سوره بقره آيات 1 – 20

سوره بقره آيات 1 – 20

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم


الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾

۱۔ الف لام میم۔

1۔ الف ۔لام ۔ میم۔ انہیں “مقطعاتِ قرآنیہ” کہتے ہیں۔ یہ صرف افتتاحیہ حروف ہی نہیں بلکہ ان میں وہ اسرار و رموز پنہاں ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب کے درمیان مخصوص ہیں۔ انہی سربستہ اسرار و رموز کے تحت بعض مقطعات مستقل آیت ہیں جیسے کٓہٰیٰعٓصٓ اور بعض مستقل آیت نہیں ہیں جیسے طٰسٓ ۔


ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾

۲۔ یہ کتاب، جس میں کوئی شبہ نہیں، ہدایت ہے تقویٰ والوں کے لیے۔

2۔ قرآن خود قابلِ ریب نہیں۔ اگر اس میں کسی کو شک ہے تو وہ قرآن سے ہٹ کر دیگر عوامل کی وجہ سے ہے۔ مثلًا خود شبہ کرنے والے کی نادانی، کج فہمی اور کوتاہ بینی وغیرہ ۔


الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ وَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ۙ﴿۳﴾

۳۔ جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں نیز جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

3۔ غیب، شہود اور محسوس کا مقابل ہے۔ مذہب کے بنیادی عقائد ایمان بالغیب پر مبنی ہیں۔ جو لوگ ماورائے محسوسات کو دائرئہ تجربہ سے خارج ہونے کی وجہ سے مسترد کرتے ہیں، اولاً: ان کی خود یہی بات غیر تجرباتی ہے، ثانیاً: تجربات سے کلی نتائج اخذ کرنے کے لیے غیر تجرباتی اصول تسلیم کرنا پڑتے ہیں، ورنہ تجربہ صرف انہی افراد کے لیے دلیل بنتا ہے جو اس مرحلے سے گزرے ہوں۔ ثالثاً: اگر صرف محسوسات و تجربات ہی پر انحصار کرنا ہے تو انہیں چاہیے کہ ماورائے محسوسات پر نفی و اثبات میں کوئی نظریہ قائم نہ کریں۔ حالانکہ یہ لوگ جب ماورائے حس کی نفی کرتے ہیں تو حس و تجربے کی حدود سے نکل کر ماورائے حس میں قدم رکھتے ہوئے یہ نظریہ قائم کرتے ہیں۔ اب خواہ نفی کا نظریہ سہی، لیکن یہ ان کی طرف سے ماورائے حس کا عملی اعتراف ہے۔ ایمان بالغیب کے بعد نماز دین کا ستون ہے جو لا تترک بحال ” کسی حالت میں بھی نہیں چھوڑی جا سکتی” اور اقامۂ نماز اور قرآنی معاشرے کے قیام کے لیے انفاق کو نماز کے بعد کا درجہ حاصل ہے۔ دوسرے لفظوں میں بندگی، ذکر خدا اور فیاضی پر مشتمل ہے۔ یعنی مومن نمازی معاشرے کا فعال اور فیاض رکن ہوتا ہے۔


وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ وَ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ ؕ﴿۴﴾

۴۔ اور جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا نیز جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا ہے، ان پر ایمان اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔


اُولٰٓئِکَ عَلٰی ہُدًی مِّنۡ رَّبِّہِمۡ ٭ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ﴿۵﴾

۵۔یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر (قائم) ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہیں۔


اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا سَوَآءٌ عَلَیۡہِمۡ ءَاَنۡذَرۡتَہُمۡ اَمۡ لَمۡ تُنۡذِرۡہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ﴿۶﴾

۶۔ جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے لیے یکساں ہے کہ آپ انہیں متنبہ کریں یا نہ کریں وہ ایمان نہیں لائیں گے۔


خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ عَلٰی سَمۡعِہِمۡ ؕ وَ عَلٰۤی اَبۡصَارِہِمۡ غِشَاوَۃٌ ۫ وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ٪﴿۷﴾

۷۔اللہ نے ان کے دلوں اور ان کی سماعت پر مہر لگا دی ہے نیز ان کی نگاہوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔


وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ مَا ہُمۡ بِمُؤۡمِنِیۡنَ ۘ﴿۸﴾

۸۔ لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ اور روز آخرت پر ایمان لے آئے، حالانکہ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔

4 تا8۔ سلسلۂ کلام میں تین گروہ شامل ہیں۔ پہلا گروہ، وہ لوگ جن پر حق ثابت ہوا اور اس پر ایمان لے آئے۔ یہ متقین کا گروہ ہے۔ دوسرا گروہ وہ لوگ ہیں جن پر حق ثابت ہوا مگر انہوں نے ازرُوئے عناد اسے ماننے سے انکار کر دیا۔یہ ناقابلِ ہدایت ہیں۔ تیسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جنہیں نہ تو حق پر ایمان لانے کی توفیق ہوئی اور نہ علی الاعلان اس کے انکار کی جرات ہوئی۔ یہ اپنے ضمیر کی آواز کے بھی خلاف ہیں، لہٰذا فکری اضطراب اور ذہنی تشویش کا شکار رہتے ہیں ۔ منافقین کی خصوصیات یہ ہیں: i۔ وہ بزعم خویش اللہ اور مؤمنین کو دھوکہ دیتے ہیں جبکہ غیر شعوری طور پر خود دھوکہ کھا رہے ہوتے ہیں۔ ii۔ ان کے دلوں میں بیماری ہوتی ہے، جس سے وہ اعتدال و توازن کھو بیٹھتے ہیں اور بیماری کی وجہ سے انہیں موزوں غذا بھی غیر موزوں اور گوارا طعام بھی ناگوارگزرتا ہے۔ انہیں یہ بیماری خود اپنے عمل کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے۔ اللہ نے بھی جب انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا تو بیماری کے مہلک جراثیم قانون فطرت کے تحت پھیلنا شروع ہو گئے، لہٰذا اس کی نسبت اللہ کی طرف دینا صرف اس لیے ہے کہ اللہ نے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا۔ البتہ اس کے ذمے دار خود منافقین ہیں۔ iii۔ وہ معاشرے کا امن و سکون برباد کرتے ہیں اور اپنی تخریب کاری کو اصلاح کا نام دیتے ہیں۔iv ۔ وہ ایمان والوں کو نچلے درجے کے لوگ سمجھتے ہیں۔ v۔ وہ باطنی طور پر کچھ ہوتے ہیں اورظاہری طرز عمل کچھ اور رکھتے ہیں۔ اس سے آگے ان کے سیاہ اعمال کے نتائج کا بیان ہے۔


یُخٰدِعُوۡنَ اللّٰہَ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۚ وَ مَا یَخۡدَعُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَہُمۡ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ ؕ﴿۹﴾

۹۔ وہ اللہ اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں، جبکہ (حقیقت میں) وہ صرف اپنی ذات کو ہی دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں لیکن وہ اس بات کا شعور نہیں رکھتے۔


فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ ۙ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌۢ ۬ۙ بِمَا کَانُوۡا یَکۡذِبُوۡنَ﴿۱۰﴾

۱۰۔ ان کے دلوں میں بیماری ہے، پس اللہ نے ان کی بیماری اور بڑھا دی اور ان کے لیے دردناک عذاب اس وجہ سے ہے کہ وہ جھوٹ بولا کرتے تھے۔


وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّمَا نَحۡنُ مُصۡلِحُوۡنَ﴿۱۱﴾

۱۱۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو تو کہتے ہیں: ہم تو بس اصلاح کرنے والے ہیں۔


اَلَاۤ اِنَّہُمۡ ہُمُ الۡمُفۡسِدُوۡنَ وَ لٰکِنۡ لَّا یَشۡعُرُوۡنَ﴿۱۲﴾

۱۲۔ یاد رہے! فسادی تو یہی لوگ ہیں، لیکن وہ اس کا شعور نہیں رکھتے۔


وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ اٰمِنُوۡا کَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوۡۤا اَنُؤۡمِنُ کَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَہَآءُ ؕ اَلَاۤ اِنَّہُمۡ ہُمُ السُّفَہَآءُ وَ لٰکِنۡ لَّا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۳﴾

۱۳۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ دیگر لوگوں کی طرح تم بھی ایمان لے آؤ تو وہ کہتے ہیں: کیا ہم (بھی ان) بیوقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں؟ یاد رہے! بیوقوف تو خود یہی لوگ ہیں لیکن یہ اس کا (بھی) علم نہیں رکھتے۔


وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قَالُوۡۤا اٰمَنَّا ۚۖ وَ اِذَا خَلَوۡا اِلٰی شَیٰطِیۡنِہِمۡ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا مَعَکُمۡ ۙ اِنَّمَا نَحۡنُ مُسۡتَہۡزِءُوۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔اور جب وہ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم ایمان لے آئے ہیں اور جب اپنے شیطانوں کے ساتھ تخلیے میں ہوتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم تو تمہارے ساتھ ہیں، (ان مسلمانوں کا تو) ہم صرف مذاق اڑاتے ہیں۔


اَللّٰہُ یَسۡتَہۡزِئُ بِہِمۡ وَ یَمُدُّہُمۡ فِیۡ طُغۡیَانِہِمۡ یَعۡمَہُوۡنَ﴿۱۵﴾

۱۵۔اللہ بھی ان کے ساتھ تمسخر کرتا ہے اور انہیں ڈھیل دیتا ہے کہ یہ اپنی سرکشی میں سرگرداں رہیں گے۔

15۔ خدائی تمسخر کا طریقہ یہ ہو گا کہ ان منافقین کو سرکشی میں ڈھیل دے کر مزید تباہی سے دوچار کر دیا جائے گا۔ آیہ شریفہ میں یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ منافقین سرراہ مومنین سے ملتے تھے تو اظہار ایمان کرتے تھے، جب کہ اپنے شیاطین سے ان کی باقاعدہ نشستیں ہوا کرتی تھیں۔


اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اشۡتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بِالۡہُدٰی ۪ فَمَا رَبِحَتۡ تِّجَارَتُہُمۡ وَ مَا کَانُوۡا مُہۡتَدِیۡنَ﴿۱۶﴾

۱۶۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے میں گمراہی خرید لی ہے، چنانچہ نہ تو ان کی تجارت سودمند رہی اور نہ ہی انہیں ہدایت حاصل ہوئی۔


مَثَلُہُمۡ کَمَثَلِ الَّذِی اسۡتَوۡقَدَ نَارًا ۚ فَلَمَّاۤ اَضَآءَتۡ مَا حَوۡلَہٗ ذَہَبَ اللّٰہُ بِنُوۡرِہِمۡ وَ تَرَکَہُمۡ فِیۡ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ﴿۱۷﴾

۱۷۔ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے(تلاش راہ کے لیے) آگ جلائی، پھر جب اس آگ نے گرد و پیش کو روشن کر دیا تو اللہ نے ان کی روشنی سلب کر لی اور انہیں اندھیروں میں (سرگرداں) چھوڑ دیا کہ انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔

16۔17۔ منافقین کے سیاہ اعمال کے تذکرے کے بعد اب ان کے نتائج بیان ہو رہے ہیں کہ ان لوگوں نے احمقانہ سودا کیا۔ ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی اور سو فیصد گھاٹے میں رہے۔ اسی لیے وہ نفسیاتی طور پر پریشان رہتے ہیں۔ خداوند کریم نے منافقین کے اس اندرونی انتشار اور نفسیاتی الجھن کی تصویر کشی کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کی حالت اس شخص کی سی ہے، جسے روشنی حاصل کرنے کے مواقع حاصل ہوئے اور اس نے اردگرد دیکھا اور اشیاء کے نفع و ضرر سے آگاہی حاصل کی ہی تھی کہ یکایک یہ روشنی چھن گئی اور چاروں طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا گیا۔ ایسا شخص احساس محرومی سے بہت زیادہ دوچار ہوتا ہے بہ نسبت اس شخص کے جس نے روشنی دیکھی ہی نہیں اور پہلے سے اندھیرے میں ہے۔


صُمٌّۢ بُکۡمٌ عُمۡیٌ فَہُمۡ لَا یَرۡجِعُوۡنَ ﴿ۙ۱۸﴾

۱۸۔وہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں پس وہ (اس ضلالت سے) باز نہیں آئیں گے۔


اَوۡ کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیۡہِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعۡدٌ وَّ بَرۡقٌ ۚ یَجۡعَلُوۡنَ اَصَابِعَہُمۡ فِیۡۤ اٰذَانِہِمۡ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الۡمَوۡتِ ؕ وَ اللّٰہُ مُحِیۡطٌۢ بِالۡکٰفِرِیۡنَ﴿۱۹﴾

۱۹۔ یا جیسے آسمان سے بارش ہو رہی ہو جس میں تاریکیاں اور گرج و چمک ہو، بجلی کی کڑک کی وجہ سے موت سے خائف ہو کر وہ اپنی انگلیاں کانوں میں دے لیتے ہیں، حالانکہ اللہ کافروں کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔


یَکَادُ الۡبَرۡقُ یَخۡطَفُ اَبۡصَارَہُمۡ ؕ کُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَہُمۡ مَّشَوۡا فِیۡہِ ٭ۙ وَ اِذَاۤ اَظۡلَمَ عَلَیۡہِمۡ قَامُوۡا ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَذَہَبَ بِسَمۡعِہِمۡ وَ اَبۡصَارِہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿٪۲۰﴾

۲۰۔ قریب ہے کہ بجلی ان کی آنکھیں سلب کر لے، جب وہ ان کے لیے چمک دکھاتی ہے تو وہ اس کی روشنی میں چل پڑتے ہیں اور جب تاریکی ان پر چھا جاتی ہے تو وہ رک جاتے ہیں اور اللہ اگر چاہتا تو ان کی سماعت اور بینائی (کی طاقت) سلب کر لیتا، بلاشبہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

19۔ 20 منافقین ایسے ماحول میں رہتے ہیں جس میں چار سو تاریکیاں ہیں اور بجلی کی گرج چمک، جہاں ہر وقت موت سروں پر منڈلاتی نظر آتی ہے۔ وہ ذہنی اضطراب سے بچنے کے لیے کانوں میں انگلیاں دے لیتے ہیں، جیسا کہ آج کا مضطرب انسان نشے اور خواب آور گولیوں کا سہارا لیتا ہے۔

قرآن ایک حیات آفرین اور حیات ساز دستور ہونے کے لحاظ سے مومنین کی فکری اور شعوری تربیت کر رہا ہے تاکہ مومنین اپنے ارد گرد کے مختلف افراد کے ساتھ مناسب روش اختیار کریں۔ منافقین کی نفسیاتی پریشانی، ذہنی اضطراب، اخلاقی پستی اور برے عزائم کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ یہ لوگ اللہ اور مومنین کو دھوکا دیتے ہیں۔ ان کے دل مریض ہیں، یہ معاشرتی اصلاح کی آڑ میں اجتماعی فساد پھیلاتے ہیں، تکبر اور احساس برتری جیسے موذی نفسیاتی امراض میں مبتلا ہیں اور اہل ایمان کو حقیر سمجھتے ہیں۔


تبصرے
Loading...