حزب اللہ کے خلاف جرمنی کے غلط فیصلے کے مختلف پہلو اور خطرناک نتائج

امریکہ اور اس کے حواری یورپی ممالک کی طرف سے حزب اللہ کے خلاف ہونے والے اقدامات نئے نہیں ہیں لیکن جرمن حکومت کی طرف سے حزب اللہ کی سرگرمیوں پر پابندی اور اس مزاحمتی جماعت کا نام مبینہ دہشت گرد جماعتوں کی اپنی سی فہرست میں قرار دینا مختلف اور نئے قابل غور پہلؤوں کا حامل اقدام ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ جرمن حکام نے حزب اللہ کے خلاف اس اقدام کے لئے جو سبب بیان کیا وہ یہ تھا کہ “حزب اللہ غاصب صہیونی ریاست کا خاتمہ چاہتی ہے” حالانکہ یہ بہت سست اور مہمل سا بہانہ ہے جو جرمنی میں حزب اللہ کی سرگرمیوں پر پابندی اور اس ملک میں مقیم لبنانی شہریوں کی گرفتاری کا جواز فراہم کرنے سے قاصر ہے؛ سوا اس کے کہ ہم کہہ دیں کہ جرمنی اسرائیل کے ایک مہمل سے سپاہی میں تبدیل ہوچکا ہے اور جو بھی غاصب ریاست کا مخالف ہو اس ملک میں اس کا تعاقب ہوتا ہے اور اس کو سزا دی جاتی ہے! بہرحال سوال یہ ہے کہ جرمنی نے حزب اللہ کے خلاف یہ بلا جواز اقدام کیوں کیا؟

گوکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی پر صہیونیوں کا تسلط ناقابل انکار ہے لیکن حالیہ عشروں میں ـ خاص طور پر سلامتی کے مسائل میں ـ تحریک مزاحمت اور صہیونیوں کے درمیان جرمنی کا کردار ایک ثالث کا کردار تھا اور اس نے حزب اللہ اور غاصب ریاست کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے سلسلے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا؛ اور حزب اللہ کے خلاف حالیہ اقدام سے پہلے جرمن حکومت نے اسرائیلی مفادات کو اپنے مفادات پر مقدم رکھنے کے حوالے سے کوئی عجلت زدہ اقدام نہیں کیا تھا۔ چنانچہ اس اقدام کا سب سے پہلا نتیجہ یہ ہوگا کہ جرمن حکومت اس کے بعد کسی بھی مسئلے میں کبھی بھی ثالثی کا کردار ادا نہیں کرسکے گی مگر یہ کہ یہ حکومت اپنے فیصلے سے پسپا ہوجائے جس کے لئے اس نے کوئی دستاویز فراہم نہیں کی ہے۔  

علاوہ ازیں، جرمن حکومت جانتی ہے کہ اس کا حالیہ اقدام جرمنی کی سرحدوں سے باہر قابل نفاذ نہیں ہے اور یورپی اتحاد نے برلن کے اس اقدامات سے دوری کا اظہار کیا ہے چنانچہ یہ اقدام جرمن حکومت کی طرف سے محض صہیونی ریاست کی پذیرائی اور خدمت کے زمرے میں آتا ہے؛ اور اگلے دنوں میں واضح ہوجائے گا کہ اس فیصلے کے نتیجے میں جرمنی نے کیا کھویا اور کیا پایا ہے؟ لیکن وقت کے لحاظ سے، یہ فیصلہ اس ملک کی موجودہ سیاسی اور معاشی صورت حال سے براہ راست تعلق رکھتا ہے۔ اس وقت ایک تشہیری مہم چلائی جارہی ہے کہ لبنان کی حکومت ایران اور حزب اللہ کی حکومت ہے اور اس حکومت کو کسی صورت میں کامیابی سے ہمکنار نہیں چاہئے!  اور لبنان کے بعض حالیہ واقعات سے بھی ظاہر ہورہا ہے کہ اسی سوچ کی حامل لابیوں کو تقویت پہنچائی جارہی ہے۔  

لبنانی حکومت پر دباؤ ڈالنے کا ایک اہم ترین اوزار معاشی صورت حال سے تعلق رکھتا ہے اور مغربی ممالک سے معاشی امداد کے حوالے بیروت کو ملنے والے تمام تر پیغامات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ لبنان کو بلیک میل کرکے اپنی لئے رعایتیں مانگ رہے ہیں! لبنان میں ڈالر کی قیمت میں اضافے سے لے کر تیل کا مسئلہ ـ اور اس مسئلے میں اسرائیل اور امریکہ کے کردار سے لے کر جرمنی کے حزب اللہ مخالف اقدامت تک ـ ایک ہی پانی ہے جو ایک پن چکی کو فراہم کیا جارہا ہے؛ لیکن اس کے بالمقابل کچھ سوالات اور نکات بھی ہیں جس اس فیصلے کے جواب میں اٹھائے جاسکتے ہیں:  

– حزب اللہ ایک مزاحمتی تنظیم کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی جماعت بھی ہے جس کی اپنی پارلیمانی پارٹی ہے، لبنانی پارلیمان میں اس کی کافی ساری نشستیں بھی ہیں اور لبنان کی حکومت میں اس کی اپنی نمائندگی ہے، تو ایسی صورت میں یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک بیرونی ملک اس جماعت پر دہشت گردی کا الزام لگائے اور ایک خودمختار ملک میں اس جماعت کے سیاسی دھڑے کو ممنوعہ دھڑا قرار دے؟

– حزب اللہ ایک سیاسی جماعت ہے جو لبنانی عوام سے تشکیل پائی ہے اور اسے لبنانی عوام میں وسیع مقبولیت حاصل ہے اور اگر ایک غیر متعلقہ بیرونی حکومت حزب اللہ پر دہشت گردی کا الزام لگاتی ہے تو یہ الزام ان تمام لبنانی باشندوں کی طرف بھی جائے گی جو حزب اللہ کے رکن ہیں یا اس کے حامی اور وفادار ہیں اور اسے عرب دنیا کی ہیرو (Hero) جماعت سمجھتے ہیں جس سے پہلی بار عرب دشمن صہیونی ریاست کو شکست سے آشنا کردیا ہے؟ چنانچہ لبنان میں اب جرمنی کے سلسلے میں لبنانیوں کی نگاہیں پہلے جیسی نہيں رہیں گی بلکہ اس کو دشمن محاذ میں کھڑے اسرائیل نواز ملک کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔

– حزب اللہ عالم اسلام میں بھی نہایت محبوب اور مقبول جماعت ہے اور اس کی مقبولیت لبنان کی سرحدوں تک محدود نہیں ہے بلکہ عرب دنیا اور عالم اسلام میں اس کے حامیوں کی تعداد لبنان سے بھی زیادہ ہے، چنانچہ جرمنی نے صرف حزب اللہ کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ وہ تمام عرب اور مسلم عوام جو پوری اسلامی دنیا میں حزب اللہ اور اس کی فکر کی حمایت کرتے ہیں اور درحقیقت اسلامی محاذ مزاحمت کے رکن یا حامی ہیں، صہیونی جرمنوں کے اس الزام کی زد میں آئے ہیں اور طبعی امر ہے کہ یہ سارے لوگ اب جرمنی کو ایک غیر جانبدار یا دوست ملک کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے۔ فلسطینی مزاحمت کی مؤثر ترین مجاہد جماعتوں حماس اور جہاد اسلامی نیز شام اور ایران کی حکومتوں نیز عراق کی تمام مزاحمتی جماعتوں کی طرف سے حزب اللہ کی حمایت اور جرمن فیصلے کی شدید مذمت اس حقیقت کی گواہ ہے۔

ادھر جب ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ، صہیونی-یہودی ریاست اور یہودی ریاست کے حواری سعودی اور اماراتی حکمرانوں نے جرمنی کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا جس سے جرمنی کے فیصلے کے اصل محرکات کا ادراک کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے؛ اور معلوم ہوتا ہے کہ جرمن حکومت نے کن کن کے مفادات کو سامنے رکھ کر یہ غلط اور غیر مستند فیصلہ کیا ہے؛ چنانچہ فطری امر ہے کہ اس فیصلے کے نتیجے میں جرمن حکومت کو بالکل اسی طرح کا رد عمل وصول کرنے کی توقع رکھنا چاہئے جو اپنی کسی بھی جارحیت کے نتیجے میں صہیونی ریاست ہوا کرتی ہے۔ بالفاظ دیگر مشرق وسطی میں صہیونی ریاست کے زمرے میں آنے والے ممالک میں ایک ملک کا اضافہ ہوا ہے جس کا نام جرمنی ہے، اور حزب اللہ کا دہشت گرد جماعتوں کی فہرست سے ہٹانا در حقیقت جرمنی کا نام مزاحمت مجاہدین کے ہاں کی اس فہرست سے ہٹانے کے مترادف ہوگا جو مشرق وسطی کی لمبی چوڑی جنگ میں جائزہ نشانہ سمجھے جاتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: حسين الموسوی
ترجمہ و اضافات: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔

/110


تبصرے
Loading...