ہم امریکہ کی عمر کے آخری ایام سے گذر رہے ہیں: چالمرز جانسن

لاتعداد امریکی دانشوروں کے بعد اب امریکی نظریہ پرداز چارلس جانسن نے بھی گویا فوکویاما کے نظریئے “اختتام تاریخ” کی غلطی کی اصلاح کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ “ہم امریکی جمہوریہ کے آخری ایام سے گذر رہے ہیں”۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، امریکی مصنف و نظریہ پرداز چالمرز جانسن (Chalmers Ashby Johnson) کا کہنا ہے کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کو سنہ ۱۹۴۱ع‍ سے مسلسل الرٹ رکھا گیا ہے یا پھر یہ جنگ کے آغاز کے لئے اسے اپنی افواج کو الرٹ رکھنا پڑا ہے۔
چالمرز کے بقول: “ابتدا سے لے کر آج تک امریکی سرکردگان کی غلط پالیسیوں اور مفاد پرستانہ فیصلوں نے انہیں آج ایسی راہ پر گامزن کردیا ہے جس سے تاریخ کے بہت سے حکمرانوں کو گذرنا پڑا ہے۔ جو کچھ امریکی آئین کی تشکیل کے آغاز میں نمایاں ہوا تھا اس کیفیت سے بالکل مختلف ہے جس کا آج اس آئین کو سامنا کرنا پڑا ہے اور یہ امریکی نظام کے زوال اور موجودہ دنیا میں اس کے اختتام کی علامت ہے”۔
۱۹۸۰ع‍ کے عشرے کے اختتام اور ۱۹۹۰ کے عشرے کے آغاز پر روس کا زوال دیکھ کر جہاں سوویت روس کے اشتراکی اور شیوعی نظریہ پردازی کی دنیا پر مایوسی کے بادل چھائے ہوئے تھے، اور امریکی لبرلیت کے وکالت کار جذباتی ہو کر امریکی غلبے اور لبرلیت کی عالمی حکمرانی کے نغمے گا رہے تھے، وہاں ہنٹنگٹن نے تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ پیش کیا اور یوشی ہیرو فوکویاما (Yoshihiro Francis Fukuyama) نے “اختتام تاریخ” (The End of History) کا نظریہ پیش کیا؛ اور پھر سیموئل ہنٹنگٹن (Samuel Phillips Huntington) نے نظریہ “تہذیبوں کا تصادم” (The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order)، دے ڈالا۔ ہنٹنگٹن تو سنہ ۲۰۰۸ میں چل بسے گوکہ انھوں نے بھی افغانستان اور عراق نیز لبنان اور فلسطین میں بھی اور مالیاتی دنیا میں بھی امریکہ کی کچھ بڑی ناکامیوں کو دیکھ لیا مگر جاپانی نژاد فوکویاما کو آخرکار ۲۰۱۸ میں اپنے نظریئے سے پلٹنا پڑا اور اب ہر روز کہیں کوئی مضمون امریکہ کے اختتام کے بارے میں شائع ہورہا ہے اور عجب یہ کہ امریکی بالادستی کے خاتمے کی تمام تر پیش گوئیاں امریکہ کے اندر سے سامنے آرہی ہیں۔ گویا تاریخ تو اختتام کو نہیں پہنچی مگر امریکہ اختتام کے مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔
امریکی مرکزی انٹیلی جنس ایجنسی (CIA) کے سابق مشیر چالمرز چالمرز جانسن بھی ان ہی امریکی اکابرین میں شامل ہیں جنہیں امریکی جمہوریہ کے خاتمے کے بارے میں بولنا پڑا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ امریکی جمہوریہ کی حیات کے آخری دن عنقریب آرہے ہيں۔ انھوں نے اس سلسلے میں ایک کتاب “مکافات عمل: امریکی جمہوریہ کے آخری دن” (Nemesis: The Last Days of the American Republic) لکھی ہے جس کا فارسی ترجمہ “مکافات؛ آخرین روزهای جمهوری امریکایی” کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ اس کتاب کا لُبِّ لُباب درج ذیل ہے:
چالمرز کے نکتے:
تجربے سے ثابت ہے کہ تمام بڑی بڑی سلطنتیں نشیب و فراز سے گذر کر کبھی کبھی اپنی طاقت کے عروج کے ایام میں زوال پذیر ہوکر شکست و ریخت کا شکار ہوچکی ہیں؛ اور سلطنت روم، سلطنت عثمانیہ، سلطنت برطانیہ وغیرہ اس تسلسل کی عینی مثالیں ہیں جو اس قاعدے کی تصدیق کررہی ہیں۔ اور آج ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ریپبلکن اور ڈیموکریٹ سرغنوں کی بیوقوفانہ اور جنگی جنون پر مبنی پالیسیوں کے بدولت امریکہ دنیا کی عظیم ترین اقتصادی طاقت سے دنیا کی مقروض ترین ریاست میں تبدیل ہوچکا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، امریکہ کی ۹۰ فیصد دولت ۱ فیصد آبادی کے پاس ہے اور امیر و غریب کے درمیان کا فاصلہ حالیہ برسوں میں شدت سے بڑھ چکا ہے، اتنا کہ جس کی مثال امریکی تاریخ میں نہیں ملتی؛ اس معاشرتی دراڑ کے نتیجے میں معاشرے کے کمزور اور زدپذیر طبقات کو شدید ترین دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو امریکی معاشرے کی سطح پر سماجی بحرانوں اور وسیع احتجاجات کا باعث ہوا ہے۔
رومی جمہوریہ کی پوری تاریخ ـ عروج سے زوال تک ـ دو صدیوں پر محیط تھی اور یہ جمہوریہ انتہائی عروج کی حالت میں زوال سے دوچار ہوئی۔ اب امریکہ کی تاریخ کو بھی دو صدیاں ہورہی ہیں اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ امریکہ بھی مکمل طور پر شکست و ریخت سے دوچار ہوچکا ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ امریکہ کی آج کی صورت حال سنہ ۱۷۸۷ع‍ کے آئین سے شباہت رکھتی ہے تو یہ کہنے کی ذمہ داری ان ہی پر عائد ہوتی ہے۔ [کیونکہ] حقیقت یہ ہے کہ اس وقت امریکی صدر اس طرح سے حکومت پر مسلط ہوچکا ہے کہ شاید کوئی بادشاہ بھی اس قدر مسلط نہ ہوسکے۔
اہم ترین موضوعات میں سے ایک یہ ہے کہ وزارت دفاع اور پینٹاگون کا بجٹ، دوسرے وزارت خانوں اور اداروں اور حکومت کے دوسرے شعبوں کے بجٹ کو متاثر کررہا ہے اور اس عمل کاری میں جمہوری فیصلہ سازی کو کمزور کیا گیا ہے۔
ریاستہائے متحدہ امریکہ کو سنہ ۱۹۴۱ع‍ سے مسلسل الرٹ رکھا گیا ہے یا پھر یہ جنگ کے آغاز کے لئے اسے اپنی افواج کو الرٹ رکھنا پڑا ہے۔ (گور وڈال (Eugene Luther Gore Vidal) نے امریکی سائنسدانوں اور دانشوروں کے فیڈریشن (Federation Of American Scientists) کے فراہم کردہ اعداد و شمار کی رو سے دوسری عالمی جنگ اور سنہ ۲۰۰۱ع‍ کے درمیان سمندر پار علاقوں میں ۲۰۱ امریکی کاروائیوں کی فہرست پیش کی ہے جن میں جنگ شروع کرنے والا ملک امریکہ تھا)۔
سوچ و بچار کے لحاظ سے سیاسی اور عسکری قیادت کی کوتاہیوں اور ناکامیوں کی تین واضح مثالیں حسب ذیل ہیں:
افغانستان اور عراق میں باضابطہ طور پر نہتے شہریوں کا قتل عام؛ دنیا بھر میں جانی پہچانی نیز خفیہ قیدخانوں کا جال بچھانا، جن میں ہمارے فوجی یا جاسوسی اداروں کے اہلکار قیدیوں پر تشدد کرتے رہتے ہیں؛ اور یہ کہ سنہ ۲۰۰۳ع‍ میں بغداد پر حملے کے دوران امریکی فوج کا نقطہ نظر بنی نوع انسان کے قدیم ترین اور نہایت مشہور و معروف آثار کی نابودی اور بےحرمتی پر منتج ہوا۔
آج لگتا ہے کہ گویا ہماری حکومت اور فوج جوزف کانراڈ (Teodor Józef Konrad Korzeniowski) کی تاریکیوں کے قلب میں پھسل کر گر چکی ہے۔ دعوی کیا جارہا ہے کہ عراق کی ابوغریب جیل اور گوانتامو کے قیدخانے میں ٹارچر اور تشدد کے واقعات چند افراد کی سرکشی کا نتیجہ تھے اور یہ کچھ حادثاتی واقعات تھے، لیکن ہماری حکومت اور افواج کے ہاتھوں منظم تشدد کے سلسلے میں بےشمار رپورٹیں نشر ہوتی آئی ہیں جن کی بنیاد بھی حکومت اور فوج سے حاصل ہونے والی دستاویزات ہیں اور یہ دستاویزات اُس دعوے کی نفی کرتی ہیں۔
اس مسئلے میں کوئی شک نہیں ہے کہ امریکہ جمہوریہ کے ابتدائی برسوں سے سنہ ۱۹۹۰ع‍ تک، انتظامیہ کی طاقت مسلسل نشوونما کا سبب بھی یہ تھا کہ ہم بہت سے تنازعات میں لڑ بھڑ چکے تھے اور درحقیقت ہمارے ہاں عسکریت پسندی کو نشوونما ملی تھی جس کی وجہ سے یوں لگتا تھا کہ گویا ہماری انتظآمیہ طاقتور ہوچکی ہے۔
ہماری تاریخ میں چند [امریکی] صدور نے طاقت کا بےتحاشا استعمال کیا؛ لیکن ساتھ ساتھ امریکی آئین کی بساط کو بھی بڑی احتیاط کے ساتھ لپیٹ لیا گیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ سنہ ۲۰۰۰ع‍ میں سپریم کورٹ نے انتخابی نتائج میں مداخلت کردی اور جارج ڈبلیو بش کو عدالتی حکم پر امریکہ کا تینتالیس واں صدر بنایا گیا، یہ واقعات کچھ ایسے تھے جن کی مثال سابقہ امریکی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ اس کے بعد جارج ڈبلیو بش نے وہ کچھ کر دکھایا جس کو حتی کہ دائیں بازو کے کالم نگار جارج ول (George Will) نے بش ڈاکٹرائن کو مطلق العنان بادشاہی کا ڈاکٹرائن قرار دیا۔ اور بائیں بازو کے تجزیہ نگار جیمز ریج وے (James Ridgeway) نے لکھا کہ “ایک ایسی منظم اور طویل المدت پالیسی جو قانونی حکومت کو نیست و نابود کردیتی ہے”۔
اس امر کی انجام دہی میں بش نے ایک سیاسی بحران کے پھٹ جانے کے اسباب فراہم کئے جو اس سیاسی بحران سے مشابہت رکھتا ہے جو جولیس قیصر (Julius Caesar) نے رومیوں کے آئین کے لئے پیدا کیا تھا۔ اگر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے پاس اس بحران پر غلبہ پانے کا وسیلہ اور عزم و ارادہ نہ ہو تو ہم یقینا ریاست ہائے متحدہ نامی جمہوریہ کے آخری ایام میں داخل ہوچکے ہیں۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے بانیوں نے اس بات کو بخوبی سمجھ لیا اور ایک جمہوریہ کی ایک شکل فراہم کردی تا کہ اس صورت حال کا سدّ باب ہو؛ لیکن ایک عظیم اور جنگ کے لئے تیار فوج، تقریبا پےدرپے جنگوں، فوجی کینزینزم (Military Keynesianism یا اقتصادی ترقی کی غرض سے فوجی اخراجات میں اضافے پر مسلسل اصرار) اور تباہ کن عسکری اخراجات کا آمیزہ ایک استعماری جمہوریہ کے فائدے میں تھا جس نے ہماری جمہوریہ کے ڈھانچے کو تباہ کردیا یہاں تک کہ آج ہم اپنی سلطنت (Empire) کو بچانے کے لئے اپنی جمہوریت کی قربانی دینے پر مجبور ہورہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

تبصرے
Loading...