مذھب اور عقل

یک روشن حقیقت ہے جس کا جلوہ “عقل” کے آئینہ میں نظر آتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ آئینہ دھندلا نہ ہو۔ ورنہ اپنی کدورت سے چہرہ کو داغدار بنائے گا۔ عیب اس کا ہو گا۔ حقیقت پر حرف آئے گا۔ منشاء یہ ہے کہ مذہب پر صحیح عقل کی روشنی میں تبصرہ کیا جائے اور پاکیزہ اسلام غلط توہمات اور باطل اعتراضات سے بری ہو جائے۔ بالکل سچا اور بے عیب نظر آئے اور عقل و مذہب کے تفرقہ کا خیال برطرف ہو۔ کیونکہ عقل و مذہب میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ مذہب عقل کو آواز دیتا ہے اور عقل مذہب کو ثابت کرتی ہے۔ متن:

مذہب:ایک روشن حقیقت ہے جس کا جلوہ “عقل” کے آئینہ میں نظر آتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ آئینہ دھندلا نہ ہو۔ ورنہ اپنی کدورت سے چہرہ کو داغدار بنائے گا۔ عیب اس کا ہو گا۔ حقیقت پر حرف آئے گا۔ منشاء یہ ہے کہ مذہب پر صحیح عقل کی روشنی میں تبصرہ کیا جائے اور پاکیزہ اسلام غلط توہمات اور باطل اعتراضات سے بری ہو جائے۔ بالکل سچا اور بے عیب نظر آئے اور عقل و مذہب کے تفرقہ کا خیال برطرف ہو۔ کیونکہ عقل و مذہب میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ مذہب عقل کو آواز دیتا ہے اور عقل مذہب کو ثابت کرتی ہے۔

مگر عقل اور وہم میں مدتوں سے کاوش چلی آتی ہے “وہم، بھیس بدل بدل کر عقل کے راستے سے ہٹاتا رہتا ہے۔ پہلے بھی کدتھی ، اب بھی ضد ہے۔ فرق اتنا ہے کہ پہلے توہمات جہالت کے دور کی پیداوار تھے اس لئے ان کا پردہ جلدی چاک ہو جاتا تھا۔ اب “نئی روشنی” کے علمی پندار کا نتیجہ ہیں جبکہ سائنس بڑی ترقی کر گیا ہے اس لئے ملمع بہت اچھا ہونے لگا۔ ایمی ٹیشن ایسا تیار ہوتا ہے کہ اصل اور نقل میں تمیز دشوار ہوتی ہے۔ کوٹو جم اصلی گھی کو مات کر رہا ہے۔ اسی بھاؤ بکتا ہے۔ اس کہیں اصلی گھی ہے بھی تو اس کی قدروقیمت رائگاں۔

ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی

اب آبروئے شیوہٴ اہل نظر گئی

حکومتیں زیادہ تر عقل و مذہب کے ہمیشہ سے خلاف رہیں۔ کیونکہ یہ دونوں حکومتوں کے ظلم و استبداد اور من مانی کارروائیوں میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں مگر مذہب کو اپنی طاقت پر ہمیشہ بھروسا رہا اسے جتنا مٹایا گیا اتنا نمایاں ہوتا رہا۔ یہ اس کی فطری سچائی کا کرشمہ ہے۔

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے

اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبائیں گے

عقل ہر چند جھوٹ مبالغہ کی گنجائش مطلق نہیں رکھتی مگر وہم اکثر عقل کا سوانگ بھر لیتا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو عقلائے زمانہ عقلی باتوں میں مختلف نہ ہوتے اور آپس میں کبھی دست و گریبان نہ ہوتے۔

بدیں وجہ، خدا، رسول، کتاب، روح، عقائد اور مراسم میں مذہب اور عقل کے سچے فیصلے پیش کئے جاتے ہیں تاکہ توہمات کو دخل در معقولات کا موقع نہ ملے۔

بے شٹک رواسم جو اکثر آس پاس کی قوموں کی دیکھا دیکھی رواج پا چکے ہیں وہ آج فضا میں بدنما، ترقیوں کو مانع، مذہب کو نقصان رساں، عقل کے رہزن، حیثیت کے دشمن ہیں۔ ان کو بدلنا ضروری ہے۔

یعنی عقائد کے بارے میں غلط توہمات کا دفعیہ۔ نقصان رساں مراسم میں ترمیم درکار ہے۔

اس لئے مراسم کی حقیقت اور عقیدوں کی غلط تعبیروں کے عقارے کھولے ہیں۔ جو “اصلاح” کے پردہ میں مفسدہ پردازی کا توڑ، ہوسناک معترضین کے چیلنج کا دفیعہ، ملمع کار انشاء پردازوں کے نوٹس کا جواب، دعویداران فہم سے تبادلہٴ خیال کا الٹی میٹم ہیں۔

موجوہ صناعیوں کے دور میں تخیل کی فیکٹری میں پرانے اور نئے سبھی قسم کے شبہات ڈھلتے ہیں۔ مصلحان قوم، صاحبان فہم، اہل نظر، اہل قلم کا یہ فرض ہے کہ وہ ان شبہات کی حقیقت کو ظاہر کریں۔

عقیدوں میں مداخلت، معاشرت میں تغیر، رواج میں تبدل، دستور میں دست اندازی کبھی تو حقیقت پروری کی بنیاد پر ضروری اور مناسب ہوتی ہے اور کبھی صرف “فیشن” کے لحاظ سے اس کو اختیار کیا جاتا ہے۔ اس صورت میں وہ تمدن کا فلسفہ اور خودآرائی کا آئینہ نہیں بلکہ خودبینی اور خودنمائی کا آئینہ ہے جو عقل اور استدلال کی چٹان پر گر کر پاش پاش ہوتا ہے۔ دل کہتا ہے:

از قضا آئینہ چینی شکست

اور دماغ خوش ہو کر آواز دیتا ہے۔

خوب شد! اسباب خودبینی شکست

جدت پرستوں کی مکدر کی ہوئی ہوا ہے جو سات سمندر پار سے ہیضہ اور طاعون کی طرح آئی ہے اور پھیل گئی ہے۔ فیشن کی وبا عام ہے مرد مونچھیں منڈاتے ہیں اور عورتیں سر کے بال ترشواتی ہیں۔ غرض فطرت سے جنگ کا دور دورہ ہے۔ روس میں خدا کو سلطنت سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔ ہندوستان میں بھی اینٹی گاڈ سوسائٹی بنی ہے۔ اس دباؤ کے خلاف انسانی تمدن کی صحت کو قائم رکھنا آسان نہیں مشکل کام ہے۔ پھر بھی یہ اطمینان ہے کہ جو بھی ہو عارضی بات ہے۔ آخر طبیعت غالب آئے گی اور مرض کے جراثیم ختم ہوں گے۔

وہ عقائد جن کوعقل کی تائید حاصل ہے۔ جو فطرت کی تحریک سے خون میں سرایت کئے ہوئے، رگ و پے میں پیوست، دل میں گھر اور دماغ میں خانہ بنا چکے ہیں آخر اپنی طاقت دکھلائیں گے اور غیرفطری شبہات و توہمات کی کدورت کو دور کرکے ذہن کے آئینہ کو صاف کر دیں گے۔

بے شک وہ رسمیں جو عقلی فیصلوں کے خلاف صرف بربنائے رواج قائم ہو گئی ہیں، ان کو بدلنا، رواج کو توڑنا، اور عادت کوچھوڑنا ضرور ہے۔

اس انقلاب کے لئے ہر ایک کو تیار ہونا چاہئے اور اس کی کوشش کرنا چاہئے۔ ہاں اپنا عرصہٴ حیات، خوشگوار بنانے کے لئے ان رسموں کے لحاظ سے اصلاحِ معاشرت کی ضرورت ہے۔ بیجا پابندیوں میں وقت، مراسم میں حیثیت ضائع کرنے کا موقع نہیں ہے۔

اس لئے عقیدت کی اصلی حقیقت کو پیش اور رسموں کے نقائص کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اصحاب فہم کا اعتراف، بوالہوس معترضین کا عاجلانہ اضطراب توقع دلاتا ہے کہ شبہات کی سمیت کے لئے یہ تریاق ضرور اثر کرے گا۔ معترضین کی زبانیں بند ہوں گی اور مذہب کے خلاف صدائیں خاموش ہو

تبصرے
Loading...