کسی مثال کے پیش کرنے سے نہیں شرماتا خواہ مچھر کی ہو یا اس سے بھی بڑھ کر (چھوٹی چیز کی)، پس جو لوگ ایمان لا چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ (مثال) ان کے رب کی جانب سے برحق ہے، لیکن کفر اختیار کرنے والے کہتے رہیں گے کہ اس مثال سے اللہ کا کیا مقصد ہے، اللہ اس سے بہت سوں کو گمراہ کر دیتا ہے اور بہت سوں کو ہدایت کرتا ہے اور وہ اس کے ذریعے صرف بداعمال لوگوں کو گمراہی میں ڈالتا ہے۔

26۔ مچھریا اس سے بھی کمتر مخلوقات خالق کی عظمت پر اسی طرح دلالت کرتی ہیں جس طرح بڑی مخلوقات۔ اس چھوٹی مخلوق میں بھی اعضاء و جوارح اور اعصاب و دماغ وغیرہ کا ایک جامع نظام موجود ہے۔


الَّذِیۡنَ یَنۡقُضُوۡنَ عَہۡدَ اللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مِیۡثَاقِہٖ ۪ وَ یَقۡطَعُوۡنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖۤ اَنۡ یُّوۡصَلَ وَ یُفۡسِدُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ﴿۲۷﴾

۲۷۔ جو (فاسقین) اللہ کے ساتھ محکم عہد باندھنے کے بعد اسے توڑ دیتے ہیں اور اللہ نے جس (رشتے) کو قائم رکھنے کا حکم دیا ہے اسے قطع کر دیتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔


کَیۡفَ تَکۡفُرُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ کُنۡتُمۡ اَمۡوَاتًا فَاَحۡیَاکُمۡ ۚ ثُمَّ یُمِیۡتُکُمۡ ثُمَّ یُحۡیِیۡکُمۡ ثُمَّ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔اللہ کے بارے میں تم کس طرح کفر اختیار کرتے ہو؟ حالانکہ تم بے جان تھے تو اللہ نے تمہیں حیات دی، پھر وہی تمہیں موت دے گا، پھر(آخرکار) وہی تمہیں زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

28۔ زمین پرزندگی کی ابتداء کیسے اور کیونکر ہوئی؟ ایک سربستہ راز اور پر اسرار حقیقت ہے۔ حال ہی میں انسان کی رسائی ڈی این اے کے سالموں تک ہو گئی ہے اور سائنسدان اس میں موجود تین ارب سالموں کی منظم ترتیب کے ذریعے جینیاتی کوڈ کا معمہ حل ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ تمام زندہ موجودات کے لیے جبلی ہدایات اللہ تعالیٰ نے خلیات (cells) کے مرکزی حصے D.N.A. میں ودیعت فرمائی ہیں جو تین ارب چھوٹے سالموں پر مشتمل ہے اور حیات کا راز انہیں سالموں میں پوشیدہ ہے ۔


ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ لَکُمۡ مَّا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا ٭ ثُمَّ اسۡتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ فَسَوّٰىہُنَّ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ ؕ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ﴿٪۲۹﴾

۲۹۔ وہ وہی اللہ ہے جس نے زمین میں موجود ہر چیز کو تمہارے لیے پیدا کیا، پھر آسمان کا رخ کیا تو انہیں سات آسمانوں کی شکل میں بنا دیا اور وہ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔

29۔ الٰہی تصورِ کائنات کے مطابق انسان مخدومِ کائنات ہے۔ وہ بندۂ زر نہیں، نہ ہی اقتصادی عوامل اور پیداواری وسائل کا غلام ہے۔ خدائی انسان کو یہ خطاب ملتا ہے: جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، وہ سب تمہارے لیے مسخر کیا گیا ہے۔(45: 13) اس آیت سے منابع ارضی کی حلیت کا قانون ملتا ہے جس کی تفصیل فقہی کتب میں موجود ہے۔


وَ اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً ؕ قَالُوۡۤا اَتَجۡعَلُ فِیۡہَا مَنۡ یُّفۡسِدُ فِیۡہَا وَ یَسۡفِکُ الدِّمَآءَ ۚ وَ نَحۡنُ نُسَبِّحُ بِحَمۡدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ ؕ قَالَ اِنِّیۡۤ اَعۡلَمُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۳۰﴾

۳۰۔ اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا: میں زمین میں ایک خلیفہ (نائب) بنانے والا ہوں، فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں ایسے کو خلیفہ بنائے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خون ریزی کرے گا؟ جب کہ ہم تیری ثناء کی تسبیح اور تیری پاکیزگی کا ورد کرتے رہتے ہیں، (اللہ نے) فرمایا: (اسرار خلقت بشر کے بارے میں) میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

30۔ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ روئے زمین پر ایک مکلف مخلوق امتحان و آزمائش کے لیے بھیجی جائے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ احسن عمل کا امتیازی نشان کون حاصل کرتا ہے۔ پھر حکمت و رحمت الہٰی کا تقاضا یہ ہوا کہ اس مخلوق کے بسنے سے پہلے اس کی ہدایت و رہنمائی کا انتظام ہو جائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ متضاد صفات والی اس مخلوق کو علم و قابلیت دینے کی راہ میں اگرچہ فساد و خون خرابہ ہو، تب بھی علم کی فضیلت اپنی جگہ برقرار ہے۔


وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمۡ عَلَی الۡمَلٰٓئِکَۃِ ۙ فَقَالَ اَنۡۢبِـُٔوۡنِیۡ بِاَسۡمَآءِ ہٰۤؤُلَآءِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۳۱﴾

۳۱۔ اور (اللہ نے) آدم کو تمام نام سکھا دیے، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا پھر فرمایا : اگر تم سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتاؤ۔

31۔ الۡاَسۡمَآءَ اسم کی جمع ہے۔اسم اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی ذات پر دلالت کرے۔ یعنی اسم وہ ہوتا ہے جو ” مسمی”بتائے۔ پس ہر وہ چیز جو کسی موجود کی نشاندہی کرے اسم ہے۔ لہٰذا یہاں تعلیم اسماء سے مراد تمام حقائق کی تعلیم ہی ہو سکتی ہے۔ عَرَضَہُمۡ میں ہُمۡ کی ضمیر عقل و ادراک رکھنے والوں کے لیے استعمال ہوتی ہے، اس لیے ممکن ہے ان اسماء کا اطلاق اللہ کے خلفاء پر ہو تاکہ آدم (ع) کو پہلے سے علم ہوجائے: زمین ان کی زمین ہے اور بشر ان کی نسل ہو گی اور خلفاء ان کی ذریت ہوں گے۔

فرشتوں کی حیرت و استعجاب پر اللہ کے اجمالی جواب: اِنِّیۡۤ اَعۡلَمُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ کے بعد اب تفصیلی جواب دیا جا رہا ہے۔ اس جواب میں آدم (ع) کو خلافت الٰہیہ کے عظیم منصب پر فائز کرنے کا راز بھی مذکور ہے۔


قَالُوۡا سُبۡحٰنَکَ لَا عِلۡمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمۡتَنَا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَلِیۡمُ الۡحَکِیۡمُ﴿۳۲﴾

۳۲۔ فرشتوں نے کہا: تو پاک و منزہ ہے جو کچھ تو نے ہمیں بتا دیا ہے ہم اس کے سوا کچھ نہیں جانتے۔ یقینا تو ہی بہتر جاننے والا، حکمت والا ہے۔


قَالَ یٰۤاٰدَمُ اَنۡۢبِئۡہُمۡ بِاَسۡمَآئِہِمۡ ۚ فَلَمَّاۤ اَنۡۢبَاَہُمۡ بِاَسۡمَآئِہِمۡ ۙ قَالَ اَلَمۡ اَقُلۡ لَّکُمۡ اِنِّیۡۤ اَعۡلَمُ غَیۡبَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۙ وَ اَعۡلَمُ مَا تُبۡدُوۡنَ وَ مَا کُنۡتُمۡ تَکۡتُمُوۡنَ﴿۳۳﴾

۳۳۔ (اللہ نے) فرمایا: اے آدم! ان (فرشتوں) کو ان کے نام بتلا دو، پس جب آدم نے انہیں ان کے نام بتا دیے تو اللہ نے فرمایا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتیں خوب جانتا ہوں نیز جس چیز کا تم اظہار کرتے ہو اور جو کچھ تم پوشیدہ رکھتے ہو، وہ سب جانتا ہوں۔


وَ اِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ اَبٰی وَ اسۡتَکۡبَرَ ٭۫ وَ کَانَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۳۴﴾

۳۴۔ اور (اس وقت کو یاد کرو)جب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کو سجدہ کرو تو ان سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اس نے انکار اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں سے ہو گیا۔


وَ قُلۡنَا یٰۤاٰدَمُ اسۡکُنۡ اَنۡتَ وَ زَوۡجُکَ الۡجَنَّۃَ وَ کُلَا مِنۡہَا رَغَدًا حَیۡثُ شِئۡتُمَا ۪ وَ لَا تَقۡرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوۡنَا مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۳۵﴾

۳۵۔ اور ہم نے کہا: اے آدم! تم اور تمہاری زوجہ جنت میں قیام کرو اور اس میں جہاں سے چاہو فراوانی سے کھاؤ اور اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تم دونوں زیادتی کا ارتکاب کرنے والوں میں سے ہو جاؤ گے۔


فَاَزَلَّہُمَا الشَّیۡطٰنُ عَنۡہَا فَاَخۡرَجَہُمَا مِمَّا کَانَا فِیۡہِ ۪ وَ قُلۡنَا اہۡبِطُوۡا بَعۡضُکُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ ۚ وَ لَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ مُسۡتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰی حِیۡنٍ﴿۳۶﴾

۳۶۔پس شیطان نے ان دونوں کو وہاں سے پھسلا دیا، پھر جس (نعمت) میں وہ دونوں قیام پذیر تھے اس سے ان دونوں کو نکلوا دیا اور ہم نے کہا: (اب) تم ایک دوسرے کے دشمن بن کر نیچے اتر جاؤ اور ایک مدت تک زمین میں تمہارا قیام اور سامان زیست ہو گا۔

32 تا 36۔ حضرت آدمؑ کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر بسانے کے لیے خلق فرمایا تھا۔ اس خلیفہ ارض کو زمین پر بسانے سے پہلے مختلف مراحل سے گزارا گیا: ٭ سب سے پہلے انہیں اسماء کی تعلیم دی۔ ٭ پھر معلم کے مقام پر فائز کیا۔ ٭ فرشتوں کو ان کے سامنے جھکایا۔ ٭ شجرۂ ممنوعہ کے ذریعے ایک عیار دشمن سے ان کا سامنا کرایا۔

یہاں انسانی زندگی کے لوازم کا عندیہ ملتا ہے :

اسۡکُنۡ سے مکان۔ 2۔ زَوۡجُکَ سے بیوی۔ 3۔ کُلَا سے روٹی ۔ 4۔ وَ لَا تَقۡرَبَا سے قانون کی پابندی۔ ان مراحل کے بعد وَ لَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ مُسۡتَقَرٌّ کا حکم نامہ جاری ہوا۔

حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر بسانے سے پہلے دو دشمنوں سے آگاہ کیا گیا۔ ایک داخلی دشمن جو نفسانی خواہشات ہے اور ایک بیرونی دشمن ابلیس۔ ساتھ ہی یہ درس بھی یاد کرایا کہ بیرونی دشمن داخلی دشمن (خواہشات ) کے ذریعے حملہ آور ہوتا ہے۔


فَتَلَقّٰۤی اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ﴿۳۷﴾

۳۷۔ پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے تو اللہ نے آدم کی توبہ قبول کر لی، بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔

37۔ درمنثور میں ہے کہ ابن نجار نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ حضورؐ سے کلمات کے بارے میں سوال ہوا تو آپ (ص) نے فرمایا: سئل بحق محمد و علی و فاطمہ و الحسن و الحسین الا تبت علی فتاب علیہ ۔ یعنی آدم نے محمدؐ، علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام کا واسطہ دے کر سوال کیا کہ میری توبہ قبول فرما تو اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔


قُلۡنَا اہۡبِطُوۡا مِنۡہَا جَمِیۡعًا ۚ فَاِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ مِّنِّیۡ ہُدًی فَمَنۡ تَبِعَ ہُدَایَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ﴿۳۸﴾

۳۸۔ ہم نے کہا: تم سب یہاں سے نیچے اتر جاؤ، پھر اگر میری طرف سے کوئی ہدایت تم تک پہنچے تو جس جس نے میری ہدایت کی پیروی کی، پھر انہیں نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔


وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿٪۳۹﴾

۳۹۔ اور جو لوگ کفر کریں اور ہماری آیات کو جھٹلائیں وہی دوزخ والے ہوں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

38۔ 39 ۔ ھبوط الی الارض کا حکم دو مرتبہ ملا ہے۔ ایک حکم توبہ سے پہلے، اس میں فرمایا: ایک دوسرے کے دشمن بن کر اترجاؤ۔ توبہ کے بعد کے حکم میں فرمایا: جس نے میری ہدایت کی پیروی کی، پھر انہیں نہ تو کوئی خوف ہو گا، نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔ توبہ سے پہلے حکم میں باہمی عداوت اور بعد کے حکم میں ہدایت و نجات کا ذکر ہے۔

زمین پر اترنے کا حکم ملنے کے بعد روئے زمین پربسنے والوں کے لیے پہلی مرتبہ شریعت اور دستور حیات کا ذکر ہو رہا ہے۔ ان دو مختصر آیتوں میں آنے والی تمام شریعتوں کا ایک نہایت ہی جامع خلاصہ ذکر فرمایا۔ یہ خلاصہ تین ایسے نکات پر مشتمل ہے جو بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں: 1۔ ہدایت: اس میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کا ذکر ہے: مِّنِّیۡ ہُدًی ۔ 2۔ اتباع : اس میں ہدایت خداوندی کی اتباع کرنے والوں کے اچھے انجام اور ان کی حیات ابدی کاذکر ہے: فَمَنۡ تَبِعَ ہُدَایَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ۔” جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا اسے نہ آیندہ کے بارے میں کسی نقصان کا خوف ہو گا اور نہ کسی گزشتہ خسارے پر حزن و ملال۔” اس آیت میں ہدایت کی اتباع کرنے والوں کی حیات کی جامع تعریف یوں بیان کی گئی ہے کہ ان کی زندگی سکون و اطمینان سے گزرے گی اور زندگی کا سکون غارت کرنے والے دو عوامل خوف اور حزن ان کے قریب نہیں پھٹکیں گے۔ اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ (13 :28)یاد رکھو! یاد خدا سے دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔ 3۔ کفر :آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو اس ہدایت کی پیروی سے انکار کریں گے ایسے لوگوں کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔


یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتِیَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ وَ اَوۡفُوۡا بِعَہۡدِیۡۤ اُوۡفِ بِعَہۡدِکُمۡ ۚ وَ اِیَّایَ فَارۡہَبُوۡنِ﴿۴۰﴾

۴۰۔ اے بنی اسرائیل! میری وہ نعمت یاد کرو جس سے میں نے تمہیں نوازا ہے اور میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا اور تم لوگ صرف مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔


تبصرے
Loading...