یہودی ریاست کے آگے سجدہ ریز جرمن حکمران نجاست کو خباثت سے دھونے کے لئے کوشاں

جرمنی نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرکے اپنا گناہ دھونے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے یہودی تسلط کے خلاف مزاحمت کرنے کی پاداش میں حزب اللہ لبنان کا نام بز‏عم خود دہشت گرد جماعتوں کی فہرست میں درج کردیا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ آج سے چند ہی روز پہلے جرمن حکومت نے حزب اللہ لبنان کا نام دہشت گرد جماعتوں کی فہرست میں درج کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے جرمنی میں اس مزاحمتی جماعت کی سرگرمیوں پر پابندی لگانے کا اعلان کیا ہے اور ساتھ ہی جرمن اداروں نے متعدد اسلامی مراکز اور مساجد پر ہلہ بول کر حزب اللہ سے ہمدردی کے الزام میں متعدد افراد کو گرفتار کیا ہے۔ البتہ حزب اللہ سے ان افراد اور مراکز و مساجد کی ہمدردی کی نوعیت بیان نہیں کی گئی ہے۔

مغربی ذرائع ابلاغ نے مذکورہ بالا مراکز و مساجد میں گرفتار ہونے والے افراد کی تصاویر بھی شائع کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان افراد کی گرفتاری کا سبب حزب اللہ سے وابستگی نہیں تھی بلکہ انہیں گرفتار کیا گیا ہے کیونکہ وہ مسلمان ہیں اور جن مراکز کو نشانہ بنایا گیا ہے وہ جرمن حکومت کی اجازت سے قائم کئے گئے ہیں۔

اگر آپ ہالوکاسٹ اور یہودیوں پر نازی جرمنوں کے حملوں کی فلموں اور تصویروں کا مشاہدہ کریں اور پھر حزب اللہ پر پابندی کے بہانے جو حملے موجودہ جرمن پولیس کے حملوں کو دیکھیں تو آپ کا نازی جرمنی اور موجودہ جرمنی کے درمیان کوئی خاص فرق نظر نہيں آئے گا؛ فرق صرف یہ ہے کہ جرمنی میں یہود دشمنی، مسلم دشمنی میں تبدیل ہوچکی ہے اور افراد کو صرف مسلمان ہونے کی پاداش میں نشانہ بنایا جاتا ہے گوکہ بہانہ یہ ہے کہ یہ لوگ حزب اللہ کے ہمدرد ہیں! انہیں ان کے شہری حقوق کو نظر انداز کرکے گرفتار کیا جارہا ہے۔

بےشک اسرائیل نواز جرمن حکمرانوں کا یہ فیصلہ لبنان کے ساتھ اس کے دو طرفہ تعلقات کو بھی متاثر کرے گا اور ان اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بھی متاثر کرے گا جو آزاد اور خودمختار ہیں۔ اور ان اسلامی ممالک سے وہ ممالک مراد نہیں ہیں جن کا انتظام صہیونیوں اور یہودیوں کے گماشتوں کے ہاتھ میں ہیں۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد تقریبا 75 سال گذر چکے ہیں اور اس جنگ کے بعد قابض قوتوں نے جرمنی کے محب وطن قوتوں کو اقتدار سے دور کرکے صہیونی جرمنوں کو اس ملک پر مسلط کر دیا۔  
بعض لوگوں کا تصور شاید یہ ہو کہ صہیونی صرف یہودیوں کو کہا جاتا ہے لیکن جو لوگ اس سلسلے میں تحقیق کرچکے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ صہیونیت کا تصور محض یہودیت تک محدود نہیں ہے، جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے یہودی صہیونی نہیں ہیں اور صہیونی تفکر کو مسترد کرتے ہیں، اور حتی کہ ان میں سے بعض آرتھوڈاکس یہودی ہیں جو صہیونی تفکر کو کفر کے مترادف سمجھتے ہیں اور صہیونیوں کو کافر سمجھتے ہیں۔

صہیونیت ایک تحریک ہے جس کی بنیاد یہودیوں نے رکھی تھی مگر اس تحریک نے دوسرے مذاہب اور اقوام و ادیان میں سے بہت سوں کو اپنے سے منسلک کردیا ہے۔

صہیونی مختلف افراد کو مختلف روشوں سے اپنا گماشتہ اور نوکر بنانے کی روشوں سے اچھی طرح واقف ہیں؛ وہ سیاستدانوں کے کمزور پہلؤوں کو بہت جلد تلاش کرلیتے ہیں جو حقیقتا ایک فن اور ایک ہنر ہے جو ان کے پاس ہے۔

بطور مثال ہمارے قارئین و صارفین میں سے کئی لوگوں کو سابق امریکی صدر بل کلنٹن اور مونیکا لیونسکی کا جنسی اسکینڈل یاد ہوگا؛ لیکن کیا آج تک کسی نے تحقیق کی ہے اور کیا کسی نے پوچھا ہے کہ کس نے امریکی صدر کے دفتر کے اندر آواز ریکارڈ کرنے کا آلہ اور ویڈیو بنانے کے لئے کیمرا ، رکھا تھا اور کیسے؟ کیا کسی نے آج تک اس موضوع کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے؟

کیا بیضوی دفتر (Oval Office) دنیا کا محفوظ ترین مقام نہيں ہے؟ [کیا کلنٹن کے بعد صدور کے دفاتر میں صہیونیوں نے اس طرح کے آلات بیضوی آفس میں نصب نہيں کئے ہیں؟]

اگلا سوال یہ ہے کہ کلنٹن کے اسکینڈل سے متعلق بصری اور صوتی ریکارڈز کو بالکل اسی وقت کیوں نشر کیا گیا جب مسٹر کلنٹن اور صہیونیوں کے درمیان تعلقات خراب ہوئے تھے؟ اور جب مسٹر کلنٹن نے صہیونیوں کی خواہشات کو عملی جامہ پہنایا اور ان کی پیروی کا وعدہ دیا تو پورا اسکینڈل کیوں منظر عام سے غائب ہوا؟

جس نکتے کی وضاحت آج تک سامنے نہیں آسکی ہے، یہ ہے کہ ہٹلر نے جرمنی میں یہودیوں کو کیوں قتل کیا؟

شاید ہم سے بہت سوں کو معلوم نہ ہو کہ دوسری عالمی جنگ میں صہیونیوں کے جنگ کے دونوں فریقوں سے دوستانہ تعلقات تھے اور جب امریکہ جنگ میں کود پڑا اور ہٹلر نے تاریخی غلطی کا ارتکاب کرتے ہوئے سوویت اتحاد پر حملہ کیا اور صہیونیوں کو یقین ہوا کہ نازی جرمنی ہار جائے گا تو انھوں نے اپنا سرمایہ فریق مقابل کے ممالک میں منتقل کیا۔ اور اپنے زیر تسلط بینکوں کے ذریعے امریکہ اور برطانیہ کو بڑے بڑے قرضہ جات دے کر انہیں اپنا مرہون منت بنایا اور جنگ میں بھی اپنا حصہ ڈالا۔

یہودی سرمائے کی دشمن ممالک میں منتقلی اور امریکہ اور برطانیہ کو قرضہ جات دینے کے بعد، یہود دشمنی جرمنی میں شدید تر ہوئی اور صہیونیوں کی بھی یہی خواہش تھی کہ جرمنی میں یہودیوں کا قتل عام کیا جائے تاکہ باقی ماندہ یہودی فلسطین کی طرف ہجرت کریں، [جس کو برطانیہ نے بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں ہی اسی مقصد سے اپنے قبضے میں لے لیا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ فلسطین میں یہودی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ چنانچہ جرمنی میں یہودیوں کا قتل عام اسرائیل نامی صہیونی ریاست کی تاسیس کی تمہید سمجھا جاتا ہے]۔

مختصر یہ کہ مختلف ممالک کی مقتدر لابیوں میں صہیونیت کے اثر و نفوذ کا مسئلہ اسی وقت سامنے آیا۔

آج صہیونی نہ صرف امریکی طاقت کی لابیوں میں اثر و نفوذ رکھتے ہیں بلکہ بہت سے دوسرے ممالک کے مقتدر حلقوں میں بھی صہیونیوں کا اثر و رسوخ روز روشن کی طرح عیاں ہے؛ اور انھوں نے بہت سے ممالک کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اپنے نوکروں اور گماشتوں میں تبدیل کردیا ہے۔

ہم نے بہت سوں نے شاید ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں صہیونی لابیوں کے بارے میں سنا ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ لابیاں تمام تر یورپی ممالک نیز بعض اسلامی ممالک اور بعض مشرقی ایشیائی ممالک میں بھی بہت طاقتور اور بااثر ہیں، [یہاں تک کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے حزب اللہ کے خلاف جرمنی کے اقدام پر بڑے سکون و اطمینان کا اظہار کیا ہے!]۔

اسرائیل نواز جرمنی میں حزب اللہ پر دہشت گرد الزام لگا کر اس مزاحمتی جماعت کا نام بزعم خود دہشت گرد جماعتوں کی فہرست میں درج کرنے کی بحث کافی عرصے سے جاری تھی یہاں تک کہ ہائیکو ماس (Heiko Josef Maas) نے اس ملک کی وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالا اور بہت مشہور ہے کہ مسٹر ہائیکو ماس صہیونیوں کے حمایت یافتہ اور ان کے عقیدتمند سیاستدانوںوں میں شامل ہیں؛ مسٹر ماس کے آنے کے بعد حزب اللہ کے نام کے جرمنی کی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں اندراج کا امکان فراہم ہوا۔

حالانکہ مشہور ہے کہ یہودیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والوں میں اسی مسٹر ماس کے اسلاف نے بہت خوفناک کردار ادا کیا ہے۔ گویا وہ چاہتا ہے کہ فلسطینی عوام کے حقو، مسلمانوں کے حقوں اور لبنانیوں کے حقوق پامال کرکے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنا چاہتا ہے۔ [لیکن سوال یہ ہے کہ وہ یہ کفارہ اپنے ملک جرمنی اور اپنے خاندان کی جیب سے نہیں دے رہا بلکہ مسلمانوں، فلسطینیوں اور لبنانیوں کی جیب سے کیوں دینا چاہتا ہے؟]

وہ اپنے اسلاف کے گناہ بخشوانا چاہتا ہے لیکن اس کا اقدام خود گناہ کبیرہ ہے۔

قطعی طور پر جو فیصلہ تاریخ نے ہٹلر اور اس کی یہود دشمن پالیسیوں کے سلسلے میں دیا ہے وہی فیصلہ جدید جرمنی اور دوسرے مغربی ممالک کی مسلم دشمن پالیسیوں کے بارے میں بھی وہی فیصلہ سنائے گی اور وہ دن بھی آئے گا کہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور اس کے وزیر خارجہ ہائیکو ماس اور دوسرے مغربی حکمرانوں کی اولادیں مسلمانوں سے معافیاں مانگیں گے اور اپنے آباء و اجداد کی بدسلوکیوں کے نتیجے میں معذرت خواہ ہونگے اور ان کے گناہ بخشوانے کی کوشش کریں گی۔

جو کچھ فلسطین میں آج ہورہا ہے اور جو مظالم تقریبا ایک صدی سے یہودیوں کے ہاتھوں فلسطین کے باسیوں پر ڈھائے جارہے ہیں، یقینا ان سب میں جرمنوں کا ہاتھ ہے اور ان تمام ظالمانہ اقدامات کی دستاویز جرمنوں نے غاصب یہودیوں کے ہاتھ میں تھما دی ہے۔

جرمن حکمران ـ حتی کہ عوام ـ کو گذشتہ 75 برسوں سے یہودیوں کے آگے سجدہ ریز ہونا پڑ رہا ہے اور ان کا یہ سجدہ کافی طویل ہوچکا ہے، صرف اس لئے کہ یہودی ان کا گناہ بخش دیں، چنانچہ جرمن حکام کو خبردار رہنا چاہئے اور ایسا کچھ بھی نہيں کرنا چاہئے کہ ان کی اولادیں 750 برسوں تک مسلمانوں کے سامنے سجدہ ریز ہوں اور ان نے اپنے گناہوں کی معافی مانگتی رہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: ڈاکٹر عماد آب شناس؛ سیاسی تجزیہ نگار عماد آب شناس، کمپیوٹر انجینئرنگ اور تعلقات عامہ (تخصص: صحافت)، مینجمنٹ انفارمیشن سسٹمز میں ماسٹرز، سیاسیات میں گریجویشن، بین الاقوامی تعلقات میں ایم فل اور سیاسیات میں پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر ہیں۔  
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

تبصرے
Loading...