تہذيب نفس كے مراحل

حفاظت قبلي: اخلاقى اصول صحت كا لحاظ اور گناہوں اور برے اخلاق سے اپنے آپ كو محفوظ ركھنا نفس كو پاك كرنے كا آسان ترين اور بہترين مرحلہ ہوا كرتا ہے جب تك نفس انسان گناہ ميں آلودہ نہيں ہوا اور اس كا ارتكاب نہيں كيا تب فطرى نورانيت اور صفا قطب ركھتا ہے_ اچھے كاموں كے بجالانے اور اچھے اخلاق سے متصف ہونے كى زيادہ قابليت ركھتا ہے_

ابھى تك اس كا نفس تاريك اور سياہ نہيں ہوا اور شيطن نے وہاں راستہ نہيں پايا اور برائيوں كى عادت نہيں ڈالى اسى وجہ سے گناہ كے ترك كردينے پر زيادہ آمادگى ركھتا ہے_ جوان اور نوجوان اگر ارادہ كرليں كہ اپنے نفس كو پاك ركھيں گے اور گناہ كے ارتكاب اور برے اخلاق سے پرہيز كريں گے تو ان كے لئے ايسا كرنا كافى حد تك آسان ہوتا ہے_ كيونكہ ان كا يہ اقدام حفظ نفس ميں آتا ہے اور حفظ نفس عادت كے ترك كرنے كى نسبت بہت زيادہ آسان ہوتا ہے لہذا جوانى اور نوجوانى بلكہ بچپن كا زمانہ نفس كے پاك ركھنے كا بہترين زمانہ ہوا كرتا ہے انسان جب تك خاص گناہ كا ارتكاب نہيں كرتا وہ گناہ كے ترك پر زيادہ آمادگى ركھتا ہے لہذا جوانوں نوجوانوں اور وہ لوگ جنہوں نے ابھى تك كسى گناہ كا ارتكاب نہيں كيا انہيں ايسى حالت كى فرصت كو غنيمت شمار كرنا چاہئے اور كوشش كريں كہ بالكل گناہ كا ارتكاب نہ كريں اور اپنے نفس كو اسى پاكيزگى اور طہارت كى حالت ميں محفوظ ركھيں_ حفاظت كرنا گناہ كے ترك كرنے سےزيادہ آسان ہوا كرتا ہے اور ضرورى ہے كہ اس نقطے كى طرف متوجہہ رہيں كہ اگر گناہ كا ارتكاب كر ليا اور برے اخلاق كو اپنا ليا ور شيطن كو اپنے نفس كى طرف راستہ دے ديا تو پھر ان كے لئے گناہ كا ترك كرنا بہت مشكل ہوجائيگا_

شيطن اور نفس امارہ كى كوشش ہوگى كہ ايك دفعہ اور دو گناہ كے انجام دينے كو اس كے لئے معمولى اور بے اہميت قرار دے تا كہ اس حيلہ سے اپنا اثر رسوخ اس ميں جمالے اور نفس كو گناہ كرنے كا عادى بنا دے لہذا جو انسان اپنى سعادت ا ور خوشبختى كى فكر ميں ہے اسے چاہئے كہ حتمى طور سے نفس كى خواہشات كے سامنے مقابلہ كرے اور گناہ كے بجالانے ميں گرچہ ايك ہى مرتبہ كيوں نہ ہو اپنے آپ كو روكے ركھے_

امير المومنين نے فرمايا ہے كہ ” كسى برے كام يا كلام كو اپنے نفس كو بجالانے كى اجازت نہ دو_

آپ نے فرمايا كہ ” اپنے نفس كى خواہشات پر اس سے پہلے كہ وہ طاقتور ہوجائے غلبہ حاصل كرو كيونكہ اگر وہ طاقتور ہوگيا تو پھر وہ تجھے اپنا قيدى بنالے گا اور جس طرف چاہے گا تجھے لے جائيگا اس وقت تو اس كے سامنے مقابلہ نہيں كر سكے گا_

آپ نے فرمايا كہ ” عادت چھاجانے والا دشمن ہے_

آپ نے فرمايا كہ” عادت انسان كى ثانوى طبيعت ہوجاتى ہے_ 

آپ نے فرمايا كہ ” اپنى خواہشات پر اس طرح غلبہ حاصل كرو جس طرح ايك دشمن دوسرے دشمن پر غلبہ حاصل كرتا ہے اور اس كے ساتھ اس طرح جنگ كرو كہ جس طرح دشمن دشمن كے ساتھ جنگ كرتا ہے_ شايد كہ اس ذريعہ سے اپنے نفس كو رام اور مغلوب كر سكو_

آپ نے فرمايا كہ ” گناہ كا نہ كرنا توبہ كرنے سے زيادہ آسان ہے ہو سكتا ہے كہ ايك گھڑى كى شہوت رانى طولانى غم كا باعث ہوجائے_ موت انسان كے لئے دنيا كى پستى اور فضاحت كو واضح اور كشف كرنے كا سبب ہوتى ہے_ اور عقلمند انسان كے لئے كسى خوشى اور سرور كو نہيں چھوڑتى _

امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا كہ ” اپنے نفس كو ان چيزوں سے جو نفس كے لئے ضرر رساں ہيں روح كے نكلنے سے پہلے روكے ركھ اور اپنے نفس كے لئے آزادى اس طرح آزادى كى كوشش كر كہ جس طرح زندگى كے اسباب كے طلب كرنے ميں كوشش كرتا ہے_ تيرا نفس تيرے اعمال كے عوض گروى ركھا جا چكا ہے_

خداوند عالم قرآن ميں فرماتا ہے كہ ” جو شخص اللہ تعالى كے مقام و مرتبت سے خوف كھائے اور اپنے نفس كو اس كى خواہشات سے روكے ركھے اس كى جگہ اور مقام بہشت ميں ہے_

بہر حال حفاظت قبلى سب سے آسان راستہ ہے اور جتنا انسان اس راستے كى تلاش اور عمل كرنے ميں كوشش كرے گا يہ اس كے لئے پر ارزش اور قيمتى ہوگا_ اس جوان كو مبارك ہو جو زندگى كے آغاز سے ہى اپنے نفس امارہ پر قابو پائے ركھتا ہو اور اسے گناہ كرنے كى اجازت نہ دے اور آخرى عمر تك اسے پاك و پاكيزہ اور اللہ كے تقرب كے لئے سير و سلوك ميں ڈالے ركھے تا كہ قرب الہى كے مرتبے تك پہنچ جائے_

يكدم ترك كرنا

اگر قبلى حفاظت كے مرحلے سے روح نكل جائے اور گناہ سے آلودہ ہو جائے تو اس وقت روح اور نفس كے پاك كرنے كى نوبت آجائيگي_ روح كے پاك كرنے ميں كئي ايك طريق استعمال كئے جا سكتے ہيں ليكن سب سے بہتريں طريقہ اندرونى انقلاب اور ايك دفعہ اور بالكل ترك كر دينا ہوا كرتا ہے_ جو انسان گناہ اور برے اخلاق ميں آلودہ ہوچكا ہوا ہے اسے كيدم خدا كى طرف رجوع اور توبہ كرنى چاہئے اور اپنى روح كو گناہ كى كثافت اور آلودگى سے دھونا چاہئے اور اسے پاك و پاكيزہ كرے ايك حتمى اور يقينى ارادے سے شيطن كو روح سے دور كرے اور روح كے دروازوں كو شيطن كےلئے ہميشہ ہميشہ كے لئے بند كردے اور دل كے گھر كو اللہ تعالى كے مقرب فرشتوں كے نازل ہونے اور انوار الہى كے مركز قرار پانے كے لئے كھول دے اور ايك ہى حملہ ميں نفس امارہ اور شيطن كو مغلوب كردے اور نفس كى لگام كو مضبوط اور ہميشہ كے لئے اپنے ہاتھ ميں لئے ركھے كتنے لوگ ہيں كہ جنہوں نے اس طريقے سے اپنے نفس پر غلبہ حاصل كيا ہے اور اپنے نفس كو يكدم اور يك دفعى طريقہ سے پاك كرنے كى توفيق حاصل كر لى ہے اور پھر آخرى عمر تك اسى كے پابند رہے ہيں يہ اندرونى انقلاب كبھى واعظ او راخلاق كے پاك بنانے والے استاد كے ايك جملے يا اشارے سے پيدا ہوجاتا ہے يا ايك واقعہ غير عادى سے كہ كسى دعا ذكر اور كى مجلس ميں ايك آيت يا روايت يا چند دقيقہ فكر كرنے سے حاصل ہو جايا كرتا ہے_ كبھى ايك معمولى واقعہ مثل ايك چنگارى كے داخل ہونے سے دل كو بدل اور روشن كر ديتا ہے_ ايسے لوگ گذرے ہيں جنہيں اسى طرح سے اپنے نفس كو پاكيزہ بنانے كى توفيق حاصل ہوئي ہے اور وہ راہ خدا كے سالك قرار پائے ہيں جيسے بشر حافى كا واقعہ_ بشر حافى كے حالات ميں لكھا ہے كہ وہ ايك اشراف اور ثروتمند انسان كى اولاد ميں سے تھا اور دن رات عياشى اور فسق و فجور ميں زندگى بسر كر رہا تھا اس كا گھر فساد رقص اور سرور عيش و نوش ارو غنا كامركز تھا كہ غنا كى آواز اس كے گھر سے باہر بھى سنائي ديتى تھى ليكن اسى شخص نے بعد ميں توبہ كر لى اور زاہد اور عابد لوگوں ميں اس كا شمار ہونے لگا_ اس كے توبہ كرنے كا واقعہ يوں لكھا ہے كہ ايك دن اسى بشر كى لونڈى كوڑا كركٹ كا ٹوكراے كر دروازے كے باہر پھينكے كے لئے آئي اسى وقت امام موسى كاظم عليہ السلام اس كے دروازے كے سامنے سے گزر رہے تھے اور گھر سے ناچنے گانے كى آواز آپ كے كان ميں پڑى آپ نے اس لونڈى سے پوچھا كہ ” اس گھر كا مالك آزاد ہے يا غلام؟ اس نے جواب ديا كہ آزاد اور آقا زادہ ہے _ امام نے فرمايا تم نے سچ كہا ہے كيونكہ اگر يہ بندہ اور غلام ہوتا تو اپنے مالك اور مولى سے ڈرتا اور اس طرح اللہ تعالى كى معصيت ميں غرق اور گستاخ نہ ہوتا_ وہ لونڈى گھر ميں لوٹ گئي_ بشر جو شراب كے دسترخوان پر بيٹھا تھا اس نے لونڈيسے پوچھا كہ تم نے دير كيوں كي؟ لونڈى نے اس غير معروف آدمى كے سوال اور جواب كو اس كے سامنے نقل كيا_ بشر نے لونڈى سے پوچھا كہ آخرى بات اس آدمى نے كيا كہي؟ لونڈى نے كہا كہ اس كا آخرى جملہ يہ تھا كہ تم نے سچ كہا ہے كہ اگر وہ غلام ہوتا اور اپنے كو آزاد نہ سمجھتا يعنى اپنے آپ كو خدا كا بندہ اور غلام سمجھتا تو اپنے مولى اور آقا سے خوف كھاتا اور اللہ تعالى كى نافرمانى كرنے ميں اتنا گستاخ اور جرى نہ ہوتا_ امام عليہ السلام كا يہ مختصر جملہ تير كے طرح بشر كے دل پر لگا اور آگ كى چنگارى كى طرح اس كے دل كو نورانى اور دگرگون كر گيا _ شراب كے دسترخوان كو دور پھينكا اور ننگے پائوں باہر دڑا اور اپنے آپ كو اس غير معروف آدمى تك جا پہنچايا اور دوڑتے دوڑتے امام موسى كاظم عليہ السلام تك جا پہنچا اور عرض كى اے ميرے مولى ميں اللہ تعالى اور آپ سے معذرت كرتا ہوں_ جى ہاں ميں اللہ تعالى كا بندہ اور غلام تھا اور ہوں ليكن ميں نے اپنے اللہ تعالى كى غلامى اور بندگى كو فراموش كرديا اسى وجہ سے اس طرح كى گستاخياں كرنے لگا ليكن اب ميں نے اپنے آپ كو بندہ سمجھ ليا اور اپنے گذرے ہوئے كردار سے توبہ كرتا ہوں كيا ميرى توبہ قبول ہے؟ امام عليہ السلام نے فرمايا ہاں_ اللہ تعالى تيرى توبہ قبول كرلے گا اور تو اپنے گناہوں اور نافرمانيوں كو ہميشہ كے لئے ترك كردے_ بشر نے توبہ كي_ اور عبادت گذار اور زہاد اور اولياء خدا ميں داخل ہوگيا اور اس نعمت كے شكريہ كے طور پر اپنى سارى عمر ننگے پائوں چلتا رہا (جس كى وجہ سے اس كا نام بشر حافى يعنى ننگے پائوں والا ہوگيا_

ابو بصير كہتے ہيں كہ ايك آدمى جو ظالم بادشاہوں كا ملازم اور مددگار تھا ميرى ہمسايگى ميں رہتا تھا اس نے بہت كافى مال حرام طريقے سے جمع كيا ہوا تھا اور اس كا گھر فساد اور عياشى لہو و لعب رقص اور غنا كا مركز تھا ميں اس كى ہمسايگى ميں بہت ہى تكليف اور دكھ ميں تھا ليكن اس كے سوا كوئي راہ فرار بھى نہ تھى كئي دفعہ اسے نصيحت كى ليكن اس كا كوئي فائدہ نہ ہوا ليكن ايك دن ميں نے اس كے متعلق بہت زيادہ اصرار كيا_ اس نے كہا اے فلان _ ميں شيطن كا قيدى اور اس كے پھندے ميں آ چكار ہوںاور عياشى اور شراب خورى كا عادى ہوچكا ہوں اور اسے نہيں چھوڑ سكتا_ بيمار ہوں ليكن ميں اپنا علاج بھى نہيں كرتا چاہتا_ تو ميرا اچھا ہمسايہ ہے ليكن ميں تيرا برا ہمسايہ ہوں كيا كروں خواہشات نفس كا قيدى ہو گيا ہوں كوئي نجات كا راستہ نہيں ديكھ پاتا_ جب تو امام جعفر صادق عليہ السلام كى خدمت ميں جائے تو آپ كے سامنے ميرى حالت بيان كرنا شايد ميرے لئے كوئي نجات كا راستہ نكال سكيں ابو بصير كہتا ہے كہ ميں اس كى اس گفتگو سے بہت زيادہ متاثر ہوا_ كئي دن كے بعد جب ميں كوفہ سے امام جعفر صادق عليہ السلام كى زيارت كے مقصد سے مدينہ منورہ گيا اور جب آپ كى خدمت ميں مشرف ہوا تو اپنے ہمسايہ كے حالات اور اس كى گفتگو كا تذكرہ آپ كى خدمت ميں بيان كيا_ آپ نے فرمايا كہ جب تو كوفہ واپس جائے وہ آدمى تيرے ملنے كے لئے آئے گا_ اس سے كہنا كہ امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ جس حالت ميں تو ہے يعنى گناہوں كو چھوڑ دے تو ميں تيرے لئے جنت كا ضامن ہوں_

ابوبصير كہتے ہيں كہ ” جب ميں اپنے كا مدينہ ميں پورے كر چكا تو كوفہ واپس لوٹ آيا_ لوگ ميرے ملنے كے لئے آرہے تھے انہيں ميں ميرا وہ ہمسايہ بھى مجھے ملنے كے لئے آيا احوال پرسى كے بعد اس نے واپس جانا چاہا تو ميں نے اسے اشارے سے كہا كہ بيٹھا رہ مجھے آپ سے كام ہے_ جب ميرا گھر لوگوں كے چلے جانے سے خالى ہو گيا تو ميں نے اس سے كہا_ كہ ميں نے تيرى حالت امام جعفر صادق عليہ السلام سے بيان كى تھى _ آپ نے مجھے فرمايا تھا كہ جب تو كوفہ جائے تو ميرا سلام اسے پہنچا دينا اور اسے كہنا كہ اس حالت يعنى گناہوں كو ترك كردے ميں تيرى جنت كا ضامن ہوں_ اس تھورے سے امام كے پيغام نے اس شخص پر اتنا اثر كيا كہ وہ وہيں بيٹھ كر رونے لگ گيا اور اس كے بعد مجھ سے كہا كہ اے ابو بصير تجھے خدا كى قسم كہ امام جعفر صادق عليہ السلام نے ايسا فرمايا ہے؟ ميں نے اس كے سامنے قسم اٹھائي كہ يہ پيغام بعينہ وہى ہے جو امام عليہ السلام نے ديا ہے_ وہ كہنے لگا بس يہى پيغام ميرے لئے كافى ہے_ يہ كہا اور وہ ميرے گھر سے باہر چلا گيا_ كافى دن تك مجھے اس كى كوئي خبر نہ ملي_ ايك دن اس نے ميرے لئے پيغام بھيجا كہ ميرے پاس آ مجھے تم سے كام ہے_ ميں نے اس كى دعوت قبول كى اور اس كے گھر كے دروازے پر گيا_ دروازے كے پيچھے سے مجھے آواز دى اور كہا_ اے ابو بصير _ جتنا مال ميں نے حرام سے اكٹھا كيا ہوا تھا وہ سب كا سب ميں نے لوگوں ميں تقسيم كر ديا ہے_ يہاں تك كہ ميں نے اپنا لباس بھى دے ديا ہے_ اب ننگا اور بے لباس دروازے كے پيچھے كھڑا ہوں_ اے ابوبصير ميں نے امام جعفر صادق كے حكم پر عمل كيا ہے اور تمام گناہوں كو چھوڑ ديا ہے يعنى توبہ كر لى ہے_ ابوبصير كہتا ہے كہ ميں اس ہمسائے كے گناہوں كے چھوڑ دينے اور توبہ كر لينے سے بہت خوشحال ہوا اور امام عليہ السلام كى كلام كے اس ميں اثر كرنے سے حيرت زدہ ہوا_ گھر واپس لوٹ آيا تھورے سے كپڑے اور خوراك لى اور اس كے گھر لے گيا_ كئي دن كے بعد پھر مجھے بلايا_ ميں اس كے گھر گيا تو ديكھا كہ وہ بيمار اور عليل ہے اور وہ كافى دن تك بيمار رہا ميں اس كى برابر عيادت اور بيمار پرسى اور بيمار دارى كرتا رہا_ ليكن اس كے لئے كوئي علاج فائدہ مند واقع نہ ہوا_ ايك دن اس كى حالت بہت سخت ہوگئي اور جان كنى كے عالم ميں ہوگيا_ ميں اس كے سرہانے بيٹھا رہا جب كہ وہ جان سپرد كرنے كى حالت ميں تھا يكدفعہ ہوش ميں آيا اور كہا_ اے ابوبصير امام جعفر صادق عليہ السلام نے اپنا وعدہ پورا كرديا ہے يہ جملہ كہا اور اس جہان فانى سے كوچ كر گيا_ ميں كئي دنوں كے بعد حج كو گيا اور امام جعفر صادق عليہ السلام كى خدمت ميں مشرف ہوا_ ميرا ايك پائوں دروازے كے اندر اور ايك پائوں دروازے سے باہر تھا كہ امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا_ اے ابوبصير ہم نے تيرے ہمسائے كہ بارے ميں جو وعدہ كيا تھا_ ہم نے وہ پورا كرديا ہے ہم نے جو اس كے لئے بہشت كى تھى اسے دلوادى ہے_(171) اس طرح كے لوگ تھے اور اب بھى ہيں كہ حتمى ارادے اور شجاعانہ اقدام سے اپنے نفس امارہ كو مغلوب كر ليتے ہيں اور اس كى مہار اپنے ہاتھ ميں لے ليتے ہيں_ ايك اندرونى اور باطنى انقلاب سے نفس كو پاك كرديتے ہيں اور تمام برائيوں كو چھوڑ كر اسے صاف اور شفاف بنا ديتے ہيں_ معلوم ہوا كہ اس طرح كا راستہ اختيار كر لينا ہمارے لئے بھى ممكن ہے_

حضرت على عليہ السلام نے فرمايا كہ ” عادت كے ترك كرنے كے لئے اپنے نفس پر غلبہ حاصل كرو اور ہوى اور ہوس اور خواہشات كے ساتھ جہاد كرو شايد تم اپنے نفس كو اپنا قيدى بنا سكو_

نيز امير المومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ”سب سے بہتر عبادت اپنى عادات پر غلبہ حاصل كرنا ہوتا ہے_

امام محمد باقر عليہ السلام نے فرمايا ہے_ ” قيامت كے دن تمام آنكھيں سوائے تين آنكھوں كے رو رہى ہوں گي_

1_آنكھ جو خدا كے راستے كے لئے بيدار رہى ہو_

2_ وہ آنكھ جو خدا كے خوف سے روتى رہى ہو_

3_ وہ آنكھ جس نے محرمات الہى سے چشم پوشى كى ہو_

جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ” خداوند عالم نے جناب موسى عليہ السلام كو وحى كى كہ كوئي انسان ميرا قرب محرمات سے پرہيز كر كے كسى اور چيز سے حاصل نہيں كر سكتا يقينا ميں بہشت عدن كو اس كے لئے مباح كر دوں گا اور كسى دوسرے كو وہاں نہيں جانے دوں گا_

يہ بھى مانا جاتا ہے كہ نفس امارہ كو مطيع بنانا اور بطور كلى گناہ كا انجام نہ دينا اتنا آسان كام نہيں ہے ليكن اگر انسان ملتفت ہو اور فكر اور عاقبت انديشى ركھتا ہو اور ارادہ اور ہمت كر لے تو پھر اتنا يہ مشكل بھى نہيں ہے كيونكہ اس صورت ميں اللہ تعالى كى تائيد بھى اسے شامل حال ہوگى اور خدا فرماتا ہے كہ ” جو لوگ ہمارے راستے كے لئے جہاد كرتے ہيں ہم انہيں ہدايت كرديتے ہيں اور اللہ ہے ہى احسان كرنے والوں كے ساتھ ہے_ والذين جاہلوا فينا لنہدينہم سبلنا و ان اللہ مع المحسنين_ 

آہستہ آہستہ ترك كرنا

اگر ہم اتنى اپنے آپ ميں طاقت اور ہمت نہيں ركھتے كہ يكدم تمام گناہوں كو ترك كر ديں تو اتنا تو مصمم ارادہ كر ليں كہ گناہوں كو آہستہ آہستہ انجام دے ديں پہلى دفعہ امتحان كے طور پر ايك گناہ يا كئي ايك گناہ كو ترك كرنا شروع كرديں اور مصمم ارادہ كرليں_ اس كام كو دوام ديں كہ اس كے ترك پر اپنے نفس كو كامياب قرار دے ديں اور ان گناہوں كا بالكل ختم كرديں پھر يہى كام دوسرے چند ايك گناہوں كے بارے ميں انجم دينا شروع كرديں اور اس پر كاميابى حاصل كرليں اور اسى حالت ميں خوب ملتفت رہيں كہ كہيں اس ترك كئے ہوئے گناہ كو پھر سے انجام نہ دے ديں اور يہ واضح ہے كہ ہر گناہ يا چند گناہوں كے ترك كرنے پر نفس امارہ اور شيطن كمزور ہوتا جائيگا اور جتنا شيطن نفس سے باہر نكلے گا اس كى جگہ اللہ تعالى كا فرشتہ لے لے گا_ جس گناہ كا سياہ نقطہ نفس سے دور ہوگا اتنى مقدار وہاں نورانيت اور سفيدى زيادہ ہوجائے گي_ اسى طريقے سے گناہوں كے ترك كو برابر انجام ديتے جائيں تو پھر بطور كامل نفس پاك ہوجائيگا اور نفس كو اس كے نفسانى خواہشات پر قابو پانے اور فتح حاصل كرنے كى پورى طرح كاميابى حاصل ہوجائيگى اور ممكن ہے كہ اسى دوران ايك ايسے مرتبے تك پہنچ جائيں كہ تمام گناہوں كو يكدم ترك كرنے كى طاقت اور قدرت پيدا كرليں ايسى صورت ميں ايسى قيمتى اور پر ارزش فرصت سے استفادہ كرنا چاہئے اور يكدم تمام گناہوں كو ترك كر دينا چاہئے اور شيطن اور نفس امارہ كو باہر پھينك ڈالنے پر قابو پالينا چاہئے اور نفس كے گھر كو خدا اور اس كے فرشتوں كے لئے مخصوص كر لينا چاہئے اگر اس كے لئے كوشش اور جہاد كريں تو يقينا اس پر كامياب ہوجائيں گے_ نفس كے ساتھ جہاد بعينہ دشمن كے ساتھ جہاد كرنے جيسا ہوتا ہے _ دشمن سے جہاد كرنے والا ہر وقت دشمن پر نگاہ ركھے اپنى طاقت كو دشمن كى طاقت سے موازنہ كرے اور اپنى طاقت كو

قوى كرنے ميں لگا رہے اور فرصت ملتے ہى ممكن طريقے سے دشمن پر حملہ كردے اور اس كى فوج كو ہلاك كردے يا اپنے ملك سے باہر نكال دے_

 

تبصرے
Loading...