قرآن، نهج البلاغہ کے آئینہ میں

آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی دام ظلہ العالی

مترجم:ہادی حسن فیضی هندی

مجمع جہانی اہل بیت علیهم السلام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفی (ص) غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمہئ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ٢٣ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

اگرچہ رسول اسلام (ص) کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمہئ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت (ع)کونسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت(ع) عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت(ع) عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوت(ص)و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، فاضل علّام آیۃ اللہ محمد تقی مصباح یزدی کی گرانقدر کتاب” قرآن در آئینہئ نہج البلاغہ” کو فاضل جلیل مولانا ہادی حسن فیضی ہندی نے اردو زبان میںاپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

 

مقدمہ

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلامُ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ آلِہِ الطَّاہِرِیْنَ.

اگر چہ ہم معتقد ہیں کہ قرآن کریم انسانوں کے لئے خدا کا عظیم ترین ہدیہ اور مسلمانوں کے پاس حضرت نبی اکرم (ص) کی نہایت قیمتی میراث ہے، لیکن امت اسلامیہ کو جس شائستہ طریقہ سے اس عظیم میراث سے استفادہ کرنا چاہئے تھا اس طرح اس نے استفادہ نہیں کیا اور نہ کر رہی ہے۔

اسلامی معاشرہ نبی اکرم (ص) کی وفات کے بعد اس الٰہی حبل متین سے تمسک کرنے سے محروم رہا ہے، جبکہ آنحضرت (ص) نے اس بات پر بہت زیادہ تاکید کی تھی کہ ثقل اکبر کے عنوان سے قرآن کی طرف رجوع اور اس پر عمل کرنا، اور ثقل اصغر کے عنوان سے اہلبیت علیهم السلامسے قرآن کے علوم کو حاصل کرنا واجب ہے۔

نتیجہ میں اسلامی معاشرہ اپنے اس اصلی مرتبہ تک نہیں پہنچ سکا جس کی قرآن مجید نے اسے بشارت دی ہے اور فرمایا ہے: (وَ أَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِنْ کُنتُمْ مُؤمِنِینَ)١؎

…… …….. …….. ………… ………………. ……..

(١)سورہ  آل عمران، آیت ١٣٩۔

(اور تم بلند ہو اگر مومن ہو) ۔ اور آج ہمیں اس تلخ حقیقت کا اقرار کرنا پڑتا ہے کہ اسلامی معاشرہ قرآن کی حقیقت اور علوم اہلبیت (ع) سے دور رہنے کے سبب ناقابل تلافی نقصان سے دو چار ہوا ہے۔

لیکن قرآن کی حقیقت سے مسلمانوں کی دوری اور اس آسمانی گوہر اور خدائی عطیہ کے متروک ہونے کے باوجود کبھی کبھی قرآن کے ظاہر نے مسلمانوں کے درمیان بہت رواج پایا ہے۔

تمام مسلمان قرآن کو ایک مقدس اور آسمانی کتاب سمجھتے ہیں جو کہ شب قدر میں پیغمبر (ص) کے قلب مبارک پر نازل ہوا ہے، عہد حاضر میں قرآن کو بہترین کاغذ پر چھاپا جاتا ہے اس کو سنہری جلد سے مزیّن کیا جاتا ہے، اس کی تلاوت کی جاتی ہے، اس کو حفظ کیا جاتا ہے اور اس کے ظاہر سے اخذ کئے گئے علوم جیسے تجوید وغیرہ میں مہارت حاصل کرنا مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت میں بہت اہم سمجھا جاتا ہے، چنانچہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ قرآن کریم کے حفظ و قرائت کے مقابلے کا پروگرام اسلامی ممالک میں عالمی پیمانے پر منعقد ہوتا ہے اور یہ بہت اچھی بات ہے۔

البتہ اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ تمام اسلامی ممالک میں قرآن کریم کا رونق پانا بھی بڑی حد تک حضرت امام خمینی ؒ اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کا مرہون منت ہے، اس لئے کہ حضرت امام خمینی ؒ نے جب حرمین شریفین کے نظم و نسق کے متعلق یہ پیغام دیا کہ ان کا انتظام تمام اسلامی ممالک کے ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی کے ہاتھ میں ہونا چاہئے، تو سعودی حکومت اسی وقت سے حرمین شریفین کی تعمیر و توسیع میں مشغول ہوئی اور ساتھ ہی قرآن کی نشر و اشاعت اور اس کو حاجیوں کے درمیان تقسیم کرنے کا کام شروع کیا تاکہ اس کے ذریعے اپنے کو اسلام و قرآن کا بڑا مبلغ ثابت کرسکے اور ایران کی طرف مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روک سکے۔

بہرحال، قرآن کے ظاہر پر توجہ دینا اور اس کی حقیقت سے دور رہنا، ان عظیم المیوں میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے اسلامی معاشروں کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ واضح سی بات ہے کہ جب تک مسلمان قرآن کے ظاہر کے ساتھ اس کے باطن کی طرف توجہ نہیں دیں گے اور قول کے ساتھ عمل کی منزل میں نہیں آئیں گے، اس وقت تک وہ قرآن سے ہدایت نہیں لے سکیں گے۔

اس کتاب میں نبی اکرم (ص) کی وفات کے بعد قرآن و عترت(ع) سے مسلمانوں کے دور ہو جانے کے عوامل و اسباب کو بیان نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس میں قرآن مجید کی حقیقت کو نہج البلاغہ اور خود قرآن کریم کی نظر سے بیان کیا گیا ہے، تاکہ قاری، قرآن کو امیر المؤمنین (ع) کی نظر سے پہچانے اور اس کی عظمت سے آشنا ہو اور مخالفین کے بعض شبہوں کو ان کے جواب کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ آخر میں قرآن ناطق حضرت علی – کی زبان سے، اس طرح کے شبہات پیش کرنے کے شیطانی اسباب و علل بھی بیان ہوئے ہیں۔

اس بات کا ذکر کردینا ضروری ہے کہ یہ کتاب آیۃ ا… مصباح یزدی دام ظلہ العالی کی ان چند تقریروں کا مجموعہ ہے جو آپ نے ١٣٧٧؁ اور ١٣٧٨؁ ہجری شمسی کے ماہ رمضان میں قم میں کی تھیں، ہم نے حتی الامکان کوشش کی ہے کہ جو مطالب استاد موصوف نے بیان کئے ہیں ان میں کسی قسم کی رد و بدل اور کمی و بیشی نہ ہو نیز تقریر کو تحریر سے قریب کرنے کی کوشش کی گئی ہے لہٰذا واضح سی بات ہے کہ تحریر اور ترتیب و تنظیم کی عام باریکیاں مکمل طور پر اس کتاب میں دکھائی نہیں دیتیں۔

آخر میں ہم محقق معظم جناب حجۃ الاسلام محمدی صاحب کے شکر گزار ہیں کہ موصوف نے اس کتاب کی تدوین کی، نیز جناب حجۃ الاسلام نادری صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے تنظیم و ترتیب کا کام انجام دیا ہے اور خداوند منان کی بارگاہ میں ان دونوں حضرات کے لئے مزید توفیقات کی دعا کرتے ہیں۔

ناشر

ادارہئ تعلیم و تحقیق امام خمینی

پہلی فصل

دینی معاشرہ میں قرآن کا مرتبہ

اس مضمون میں شامل موضوعات

انسان کے اختیار میں صرف قرآن آسمانی کتاب ہے

قرآن کے بارے میں جو کچھ نہج البلاغہ میں ذکر ہوا ہے ، اگر اسے بیان کریں تو گفتگو کا سلسلہ طویل ہو جائے گا۔ کیونکہ امام علی – نے نہج البلاغہ کے بیس سے زیادہ خطبوں میں قرآن اور اس کے مرتبہ کا تعارف کرایا ہے اور کبھی کبھی نصف خطبہ سے زیادہ قرآن کے مرتبہ، مسلمانوں کی زندگی میں اس کے اثر اور اس آسمانی کتاب کے بارے میں مسلمانوں کے فریضہ سے مخصوص کیا ہے۔ ہم یہاں پر قرآن کریم سے متعلق نہج البلاغہ کی صرف بعض تعریفوں کی توضیح پر اکتفا کرتے ہیں۔

امیر المومنین حضرت علی – ١٣٣ ویں خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں:

”وَ کِتَابُ اللّٰہِ بَینَ اَظْہُرِکُمْ نَاطِقٌ لایَعْییٰ لِسَانُہ،”

یعنی قرآن تمھارے سامنے اور تمھاری دسترس میں ہے۔ دوسرے ادیان کی آسمانی کتابوں جیسے حضرت موسیٰ – اور حضرت عیسیٰ -کی کتابوں کے برخلاف، قرآن تمھارے اختیار میں ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ امتوں میں خصوصاً بنی اسرائیل کے یہودیوں میں مقدس کتاب عام لوگوں کے اختیار میں نہیں تھی، بلکہ توریت کے صرف چند نسخے علماء یہود کے پاس تھے اور تمام لوگوں کے لئے توریت کی طرف رجوع کرنے کا امکان نہیں پایا جاتا تھا۔

حضرت عیسیٰ – کی آسمانی کتاب کی حالت تو اس سے بھی زیادہ تشویشناک تھی اور ہے، اس لئے کہ جو کتاب آج انجیل کے نام سے عیسائیوں کے درمیان پہچانی جاتی ہے، یہ وہ کتاب نہیں ہے جو حضرت عیسیٰ – پر نازل ہوئی تھی۔ بلکہ یہ ان مطالب کا مجموعہ ہے جن کو کچھ افراد نے جمع کیا ہے اور وہ اناجیل اربعہ (چار انجیلوں) کے نام سے مشہور ہیں ۔ اس بنا پر گزشتہ امتوں کی دسترس آسمانی کتابوں تک نہیں تھی، لیکن قرآن مجید کی حالت اس سے مختلف ہے۔ قرآن مجید کے نزول کی کیفیت اور نبی اکرم (ص) کی طرف سے اس کی قرائت و تعلیم کا طریقہ ایسا تھا کہ لوگ اسے سیکھ سکتے تھے اور اس کی آیتیں حفظ کرسکتے تھے اور قرآن مکمل طور پر ان کی دسترس میں تھا اور ہے۔

اس آسمانی کتاب کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ خداوند متعال نے امت اسلام پر احسان کیا ہے اور قرآن کریم کو ہر طرح کے خطرہ سے محفوظ رکھنے کی ذمہ داری خود لی ہے۔ اس کے علاوہ حضرت نبی اکرم (ص) مسلمانوں کے یاد کرنے اور آیات الٰہی کی حفاظت کا اس قدر اہتمام کرتے تھے کہ رسول خدا (ص) ہی کے زمانہ میں بہت سے مسلمان حافظ قرآن ہوگئے تھے اور نازل ہونے والی آیات کے نسخے اپنے پاس رکھتے تھے وہ بتدریج ان کو یاد کرتے تھے، بہرحال ان نسخوں سے نسخہ برداری کے ذریعہ یا ایک حافظ سے دوسرے حافظ کی طرف سینہ در سینہ نقل کے ذریعے قرآن کریم تمام لوگوں کے پاس ہوتا تھا۔

حضرت علی – ارشاد فرماتے ہیں: ”کِتَابُ اللّٰہِ بَینَ اَظْہُرِکُمْ” کتاب خدا تمھارے درمیان ہے، تمھاری دسترس میں ہے۔ ”نَاطِقٌ لایَعییٰ لِسَانُہ” اس جملہ پر تاکید کرنا ضروری ہے۔

حضرت علی (ع)فرماتے ہیں: ”یہ کتاب گویا (بولنے والی) ہے اور اس کی زبان کند نہیں ہوتی، بولنے سے تھکتی نہیں ہے نیزکبھی اس میں لکنت نہیں ہوتی، وہ ایسی عمارت ہے جس کے ستون گر نہیں سکتے اور ایسی کامیاب ہے کہ جس کے دوست شکست نہیں کھا سکتے۔

قرآن کا بولنا

حضرت امام علی – نہج البلاغہ میںایک طرف قرآن کے اوصاف کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ: یہ کتاب، کتاب ناطق ہے، خود بولتی ہے، بولنے سے تھکتی نہیں، اپنی بات اور اپنا مطلب خود واضح طور سے بیان کرتی ہے۔اور دوسری طرف، ارشاد فرماتے ہیں : یہ قرآن ناطق نہیں ہے، اسے قوت نطق و گویائی دینی چاہئے اور میں ہی ہوں جو اس قرآن کو تمھارے لئے گویا کرتا ہوں ۔ اور بعض عبارتوں میں اس طرح آیا ہے : ”قرآن، صَامِتٌ نَاطِقٌ”١؎ قرآن صامت بھی ہے اور ناطق بھی ۔ اس بات کے صحیح معنی کیا ہیں؟

معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعبیر اس آسمانی کتاب سے متعلق دو مختلف نظریوں کو بیان کر رہی ہے کہ ایک نظر یہ کی رو سے قرآن ایک مقدس کتاب ہے جو کہ خاموش ہے اور ایک گوشہ میں رکھی ہوئی ہے، نہ وہ کسی سے بولتی ہے اور نہ کوئی اس سے ارتباط رکھتا ہے، اور

…………………………………………………

(١)نہج البلاغہ، خطبہ ١٤٧، یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس کتاب میں نہج البلاغہ سے دیئے گئے تمام حوالے ، نہج البلاغہئ فیض الاسلام کی بنیاد پر ہیں۔

دوسرے نظریہ کے لحاظ سے قرآن ایک گویا (بولنے والی) کتاب ہے جس نے تمام انسانوں کو اپنا مخاطب قرار دیا ہے اور ان کو اپنی پیروی کی دعوت دی ہے اور اپنے پیروؤں کو سعادت و نیک بختی کی خوشخبری دی ہے۔

واضح ہے کہ وہ قرآن جس کی صفت صرف تقدس ہو اور بس، جس کی آیتیں صرف کاغذ کے صفحوں پرنقش ہوں اور مسلمان اس کا احترام کرتے ہوں، اس کو چومتے ہوں اور اس کو اپنے گھر کی بہترین جگہ پر محفوظ رکھتے ہوں اور کبھی کبھی محافل و مجالس میں اس کی حقیقت اور اس کے معانی کی طرف توجہ کئے بغیر اس کی تلاوت کرتے ہوں۔ اگر اس نگاہ سے قرآن کو دیکھیں تو قرآن ایک صامت (خاموش) کتاب ہے جو کہ محسوس آواز کے ساتھ نہیں بولتی، جو شخص ایسا نظریہ قرآن کے متعلق رکھے گا وہ ہرگز قرآن کی بات نہ سن سکے گا اور قرآن کریم اس کی مشکل کو حل نہیں کرے گا۔

اس بنا پر ہمارا فریضہ ہے کہ ہم دوسرے نظریئے کو اپنائیں، یعنی قرآن کو ضابطہئ حیات سمجھیں، اور خدائے متعال کے سامنے اپنے اندر تسلیم و رضا کی روح پیدا کر کے خود کو قرآن کریم کی باتیں سننے کے لئے آمادہ کریں کہ قرآن کی باتیں زندگی کا دستور ہیں اسی صورت میں قرآن، ناطق اور گویا ہے، انسانوں سے بات کرتا ہے اور تمام شعبوں میں ان کی رہنمائی کرتا ہے۔

اس توضیح کے علاوہ جو کہ ہم نے قرآن کے صامت و ناطق ہونے کے متعلق بیان کی ہے، اس کے اس سے بھی زیادہ عمیق معنی پائے جاتے ہیں اور وہی معنی حضرت علی – کے مد نظر تھے اور ان ہی معنی کی بنیاد پر آپ نے فرمایا ہے کہ قرآن صامت ہے اور اسے ناطق و گویا کرنا چاہئے اور یہ میں ہوں جو کہ قرآن کو تمھارے لئے گویا کرتا ہوں۔

اب ہم قرآن کے صامت و ناطق ہونے کی توضیح دوسرے معنی کے اعتبار سے (یعنی حقیقت میں اس کے حقیقی معنی کی توضیح) پیش کر رہے ہیں:

اگرچہ قرآن کریم خداوند متعال کا کلام ہے اور اس کلام الٰہی کی حقیقت اور اس کے صادر اور نازل ہونے کا طریقہ ہمارے لئے قابل شناخت نہیں ہے، لیکن اس وجہ سے کہ اس کے نزول کا مقصد انسانوں کی ہدایت ہے، اس کلام الٰہی نے اس قدر تنزل کیا ہے کہ لفظوں، جملوں اور آیتوں کی صورت میں انسان کے لئے پڑھنے اور سننے کے قابل ہوگیا، لیکن اس کے باوجود ایسا بھی نہیں ہے کہ اس کی تمام آیتوں کے مضامین عام انسانوں کے لئے سمجھنے اور دسترس میں رکھنے کے قابل ہوں اور لوگ خود نبی اکرم (ص) اور ائمہئ معصومین علیهم السلام(جو کہ راسخون فی العلم ہیں) کی تفسیر و توضیح کے بغیر آیتوں کے مقاصد تک پہنچ سکیں۔

مثال کے طور پرشرعی احکام و مسائل کے جزئیات کی تفصیل و توضیح قرآن میں بیان نہیںہوئی ہے، اسی طرح قرآن کریم کی بہت سی آیتیں مجمل ہیں اور توضیح کی محتاج ہیں۔ اس بنا پر قرآن بہت سی جہتوں سے ”صامت” ہے، یعنی عام انسان اس کو ایسے شخص کی تفسیر و توضیح کے بغیر نہیں سمجھ سکتے جو غیب سے ارتباط رکھتا ہے اور خدائی علوم سے آگاہ ہے۔

پیغمبر (ص) اور قرآن کی توضیح و تفسیر

نبی اکرم (ص) کے فرائض میں سے ایک فریضہ یہ بھی ہے کہ وہ امت کے لئے، آیات الٰہی کی توضیح و تفسیر فرمائیں۔

قرآن کریم پیغمبر (ص) کو مخاطب کر کے فرماتا ہے: (وَ أَنزَلنَا اِلیَکَ الذِّکرَ لِتُبَیِّنَ لِلنِّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیہِم)١؎ ہم نے قرآن کو آپ پر نازل کیا اور آپ کا فریضہ ہے کہ لوگوں کے لئے قرآن کی تلاوت کریں اور ان کے سامنے اس کے معارف کو بیان کریں، جیسا کہ اشارہ کیا گیا کہ قرآن کلام الٰہی ہے اور اس نے بہت تنزل کیا ہے یہاں تک کہ الفاظ و آیات کی صورت میں آگیا ہے اور مسلمانوں کے اختیار میں ہے، پھر بھی اس کے معارف اتنے عمیق اور گہرے ہیں کہ عام انسانوں کے لئے قابل فہم نہیں ہیں۔ لہٰذا قرآن اس اعتبار سے عام انسانوں کے لئے صامت ہے اور نبی اکرم (ص) اور ائمہئ معصومین علیهم السلامکی تفسیر کا محتاج ہے ۔اسی بنا پر خداوند متعال پیغمبر (ص) کو مخاطب کر کے فرما رہا ہے: ”ہم نے قرآن کو آپ پر نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے سامنے اس کی تفسیر و توضیح فرمائیں”۔

اس بنا پر قرآن کی آیتوں کی ایک خاص تفسیر ہے جس کا علم نبی اکرم (ص) اور ائمہئ معصومین علیهم السلامکے پاس ہے، ان حضرات (ع) نے بھی قرآن کے معارف کو مسلمانوں کے اختیار میں دیا اور قرآن کے پیغام کو لوگوں تک پہنچایا۔ لہٰذا قرآن اس اعتبار سے ناطق ہے اور نبی اکرم (ص) اور ائمہئ معصومین علیهم السلامنے قرآن کے معارف کو بیان فرمایا، لیکن یہ بات قابل توجہ ہے کہ قرآن اپنی بات مخاطب کی پسند سے بہتر بیان کرتا ہے، خواہ انسان کے دل کی خواہش کے موافق ہو یا مخالف ۔ نیز شیطان نما انسانوں کو یہ حق نہیں ہے

…………………………………………………

(١)سورہ  نحل، آیت ٤٤۔

کہ قرآن پر اپنی خواہشوں کو لادیں اور اپنی رائے سے کلام الٰہی کی تفسیر کریں ،اس کے متعلق ہم آئندہ تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے۔

قرآن کے صامت و ناطق ہونے کی بنا پر حضرت علی – ارشاد فرماتے ہیں: ”نَاطِقٌ لا یَعییٰ لِسَانُہ”١؎ قرآن ایسا بولنے والا ہے کہ بولنے سے تھکتا نہیں، وہ اپنے پیغام لوگوں تک پہنچاتا ہے اور مسلمانوں پر حجت تمام کرتاہے۔

لہذا حضرت علی – مذکورہ جملہ میں قرآن کا تعارف اس طرح کراتے ہیں :

کلام الٰہی، قرآن تمھارے درمیان ہے اور ہمیشہ فصیح و بلیغ اور گویا زبان سے فلاح و نجات کی طرف بلاتا ہے، اپنے پیروؤں کو سعادت و کامیابی کی خوشخبری دیتا ہے اور اپنی ذمہ داری پورا کرنے سے نہیں تھکتا ۔

خطبہ ١٥٧ میں حضرت علی – قرآن کے متعلق اس طرح ارشاد فرماتے ہیں:

”ذٰلِکَ الْقُرآنُ فَاسْتَنْطِقُوہُ وَ لَن یَّنطِقَ وَ لٰکِنْ أُخْبِرُکُمْ عَنْہُ، اَئلا اِنَّ فِیہِ عِلْمَ مَا یَأتِی، وَ الْحَدِیثَ عَنِ الْمَاضِیْ، وَ دَوَاءَ دَائِکُم، وَ نَظْمَ مَا بَینَکُمْ”،

ہاں! یہ قرآن ہے، پس اس سے چاہو کہ تم سے بولے اس حال میں کہ ہرگز قرآن (نبی اور ائمہئ معصومین علیهم السلامکی تفسیر کے بغیر) نہیں بولے گا۔ تمھیں چاہئے کہ نبی اکرم (ص) اور ائمہئ معصومین علیهم السلامکی زبان کے ذریعے قرآن کے معارف سے آشنا ہو اور قرآن کے علوم کو انھیں سے دریافت کرو۔

…………………………………………………

(١)نہج البلاغہ، خطبہ ١٤٣۔

قرآن الٰہی علوم و معارف کا ایسا سمندر ہے کہ اس گہرے اور اتھاہ سمندر میں غواصی اور اس کے انسان ساز موتیوں کا حصول فقط انہی حضرات کا نصیب ہے جو عالم غیب سے ارتباط رکھتے ہیں، خداوند متعال نے بھی لوگوں سے یہی چاہا ہے کہ نبی اکرم (ص) اور ائمہئ معصومین علیهم السلامکے دامن سے متمسک ہو کر، علوم اہلبیت (ع) سے استفادہ کر کے اور ان حضرات (ع) کی ہدایت و رہنمائی سے قرآن کے بلند معارف حاصل کریں، اس لئے کہ قرآن کے علوم اہلبیت (ع) کے پاس ہیں۔ نتیجہ میں ان حضرات (ع) کی بات قرآن کی بات ہے، اور جب ایسا ہے تو نبی اکرم (ص) اور اہلبیت علیهم السلامقرآن ناطق ہیں۔

مذکورہ بنیاد پر حضرت علی – فرماتے ہیں: ”ذٰلِکَ الْقُرآنُ فَاسْتَنْطِقُوْہُ وَ لَن یَّنْطِقَ ” یہ قرآن ہے اور دیکھو! تم امام معصوم (ع) کی تفسیر و توضیح کے بغیر قرآن سے استفادہ نہیں کرسکتے، یہ امام معصوم – ہی ہے جو تمھارے لئے قرآن کی تفسیر بیان کرتا ہے اور تمھیں قرآن کے علوم و معارف سے آگاہ کرتا ہے۔

حضرت علی – اس مقدمہ کو بیان کر کے قرآن کو ایک دوسرے زاویئے سے قابل توجہ قرار دیتے ہیں اور لوگوں کو قرآن کی طرف رجوع اور اس میں تدبر اور تفکر کی دعوت دیتے ہیں، حضرت (ع) فرماتے ہیں کہ امام معصوم – ہی قرآن کے علوم و معارف کو مسلمانوں کے لئے بیان کرتا ہے اور خود قرآن نہیں بولتا اور لوگ خود بھی قادر نہیں ہیں کہ براہ راست الٰہی پیغاموں کو حاصل کریں، تو اب: أُخْبِرُکُمْ عَنْہُ، میں تمھیں قرآن سے آگاہ کرتا ہوں اور قرآن کے علوم و معارف کی تمھیں خبر دیتا ہوں، جان لو! کہ جو کچھ تمھاری ضرورت کی چیزیں ہیں وہ سب قرآن کریم میںموجود ہیں، أَلا اِنَّ فِیْہِ عِلْمَ مَا یأتِی وَ الْحَدِیثَ عَنِ الْمَاضِی وَ دَوَاءَ دَائِکُمْ وَ نَظْمَ بَینِکُمْ، گزشتہ و آئندہ کا علم قرآن میں ہے اور تمھارے درد کی دوا اور تمھارے تمام امور کا نظم و نسق قرآن میں ہے، یہ تم پر لازم ہے کہ قرآن کریم اور علوم اہلبیت (ع) سے استفادہ کر کے اپنے امور کو منظم کرو!

دو نکتوں کی یاد دہانی

١ -:قرآن کریم مسلمانوں اور اس آسمانی کتاب کے پیروؤں کے لئے ایک ا ہم تاریخی سند ہے چونکہ قرآن تاریخی واقعات بیان کرتا ہے، نیز گزشتہ قوموں اور ملتوں کے افکار و عقائد اور ان کے حالات اور ان کے طرز زندگی کو بیان کرتا ہے، (اس لئے) سب سے زیادہ معتبر تاریخی سند ہے اس کے مقابل ان تاریخی حالات اور کتابوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے جو کہ قرآنی سند نہیں رکھتیں، اگر چہ تواتر کے ساتھ نقل ہوئی ہوں، لہٰذا گزشتہ افراد کے حالات ، انبیاء (ع) اور گزشتہ قوموں کے واقعات کو قرآن سے سننا چاہئے اور ان سے نصیحت حاصل کرنی چاہئے۔

ہمارا فریضہ ہے کہ قرآن سے رجوع کر کے، پچھلی قوموں اور ملتوں کی داستان زندگی کا مطالعہ کر کے ان سے درس عبرت حاصل کریں، اپنی زندگی کو حق کی بنیاد اور صحیح روش پر سنواریں۔

٢ -:قرآن کریم اس بات کے علاوہ کہ گزشتہ قوموں کی تاریخ ہمارے لئے نقل کرتا ہے اور ان حوادث کو بیان کر کے جو ان قوموں میں رونما ہوئے تھے ، ہم کو ان کی زندگی کے ماحول میں پہنچا دیتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ ہم ان سے درس عبرت لیں، وہ آئندہ کی بھی خبر دیتا ہے۔ واضح ہے کہ آئندہ اور مستقبل کے متعلق علمی اور یقینی بات کہنا خداوند متعال اور ان (معصوم) افراد کے علاوہ جو اس کے اذن سے آئندہ کی خبر رکھتے ہیں، کسی اور کا کام نہیں ہے ۔خدا کے لئے ماضی، حال، مستقبل کوئی معنی نہیں رکھتے اور وہ آئندہ کے متعلق خبر دے سکتا ہے، وہی ہے جو اپنے بندوں کے لئے راستے کو واضح و روشن کرسکتا ہے کہ کیسے چلیں تاکہ سعادت تک پہنچ جائیں۔ یہ قرآن کریم ہے جو کہ گزشتہ و آئندہ کی خبر دیتا ہے اور انسانوں کو ان کے ماضی و مستقبل سے آگاہ کرتا ہے، لہٰذا حضرت علی – ارشاد فرماتے ہیں: ”أَلا اِنَّ فِیہِ عِلْمَ مَا یَأتِیْ وَ الْحَدِیثَ عَنِ الْمَاضِیْ” آگاہ ہو جاؤ! کہ مستقبل اور ماضی کا علم قرآن کریم میں ہے۔

زندگی میں قرآن کا اثر

امیر المومنین حضرت علی – تمام مشکلات کا حل قرآن کو بتاتے ہیں اور اس کے بارے میں فرماتے ہیں: ”وَ دَوَاءَ دَائِکُمْ وَ نَظمَ مَا بَینَکُمْ” تمھارے درد کی دوا، تمھارے مشکلات کا حل اور تمھارے امور کے نظم و نسق کا ذریعہ قرآن ہے۔ قرآن ایسی شفا بخش دوا ہے جو تمام امراض کا علاج ہے اور قرآن کے ذریعے تمام درد و الم دور ہو جاتے ہیں۔ ہمیں چاہیئے کہ اس شفا بخش نسخہ کو پڑھیں، اس کا غور و خوض کے ساتھ مطالعہ کریں اور تمام فردی و اجتماعی مشکلات اوردردوں کے علاج کے طریقے سے آگاہ ہوں۔

یہ بات واضح ہے کہ درد کے احساس اور مشکل کو پہچاننے سے پہلے دوا بتانا فطری اصول سے خارج ہے، اس لئے کہ پہلے فردی اوراجتماعی دردوں کو پہچاننا چاہئے اور قرآن کی آیات کریمہ کے مطالعہ اور ان میں غور و خوض کے ذریعہ ان دردوں سے آگاہ ہونا چاہئے، پھر اس شفا بخش نسخہ سے استفادہ کر کے ان کا علاج کرنا چاہئے۔

آج ہمارے معاشرہ اور سماج میںبہت سے مشکلات پائے جاتے ہیں خواہ وہ فردی ہوں یا اجتماعی، اور ان مشکلات کا حل سبھی چاہتے ہیں اور باوجودیکہ مختلف شعبوں میں بہت سی ترقیاں ہوئی ہیں، لیکن بہت ساری مشکلیں باقی رہ گئی ہیں، ذمہ دار افراد ہمیشہ اس کوشش میں ہیں کہ کسی صورت سے ان کو حل کریں۔

حضرت علی – اس خطبہ میں فرماتے ہیں: ”وَ دَوَاءَ دَائِکُم وَ نَظمَ مَا بَینَکُمْ” قرآن تمھارے دردوں اور مشکلوں کے علاج کا نسخہ ہے، اور خطبہ ١٨٩ میں ارشاد فرماتے ہیں: ”وَ دَوَائً لَیسَ بَعدَہُ دَائٌ” یعنی قرآن ایسی دوا ہے کہ جس کے بعد کوئی درد باقی نہیں رہ جاتا۔

ہر چیز سے پہلے جس بات پر توجہ رکھنا لازم ہے، وہ حضرت علی – کے ارشاد پر ایمان رکھنا ہے، یعنی ہمیں پوری طرح سے اعتقاد و یقین رکھنا چاہئے کہ ہمارے درد اور مشکلات کا صحیح علاج خواہ وہ فردی ہوں یا اجتماعی، قرآن میں ہے۔

ہم سب اس بات کا اقرار کرتے ہیں، لیکن ایمان و یقین کے مرتبوں کے اعتبار سے ہم سب مختلف ہیں، اگر چہ ایسے بھی افراد ہیں جو بھر پور طریقہ سے ایمان و یقین رکھتے ہیں کہ اگر قرآن کی طرف توجہ دیں اور اس کی ہدایتوں پر عمل کریں، تو قرآن تمام بیماریوں کا بہترین شفا بخش نسخہ ہے، لیکن ایسے افراد بہت کم ہیں، شاید ہماری مشکلات کی ایک بڑی وجہ ایمان کی کمزوری ہو اور یہ چیز اس بات کا سبب بنی ہے کہ بہت سے مشکلات لاینحل ہی رہیں ۔ کبھی کبھی کچھ لوگ لاعلمی یا کج فکری کی بنا پر ممکن ہے یہ گمراہ کن نظریہ پیش کریں کہ باوجودیکہ قرآن ہمارے پاس ہے اور ہم اس کی پیروی کے دعویدار ہیں لیکن کیوں ہماری مشکلات حل نہیں ہوئیں اور لوگ اسی طرح اقتصادی مشکلات سے دو چار ہیں، جیسے مہنگائی اور کرنسی کے ہلکا ہونے سے ،نیز فردی، اجتماعی، اخلاقی اور ثقافتی مشکلات سے رنج اٹھارہے ہیں؟ اس سوال کے جواب کے لئے یہاں پر ہم چند توضیحات بیان کر رہے ہیں۔

قرآن، کلی طور پر راہنمائی کرتا ہے

یہ بات معقول نہیں معلوم ہوتی کہ کوئی شخص یہ امید رکھے کہ قرآن مسائل کو حل کرنے والی کتاب کی طرح تمام فردی و اجتماعی درد اور مشکلات کوایک ایک کر کے بیان کرے اورپھر ترتیب کے ساتھ ان کے حل کے طریقہ کی وضاحت کرے۔ قرآن کا سرو کار انسان کی ابدی سرنوشت سے ہے اور قرآن کا مقصد دنیا و آخرت میں انسان کی فلاح و نجات ہے۔ اسی لحاظ سے قرآن کریم ہمیںاصلی اور کلی راستوں کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان پر چل کر ہم کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں۔ یہ کلی خطوط اور راستے ایسے چراغ ہیں جو چلنے اور آگے بڑھنے کی سمت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ لیکن ہمیں اس بات کی طرف بھی توجہ رکھنی چاہئے کہ دنیا و آخرت میں سعادت و کامیابی حاصل کرنے کے لئے، مشکلات کو برطرف کرنے کے لئے، ترقی یافتہ اور اسی کے ساتھ ساتھ دینی او ر اسلامی معاشرہ کے تحقق کے لئے خداوند متعال نے دو وسیلے انسان کے اختیار میں قرار دیئے ہیں:(١)دین (٢)عقل۔

قرآن انسانی تکامل و ترقی کے اصلی خطوط اور شاہراہوں کو روشن کرتا ہے اور اسلامی سماج کا فریضہ ہے کہ تفکر و تدبر کے ذریعہ اور انسانی علمی تجربوں سے استفادہ کر کے قرآن کے بلند مقاصد کے تحقق کا مقدمہ فراہم کرے، نہ صرف قرآن دوسروں (حتی غیر مسلمین) کے علمی تجربوں سے استفادہ کو منع نہیں کرتا، بلکہ علم کوالٰہی امانت سمجھتا ہے اور مسلمانوں کو اس کے سیکھنے کی تشویق کرتا ہے۔

نبی اکرم (ص) علوم حاصل کرنے کے بارے میں مسلمانوں کی ترغیب و تشویق کے لئے ارشاد فرماتے ہیں: ”اُطْلُبُوْا العِلمَ وَ لَو بِالصِّیْنِ”١؎ علم حاصل کرو اور دوسروں کے علمی تجربوں سے استفادہ کرو اگر چہ اس مقصد کے پورا کرنے کے لئے دور دراز اور طولانی راستے طے کرنا پڑیں۔

البتہ آج عالمی رابطے بہت ہی سمٹ گئے ہیں اور استکباری ممالک اور سامراجی قوتیں مختلف حیلوں سے اور طرح طرح کی ٹکنالوجی اور اقتصادی سازوسامان سے نیز کلی طور سے انسان کے علمی تجربوں کے نتیجہ میں ایجاد ہونے والے تمام آلات و وسائل کے ذریعے اس بات کی کوشش کر رہی ہیں کہ ایسے سامراجی رابطوں کو قوی بنایا جائے جن کے ذریعہ دوسروں پر تسلط پالیا جائے، لیکن ہمارا فریضہ ہے کہ نہایت ذہانت و ہوشیاری سے اور اپنے اسلامی و قرآنی مقاصد سے ذرہ برابر پیچھے ہٹے بغیر، مختلف شعبوں میں انسانی علوم کے نتائج سے لوگوں کے اقتصادی حالات کی بہتری اور معاشی مشکلات کو برطرف کرنے کے لئے استفادہ کریں۔

…………………………………………………

(١)بحار الانوار، ج١، ص١٧٧۔

اس بنا پر قرآن نے انسان کی زندگی کی چھوٹی، بڑی تمام مشکلات کو ایک ایک کر کے بیان نہیں کیا ہے۔ بلکہ قرآن نے انسان کی سعادت و تکامل کے بنیادی اور کلی طریقوں کو بیان کیا ہے اور مسلمانوں کے لئے ان کی نشاندہی کردی ہے۔ اس حصہ میں قرآن کے شافی ہونے کے متعلق حضرت علی – کا ارشاد ذکر کرتے ہوئے قرآن میں مذکور ان کلی طریقوں میں سے ایک طریقہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں اور نمونہ کے طور پر اس کی وضاحت کر رہے ہیں۔

قرآن کی کلی راہنمائی کا ایک نمونہ

قرآن کریم فرماتا ہے: (وَ لَو أَنَّ أَہلَ القُریٰ آمَنُوا وَ اتَّقَوا لَفَتَحنَا عَلَیہِم بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمآءِ وَ الأَرضِ وَ لٰکِن کَذَّبُوا فَاَئخَذنَاہُم بِمَا کانُوا یَکسِبُونَ)١؎

یہ آیت ان آیات محکمات میں سے ایک ہے جن میں کسی طرح کا تشابہ نہیں پایا جاتا اور اس کے معنی ایسے صریح و واضح ہیں کہ جس میں کسی طرح کے شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے، اس طرح کہ اس آیت کے الفاظ اور جملوں سے اس بات کے علاوہ کوئی اور بات سمجھ میں نہیں آسکتی کہ جس کو ہر اہل زبان او رعربی داں سمجھ سکتا ہے، ان کج فکروں اور ان لوگوں کو چھوڑیئے جو کہ مختلف قرائتوں اور نئے نئے معانی کے قائل ہیں، ممکن ہے وہ

…………………………………………………

(١)سورہ  اعراف، آیت٩٦۔

کہیں کہ ہم لفظ لیل (شب) سے نہار (دن) اور حجاب سے عریانیت سمجھتے ہیں۔ البتہ یہ یاد دلادیں کہ آئندہ دین کی مختلف قرآئتوں کے متعلق تفصیل سے گفتگو کریں گے۔

یہ آیہئ کریمہ اعتقاد کے کلی قوانین میں سے ایک کو نیز اقتصادی مشکلات کے علاج اور معاشی سختیوں کے برطرف کرنے کے طریقوں کو بیان کرتی ہے۔ آیہئ شریفہ کا ترجمہ یہ ہے: ”اگر بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو یقینا ہم آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے ان کے اوپر کھول دیتے، لیکن ان لوگوں نے تقویٰ اختیار نہ کیا، بلکہ کفر اختیار کیا او رالٰہی نعمتوں کی ناشکری کی، نتیجہ میں مختلف مشکلوں اور بلاؤں میں گرفتار ہوگئے”۔

اس بنا پر قرآن کریم پوری وضاحت کے ساتھ مومنین کی زندگی میں کشائش پیدا ہونے، اقتصادی توسیع، اقتصادی بحرانوں کو دور کرنے اور نعمت نازل ہونے کونیز کلی طور سے آسمان و زمین کی برکتیں نازل ہونے کو ایمان و تقویٰ کا مرہون منت جانتا ہے، اور اسی کے مقابل، الٰہی نعمتوں کی ناشکری کو نعمتوں کے زوال، بلاؤں کے نزول اور مختلف مشکلوں کا سبب بتاتا ہے۔ اور نعمت کے شکر اور اس کی قدر دانی کو نعمت کے اضافہ کا ذریعہ اور نعمت کی ناشکری کو عذاب کا سبب جانتا ہے، قرآن فرماتا ہے: (لَئِنْ شَکَرتُمْ لَأَزِیدَنَّکُمْ وَ لَئِنْ کَفَرتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیدٌ)١؎ اگر تم نعمتوں کا شکر بجا لاؤ گے تو میں یقینا تمھارے لئے نعمتوں کو زیادہ کردوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو بے شک میرا عذاب بہت ہی سخت ہے۔

…………………………………………………

(١)سورہ  ابراہیم، آیت ٧۔

یہاں پر ایک بہت بڑی الٰہی نعمت کی طرف ہم اشارہ کر رہے ہیں جو قرآن کریم کی پیروی کے نتیجہ میں ایران کی عظیم قوم کو حاصل ہوئی ہے، اور خداوند عزو جل سے دعا کرتے ہیں کہ لوگوں کو اس کی قدر دانی کی توفیق عطا فرمائے اوراسی کی ذات اقدس کی پناہ چاہتے ہیں اس بات سے کہ کہیں ناشکری کے نتیجہ میں یہ عظیم نعمت ہم سے چھن نہ جائے۔

اسلامی حکومت کی تشکیل میں عطائے الٰہی کی جھلک

ہم سب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت علی – کی شہادت کے بعد ہم مسلمانوں کی سب سے بڑی تمنا، الٰہی وحی و احکام پر مبنی ایک عادلانہ حکومت قائم کرنے کی رہی ہے۔ صدیوں سے ہمارے بزرگ اور آباء و اجداد ایسی حکومت قائم کرنے کی تمنا دل میں لئے رہے اور ظالم و جابر بادشاہوں اور حاکموں کے زیر تسلط گھٹن کی زندگی گزارتے رہے اور وہ اپنے اجتماعی امور کو نافذ نہیں کرسکتے تھے، ایسی صورت میں ان کو اسلامی حکومت کا وجود فقط دلی ارمان اور ناممکن چیز نظر آتی تھی۔

تیرہ سو سال سے زیادہ گزر جانے کے بعد تاریخ کے اس دور میں ایرانی مسلمانوں کے قرآن کریم پر عمل کرنے نیز امام معصوم – کے نائب اور ولی فقیہ کی رہبری کو تسلیم کرنے کے نتیجہ میں خداوند متعال نے اپنی ایک بہت بڑی نعمت یعنی اسلامی حکومت مسلمانوں کو عنایت فرمائی۔ واضح رہے کہ ہم نواقص کی توجیہ نہیں کرنا چاہتے، بلکہ جو بات یہاں قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ اس مقدس نظام و حکومت کا اصل وجود، الٰہی عطاؤں اور عنایتوں سے اس مقصد کے تحت ہے کہ الٰہی احکام نافذ ہوں اور انھیں عملی جامہ پہنایا جائے۔

انقلاب کے بیس سال گزر جانے کے بعد اب جو بات قابل توجہ ہے کہ جس نے دینی و اخلاقی اقدار کے پاسداروں اورنگہبانوں نیز انقلاب کے دلسوز افراد کی تشویش کو دو گنا کردیا ہے وہ یہ ہے کہ کہیں (خدا نخواستہ) ایسا نہ ہو کہ معاشرہ اپنے ایمان و تقویٰ سے ہاتھ دھو بیٹھے اور دھیرے دھیرے اس کی دینی و انقلابی قدریں پھیکی پڑ جائیںاور نتیجہ میں اسلام و ایران کے دشمن ثقافتی حملہ اور شبخون مار کے اپنے منصوبوں میں کامیاب ہو جائیں، اور لوگوں کو خصوصاً جوانوں کو دینی و انقلابی اقدار سے جدا کر کے دوبارہ ایران کے مسلمانوں پر تسلط حاصل کرلیں۔

ممکن ہے یہاں یہ سوال کیا جائے کہ تو پھر اس صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے کہ جس سے ایک طرف معاشرہ کے دینی و اعتقادی اقدار محفوظ رہیں اور نتیجہ میں دشمن اپنے منصوبوں میں ناکام ہوجائے اور دوسری طرف ہم تمام مشکلات پر غالب آجائیں۔

امیر المومنین حضرت علی – نہج البلاغہ میں خطبہ ١٥٧ کے شروع میں اسی بات کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور فردی و اجتماعی مشکلات کے حل کا راستہ قرآن کی طرف رجوع اور اس کے احکام پر عمل کرنے کو بتاتے ہیں۔

اجتماعی مشکلات کا حل قرآن کی پیروی میں ہے

اس سلسلہ میں حضرت علی – کا کلام، حضرت رسول اسلام (ص) کے نہایت ہی قیمتی ارشاد کی ایک دوسری توضیح ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا: ”اِذَا الْتَبَسَتْ عَلَیکُمُ الْفِتَنُ کَقِطَعِ اللَّیلِ الْمُظْلِمِ فَعَلَیکُمْ بِالْقُرآن”١؎ یعنی جب بھی اضطراب و

…………………………………………………

(١)بحار الانوار، ج٩٢، ص ١٧۔

مشکلات، فتنے اور فسادات، اندھیری رات کے ٹکڑوں کے مانند تم پر چھا جائیں اور ان مشکلات کو حل کرنے میں عاجز ہو جاؤ تو تم پر لازم ہے کہ قرآن کی طرف رجوع کرو اور اس کی نجات بخش ہدایات کو عمل کا معیار قرار دو۔

قرآن کریم کے امید بخش احکام، امید، مشکلات پر غلبہ، نجات و کامیابی، سعادت اور خوشبختی کی روح کو دلوں میں زندہ کرتے ہیں اور انسانوں کو یاس و ناامیدی کے بھنور سے نکال کر نجات دلاتے ہیں۔

واضح ہے کہ ہر کامیابی انسانوں کی خواہش و کوشش کی مرہون منت ہے۔ اس بنا پر اگر ہم چاہیں کہ اسی طرح اپنے استقلال، اپنی آزادی اور اسلامی حکومت کو محفوظ رکھیں اور ہر قسم کی سازش سے خداوند متعال کی پناہ میں رہیں تو اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کہ خدا اور قرآن کے نجات بخش احکام کی طرف رجوع کریں اور اس ناشکری اور بے حرمتی کے سبب توبہ کریں جو بعض مغرب زدہ افراد کی طرف سے دینی اقدار کو پامال کرنے کے لئے کی گئی ہیں۔

نہایت ہی احمقانہ بات ہے اگر ہم یہ خیال کریں کہ سامراجی طاقتیں کسی چھوٹے سے چھوٹے مسئلہ میں بھی جو کہ ایران کی مسلمان قوم کے نفع میں ہو اور ان کے استعماری منافع کے خلاف ہو، اسلامی جمہوریہئ ایران کے ارباب حکومت کا ساتھ دیں گی اور یہ بہت بڑی ناشکری ہے کہ ہم نجات و سعادت کے ضامن اور نبی اکرم (ص) کے ابدی معجزہ قرآن کریم کو چھوڑدیں اور مشکلات کے حل کے لئے دشمنوں کی طرف دست نیاز بڑھائیں، اور ولایت فقیہ جو کہ انبیاء (ع) اور ائمہئ معصومین علیهم السلامکی ولایت ہی کی ایک کڑی ہے، اس کو چھوڑ کر شیاطین اور دشمنان خدا کی ولایت و تسلط کو قبول کریں۔ خدا کی پناہ مانگنی چاہئے اس بات سے کہ کسی دن ایران کی مسلمان قوم، استقلال و آزادی، عزت و امنیت کی عظیم نعمت کی ناشکری کے سبب غضب کا مستحق قرار پائے اور اپنی ذلت و اہانت، اپنے سقوط و انحطاط کا ذریعہ دوبارہ اپنے ہی ہاتھوں سے فراہم کرے۔

بہرحال پوری ملت خصوصاً ملک کے ثقافتی امور کے عہدہ داروں اور کارندوں کا فریضہ ہے کہ معاشرہ کے اخلاقی و دینی اعتقادات و اقدار کی حفاظت کریں۔

بعض ایسے لوگ جو کہ دینی علوم و معارف میں زیادہ بصیرت نہیں رکھتے اور سیکولرازم اور اصالت فرد (Individualism) کے نظریوں سے متاثر ہیں، حضرت علی – کے اس ارشاد کے متعلق (کہ تمھارے تمام درد اور مشکلات کا حل قرآن میں ہے)، ان لوگوں کا تصور یہ ہے کہ اس ارشاد میں درد اور مشکلات سے مراد لوگوں کے انفرادی، معنوی اور اخلاقی درد اور مشکلات ہیں۔ لیکن ہماری نظر میں یہ توضیح صحیح نہیں ہے اس لئے کہ یہاں پر انفرادی و اجتماعی دونوں طرح کے مسائل موضوع بحث ہیں۔ یہ بات کہنا ضروری ہے کہ دین کی سیاست سے جدائی اور نظریہئ سیکولرازم کے بے بنیاد ہونے کے متعلق یہاں پر تفصیل سے بحث کرنے کی گنجائش نہیں ہے، اس کے باوجود اس بحث کے ضمن میں حضرت علی – کے ارشاد کی توضیح بیان کرنے کے ساتھ ساتھ دین کی سیاست سے جدائی کے نظریہ کا بے بنیاد ہونا اور سیکولرازم کے نظریہ کا باطل ہونا بھی واضح ہو جائے گا۔

قرآن کی ہدایات کے مطابق اجتماعی امور کا نظم و نسق

حضرت علی – ارشاد فرماتے ہیں:

” اَلا اِنَّ فِیہِ عِلمَ مَا یَأتِی وَ الْحَدِیثَ عَنِ الْمَاضِیْ وَ دَوَاءَ دَائِکُمْ وَ نَظمَ مَابَینَکُمْ”١؎

حضرت (ع) اس بات کے بیان کے بعد کہ گزشتہ و آئندہ کا علم قرآن میں ہے اور قرآن تمام دردوں کی دوا ہے، یہ نکتہ یاد دلاتے ہیں کہ: ”وَ نَظمَ مَابَینَکُمْ”تم مسلمانوں کے باہمی امور کی شیرازہ بندی قرآن میں ہے۔ یہ آسمانی کتاب تمھارے اجتماعی روابط کی کیفیت کو بھی معین کرتی ہے۔ یوں تو یہ ایک چھوٹا سا جملہ ہے لیکن یہی مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کا ضامن ہے، ہم اس کی توضیح پیش کر رہے ہیں لیکن اس سے پہلے ایک چھوٹا سا مقدمہ ذکر کرنا ضروری ہے۔

ہر سیاسی اور اجتماعی نظام کا سب سے بڑا مقصد، اجتماعی نظم اور امنیت کو بحال اور برقرار رکھنا ہے۔ کوئی بھی سیاسی مکتب فکر دنیا میں ایسا نہیں پایا جاسکتا جو اس مقصد کا انکار کرے، بلکہ امنیت کی بحالی اور نظم کی برقراری ہر حکومت کے فرائض میں سرفہرست ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سیاسی و اجتماعی نظم کا برقرار رکھنا علم سیاست کے مقاصد میں سے ہے، جیسا کہ انسانی معاشروں پر حاکم تمام سیاسی نظام کم از کم اپنی تبلیغات اور اپنے نعروں میں اس مقصد کو اپنے حکومتی نظام کے سب سے بڑے مقصد کے عنوان سے بیان کرتے ہیں۔

…………………………………………………

(١)نہج البلاغہ، خطبہ ١٥٧۔

اجتماعی زندگی میںمقصد کا اثر

یہاں پر اجتماعی زندگی میں مقصد کے اثر کی طرف توجہ دلا دینا بھی ضروری ہے اس لئے کہ اجتماعی زندگی میں مقصد کی طرف توجہ دیئے بغیر، اجتماعی نظم کے متعلق کوئی بات نہیں کہی جاسکتی۔ مقصد ہی ہے جو کہ منطقی طور پر خاص رفتار و گفتار کا موجب و سبب بنتا ہے، انسان اپنی اس خاص رفتار و گفتار کے ذریعہ اجتماعی زندگی میں اس مقصد تک پہنچنا چاہتا ہے۔ مقصد خود، افراد معاشرہ کے نظریات اور مکتب فکر سے پیدا ہوتا ہے، اس طرح کہ ہر معاشرہ فطرت اوّلی کے اعتبار سے اپنے نظریات اور مکتب فکر کے تحت ایک خاص اجتماعی نظم کو پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا سامراجی طاقتیں اپنی استکباری سیاستوں کے تحت کوشش کرتی ہیں کہ دوسری قوموں کو اپنے سامراجی مقاصد کی طرف کھینچ لائیں، ان کو ان کے اصلی مکتب فکر سے دور کردیں اور بیرونی مکتب فکر کو لاد کر ان قوموں کے نظم و تمدن اور مکتب فکر کو اپنے ہاتھ میں لے لیں۔

اس بنا پر یہ دیکھنا چاہئے کہ معاشرہ پر حاکم مکتب فکر کیا نظم پیدا کرتا ہے؟ یہ بات ہے کہ قرآن اور توحیدی مکتب فکر سے پیدا شدہ دینی مکتب فکر ایسے نظم اور ایسی سیاست کا سبب اور نافذ کرنے والا ہوتا ہے کہ جس سے دنیا و آخرت میں انسان کی خلقت کا مقصد حاصل ہو اور وہ سعادت و خوشبختی حاصل کرسکے۔ یعنی جو بات اصالتاً اسلام و قرآن کے پیش نظر ہے، وہ انسان کی سعادت اور اس کا تکامل ہے۔

نہایت افسوس ہے کہ بعض روشن فکر اور لیبرل افراد جو ایک طرف مسلمان ہیں اور دوسری طرف اسلام کے سیاسی اور اجتماعی مسائل میں زیادہ بصیرت نہیں رکھتے، نتیجہ میں ان میں دینداری اور دین سے لگاؤ نہیں ہے، اور وہ اس بنیادی نکتہ سے غافل ہیں، چنانچہ جس وقت اجتماعی نظم کی بات کہی جاتی ہے تو ان کے ذہن میں مغربی ڈیموکراسی (عوامی حکومت ) سے حاصل شدہ اجتماعی نظم ابھرتا ہے، اس حال میں کہ مغرب کا وہ اجتماعی نظام اس کے سیکولرازم نظریہ سے پیدا ہوا ہے یہ روشن فکر افراد اپنی ناقص دینی معلومات کے سبب گمان کرتے ہیں کہ اجتماعی امور کے نظام پر مبنی معاشرہ کی ادارت، صرف دین کی سیاست سے جدائی میں ممکن ہے کہ یہ بات خود استعماری مکتب فکر کا نتیجہ ہے اور اس کو سامراجی طاقتوں کی ایک کامیابی سمجھا جاتا ہے تاکہ تیسری دنیا کے ممالک کے روشن فکر افراد کی فکروں کو بے جان کر کے ان کو دینی فکر سے دور کرسکیں اور اپنی سامراجی ثقافت کی ترویج کے عوامل و اسباب میں تبدیل کرسکیں۔

بہرحال توحیدی و اسلامی مکتب فکر میں ہر چیز منجملہ ان کے اجتماعی نظام کی تعیین، خلقت کے ہدف و مقصد کی روشنی میں ہوتی ہے، اور واضح ہے کہ دینی و قرآنی مکتب فکر میں اجتماعی نظام کا ہدف فقط مادی فائدے اور دنیوی منافع ہی کا تحقق نہیں ہے بلکہ دنیوی فائدے کے تحقق کے علاوہ، انسان کے تکامل اور اخروی سعادت پر بھی توجہ دی گئی ہے، اور واضح ہے کہ تعارض (ٹکراؤ) کی صورت میں دنیوی امور پر اخروی سعادت کو مقدم سمجھا جاتا ہے۔

اب ہم اس مقدمہ کو مد نظر رکھتے ہوئے معاشرہ کے سیاسی و اجتماعی نظام کے تحقق کے متعلق قرآن کے اثر کے بارے میں حضرت علی – کے بیان کی طرف واپس آتے ہیں، اور حضرت (ع) کے ارشاد پر غور و خوض کرتے ہیں تاکہ ولایت کی راہنمائی میں اجتماعی زندگی میں قرآن کے اثر اور اس کی اہمیت سے زیادہ آگاہ ہوسکیں۔

حضرت علی – معجز نما تعبیر کے ساتھ قرآن کے اثر کو معاشرہ کے اجتماعی امور کی تنظیم کے متعلق بیان فرماتے ہیں اور اس کی طرف ہمیں توجہ دلاتے ہیں تاکہ ہم اس سے غفلت نہ برتیں۔

حضرت (ع) یہ بیان فرمانے کے بعد کہ قرآن تمھاری مشکلات کو حل کرنے کے لئے بہترین نسخہ ہے، فرماتے ہیں: ”وَ نَظْمَ مَابَینَکُمْ” تمھارے امور اور روابط کا نظم و نسق قرآن میں ہے، یعنی اگر تم مطلوب و معقول نظام کو چاہتے ہو کہ جس کے سایہ میں معاشرہ کے تمام افراد اپنے جائز حقوق حاصل کرسکیں تو تمھارے لئے لازم ہے کہ اپنے امور قرآن کی ہدایات کے مطابق منظم کرو۔

صاحبان علم و دانش پر یہ پوشیدہ نہیں ہے کہ ”وَ نَظْمَ مَابَینَکُمْ” کی تعبیر لوگوں کے اجتماعی روابط و امور پر مشتمل ہے، اگرچہ لوگوں کا فریضہ ہے کہ اپنے شخصی و فردی امور کو بھی قرآن کی ہدایات کی بنیاد پر منظم کریں، لیکن ”وَ نَظْمَ مَابَینَکُمْ” کی تعبیر لوگوں کے شخصی و فردی امور کے نظم و نسق کو شامل نہیں ہے جیسا کہ اہل زبان پر پوشیدہ نہیںہے، حضرت علی – اپنے اس خطبہ میں قرآن کریم کے اجتماعی پہلوؤں کے اثر کو بیان فرما رہے ہیں۔

حضرت (ع) اس نکتہ کے بیان کے ساتھ کہ تمھارا اجتماعی نظم و نسق قرآن کریم میں ہے، مسلمانوں او راپنے پیروؤں سے فرماتے ہیں کہ تمھیں اپنے سیاسی امور اور اجتماعی روابط کو قرآن کی بنیاد پر قرار دینا چاہئے۔

البتہ یہ بات بھی واضح ہے کہ مذکورہ فرمان اور نصیحتیں جب تک اسلامی نظام کے عہدہ دار اور ذمہ دار افراد کی طرف سے صرف ایسی اخلاقی نصیحتیں سمجھی جائیں کہ جن کا جاری کرنا لازم نہ ہو اور ان کے قلبی ایمان او راعتقاد و یقین میں رچی بسی نہ ہوں، تو اس وقت تک ”یہ آسمانی نسخہئ شافیہ” ہمارے معاشرہ کے کسی بھی درد کی دوا نہ بنے گا۔

حضرت علی – دینی نظام کی سیاست کے کلیدی اور اہم نکات کے بیان کے ساتھ ایسی واقعیتوں اور حقیقتوں کو بیان فرما رہے ہیں کہ جن پر عمل کئے بغیر، عدل و انصاف پر مبنی اس انسانی معاشرہ تک پہنچنا ممکن نہیں ہے جس میں تمام افراد اپنے حقوق اور مطلوب تکامل کو حاصل کرسکیں۔

اس بنا پر سب سے زیادہ اصلی اور کارساز و مفید عامل ، قرآن کریم کی کلی سیاستوں اور اس کے دستور العمل پر، حکومت کے مسؤلین اور عہدہ داروں کا ایمان واعتقاد اور یقین رکھنا ہے۔ جب تک وہ لوگ، معاشرہ کی مشکلات کے حل اور افراد کی کامیابی کے سلسلہ میں قرآن اور اس کے ہدایات کے مفید و کارآمد ہونے پر قلبی ایمان اور پختہ اعتقاد نہ رکھیں گے، اس وقت تک نہ صرف عمل میں، قرآن کو اپنا نمونہ قرار نہیں دیں گے، بلکہ قرآن کے علوم و معارف کو سمجھنا بھی نہ چاہیں گے۔

البتہ چونکہ وہ اسلامی ملک اور مسلمان عوام پر حکومت کرتے ہیں، اس لئے ممکن ہے کہ وہ اپنی حیثیت کو محفوظ رکھنے کے لئے ظاہری طور سے اور نعروں کی حد تک، اپنی عوام اور دوسری مسلمان قوموں کے درمیان اپنے کو مسلمان اور اپنی حکومت کو اسلامی حکومت کہیں، جبکہ اس حکومت کا نمونہ جو کہ ان کے لئے اہم بات نہیں ہے، وہ حکومت ہے جو اسلامی قوانین اور قرآنی نمونوں پر استوار ہے لیکن دین اور قرآنی مکتب فکر سے نام نہاد اسلامی حکومتوں کی بیگانگی، خصوصاً معاشرہ کے نظم و نسق اور سیاست کے شعبہ میں، ایسی بات نہیں ہے جو مسلمانوں کے لئے اجنبی اور غیر معروف ہو، اس لئے کہ تمام مسلمان قومیں جانتی ہیں کہ ان کے ممالک کے حکومتی نظام اسلامی نہیں ہیں، اور حکومت کے عہدہ داروں پر حاکم ذہنیت و مکتب فکر، اس ذہنیت اور مکتب فکر سے جو کہ قرآنی مکتب فکر کی بنیاد پر قائم ہیں، کلی طور پر مختلف ہے۔

جو بات انسان کو حیرت و تعجب میں ڈالتی ہے اوراسی کے ساتھ افسوس اور تشویش کا باعث ہے، ہمارے عزیز اسلامی ملک ایران کی موجودہ ثقافتی حالت ہے۔ جس ملک میں ہدایات قرآن اور دینی مکتب فکر کی بنیاد پر اور ولایت فقیہ کی رہبری میں انقلاب آیا اور کامیاب ہوا، نہایت افسوس اور تشویش کی بات ہے کہ بعض ثقافتی عہدہ داروں کے بیانات، ان کے موقف اوران کے افکار کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ بھی اس آسمانی کتاب کی اچھی طرح معرفت نہیں رکھتے اور اس سے اخذ شدہ حکومتی نمونہ کے مفید و کارآمد ہونے کو دوسرے مشرقی اور مغربی نمونوں سے زیادہ نہیں سمجھتے۔ چنانچہ یہ لوگ مسلسل اسلامی انقلاب کے اصول اور دینی اقدار سے پیچھے ہٹتے جارہے ہیں اور پختہ ایمان اور قلبی اعتقاد نہ رکھنے کے سبب کبھی کبھی اشاروں، کنایوں سے اور کبھی کبھی تصریح کے ساتھ، نہایت بے شرمی سے ایسا اظہار کرتے ہیں کہ قرآن کی حاکمیت اور دینی مکتب فکر پر عمل کا زمانہ حکومت کے میدان میں گزر چکا ہے اور اس دور میں انسانی معاشرہ وحی الٰہی کی احتیاج نہیں رکھتا اور خود تنہا معاشرہ کی ادارت، امنیت کی بحالی اور نظم برقرار رکھنے کے لئے بہتر راستے دکھا سکتا ہے۔

مناسب تھا کہ ہم یہاں پر دنیا میں موجودہ ظالمانہ حکومتی نظام اور ترقی یافتہ نظاموں کے نام پر مختلف اقوام و مذاہب پر جو ظلم ہو رہا ہے اس کی طرف اشارہ کرتے ، تاکہ مذکورہ قول کی بے مائگی اور اس کے قائلین کی خود فروشی و بے ایمانی پہلے سے زیادہ برملا ہو جائے، لیکن اصل موضوع سے دور ہونے اور بیان کے طویل ہو جانے کے خوف سے، انسانی نظاموں میں موجود بے عدالتی، انسانوں کے حقوق کی پامالی اور ظلم و جور کے بیان سے گریز کرتے ہیں لہٰذا آپ حضرات ان موضوعات سے متعلق کتابوں کا مطالعہ فرمائیں۔

بہرحال یہ بات واضح ہے کہ ہدایات قرآن کی بنیاد پر حکومت کی صلاحیت و افادیت، معاشرہ کے درمیان عدل و انصاف اور نظم و نسق کے تحقق میںاس وقت منصّہئ شہود پر ظاہر ہوتی ہے جس وقت کہ حکومت کے عہدہ دار اور کارندے اس پر یقین و اعتقاد رکھیں اور منزل عمل میں قرآن کے احکام و قوانین کو اپنا نصب العین قرار دیں، اس لئے کہ جب تک ایسا نہ ہوگا معاشرہ پر قرآن کی حکومت نہیں ہوگی۔

اس بنا پر معاشرہ میں قرآن کی حاکمیت کے لئے، حکومت کے عہدہ داروں اور کارندوں کا اس آسمانی کتاب پر قلبی یقین و ایمان رکھنا ضروری ہے اسی طرح خود اس بات کے لئے لازم ہے کہ وہ لوگ اس الٰہی نسخہئ شافیہ کی شناخت، نیز الٰہی حکومت اوردین کی احتیاج کا احساس رکھتے ہوں۔ یہ احساس بھی صرف اور صرف اسی صورت میں حاصل ہوگا جبکہ بندگی کی روح پیدا کریں اور خداوند متعال کی حاکمیت کے مقابل کبر و غرور و خود پسندی اوراستکباری روح کو نکال باہر کریں۔ یہ استکباری روح وہی مذموم روح ہے جس نے شیطان کو عالم ملکوت اور بارگاہ خداوندی سے باہر نکال دیا اور اس کی ابدی شقاوت کا باعث بن گئی۔

مناسب ہے کہ یہاں پر ہم حضرت علی – کے خطبہ ١٧٥، پر توجہ دیں کہ جس میں حضرت (ع) نے قرآن کریم سے دوری کے برے نتائج کو بیان فرمایا ہے۔ یہ بیان ان افراد کے لئے ایک تنبیہ اور ٹہوکا ہے جو ایک طرف اپنے کو حضرت علی -کا پیرو بتاتے ہیں اور دوسری طرف قرآن اور اس سے اخذ شدہ حکومتی نمونہ کو آج کے انسانی معاشرہ کی ادارت کے لئے ناکافی سمجھتے ہیں، نیز حکومتی سیاستوں کو پیش کرنے میں انسان کی ناقص فکری اُپج کو قرآن کی ولائی حکومت پر ترجیح دیتے ہیں۔ امید ہے کہ ایسی ہدایتوں کی روشنی میں ہمارے معاشرہ کے تمام لوگ خصوصاً حکومتی امور کے عہدہ دار اور دستور ساز افراد، پہلے سے زیادہ اسلامی معاشرہ میں قرآن کے محور ہونے کے لزوم پر ایمان پیدا کریں گے اور یہ ہدایات منزل عمل میں بروئے کار لائی جائیں گی۔

بے نیازی، قرآن کی پیروی میں

حضرت علی – مذکورہ خطبہ میں قرآن کریم کا تعارف شاخص و رہنما کے عنوان سے کراتے ہیں اور فرماتے ہیں: یقین رکھو! قرآن ایسا ناصح ہے جو کہ اپنے پیرووں کے ارشاد میں خیانت نہیں کرتا اور ایسا ہادی ہے جو گمراہ نہیں کرتا اور ایسا بولنے والا ہے جو اپنی بات میں جھوٹ نہیں بولتا، کوئی شخص اس قرآن کے ساتھ نہیں بیٹھا اور کسی نے اس میں تدبر و تفکر نہیں کیا مگر یہ کہ جب اس کے پاس سے اٹھا تو اس کی ہدایت و رستگاری میں اضافہ ہی ہوا اور اس کی گمراہی ختم ہوگئی، پھر حضرت (ع) فرماتے ہیں:

”وَ اعْلَمُوا أَنَّہُ لَیسَ عَلٰی اَحَدٍ بَعدَ الْقُرآنِ مِن فَاقَۃٍ وَ لَا لِأَحَدٍ قَبلَ الْقُرآنِ مِن غِنًی فَاسْتَشفُوہُ مِن اَدْوَائِکُم وَ اسْتَعِینُوا بِہِ عَلٰی لَأوَائِکُم فَاِنَّ فِیہِ شِفَائً مِن أَکْبَرِ الدَّاءِ وَ ہُوَ الْکُفْرُ وَ النِّفَاقُ وَ الْغَیُّ وَ الضَّلاَلُ”١؎

قرآن، اور معاشرہ پر اس کی حاکمیت ہونے کی صورت میں کسی کے لئے کوئی ایسی نیاز و احتیاج باقی نہیں رہ جاتی جو کہ پوری نہ ہو، اس لئے کہ قرآن کریم موحدین کی زندگی کے لئے سب سے زیادہ بلند و عالی، الٰہی دستور العمل ہے اور خداوند متعال نے اس آسمانی کتاب کے پیرؤوں کی دنیا و آخرت کی عزت و کامیابی کی ضمانت لی ہے۔ اس بنا پر جب ہمارا اسلامی معاشرہ قرآن کے حیات بخش احکام و فرامین پر عمل کرے او راس کے وعدوں کی سچائی پر ایمان رکھتے ہوئے اس کو اپنے عمل کا نمونہ قراردے، تو قرآن معاشرہ کی تمام فردی، اجتماعی، مادی اور معنوی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور اسلامی معاشرہ کو ہر چیز اور ہر شخص سے بے نیاز کردیتا ہے۔

اسی کے مقابل، حضرت علی – قرآن سے جدائی کے خطرے کو بھی گوش زد فرماتے ہیں اور اس نظریہ کو رد کرتے ہیں کہ اس الٰہی ثقل اکبر، قرآن کے بغیر معاشرہ کی فردی و اجتماعی مشکلات اور ضرورتوں کو برطرف کیا جاسکتا ہے، حضرت علی (ع) ارشاد فرماتے ہیں: ”وَ لَا لِأَحَدٍ قَبلَ الْقُرآنِ مِن غِنًی” کوئی بھی شخص قرآن کے بغیر بے نیاز نہیں

…………………………………………………

(١)نہج البلاغہ، خطبہ ١٧٥۔

ہوسکتا اور کبھی بھی معاشرہ قرآن سے مستغنی نہیں ہوسکتا، یعنی عدل و انصاف اور اخلاقی و انسانی اقدار کی بنیاد پر ایک معاشرہ وجود میں لانے کے لئے اگر تمام انسانی علوم اور تجربوں کواستعمال کیا جائے اور تمام افکار و خیالات اکٹھا ہو جائیں، تب بھی قرآن کے بغیر ہرگز صحیح راستہ اور صحیح منزل نہیں پاسکتے، اس لئے کہ بے نیازی کسی شخص کے لئے بھی قرآن کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اسی بنا پر آپ (ع) فرماتے ہیں: ”فَاسْتَشفُوہُ مِن اَدْوَائِکُم وَ اسْتَعِینُوا بِہِ عَلیٰ لَأوَائِکُم” اپنی مشکلات اور بیماریوں کا علاج قرآن سے طلب کرو اور سختیوں اور پریشانیوں میں قرآن سے مدد حاصل کرو۔ پھر سب سے بڑی فردی و اجتماعی بیماری یعنی کفر و ضلالت و نفاق کو یاد دلا کر فرماتے ہیں کہ ان مشکلات اور بیماریوں کے علاج کا طریقہ قرآن میں موجود ہے، تمھیں چاہئے کہ قرآن کی طرف رجوع کر کے اپنے درد اور مشکلات کا علاج کرو۔

اس بنا پر بنیادی اصولوں کو قرآن سے لینا چاہئے اور ان کلی اصولوں کی پیروی کر کے نیز تدبر و تفکر اور تجربوں سے استفادہ کر کے مشکلات کے حل کا راستہ پیدا کرنا چاہئے۔ اگر ا س نظریہ کے ساتھ مشکلات کو حل کرنا چاہیں تو ہم یقینا تمام مشکلات پر، تمام شعبوںمیں غلبہ اور قابو پالیں گے، اس لئے کہ یہ الٰہی وعدہ ہے، خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے: (و مَن یَّتقِ اللّٰہَ یَجعَل لَّہُ مَخرَجاً)١؎ جو شخص تقوائے الٰہی اختیار کرتا ہے اوراحکام خدا سے روگردانی نہیں کرتا خداوند متعال اس کے لئے نجات اور مشکلات سے نکلنے کا راستہ فراہم کردیتا ہے١؎۔

…………………………………………………

(١)سورہ  طلاق، آیت ٢۔

قرآن سب سے بڑی بیماری کی دوا

البتہ ممکن ہے مذکورہ باتیں مغرور انسانوں کے ذوق کے موافق نہ ہوں اور ان لوگوں کواچھی نہ لگیں جو کہ تقوائے الٰہی اور قرآن واہلبیت (ع) کے علوم سے بالکل بے بہرہ ہیں نیز بشری علوم کی چند اصطلاحیں جاننے کے سبب اپنے کو خداوندمتعال کے مقابل سمجھتے ہیں، لیکن ہر عقلمند انسان اعتراف کرتا ہے کہ انسان نے جو کچھ اپنی نت نئی علمی ترقیوں کے ساتھ انکشاف اور ایجاد کیا ہے وہ اس کی مجہول و نامعلوم باتوں کے مقابل ایسا ہی ہے جیسے سمندر کے مقابل ایک قطرہ، اور انسانی مدینہئ فاضلہ کا نمونہ پیش کرنے میں تمام غیر الٰہی اخلاقی مکاتب فکر کے نظریات اوردعوے، خدا کے لامحدود علم اور علوم اہلبیت علیهم السلام(جن کا سرچشمہ الٰہی الہامات ہیں)کے مقابلہ میں صفر سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔

بہرحال حضرت علی – انسانی معاشرہ کی سب سے بڑی بیماری کفر و نفاق اور گمراہی کو جانتے ہیں۔ یہی روحی بیماریاں ہیں جو کہ معاشرہ کو مختلف مشکلوں اور پریشانیوں سے دوچار کرتی ہیں اور ان کا علاج بھی قرآن ہی سے حاصل کرنا چاہئے: ” فَاِنَّ فِیہِ شِفَائً مِن اَکْبَرِ الدَّاءِ وَ ہُوَ الْکُفْرُ وَ النِّفَاقُ وَ الْغَیُّ وَ الضَّلاَلُ ” سب سے بڑی بیماری سے مراد کفر و نفاق اور ضلالت و گمراہی ہے، اور دوا اور علاج سے مراد قرآن پر ایمان اور اس کی پیروی ہے۔

البتہ توجہ رکھنی چاہئے کہ یہ بات (کہ اپنی بیماریوں کی دوا قرآن سے طلب کرو، اس لئے کہ قرآن تمام مشکلات اوربیماریوں کی دوا ہے)، اس کا مفہوم یہ نہیںہے کہ قرآن نے ڈاکٹر کے نسخہ کے مانند تمھارے جسمانی امراض کو بیان کردیا ہے اور ہر ایک مرض سے شفایابی کے لئے ایک دوا کا مشورہ دیا ہے یا اقتصادی و فوجی مشکلات کے باب میں نیز صنعت اور ٹکنالوجی کے شعبوں میں مسائل کے حل کے فارمولوں کو قرآن سے لینا چاہئے، جو شخص دینی معارف سے ذرا سا بھی واقف ہے وہ ہرگز حضرت علی – کے اس کلام کی توضیح ا س معنی میں نہیں کرتا، اس لئے کہ جسمانی بیماریوں اور بقیہ تمام مشکلات کا حل اپنے طبیعی وسیلوں کا محتاج ہے، قرآن کریم ان مشکلات کے حل کے لئے جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کلی اصولوں کو بیان کرتا ہے اب لوگوں کا فریضہ ہے کہ قرآن کے ان کلی اصولوں کو سر مشق اور نمونہ قرار دیکر نیز عقل، خداداد قوتوں اور انسانی علوم کے تجربوں سے استفادہ کر کے اپنے مشکلات کو حل کریں اور اپنی بیماریوں کا علاج کریں۔

یہاں پر ہم عزیز قارئین کی توجہ دو نکتوں کی طرف مبذول کر رہے ہیں:

پہلا نکتہ٭ یہ ہے کہ طبیعی اور مادی اسباب و علل اگرچہ اپنے معلول اور مسبب کو مستلزم ہیں، لیکن اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا بھی ضروری ہے کہ تمام موجودات کی علت العلل خداوند تبارک و تعالیٰ کی ذات اقدس ہے۔ اسی نے عالم کے نظام کو علت و معلول کے رابطہ کی بنیاد پر خلق کیا ہے اور وہی ہمیشہ اسباب و علل کو سببیت اور علیت عطا کرتا ہے اور یہ اس کا تکوینی ارادہ ہے اور جب تک یہ تکوینی ارادہ نہ ہوگا اس وقت تک کسی فعل کا براہ راست کوئی اثر نہیں ہوگا۔

اس بنا پر تمام دردوں کی دوا اور تمام مشکلات کو دور کرنے کے لئے ہمیں چاہئے کہ بنیادی طور پر خداوند متعال کی طرف توجہ کریں اور چشم امید اسی کی طرف رکھیں، اگرچہ مشکلات کو حل کرنے میں اور بیماری سے شفا حاصل کرنے میں طبیعی اسباب و علل کا بھی سہارا لیں لیکن توحید افعالی کے اقتضاء کی بنا پر شفا اور مشکلات کے حل کو اصل میں اسی سے سمجھنا چاہئے اور اسی سے امید رکھنا چاہئے۔

دوسرا نکتہ٭ یہ ہے کہ مشکلات کے حل اور بیماریوں کے علاج کا راستہ فقط عادی اور طبیعی اسباب و علل میں منحصر نہیں سمجھنا چاہئے، یعنی ایسا نہیںہے کہ مشکلات کے حل میں مادی اور طبیعی اسباب و علل نہ پائے جانے سے یا ان کے مفید و کارآمد نہ ہونے سے مشکل کے حل، بہبودی کے حصول، امراض کی شفا یا انسان کی جائز اور برحق خواہشات کے پورا ہونے کا امکان نہ ہو۔

خداوند متعال نے علّی اور معلولی نظام خلق کرکے اپنے کو غیر طبیعی طریقے سے کوئی شے ایجاد کرنے سے عاجز نہیں کیا ہے، بلکہ سنت الٰہی اس بات پر قائم ہے کہ پہلے مرحلہ میں امور عادی اور طبیعی راستے سے انجام پائیں، لیکن امور کا انجام پذیر ہونا طبیعی طریقہ میں منحصر نہیں ہے بلکہ خاص حالات میں خداوند متعال کچھ امور کو طبیعی راستے کے بغیر بھی خود ایجاد کرتا ہے کہ اس کو بھی سنت الٰہی کہا جاسکتا ہے۔ مرض سے شفا اور بہبودی ممکن ہے طبیعی راستے سے اور ڈاکٹری علاج سے واقع ہو اورممکن ہے کہ خاص شرائط و حالات کے تحت غیر مادی علتوں کے واسطے سے، جیسے ائمہئ معصومین علیهم السلامیا دوسرے اولیاء خدا کی دعا سے حاصل ہو جائے۔ جیسا کہ ممکن ہے محاذ توحید کے مجاہدین مادی وسائل اور اسلحہ نیز طبیعی حالات کے اعتبار سے دشمن کے مقابل (لوگوں کی نظر میں) شکست کھانے والے ہوں، لیکن غیبی امداد اور غیر طبیعی اسباب کے ذریعے فتحیاب ہو جائیں کہ یہ بات بھی الٰہی اسباب و علل میں سے سمجھی جاتی ہے۔

قرآن کریم میں ایسے واقعات کے بہت سے نمونے مذکور ہیں جو کہ غیر مادی اور غیر طبیعی اسباب کے راستے سے واقع ہوئے ہیں، مثال کے طور پر نزول باران اگر طبیعی اسباب و عوامل کے راستے سے واقع ہو تو ضروری ہے کہ دریا اور سمندروں کا پانی سورج کی دھوپ اور گرمی کی تپش سے بخار اوربھاپ بن کر بادل کی صورت اختیار کریں، پھر دریا اور خشکی کے درجہئ حرارت کے نتیجے میں ہوا چلنے سے بادل دریاؤں کے اوپر سے زمین کے تمام علاقوں میں منتقل ہو جائیں تاکہ خاص حالات کے تحت بادل میں موجود پانی، بارش کے قطروں، یا برف کے دانوں یا اولوں کی صورت میں زمین پر برسے۔

بارش کی امید اس کے طبیعی اسباب و علل کے بغیر، مادی نظر سے ایک بیجا اور نامعقول امید سمجھی جاتی ہے، لیکن حضرت نوح – نزول باران کے لئے طبیعی عوامل کو نظر میں رکھے بغیر اپنی قوم کو خطاب کرکے فرماتے ہیں کہ استغفار اور توبہ کرو تا کہ آسمان سے تم پر موسلا دھار بارش ہو، (وَ یَا قَومِ اسْتَغفِرُوا رَبَّکُم ثُمَّ تُوبُوا إِلَیہِ یُرسِلِ السَّمَاءَ عَلَیکُم مِدْرَاراً وَ یَزِدْکُم قُوَّۃً إِلٰی قُوَّتِکُمْ وَ لاتَتَوَلَّوْا مُجرِمِینَ)١؎ اے میری قوم والو! اپنے پروردگار سے استغفار کرو پھر اسی کی طرف ،ہمہ تن گوش ہو جاؤ اور اس کی طرف پلٹ آؤ تاکہ خداوند متعال آسمان سے تم پر موسلادھار بارش نازل کرے اور رحمت الٰہی اور بارش کے نزول کے ذریعہ تمھاری موجودہ قوت کو اور قوت دیکر

…………………………………………………

(١)سورہ  ہود، آیت ٥٢ ۔

زیادہ کردے، پھر فرمایا: (وَ لاتَتَوَلَّوا مُجرِمِینَ)، خبردار! توبہ و استغفار کے بغیر اور اس حال میں کہ تم مجرم و گنہگار ہو خدا سے منھ مت پھیرو او راپنے کو رحمت الٰہی سے محروم مت کرو۔

اگر چہ نزول باران کے طبیعی اسباب و علل اور طبیعت میں جاری تمام علّی و معلولی نظام، سب قدرت الٰہی کے ہاتھ میں ہیںاور اسی کے ارادے سے کام کرتے ہیں، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ طبیعی اسباب و عوامل کو نظر میں رکھے بغیر خداوند متعال فرماتا ہے کہ تم اپنے گناہ سے استغفار کرو اور خدا کی طرف واپس آجاؤ، ہم آسمان سے کہہ دیں گے کہ تم پر موسلادھار برسے۔

ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ خداوند متعال کا مقصود یہ نہیں ہے کہ طبیعی عوامل کے تحقق کے بغیر بارش نازل ہو، بلکہ مقصود یہ ہے کہ ہم طبیعی عوامل کو پیدا کر کے تم پر بارش برسائیں گے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ نظریہ توحیدی مکتب فکر کے موافق نہیں ہے، اس لئے کہ جیسا کہ اس سے پہلے ذکر کیا گیا، ایسا نہیں ہے کہ خداوند متعال نے علّی و معلولی نظام کو خلق کر کے، طبیعی اسباب و علل کے بغیر موجودات کو ایجاد کرنے سے اپنے کو عاجز کر رکھا ہے۔ خداوند متعال موجودات کی ایجاد و خلقت پر اپنی قدرت کے متعلق اس طرح فرماتا ہے: (اِذَا أَرادَ شَیأاً أَن یَّقُولَ لَہُ کُن فَیَکُوْن)١؎ جب بھی خداوند متعال کسی شے سے یہ کہنے کا ارادہ کرتا ہے کہ ہو جا، تو وہ شے فوراً ہوجاتی ہے۔

…………………………………………………

(١)سورہ یٰس، آیت ٨٢۔

بعض بلاؤں کی حکمت

مذکورہ بالا باتوں کے علاوہ، کبھی کبھی خداوند متعال کی حکمت اور حق کی رحمانیت اس بات کا موجب ہوتی ہے کہ غیر طبیعی راستوں سے اپنے بندوں پر لطف کرے اور اپنی نعمت ان پر نازل کرے۔

اس مقصد کے لئے خداوند متعال مادی اسباب و علل کے علاوہ دوسرے اسباب و علل قرار دیتا ہے اور لوگوں سے چاہتا ہے کہ ان کے وسیلے سے لوگ اپنے کو الٰہی رحمت و نعمت کا مستحق بنائیں، یہ معنی بھی خداوند متعال کے لطف اور اس کی رحمت کا مقتضی ہے، خلقت کا نظام، حکمت کی بنیاد پر ہے اور انسان کی تخلیق کا مقصد ہدایت اور تکامل ہے، اور ہدایت و تکامل، اس وقت حاصل ہوتا ہے جبکہ لوگ آیات الٰہی کی معرفت اور ان میں تدبر، بندگی، دین حق نیز انبیاء الٰہی کے احکام پر عمل کرتے ہوں، لیکن کبھی کبھی لوگ گناہ اور معصیت کے نتیجہ میں راہ حق سے منحرف ہو جاتے ہیں، عام طور سے لوگ جس وقت مادی عیش و آرام میں ہوتے ہیں اور اقتصادی اور مادی لذتوں سے بہرہ مند ہونے کے اعتبار سے کوئی مشکل نہیں رکھتے اور ان کی ہر من پسند چیز فراہم ہوتی ہے تو اس وقت خدا اور معنویات کی طرف بہت کم توجہ دیتے ہیں۔ ایسے وقت میں، انسانی اور الٰہی خصلتیں ان کے اندر دھیرے دھیرے کمزور ہونے لگتی ہیں اور آخر کار فراموشی کی نذر ہو جاتی ہیں، نتیجہ میں ان کے اندر کفر و ضلالت اور سرکشی و گمراہی پیدا ہو جاتی ہے۔

قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے: (کَلاَّ إِنَّ الإِنسَانَ لَیَطْغیٰ٭ أَن رَّئٰ اہُ اسْتَغنیٰ)١؎ جس وقت انسان اپنے کو بے نیاز خیال کرلیتا ہے تو سرکشی کرنے لگتا ہے۔ اگر ایک معاشرہ اور امت کی اکثریت پر سرکش اور استکباری فکر حاکم ہو تو خداوندمتعال کا لطف اور اس کی عنایت اس بات کا سبب بنتی ہے کہ کسی بھی طرح سے انسانوں کو ہوشیار کرے، ان کو خواب غفلت سے بیدار کرے اور راہ حق اور طرز بندگی کی طرف واپس لے آئے۔

اس مقصد کے تحقق کے لئے کبھی کبھی بلائیں، جیسے فقر اور قحط نازل کرتا ہے اور دوسری طرف ان بلاؤں کے رفع کرنے او ران کے علاج کے لئے گناہوں سے توبہ واستغفار، خدا کی طرف توجہ اور نماز کو بتاتا ہے تاکہ نتیجہ میں خلقت کا مقصد پورا ہوسکے اور یہی انسان کی اختیاری ہدایت اور تکامل ہے۔یہ بات بھی تعجب خیز الٰہی سنتوں میں سے ایک رہی ہے کہ کبھی کسی نبی (ع) کو مبعوث کرتا تھا اور اس کی امت کو سختیوں میں مبتلا کرتا تھا تاکہ وہ خدا اور راہ حق سے غافل نہ ہوں، نیز مادی لذتوں میں غرق ہونا ان کو سعادت سے باز نہ رکھے۔

بہرحال بعض بلاؤں کا نزول، غافل انسانوں کی توجہ اور بیداری کا سبب ہوتا ہے اس لئے کہ سخت حالات میں انسان بہتر طور پر خدا سے اپنی احتیاج کو درک کرتا ہے اور عیش و آرام کی زندگی سے بہتر بلاؤں کی زندگی میں وہ انبیاء کی تعلیمات کو سمجھتا اور قبول کرتا ہے ، قرآن کریم فرماتا ہے: (وَ مَا اَئرْسَلنَا فِی قَریَۃٍ مِن نَّبِیٍّ إِلاَّ أَخَذنَا أَہْلَہَا بِاْلبَأسآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّہُمْ یَضَّرَّعُونَ)٢؎ اور ہم نے جب بھی کسی قریہ یا شہر

…………………………………………………

(١)سورہ  علق، آیت ٧،٦۔        (٢)سورہ  اعراف، آیت ٩٤۔

میں کوئی نبی بھیجا تو اہل قریہ یا اہل شہر کو نافرمانی پر سختی اور پریشانی میں ضرور مبتلا کیا کہ شاید وہ لوگ ہماری بارگاہ میں تضرع و زاری کریں۔

سورہ  مومنون کی آیت ٧٥ اور ٧٦ بھی اسی مطلب کی وضاحت کرتی ہے:

(وَ لَو رَحِمنَاہُم وَ کَشَفْنَا مَابِہِم مِن ضُرٍّ لَلَجُّوا فِی طُغیَانِہِم یَعمَہُونَ٭ وَ لَقَد أَخَذنَاہُم بِالعَذَابِ فَمَا اسْتَکَانُوا لِرَبِّہِم وَ مَایَتَضَرَّعُونَ)

اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور ان کی تکلیف اور سختی کو دور کردیں تو بھی یہ اپنی سرکشی پر اڑے رہیں گے اور گمراہ ہی ہوتے جائیں گے، اور ہم نے انھیں عذاب کے ذریعہ پکڑا بھی مگر یہ نہ اپنے پروردگار کے سامنے جھکے اور نہ ہی گڑگڑاتے ہیں۔

اس بنا پر امتوں کے بعض عذابوں اور ان کی سختیوں کا فلسفہ لوگوں کی بیداری اور راہ ہدایت کی طرف ان کا واپس آنا ہے، اگرچہ ممکن ہے کہ یہ سختیاں، پریشانیاں اور بلائیں بعض امتوں کو بیدار نہ کریں اور وہ لوگ اسی طرح ضلالت و گمراہی پر اڑے رہیں، کہ اس صورت میں حجت ان پر تمام ہو جاتی ہے اور انھیں چاہئے کہ ان بلاؤں کے نزول کے منتظر رہیں جو کہ ان کی حیات اور زندگی کا خاتمہ کردیں گی۔

قرآن سورہ  انعام کی آیات ٤٢ سے ٤٤ تک، حضرت پیغمبر اسلام (ص) کو خطاب کر کے فرماتا ہے:

(وَ لَقَد أَرسَلنَا إِلیٰ أُمَمٍ مِن قَبلِکَ فَاَئَخَذنَاہُم بِالبَاسآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّہُم یَتَضَرَّعُونَ ٭ فَلَو لا إِذْجآءَ ہُم بَاسُنَا تَضَرَّعُوا وَ لٰکِن قَسَتْ قُلُوبُہُم وَ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیطٰنُ مَا کَانُوا یَعمَلُونَ ٭ فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُکِّرُوا بِہِ فَتَحنَا عَلَیہِم أَبوَابَ کُلِّ شَیءٍ حَتَّیٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذنَاہُم بَغتَۃً فَاِذَاہُم مُبْلِسُونَ)

یعنی ”ہم نے تم سے پہلے والی امتوں کی طرف بھی رسول بھیجے ہیں اس کے بعد انھیں سختی اور تکلیف میں مبتلا کیا کہ شاید ہم سے گڑگڑائیں، پھر ان سختیوں کے بعد انھوں نے کیوں فریاد نہیں کی، بات یہ ہے کہ ان کے دل سخت ہوگئے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال کوان کے لئے آراستہ کردیا ہے، پھر جب ان نصیحتوں کو بھول گئے جو انھیں یاد دلائی گئی تھیں تو ہم نے امتحان کے طور پر ان کے لئے ہر چیز کے دروازے کھول دیئے، یہاں تک کہ جب وہ ان نعمتوں سے خوش ہوگئے تو ہم نے اچانک انھیں اپنی گرفت میں لے لیا اور وہ مایوس ہوکر رہ گئے” ۔

ہمیں جاننا اور سمجھنا چاہئے کہ یہ سنت الٰہی ہے جو کہ پہلے والی امتوں میں جاری رہی ہے اور نبی(ص) آخرالزمان کی امت بھی اس سے مستثنیٰ نہیںہے۔

بہرحال صاحبان بصیرت اور ان لوگوں کے لئے جو کہ اپنی سعادت اور سرنوشت کی فکر رکھتے ہیں، بعض مشکلات و مصائب اور بلاؤں کا وجود، عبرت و ہدایت کا ذریعہ ہے۔ اسی کے برعکس جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے کہ ایسے انسان بھی ہیں جو ایسے خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں کہ کسی بھی ٹہوکے اور نصیحت سے نصیحت حاصل نہیں کرتے اور ہوش میں نہیں آتے۔

لہٰذا وہ بلائیں اور سختیاں جو معاشروںاور قوموں کے لئے لوگوں کو بیدار کرنے اور ہوش میں لانے کی خاطر پیش آتی ہیں وہ سابق انبیاء (ع) کی امتوں سے مخصوص نہیںہیں، بلکہ یہ مسئلہ الطاف الٰہی میں سے ہے جو کہ امتوں کی بیداری اور خدا کی طرف توجہ کے لئے واقع ہوتا ہے، جو بات اہم ہے وہ ایسے حوادث کے فلسفہ او رراز کو سمجھنا، گزشتہ سے عبرت حاصل کرنا، خدا کی طرف بازگشت اور توبہ ہے۔ نہایت افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہت کم لوگ اس مسئلہ کی طرف توجہ کرتے ہیںاور اسی غفلت کی بنا پر اقتصادی بحرانوں سے نجات کے لئے (کہ انھیں میں سے قحط اور پانی کی کمی کا بحران ہے)، بعض عہدہ دار افراد غفلت و بے توجہی کی بنا پر یا ایمانی اور اعتقادی کمزوری کی بنا پر غیر خدا کا دامن تھام لیتے ہیں اور مسلمانوں کے بیت المال سے زیادہ پیسے خرچ کر کے اسکیمیں تیار کرتے ہیں تاکہ شیمیائی مادوں کے ذریعے بادلوں میں پانی بھر کر بارش ایجاد کریں، کتنا باطل خیال ہے! کیا بارش کی علت تامہ یہی بادل کا وجود اور ہوا کے ذریعے اس کا منتقل ہونا اور دوسرے چند محدود اسباب ہیں کہ انسان مکڑی کی طرح اپنے ہی بنے ہوئے جالوں میں پھنس کر مغرور ہو جائے نیز بندگان خدا اور مسلمان عوام کو بجائے اس کے کہ خدا او راس کے احسان و عنایت کے دامن سے متوسل ہونے کی طرف متوجہ کرے، پہاڑوں کی چوٹیوں پر بادلوں کے ٹکڑے تلاش کرے او ران کا شکار کرنے کے بعد پھر ان میں پانی بھر کر بارش برسائے؟

واقعاً یہ بات حضرت نوح – اور ان کے فرزند کے واقعہ کو یاد دلاتی ہے کہ حضرت نوح – ٩٥٠ سال تبلیغ کے بعد خدا پر اپنی قوم کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے، ان کی ہدایت سے ناامیدی اور عذاب کی علامتیں ظاہر ہونے کے بعد انھوں نے اپنے بیٹے سے چاہا کہ ایمان لے آئے اور کشتی پر سوار ہو جائے تاکہ اس قطعی و یقینی عذاب سے نجات حاصل کرلے۔ اس نے اپنے باپ کے جواب میں اپنے شرک آلود خیال کو اس طرح بیان کیا کہ: (سَاٰوِي اِلٰی جَبَلٍ یَعْصِمُنِيْ مِنَ الْمَائِ)١؎ میں پہاڑ کی چوٹی پر پناہ لے لوں گا تاکہ وہ مجھے غرق ہونے سے بچالے، جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ آخر کار وہ ایمان نہ لایا اور ہلاک ہوگیا، خداوند متعال اس واقعہ کا ذکر کرکے شرک آلود فکر کی اصل کو بیان کر رہا ہے اور لوگوں کو اس سے ڈرا رہا ہے۔

اب بھی یہ شرک آلود فکر بعض لوگوں کے درمیان خصوصاً مغرب زدہ روشن فکر افراد میں رائج ہے۔ وہ لوگ بجائے اس کے کہ خدا پر ایمان رکھیں اور قلم و بیان سے لوگوں کو خدا کی طرف بلائیں، مشکلات کو دور کرنے کے لئے اسلام و مسلمین کے دشمنوں کے ہاتھوں کی طرف نگاہیں جمائے ہوئے ہیں اور انھیں سے مدد کی امید رکھتے ہیں۔

صاحبان علم و فہم پر پوشیدہ نہیں ہے کہ ہم علمی ترقی اور انسانی علوم کی ایجادات کے مخالف نہیں ہیں کیونکہ دین و قرآن اور توحیدی مکتب فکر، ہر مکتب فکر سے زیادہ انسانوں کو علم و دانش کے حصول اور انسانی افکار و خیالات سے حاصل شدہ چیزوں سے استفادہ کی طرف دعوت دیتا ہے۔ جس بات کی نفی پر یہاں تاکید کی جارہی ہے اور جس کے سخت اور سنگین نتائج سے خبردار کیا جارہا ہے، یہ شرک آلود فکر ہے کہ نہایت افسوس ہے کہ اس میں مبتلا افراد ہمارے معاشرے میں کم نہیں ہیں۔

…………………………………………………

(١)سورہ  ہود، آیت ٤٣۔

بہرحال سب سے زیادہ بہتر، نزدیک اور اطمینان بخش راستہ فردی و اجتماعی مشکلات کو دور کرنے کے لئے خانہئ خدا کے درپر واپس آنا ہے اس لئے کہ راہ خدا کا انتخاب اس بات کے علاوہ کہ ہماری ابدی و اخروی سعادت کا ضامن ہے، دنیوی زندگی کے مشکلات اور بحرانوں کو بھی دور کرتا ہے، (فَقُلتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ اِنَّہُ کَانَ غَفَّاراً یُرسِلُ السَّمَاءَ عَلَیکُم مِدرَاراً)١؎

پس میںنے لوگوں سے کہا کہ اپنے پروردگار سے استغفار کرو بے شک وہ بہت زیادہ بخشنے والا ہے وہ آسمان سے تم پر موسلا دھار پانی برسائے گا، نتیجہ میں باغ وجود میں آئیں گے اور نہریں جاری ہوں گی۔

اس بنا پر قرآن، نقائص اور کمیوں کو دور کرنے اور مسلمانوں کے امور میں کشائش کے لئے اپنے پیرؤوں کے لئے راہ حل پیش کرتا ہے اور ان راستوں کی افادیت کی ضمانت لیتا ہے۔ اس کے علاوہ، مسلمان جیسا کہ بارہا آزما چکا ہے دوبارہ پھر آزما سکتا ہے۔

بے شک ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی ہمارے اسلامی معاشرہ پر نصرت الٰہی اور خدا کی غیبی امدادوں کے معجزنما نمونوں میں سے ایک ہے۔ جس وقت کہ تمام لوگ خدا پر توکل اور اس کے غیر سے امید قطع کر کے اسلامی حکومت کے خواہاں ہوئے، خدا نے اپنے وعدہ کی بنا پر کہ قرآن میں فرماتا ہے: (إِنْ تَنصُرُوْا اللّٰہَ یَنصُرْکُمْ وَ یُثَبِّتْ

…………………………………………………

(١) سورہ  نوح، آیت ١٠، ١١۔

أَقدَامَکُمْ)١؎ (اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمھاری مدد کرے گا اور تمھیں ثابت قدم بنا دے گا)، دشمن اسلام کی تمام حمایتوں کے ساتھ ڈھائی ہزار (٢٥٠٠) سالہ شہنشاہی حکومت کی تمام قوتوں کے برخلاف، لوگوں کو ان کے دشمنوں پر فتحیاب کیا، اور یہ سنت الٰہی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک لوگ خدا کی طرف متوجہ رہیں گے خدا بھی ان کی مدد فرمائے گا اور جب وہ خدا کو بھول جائیں گے، غیر خدا سے مدد کی امید رکھنے لگیں گے اور خدا سے منھ موڑ لیں گے تو عذاب و ذلت سے دوچار ہو جائیں گے۔

بہرصورت، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن کریم علم الٰہی کا نسخہئ شافیہ ہے اور دنیا و آخرت میں انسان کی سعادت و نجات، اس کے حیات بخش احکام کی پیروی میں پوشیدہ ہے، اور فردی و اجتماعی مشکلات کا راہ حل اسی میں تلاش کرنا چاہئے۔ ہمیں چاہئے کہ قرآن یعنی انسان کی سعادت کے اس ضامن کو پہچانیں، اس کی تعظیم و تکریم کریں اور اس پر عمل کریں۔ البتہ قرآن کے متعلق دو طرح کی تعظیم و تکریم پائی جاتی ہے کہ ذیل میں ہم اس کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

قرآن کریم کی ظاہری اور حقیقی تعظیم

قرآن کریم کے احترام کے متعلق زیادہ تر جو کچھ آج اسلامی معاشروں میں موجود ہے ان کو قرآن کا ظاہری احترام کہا جاسکتا ہے، جبکہ قرآن کریم ہرگز اس لئے نازل نہیں ہوا ہے کہ اس کے ساتھ ایک خاص (ظاہری) آداب و رسوم اور احترام

…………………………………………………

(١) سورہ  محمد، آیت ٧۔

بجالائیں، قرآن فقط حفظ کرنے اور بہترین دھن اور آواز کے ساتھ تلاوت کرنے کے لئے نہیں ہے۔ قرآن زندگی اور الٰہی پیغامات کی کتاب ہے کہ سب کا فریضہ ہے کہ اپنی دنیوی زندگی میں اس پر عمل کریں تاکہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوں، خصوصاً اسلامی معاشروں میں حکومت کے عہدہ دار افراد کا فریضہ ہے کہ نظام کی کلی سیاستوں کو اس کتاب الٰہی کی ہدایات کی بنیاد پر تنظیم کر کے ان کا اجرا کریں، تاکہ قرآن کے مکتب فکر کے پھلنے پھولنے کا مقدمہ معاشرہ کے افراد کے لئے بہتر طور سے مہیا ہواور نتیجہ میں نزول قرآن کا مقصد پورا ہو جائے کہ اس کا مقصد یہی ہے کہ روئے زمین پر عدل و انصاف کے زیر سایہ انسان کا تکامل اور اس کی سعادت ممکن ہے۔

افسوس ہے کہ اس امید کے برخلاف، جو کچھ آج ہم قرآن کریم کی تعظیم و تکریم کے عنوان سے مشاہدہ کر رہے ہیں وہ ظاہری احترام کی حد سے آگے نہیں بڑھتا اور قرآن کی مرکزیت کا لازمہ مسلمانوں کی سیاسی و اجتماعی زندگی میں بھلا دیا گیا ہے۔

آج بہت سے اسلامی ممالک میں بہت سے ادارے، ابتدائی کلاسوں سے کالج اور یونیورسٹی کی سطح تک قرآن کریم کی تعلیم و تعلم کا انتظام کرتے ہیں اور مختلف طریقوں سے قرآن کے ناظرے، حفظ اور قرائت کا اہتمام کرتے ہیں اور ہر سال ہم عالمی پیمانے پر قرآن کریم کے حفظ و قرائت کے مقابلوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ مختلف قرآنی علوم جیسے تجوید و ترتیل وغیرہ قرآن کے عقیدتمندوں کے درمیان ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ان امور کے علاوہ قرآن عام مسلمانوں کے درمیان ایک خاص احترام کا حامل ہے مثلاً اس کے الفاظ و آیات کو بغیر وضو کے مس نہیں کرتے اور قرائت کے وقت ادب کے ساتھ بیٹھتے ہیں، زیادہ تر افراد قرآن کے مقابل اپنا پاؤں نہیں پھیلاتے، اس کو سب سے زیادہ بہتر جلد میں اور سب سے زیادہ مناسب جگہ پر رکھتے ہیں، خلاصہ یہ کہ اس طرح کے ظاہری احترام عام مسلمانوں کے درمیان رائج ہیں۔

واضح ہے کہ مذکورہ امور کی رعایت اس آسمانی کتاب کے احترام کے عنوان سے ایک بڑی فضیلت ہے کہ جس قدر بھی ہم ان کے پابند ہوں بہتر ہے لیکن ہم نے اس آسمانی کتاب کے احترام کا حق کماحقہ ادا نہیں کیا ہے اور خداوند متعال کی اس عظیم نعمت کا شکر جو کہ نعمت ہدایت ہے، بجا نہیں لائے ہیں ، لیکن ہر نعمت کا سب سے زیادہ احترام اور شکر اس کی حقیقت کی شناخت او راس کا اس جگہ استعمال ہے کہ خدا نے جس کے لئے خلق کیا ہے۔

چنانچہ اگر ہم اس نظریہ کے ساتھ چاہیں کہ قرآن کو دیکھیں اور اس کا احترام و اکرام کریں تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ قرآن کریم اسلامی معاشروں کے کلچر میں ایک مطلوب منزلت نہیں رکھتا اور اس کا حقیقی طور پر احترام نہیں کیا جاتا۔

قرآن کریم کے احترام و اکرام سے متعلق مسلمانوں کا جو عمل بیان کیا گیا ہے، وہ اگرچہ ضروری اور لازم ہے، لیکن ان امور کی انجام دہی سے خداوند متعال کے قرآن نازل کرنے کا مقصد پورا نہیں ہوتا اور اس آسمانی کتاب کے بارے میں مسلمانوں کا جو فریضہ ہے وہ بھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتا۔ ظواہر قرآن کی معرفت، آیات الٰہی کی قرائت اور اس نسخہئ شافیہ کی ظاہری تعظیم و تکریم، اس کے مطالب اور احکام پر عمل کرنے کا مقدمہ ہیں۔ قرآن کا واقعی حق، مسلمانوں کی سیاسی و اجتماعی زندگی میں اس کو محور قرار دیئے بغیر ادا نہیں ہوسکتا۔

واضح سی بات ہے کہ ڈاکٹر کے نسخے کو چومنا، اس کا احترام کرنا اور اس کو بہترین دھن اور میٹھی آواز کے ساتھ پڑھنا، بغیر اس کے کہ ڈاکٹر کی ہدایات اور اس کے احکام کو سمجھیں اور ان پر عمل کریں، بیمار کے کسی بھی درد کا مداوا نہیں کرتا۔ ہر عقلمند یقین رکھتا ہے کہ شفا کے لئے ماہر ڈاکٹر کے احکام پر عمل کرنا لازم ہے۔ ڈاکٹر کے نسخہ کا حقیقی احترام اس پر عمل کرنا ہے نہ کہ ڈاکٹر اور اس کے نسخہ کی تعظیم و تکریم کرنا ہے۔

قرآن کے متعلق بھی کہنا چاہئے کہ اگرچہ قرآن کریم کا ظاہری احترام کرنا، پسندیدہ امور اور ہر ایک مسلمان کے فرائض میں سے ہے، لیکن یہ اس آسمانی کتاب کے بارے میں مسلمانوں کا سب سے معمولی فریضہ ہے، اس لئے کہ مسلمانوں پر فرض ہے کہ قرآن کریم کو سمجھنے اور اس کے حیات بخش احکام پر عمل کرنے کے ذریعے اس ہدایت الٰہی کی نعمت کا شکر او رواقعی احترام بجالائیں اور اپنے کو اس پُرفیض امانت سے محروم نہ کریں تاکہ نتیجہ میں ا س نور الٰہی کے ذریعے اپنی اندھیری دنیا کو روشنی بخشیں۔

قرآن، حقیقی نور

خداوند متعال کی تجلی کا ایک مظہر نور ہے۔ خداوند تعالی اپنے کو نور سے تشبیہ دیتا ہے اور فرماتا ہے: (أَللّٰہُ نُورُ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرْضِ)١؎ خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ یہ خداوند متعال کے نور وجود کی تجلی اور چھوٹ ہے کہ جس سے زمین و آسمان اور

…………………………………………………

(١)سورہ  نور، آیت ٣٥۔

مخلوقات کی خلقت ہوئی ہے۔ عنایت خدا کی برکت ہے کہ عالم وجود قائم و ثابت ہے اور فیض وجود، ہمیشہ اور مسلسل منبع جود کی جانب سے موجودات پر جاری و ساری ہے نتیجہ میں موجودات و مخلوقات اپنی زندگی کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

کبھی کبھی کلام خدا کو بھی نور سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس لئے کہ نور ہی کے پرتو میں انسان راستے کو پیدا کرتا ہے، سرگردانی اور بھول بھلیوں میں بھٹکنے سے نجات حاصل کرتا ہے۔ چونکہ سب سے زیادہ بری اور نقصان دہ گمراہی، راہ زندگی کی ضلالت و گمراہی اور انسان کی سعادت کا خطرے میں پڑنا ہے، اس لئے حقیقی اور واقعی نور وہ ہے جو کہ انسانوں کو اور انسانی معاشروں کو ضلالت و گمراہی سے نجات دے اور انسانی کمال کے صحیح راستے کو ان کے لئے روشن کرے تاکہ سعادت و تکامل کے راستے کو سقوط و ضلالت کے راستوں سے تمیز دے سکیں۔ اسی بنیاد پر خداوند متعال نے قرآن کو نور سے تعبیر کیا ہے اور فرمایا ہے: (قَدجَائَکُمْ مِنَ اللّٰہِ نُورٌ وَّ کِتَابٌ مُبِینٌ)١؎ یقینا تمھارے پاس خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آئی ہے تاکہ تم اس سے استفادہ کر کے راہ سعادت کو شقاوت سے جدا کرسکو۔ اب چونکہ بحث کا موضوع ”قرآن، نہج البلاغہ کے آئینہ میں” ہے، اس لئے ہم اس سلسلہ میں وارد شدہ آیات کی تفسیر و توضیح سے چشم پوشی کرتے ہیں اور اس بارے میں حضرت علی (ع) کے بیان کی توضیح کرتے ہیں۔

…………………………………………………

(١)سورہ  مائدہ، آیت ١٥۔ اس آیہئ کریمہ میں نور سے مراد در حقیقت حضرات محمد و آل محمد علیهم السلامہیں اس لئے کہ قرآن کا ذکر یہاں ”کتاب مبین” کے ذریعہ کیا گیا ہے، اگرچہ قرآن کریم کا بھی نور ہونا اس ”کتاب مبین” (روشن کتاب) کی تعبیر سے نیز دوسری آیات و روایات سے ثابت ہے (مترجم)۔

امیر المومنین حضرت علی – خطبہ ١٩٨ میں اسلام اور پیغمبر اسلام (ص) کی توصیف کے بعد قرآن کریم کا وصف بیان فرماتے ہیں: ”ثُمَّ اَئنزَلَ عَلَیہِ الْکِتَابَ نُوراً لاتُطْفَاُئ مَصَابِیْحُہَ وَ سِرَاجاً لایَخْبُو تَوَقُّدُہُ وَ بَحْراً لایُدْرَکُ قَعْرُہُ” پھر خداوند متعال نے اپنے پیغمبر (ص) پر قرآن کو ایک نور کی صورت میں نازل فرمایا کہ جس کی قندیلیں کبھی بجھ نہیں سکتیں، اور ایسے چراغ کے مانند کہ جس کی لو کبھی مدھم نہیں پڑسکتی اور ایسے سمندر کے مانند جس کی تھاہ مل نہیں سکتی۔

حضرت علی – اس خطبہ میں وصف قرآن کے متعلق پہلے تین نہایت خوبصورت تشبیہوں کے ذریعے چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے دلوں کو قرآن کی عظمت سے آشنا کریں اور ان کی توجہ اس عظیم الٰہی سرمایہ کی طرف جو کہ ان کے ہاتھوں میں موجود ہے، زیادہ سے زیادہ مبذول فرمائیں۔

پہلے حضرت علی – قرآن کی توصیف نور کے ذریعہ فرماتے ہیں: ”أَنْزَلَ عَلَیہِ الْکِتَابَ نُوراً لاتُطْفَاُئ مَصَابِیحُہُ” خداوند تعالی نے قرآن کو اس حال میں کہ نور ہے، پیغمبر (ص) پر نازل فرمایا، لیکن یہ نور تمام نوروں سے مختلف ہے۔

یہ حقیقت (قرآن کریم) ایک ایسا نور ہے کہ جس کی قندیلیں ہرگز خاموش نہیں ہوسکتیں اور ان کی لو کبھی مدھم نہیں پڑسکتی۔

معقول کی محسوس سے تشبیہ کے عنوان سے قرآن کریم اس برقی انرجی کے عظیم منبع کے مانند ہے جو کہ اندھیری راتوں میں بجلی کے مرکز کے ذریعے قوی اور بڑی بڑی مرکریوں کے وسیلے سے ان راستوں کو روشن کرتا ہے جو کہ منزل مقصود تک منتہی ہوتے ہیں اور ان لوگوں کے لئے جو سلامتی کے ساتھ مقصد تک پہنچنا چاہتے ہیں، دو راہوں، چوراہوں یا چند راہوں پر راہنما چراغوں کو نصب کر کے اس شاہراہ کو روشن کرتا ہے جو کہ منزل مقصود تک پہنچتا ہے اور ان دوسرے راستوں سے تمیز دیتا ہے جو کہ سرگردانی اور ہولناک گھاٹیوں میں گرنے کا باعث ہوتے ہیں۔

قرآن بھی دینی اور اسلامی معاشرہ میں اور سعادت و کامیابی تلاش کرنے والوں کی زندگی میں ایسا ہی اثر رکھتا ہے، اس فرق کے ساتھ کہ جو چراغ اس نور کے منبع سے روشنی کسب کرتے ہیں اور راہ سعادت کو روشن کرتے ہیں وہ کبھی بجھ نہیں سکتے نتیجہ میں راہ حق، ہمیشہ مستقیم اور روشن ہے، قرآن کریم اور اس کے روشن چراغ ہمیشہ قرآن کے پیرؤوں کو نصیحت کرتے رہتے ہیں کہ ہوشیار رہو کہیں راہ حق سے منحرف نہ ہو جاؤ۔

اسی خطبہ میں آگے بڑھ کر حضرت علی – ارشاد فرماتے ہیں: ”نُوْ راً لَیسَ مَعَہُ ظُلْمَۃٌ” قرآن وہ نور ہے جس کے ہوتے ہوئے ظلمت و تاریکی کا امکان نہیں ہے، اس لئے کہ یہ آسمانی کتاب ایسے چراغ اور قندیلیں رکھتی ہے جو اس سے نور حاصل کرتی ہیں اور ہمیشہ ہدایت و سعادت کی راہوں کو روشن رکھتی ہیں۔

اس کے علاوہ، حضرات ائمہئ معصومین علیهم السلامکہ وہی وحی الٰہی کے مفسر ہیں ان چراغوں اور قندیلوں کے مانند ہیں جو کہ قرآن کے معارف کو لوگوں سے بیان کرتے ہیں اور اپنے خداداد علم کے ذریعے مسلمانوں کو قرآن کی حقیقت سے آشنا کرتے ہیں۔

قرآنی چراغ اور آئینے

جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ حدیث ثقلین کے مطابق، قرآن و عترت (اہلبیت(ع)) یہ دونوں الٰہی امانتیں موحدین کی ہدایت کے راستے میں ایک دوسرے کی تکمیل کا ذریعہ ہیں کہ ایک سے تمسک کرنے اور دوسرے کو چھوڑنے سے نزول قرآن کا مقصد، جو کہ انسانوں کی ہدایت ہے، پورا نہیں ہوتا۔

حضرات ائمہئ معصومین علیهم السلاموہ چراغ ہیں جو اس الٰہی منبع سے نور اخذ کرتے ہیں اور سعادت کے طلبگار افراد کی راہ زندگی کو روشن کرتے ہیں کیونکہ قرآن اور اس کی حقیقت آپ حضرات (ع)ہی کے پاس ہے۔ یہی ذوات مقدسہ ہیں جو متشابہات کو محکمات کی طرف واپس لے آتے ہیں، راہ کو بیراہی و سرگردانی سے جدا کرتے ہیں اور لوگوں کو کمال و سعادت کے راستے کی رہنمائی کرتے ہیں۔ لوگوں کو بھی چاہئے کہ قرآن کے معارف کو فقط آپ ہی حضرات (ع) سے حاصل کریں اور ان پر عمل کریں۔

حکمت الٰہی اسی بات کی مقتضی ہے اور سنت الٰہی اسی بات پر قائم ہے کہ لوگ اہلبیت علیهم السلامکے وسیلے سے قرآن کے معارف و علوم حاصل کریں اور ان پر عمل کر کے اپنی دنیوی اور اخروی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ لہٰذا اس مقصد کے تحقق کے لئے خداوند متعال نے امامت کا ایک سلسلہ قائم کرکے معارف قرآن سے استفادہ کا راستہ سعادت کے طلبگاروں کے لئے کھلا رکھا ہے۔ اگر چہ دشمن اور دنیا پرست افراد پوری تاریخ میں اس بات کے درپے رہے ہیں کہ لوگوں کے لئے ہدایت الٰہی کے نور کو جو کہ مکتب اہلبیت علیهم السلاممیںمجسم نظر آتا ہے، خاموش کردیں۔ لیکن قرآن فرماتا ہے کہ ہرگز اس کام میں کامیاب نہ ہوں گے: (یُرِیدُونَ لِیُطْفِئُوا نُورَ اللّٰہِ بِاَئفوَاہِہِمْ وَ اللّٰہُ مُتِمُّ نُورِہِ وَ لَو کَرِہَ الْکافِرُونَ)١؎ وہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنی پھونکوں سے بجھادیں اور اللہ اپنے نور کو کامل کرنے والا ہے اگرچہ کافروں کو ناگوار ہی کیوں نہ ہو۔

نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن     پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائیگا

اسی وجہ سے حضرت علی – قرآن کو اس چراغ سے تشبیہ دیتے ہیں جس کی لَو کبھی مدھم نہیں پڑسکتی اور جو کبھی بجھ نہیں سکتا۔

قرآن کے معارف اتنے گہرے اور وسیع ہیں کہ جس قدر علوم اہلبیت علیهم السلامسے آشنا لوگ اس کے اندر غور و فکر کرتے ہیں ہر قدم پر ایک نیا نکتہ او رایک نئی معرفت حاصل کرتے ہیں اور چونکہ یہ آسمانی کتاب، علم الٰہی کا ایک نسخہ ہے جس قدر تشنگان حقیقت اس کی حقیقت کے آب زلال کو نوش کرتے ہیں وہ نہ صرف سیراب نہیں ہوتے بلکہ ان کی تشنگی اور بڑھ جاتی ہے اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ اولیاء خدا اور حقیقت قرآن کی معرفت رکھنے والے کوشش کرتے ہیں کہ نماز میں آیات الٰہی کی تلاوت اور ان میں تدبر و تفکر کے ذریعے اپنی روح کو لطیف و پاکیزہ بنائیں اور زیادہ سے زیادہ اپنے کو الہامات خداوندی اور بیکراں معارف الٰہی کی بارش کا مرکز قرار دیں۔

قرآن ایک ایسا دمکتا آفتاب ہے جس کے معارف بے کراں اور جس کی روشنی ابدی ہے، اس لئے کہ یہ آسمانی کتاب اس گہرے سمندر کے مانند ہے جس کی تھاہ تک

…………………………………………………

(١)سورہ  صف، آیت ٨۔

پہنچنا پیغمبر (ص) اور ائمہئ معصومین – کے علاوہ کہ جن کے پاس ”علم کتاب” ہے، کسی اور کے لئے ممکن نہیں ہے اور جو شخص اور جو معاشرہ بھی چاہے کہ قرآن اور کلام الٰہی سے آشنا ہو اور اپنی فردی و اجتماعی زندگی کو اس آسمانی کتاب کی ہدایات کی بنیاد پر قائم اور منظم کرے، اس کے لئے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کہ پیغمبر (ص) اور ائمہ معصومین علیهم السلامکی تفسیر و توضیح کی بنیاد پر قرآن سے تمسک کرے اور ان حضرات (ع) کی سیرت و سنت کو نمونہئ عمل قرار دے۔ اس بات کی تائید کے لئے ہم صرف دو روایتوں کے کچھ حصوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

حضرت امام جعفر صادق – ارشاد فرماتے ہیں:

”وَ نَحْنُ قَنَادِیْلُ النُّبُوَّۃِ وَ مَصَابِیحُ الرِّسَالَۃِ وَ نَحْنُ نُورُ الاَنوَارِ وَ کَلِمَۃُ الْجَبَّارِ وَ نَحْنُ رَایَۃُ الْحَقِّ الَّتِی مَن تَبِعَہَا نَجَیٰ وَ مَن تَاَئخَّرَ عَنْہَا ہَوَیٰ وَ نَحنُ مَصَابِیْحُ الْمِشْکَاۃِ الَّتِی فِیہَا نُورُ النُّورِ”١؎۔

ہم (اہلبیت) نبوت کی قندیلیں اور رسالت کے چراغ ہیں، یعنی لوگوں کو چاہئے کہ ائمہئ معصومین علیهم السلامکی راہنمائی کے ساتھ نبوت و رسالت کی منزل مقصود کی طرف، کہ وہی حق کی طرف ہدایت ہے، راستہ طے کریں۔ ہم تمام نوروں کے نور ہیں، خدا کی حاکمیت ہماری ولایت کے ذریعے تحقق حاصل کرتی ہے اور ہم ہی وہ حق کا علَم ہیں کہ جو بھی اس کی پیروی کرے گا نجات حاصل کرے گا اور جو اس سے دو رہوا وہ ہلاک ہوجائے

…………………………………………………

(١)بحار الانوار، ج٢٦، ص ٢٥٩۔

گا اور ہم وہ چراغ ہیں کہ جن میں نور در نور ہے۔

ایسا ہی بیان حضرت امام زین العابدین – سے بھی نقل ہوا ہے، چنانچہ ارشاد فرماتے ہیں:

”اِنَّ مَثَلَنَا فِی کِتَابِ اللّٰہِ کَمَثَلِ الْمِشْکَاۃِ والْمِشْکَاۃُ فِی الْقَنْدِیْلِ فَنَحْنُ الْمِشْکَاۃُ فِیہَا مِصْبَاح ٌوَ الْمِصْبَاحُ ہُوَ مُحَمَّدٌ (ص) اَلْمِصْبَاحُ فِی زُجَاجَۃٍ نَحنُ الزُّجَاجَۃُ کَاَئَنَّہَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌ یُوقَدُ مِن شَجَرِۃٍ مُبَارَکَۃٍ زَیتُونَۃٍ لاشَرقِیَّۃٍ وَ لاغَربِیَّۃٍ لامُنکَرَۃٍ وَ لادَعْیَۃٍ یَکَادُ زَیتُہَا نُوْرٌ یُضِیءُ وَ لَو لَم تَمْسَسْہُ نَارُ نُورُ فُرْقَانِ عَلٰی نُورٍ یَہْدِيْ اللّٰہُ لِنُورِہِ مَن یَّشآءُ لِوِلَایَتِنَا وَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیءٍ عَلِیمٌ بِأَن یَّہْدِيْ مَن اَئحَبَّ لِوِلایَتِنَا حَقّاً”١؎۔

حضرت (ع) نے اس بیان میں سورہ  نور کی پینتیسویں آیت کی تفسیر پیغمبر (ص) اور اہلبیت اور ائمہئ معصومین علیهم السلامسے کی ہے۔

حضرت (ع) ارشاد فرماتے ہیں کہ قرآن میں ہم اہلبیت (ع) کی مثل اس منبع کے مانند ہے جس کے ذریعے ہدایت الٰہی کا نور بندوں کے لئے راستے کو روشن کرتا ہے، ہم اہلبیت (ع) اس شفاف آئینے کے مانند ہیں جو چراغ ہدایت کے نور کو کہ وہی نبوت کا نور ہے، بندوں کے سامنے منعکس کرتے ہیں، اس نور کا سرچشمہ نور الٰہی کا وہ شجرہ طیبہ ہے جس کی روشنی نہایت وسیع اور ناقابل انکار ہے حقیقت میں یہ نہ شرقی ہے نہ غربی، نہ تو غیر معروف ہے اور نہ متروک۔

…………………………………………………

(١)بحارالانوار، ج٢٣، ص٣١٤۔

حضرت امام زین العابدین – ارشاد فرماتے ہیں کہ پیغمبر (ص) اور اہلبیت طاہرین علیهم السلامکی حقیقت اس نہایت شفاف چراغ کے مثل ہے جو شعلہ کے بغیر، نور دیتا ہے، نور قرآن اس نور پر مبتنی ہے کہ خدا جس کو ہدایت دینا چاہتا ہے اسے اس نور (ولایت اہلبیت ٪) کی ہدایت دیتا ہے۔

قیامت کے دن پیروان قرآن کی کامیابی

جیسا کہ اس کے قبل اشارہ کیا گیا جو بات انسان کے لئے سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور عقل لازم قرار دیتی ہے کہ تن من دھن سے بہتر سے بہتر طور پر اس کو حاصل کرے، وہ اخروی سعادت و کامیابی ہے، اس لئے کہ اس دنیا کی زندگی، آخرت کی ابدی زندگی کا مقدمہ ہے۔ انسان کی مثل اس دنیا میں عالم آخرت کی نسبت اس مسافر کے مانند ہے کہ جو پردیس میں رات دن محنت و کوشش کرتا ہے، قناعت کر کے اپنی پونجی جمع کرتا ہے اور اسے اپنے اصلی وطن، اپنے گھر بھیج کر تمنا رکھتا ہے کہ اپنے لئے ایک گھر، ٹھکانہ اور سرمایہ فراہم کرے تاکہ اپنے وطن پلٹ کر پہلے سے بھیجے ہوئے ساز و سامان اور وسائل سے بہرہ مند ہو اور اپنی زندگی کے ان باقی ماندہ چند دنوں کو آرام، عزت اور سربلندی کے ساتھ گزارے، بس فرق یہ ہے کہ یہ دنیوی زندگی محدود اور فنا پذیر ہے لیکن اخروی زندگی ابدی اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔

انسان کے عقائد و اعمال وہ بیج ہیں جواس دنیا میںانسان کے ہاتھ سے بوئے جاتے ہیں اور عالم آخرت میں اس کا نتیجہ اور محصول ظاہر ہوگا۔ اس دنیا میں اگر کوئی کسان علم زراعت کے ماہر عالم کی ہدایات کی بنیاد پر بیج بوئے تو کاٹنے کے وقت بہترین کیفیت کے ساتھ اپنی زحمتوں کا زیادہ سے زیادہ نتیجہ و محصول حاصل کرے گا۔

اسی طرح اگر لوگ اپنے عقائد و اعمال کو قرآن کریم کی ہدایات اوراہلبیت طاہرین علیهم السلامکے علوم و معارف کی بنیاد پر قائم رکھیں اور اپنے فردی، اجتماعی اور سیاسی امور کو قرآن کریم کی ہدایات کی بنیاد پر منظم کریں، تو دنیا کی عزت و سربلندی کے علاوہ، عالم آخرت میں بھی اپنے نیک اعمال کے نتائج سے بہرہ مند ہوں گے اور اس بات سے خوش ہوں گے کہ اپنے اعمال صالحہ سے رحمت خدا کے جوار میںایک سعادتمند تقدیر و سرنوشت کے حامل ہوگئے ہیں۔

امیر المومنین حضرت علی – مذکورہ بالا مضمون کوایک نہایت خوبصورت مثال کے ساتھ بیان فرماتے ہیں اور لوگوں کو قرآن پر عمل کرنے اور اس کے حیات بخش احکام کی پابندی کرنے کی طرف دعوت دیتے ہیں:

”فَاسْئَلُوا اللّٰہَ بِہِ وَ تَوَجَّہُوا اِلَیہِ بِحُبِّہِ وَ لاتَسْئَلُُوْا بِہِ خَلْقَہُ اِنَّہُ مَا تَوَجَّہَ العِبَادُ اِلٰی اللّٰہِ بِمِثْلِہِ وَ اعْلَمُوْا اَنَّہُ شَافِعٌ وَ مُشَفَّعٌ وَ قَائِلٌ مُصَدِّقٌ وَ أَنَّہُ مَن شَفَعَ لَہُ الْقُرآنُ یَومَ الْقِیَامَۃِ شُفِّعَ فِیہِ وَ مَن مَّحَلَ بِہِ الْقُرآنُ یَومَ الْقِیَامَۃِ صُدِّقَ عَلَیہِ”١؎

حضرت علی (ع) ان گزشتہ مطالب کو بیان کرنے کے بعد کہ قرآن معاشرہ کے سب سے بڑے درد و مرض کا علاج ہے، لوگوں کو نصیحت فرماتے ہیں کہ: ”اس کے ذریعہ اللہ

…………………………………………………

(١)نہج البلاغہ، خطبہ ١٧٥۔

سے سوال کرو اور اس کی محبت کے وسیلے سے اس کی طرف رخ کرو، اور دوسرے لوگوں سے مدد طلب کرنے کے لئے قرآن کو وسیلہ قرار نہ دو، اس لئے کہ اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہونے کا اس جیسا کوئی وسیلہ نہیں ہے، اور یاد رکھو! کہ وہ ایسا شفیع ہے جس کی شفاعت مقبول ہے اور ایسا بولنے والا ہے جس کی بات تصدیق شدہ ہے، جس کے لئے قرآن روز قیامت شفاعت کردے اس کے حق میں شفاعت قبول ہے اور جس کا عیب قرآن روز قیامت بیان کردے اس کا عیب تصدیق شدہ ہے”۔

اس کے بعد حضرت (ع) قرآن سے لوگوں کی جدائی کے خطرے کو گوش گزار فرماتے ہیں، پھر ان کو اس آسمانی کتاب کی پیروی اور اسے فکر و عمل میں نمونہ قرار دینے کی طرف دعوت دیتے ہیں:

”یُنَادِی مُنَادٍ یَومَ الْقِیَامَۃِ اَئَلاَ إِنَّ کُلَّ حَارِثٍ مُبْتَلیٰ فِی حَرثِہِ وَ عَاقِبَۃِ عَمَلِہِ غَیرَ حَرَثَۃِ القُرآنِ فَکُونُوا مِن حَرَثَتِہِ وَاَئَتْبَاعِہِ وَ اسْتَدِلُّوہُ عَلٰی رَبِّکُم وَ اسْتَنْصِحُوہُ عَلٰیٰ اَئَنْفُسِکُمْ وَ اتَّہِمُوْا عَلَیہِ آرَائَکُمْ وَاسْتَغِشُّوْا فِیہِ اَئَہْوَائَکُمْ”١؎

جس وقت قیامت برپا ہوگی اور خلائق حساب و کتاب اور جزا و سزا کے لئے کھڑے ہوں گے اس وقت ایک منادی ندا دے گا اور اہل قیامت کو اس حقیقت کی خبر دے گا کہ:

(١)نہج البلاغہ ، خطبہ ١٧٥۔

”ہاں اے لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ آج ہر کھیتی کرنے والا اپنی کھیتی اور اپنے عمل کے آثار و نتائج اور محصول وانجام میں مبتلاہے، لیکن جو لوگ اپنے دل میں قرآن کا بیج بونے والے تھے یعنی دنیا میں اپنے عقائد واعمال قرآن کے احکام و ہدایات کی بنیاد پر قائم رکھے تھے صرف وہی لوگ کامیاب ہیں، لہٰذا تم لوگ انھیں لوگوں میں اور قرآن کی پیروی کرنے والوں میں شامل ہو جاؤ، اسے اپنے پروردگار کی بارگاہ میں رہنما بناؤ اور اس سے اپنے نفسوں کے بارے میں نصیحت حاصل کرو اور اپنے خیالات کو متہم قرار دو اور اپنی خواہشات کو فریب خوردہ تصور کرو”۔

تنبیہ و آگاہی

ہر موجود و مخلوق منجملہ اس کے انسان کی زندگی اور حیات ایک محدود چیز ہے۔ یہ زندگی ایک خاص نقطہئ زمان (ولادت) سے شروع ہوتی ہے اور ایک خاص نقطہئ زمان میں موت کے ذریعہ ختم ہو جاتی ہے۔ انسان اس محدود زمانہ میں مسلسل متحرک اور ہست و بود کی حالت میں ہے، اور اس کی شخصیت مختلف شکلیں اور صورتیںاختیار کرتی رہتی ہے۔ انسان کی شخصیت جو کہ اس کے عقائد و نظریات سے ابھر کر وجود میں آتی ہے اس کے اعمال و کردار کا مصدر و منشأ ہوتی ہے۔ انسان کے اعمال و کردار بھی روز قیامت مجسم ہو جائیں گے اور ہر شخص اپنے اعمال کے آثار و نتائج دیکھ رہا ہوگا۔

لیکن جو بات یہاں پر قابل توجہ ہے، یہ ہے کہ جب تک انسان اس دنیا سے کوچ نہیں کرتا ہر لمحہ اپنے عقائد و افکار اور اعمال و کردار کا محاسبہ کر کے اپنے ماضی کا جبران اور اس کی اصلاح کرسکتا ہے اور اپنی تقدیر کے رخ کو دنیوی اوراخروی سعادت و کامیابی کی طرف موڑ سکتا ہے۔ کتنے ہی انسان ایسے ہیں جوایک لمحہ میں سنبھل گئے اور ایک حقیقی توبہ و انابت کے ذریعے اپنے اندھیرے گھپماضی کو روشن و سعادتمند مستقبل سے بد ل دیا اور سینکڑوں سال کے راستے کوایک رات میں طے کرلیا، اس لئے کہ:

معرفت کا ہر لمحہ عمر جاودانی ہے

لیکن یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ماضی کے محاسبہ، جبران، اصلاح اور تدارک کا امکان فقط اس دنیا میں ہے اوراس دنیا ئے فانی سے رحلت اور موت کے بعد اصلاح و تدارک کا امکان ختم ہو جاتا ہے۔

اگر انسان عالم دنیا میںاپنے اعمال و کردار کو قرآن اور الٰہی احکام و معارف کی بنیاد پر قائم رکھے اور حضرت علی – کے ارشاد کے مطابق قرآن کی بنیاد پر کھیتی کرنے والا ہو تو وہ عالم آخرت میں ان کے آثار و محصول سے فیضیاب اور خوش ہوگا۔

عمل اور اصلاح کا موقع صرف دنیا میں پایا جاتا ہے اور عالم آخرت اصلاح و تدارک کی جگہ نہیںہے: ”اَلْیَومَ عَمَلٌ وَ لاحِسَابٌ وَ غَداً حِسَابٌ وَ لاعَمَلٌ”١؎

آج عمل کا دن ہے حساب کا نہیں، اور کل کا دن، حساب کا ہے عمل کا نہیں۔

امیر المومنین حضرت علی – جو کہ دنیا و آخرت کی حقیقت کے عالم، ان کے درمیان رابطے سے آشنا اور مسلمانوں کے خیر خواہ و دلسوز ہیں، ارشاد فرماتے ہیں:

…………………………………………………

(١)بحار الانوار، ج٣٢، ص ٣٥٤۔

”فَکُوْنُوْا مِنْ حَرَثَۃِ الْقُرآن” یعنی اگر سعادت کے طلبگار ہو تو اپنی کھیتی قرآن کے بابرکت کشت زار میں قرار دو، ان لوگوںمیں ہو جاؤ جو کہ اس آسمانی کتاب کے حیات بخش احکام و ہدایات پرعمل کر کے اپنی دنیا و آخرت کو آباد کرتے ہیں، قرآن کریم کو نمونہ قرار دو تاکہ کبھی نقصان و خسارہ نہ اٹھاؤ۔

قرآن کی تاثیر اور کامیابی کا راز

ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہر اسکیم، دستور العمل اور سیاست کی کامیابی کے لئے خصوصاً تربیتی، ثقافتی اور اجتماعی مسائل کے متعلق تین بنیادی شرطوں کا ہونا ضروری ہے:

١۔ اسکیم اور دستور العمل کا ملحوظ خاطر مقصد تک پہنچنے کے لئے درست اور صحیح ہونا۔

٢۔ اسکیم اور اس کے دستور العمل پر ایمان و اعتقاد رکھنا۔

٣۔ اسکیم میں ذکر شدہ احکام اور دستور العمل کی بنیاد پر عمل کرنا۔

واضح ہے کہ اگر تینوں شرطوں میں سے کوئی ایک شرط بھی نہیں پائی جائے گی تواس اسکیم اور دستور العمل کی افادیت جیسا کہ چاہئے ظاہر نہ ہوگی اور ملحوظ خاطر مقصد حاصل نہ ہوگا۔

یہ بات ہم سب کہتے ہیں کہ قرآن خدا کا کلام اور ہم مسلمانوں کی زندگی کا دستور العمل ہے۔ لیکن اس بات کا صرف کہنا اور ظاہری اقرار کافی نہیںہے، اقرار و اظہار اس صورت میں قرآن اور اس کے حیات بخش احکام پر ایمان سمجھا جائے گا جبکہ قلبی اعتقاد و یقین کی غمّازی کرے اور انسان روح و دل کی گہرائی سے قرآن اور اس کے حیات بخش دستورات و ہدایات پر ایمان رکھتا ہو اور الٰہی ارشادات و پیغامات کے سامنے سراپا تسلیم ہو۔ ایسے ہی ایمان و یقین اور اعتقاد کے ساتھ معاشرہ کی ہدایت میں قرآن کی افادیت کی شرط کا، یعنی قرآن کے حیات بخش دستورات و ہدایات کی بنیاد پر عمل کا تحقق ہوتا ہے۔

قرآن کریم فرماتا ہے:

(ذٰلِکَ الْکِتَابُ لارَیبَ فِیہِ ہُدیً لِلمُتَّقِینَ٭ الَّذِینَ یُؤمِنُونَ بِالغَیْبِ وَ یُقِیمُونَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّارَزَقنٰہُم یُنفِقُونَ ٭ وَ الَّذِینَ یُؤمِنُونَ بِمَا اُئنزِلَ اِلَیکَ وَ مَا اُئنزِلَ مِن قَبلِکَ وَ بِالآخِرَ ۃِ ہُم یُوقِنُونَ ٭ أُولٰئِکَ عَلٰی ہُدیً مِن رَّبِّہِم وَ أُولٰئِکَ ہُمُ المُفْلِحُونَ)١؎

یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک و شبہہ کی گنجائش نہیںہے، یہ صاحبان تقویٰ اور پرہیزگار لوگوں کے لئے ہدایت ہے، جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں، پابندی سے پورے اہتمام کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے رزق دیا ہے اس میں سے ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں وہ ان تمام باتوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں جنھیں (اے رسول(ص)) ہم نے آپ پر اور آپ سے پہلے والوں پر نازل کیا ہے اور آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت کے حامل ہیں اور فلاح یافتہ اور کامیاب ہیں۔

البتہ یہ بات قابل توجہ ہے کہ ایمان کے بہت سے درجے ہیں اور اسلامی معاشرہ

…………………………………………………

(١)سورہ  بقرہ، آیت ٢ تا ٥۔

اس صورت میںاپنے مشکلات پر قابو اور دشمنوں پر غلبہ حاصل کر کے عزت و عظمت کا امیدوار اور قرآن کریم کی لفظوں میں دنیوی واخروی فلاح و کامیابی کا امیدوار ہوسکتا ہے جبکہ معاشرہ کے ثقافتی عہدہ دار افراد، دینی حکومت اور قرآن کے احکام و ہدایات پر تہ دل سے ایمان و اعتقاد رکھتے ہیں، نہ یہ کہ دین اور لوگوں کے دینی کلچر کی صرف کچھ باتوں سے استفادہ کر کے جاہ و منصب حاصل کرنے کے لئے اپنے کو قرآن کا معتقد ظاہر کریں۔

قرآن کریم میں ان لوگوں کو جو کہ الٰہی احکام و ہدایات پر ایمان نہیں رکھتے اور صرف مسلمانوں کو فریب دینے اوراپنے دنیوی مقاصد تک پہنچنے کے لئے ایمان کا اظہار کرتے ہیں، منافقین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس گروہ کی ظاہری ، باطنی او رعملی خصوصیات قرآن کریم کی بہت سی آیتوں میں بیان ہوئی ہیں۔

بہرحال جس نکتہ پر ہم یہاں تاکید کر رہے ہیں، یہ ہے کہ اگر ہم چاہیں کہ قرآن کے ا حکام و ہدایات کی بنیاد پر زندگی بسر کریں اور یہ آسمانی کتاب ہم لوگوں کو سعادتمندبنائے تو لازم ہے کہ تمام لوگ خصوصاً معاشرہ کے ثقافتی امور کے عہدہ دار افراد قرآن پر ایمان و اعتقاد رکھتے ہوں اور اس الٰہی کتاب کے سامنے حضرت ابراہیم – کے مانند سراپا تسلیم ہوں، یعنی قرآن کے حیات بخش احکام و ہدایات کو بغیر کسی چون و چرا کے قبول کرتے ہوں۔

حضرت ابراہیم (ع)، قرآن کریم میں تسلیم و بندگی کا نمونہ

قرآن کریم الٰہی احکام و اوامر کے سامنے حضرت ابراہیم – کے سراپا تسلیم ہونے کے واقعہ کو تسلیم و رضا کا نمونہ بیان کرتا ہے نیز مشکلات کے مقابلہ آپ کی کامیابی اور مشرکین پر غلبہ کا راز، خداوند متعال پر توکل، ایمان اور صبر و استقامت کو بتاتا ہے اور ہم سے چاہتا ہے کہ ہم امر خدا اور قرآن کریم کے بارے میں ایسے ہی ایمان و اعتقاد کے حامل ہوں اور عملاً الٰہی احکام جاری کرنے میں حضرت ابراہیم – کی طرح ثابت قدم ہوں۔

ہم یہاں حضرت ابراہیم – کا واقعہ اپنے فرزند حضرت اسماعیل – کو ذبح کرنے کے سلسلہ میں خداوند متعال کا حکم بجا لانے کے متعلق مختصر طور پر بیان کر رہے ہیں تاکہ اسی کے ضمن میں توحیدی مکتب فکر میں خدا محوری اور حق پرستی کی روح کو واضح کر کے قرآن اور اس کے احکام کے بارے میں اپنی کمیوں کودیکھیں اور اس کی روشنی میں عزیز قارئین کو معاشرہ کے اصلی مشکلات سے آشنا کریں۔

قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ تقدیر الٰہی میںایسا تھا کہ حضرت ابراہیم – سو سال لاولد رہیںاور مسلسل ناامیدی کے ساتھ طویل انتظار کے بعد صاحب اولاد ہوںاور یہ آپ کی دیرینہ تمنا پوری ہو، فطری بات ہے کہ ہر انسان زندگی میں ایک نیک بیٹے کی تمنا رکھتا ہے اور فرزند صالح کے وجود کواپنے وجود کی بقا سمجھتا ہے۔

حضرت اسماعیل – کی ولادت کے بعد حضرت ابراہیم – خداوند متعال کی طرف سے مامور ہوئے کہ اپنے بیٹے کوان کی مادر گرامی کے ساتھ مکہ کی سرزمین پر لے جائیں تاکہ سخت سے سخت حالات میں ایسی وادی میں تنہا چھوڑ دیں کہ جہاں آب و حیات کے آثار بالکل دکھائی نہیں دیتے پھر حکم الٰہی بجالانے کی خاطر سرزمین مکہ کو ترک کردیں، ایک مدت کے بعد واپسی کے وقت جبکہ آپ کا بیٹا بڑا ہوگیا اور ایک ایسا باادب اور خوبصورت جوان نظر آرہا ہے کہ جس کے جمال زیبا کو دیکھ کر ہر انسان کی آنکھ چوندھیا جاتی ہے اور جس کا پھول جیسا مکھڑا باپ کے تمام ہم و غم کو بھلا دیتا ہے نیز جدائی اور مشکلات کے رنج کو دور کردیتا ہے، ایسا سپوت کہ جس میں نبوت کی صلاحیت نمایاں ہے اس سے کمال عشق و محبت کی حالت میں اچانک آپ کو خواب میں وحی ہوتی ہے کہ تم اپنے فرزند کو راہ خدا میں قربان کردو۔

سچ مچ مناسب ہے کہ خدا، قرآن اور احکام الٰہی پر اپنے ایمان و اعتقاد اور خدا کے سامنے اپنے مراتب تسلیم کو حضرت ابراہیم – کے ایمان اور مرتبہئ تسلیم و رضا کے ساتھ تولیں تاکہ اس فاصلہ کو بہتر طور سے سمجھ سکیں جو ہمارے اور ان چیزوں کے درمیان ہے جو قرآن اور خداوند متعال ہم سے چاہتا ہے اور دینی اعتقاد کی بنیاد پر ایمان وعمل کی تقویت کے لئے پہلے سے زیادہ آمادہ ہو جائیں۔ اگر جبرئیل (ع) ایسا حکم ہم آپ کو دیتے، جو کہ اپنے ہی ہاتھ سے اپنے فرزند کی قربانی پر مبنی ہے وہ بھی بیداری میں نہ کہ خواب میں، تو ہم اس کے سننے کی تاب نہ رکھتے تو بھلا پھر یہ کیسے ممکن ہوتا کہ اپنے بیٹے کی قربانی میں الٰہی فرمان و حکم کو عملی جامہ پہنائیں، لیکن حضرت ابراہیم – بے دھڑک فوراً حکم الٰہی کو بجالانے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور بغیر اس کے کہ وحی شدہ حکم کے صحیح ہونے میں شک و شبہہ کریں کہ آیا کون سی مصلحت بے گناہ بیٹے کو ذبح کرنے میں ہے؟ اس بات کو اپنے بیٹے سے پیش کرتے ہیں:

(فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ یَا بُنَیَّ اِنِّی أَریٰ فِی الْمَنَامِ اَنِّی أَذبَحُکَ فَاْنظُرْ مَاذَا تَرَیٰ قَالَ یَا اََئَبَتِ افْعَلْ مَاتُؤمَرْ سَتَجِدُنِي اِن شَاءَ اللّٰہُ مِنَ الصَّابِرِینَ)١؎

…………………………………………………

(١)سورہ  صافات، آیت ١٠٢۔

(پھر جب وہ فرزند اپنے باپ کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کے قابل ہوگیا تو انھوں نے کہا کہ بیٹا میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ میں تمھیں ذبح کر رہا ہوں، اب تم بتاؤ کہ تمھارا کیا خیال ہے فرزند نے جواب دیا کہ بابا جو آپ کو حکم دیا جارہا ہے اس پر عمل کریں ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے)

حضرت ابراہیم – فرماتے ہیں کہ: میں نے خواب میںدیکھا ہے کہ تمھیں راہ خدا میں ذبح کر رہا ہوں، تمھاری مرضی کیا ہے؟ حضرت ابراہیم – کا ایمان و تسلیم اس مرتبہ پر ہے، اب بیٹے کے ایمان و تسلیم کا مرتبہ دیکھئے اور خدا اور اپنے باپ کے حکم کے سامنے بیٹے کی اطاعت کو ملاحظہ فرمائیے، اسی طرح ان انسانوں کے اخلاص وایمان سے کہ قلم و بیان جن کے وصف سے عاجز ہے حیرت کیجئے اور اپنے کو مسلمان کہنے میں احتیاط و ہوشیاری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیئے۔

حضرت اسماعیل – جیسے فرزند کہ جنھوں نے امر خدا کے سامنے تسلیم و رضا کا سبق اپنے باپ سے حاصل کیا تھا، اظہار موافقت سے بڑھ کر ایک جواب کے ذریعے اپنے باپ کو حکم الٰہی پر عمل کرنے میں تشویق دلاتے ہیں کہ خدانخواستہ حکم خدا چھوٹ نہ جائے۔

نیز حضرت اسماعیل – بغیر اس کے کہ اپنے ذبح ہونے کے فلسفہ کے متعلق سوال کریں اور بغیر اس کے کہ باپ کواپنی ذمہ داری انجام دینے کے متعلق سوچنے پر مجبور کریں، اپنے بابا سے کہتے ہیں: (یَا اَئَبَتِ افْعَلْ مَاتُؤْمَرْ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللّٰہُ مِنَ الصَّابِرِینَ)١؎ اے بابا اپنے فریضہ کوانجام دیجئے، ان شاء اللہ آپ مجھے صابر اور

…………………………………………………

(١)سورہ  صافات، آیت ١٠٢۔

ثابت قدم پائیں گے۔ البتہ عظیم انسان تمام فرائض اور بڑی سے بڑی ذمہ داری کے پورا کرنے میں خداوند متعال سے مدد چاہتے ہیں اور اس پر توکل کر کے قدم اٹھاتے اور تمام کاموں میں اس سے کمک اور مدد طلب کرتے ہیں اور نہایت ادب کے ساتھ اس طرح اظہار کرتے ہیں کہ اگر خدا چاہے اور اگر وہ مدد کرے تو میں فلاں کام کو انجام دوں گا۔

خداوند متعال حضرت ابراہیم – کی جھلک اور اپنے سامنے سراپا تسلیم ہونے کی حالت کو خود ابراہیم (ع) کی زبان مبارک سے اس طرح بیان فرماتا ہے:

(اِنِّي وَجَّہْتُ وَجْہِيَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرْضَ حَنِیفاً وَ مَا أَنَا مِنَ المُشْرِکِینَ)١؎

میرا رخ (خالص ایمان کے ساتھ) پوری طرح اس خدا کی طرف ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں باطل سے کنارہ کش ہوں اور ہرگز مشرکوں میں سے نہیںہوں۔

ہمیں چاہئے کہ خدا اور قرآن کے بارے میں حضرت ابراہیم – کے اعتقاد و ایمان کے مانند اعتقاد و ایمان رکھیں، اسی صورت میں قرآن کریم سے استفادہ کی دوسری بنیادی شرط یعنی قرآن کی ہدایات کی بنیاد پر معاشرہ کی ہدایت ہوسکے گی۔

اس بنا پر قرآن کا وجود، پختہ ایمان اوردلی اعتقاد کے بغیر ہرگز انسان اور معاشرہ کو سعادتمند نہیں بنائے گا، البتہ یہ بات بھی واضح ہے کہ ایمان و اعتقاد کے علاوہ جو چیز

…………………………………………………

(١)سورہ  انعام، آیت ٧٩۔

ہدایت قرآن کی اسکیم اور دستور العمل کو وجود بخشتی ہے وہ تیسری شرط کا پایا جانا ہے یعنی فردی و اجتماعی زندگی میں قرآن کے احکام و ہدایات اور اس کے حیات بخش دستور العمل کو وجود میں لانا اور ان پر عمل کرنا۔

دوسری فصل

قرآن کی تفہیم و تفسیر

 اصلی مشکل

گزشتہ فصل کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم ہدایت الٰہی کی کتاب ہے اور ہم سب کا فریضہ ہے کہ اس پر ایمان رکھیں، فردی و اجتماعی زندگی میں اس کے احکام پر عمل کر کے اور اسے نمونہ قرار دے کر اپنی زندگی اور معاشرہ کو قرآن کی ہدایات کی بنیاد پر قائم کریں تاکہ دنیا اور آخرت میں سعادتمند اور کامیاب ہوجائیں۔

اب ہم یہ سوال کرنا چاہتے ہیں کہ اس بات کے باوجود کہ قرآن، فردی و اجتماعی بیماریوں کا یہ نسخہئ شافیہ مسلمانوں کے معاشروں میں، منجملہ ان کے ہمارے انقلابی اور اسلامی معاشرہ میں موجود ہے لیکن پھر بھی ہم کیوں اسی طرح بعض مشکلات خصوصاً ثقافتی مشکلات سے دوچار ہیں؟

ممکن ہے گزشتہ مطالب سے استفادہ کرتے ہوئے جواب میں کہا جائے کہ چونکہ قرآن اور اس کے نجات بخش احکام پر کماحقّہ عمل نہیں ہوتا۔ یہ جواب اگرچہ صحیح سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے بعد اس سے بھی بڑھ کر بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں قرآن پر عمل کماحقّہ نہیں کیا جاتا؟

حقیقت میں وہ کون سے عوامل و اسباب ہیں کہ جن کی بنا پر قرآن کا رنگ معاشرہ میں پھیکا پڑ جاتا ہے اور دھیرے دھیرے لوگ قرآن، دینی ثقافت و مکتب فکر اور الٰہی اقدار سے جدا ہو جاتے ہیں؟

چونکہ موضوع بحث ”قرآن نہج البلاغہ کے آئینہ میں” ہے، لہٰذا ہم مذکورہ سوال کواس طرح پیش کرسکتے ہیں کہ حضرت علی – ہمارے معاشرہ کی اصلی مشکل کس چیز میں سمجھتے ہیں اور اس کے حل کے لئے کس راستہ کی نشاندہی فرماتے ہیں؟

اس سوال کے جواب اور اس سلسلہ میں حضرت علی – کے ارشاد کی توضیح کے لئے ہم پہلے ایک مقدمہ پیش کرتے ہیں پھر اصل بحث شروع کریں گے۔ جیسا کہ پچھلی فصل میں بیان کیا گیا خدا اوردستورات الٰہی پر ایمان اور اوامر خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونا، قرآن کریم کی رہنمائیوں سے فیضیاب ہونے اور ہدایت کی سب سے بڑی اصل شرط ہے۔

حضرت ابراہیم – کے مانند ایمان و یقین اور تسلیم و رضا کو روح و جان کے اندر سرایت کرنا چاہئے تاکہ شیطانی جالوں سے محفوظ رہیں۔ معرفت کے ”مَشعر” میں ایسے سنگریزے اکٹھا کرنا چاہئے کہ قرآن کی طرف رجوع کے وقت ”نفس امارہ کے شیطان” کو ان سنگریزوں سے ”رمی” کریں۔

ہمیں چاہئے کہ نفسانی خواہشات کے مقابلہ میں کھڑے ہو جائیں اور کلام خدا کو نفسانی خواہشات پر مقدم رکھیںاور نفس کو قرآن کریم کے سمجھنے میں خود پسندی اور کج فکری سے باز رکھیں تاکہ قرآن کریم کو سمجھنے اور آیات الٰہی کی طرف رجوع کے وقت خطا و غلطی سے دو چار نہ ہوں، اس لئے کہ ایسا نہیں ہے کہ کوئی شخص کسی بھی نیت اور کسی بھی روش کے ساتھ قرآن کو سمجھنا چاہے تو اس سے صحیح استفادہ کرسکتا ہو۔

ایک جملہ میں، اگر ہم نے خدا کی بندگی کو قبول کر لیا ہے تو لازم ہے کہ اپنے کو پوری طرح اس کے حوالے کردیں اوردل کو خدا کے ارادہ و مشیت کے سپرد کردیں اور تمام وجود کے ساتھ یقین و اعتقاد رکھیں کہ خدا اپنے بندوں سے بہتر ان کی مصلحتوں کو جانتا ہے اور اپنے بندوں کی صلاح اور نفع کے علاوہ امر و نہی نہیں کرتا۔

صرف ایسے ہی اعتقاد و ایمان کے ساتھ اس کتاب الٰہی کے صحیح سمجھنے اور اس کے حیات بخش ہدایات سے فیضیاب ہونے کا امکان انسانوں کے لئے حاصل ہوسکتا ہے۔

اس بنا پر ہدایت الٰہی سے فیضیاب ہونے کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی بنیادی شرط ہر طرح کی کج فکری اور خود پسندی سے پرہیز کرنے اور تسلیم و رضا کی روح رکھنا ہے۔

ماہر ڈاکٹر اس نسخہ میں جو کہ وہ اپنے بیمار کے لئے لکھتا ہے، کچھ دواؤں کے استعمال کو لازم قرار دیتا ہے اور کچھ غذائیں کھانے کو تجویز کرتا ہے اور ایسی دوا اور غذا کھانے سے منع کرتا ہے جو کہ علاج اور شفا کو تاخیر میں ڈال دیتی ہے یا جس سے شفا کا امکان نہیں رہ جاتا، لیکن کیا ڈاکٹر کے تمام حکم بیمار کی خواہشات کے مطابق ہوتے ہیں؟

ممکن ہے بیمار، بعض تجویز شدہ دواؤں کو نہایت رغبت کے ساتھ استعمال کرے اور بعض ممنوع غذاؤں سے شوق کے ساتھ پرہیز کرے، لیکن اکثر مریض کی خواہشات ڈاکٹر کے حکم اور تجویز سے میل نہیں کھاتیں۔ کبھی کبھی مریض اچار اور کھٹائی کھانے کی شدید خواہش رکھتا ہے لیکن ڈاکٹر اچار اور کھٹائی کے استعمال کو بیمار کے لئے زہر قاتل سمجھتا ہے۔ ایسے مواقع پر ممکن ہے بیمار اس چیز کی شدید رغبت کے زیر اثر ڈاکٹر کی تشخیص میں شک کرے اور اس کو کھانے کے لئے اپنی طرف سے توجیہیں گڑھے، البتہ انسان جسمانی بیماریوں کے موقع پر اپنی صحت و سلامتی کی نہایت خواہش کی بنا پر بہت کم ڈاکٹر کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اکثر کوشش کرتا ہے کہ ان کو اپنی شخصی خواہشات پر ترجیح دے اور معالج ڈاکٹر کے احکام پر کامل طور سے عمل کرے، لیکن روحانی امراض کے موقع پر ایسے انسان کم نہیں ہیں جو کہ اپنی نفسانی خواہشات کو قضاوت و فیصلہ کا معیار قرار دیتے ہیں اور باطل کج فکریوں، نادرست ذہنیتوں اور غلط خواہشات کی بنیاد پر دین و احکام الٰہی کی تفسیر و توضیح کرنے لگتے ہیں۔

واضح ہے کہ ایسی روح کے ساتھ قرآن اور دین کا صحیح سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ حتی اگر یہ بھی فرض کرلیا جائے کہ کوئی شخص واقعاً دین و قرآن کو صحیح سمجھنا چاہتا ہے اور ہر طرح کے فریب اور دوسروں کے گمراہ کرنے کا ارادہ اس کے بارے میں محال ہو، تب بھی وہ دین و قرآن کو صحیح نہیں سمجھ سکتا چونکہ وہ خود پسندی، کج فکری اور غلط ذہنیت کے ساتھ قرآن و دین کو سمجھنا چاہتا ہے، خود پسندی، کج فکری، غلط ذہنیتوں اور نفسانی خواہشات کی تاثیر کو اس کے آیات و روایات کے سمجھنے میں کالعدم نہیں سمجھا جاسکتا۔

البتہ ان افراد کی داستان، جو کہ دیدہ و دانستہ، علم و آگاہی کے ساتھ اور جان بوجھ کر لوگوں کو فریب دینے اور دینی تہذیب و ثقافت کو نابود کرنے کے لئے ”مختلف قرائتوں” کے نام سے دینی احکام و دستورات میں تحریف کرتے ہیں، ایک جداگانہ داستان ہے کہ جس کو اپنی جگہ پر بیان کریں گے اور اس مخالف دین تفکر کے اسباب و علل کو نہج البلاغہ کی روشنی میں تحقیق کے ساتھ مختصر طور پر ذکر کریں گے۔ اب ہم دیکھیں کہ قرآن کی طرف رجوع اور اس کے احکام و ہدایات کو سمجھنے کا صحیح راستہ حضرت علی – کی نظر میں کیا ہے؟

حضرت علی – کی وصیت قرآن کے متعلق

امیر المومنین حضرت علی – کا وہ نورانی بیان، جس میں عالم قیامت، روز محشر، اس دن پیروان قرآن کے اپنے اعمال سے راضی ہونے اور قرآن سے روگردانی کرنے والوں کو عذاب میں مبتلا ہونے کی خبر دی ہے، اس میں لوگوں کو اس طرح وصیت فرماتے ہیں: ”فَکُونُوا مِنْ حَرَثَۃِ الْقُرآنِ وَ اَتْبَاعِہِ”١؎ قرآن کی بنیاد پر اپنے اعمال کی کھیتی کرنے والے اور اس کے پیرو ہو جاؤ، ”وَ اسْتَدِلُّوہُ عَلیٰ رَبِّکُمْ” قرآن کو اپنے پروردگار پر دلیل و گواہ قرار دو، خدا کو خود اسی کے کلام سے پہچانو! اوصاف پروردگار کو قرآن کے وسیلہ سے سمجھو! قرآن ایسا رہنما ہے جو خدا کی طرف تمھاری رہنمائی کرتا ہے۔ اس الٰہی رہنما سے اس کے بھیجنے والے (خدا) کی معرفت کے لئے استفادہ کرو اور اس خدا پر جس کا تعارف قرآن کرتا ہے ایمان لاؤ۔

وَاسْتَنْصِحُوہُ عَلٰی أَنفُسِکُمْ، اے لوگو! تم سب کو ایک خیر خواہ اور مخلص کی ضرورت ہے تاکہ ضروری موقعوں پر تمھیں نصیحت کرے، قرآن کو اپنا ناصح اور خیر خواہ قرار دو اور اس کی خیر خواہانہ نصیحتوں پر عمل کرو، اس لئے کہ قرآن ایسا ناصح اور دلسوز ہے جو ہرگز تم سے خیانت نہیں کرتا ہے اور سب سے زیادہ اچھی طرح سے صراط مستقیم کی طرف تمھاری ہدایت کرتا ہے۔

اس بنا پر حضرت علی – مسلمانوں اور دنیا و آخرت کی سعادت کے مشتاق لوگوں کو

…………………………………………………

(١)نہج البلاغہ، خطبہ ١٧٥

وصیت فرماتے ہیں کہ قرآن کو اپنا رہنما قرار دیں اور اس کی مخلصانہ نصیحتوں پر کان دھریں، اس لئے کہ (إِنَّ ہٰذَا الْقُرآنَ یَہْدِيْ لِلَّتِي ہِيَ أَقوَمُ وَ یُبَشِّرُ المُؤمِنِینَ الَّذِینَ یَعمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَہُم أَجرًا کَبِیراً)١؎

”بے شک یہ قرآن اس راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے اور ان صاحبان ایمان کو بشارت دیتا ہے جو نیک اعمال بجالاتے ہیں کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے”۔

جو نکتہ یہاں پر قابل تاکید ہے، یہ ہے کہ اس آیہئ شریفہ کے مضمون پر ایمان و اعتقاد رکھنا دل و جان سے لازم ہے، اس لئے کہ جب تک کہ قرآن کے متعلق ایسا ایمان و اعتقاد انسان کی روح پر حاکم نہ ہو او رجب تک انسان اپنے کو کامل طور سے خدا کے اختیار میں نہ دے اور اپنے کو کج فکری، خود پسندی اور نفسانی خواہشات سے پاک و صاف نہ کرے ہر لمحہ ممکن ہے شیطانی وسوسوں کے جال میں پھنس جائے اور گمراہ ہو جائے، پھر جب بھی قرآن کی طرف رجوع کرے گا تو ناخواستہ طور پر قرآن میں بھی ایسے مطالب اور آیات ڈھونڈے گا جو کہ اس کی نفسانی خواہشات سے میل کھاتے ہوں۔

واضح ہے کہ قرآن کے تمام احکام و دستورات انسان کے نفسانی خواہشات اور حیوانی میلانات کے موافق نہیںہیں۔ انسان اپنی طبیعت کے مطابق خواہشات رکھتا ہے اور وہ یہ چاہتا ہے کہ قرآن بھی اس کی خواہش کے مطابق ہو، اس بنا پر فطری بات ہے کہ جہاں قرآن انسان کے حیوانی و نفسانی خواہشات کے برخلاف بولے گا انسان اس

…………………………………………………

(١)سورہ  اسرائ، آیت ٩۔

سے ذرا سا بھی خوش نہ ہوگا اور جہاں آیات قرآن اس کی نفسانی خواہشات کے موافق ہوں گی وہ کشادہ روئی کے ساتھ ان کا استقبال کرے گا۔

البتہ یہ تمام فعل و انفعالات اور تاثیر و تاثرات اس کے اندر ہی اندر مخفی طور پر انجام پائیں گے لیکن اس کے آثار انسان کے اقوال و افعال میں ظاہر ہوں گے، لہٰذا عقل اس بات کو واجب و لازم قرار دیتی ہے کہ قرآن کی طرف رجوع سے پہلے، انسان اپنے ذہن کو ہر طرح کی خود پسندی اور کج فکری سے پاک و صاف کر لے اور اپنے تمام نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس سے منھ موڑ لے تاکہ ایک خدا پسند اور خدا پرست روح کے ساتھ قرآنی مکتب میں قدم رکھے، اس صورت میں انسان زانوئے ادب تہ کرتا ہے اور نہایت شوق و رغبت کے ساتھ الٰہی معارف کو قبول کرتا ہے۔

تفسیر بالرائے

واضح ہے کہ نفسانی خواہشات سے ہاتھ اٹھانا او رالٰہی احکام اور قرآنی معارف کے سامنے سراپا تسلیم ہونا نہ صرف ایک آسان کام نہیں ہے، بلکہ جو لوگ عبودیت و بندگی کی قوی روح کے حامل نہیں ہیں ان کے لئے نفسانی خواہشات سے چشم پوشی کرنا نہایت ہی مشکل کام ہے، اسی وجہ سے اسے جہاد اکبر بھی کہا جاتا ہے۔

معلوم ہوتا ہے کہ تفسیر بالرائے کا روحی اور نفسیاتی محرّک یہیں سے پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف انسان بندگی کی روح کمزور ہونے کے سبب اپنی نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس کو چھوڑ نہیں سکتا اور دوسری طرف شیطان اس حالت سے مناسب فائدہ حاصل کرتا ہے اور شیطانی وسوسوں سے کام لیتا ہے کہ ایسے انسان کے فکر و ذہن کو قرآن ودین سے غلط تفسیر کی طرف موڑ دے اور اسے گمراہ کردے۔

خصوصاً اگر یہ شخص اجتماعی اور سماجی لحاظ سے ثقافتی مرتبہ کا حامل ہو، شیطان کا وسوسہ، اس کی کوشش اور اس قسم کھائے ہوئے دشمن کی حرص ایسے انسان کے منحرف اور گمراہ کرنے میں سینکڑوں گنا بڑھ جاتی ہے اس لئے کہ شیطان جانتا ہے کہ ایسے انسان کو منحرف کرنے سے ایک گروہ کودین سے منحرف کردے گا کہ وہ گروہ ممکن ہے اس انسان کی باتیں سنتا اور مانتا ہو۔ایسے لوگ نہ کم تھے اور نہ ہیں جو کہ تہذیب نفس اور روح کی پاکیزگی کے بغیر، خود پسندی اور کج فکری کے ساتھ، قرآن کی طرف رجوع کرنے سے پہلے فتویٰ صادر کرتے ہیں اور بغیر اس کے کہ تھوڑی سی بھی علمی صلاحیت اور ضرورت بھر مہارت رکھتے ہوں، اظہار نظر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن بھی ہمارا ہی نظریہ رکھتا ہے۔

واضح سی بات ہے کہ ایسے انسان اپنے نفسانی خواہشات اور باطل افکار و نظریات پر دینی اور قرآنی رنگ چڑھانے کے لئے مجمل آیات اور بحسب ظاہرمبہم سے مبہم آیات سے تمسک کرتے ہیں۔

بدیہی ہے کہ ایسی روحی، خود پسندی اور کج فکری کی حالت سے نہ صرف قرآن کے صحیح سمجھنے کے لئے کوئی ضمانت باقی نہیں رہ جاتی، بلکہ فطری طور پر غلط فہمی اور حق سے منحرف ہونے کا راستہ بھی کھل جاتا ہے۔

قرآن کی اس طرح کی تفسیر و فہم کو دینی مکتب فکر میں تفسیر بالرائے سے تعبیر کیا جاتا ہے اور دین و قرآن کے ساتھ سب سے زیادہ برے قسم کا معاملہ اور برتاؤ سمجھا جاتا ہے۔

قرآن دین اور آیات الٰہی کے ساتھ اس طرح کے برتاؤ کو استہزاء (مذاق) سمجھتا ہے اور صریحی طور پر اس سے منع کرتا ہے:

(وَ لاتَتَّخِذُوْا آیاتِ اللّٰہِ ہُزُواً وَ اذْکُرُوْا نِعمَۃَ اللّٰہِ عَلَیکُمْ وَ مَاأَنزَلَ عَلَیکُمْ مِنَ الْکِتَابِ وَ الْحِکمَۃِ یَعِظُکُمْ بِہِ وَ اتَّقُوْا اللّٰہَ وَ اعْلَمُوْا أَنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیءٍ عَلِیمٍ)١؎

یعنی ”خبردار! آیات الٰہی کو مذاق نہ بناؤ اور خدا کی نعمت کو یاد کرو اور اس نے کتاب و حکمت کو تمھاری نصیحت کے لئے نازل کیا ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور یاد رکھو! کہ وہ ہر شے کا جاننے والا ہے”۔

جیسا کہ اس کے پہلے اشارہ کیا گیا کہ وہ لوگ قرآن کریم کی ہدایت سے فیضیاب ہوتے ہیں جو اس پر ایمان و اعتقاد رکھتے ہوں، اور جو لوگ خود پسندی اور کج فکری کے ساتھ اس بات پر آمادہ ہو جاتے ہیں کہ اپنی نفسانی خواہشات کے لئے دینی اور قرآنی توجیہیں گڑھیں اور اپنی رائے سے کلام خدا کی تفسیر و توجیہ کریں، وہ خدا پر ایمان رکھنے سے بے بہرہ ہیں۔

یہاں پر مناسب ہے کہ اس سلسلہ میں چند روایتوں پر توجہ کریں:

قال رسول اللّٰہ (ص) : قال اللّٰہ جلّ جلالہ: مَا آمَنَ بِی مَن فَسَّرَ بِرَأیِہِ کَلامِی”٢؎ پیغمبر (ص)، خداوند متعال کا قول نقل فرماتے ہیں کہ خدا فرماتا ہے: وہ شخص ہرگز مجھ

…………………………………………………

(١)سورہ  بقرہ، آیت ٢٣١۔

(١)توحید صدوقؒ ، ص ٦٨۔

پر ایمان نہیں لایا ہے جو اپنی رائے سے میرے کلام کی تفسیر کرتا ہے۔

دوسرے بیان میں پیغمبر (ص) سے نقل ہوا ہے کہ آنحضرت (ص) نے ارشاد فرمایا: ”مَن فَسَّرَ الْقُرآنَ بِرَأیِہِ فَقَدِ افْتَرَیٰ عَلٰی اللّٰہِ الکَذِبَ”١؎ جس شخص نے قرآن کی تفسیر اپنی رائے اور اپنی فکر سے کی وہ یقینا خدا پر جھوٹ باندھتا ہے۔ پیغمبر (ص) کا یہ ارشاد اس وجہ سے ہے کہ جو شخص خود پسندی اور کج فکری کے ساتھ اس بات پر آمادہ ہو جائے کہ آیات الٰہی کی توجیہ کسی بھی طرح اپنے نفع کے تحت کرے اور اسے قرآن اور کلام الٰہی کی تفسیر بتائے، وہ حقیقت میں اپنی نظر اور رائے کو معیار قرار دیکر اس کی خداوند متعال کی طرف جھوٹی نسبت دیتا ہے۔

قرآن کے ساتھ اس طرح کا معاملہ اور کلام الٰہی کی اس طرح کی تفسیر و تفہیم اتنی مذموم اور خطرناک ہے اور ایسی ضلالت و گمراہی کا باعث ہوتی ہے کہ اس گناہ کے مرتکب افراد قیامت میں سخت ترین عذاب میں مبتلاہوں گے۔

حضرت پیغمبر (ص) اس سلسلہ میں بھی ارشاد فرماتے ہیں : ”مَن فَسَّرَ الْقُرآنَ بِرَأیِہِ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدُہُ مِنَ النَّار”٢؎ جو شخص قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرے گا اس کا ٹھکانہ قیامت میں جہنم ہے۔

اس بنا پر بدترین عذابوں سے محفوظ رہنے، خداوند متعال پر بہتان باندھنے سے

…………………………………………………

(١)بحار الانوار، ج٣٦، ص ٢٢٧ ۔

(٢)عوالی اللعالی، ج ٤، ص ١٠٤ ۔

پرہیز کرنے اور ضلالت و گمراہی کے گڑھے میں گرنے سے بچنے کے لئے لازم ہے کہ نفسانی خواہشات کو چھوڑ دیں، خدا کی ذات اقدس پر جو کہ خیر محض ہے اور انسان کے لئے خیر کے علاوہ کچھ نہیں چاہتا، ایمان رکھیں، خود محوری اور خود پرستی سے پرہیز کریں، خدا محوری اور خدا پرستی کا جذبہ و عقیدہ اپنے اندر پیدا کریں اورخدا کے سامنے سراپا تسلیم ہو جائیں۔

حضرت علی – کا ارشاد، تفسیر بالرائے سے پرہیز کے سلسلہ میں

جیسا کہ اس کے قبل اشارہ کیا جا چکا ہے کہ انسان ایسے خیالات اور خواہشات رکھتا ہے کہ کبھی کبھی وہ قرآن کے مطابق نہیں ہوتے اور وہ اپنی انسانی طبیعت کے لحاظ سے چاہتا ہے کہ قرآن بھی اس کی خواہش اور نظر کے موافق ہو، یہاں تک کہ بعض اوقات لاشعوری طور پر ممکن ہے کہ وہ خواہشات و خیالات اس کی قرآن فہمی میں اثر انداز ہوں۔ چونکہ ایساخطرہ ہر انسان کو قرآن کریم کی تفسیر کے وقت پیش آسکتا ہے اور شیطان بھی ہر لمحہ گھات میں لگا ہوا ہے تاکہ ایسے ثقافتی لوگوں کو فریب دیکر جو کہ فہم دین کے دعویدار ہیں، ایک گروہ کو راہ حق سے پھیر دے۔ لہٰذا بہت ضروری ہے کہ حضرت علی – کے اس ارشاد پر خاص توجہ دیں۔

حضرت علی – کج فہمی سے محفوظ رہنے اوراحتمالی انحراف سے پرہیز کرنے کے لئے ارشاد فرماتے ہیں:

”وَاتَّھِمُوا عَلَیہِ آرَائَکُم”١؎ جس وقت تم قرآن کی تفسیر کرنا چاہو تو اپنے

…………………………………………………

(١)نہج البلاغہ، خطبہ ١٧٥ ۔

خیالات و آراء اور افکار و نظریات کو قرآن کے سامنے غلط سمجھو، اپنی شخصی آراء اور نظریات اور نفسانی خواہشات کو چھوڑ دو، اور حضرت (ع) کی لفظوں میں، اپنے کو قرآن کے سامنے متہم کرو اور غلط سمجھو!۔

قابل ذکر ہے کہ مذکورہ تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن فہمی میں امانت و تقوی کی رعایت اوراحتیاط نہایت لازم ہے، اس لئے کہ حضرت (ع) فرماتے ہیں کہ اپنے خیالات و نظریات کو قرآن کے مقابلہ میں غلط سمجھو اور اس ذہنیت کے ساتھ کہ میں کچھ نہیں جانتا، جو کچھ قرآن کہتا ہے وہی حق ہے، قرآن سے روبرو ہونا چاہئے پھر کہیں قرآن کی تفہیم و تفسیر کے لئے آمادہ ہونا چاہئے۔

”وَاسْتَغِشُّوا فِیہِ اَہوَائَکُمْ” اپنے خواہشات او رہوا و ہوس کو فریب خوردہ اور غلط سمجھو تاکہ قرآن سے صحیح استفادہ کرسکو ورنہ ہمیشہ خطا اورانحراف سے دوچار ہوگے۔

اس بنا پر دین کا جوہر (اصل) کہ خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونا ہے، اقتضا کرتا ہے کہ انسان صرف خداوند متعال کا مطیع ہو اور خدا کے احکام، قرآن کریم کے دستورات کے مقابلہ میں اپنی رائے، نظر، خود پسندی اور کج فکری کو باطل سمجھے، جس وقت ایسی روح انسان پر غالب و حاکم ہوگی، واضح ہے کہ اس صورت میں وہ قرآن اور الٰہی احکام و معارف کو بہتر طور سے سمجھے گا پھر جب وہ خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہوگا ان کو جان و دل سے قبول کرے گا۔

قرآن اور دینی معارف سے متعلق دو طرح کے نظریئے

قرآن کریم اور دینی معارف سے متعلق دو طرح کے مختلف نظریئے پائے جاتے ہیں:

١۔ وہ نظریہ جو تسلیم و بندگی اور خدا محوری و خدا دوستی کی روح پر مبنی ہے۔

٢۔ وہ نظریہ جو کہ انسان کی نفسانی خواہشات کواصل قرار دیتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ دینی متون و مطالب اور قرآن کے معارف کی اپنے نفسانی خواہشات کے مطابق تفسیر و توجیہ کرے، وہ نظریہ جس کو آج کی رائج اصطلاح میں ”ہیومن ازم”١؎ (Humanism) کہا جاتا ہے، یعنی انسان محوری وانسان دوستی کو خدا محوری و خدا دوستی کے مقابلہ میں پیش کرنا۔

معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ تفسیم بندی گزشتہ مباحث و مطالب سے بالاتر ہے، اس لئے کہ اب تک فرض یہ تھا کہ ممکن ہے قرآن سے متعلق دو طرح کی فکر ظاہر ہو کہ ایک تسلیم و بندگی کی روح واصل پر مبنی ہو اور دوسری وہ فکر و فہم جو کہ نفسانی خواہشات سے متاثر ہو۔ اس بنا پر قرآن کے سمجھنے بوجھنے میں تفسیر بالرائے سے پرہیز کیا جائے اور قرآن جیسا ہے اسے ویسا ہی سمجھا جائے، اس سلسلہ میں حضرت علی – کی وصیت کی توضیح کرچکے ہیں کہ خود پسندی اور کج فکری سے پرہیز کرنا اور نفسانی خواہشات سے ذہن کو خالی رکھنا لازم

…………………………………………………

(١)یہ ایسا نظریہ ہے جو چودھویں صدی عیسوی میں یورپ میں پیدا ہوا جس کا مقصد، اصالتاً صرف انسانی مرتبہ اور حیثیت کو بلند کرنا ہے، اس نظریہ کے طرفدار اومانسٹ یا ہومانسٹ کہے جاتے ہیں جن میں سے اکثر مذہب پروٹسٹ کی طرف مائل ہوگئے۔

ہے۔ اس نظریئے میں حضرت (ع) کے کلام کے مخاطب دونوں گروہوں کو ہم مسلمان سمجھتے تھے اور دین میں منحرف ہونے سے پرہیز کرنے کے لئے نیز تفسیر بالرائے میں مبتلا ہونے سے بچنے کے لئے تقویٰ کی پابندی کی اور خواہش نفس اور خود پسندی و کج فکری سے دور رہنے کی نصیحت کر رہے تھے۔

جب ہم اس مسئلہ کی تحقیق مزید گہرائی سے کرتے ہیں تو ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ دقیق اور باریک نکتے حاصل ہوتے ہیں، ہمیں بندگی کے باب میں انسانوں کے دو گروہوں میں تقسیم ہونے کے متعلق حضرت علی – کے کلام کا اعجاز معلوم ہوتا ہے اور دین و احکام الٰہی کے مقابلہ میں انسانوں کے افکار و نظریات کی نسبت حضرت (ع) کے علم النفس اور علم الروح سے زیادہ سے زیادہ آگاہ ہوتے ہیں۔

امیر المومنین حضرت علی – دو اہم خصوصیات کو بیان کرتے ہیں اور ان کی بنیاد پر انسانوں کو دو گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں اور ہر گروہ کی خصوصیتں ذکر کر کے ان کا تعارف کراتے ہیں کہ جن کی طرف ذیل میں ہم اشارہ کر رہے ہیں:

١ -: وہ گروہ کہ جس نے تمام وجود کے ساتھ خدا کی بندگی کو قبول کیا ہے، یہ لوگ اپنے نفسانی خواہشات سے مقابلہ کرتے ہیں، خدا کے ارادہ اور حکم کو اپنے نفسانی خواہشات اور میلانات پر مقدم رکھتے ہیں۔

فطری بات ہے کہ ایسے انسان، اس آسمانی کتاب قرآن کو تہ دل سے قبول کرتے ہیں، اس کے احکام و معارف کو جان و دل سے مانتے ہیںاور مقام عمل میں اسے نمونہ قرار دیکر اس کے شعائر کو برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

حضرت علی – اسی گروہ کی تعریف میں فرماتے ہیں:

”إِنَّ مِنْ أَحَبِّ عِبَادِ اللّٰہِ عَبداً أَعَانَہُ اللّٰہُ عَلٰی نَفْسِہِ”١؎ بے شک خدا کا سب سے زیادہ محبوب بندہ خود خدا کے نزدیک وہ ہے جس کی خدانے (اس کے نفسانی خواہشات سے مقابلہ کرنے میں) اس کے نفس کے خلاف مدد کی ہے۔ پھر اس گروہ کے اوصاف بیان کرنے کے بعد ایسے اشخاص کے درمیان قرآن کے مرتبہ کے متعلق ذکر فرماتے ہیں: ”قَد اَمْکَنَ الْکِتَابَ مِن زِمَامِہِ فَہُوَ قَائِدُہُ وَ اِمَامُہُ، یَحُلُّ حَیثُ حَلَّ ثَقَلُہُ، وَ یَنزِلُ حَیثُ کَانَ مَنزِلُہُ”٢؎ یہ گروہ جو مومنین و متقین کا گروہ ہے وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے امور کی زمام کتاب خدا کے حوالے کردی ہے لہٰذا وہی اس کی قائد اور پیشوا ہے ۔ جہاں قرآن کا سامان اترتاہے وہیں وہ لوگ بھی وارد ہوجاتے ہیں اور جہاںاس کی منزل ہوتی ہے وہیں وہ بھی پڑاؤ ڈال دیتے ہیں، ان کا سکون و حرکت قرآن کے تابع ہے۔

یہ گروہ قرآن اوردین کے حقائق کو حقیقی وجود کے لحاظ سے قبول کرتا ہے اور ان پر ایمان و اعتقاد رکھتا ہے۔ یہ لوگ دین اور قرآن کریم کے احکام کو حقیقی وجود کا آئینہ دار سمجھتے ہیں کہ جن کی رعایت انسان کی سعادت سے بلاواسطہ رابطہ رکھتی ہے اور ان کی رعایت نہ کرنے کو دنیا و آخرت کی سعادت سے محروم رہنے کا باعث سمجھتے ہیں۔

…………………………………………………

(١) نہج البلاغہ، خطبہ ٨٦ ۔

(٢)نہج البلاغہ، خطبہ ٨٦ ۔

چونکہ ایسے انسان خود اپنی کوئی نظر اور رائے نہیں رکھتے، دین اور آسمانی کتابوںاور الٰہی احکام و تعلیمات کے لئے حقیقی وجود کے قائل ہیں نیز ان کے اور انسان کی مصلحتوں کے درمیان علّی اور معلولی رابطہ کے وجود کے معتقد ہیں لہٰذا قرآن کو صحیح طریقہ سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ جو بھی قرآن حکم دے وہی سمجھیں اور اسی پر عمل کریں۔

٢ -:پہلے گروہ کے نظریئے کے بالکل برعکس، بعض افراد ایسا نظریہ رکھتے ہیں کہ قرآن یا ہر دینی متن یا ہر دوسری آسمانی کتاب خود افراد کی ذہنیتوں کی تابع ہے نہ یہ کہ خود قطعی اور مشخص مطالب کو بیان کرنے والی ہے، یعنی قرآن یا ہر دوسرا دینی متن، معنی و مطلب کے بغیر ہے اور اس کا کوئی مقصد نہیں ہے، لیکن چونکہ ہر انسان کچھ خاص ذہنیتوں کا حامل ہوتا ہے یہ ذہنیتیں (افکار و خیالات) تربیتی، خانوادگی، اجتماعی اور اس کے مانند دوسرے رابطوں سے ابھرتی ہیں، لہٰذا جس وقت انسان قرآن پڑھتا ہے تووہ اپنی ذہنیت کی بنیاد پر مطالب کو قرآن سے سمجھتا ہے، جبکہ ان مطالب کو قرآن نے بیان نہیں کیا ہے بلکہ یہ انسان کی فہم اور سمجھ ہے جس کو وہ قرآن کے پیرائے میں دیکھتا ہے۔

واضح ہے کہ ایسے اعتقاد اور نظریئے کے اعتبار سے دین و قرآن اور اس کے احکام و آیات ایسے الفاظ اور قالب سمجھے جائیں گے جو کہ ہر طرح کے معنی و مطلب سے خالی ہیں اور یہ انسان کی ذہنیتیں ہیں جو ان الفاظ کو معنی و مفہوم بخشتی ہیں۔

اس خیال کی بنیاد پر ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن یا کوئی بھی دوسرا دینی متن، کوئی بھی بات بیان کرنے کے لئے نہیں رکھتا بلکہ ہر شخص اپنی ذہنیت اور نظر و فکر کی بنیاد پر قرآن اور دوسرے دینی متون سے مطالب کو اخذ کرتا ہے۔

واضح سی بات ہے کہ اس طرح کا نظریہ اگر چہ ظاہری طور سے دین و قرآن اور دینی معارف و تعلیمات کی بات پیش کرتا ہے لیکن حقیقت میں دین اور اہل دین سے کھلواڑ اور مذاق کرتا ہے۔

دینی پلورال ازم١؎ یا مختلف قرائتوں کے قالب میں دین کا انکار

معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ آج ہمارے معاشرے میں دین کی مختلف قرائتوں کے عنوان سے بتایا جارہا ہے اس کا سرچشمہ دوسرے گروہ کا نظریہ ہے۔ اگرچہ مذکورہ عنوان ان نام نہاد روشن فکر افراد کی طرف سے پیش کیا جارہا ہے جو ظاہری صورت میں اپنے کو مسلمان کہتے ہیں، لیکن ”دین کے متعلق مختلف قرائتوں کے تفکر” کی اصل کو انسان محوری اور ہیومن ازم میں تلاش کرنا چاہئے۔

جیسا کہ اشارہ کیا گیا کہ مذکورہ نظریہ دینی تعلیمات اور آسمانی کتابوں کے احکام کو بے معنی سمجھتا ہے اور معتقد ہے کہ قرآن اور ہر دوسرا دینی متن ساکت ہے اور کسی معنی و مفہوم کا حامل نہیںہے، بلکہ ہم انسان ہی ہیں کہ اپنی اپنی ذہنیتوں کے ذریعہ اپنی اپنی قرائت، فہم اور سمجھ کو دین و قرآن کی طرف نسبت دیتے ہیں ورنہ خود قرآن نہ کسی پیغام کا حامل ہے اور نہ کسی حقیقت کو بیان کرتا ہے۔

مذکورہ نظریہ کی حقیقت کو واضح کرنے اوراس کے طرفداروں کے اس قول کا

…………………………………………………

(١)یعنی اس بات کا اعتقاد کہ انسان کی فلاح و نجات کسی ایک دین و مذہب میں منحصر نہیں بلکہ دوسرے ادیان و مذاہب بھی اس کی فلاح و نجات کا ذریعہ ہیں لہٰذا اسے دوسرے ادیان و مذاہب کو بھی صحیح سمجھنا چاہئے۔

مطلب سمجھنے کے لئے (کہ دین ساکت و خاموش ہے اور اس سے مختلف اور متفاوت مطالب و مفاہیم اخذ کرنا ممکن ہے) ایک مثال کا ذکر مفید ہوسکتا ہے۔

کم و بیش ہم سبھی لوگ حافظ ؔ جیسے عظیم شاعر، بلند مرتبہ عارف کے دیوان، ان کی غزلوں اور ان کے اشعار سے واقف ہیں۔ حافظ ؔ کے دیوان اور ان کے اشعار کی مختلف قرائتیں اس معنی میں ہیں کہ ان اشعار کا خالق اپنے اشعار میں استعمال شدہ الفاظ و کلمات میں کوئی معنی و مقصود مد نظر نہ رکھتا ہو، اور صرف الفاظ و کلمات کو بغیر اس کے کہ وہ کسی معنی کے حامل ہوں، ایک دوسرے کے ساتھ موزوں صورت میں کھوکھلے قالب کے عنوان سے، البتہ نہایت انوکھے اوردلکش انداز میں نظم کردیاہے، یعنی ان اشعار کی تخلیق شاعر نے کسی طرح کا بھی معنی و مقصدمدنظر رکھے بغیر کی ہو۔

”مختلف قرائتوں” کے نظریہ کے مطابق کہا جاسکتاہے کہ حافظ کی غزلیں اور اشعار کوئی معنی نہیں رکھتے اور ہر شخص فال کی نیت سے اور ایک خاص قصد و ذہنیت کے ساتھ دیوان حافظؔ کو کھولتا ہے اور سب سے پہلے شعر سے یا ایک غزل کے مجموعے سے ایک مطلب اپنی ذہنیت کی بنیاد پر سمجھتا ہے، مثلاً کسی کے یہاں کوئی مریض ہے اوروہ اس کی شفا چاہتا ہے، فال نکالتاہے اور ایک غزل سے مریض کی شفا کو سمجھتا ہے، ایک دوسرا شخص مقروض ہے اور اسی غزل سے اپنے قرض کی ادائگی کو سمجھتاہے، تیسرا ایک مسافر کے آنے کی امید رکھتا ہے وہ اسی غزل سے اپنے مسافر کی آمد کی خوشخبری کو سمجھتا ہے۔ کلی طور سے ہر شخص اپنی اپنی ذہنیت کے مطابق ان الفاظ سے ایک ایک مطلب نکالتا ہے اور حقیقت میں یہ افراد ہی ہیں جو دیوان حافظ کو نطق و گویائی دیتے ہیں او ر ہر شخص اپنی ذہنیت اور اپنی فکر کو حافظؔ کی زبان سے ادا کراتا ہے اور تمام توضیح و توجیہ اور مطالب و معنی صحیح سمجھا جاتا ہے، اس لئے کہ مذکورہ مطالب و معانی خود افراد کے ہیں اور الفاظ، کلمات، اشعار اور غزلیں اس فرض کے مطابق بے معنی ہیں۔

جو نظریہ آج ہمارے معاشرہ میں ”دین کی مختلف قرائتوں” کے نام سے پیش کیا جارہا ہے وہ بھی ایسا ہی نظریہ ہے، یعنی جتنے منھ اتنی باتیں ۔ یہ نظریہ قرآن اوردوسرے دینی متن کو بے معنی اور ہر طرح کے پیغام سے کھوکھلا تصور کرتا ہے۔ اس نظریہ کے طرفدار ایسا خیال رکھتے ہیں کہ قرآن ہرگز نہیں بولتا کہ کیا کرنا چاہئے؟ یا کس کام کے انجام سے پرہیز کرنا چاہئے؟کون سی چیز حق اور صحیح اور کون سی چیز باطل اور غلط ہے؟ بلکہ یہ افراد ہی ہیں جو کہ اپنی خاص ذہنیتوں کی بنیاد پر ایک خاص معنی مثلاً حق و باطل اور صحیح و غلط قرآن سے سمجھتے ہیں۔

چونکہ یہ امور افراد کی ذہنیتوں سے ابھرتے اور پیدا ہوتے ہیں، اس بنا پر ان سب کو صحیح سمجھا جاسکتا ہے، بلکہ کلی طور سے ان کے صحیح اور باطل ہونے کا فیصلہ ہی بے معنیٰ ہے، کیونکہ مثال کے طور پر ایک ہی آیت سے مختلف معانی و مطالب اگرچہ متناقض اور ایک دوسرے کے خلاف ہوں پھر بھی صحیح سمجھے جاتے ہیں، جیسا کہ حافظؔ کی ایک غزل سے فال نکال کر ایک شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس کا مریض شفا پاتا ہے، تو دوسرا ا س سے اپنے مہمان کی آمد کی خوشخبری سمجھتا ہے اور تیسرا اسی غزل سے ناامید ہو جاتا ہے ا ور اپنے بیمار کی موت کے انتظار میں بیٹھ جاتا ہے۔

”دین کی مختلف قرائتوں” کا نظریہ رکھنے والے کہتے ہیں کہ قرآن اور ہر ایک دوسرا دینی متن بھی ایسا ہی ہے۔ وہ لوگ معتقد ہیں ، افراد کو ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ایک دوسرے کو قرآن کے سمجھنے میں غلط فہمی سے متہم کریں کیونکہ قرآن سمجھنے کے لئے کسی طرح کی کسی خصوصیت کی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ قرآن اور ہر دوسرا متن خود کوئی پیغام نہیں رکھتا کہ اس کا سمجھنا قابل ذکر ہو، جو کچھ قابل ذکر ہے وہ خود انسان کی سمجھ ہے۔ ہماری نظر میںاس نظریہ کو حقیقت میں سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے گڑھا گیا ہے لیکن ظاہر میں ایک دین شناسی نظریہ کے عنوان سے، دین اور صراط ہائے مستقیم (سیدھے راستوں) کی جدید قرائت اور معرفت وغیرہ کے نام سے اس کی تبلیغ کی جاتی ہے۔ دینی پلورال ازم کا نظریہ جو کہ دین کی مختلف قرائتوں کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے منطق و عقل سے اتنا دور ہے کہ ہر صاحب عقل جس وقت اس نظریہ کی جڑوں اور اس کے نتیجوں پر توجہ کرتا ہے تو فوراً اس کے کھوکھلے پن اور باطل ہونے کی تصدیق کردیتا ہے۔دوسری طرف دینی معاشرہ میں پلورال ازم نظریہ کے تباہ کن اور تخریبی نتائج کو دیکھتے ہوئے اس سے آسانی کے ساتھ نہیں گزرا جاسکتا۔

معلوم ہوتا ہے کہ سب سے بڑے ان جالوں میں سے ایک جال جو کہ انسان کے قسم کھائے دشمن، شیطان نے از آدم (ع) تا ایندم دنیا کے موحدین اور خدا پرستوں کو فریب دینے کے لئے اپنے ہزاروں سال کے تجربہ کی مدد سے بچھایاہے، وہ دین کی مختلف قرائتوں کا نظریہ گڑھنا ہے۔ کچھ نام نہاد روشن فکر افراد بھی اس شیطانی فکر کے وسوسہ سے متأثر ہوکر تن من دھن سے شیطان کی مدد کے لئے دوڑ پڑے ہیں تاکہ اس کا اس سلسلہ میں ساتھ دیں۔

یہ لوگ اپنی عقل، ذہن، بیان اور تقریر و تحریر کی تمام قوتوں اور صلاحیتوں کو شیطان کے اختیار میں دے کر خود کو انسانوں کی گمراہی کا ذریعہ بنا لئے ہیں۔

اس بنا پراگر ہم دین شناسی میں ”پلورال ازم” نظریہ کا خلاصہ جو کہ دین اور صراط ہائے مستقیم (سیدھے راستوں) کی مختلف قرائتوں اور اقلیتی و اکثریتی دین وغیرہ کے عناوین کے تحت پیش کیا جارہا ہے، مختصر اور واضح طور پر بیان کرنا چاہیں تو ہمیں کہنا چاہئے کہ مذکورہ نظریہ سے مراد وہ نظریہ ہے جو کہ دین و قرآن اور ہر دوسرے دینی متن کو ثابت حقائق سے خالی تصور کرتا ہے اور حق و باطل اور صحیح و غلط کو اس سلسلہ میں منتفی سمجھتا ہے۔

دین، یہ نظریہ ماننے والوں کے نزدیک متفاوت و مختلف بلکہ کبھی کبھی متناقض (ایک دوسرے کی نقیض) اور آراء و افکار کے اس مجموعہ کا نام ہے کہ جو انسان دینی کتابوں کی طرف رجوع کے وقت ان سے سمجھتے ہیں بغیر اس کے کہ خود قرآن یا دینی کتاب کوئی چیز بتائے۔

یہ نظریہ رکھنے والے ایسا تصور کرتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) قرآن ایک ایسی رومانی کتاب ہے جوانسان کے اندر طرح طرح کے خیالات ابھارتی ہے اور ہر شخص اپنی اپنی سوچی سمجھی ذہنیت اور نظر و فکر کی بنیاد پر ایک مطلب کا تصور کرتا ہے اور اسے دین و قرآن سے اپنی قرائت اور فکر بتا کر خدا کی طرف نسبت دیتا ہے۔

اس جگہ ہم تاکید کرتے ہیں کہ ہمیں چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ ”دین کی مختلف قرائتوں” کے معنی کی حقیقت اور ”بہت سے صراط مستقیم” کی واقعیت کو سمجھیںاور اس الحادی نظریہ کے مہلک نتائج و آثار کے متعلق غور و فکر کریں تاکہ یہ شیطانی جال بچھانے والوں کے مقاصد کو جان سکیں اور ان کی حرکت کی گہرائی کو درک کرسکیں۔

بہرحال جس وقت ہم مذکورہ نظریہ کا پہلے گروہ کے نظریہ سے مقایسہ اور موازنہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلے نظریہ کی روح، خدا پرستی اور خداوند متعال کے سامنے تسلیم و بندگی کی روح ہے، اور دوسرے نظریہ کی روح، انسان پرستی کی روح اور خدا اور احکام خدا سے فرار کرنے والی روح ہے۔

کلی طور سے پہلے نظریہ میں اس بات کی کوشش ہوتی ہے کہ انسان خداوند متعال کی بندگی کو قبول کرے، جبکہ دوسرے نظریہ میں اس بات کی کوشش ہوتی ہے کہ انسان خدا کی بندگی سے جدا ہوجائے اور اپنے کو حیوانی شہوات و خواہشات میں چھوڑ دے، یہ نظریہ انسان کے میلانات اور خواہشات کو اصل قرار دیتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ دین اور قرآن کی تفسیر و توجیہ انہی کے اعتبار سے کرے۔

قرآن مجید میں جو اس طرح کی تعبیریں آئی ہیں مثلاً: (تِلْکَ آیَاتُ الکِتَابِ وَ قُرآنٌ مُبِینٌ)١؎ (بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُبِینٌ)٢؎ (تِلْکَ آیَاتُ القُرآنِ وَ کِتَابٍ مُبِینٍ)٣؎ (قَد جَاء َکُم مِنَ اللّٰہِ نُورٌ وَّ کِتَابٌ مُبِینٌ)٤؎ کہ جن میں قرآن مجید کے روشن، واضح اور فصیح و بلیغ ہونے کو تاکید کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، ان تعبیروں کا ایک راز شاید یہی ہو کہ ”مختلف قرائتوں” جیسے گمراہ کن افکار کو روکا جائے اور قرآن کے مقصود و معنی کے مبہم اور نامفہوم ہونے کے اعتبار سے کوئی بھی بہانہ کسی شخص کے پاس نہ ہو۔

…………………………………………………

(١)سورہ  حجر، آیت ١ ۔

(٢)سورہ  شعراء ، آیت ١٩٥ ۔

(٣)سورہ  نمل، آیت ١ ۔

(٤) سورہ  مائدہ، آیت ١٥ ۔

اس بنا پر قرآن، ہدایت کی کتاب ہے، خداوند متعال نے اس میں وہ تمام حقائق بیان کردیئے ہیں جو انسان کی دنیا و آخرت کی سعادت کے لئے لازم ہیں، اور مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ قرآن میں تدبر و تفکر کے ذریعہ اپنے فردی و اجتماعی فرائض سے آشنا ہوں اور اس کی پیروی کے ذریعہ اپنے کو کامیاب بنائیں، لیکن یہ بات کہ قرآن اور دینی معارف سمجھنے کی صلاحیت کس میں ہے؟ ایک ایسا مطلب ہے کہ جس کی توضیح ہم آگے بیان کر رہے ہیں۔

قرآن کی تفہیم و تفسیر کی صلاحیت

یہ بات بدیہی ہے کہ قرآن کو سمجھنے اور اس کی تفسیر کرنے کی ہر شخص میں صلاحیت نہیں ہے۔ جیسا کہ ہر شعبہ میں دقیق و عمیق علمی مطالب سمجھنے کی صلاحیت ہر شخص نہیں رکھتا۔ ریاضی کے پیچیدہ مسائل یا تمام علوم کی باریکیاں سمجھنے کی صلاحیت صرف ان علوم کے ماہر و متبحر افراد ہی رکھتے ہیںاور غیر ماہر نہ صرف ان کے متعلق اظہار نظر کرنے سے عاجز ہیں بلکہ ان کا اظہار نظر کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔

قرآن مجید کی تفہیم و تفسیر کے متعلق بھی ا ن لوگوں کا اظہار نظر کوئی اعتبار نہیں رکھتا جو کہ دینی علوم و معارف سے ناآشنا ہیں۔ اگرچہ قرآن فصیح و بلیغ زبان میں نازل ہوا ہے تاکہ لوگ سمجھیں اور اس پر عمل کریں، لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس کے معارف کی گہرائی ایک سطح میں تمام لوگوں کے لئے قابل فہم ہو۔ جو کچھ قرآن سے تمام لوگوں کے لئے قابل فہم ہے اس کے وہی معنی ہیں جو خود قرآن فرماتا ہے کہ ہم نے واضح و روشن بیان کے ساتھ قرآن کو نازل کیا ہے، یعنی قرآن اس طرح نازل ہوا ہے کہ جو شخص عربی زبان کے اصول و قواعد سے آشنا ہواور بندگی کی روح اس پر غالب و حاکم ہو وہ قرآن سے استفادہ کرسکتا ہے اور اپنی فکر و معرفت کی حد میں اس سے بہرہ مند ہوسکتا ہے۔

لیکن قرآن کے معارف و معانی کی گہرائیوں تک پہنچنے کے لئے مقدمات اور تعقل و تدبر ضروری ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن فرماتا ہے: (إِنَّا أَنزَلْنَاہُ قُرآنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُم تَعقِلُونَ)١؎ (ہم نے اسے عربی قرآن بنا کر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگ سمجھو) یا (إِنَّا جَعَلْنَاہُ قُرآنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُم تَعقِلُونَ)٢؎ (بے شک ہم نے اسے عربی قرآن قرار دیا ہے تاکہ تم لوگ سمجھو)۔

کلی طور سے جو آیتیں انسان کو قرآن اور اس کے معارف کے متعلق تدبر و تعقل کی دعوت دیتی ہیں وہ ہم سے کہتی ہیں کہ قرآن کے ظواہر پر اکتفا نہ کرو بلکہ تدبر و تعقل اوراہلبیت علیهم السلامکے علوم و معارف سے استفادہ کے ذریعے معارف قرآن کے دقیق و عمیق مطالب کو حاصل کرو اور علم الٰہی کے اس خزانے سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرو۔

اس بنا پر قرآن کے سمجھنے اوراس کے بلند معارف کی تفسیر کرنے کی صلاحیت صرف علوم اہلبیت علیهم السلامسے آشنا اور ماہر و متبحر افراد ہی رکھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ جو بھی تھوڑی شُدبُد پیدا کر لے اس کو اظہار نظر کا حق بھی ہو جائے اور دینی معارف نیز تفسیر و توضیح کے اصول و قواعد کی تھوڑی سی بھی اطلاع رکھے بغیر، دین اور اس کے احکام و معارف کے بارے میں جدید قرائت کے عنوان سے بول سکے۔

…………………………………………………

(١) سورہ  یوسف، آیت ٢ ۔

(٢)سورہ  زخرف، آیت ٣ ۔

معارف قرآن کے مفہوم کے مختلف مرتبے

بہت سی روایتوں میں یہ مضمون ملتا ہے کہ قرآن ظاہر و باطن رکھتا ہے او رہر شخص قرآن کے علوم و معارف کی گہرائیاں سمجھنے پر قادر نہیںہے۔ قرآن کوئی معمولی کتاب نہیںہے کہ تمام انسان اس کے تمام معارف درک کرنے پر قادر ہوں۔ جیسا کہ اس کے پہلے اشارہ کیا جاچکا ہے کہ قرآن ایک ایسا اتھاہ اور ناپیدا کنار سمندر ہے کہ ہر شخص اپنی غواصی کی قدرت و توانائی کی مقدار بھر اس سے معرفت کے موتی حاصل کرتا ہے اور اپنی استعداد و صلاحیت کی مقدار بھر قرآن کے ظواہر سے آگے بڑھ کر اس کے معارف کی گہرائی تک رسائی پیدا کرتا ہے اور ایک آیت سے مختلف مطالب کو سمجھتا ہے جبکہ مذکورہ مطالب ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہوتے، اور یہ خود قرآن کریم کا معجزہ ہے۔

مثال کے طور پر قرآن کریم فرماتا ہے: (یَا أَیُّہَا النَّاسُ أَنتُمُ الفُقَرآءُ اِلٰی اللّٰہِ وَ اللّٰہُ ہُوَ الغَنِیُّ الحَمِیدُ)١؎ جو بات عام لوگ اس آیہئ کریمہ سے سمجھتے ہیں اور جو بات آیت کا ظاہر بیان کرتا ہے یہ ہے کہ اے لوگو! تم سب خداوند متعال کے محتاج ہو اور خداوند متعال بے نیاز اور قابل حمد و ثنا ہے۔

جو بات لفظ ”فقرائ” سے عام لوگوں کے ذہن میں آتی ہے وہی امر معاش میں انسان کی احتیاجات اور ضروریات ہیں خواہ غذا ہو یا لباس یا مکان یا کوئی بھی چیز کہ خداوند

…………………………………………………

(١) سورہ  فاطر، آیت ١٥ ۔

متعال ان کے اسباب و علل کو ایجاد کر کے انسان کی نشو و نما، تکامل اور زندگی کی بقا کا وسیلہ فراہم کرتا ہے۔

معنی و مفہوم کے اس مرتبہ میں کہ جس کو ”مرتبہئ ظاہر” کہا جاتا ہے، قرآن کا ظاہر روشن، گویا اور واضح ہے اور تمام اہل زبان اسے بخوبی سمجھتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس ظاہری معنی سے زیادہ گہرا کوئی اور دوسرا معنی اس سے حاصل نہ ہو او رمذکورہ آیہئ کریمہ اس عمومی فہم سے بالاتر اس سے زیادہ دقیق مطالب کی طرف اشارہ نہ رکھتی ہو۔ انسان جس قدر کلام کے زیر و بم اور زبان کے ادبی رموز و نکات سے واقف ہوگا اور دوسری طرف، جیسا کہ قرآن تاکید کرتا ہے آیات قرآن کی طرف رجوع کے وقت ان میں تدبر و تعقل کرے گا تو آیات کے ظواہر سے بھی بڑھ کر اور زیادہ دقیق و عمیق نکتے حاصل کرے گا۔

اگر ہم اس آیت کا کچھ غور سے مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ہم خوراک، لباس، صحت اور مادی وسائل سے کہیں زیادہ خدا کے محتاج ہیں۔ ہم محض فقیر و محتاج ہیںاور خدا غنی مطلق ہے۔ ہم فقیر بالذات ہیں اور خدا غنی بالذات۔ فقیر لغت میںاس شخص کو کہتے ہیں کہ جس کے ”ستون فقرات” (ریڑھ کی ہڈیاں) شکستہ ہوں اور کھڑے ہونے پر قادر نہ ہو۔ انسان فقیر ہے اس معنی میں کہ اگرچہ تمام مادی امکانات و وسائل اس کے لئے فراہم ہوں پھر بھی انسان کا وجود ناقص ہے۔

جس وقت ہم اس نظر سے اورا س نکتہ کی طرف توجہ کرتے ہوئے آیت پر غور کریں گے تو سمجھ لیں گے کہ ہم انسانوں کی احتیاج خدا سے خوراک، پوشاک اور تمام مسائل سے بڑھ کر ہے۔ ہم اصل وجود میں خدا کے محتاج ہیں۔ خداوند متعال ہی نے ہم کو پیدا کیا ہے اور اسی نے وجودی اسباب و علل کو ایجاد کر کے انسان کی نشو و نما ، تکامل اور زندگی کی بقا کا وسیلہ مہیا کیا ہے۔ ہم اصل وجود میں او ربالذات محتاج و فقیر ہیں اور خداوند متعال غنی بالذات ہے۔

واضح ہے کہ دوسری نظر، پہلی نظر سے زیادہ گہری ہے۔ یہاں پر پہلے معنی کو ظاہر اور دوسرے معنی کو باطن سمجھا جاتا ہے۔ دوسرے معنی سے بھی زیادہ عمیق معنی یہ ہے کہ تم سب (اے لوگو!) نہ صرف اصل وجود میں فقیر و محتاج ہو بلکہ عین نیاز اور سراپا محتاج ہو۔ تمھارا وجود خداوند متعال کی نسبت عین ربط ہے۔ البتہ اس تیسرے معنی کی حقیقت کا درک کرنا عام عقول کی حد سے باہر ہے۔

بہرحال یہ بات قابل توجہ ہے کہ اس آیہئ کریمہ کے یہ تینوں معنی ایک دوسرے کے طول میں (یکے بعد دیگرے) ہیں یعنی تینوں معنی اور تفسیر درست اور صحیح ہیں، کوئی بھی دوسرے کے منافی نہیںہے، لیکن گہرائی کے اعتبار سے مذکورہ معانی ایک سطح پر قرار نہیں پاتے اور ایسا نہیں ہے کہ قرآن کے تمام مرتبے سب کے لئے قابل فہم ہوں اور تمام افراد قرآن کریم کے تمام مراتب و بطون سمجھنے کی صلاحیت اور قدرت رکھتے ہوں۔ البتہ مذکورہ بیان کا مقصد اس مطلب کو آسانی سے سمجھانا ہے جو بعض روایتوں میں وارد ہوا ہے کہ قرآن ظاہر و باطن رکھتا ہے اور تمام لوگ اس الٰہی کتاب کے معارف کی گہرائیوں کو درک کرنے پر قادر نہیں ہیں۔

اس مطلب کی تاکید او ریاد دہانی بھی لازم ہے کہ وہ صرف ائمہئ معصومین علیهم السلامہیں جو الٰہی تعلیم کے ذریعہ قرآن کے علوم و معارف سے آگاہ ہیں اور اس عظیم آسمانی کتاب کے بطون کے عالم ہیں۔ اس سلسلہ میں ہم ایک روایت کا ایک حصہ ذکر کر رہے ہیں:

”عَن اَبِي جَعفَرٍ عَلَیہِ السَّلامُ قَال (ع) : یَا جَابِرُ! اِنَّ لِلْقُرآنِ بَطنًا وَ لِلبَطنِ بَطنٌ وَ لَہُ ظَہرٌ وَ لِلظَّہرِ ظَہرٌ یَاجَابِرُ! وَ لَیسَ شَیءٌ أَبعَدَ مِن عُقُولِ الرِّجَالِ مِن تَفسِیرِ القُرآنِ اِنَّ الآیَۃَ یَکُونُ أَوَّلُہَا فِی شَیءٍ وَ آخِرُہَا فِی شَیءٍ وَ ہُوَ کَلامٌ مُتَّصِلٌ یُتَصَرَّفُ عَلٰی وُجُوہٍ”١؎

حضرت امام محمد باقر – جابر ؓ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں: ”قرآن باطن رکھتا ہے اور باطن کا بھی باطن رکھتا ہے، نیز قرآن ظاہر رکھتا ہے اور ظاہر کا بھی ظاہر رکھتا ہے، اے جابر! اس نکتہ پر بھی توجہ رکھو کہ لوگوں کی عقلیںاس بات سے عاجز ہیں کہ قرآن کے باطن اور اس کی حقیقت کی تفسیر کرسکیں، اس لئے کہ ممکن ہے آیت کا پہلا حصہ کسی چیز کے بارے میں ہواور آخری حصہ کسی دوسری چیز کے متعلق ہو، اور قرآن ایسا باہم متصل اور پیوستہ کلام ہے جو مختلف معانی رکھنے کی قابلیت رکھتا ہے اس کے معارف و معانی میں کسی قسم کا تعارض یا تنافی نہیں ہوتی ہے”۔

جو بات یہاں پر قابل تاکید ہے یہ ہے کہ معارف قرآن کے باطن اور دقیق مطالب کا سمجھنا سب کے بس کی بات نہیں ہے، البتہ اس بات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن صرف ائمہ (ع) او رراسخون فی العلم کے لئے نازل ہوا ہے اور دوسرے لوگ حتی ظاہر قرآن کے سمجھنے سے بھی عاجز ہیں، بلکہ ظاہر قرآن ہر شخص کے لئے اس کی صلاحیت کے

…………………………………………………

(١) بحار الانوار، ج٩٢، ص ٩١ ۔

مطابق قابل فہم ہے بشرطیکہ خود پسندی، کج فکری اور اپنے نفسانی میلانات و خواہشات کو چھوڑ دے اور تفسیر بالرائے سے پرہیز کرے۔ قرآن فہمی کے متعلق چند نکات قابل ذکر ہیں اور وہ یہ ہیں۔

تفسیر قرآن یعنی تفصیل احکام، نبی (ص) ا ور ائمہئ معصومین (ع) سے مخصوص ہے

جیسا کہ اپنی جگہ پر بیان اور ثابت ہوچکا ہے کہ وحی کے حاصل کرنے اور پہنچانے کے علاوہ پیغمبر (ص) کا ایک عہدہ، وحی کی توضیح اور الٰہی احکام کی تفصیل بیان کرنا ہے۔ قرآن کریم احکام کے کلیات اور قوانین کے ایک مجموعہ کی صورت میں پیغمبر (ص) پر نازل ہوا ہے اور خود ان کے جزئیات اور احکام کی تفصیل و توضیح نہیں بیان کی ہے اور چند موارد کے علاوہ ان کی تفصیل و توضیح پیغمبر (ص) اور ائمہئ معصومین علیهم السلامکے ذمہ قرار دی ہے۔ مثال کے طور پر قرآن کلی صورت میں نماز کا حکم دیتا ہے اور مسلمانوں سے چاہتا ہے کہ نماز پڑھیں، لیکن یہ کہ نماز کیا ہے؟ کتنی رکعت ہے؟ اس کے پڑھنے کا طریقہ کیا ہے؟ اوراس کے شرائط و جزئیات کیا ہیں؟ قرآن میں بیان نہیں ہوئے ہیں۔

اس کلی حکم اور اس جیسے بہت سے احکام کی تفصیل پیغمبر (ص) کے ذمہ چھوڑ دی ہے۔اس بنا پر احکام الٰہی کی تفسیر و توضیح پیغمبر (ص) کا فرض منصبی ہے۔

قرآن کریم بھی وحی کی تفسیر و توضیح کے عہدہ کی طرف توجہ دلاتا ہے اور اسے پیغمبر (ص) کے فرائض میں سے شمار کرتا ہے:

(وَ أَنْزَلْنَا اِلَیکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیہِم)١؎ ہم نے قرآن کو آپ پر نازل کیا تاکہ لوگوں کے لئے ان باتوں کو واضح کریں جو ان کی طرف نازل کی گئی ہیں۔

بعید نہیں ہے کہ سورہ  آل عمران کی آیت ١٦٤ جیسی آیتوں میں، کہ جن میں تعلیم کو تلاوت کے ساتھ استعمال کیا ہے، تعلیم سے مقصود وحی و قرآن کی تفسیر و توضیح کے متعلق پیغمبر (ص) کا عہدہ و منصب بیان کرنا ہو۔

حقیقت میں پیغمبر (ص) جس وقت وحی پہنچاتے تھے، اس وقت دواہم فریضے آپ (ص) کے ذمے ہوتے تھے، ایک یہ کہ کلام وحی کو لوگوں کے سامنے تلاوت کرتے تھے اور دوسرے یہ کہ آیتوں کے مقاصد و مضامین کی ان کے لئے تفسیر و توضیح فرماتے تھے اور ان کو قرآن کے احکام و معارف سے آشنا کرتے تھے۔

قرآن فرماتا ہے:

(لَقَد مَنَّ اللّٰہُ عَلٰی الْمُؤمِنِینَ اِذ بَعَثَ فِیہِمْ رَسُولاً مِن أَنفُسِہِم یَتلُوا عَلَیہِم آیَاتِہِ وَ یُزَکِّیہِم وَ یُعَلِّمُہُمُ الکِتَابَ وَ الْحِکمَۃَ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبلُ لَفِی ضَلالٍ مُبِینٍ)٢؎

”یقینا خدا نے صاحبان ایمان پر احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا ہے جو ان پر آیات الٰہیہ کی تلاوت کرتا ہے انھیں پاکیزہ بناتا ہے اور

…………………………………………………

(١) سورہ  نحل ، آیت ٤٤ ۔

(٢)سورہ  آل عمران، آیت ١٦٤ ۔

کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگر چہ یہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں مبتلا تھے”۔

اس آیہئ مبارکہ اور اس کے مشابہ دوسری آیتوںمیں پہلا فریضہ یعنی آیات کی تلاوت و قرائت ”یَتْلُوْا” کی تعبیر سے بیان ہوا ہے اور دوسرے فریضہ یعنی احکام و مطالب کی تفسیر و توضیح کے لئے ”تعلیم” کی تعبیر سے استفادہ کیا گیاہے۔

خلاصہ یہ کہ وحی کی توضیح،احکام الٰہی کی تفصیل اور قرآن کریم کی تفسیر مذکورہ معنی میںایسا کام ہے کہ جس کی صلاحیت پیغمبر (ص) اور ائمہئ معصومین علیهم السلامکے علاوہ کوئی نہیں رکھتا اس لئے کہ صرف یہی ہستیاں ہیں جو خدا داد علم کے ذریعے الٰہی علوم و معارف سے آشنا ہیں۔

علوم اہلبیت (ع) کا سمجھنا قرآن سمجھنے کا مقدمہ

اب مذکورہ نکتہ پر توجہ کرنے سے مفسرین کا فریضہ بخوبی واضح ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ بیان ہوچکا ہے وحی کی توضیح، احکام کی تفصیل اور آیات قرآن کی تفسیر کا عہدہ او راس کی صلاحیت دراصل پیغمبر (ص) کو حاصل ہے اور آنحضرت (ص) نے اپنی مبارک زندگی کے زمانہ میں جہاں تک ممکن تھا لوگوں کو قرآن کے معارف سے آشنا کیا۔ اس زمانہ میں مفسرین کا بھی فریضہ ہے کہ ان روایات و احادیث کی طرف رجوع کریں جو صحیح اسناد کے ساتھ پیغمبر (ص) سے اس سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں اور ان کی بنیاد پر مربوط آیتوں پر توجہ اور غور و فکر کریں اور اپنی فکر و نظر کو پیغمبر (ص) کی توضیح و تفسیر کے حدود ہی کے اندر رکھیں۔ اور جہاں آنحضرت (ص) نے اس ثقل اکبر اور قرآن مستحکم کی تفسیر و توضیح نہ کی ہو وہاں ثقل اصغر یعنی اہلبیت (ع) اور ائمہئ معصومین علیهم السلامسے تمسک کریں۔

اس سلسلہ میں بھی دینی علوم و معارف کے ماہر و عالم افراد کا فریضہ ہے کہ ایسی احادیث اور روایات کے ذریعہ قرآن کریم کو سمجھا جائے جن کی سند صحیح ہو اور وہ مشکل کو حل کرنے والی ہوں۔

اس بنا پر سب سے پہلا معیار قرآن اور معارف دین کے صحیح سمجھنے میں وہ توضیح و تفسیر ہے جو پیغمبر (ص) اور ائمہئ معصومین علیهم السلامسے وارد ہوئی ہے۔ نتیجہ میں ایک مفسر کا اولین اور اصلی فریضہ اس تفسیر کا سمجھنا اور بیان کرنا ہے جو پیغمبر (ص) اور ائمہئ طاہرین علیهم السلامسے وارد ہوئی ہے اس لئے کہ صرف علوم اہلبیت علیهم السلامہی کی روشنی میں معارف قرآن کو سمجھا جاسکتاہے۔

قرآن کی تفسیر قرآن سے

تیسرا نکتہ جو کہ کلام وحی کے صحیح سمجھنے میں نہایت اہمیت کا حامل ہے اور جس کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے، قرآن سے قرآن کی تفسیر کا مسئلہ اور آیات کے درمیان ارتباط کی طرف توجہ دیناہے۔ اگر چہ قرآن کی آیتیں ظاہری اعتبار سے الگ الگ صورت میں اور ان میں ہر ایک یا کچھ آیتیں ایک خاص مطلب کو بیان کرتی ہوئی نظر آتی ہیں، لیکن صحیح فہم و تفسیر اس صورت میں وجود میں آتی ہے کہ ایک دوسرے سے مرتبط او رمتعلق آیتوں پر توجہ دی جائے۔ بہت سی آیات قرآن ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں اور ایک دوسرے کے مضامین و مطالب کے صدق پر گواہی دیتی ہیں۔

امیر المومنین حضرت علی – اس سلسلہ میںارشاد فرماتے ہیں:

”کِتَابُ اللّٰہِ تُبصِرُونَ بِہِ وَ تَنطِقُونَ بِہِ وَ تَسمَعُونَ بِہِ وَ یَنطِقُ بَعضُہُ بِبَعضٍ وَ یَشْہَدُ بَعضُہُ عَلٰی بَعضٍ وَ لایَختَلِفُ فِی اللّٰہِ وَ لایُخَالِفُ بِصَاحِبِہِ عَنِ اللّٰہِ”١؎

یہ کتاب خدا ہے جو تمھیں حق کا بینا، گویا او رشنوا بناتی ہے، اس کا بعض حصہ بعض دوسرے حصوں کی تفسیر و توضیح کرتا ہے اور ایک دوسرے کی گواہی دیتاہے یہ قرآن خدا کے بارے میں اختلاف نہیں رکھتا ہے اور اپنے ساتھی کو خدا سے الگ نہیں کرتا ہے۔

قرآن سے قرآن کی تفسیر کے موارد میں سے نمونہ کے طور پر سورہ  شوریٰ کی گیارہویں آیت (لَیسَ کَمِثلِہِ شَیءٌ وَ ہُوَ السَّمِیعُ البَصِیرُ) اور سورہ  فتح کی دسویں آیت (یَدُ اللّٰہِ فَوقَ أَیدِیہِم) کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔

”لَیسَ کَمِثلِہِ شَیئ” قرآن کے محکمات میں سے اور اس کا معنی روشن و واضح ہے یہ آیت بتاتی ہے کہ کوئی چیز خدا کے مانند نہیںہے، خداوند متعال بے مثل حقیقت ہے۔ آیہئ (یَدُ اللّٰہِ فَوقَ أَیدِیہِمْ) بتاتی ہے کہ خدا کا ہاتھ تمام لوگوں کے ہاتھوں کے اوپر ہے۔ اگرچہ اس آیت نے خداوند تعالی کی طرف ہاتھ کی نسبت دی ہے لیکن آیہئ ”لَیسَ کَمِثلِہِ شَیئٌ” اس ظاہری معنی کی نفی کرتی ہے اور اس کی طرف توجہ کرنے سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ”ید” سے مراد اس کا ظاہری معنی یعنی ”ہاتھ” نہیں ہے، بلکہ کنائی معنی مثلاً قدرت وغیرہ مقصودہے۔ اس بنا پر آیہئ ”یَدُ اللّٰہِ فَوقَ أَیدِیہِم” کی تفسیر و توضیح

…………………………………………………

(١)نہج البلاغہ، خطبہ ١٣٣ ۔

آیہئ ”لَیسَ کَمِثلِہِ شَیئ” کی طرف توجہ کئے بغیر تفسیر کی صحیح روش سے خارج ہونا ہے اور ممکن ہے خطا سرزد ہو جائے اور غلط تفسیر کی بنا پر خدا کی جسمانی او رجھوٹی تصویر دکھا دی جائے۔

لہٰذا قرآن کریم کی تفسیر میں اس نکتہ کی طرف توجہ دینا لازم ہے کہ آیات کو ایک دوسرے سے مرتبط ہونے میں مورد توجہ قرار دیں اور ان کا مطلب خود قرآن کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کریں۔

قرآن فہمی میں عقلائی اصول و قواعد کی رعایت

چوتھا نکتہ کہ جس کی طرف تفسیر قرآن میں توجہ دینا لازم ہے، قرآن کریم کے صحیح سمجھنے میں عقلائی محاورہ کے اصول و قواعد کی رعایت کرنا ہے۔ خصوصاً جس وقت کہ کسی آیت کے متعلق پیغمبر (ص) یاائمہئ معصومین (ع) سے کوئی صحیح روایت اور واضح بیان دسترس میں نہ ہو تو آیات قرآن کے صحیح سمجھنے میں عقلائی محاورہ کے اصول و قواعد کی رعایت کی ضرورت دوگنی ہوجاتی ہے۔

اسی موقع پر ان بزرگان دین اور مفسرین اور علوم اہلبیت (ع) سے آشنا علماء کا کردار اور اثر، کہ جنھوں نے اپنی عمر معارف قرآن اور علوم اہلبیت (ع) کے سمجھنے میں گزاری ہے، قرآن کے صحیح سمجھنے اور معارف دین کی توضیح میں ظاہر ہوتا ہے۔ وہی حضرات عقلائی محاورہ کے اصولوں کے مطابق، قرآن کے عام و خاص کی تشخیص دیتے ہیں اور ہر ایک کے معنی کے حدود معین کرتے ہیں، مطلق و مقید کی نشاندہی کرتے ہیں اور آیات کی ایک دوسرے سے تفسیر کرتے ہیں، ایک آیت کے دوسری آیت پر ناظر اور اس سے متعلق ہونے کی تعیین کرتے ہیں اور تفسیر کے وقت اس پر توجہ رکھتے ہیں۔

مفسرین کی فہم کا ان کی صلاحیتوں کے مطابق ہونا

اس بحث میں ایک دوسرا نکتہ کہ جس کی طرف توجہ دینا لازم ہے قرآن اور معارف دین سمجھنے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام اور مختلف علمی شعبوں میں سب کے لئے قابل قبول ہے اور وہ فہم کے مراتب کا پایا جانا ہے اور صحیح سمجھنے میں اس کا ذہنی قوت اور کوشش و کاوش کے مطابق ہونا ہے اس کی توضیح یہ ہے کہ:

فقہی مباحث میں ایک مسئلہ ہے کہ جس کا تقریباً تمام فقہاء فتویٰ دیتے ہیںاور مقلِّد کا فریضہ سمجھتے ہیں، وہ اعلم کی تقلید ہے۔ اس بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ فقہ و استنباط احکام کے شعبے میں مہارت اور فقاہت کے بہت سے مرتبے ہیںاور ہر مکلف کا فریضہ ہے کہ فقیہ اعلم یعنی اس مرجع کی تقلید کرے جو احکام کے استنباط میں دوسروں سے زیادہ فہم، مہارت اور فقاہت کا حامل ہو۔ البتہ دوسرے مراجع جو کہ قوت استنباط کے اعتبار سے اس فقیہ اعلم کی حد میں نہیں ہیں وہ بھی فقیہ اور مجتہد ہیں لیکن وہ بعد کے مراتب میں قرار پاتے ہیں۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ فقہاء کا یہ فتویٰ کہ اعلم کی تقلید لازم ہے، ایک عقلائی سیرت و روش سے صادر ہوا ہے۔ بالکل جیسے اس ماہر اور اسپشلسٹ ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنا جو برسوں سے ڈاکٹری اور طبابت کا تجربہ رکھتا ہے اور اسے اس شخص پر ترجیح دینا کہ جس نے آج ہی ڈاکٹری کی سند لی ہے، ایک عقلائی سیرت و روش ہے او راس روش کے برخلاف عمل کرنا عقلاء کے نزدیک مذموم ہے۔

معارف قرآن کی باریکیاں سمجھنے اوران کی تشخیص کی صلاحیت علوم اہلبیت علیهم السلامکے عالم اور ماہر افراد کے علاوہ کسی کو حاصل نہیںہے کہ جنھوں نے اپنی زندگی قرآن اور دینی معارف کے سمجھنے میں صرف کی ہے۔

قرآن فہمی اور اس آسمانی کتاب کی تفسیر کے مراتب کے ا عتبار سے واضح بات ہے کہ مذکورہ امور اور نکات پر جس قدر توجہ اور غور کیا جائے گا آیات الٰہی کی تفسیر میں اتنا ہی غلطیوں کا احتمال کم ہوگا اور ہم اس آسمانی کتاب کو زیادہ سے زیادہ صحیح سمجھیں گے۔

کلامی قرائن پر توجہ کی ضرورت

چھٹا نکتہ کہ جس کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں یہ ہے کہ کلام خدا کے قرائن اور آیات کی شان نزول پر توجہ دینا لازم ہے۔ اگرچہ قرآن کریم تمام زمانوں او رنسلوں کے لئے نازل ہوا ہے اور اس کے مخاطب ہر زمانے کے لوگ ہیں، لیکن قرائن، شان نزول اور وہ موقع و محل کہ جن میں آیات کریمہ نازل ہوئی ہیں وہ اولین مخاطبین اور نزول قرآن کے زمانہ کے لوگوں کے لئے ایسی واضح و روشن ہوتی تھیں کہ اس کے معنی و تفسیر میں کسی شک وشبہہ اور اختلاف کی گنجائش باقی نہ رہتی تھی۔ اس کے علاوہ اگر کوئی آیت مبہم اور غیر واضح نظر آتی تھی تو لوگوں کا پیغمبر (ص) تک پہنچنا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ لیکن آج زمانہئ نزول سے دور ہونے اور بعض قرائن اور شان نزول کے مخفی ہوجانے کے امکان سے قرآن کے صحیح سمجھنے میں کوشش و کاوش کی ضرورت کئی گنا زیادہ اہمیت کی حامل ہوگئی ہے۔

دوسری طرف قرآن کریم میں استعمال شدہ الفاظ کے حقیقی و لغوی معنیٰ کی اطلاع، ان مسائل میں سے ہے کہ جن کے بغیر قرآن کا صحیح سمجھنا اوراس کی درست تفسیر کرنا ممکن نہیںہے۔

ممکن ہے کسی معنی کی تبدیلی سے غفلت جو کبھی کسی زبان میں مرور زمانہ سے واقع ہوتی ہے، غلطی اور بدفہمی کا باعث بن جائے۔

مثال کے طور پر لفظ ”تقیہ” کا معنی و مفہوم سب کے لئے واضح ہے۔ عام طور پر اس لفظ سے یہ مراد لی جاتی ہے کہ کوئی شخص اپنا عقیدہ و مذہب مخفی رکھے اور ایسا ظاہر کرے کہ اس کا مخاطب اس کے حقیقی عقیدہ و مذہب سے آگاہ نہ ہو، اگرچہ تقیہ کے لغوی معنی پرہیزگاری کے ہیں اور قرآن و نہج البلاغہ میں ان ہی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ولو لفظ تقیہ قرآن میں نہیں ہے لیکن لفظ ”تقاۃ” جو کہ تقیہ اور تقویٰ کے مترادف ہے، آیہئ (اِتَّقُواْ اللّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہِ)١؎ میں آیا ہے۔

قرآن کریم اور کلامی محاسن

اگر چہ قرآن کریم، جیسا کہ خود کہتا ہے، واضح اور آشکار زبان میں نازل ہوا ہے اور ہر شخص اپنی سمجھ او رصلاحیت کے مطابق اس آسمانی کتاب سے مستفید ہوسکتا ہے۔ لیکن اس نکتہ کی طرف توجہ ضروری ہے کہ قرآن سب سے زیادہ فصیح و بلیغ اور کلام و بیان کے تمام محاسن (خوبیوں) سے آراستہ ہے اور واضح ہے کہ مذکورہ نکات کی طرف توجہ دینا بھی قرآن کریم سے صحیح استفادہ کے بنیادی شرائط میں سے ہے۔

…………………………………………………

(١)سورہ  آل عمران، آیت ١٠٢ ۔

قرآن کریم میں کہیں کہیں ایسا ہے کہ ایک آیت کسی حکم کو عام اور کلی صورت میں بیان کرتی ہے اور دوسری آیت اس حکم کے حدود کو واضح کرتی ہے۔ یا ایک آیت میں کسی حکم کو مطلق طور پر بیان کیا ہے اور دوسری آیت سے اس کی قید و شرط معلوم ہوتی ہے، مثال ، کنایہ، استعارہ، مجاز وغیرہ کے استعمال کے ذریعہ، مطالب کا بیان ان اسلوبوں میں سے ہے کہ جن کا استعمال قرآن کریم میں ہوا ہے، اور چونکہ قرآن کے مخاطب انسان ہیں اور مذکورہ طرز و اسلوب، مقصود و مطلب بیان کرنے میں انسانی اور عقلائی کلام کے محاسن میں سے سمجھے جاتے ہیں، لہٰذا قرآن بھی مذکورہ اسالیب کو اپنے احکام و معارف کے بیان میں بہترین طرز کے ساتھ استعمال کرتا ہے۔

اس بنا پر قرآن میں استعمال شدہ اسالیب وہی اسالیب ہیں جو عقلاء اپنے مقاصد و مطالب بیان کرنے میں استعمال کرتے ہیں، مگر فرق یہ ہے کہ کلامی و بیانی فنون کے استعمال کی جو نوع اور کیفیت قرآن میں پائی جاتی ہے و ہ مرتبہ، حسن اور طرز و اسلوب کے اعتبار سے ، انسانی کلام میں پائے جانے والے محاسن کے استعمال سے مقائسہ اور موازنہ کے قابل نہیںہے۔

اس بات کی دلیل بھی یہ ہے کہ قرآن کریم خداوند متعال کا کلام ہے جو سب سے زیادہ فصیح و بلیغ بیان کے ساتھ پیغمبر (ص) پر نازل ہوا ہے کہ جس نے فن فصاحت و بلاغت کے اصول انسان کو سکھائے ہیں۔ اس الٰہی کتاب نے سب سے زیادہ خوبصورت اور فصیح و بلیغ بیان کے ساتھ لوگوں کو توحید، ہدایت، تکامل اور سعادت و کامیابی کی طرف دعوت دی ہے۔

اس فصل کے آخری حصہ کے مباحث کا خلاصہ اور نتیجہ یہ ہے کہ: اس سے پہلے ذکر شدہ نکات کے ساتھ قرآن میں کلامی محاسن اور نکات کی طرف توجہ دینا، اس کے سمجھنے کے شرائط میں سے ہے کہ ان کی طرف توجہ نہ دینا یقینا غلط فہمی اور غلط تفسیر کامستلزم ہے۔

تیسری فصل

قرآن اور ثقافتی حملہ

حق و باطل کا تضایف١

گزشتہ دونوں فصلوں میں بیان کئے گئے مطالب کے تحت جس حد تک کہ کتاب کی غرض و غایت حاصل ہو، قرآن کی اہمیت و فضیلت کے متعلق، نیز کمال و سعادت کی طرف انسانوں کی ہدایت کے لئے نہج البلاغہ کی روشنی میں اس الٰہی کتاب کے نقش و اثر کے متعلق، کچھ توضیحات مختصر طور پر ذکر کی گئیں۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا مذکورہ مطالب کی رعایت قرآن کریم سے استفادہ اور پیغمبر عظیم الشان   کی اس عظیم میراث، ثقل اکبر سے تمسک کے لئے کافی ہے؟

ممکن ہے جواب دیا جائے کہ اگر ان تمام نکتوں کی رعایت کی جائے جو کہ قرآن کے صحیح سمجھنے میں مؤثر ہیں تو لازمی طور پر قرآن کے احکام و معارف جیسا کہ ہیں سمجھے جائیں گے اور معاشرہ کا کلچر قرآن کریم کی ہدایات کے مطابق وجود میں آئے گا اور دینی حکومت کے زیر سایہ لوگ قرآن کی پناہ میں انحراف و گمراہی کے خطرے سے مخفوظ رہیں گے، اس لئے کہ قرآن سے تمسک اس کے معارف کا صحیح سمجھنا اور قرآنی ہدایات کی بنیاد پر عمل کرنا ہے۔

…………………………………………………

(١) تضایف یعنی دوایسے وجود جن کا تعقل ایک ساتھ ہواو روہ دونوں ایک موضوع میں ایک ہی جہت سے جمع نہ ہوسکتے ہوں لیکن دونوں کا ایک ساتھ مرتفع ہونا ممکن ہو جیسے باپ اور بیٹا، علت و معلول، تحت و فوق، تقدم و تأخر وغیرہ ۔

مذکورہ جواب اگر چہ کچھ حدتک قرآن کی فردی ہدایت و رہنمائی کے لئے صحیح سمجھا جاسکتا ہے، لیکن اس مسئلہ کا مکمل تحقق اس صورت میںہے جبکہ قرآن کے لازمی اثر کی طرف بڑے پیمانے پر نظر کی جائے نیز اس کی اہمیت اور عظمت پر، گمراہ کن افکار اور دینی ثقافت پر حملہ آور افراد کے مقابلہ میں توجہ دی جائے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ مخالفان قرآن کے گمراہ کن افکار کی شناخت کے بغیر، آشکارا طور پر ان کا مقابلہ کئے بغیر اور ان کی فکری سازشوں کو برملا کئے بغیر، معاشرہ کی ہدایت اور قرآن کے مکتب فکر کو حاکم کرنا دینی اعتقادات و اقدار کی بنیاد پر کچھ آسان کام نہیںہے۔ یہ وہ چیز ہے جس سے اکثر مواقع پر غفلت برتی جاتی ہے۔

اس بنا پر قرآن کے سمجھنے اور اس کی ہدایات پر عمل کرنے میں مسلسل کوشش کے ذریعہ کسی وقت بھی قرآن کے دشمنوں اور مخالفوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔

قرآن سے تمسک کرنا اوراس آسمانی کتاب کو حَکَم قرار دینا، قرآن کے خلاف گمراہ کن افکار کی شناخت او ران سے مقابلہ کے بغیر ممکن نہیںہے۔

حق و باطل جس طرح کہ مقام شناخت میں متضایف ہیں اسی طرح مقام عمل میں بھی متضایف ہیں، یعنی آپ اگر حق کو پہچان لیں گے تو باطل کو بھی پہچان لیں گے، باطل کی شناخت آپ کو حق کی شناخت میں مدد دیتی ہے۔

قرآن کو عملی طور پر معاشرہ میں حاکم قرار دینا، مخالفین اور ان کے گمراہ کن افکار کی شناخت کے بغیر نیز لوگوں کے دینی کلچر کو کمزور کرنے میںان کی شیطانی سازشوں سے مقابلہ کے بغیر ممکن نہیںہے۔

ہم اس سلسلہ میں پہلے نہج البلاغہ میں مذکور حضرت علی – کے ارشاد کو پیش کر تے ہیں پھر معاشرہ کے افکار کو منحرف کرنے میں مخالفین قرآن کی کارستانیوں اور ملحدین کے شبہوں کو بیان کر کے تمام لوگوں کو خصوصاً معاشرہ کے جوان اور تعلیم یافتہ طبقہ کو دشمنوں کے شیطانی مکر و فریب سے آشنا کریں گے۔

قرآن اور دینی مکتب فکر کے مخالفین اور دشمنوں کی شناخت اس قدر اہم ہے کہ امیر المومنین حضرت علی – ارشاد فرماتے ہیں:

”وَ اعْلَمُوْا اَنَّکُم لَن تَعرِفُوا الرُّشدَ حَتَّی تَعرِفُوا الَّذِی تَرَکَہُ، وَ لَن تَأخُذُوا بِمِیثَاقِ الکِتَابِ حَتَّی تَعرِفُوا الَّذِی نَقَضَہُ، وَ لَن تَمَسَّکُوا بِہِ حَتَّی تَعرِفُوا الَّذِی نَبَذَہُ فَالْتَمِسُوا ذٰلِکَ مِن عِندِ اَہلِہِ فَاِنَّہُم عیَشُ الْعِلمِ وَ مَوتُ الجَہلِ”١؎

تم جان لو! کہ ہدایت کو اس وقت تک نہیں پہچان سکتے جب تک اسے چھوڑنے والوں کو نہ پہچان لو اور کتاب خدا کے عہد و پیمان کے پابند اس وقت تک نہیں ہوسکتے جب تک کہ اس کے توڑنے والوں کی شناخت نہ کرلو اور اس سے تمسک اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اسے نظر انداز کرنے والوں کی معرفت حاصل نہ کرلو، پھر فرماتے ہیں: قرآن، اس کی تفسیر اور اس کے معارف کو اہل قرآن (اہلبیت طاہرین(ع)) سے حاصل کرو اس لئے کہ یہی حضرات الٰہی علوم و معارف کی زندگی اور جہل و نادانی کی موت ہیں۔

…………………………………………………

(١) نہج البلاغہ، خطبہ ١٤٧ ۔

امیر المومنین حضرت علی – کا یہ روشن بیان جو کہ دشمن شناسی، گمراہ کن افکار سے آشنائی کے لزوم اور گمراہوں کے پہچاننے کی ضرورت پر مبنی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دینی علماء اور الٰہی علوم و معارف کے مبلغین کا فریضہ دوگنا ہے، اس لئے کہ گمراہ کن فکروں اور ملحدین کے شبہوں کو لوگوں کے افکار سے خصوصاً ان جوانوں کے افکار سے دور کرنا، جو کہ دینی علوم و معارف کے اعتبار سے کافی علمی سطح کے حامل نہیںہیں، تبلیغ اور قرآنی و دینی مکتب فکر کو حاکمیت بخشنے کے بنیادی کاموں میں سے ہے اور اس کے بغیر مطلوب اور لازمی نتیجہ کی امید نہیں رکھی جاسکتی۔

اس بات کی وضاحت تین حصوں میں بیان کرتے ہیں: ١۔ مخالفین کے شبہات ٢۔ مخالفین کی سازشیں ٣۔ ان شبہات کے پیش کرنے کا مقصد۔

اگر چہ قرآن ایسی عظیم نعمت ہے جو خداوند متعال نے اپنے بندوں کو عطا فرمائی ہے اور اگرچہ خدا نے خود، شیطانوں کی دستبرد اور شیطان صفت انسانوں کی تحریف سے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے، لیکن داستان یہیں پر ختم نہیں ہوتی، اولاد آدم (ع) کا یہ قسم خوردہ دشمن، شیطان بھی ہر زمانہ میں ان لوگوں پر حاکم حالات، روحیات و نفسیات کے مطابق ،جو کہ اجتماعی حیثیتوں کے اعتبار سے لوگوں کے ذہنوں پر اثر ڈالنے کی قدرت رکھتے ہیں، نفسانی خواہشات کے حصول کے لئے ان کے دلوں میں شک پیدا کر دیتا ہے تاکہ ان کے ذریعہ تمام لوگوں کواپنے پیچھے کھینچ لے اور قرآن و دین سے منحرف کردے، چونکہ قرآن انسانوں کی نجات، ہدایت اور سعادت کا سب سے بڑا وسیلہ ہے، اس لئے شیطان کی پوری آرزو لوگوں کو قرآن و دین سے جدا کرنا ہے۔

اس راستے میں شیطان کا ایک کام ان لوگوں کو بہکانا اور ان کے اندر وسوسہ پیدا کرنا ہے جو کہ دین و قرآن کے متعلق شک و شبہہ پیدا کر کے لوگوں کے ایمان و اعتقاد میں خلل پیدا کرسکتے ہیں۔

شیطان او رشیطان صفت افراد کی فعالیت قرآن کریم سے مقابلہ کرنے میں نزول قرآن کی ابتدا ہی سے پائی جاتی ہے یہ فعالیتیں آیات الٰہی کے سننے سے ممانعت اور کان میں روئی ڈالنے کی تاکید اور پیغمبر (ص) پر تہمت و افترا پردازی سے شروع ہوئیں اور آج بھی کسی نہ کسی صورت میں جاری ہیں اور اس کے بعد بھی جاری رہیں گی۔

اس سلسلے میں پوری تاریخ میں قرآن سے مقابلہ کی روش کے جزئیات ذکر کرنے سے صرف نظر کرتے ہیں اوربحث کے طولانی ہونے کے خوف سے ان بعض شبہوں کو ذکر کر کے، جو کہ آج معاشرہ کے درمیان دینی مکتب فکر اور لوگوں، خصوصاً جوانوں کے مذہبی عقائد کو کمزور کرنے کے لئے پیش کئے جاتے ہیں، ہم کوشش کر رہے ہیں کہ قارئین اور جوانوں کے ذہنوں کو روشن کریں تاکہ ان شیطانی سازشوں سے آگاہ ہو کر دشمنوں کے ثقافتی حملوں کا مقابلہ کرسکیں۔

چونکہ قرآن سے مقابلہ کرنے میں شیاطین، اس کو نابود اور فنا کرنے سے مایوس ہوگئے، لہٰذا طے کرلیاکہ لوگوں کواس کے مطالب کی آشنائی سے محروم کردیں۔

قرآن کے مخالفین کئی صدیوں سے مسلمانوں خصوصاً شیعوں کے درمیان ایسی تبلیغ کرتے رہے کہ ہمیں قرآن سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہئے، اس لئے کہ قرآن ہمارے لئے قابل فہم نہیں ہے اور ہم قرآن کے باطن سے مطلع نہیں ہیں، اس بنا پر قرآن کے ظاہر سے استناد نہیں کیا جاسکتا۔

وہ یہ فکر ایجاد کر کے کہ ہم قرآن کے سمجھنے پر قادر نہیں ہیں، کوشش کرتے تھے کہ لوگوں کو قرآن کے استفادہ سے محروم کردیں اور نتیجہ میں قرآن کو مسلمانوں کی زندگی سے نکال دیں۔

اس کے دوران اگر چہ قرآن کا ظاہری احترام ، اس کی تلاوت و قرائت، اس کو بوسہ لینے اور مقدس و محترم سمجھنے کی صورت میں مسلمانوں کے درمیان رائج تھا، لیکن جو کچھ قرآن کے دشمنوں اور مخالفوں کا مقصد ہے وہ لوگوں کو قرآن کے مطالب سے اور اس آسمانی کتاب کی ہدایات پر عمل کرنے سے محروم کرنا ہے۔

آج روشن فکری کے دعویدار افراد جو کہ اسلامی علوم و معارف سے بالکل بے بہرہ ہیں سب سے زیادہ گمراہ کن ان شیطانی شبہات او ر افکار کو جو کہ صدیوں پہلے سے مغرب میں دوسرے ادیان کی تحریف شدہ کتابوں کے متعلق پیش کئے گئے ہیں، نئی فکر کے نام سے ثقافتی اور علمی معاشروں میں پیش کرتے ہیں، اور علم و دانش کے پیاسے نیز تحصیل علم میں مشغول طبقہ کو تحت تاثیر قرار دیکر اپنے خیال میں ان کے اعتقادی ستون کو کمزور کرتے ہیں۔ وہ اس بات سے غافل ہیں کہ مسلمان خصوصاً تحصیل علم میں مشغول جوان اور ذہین و زیرک تربیت یافتہ افراد، ان کے بے بنیاد، عاریتی اور عقل و منطق سے دور افکار کے بطلان کو جان لیں گے۔

مسلمان اور دیندار تربیت یافتہ افراد کے عقائد و افکار عقل و منطق پر مبنی اور پیغمبر (ص) او رائمہئ معصومین علیهم السلامکے علوم سے اخذ شدہ ہیں ان کا سرچشمہ وحی الٰہی ہے اور جب بھی کوئی مسلمان فکری اور اعتقادی شعبوں میں گمراہ کن افکار سے روبرو ہوتا ہے تو سب سے پہلے ان کو دینی علوم و معارف کے ماہرین اور علماء کے سامنے پیش کرتا ہے تاکہ ان سے صحیح اور منطقی جواب دریافت کرے۔

دین کی حقیقت حاصل نہ ہونے کا شبہہ

”حقیقت دین حاصل نہ ہونے” کا شبہہ نہایت شیطانی مقاصد کے تحت پیش کیا گیا ہے اور اس کے نتائج بہت ہی تباہ کن ہیں کہ جن کے بیان کرنے کی گنجائش فی الحا ل نہیں ہے، یہاں پر ہم اس کی وضاحت اور اس کے بعض پوشیدہ پہلوؤ ں اور لوازم کو صریح طور پر بیان کر کے فیصلہ خود آپ حضرات کے حوالے کرتے ہیں۔

چونکہ ہماری بحث خصوصاً قرآن کے بارے میں ہے لہٰذا مذکورہ شبہہ کے متعلق خصوصاً قرآن کے بارے میں بحث و تحقیق کریں گے۔ یہ شبہہ قرآن فہمی کے بارے میں طرح طرح کی شکلوں اور مختلف سطحوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم کی بعض آیتوں کی مختلف تفسیریں ہیں اور مفسرین ان کی تفسیر و توضیح میں اتفاق رائے نہیں رکھتے اور ہم جس قدر بھی صحیح نظریہ حاصل کرنے کے لئے تحقیق کریں، جو کہ قرآن کے حقیقی مطلب کو بیان کرنے والی ہو، آخر کار صرف ایک مفسر کی تفسیر اور نظریہ ہی کو قبول کریں گے کہ جس کو دوسرے مفسرین قرآن کی تفسیر نہیں سمجھتے۔ اس بنا پر قرآن کے حقیقی مطلب کا حصول ممکن نہیںہے۔

یقینا یہ شبہہ پیش کرنے والے چاہتے ہیں کہ مذکورہ نظریہ پیش کر کے ان لوگوں کو شک و شبہہ میں مبتلا کردیں جو کہ قوی فکر و نظر کے حامل نہیںہیںاور دینی معارف کا کافی مطالعہ، جواب دینے اور تجزیہ و تحقیق کی قدرت نہیں رکھتے۔ وہ لوگ غلط خیالات کی بنا پر یہ سوچتے ہیں کہ مسلمانوںکی فکری و اعتقادی بنیادیں اندھی تقلید کی بنیاد پر استوار ہیں کہ ان خیال آرائیوں سے وہ ویران و برباد ہو جائیں گی۔ چونکہ وہ لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ جس وقت فکر، عقل اور منطق کی بات آتی ہے تو صرف قرآن اوراس الٰہی کتاب کے معارف ہی کی تصدیق عقل سلیم اور صحیح منطق کرتی ہے، اور ہر حق پرست انسان صدق دل سے اس کو قبول کرتا ہے، لہٰذا کوشش کرتے ہیں کہ مذکورہ شبہہ اور زیادہ گہری صورت میں پیش کریں تاکہ اپنے خیال میں اورزیادہ کاری ضرب، دینی فکر پر لگائیں۔ وہ اس سے غافل ہیں کہ ذہین و زیرک مسلمان مفکرین ان کے نظریہ کا تجزیہ کرکے اس طرح کے نظریہ کے باطل نتائج و لوازم کو بھانپ لیں گے کہ جس کا انجام شکاکیت کے گڑھے میں گرنے کے علاوہ کچھ نہیںہے۔

بہرحال جیسا کہ مذکورہ شبہہ بیان کیا گیا اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ شبہہ پیش کرنے والے معتقد ہیں کہ قرآن کریم ثابت حقیقتوں کا مالک ہے لیکن چونکہ مفسرین قرآن کی تفسیر میں اتفاق رائے نہیں رکھتے، لہٰذا ہماری رسائی قرآن کے حقیقی مطالب تک نہیں ہوتی۔ اس بنا پر قرآن سے استفادہ ممکن نہیں ہے اور اسے بالائے طاق رکھ دینا چاہئے۔

لیکن جب قرآن کریم کی صریح و روشن آیتوں سے روبرو ہوتے ہیں اوران کے ظہور اور واضح معنی میں کوئی خدشہ وارد نہیں کرسکتے نیز اپنے کو عقل و منطق اور قرآن کے محکمات کے سامنے عاجز پاتے ہیں تو قدم اور آگے بڑھا کر شبہہ دوسری طرح سے پیش کرتے ہیں۔ وہ لوگ اپنا مقصد حاصل کرنے یعنی قرآن اور دینی اعتقادات و اقدار کو بے اعتبار کرنے کے لئے اپنی پہلی بات سے، جو کہ قرآن اوردینی معارف سمجھنے کے عدم امکان پر مبنی ہے، پیترا بدل کر پھر مقابلہ میں آجاتے ہیں۔ وہ لوگ اپنے پہلے موقف میں دینی معارف اور قرآن کے کلام کے لئے ذاتی اور حقیقی معنی قبول کرنے کے باوجود ان کو انسان کی دسترس سے مافوق سمجھتے تھے۔ لیکن اس نئے موقف میں قرآن اوردینی تعلیمات و ارشادات کو حقیقت سے خالی سمجھ کر دینی معارف و احکام کو آیات سے افراد کی ذہنی اپج بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نہ صرف قرآن بلکہ تمام آسمانی کتابیںاس طرح نازل ہوئی ہیں کہ جن کی تفسیر مختلف طریقوں سے ہوسکتی ہے اور وہ تمام مختلف تفسیریں اور متفاوت فکریں صحیح ہوسکتی ہیں۔

اگر سوال کیا جائے کہ اس صورت میں بھی ان تفسیروں میں آپس میں اتنا اختلاف کیوں ہے؟

وہ لوگ جواب دیں گے کہ تفسیروں کا اختلاف اگرچہ تضاد و تناقض کی حد تک ہو تو بھی اس سے کوئی مشکل پیدا نہیں ہوتی، اس لئے کہ اصلاً قرآن اوردین نے کوئی واقعیت و حقیقت بیان نہیں کی ہے، بلکہ صرف خالی الفاظ اور جملے، وحی الٰہی کے نام سے پیغمبر (ص) پر نازل ہوئے ہیں اور ان کی طرف رجوع کے وقت ہر شخص کے ذہن میں ایک مطلب پیدا ہوتا ہے اور جو مطلب پیدا ہوتا ہے وہ خود انسان کی سمجھ ہے اور چونکہ انسان مختلف ذہنیتوں کے حامل ہیں نتیجہ میں ان کے افکار بھی مختلف ہیں۔انسان قرآن کی آیات و الفاظ اوردینی تعلیمات سے جو کچھ سمجھتے ہیں اسے دین کہتے ہیں۔ اور چونکہ قرآن اور دینی تعلیمات و ارشادات کسی واقعیت کو بیان کرنے والے نہیں ہیں، ان کی متفاوت تفسیریں بھی تصدیق و تکذیب کے قابل نہیںہیں۔ لہٰذا تما م افکار صحیح ہیں، کیونکہ قرآن ایسے ثابت حقائق بیان نہیں کرتا کہ ان افہام اور تفسیروں میں سے صرف کوئی ایک ہی اس کے مطابق ہو۔

” سیدھے راستوں” یا ”دین کی مختلف قرائتوں” کا نظریہ رکھنے والے دین کی بنیاد و اساسی یعنی وحی پر حملہ کرنے کے لئے ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نہ صرف انسان، قرآن اور وحی الٰہی سے کوئی ثابت حقیقت درک نہیں کرتا اور ہر شخص اپنی ذہنیت کو وحی کے نام سے بیان اور تفسیر کرتا ہے، بلکہ پیغمبر (ص) نے بھی (معاذ اللہ) انسانی صفات کا حامل ہونے کے سبب اپنے درک اور فہم کو وحی کے نام سے لوگوں کے لئے بیان کیا ہے۔

اس بنا پر پیغمبر (ص) کی فہم بھی آنحضرت (ص) کے زمانی و مکانی خاص حالات اور ذہنیت کے مطابق اور شخصی و ذاتی فہم تھی کہ جسے الفاظ و آیات کی صورت میں بیان کیا ہے۔ لہٰذا قرآن کو کلام خدا اور وحی الٰہی نہیں سمجھا جاسکتا، بلکہ کہنا چاہئے کہ قرآن پیغمبر (ص) کا کلام ہے(نعوذ باللہ)۔

یقینا آپ سوال کریں گے کہ مندرجہ ذیل آیات کے بارے میں کیا کہا جائے ؟

(وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الہَویٰ اِن ہُوَ إِلاَّ وَحْیٌ یُّوحیٰ)١؎ پیغمبر (ص) اپنی خواہش سے کبھی کلام نہیں کرتے، آپ کا کلام وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے۔

…………………………………………………

(١)سورہ  نجم، آیت ٣، ٤ ۔

یا (تَنزِیلٌ مِن رَّبِّ العَالَمِینَ، وَ لَو َتقَوَّلَ عَلَینَا بَعضَ الأَقَاوِیلَ، لَأَخَذنَا مِنہُ بِالیَمِینِ، ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنہُ الوَتِیْنَ)١؎ یہ قرآن رب العالمین کا نازل کردہ ہے، اور اگر یہ پیغمبر ہماری طرف سے کوئی بات گڑھ لیتے، تو ہم ان کے ہاتھ کو پکڑ لیتے، پھر ہم ان کی گردن کی شہ رگ کاٹ دیتے۔

اس نظریہ کے طرفدار جواب میں کہتے ہیں کہ یہ مضامین بھی خود پیغمبر (ص) کی ذہنی اپج ہیں نیز آپ کے احساسات کی غمّاز ہیں۔

واضح ہے کہ ایسا نظریہ، شکاکیت اور انکار حقیقت کے دلدل میں گرنے، عقل و منطق کو نظرانداز کرنے اور الفاظ کے ساتھ بازی کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، یہ نظریہ پیش کرنے والے سب سے زیادہ روشن اور واضح معانی و مفاہیم کے مقابلہ میں کہیں گے کہ یہ آپ کا احساس اور آپ کی سمجھ ہے اور خود آپ کے ذہنی خیالات کے علاوہ کسی حقیقت کی نشاندہی کرنے والا نہیں ہے، اس بنا پرقرآن خود آپ کے لئے اچھا اور محترم ہے لیکن دوسروں کے لئے کوئی قیمت اور اعتبار نہیں رکھتا۔

بہرحال ہم دیکھتے ہیں کہ دین و قرآن کے متعلق ایسے نظریہ کی ترویج سب سے زیاد ہ ان ترقی یافتہ شیطانی جالوں میں سے ایک ہے جو اب تک حضرت آدم – کی اولاد کو گمراہ کرنے اور فریب دینے کے لئے بچھائے گئے ہیں۔

…………………………………………………

(١) سورہ  حاقہ، آیت ٤٣ تا ٤٦ ۔

تکرار وسوسہ شیطانوں کا اہم اسلحہ

شیطانوں کا ایک اسلحہ انسانوں کو گمراہ کرنے کے لئے ان کے اندر مسلسل وسوسہ ڈالنا اوران کے ذہن وعقل میں نفوذ پیدا کرنا ہے۔ اسی وجہ سے قرآن ان کو وسواس اور خناس کے لقب سے یاد کرتا ہے اورانسانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ جنّ و انس کے شیاطین کے شر سے خدا کی پناہ مانگیں، اس لئے کہ شیاطین، انسان کے دل پر مسلسل وسوسہ اندازی سے چاہتے ہیں کہ انسانوں کے ذہن و عقل کو اپنے تسلط میں لے لیں اور ان کے افکار کو ہلاکت و گمراہی کے گڑھے کی طرف موڑ دیں۔

شیطان اور شیطان صفت انسان خود جانتے ہیں کہ خدا پرست لوگوں کے اذہان میں شیطانی تخیلات کو جگہ دینے کے لئے ضروری ہے کہ اتنا بولیں، لکھیں اور تکرار کریں کہ اذہان کو اپنے باطل تخیلات سے مانوس کر کے دھیرے دھیرے ان کی فکر و عقل میں نفوذ کر جائیں۔ خود وہ لوگ کہتے ہیں کہ اس قدر بولنا، لکھنا اور تکرار کرنا چاہئے کہ لوگوں کو شک و شبہہ میں مبتلا کردیں۔

وہ لوگ ابلیس کی وسوسہ اندازی سے سب سے پہلے طالب علموں اور تعلیم یافتہ طبقہ کو منحرف اور گمراہ کرنا چاہتے ہیں، کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو فریب دیکر عام لوگوں کواور زیادہ گمراہ کرسکیں گے۔ لیکن وہ اس بات سے غافل ہیں کہ خداوند متعال نے مسلمانوں اور شیعوں کی ہدایت کے لئے روشن مشعلیں قرار دی ہیں اور مسلمان لطف الٰہی اوردینی علوم و معارف سے الہام کے ذریعہ دشمنوں کی شیطانی سازشوں کو بھانپ لیں گے اور روز بروز قرآن کی پیروی میں پہلے سے زیادہ محکم و پائدار ہوتے جائیں گے۔

متشابہات سے استناد، قرآن کے مقابلہ میںایک دوسری سازش

اس کے پہلے اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا کہ پیغمبر (ص) اور ائمہئ معصومین علیهم السلامکا ایک عہدہ وحی الٰہی کی تفسیر و توضیح ہے، چونکہ قرآن میں محکمات و متشابہات ہیں اور جیسا کہ اس کے پہلے اشارہ کیا گیا کہ اس میں ظاہر و باطن بھی ہیں کہ اس کے معارف کی گہرائیوں کا حصول پیغمبر (ص) اور ائمہئ معصومین (ع) اور علوم الٰہی سے واقف حضرات کے علاوہ کسی کے لئے ممکن نہیں ہے اور اس کی تفسیر و توضیح مکتب اہلبیت (ع) کے تعلیم یافتہ افراد کے علاوہ کوئی اور نہیں کرسکتا۔

چونکہ حکم عقل اور سیرہئ عقلاء کے مطابق جاہل کا عالم کی طرف رجوع کرنا لازم ہے، لہٰذا قرآن اور دین کے معارف سمجھنے کے لئے اس کتاب الٰہی کے لانے والے اور ائمہئ معصومین علیهم السلاماور ان حضرات کے مکتب کے تعلیم یافتہ افراد کی طرف رجوع کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ تمام انسان عقلائی سیرت و روش کی پیروی کریں یا اپنے کو عقل و فہم اور سمجھنے اور سمجھانے کے منطقی اصول کا پابند سمجھیں۔

ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو لوگوں کو صرف گمراہ کرنا چاہتے ہیں اور ان کا مقصد معاشرہ میں شبہہ اور فتنہ پیدا کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ قرآن نے بھی اس بات کی پیشین گوئی کی ہے:

(وَ ہُوَ الَّذِی أَنزَلَ عَلَیکَ الکِتَابَ مِنہُ آیَاتٌ مُحکَمَاتٌ ہُنَّ أُمُّ الکِتَابِ وَ أُخَرُ مُتَشَابِہَاتٌ فَأَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِم زَیغٌ فَیَتَّبِعُونَ مَاتَشَابَہَ مِنہُ ابْتِغَاءَ الْفِتنَۃِ وَ ابْتِغَاءَ تَأوِیْلِہِ وَ مَا یَعلَمُ تَأوِیلَہُ اِلاَّ اللّٰہُ وَ الرَّاسِخُونَ فِی العِلمِ یَقُولُونَ آمَنَّا بِہِ کُلٌّ مِن عِندِ رَبِّنَا وَ مَایَذَّکَّرُ اِلاَّ أُولُوا الأَلبَابِ)١؎

یعنی ”اس (خدا) نے آپ (پیغمبر(ص)) پر وہ کتاب نازل کی ہے جس میں سے کچھ آیتیںمحکم اور واضح ہیں جو اصل کتاب ہیں اور کچھ متشابہ ہیں، اب جن کے دلوں میں کجی ہے وہ انہیں متشابہات کے پیچھے لگ جاتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور من مانی تاویلیں کریں حالانکہ اس کی تاویل کا علم صرف خدا کو ہے ا ور انھیں ہے جو علم میں رسوخ رکھنے والے ہیں، جن کا کہنا یہ ہے کہ ہم اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ سب کی سب محکم و متشابہ آیات ہمارے پروردگار ہی کی طرف سے ہیں اور یہ بات سوائے صاحبان عقل کے کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے”۔

اس آیہئ کریمہ نے قرآن کریم کو دو حصوں میں یعنی محکمات و متشابہات میں تقسیم کیا ہے اور محکمات کو ”ام الکتاب” (اصل کتاب) کے نام سے یاد کیا ہے ۔ قرآن کا ایک حصہ آیات محکمات ہیں جو دوسرے حصہ یعنی متشابہات کی نسبت جڑ اوراصل ہیں۔

محکمات قرآن سے مراد وہ آیات ہیں کہ جن کے معانی واضح و روشن ہیں اور ان کے معارف قابل شک و شبہہ نہیںہیں۔ یہ آیات، معارف قرآن کے اصول و امہات پر مشتمل ہیں۔ انھیں کے مقابل وہ آیات ہیں جو محکمات کا سہارا لئے بغیر قابل فہم نہیںہیں اور ایسا نہیں ہے کہ تمام لوگ ان کے معنی کی گہرائی تک پہنچ جائیں۔ آیات قرآن کے اس حصہ کو متشابہات کہا جاتا ہے۔

…………………………………………………

(١) سورہ  آل عمران، آیت ٧ ۔

قرآن نے لوگوں کو متشابہات کی پیروی سے، محکمات نیز پیغمبر (ص) اور ائمہئ معصومین علیهم السلامکی تفسیر و توضیح کی طرف توجہ کئے بغیر منع کیا ہے۔ قرآن کریم متشابہات کی پیروی کودل کے انحراف و کجی کی نشانی سمجھتا ہے اور فرماتا ہے کہ جو لوگ قرآن کے متشابہات کو اپنی فکر و فہم اوراپنے اعتقادات کا معیار قرار دیتے ہیں وہ قرآن کی من مانی تاویل و تحریف اور فتنہ برپا کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن کے بقول، آیات متشابہات کی تاویل و تفسیر خدا، راسخون فی العلم اور ائمہئ معصومین علیهم السلامکے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا۔ علم میں راسخ وہ لوگ ہیں جنھوںنے دل و جان سے خدا کی بندگی کو قبول کیا ہے اور کہتے ہیں کہ ہم قرآن پر ایمان لائے ہیں، خواہ وہ قرآن کے محکمات ہوں یا متشابہات، سب پروردگار کی طرف سے ہیں۔

قرآن میں متشابہات کی حکمت

یہاں پر ممکن ہے یہ سوال کیا جائے کہ کیوں قرآن اس طرح نازل نہیںہوا ہے کہ اس کی تمام آیتیں واضح و محکم اور بغیر کسی ابہام و اجمال کے ہوں تاکہ سب کے لئے یکساں طور پر قابل فہم و استفادہ ہوں؟

اس سوال کے جواب کے لئے پہلے ایک مختصر سا مقدمہ بیان کرتے ہیں: ہم عام انسانوں کا ذہن فطری عوامل کا تابع ہے۔ عام انسان جب پیدا ہوتا ہے تو حواس کے ذریعہ پہلے محسوسات سے آشنا ہوتا ہے اور شروع میں اس کا ادراک و فہم محسوسات و مادیات کے حدود میں محدود ہوتا ہے، لیکن دھیرے دھیرے انسان کی فکری قوتیںبڑھتی ہیں اور وہ تجرید و تعقل کی قدرت پیدا کر لیتا ہے، نتیجہ میںاس کو مادیات سے مافوق مطالب کے درک کرنے کی صلاحیت حاصل ہو جاتی ہے۔

انسان کی عقل جس قدر تجرید و تعقل کی قدرت کی حامل ہوگی اور مادہ و مادیات کے حدود سے آگے بڑھے گی اتنا ہی وہ طبیعت سے ماوراء حقائق کو بہتر طور پر درک کرے گی اور چونکہ تمام انسان عقلی نشو و نما کے اعتبار سے مساوی نہیں ہیں لہٰذا غیر محسوس امور کے ادراک کے اعتبار سے بھی برابر نہیں ہیں۔

ایسے انسانوں کی کمی نہیں ہے کہ جن کی عمر کے دسیوں سال گزر جاتے ہیں، لیکن ان کی عقل و فہم سات، آٹھ سال کے بچوں کی سی ہوتی ہے او رایک عمر گزر جانے کے بعد بھی ممکن ہے کہ وہ خدا اور مجرد چیزوں کو زمان و مکان کی حدوں میں محدود تصور کریں، جبکہ دین کی بنیاد، غیب پر ایمان رکھنا ہے، یعنی مجرد اور غیر مادی حقائق پر ایمان رکھنا، جیسا کہ قرآن فرماتا ہے:

(ذٰلِکَ الکِتَابُ لارَیبَ فِیہِ ہُدیً لِلمُتَّقِینَ الَّذِینَ یُؤمِنُونَ بِالغَیبِ)١؎

یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے یہ متقین کے لئے مجسم ہدایت ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔

اس بنا پر ایمان کی بنیاد یہ ہے کہ انسان محسوسات سے مافوق حقائق پر ایمان لائے اور ان پر اعتقاد رکھے۔ لیکن ان حقائق کی کنہ و حقیقت کیا ہے؟ ایک ایسا مطلب ہے کہ جس کا سمجھنا الٰہی الہامات کے علاوہ ممکن نہیںہے جو کہ انبیاء (ع) اور ائمہئ معصومین علیهم السلامکے دل پروارد ہوتے ہیں۔

…………………………………………………

(١) سورہ  بقرہ، آیت ٢ ۔

ہم عام انسان طبیعت سے ماوراء تھوڑے سے امور و حقائق کو درک کرنے کے لئے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رکھتے کہ اپنی عقلی قوتوں کو تقویت دیںاوردھیرے دھیرے محسوسات سے مجردات کی طرف اور مافوق طبیعت امور کی طرف آگے بڑھیں۔

دوسری طرف جوالفاظ مجردات کے متعلق استعمال ہوتے ہیں وہ اکثر ابتدا میں محسوس معانی کے لئے وضع کئے گئے ہیں: ”یَدُ اللّٰہِ فَوقَ أَیدِیہِمْ”١؎ خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے۔ یا ”وَ ہُوَ العَلِیُّ العَظِیمُ”٢؎ خدا بلند و بالا او رعظمت والا ہے۔ مذکورہ الفاظ، علی، عالی، علو سب بلند و بالا کے معنی میں ہیں جو کہ سافل اور نیچے کے مقابل ہیں۔

واضح ہے کہ انسان ابتدا میں ان الفاظ سے صرف حسی معنی سمجھتا ہے اور بس، مثلاً انسان اپنے سر کو اونچا اور اوپر ہونے کا معیار قرار دیتا ہے اور جو کچھ سر کے اوپر آسمان کی طرف پایا جاتا ہے اس کو ”اونچا” سمجھتا ہے اور ”نیچے” کے معنی کے لئے اپنے پاؤں کو معیار قرار دیتا ہے اور جو کچھ اس سے نیچے ہوتا ہے اسے نیچا سمجھتا ہے۔ اسی لئے کہتا ہے کہ آسمان اوپر اور زمین نیچے ہے۔ لیکن اجتماعی زندگی میں داخل ہونے کی صورت میں دھیرے دھیرے ان حسی معانی سے قدم آگے بڑھا کر ا ن کے انتزاعی اور غیر حسی معنی کو درک کرتا ہے، یعنی جس وقت کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص کا مرتبہ بلند ہے یا اور بلند ہوگیا ہے تو پھر انسان اس لفظ سے سر سے اوپر ہونے کے اس حسی معنی کو نہیں سمجھتا اور مرتبہ نیچے آنے سے وہ حسی معنی اس کے ذہن میں نہیں آتے۔

…………………………………………………

(١) سورہ  شوریٰ، آیت ١١ ۔

(٢)سورہ  شوریٰ، آیت ٤ ۔

سامنے کی بات ہے کہ ایسے استعمالات میں جو معنی مقصود ہوتے ہیں وہ مادی اور محسوس لوازم سے منزہ ہوتے ہیں۔

جب یہ کہا جاتا ہے کہ: ”جو (خدا) تمام وجود کو ایک ارادہ سے پیدا کرتا ہے اس کا مرتبہ بہت بلند ہے” جس علو اور بلندی کی نسبت پروردگار کی طرف دی جاتی ہے وہ اس علو اور بلندی سے بہت اونچی ہے کہ جس کا اطلاق ایک رئیس پر اس کے نوکروں کی بہ نسبت ہوتا ہے۔ اور ان دونوں کے درمیان کا فاصلہ، صفر اور لامتناہی اور حقیقت و مجاز کا ہے، اس لئے کہ ہر فرضی علواور مرتبہ، عاریتی اور فنا پذیر ہے، سوائے اس حقیقی علو اور بلندی کے جو کہ خداوند خالق کائنات کے شایان شان اور اسی سے مخصوص ہے۔ وہی ہے کہ ”إنَّمَاأَمرُہُ اِذَا اَرَادَ شَیأاً اَن یَّقُولَ لَہُ کُن فَیَکُونُ”١؎ یعنی اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کے بارے میں یہ کہنے کا ارادہ کر لے کہ ہو جا تو وہ شے فوراً ہو جاتی ہے۔

اس بنا پر جس وقت قرآن کہتا ہے: ”ہُوَ الْعَلِيُّ العَظِیمُ” ٢؎ خداوند متعال کا علو نہ تو مادی اور محسوس علو ہے، نہ اس کے عظیم و بزرگ ہونے سے مادی اور محسوس معنی مراد ہے۔ لیکن یہ کہ خدا کے علو اور اس کی عظمت کی حقیقت کیا ہے؟ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ انسان کی عقل جس تک نہیں پہنچ سکتی۔ البتہ بہت سے مقامات پر کوئی دوسری لفظ بھی ان الفاظ کے علاوہ جو کہ محسوس معانی کے لئے استعمال ہوتے ہیں، نہیں ہے اور مجبوراً یہی

…………………………………………………

(١) سورہ  یٰس ، آیت ٨٢ ۔            (٢) سورہ  بقرہ، آیت ٢٥٥ ۔

الفاظ مجرد معانی کی طرف اشارہ کے لئے استعمال ہوتے ہیں، مثلاً ارشاد ہوتا ہے: ”خدا بلند اور بزرگ ہے” بلند وہی لفظ ہے جو چھت کی بلندی کے لئے سطح زمین کی بہ نسبت استعمال کی جاتی ہے اور بزرگ بھی وہی لفظ ہے جو ہمالیہ پہاڑ کے متعلق استعمال کی جاتی ہے، لیکن جس وقت یہ الفاظ خدا کے لئے استعمال ہوتے ہیں تو وہ اپنے محسوس معانی سے الگ ہو جاتے ہیں، البتہ پھر بھی ایسا نہیں ہے کہ الگ ہونے کے ساتھ بھی اس کی حقیقت تک پہنچا جاسکے۔

کہا جاتا ہے کہ وہ الفاظ و معانی کہ جن کی حقیقت کو مذکورہ طریقہ سے پہچانا جاتا ہے وہ ایک قسم کے تشابہ کے حامل ہیں کہ ابہام او رمغالطہ کا باعث ہوسکتے ہیں۔ جو شخص ابھی مذکورہ معانی کو حسی شوائب و لوازم سے مجرد اور منزہ نہیں کرسکا ہے جب اس کے سامنے کہا جاتاہے خدا بلند اور اُوپر ہے تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ خدا آسمانوں کے اوپر ہے جبکہ خدا جسم نہیںہے کہ اس کے لئے مکان کا تصور کیا جائے: ”أَینَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجہُ اللّٰہِ”١؎ (تم جس جگہ بھی رخ کرو گے سمجھو وہیں خدا موجود ہے)، لیکن وہ اس سے زیادہ نہیں سمجھتا، البتہ جتنا سمجھتا ہے اتنی ہی اس کی ذمہ داری ہے چونکہ اس سے زیادہ قدرت نہیں رکھتا۔

جو شخص اس مرحلہ سے آگے ہوتا ہے اور کچھ زیادہ قدرت فہم کا حامل ہوتا ہے نیز اعتباری معانی کو بھی درک کرتا ہے، جب اس کے سامنے کہا جاتا ہے: ”إِنَّ اللّٰہَ عَلِیٌّ عَظِیمٌ” (بے شک اللہ بلند او رصاحب عظمت ہے) تو وہ فکر کرتا ہے کہ خدا بھی ایسا ہی

…………………………………………………

(١) سورہ  بقرہ، آیت ١١٥ ۔

بلند ہے جیسے نوکروں کی بہ نسبت ان کا مالک، لیکن یہ معنی کہاں اور خدا کی بلندی کہاں؟

جو شخص اپنی عمر علم و دانش اور حکمت کی تحصیل اور مجرد معانی کودرک کرنے میں گزارتا ہے وہ مذکورہ معانی سے بہت بلند اور بہتر علو اور بلندی کا معنی درک کرتا ہے اور کہتا ہے کہ خدا اپنے ماسوا تمام عالمین کی نسبت وجودی علو اور بلندی رکھتا ہے۔

تمام مخلوقات وجود رکھتی ہیں او رخدا بھی وجود رکھتا ہے، لیکن خداوند تبارک و تعالی کا وجود، وجودی مرتبہ کی بلندی کے اعتبار سے دوسری موجودات کے ساتھ قابل مقائسہ نہیں ہے، لیکن پھر یہ کہ اس وجودی مرتبہ کے علو اور بلندی کی حقیقت کیا ہے؟ یہ ایسی بات ہے کہ ہر شخص اپنی فہم اور سمجھ کے مطابق اس سے نزدیک ہوسکتا ہے، اگر چہ اس کی کنہ و حقیقت کا درک ہر شخص کے لئے ممکن نہیں ہے۔ اب ہم مذکورہ توضیح کے پیش نظر کہتے ہیں کہ جس وقت خدا ہم انسانوں کے لئے ان امور کے متعلق جو کہ ہماری عام اور عادی فہم سے بالاتر ہیں بیان کرنا چاہے تواسے ایسے الفاظ استعمال کرنا چاہئے کہ جن میں غور و فکر کر کے ہر انسان اپنی فہم کے مطابق ان کو درک کرے، اگر چہ ان معانی کی حقیقت کا ادراک ہماری فہم سے بالاتر ہے۔ ایسے مقامات پر الفاظ ”متشابہ” کے استعمال کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

اس بنا پر جو آیات طبیعت سے مافوق اور عام انسانوں کی سمجھ سے بالا تر امور کو بیان کرتی ہیں لامحالہ اس میں تشابہ کا ایک پہلو رہے گا۔ ان کی حقیقت تک محکمات کی مدد سے پہنچنا چاہئے۔ مثلاً جس وقت قرآن کہتا ہے : ”ہُوَ الْعَلِيُّ العَظِیمُ”١؎ اور ہم خدا

…………………………………………………

(١) سورہ  شوریٰ، آیت ٤ ۔

کے وجودی مرتبہ کی بلندی اور عظمت کی کنہ و حقیقت کو نہیں سمجھتے تو اس کو محکمات قرآن جیسے ”لَیسَ کَمِثلِہِ شَيئٌ”١؎ کے وسیلے سے تفسیر کرنا چاہئے تاکہ غلط فہمی اور غلط تفسیر سے دو چار نہ ہوں۔

پہلی آیت کہتی ہے کہ خدا بلند اور عظمت والا ہے اور دوسری آیت کہتی ہے کہ خدا کے مثل اور مانند کوئی چیز نہیں ہے، یعنی جس طرح کی بھی مرتبہ کی بلندی اور عظمت خدا کے لئے تصور کرو گے خدا کی بلندی اور عظمت کودرک نہ کر پاؤ گے، اس لئے کہ خدا اس سے بالاتر ہے۔

صفات خدا کے متعلق ایسا ہی ہے جب کہا جاتا ہے خدا عالم ہے، خدا قدرت رکھتا ہے، واضح ہے کہ علم کی حقیقت خدا کے متعلق اس معنی کے علاوہ اور اس سے بالاتر ہے جو انسان کے متعلق ذہن میں ذہنی صورتوں کے ادراک سے حاصل ہوتی ہے، لیکن خدا کے علم اور اس کی قدرت کی حقیقت کیا ہے؟ اور کلی طور سے خدا کے اوصاف کی حقیقت کیا ہے؟ ایسا مطلب ہے جو خدا کے علاوہ کہ جس کی ذات عین علم و عین حیات و قدرت ہے، کسی اور کے لئے قابل فہم نہیں ہے۔

خداوند متعال نے بھی اپنی طرف اور اپنے الٰہی اوصاف کی طرف انسان کی راہنمائی کے لئے و ہی الفاظ استعمال کئے ہیں کہ انسان پہلے جن سے محسوس معانی کو درک کرتا ہے تاکہ انسان ان بلند معارف سے بالکل بے بہرہ نہ رہے۔

…………………………………………………

(١) سورہ  شوریٰ، آیت ٧ ۔

اس بنا پر قرآن کریم میں آیات متشابہ کا وجود الٰہی حکمتوں میں سے ہے کہ جن کے بغیر انسان کا راستہ مجرد اور غیر محسوس معانی و معارف کے ادراک کے لئے بند ہو جاتا ہے، لیکن متشابہات سے استفادہ اور ان کی تفسیر و توضیح جیسا کہ اس کے پہلے اشارہ کیا گیا ایک ایسا مطلب ہے جو محکمات کی مدد سے واقع ہونا چاہئے، مگر ایسا نہیں ہے کہ وہ تمام افراد جو قرآن اور اس کے معارف کو سمجھنا چاہتے ہیں مذکورہ طبیعی، منطقی اور عقلائی طریقہ الٰہی معارف کو سمجھنے کے لئے انتخاب کریں۔

زیر بحث آیہئ کریمہ میں خداوند تعالیٰ قرآن میں متشابہ اور محکم آیات کے وجود کی طرف اشارہ کرتا ہے اور فرماتا ہے: وہ لوگ کہ ”فِی قُلُوبِہِم زَیغٌ”١؎ جن کے دلوں میں کجی ہے، روحی اعتبار سے پستی اور تیرگی کے حامل ہیں اور کج فکری و کج اندیشی میں مبتلا ہیں اور دوسری لفظوں میں ”فِی قُلُوبِہِم مَرَضٌ”٢؎ ان کا قلب اور ان کی روح بیمار ہے، ایسے لوگ آیات متشابہ کو اپنی فکر و عمل کا معیار قرار دیتے ہیں اور قرآن کی محکم آیات کی طرف توجہ کئے بغیر متشابہات کو محسوس معانی پر حمل کرتے ہیںاور اپنی اور دوسروں کی گمراہی کے لئے زمین ہموار کرتے ہیں ۔

حق و باطل کو مخلوط کرنا، گمراہوں کا دوسرا اسلحہ

واضح بات ہے کہ جو لوگ اسلامی معاشرہ میں دین، قرآن اور دینی اقدار و

…………………………………………………

(١)سورہ  آل عمران، آیت ٧ ۔

(٢) سورہ  بقرہ ، آیت ١٠ ۔

معارف کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں، وہ اپنے مقاصد تک پہنچنے کے لئے کبھی براہ راست مقابلہ نہیں کرتے، کیونکہ بخوبی جانتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا اور پہلے ہی قدم پر شکست کھا جائیں گے۔ وہ لوگ نفسیاتی نکات سے استفادہ کر کے مناسب طریقے اور ہتھکنڈے اپنے شیطانی مقاصد حاصل کرنے کے لئے انتخاب کرتے ہیں۔

ان کے ان ہی ہتھکنڈوں میں سے ایک ہتھکنڈا حق و باطل کو مخلوط کرنا ہے۔ وہ لوگ حق و باطل کو آپس میں ملا دیتے ہیں اور حق و باطل کے ایک مجموعہ کی تبلیغ خوبصورت انداز میں کرتے ہیں تاکہ ان کے مخاطب افراد جو کہ اتفاقاً ضروری علم و آگاہی، باطل سے حق بات کی تشخیص کے متعلق نہیں رکھتے ان کی تمام بات کو قبول کرلیں اور نتیجہ میں وہ باطل مطلب جو کہ حق کی آرائش سے آراستہ کیا گیا ہے اور خوبصورت ادبی بیان کی نقاب کے پیچھے مخفی ہے، لاشعوری طور پر سننے والے کے ذہن و فکر میں جاگزیں ہو جائے۔

امیر المومنین حضرت علی – ارشاد فرماتے ہیں:

”فَلَو اَنَّ البَاطِلَ خَلَصَ مِن مِزَاجِ الحَقِّ لَم یَخْفَ عَلٰی الْمُرتَادِینَ وَ لَو اَنَّ الْحَقَّ خَلَصَ مِن لَبْسِ الْبَاطِلِ انْقَطَعَتْ عَنْہُ اَئَلسُنُ المُعَانِدِینَ وَ لَکِن یُؤخَذُ مِن ہٰذا ضِغثٌ وَ مِن ہٰذَا ضِغثٌ فَیُمْزَجَانِ فَہُنَالِکَ یَسْتَولِی الشَّیطَانُ عَلٰی أَولِیَائِہِ وَ یَنْجُوْ الَّذِینَ سَبَقَتْ لَہُم مِنَ اللّٰہِ الْحُسْنیٰ”١؎

…………………………………………………

(١)نہج البلاغہ، خطبہ ٥٠ ۔

یعنی ”اگر باطل حق کی آمیزش سے الگ رہتا تو حق کے طلبگاروں پر مخفی نہ ہوسکتا اور اگر حق باطل کی ملاوٹ سے الگ رہتا تودشمنوں کی زبانیں نہ کھل سکتیں، لیکن ایک حصہ اس میں سے لے لیا جاتا ہے اور ایک اس میں سے، اور پھر دونوں کو ملادیا جاتا ہے پس ایسے ہی مواقع پر شیطان اپنے ساتھیوں پر مسلط ہو جاتا ہے اور صرف وہ لوگ نجات حاصل کر پاتے ہیں جن کے لئے پروردگار کی طرف سے نیکی پہلے ہی پہنچ جاتی ہے”۔

واضح بات ہے کہ گمراہ کن افراد اور جن کے قلب و روح میں قرآن کے بقول کجی اور تاریکی ہے اور خدا کے سامنے سراپا تسلیم نہیں ہیں وہ لوگ متشابہ آیات اور ان روایات کو جو کہ سند کے اعتبار سے مخدوش یا دلالت کے اعتبار سے متشابہ ہیں، اسلام کے خلاف اپنی تبلیغ اور فعالیت میں سرفہرست قرار دیتے ہیں اور قرآن کے محکمات، حق بات اور ان الٰہی معارف کے سننے سے بھاگتے ہیں جو کہ اہلبیت اورائمہئ معصومین علیهم السلامکی زبان سے معتبر اسناد کے ساتھ وارد ہوئے ہیں۔

یہ لوگ جو کہ اپنے کو مسلمان سمجھتے ہیں، شعوری یا لاشعوری طور پر دشمنان اسلام کے ساتھ ہم آواز ہو جاتے ہیں، اس لئے کہ وہ لوگ بھی یہی چاہتے ہیں کہ جھوٹی باتوں کی اسلام کی طرف نسبت دیں اور ان کو بڑھا چڑھا کر ان حق طلب انسانوں کی رغبت کو کم کردیں جو اب تک مسلمان نہیں ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں مخاطب، ملحدین اور غیر مسلمان دشمن نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جو اپنے کو مسلمان سمجھتے ہیں۔

البتہ ممکن ہے وہ لوگ حق بات کو نہ سننے، اور عقل و منطق کے سامنے سراپا تسلیم ہونے سے روکنے کے لئے توجیہیں کریں، جیسا کہ” دین کی مختلف قرائتوں” کی بحث میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اور اپنی باتوں کے نتائج پر توجہ کئے بغیر اپنے نظریہ پر اڑے رہیں۔ ہم بھی اس حصہ میں فیصلہ مذکورہ نظریہ کی توجیہات اور اس کے انجام کے متعلق محترم قارئین کے ذمہ چھوڑتے ہیں، لیکن دلسوزی اور خیر خواہی کی بنا پرہم ان کو عقائد، افکار اور ایمان پر نظر ثانی اور ان کی اصلاح کی دعوت دیتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن بھی مومنین سے چاہتا ہے کہ ایک دوسرے کو تفکر، تعقل، اصلاح اور ہدایت کی دعوت دیں اور ایک دوسرے کو حق یاد دلاتے رہیں۔

مختلف قرائتیں، قرآن سے مقابلہ کا ایک حربہ

کتاب کے پہلے حصوں میں کچھ باتیں مختصر طور سے بندوں پر سب سے بڑی الٰہی نعمت یعنی قرآن کریم کی عظمت اور خصوصیات کے متعلق بیان کی گئیں۔ یہ بھی بیان کیا جاچکا ہے کہ خداوند متعال نے قرآن کریم کو سب سے عظیم فرشتے حضرت جبرئیل امین (ع) کے ذریعہ اپنے بندوں میں سب سے زیادہ عزیز بندے حضرت محمد مصطفی (ص) پر نازل فرمایا تاکہ اسے انسان کے اختیار میں قرار دے اور انسان فردی و اجتماعی زندگی میں اس آسمانی کتاب کی تعلیمات، ہدایات اور احکام سے آشنا ہو کر اور ان پر عمل کر کے اپنی دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرے۔

نہج البلاغہ میں مذکور حضرت علی – کے بعض بیانات ذکر کئے گئے کہ قرآن سے تمسک، فتنوں اور گمراہیوں کو رفع کرنے کے لئے اور فردی و اجتماعی مشکلات اور بیماریوں کے علاج کے لئے لازم ہے۔ یہ بھی ذکر کیا گیا کہ قرآن کی تفسیر و توضیح کی صلاحیت دینی وظائف و مسائل کے جزئیات کی تفصیل اور احکام کی توضیح کے معنی میں، صرف پیغمبر (ص) اور ائمہئ معصومین علیهم السلامکو حاصل ہے۔ اس بات کی بھی وضاحت کی گئی کہ قرآن کی تفسیر کی صلاحیت، دینی احکام و وظائف کے دائرہ کے علاوہ نیز اس کے معارف کے بیان کی صلاحیت، صرف دینی علماء و ماہرین اور قرآن و اہلبیت (ع) کے علوم سے آشنا افراد کو حاصل ہے، ہم نے ذکر کیا کہ صرف وہ علماء جنھوں نے اپنی عمر معارف دین اور علوم اہلبیت (ع) کے سمجھنے میں گزاری ہے وہی قرآن کے متشابہات اور محکمات کو پہچان سکتے ہیں، اور محکمات اور روایات اہلبیت علیهم السلامکی مدد سے قرآن کے متشابہات کی بھی تفسیر کرسکتے ہیں اور قرآن کے معارف کو لوگوں سے بیان کرسکتے ہیں تاکہ لوگ اسے اپنی فکری حرکت کی بنیاد اور عملی نیز فردی و اجتماعی تکامل کا نمونہ قرار دیں اور خدا کی اس دعوت: (یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اسْتَجِیبُوا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُولِ اِذَا دَعَاکُم لِمَایُحیِیکُم)١؎ پر لبیک کہیں اور اپنی کامیابی کا میدان ہموار کریں۔

اس کے مقابل ہم نے اشارہ کیا کہ جو لوگ زمانہئ دراز سے شیطانی وسوسوں کے ذریعہ لوگوں کو قرآن سے جدا کرنا چاہتے ہیں، وہ لوگ اپنے شیطانی مقاصد تک پہنچنے کے لئے کوشش کرتے ہیں کہ اپنی خیال آرائی سے اس طرح ظاہر کریں کہ قرآن قابل فہم نہیں ہے اور نتیجہ میں اس بات کی امید نہ رکھنی چاہئے کہ قرآن ہماری زندگی میں ہدایت و رہنمائی کرے گا۔

…………………………………………………

(١)سورہ  انفال، آیت ٢٤۔ ترجمہئ آیت: اے ایمان لانے والو! چونکہ خدا اور رسول (ص) نے اس چیز کی طرف دعوت دی ہے جو تمھیں زندگی بخشتی ہے، ان کی دعوت پر لبیک کہو اور اسے قبول کرو۔

ہم نے ذکر کیا کہ یہ شیطانی شبہہ جو پوری تاریخ میں مختلف شکلوں کے ساتھ پایا جاتا رہا ہے، آج اپنی تکامل یافتہ شکل میں اپنے نقطہئ عروج پر پہنچا ہوا ہے اور نت نئی صورتوں میں پیش کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ آج بھی قرآن اور دینی مکتب فکر کے مخالفین اپنے نظریات و افکار کو اس تھیوری کی شکل میں کہ ”دین کی زبان ایک مخصوص زبان ہے” بیان کرتے ہیں تاکہ جو لوگ دینی علوم و معارف سے کافی آگاہی نہیں رکھتے ان کو فریب دیں۔

جب ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ اس قول سے کہ ”دین کی زبان، مخصوص زبان ہے” ان کا مقصود کیا ہے؟ تو وہ لوگ جواب میں ”دین کی زبان کے، خاص ہونے” کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ دینی تعلیمات اور قرآن ایسے الفاظ اور قالب ہیں کہ جن کے مطالب کو خود انسانوں کی فکریں اور ذہنیتیں تشکیل دیتی ہیں۔ البتہ یہ افراد عام طور سے ادبی عبارتوں کے انتخاب، اور جذبات انگیز اشعار پڑھنے کے ساتھ اپنے نظریہ کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ آپ حضرات آسانی سے ان کے مقصد کو بھانپ نہیں سکتے، کیونکہ اس صورت میں ان کی بات کے بے بنیاد ہونے کو سمجھ جائیں گے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ مذکورہ نظریہ جو کہ کبھی ”صراط ہائے مستقیم” (بہت سے سیدھے راستے) کے نام سے اور کبھی ”دین کی مختلف قرائتوں، فکروں یا تفسیروں” کی تعبیر کے ساتھ اور کبھی ”دین کی زبان” یا ”اقلیتی اور اکثریتی دین” کی تھیوریوں کی شکل میں بیان کیا جاتا ہے، دینی اعتقادات اور توحیدی مکتب فکر سے مقابلہ کے علاوہ کوئی مقصد نہیں رکھتا۔

واقف کار لوگوں پر پوشیدہ نہیں ہے کہ دیندار افراد خصوصاً ذہین و زیرک مسلمان صاحبان علم و دانش اس سے زیادہ ہوشیار ہیں کہ ان کی باتوں کے عقل و منطق سے دور ہونے کو بھانپ نہ لیں یا ان بے بنیاد شبہوں کے پیش کرنے والوں کے مخفی مقاصد سے غافل رہیں۔

دینی ثقافت کے مخالفین کا مقصد قرآن کی روشنی میں

مذکورہ مطالب کے پیش نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن اور دینی ثقافت کے مقابلہ میں ان شیطنتوں سے مخالفین کا مقصد کیا ہے؟ اس کے جواب کے لئے پہلے ہم قرآن کے نظریہ کی تحقیق پیش کرتے ہیںپھر اس کے متعلق نہج البلاغہ میں حضرت علی – کے بیان کی توضیح پیش کریں گے۔

قرآن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نزول قرآن کے آغاز ہی سے شیطان اس بات پر تل گیا اور اس نے اپنی تمام کوششیں صرف کردیں کہ دنیا پرست انسانوں اور انسان نما شیطانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھائے اور لوگوں کو قرآن سے جدا کردے۔

شیطان سے اس کے علاوہ کوئی امید بھی نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس نے قسم کھائی تھی کہ:

(قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَاُئغوِیَنَّہُم أَجمَعِینَ اِلاَّ عِبَادَکَ مِنہُمُ المُخْلَصِینَ)١؎‘تو پھر تیری عزت کی قسم میں سب کو گمراہ کروں گا، علاوہ تیرے ان بندوں کے جنھیں تونے خالص بنا لیا ہے”۔ شیطان نے لوگوں کو گمراہ کرنے اور ان کو معارف قرآن سے محروم کرنے کے لئے اپنے بنائے ہوئے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر، قرآن کریم کی

…………………………………………………

(١) سورہ  ص، آیت ٨٢ ، ٨٣ ۔

آیات متشابہ کو اپنا حربہ قرار دیا ہے۔ اپنے دوستوں اور دنیا پرستوں کو محکمات کی طرف متوجہ کئے بغیر، متشابہات قرآن کی پیروی کی تشویق و ترغیب کرتا ہے تاکہ ان کے ذریعہ دوسرے لوگوں کو بھی شک و تردد اور گمراہی کی طرف کھینچ لائے۔

خداوند متعال محکمات و متشابہات سے آیات قرآن کی تقسیم کے بعد فرماتا ہے: (فَاََئَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِم زَیغٌ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَہَ مِنہُ ابْتِغَاءَ الفِتْنَۃِ وَ ابْتِغَاءَ تَاوِیلِہِ)١؎ جن لوگوں کا وجود سر سے پاؤں تک انحراف، گمراہی، پلیدی اور خود پرستی ہے، جن کے دل بیمار ہیں اور شیطانی وسوسوں سے متاثر ہیں وہ قرآن کے محکمات اور دین کے بدیہی اور واضح و روشن عقائد کو چھوڑ دیتے ہیں اور آیات متشابہ کے ظاہر سے سہارا لیکر کوشش کرتے ہیں کہ معارف قرآن میں تحریف اور غلط تفسیر کر کے لوگوں کو گمراہ کریں۔ ایسے انسان شیطان کے پالے ہوئے چیلے ہیںکہ اس کا مقصد پورا کرنے میں اس کی مدد کرتے ہیں۔

قرآن ایسے لوگوں کو مختلف عنوانوں جیسے ”فِی قُلُوبِہِم زَیغٌ” یا ”فِی قُلُوبِہِم مَرَضٌ” سے یاد کرتا ہے اور لوگوں کو ان کی پیروی کرنے سے ڈراتا ہے۔

جس بات کی تحقیق یہاں پر کی جارہی ہے، وہ قرآن کی روشنی میں دینی ثقافت اور مکتب فکر کی مخالفت کرنے والوں کے مقصد کو واضح کرنا ہے ۔

قرآن کریم فرماتا ہے کہ بہت سے لوگ ”اِبتِغَاءَ الفِتنَۃِ” (فتنہ جوئی) کے مقصد کے تحت، قرآن کے متشابہات کو اپنی فکر و عمل کا معیار قرار دیتے ہیں اور متشابہات کو

…………………………………………………

(١) سورہ  آل عمران ، آیت ٧ ۔

ہتھکنڈا بنا کر ظاہر قرآن کو چھوڑ کر آیات کی من مانی تاویل اور غلط تفسیر کر کے فتنے پھیلاتے ہیں۔

یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ فتنہ کیا ہے؟ اور فتنہ پرور کون ہے؟ علم لغت کے ماہرین خصوصاً جو لوگ کوشش کرتے ہیں کہ لغت کو اپنے اصلی اور حقیقی معنی پر واپس لے جائیں اور لغت کے اصلی معنی کے پیش نظر الفاظ کے معنی کریں، انھوں نے کہا ہے کہ: ”فتنہ” در اصل کسی چیز کو آگ کے اوپر گرم کرنے کے معنی میں ہے۔

جس وقت کسی شی کو گرم کرنے یا جلانے یا پگھلانے کے لئے آگ کے اوپر رکھتے ہیں تو عرب اس معنی کو ”فَتَنَہُ” سے تعبیر کرتے ہیں یعنی اس نے اس چیز کو گرم کیا۔

قرآن میں بھی مادہئ ”فتنہ” اسی لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے، جیسا کہ فرماتا ہے: ”یَومَ ہُم عَلٰی النَّارِ یُفتَنُونَ”١؎ یعنی جس دن انھیں جہنم کی آگ پر تپایا جائے گا۔

اس بنا پر ”فتنہ” کے اصل لغوی معنی جلانے اور پگھلانے کے ہیں، لیکن جیسا کہ اہل لغت کہتے ہیں کبھی کبھی ایک لغوی معنی کے لوازم کے پیش نظر، وہ معنی اس کے لوازم یا ملزومات میں بھی سرایت کر جاتا ہے اور لازمہئ معنی کے غلبہ نیز لازمہئ معنی میں اس لغت کے استعمال کے سبب دھیرے دھیرے وہ لازم لغت کے لئے دوسرے اور تیسرے معنی کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔

…………………………………………………

(١) سورہ  ذاریات، آیت ١٣ ۔

لفظ ”فتنہ” کی بھی یہی صورت ہے، جیسا کہ کہا گیا ”فتنہ” در اصل گرم ہونے کے معنی میں ہے، لیکن ”گرم ہونے” کا بھی ایک لازمہ ہے وہ یہ کہ اگر یہ گرم ہونا اور آگ میں قرار پانا انسان کے متعلق واقع ہو (جیسے آیہئ ”یَومَ ہُم عَلی النَّارِ یُفتَنُونَ”١؎) تو انسان اضطراب کی حالت پیدا کرتا ہے۔ اضطراب بھی کبھی ظاہری اور بدنی ہوتا ہے جیسے یہ کہ جسم کے جلنے اور گرم ہونے سے متعلق ہو اور کبھی باطنی اور روحی امور سے پیدا ہوتا ہے۔ لہذا اضطراب حقیقت میں ”فتنہ” اور گرم ہونے کے معنی میں ہے، پھر لفظ کے معنی میں توسیع کے پیش نظر ان چیزوں پر بھی ”فتنہ” کا اطلاق کیا جاتا ہے جو معنوی اور باطنی اضطراب کا باعث ہوتی ہیں۔ چونکہ روحی اور باطنی اضطراب کی ایک قسم، وہ اضطراب و تشویش ہے جو کہ اعتقادات کے سلسلہ میں پیش آتی ہے، لہذا وہ چیز جو ایسے اضطرابوں کا باعث ہوتی ہے اسے بھی ”فتنہ” کہا گیا ہے۔

جس وقت ”دین میں فتنہ” کہا جاتا ہے، وہ اس لحاظ سے کہا جاتا ہے کہ بہت سے لوگ کوشش کرتے ہیں کہ وہمی اور باطل خیالات اور وسوسوں سے دیندار افراد کو ان کے ایمان و اعتقادات میں اضطراب و تزلزل سے دوچار کردیں اور انھیں دین حق اور دینی اعتقادات سے پھیر دیں۔

امتحان کو بھی ”فتنہ” کہا گیا ہے، اس لئے کہ وہ بھی اضطراب اور تشویش کا باعث ہوتا ہے۔ چونکہ انسان امتحان کے وقت نتیجہ کے لئے مضطرب اور پریشان ہوتا ہے، وہ

…………………………………………………

(١) سورہ  ذاریات، آیت ١٣ ۔

روحی آرام اور قلبی سکون نہیں رکھتا۔ لفظ ”فتنہ” قرآن میں بھی کئی آیتوں میں امتحان سے پیدا شدہ اسی اضطراب کے معنی میں آیا ہے۔

قرآن فرماتا ہے: (إِنَّمَا أَموَالُکُم وَ أَولادُکُم فِتنَۃٌ)١؎ تمھارے اموال اور اولاد تمھارے امتحان اور آزمائش کا وسیلہ ہیں۔ یا فرماتا ہے: (وَ نَبلُوکُم بِالشَّرِّ وَ الخَیرِ فِتنَۃً)٢؎ ہم تمھیں خیر و شر اور نعمت و نقمت سے آزماتے ہیں۔ نیز کبھی خود عذاب اور تکلیف پر ”فتنہ” کا اطلاق ہوا ہے۔

واضح ہے کہ زیر بحث آیہئ کریمہ (ہُوَ الَّذِی أَنزَلَ عَلَیکَ الکِتَابَ مِنہُ آیَاتٌ مُحکَمَاتٌ ہُنَّ أُمُّ الکِتَابِ وَ أُخَرُ مُتَشَابِہَاتٌ فَاََئمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِم زَیغٌ فَیَتَّبِعُونَ مَاتَشَابَہَ مِنہُ ابْتِغَاءَ الْفِتنَۃِ …) میں فتنہ سے مراد ”دین میں فتنہ” پیدا کرنا ہے، اس لئے کہ متشابہات کی پیروی، امتحان و آزمائش سے کوئی تناسب نہیں رکھتی اور جو لوگ متشابہات کی پیروی کرتے ہیں وہ دوسروں کو شکنجہ اور عذاب دینے کی کوشش نہیں کرتے نیز گرم کرنے اور جلانے کے معنی میں بھی نہیں ہے، بلکہ ان کی فتنہ پروری اس سبب سے ہے کہ وہ اس بات کے درپے ہوتے ہیں کہ آیات متشابہ کو ہتھکنڈا بنا کر لوگوں کے دینی عقائد و افکار میں اضطراب و تزلزل پیدا کریں اور انھیں گمراہ کریں۔

…………………………………………………

(١)سورہ  انفال، آیت ٢٨ ۔

(٢)سورہ  انبیائ، آیت ٣٥ ۔

”دین میں فتنہ” کے مقابلہ میں قرآن کا موقف

”دین میں فتنہ” اس معنی میں کہ جس کی توضیح دی گئی، پوشیدہ مقابلہ اور فریب و حیلہ کی قسم سے سمجھا جاتا ہے۔ یہ کام ظاہری ایمان کے لباس میں اصل دین کو ختم کرنے کے مقصد سے کیا جاتا ہے۔ ایسے فتنہ گر افراد نفاق کا چہرہ اختیار کر کے اپنی شیطانی فکروں کواس طرح پوشیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے مخالف دین مقاصد کی تشخیص عام لوگوں کے لئے کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اسی وجہ سے قرآن نے اسے سب سے بڑا گناہ شمار کیا ہے اور لوگوں کو دنیا و آخرت کے اس سب سے بڑے خطرے کی طرف توجہ دلاکر ان سے مطالبہ کیا ہے کہ اس کے مقابلہ کے لئے اٹھ کھڑے ہوںاور اپنے مادی و معنوی وجود کا دفاع کریں۔

دشمن، اسلام او رمسلمین سے مقابلہ کے لئے عام طور سے دو اہم حربے استعمال کرتا ہے۔ یہاں پر ہم قرآن اوردینی ثقافت کے دشمنوں کے حربوں اور ہتھکنڈوں کی توضیح کے ضمن میں، دشمنوں کی سازشوں کے مقابلہ میں قرآن کے موقف سے واقف ہوں گے۔

١۔ فوجی فتنہ

اسلام اور مسلمانوں کے مقابلہ میں دشمنوں کا ایک عام ہتھکنڈا علنی اور ظاہری جنگ و مبارزہ ہے یعنی وہ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ مسلمان ممالک او ران کے افراد پر فوجی حملہ اور ان کو قتل و غارت کر کے اپنے مقاصد تک پہنچیں۔

اس صورت میں اگر چہ ممکن ہے کہ وہ کچھ مسلمانوں کو شہید کردیں اور اسلامی ملک کے لئے نقصانات کا سبب بنیں، لیکن وہ اس طرح اپنے مقاصد تک ہرگز نہیں پہنچ سکتے اور نہ صرف مسلمان راہ دین میں قتل ہونے سے نقصان نہیں اٹھاتے بلکہ اپنے دین و اعتقاد میں اور زیادہ محکم و راسخ ہو جاتے ہیں۔ دینی مکتب فکر میں اس دنیا کی زندگی کا مقصد، برحق دینی اعتقادات او رعبادت و بندگی کے سائے میں انسان کا تکامل اور قرب الٰہی کی منزل تک پہنچنا ہے کہ جس کی معراج کا جلوہ، راہ خدا میں شہادت کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔

دشمنوں کی اس اسٹراٹجی (strategy) اور لشکر کشی کے مقابلہ میں قرآن کا موقف بھی یہ ہے کہ: (وَ قَاتِلُوہُم حَتَّیٰ لاتَکُونَ فِتنَۃٌ وَ یَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلّٰہِ)١؎ تم لوگ ان کفار سے جہاد کرو یہاں تک کہ فتنہ کا وجود نہ رہ جائے اور سارا دین صرف اللہ کے لئے رہ جائے۔

اس جنگ میں مسلمانوں کا نعرہ بھی یہ ہے کہ: (ہَل تَرَبَّصُونَ بِنَا إِلاَّ إِحْدَیٰ الحُسنَیَینِ وَ نَحنُ نَتَرَبَّصُ بِکُم أَن یُّصِیبَکُمُ اللّٰہُ بِعَذَابٍ مِن عِندِہِ أَو بِأَیدِینَا فَتَرَبَّصُوا إِنَّا مَعَکُم مُتَرِبِّصُونَ)٢؎ (اے رسول (ص)!) آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم ہمارے لئے دو نیکیوں (کامیابی اور شہادت) میں سے ایک کے علاوہ انتظار کر رہے ہو اور ہم تمھارے بارے میں اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ خدا اپنی طرف سے یا ہمارے ہاتھوں سے تمھیں عذاب میں مبتلا کردے لہذا اب عذاب کا انتظار کرو ہم بھی تمھارے ساتھ انتظار کر رہے ہیں۔

…………………………………………………

(١) سورہ  انفال، آیت ٣٩ ۔

(٢)سورہ  توبہ، آیت ٥٢ ۔

٢۔ ثقافتی فتنہ

اسلام اور مسلمانوں سے مقابلہ کے لئے دشمنوں کا دوسرا اہم ہتھکنڈا، ثقافتی اور فکری کام ہیں کہ ان میں سے اہم یہ ہے کہ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے انھیں شبہات میں مبتلا کرنا ہے۔

واضح ہے کہ جو ہتھکنڈے اور آلات و وسائل اس قسم کے حملہ میں استعمال کئے جاتے ہیں، وہ نیز اس کے طریقے اور نتائج فوجی حملہ سے بالکل مختلف ہیں۔ اگر فوجی حملہ میں دشمن ترقی یافتہ اسلحوں کے ساتھ مسلمانوں کے جسم کوپاش پاش کرنے اور قتل و غارت کے لئے میدان میں آتا ہے تو دوسری قسم میں قلم اور بیان کے اسلحوں کے ساتھ کوشش کرتا ہے کہ ان کے افکار و عقائد کو گمراہ اور فاسد کردے۔ اگر فوجی حملہ میں دشمن پوری سنگدلی کے ساتھ مسلمان سپاہیوں سے روبرو ہوتا ہے تو ثقافتی حملہ میں خوشروئی، دلسوزی اور خیر خواہی کی صورت میں وارد ہوتا ہے۔ اگر فوجی حملہ میں مسلمان واضح طور پر دشمن کو پہچانتے ہیں تو ثقافتی حملہ میں دشمن شناسی کوئی آسان کام نہیں ہے۔

اگر فوجی حملہ میں دشمن زمین کے اندر بارودی سرنگیں بچھا کر او رنت نئے ترقی یافتہ جنگی اسلحوں کو استعمال کر کے کوشش کرتا ہے کہ خاکی جسموں کو نابود کردے تو ثقافتی حملہ میں اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ شیطانی جال بچھا کر اور بے بنیاد شبہے پیش کرکے روحوں اور فکروں کو چھین لے اور انسانوں کو اندر سے کھوکھلا کر کے انھیں اپنے منافع کی طرف کھینچ لائے۔

اگر فوجی حملہ میں دشمن طاقت رکھتا ہے کہ صرف چند مسلمان مجاہدین کو پست مادی دنیا سے خارج کردے تو ثقافتی حملہ میں شیاطین گھات میں بیٹھے ہیں تاکہ مسلمان قوم کے عظیم سرمائے ان معصوم جوانوں کو، جو کہ دینی علوم و معارف سے کافی آگاہی نہیں رکھتے، گمراہی اور بے دینی کے گڑھے میں ڈھکیل دیں۔ اگرچہ دشمن اس دین ستیز ہتھکنڈے سے بھی کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکیں گے اور مسلمان قوم خصوصاً مسلمان تعلیم یافتہ جوانوں کا طبقہ، کہ جس نے فوجی حملوں میں بھی کامیابی اور سرفرازی حاصل کی ہے، اس بات سے زیادہ ہوشیار ہے کہ دشمن کے فوجی میدان کو ثقافتی حملہ کے میدان میں بدلنے سے غافل رہے، لیکن قرآن کریم نے ثقافتی حملہ کے میدان میں مسلمانوں کی شکست کے عظیم خطرے اور اس سے پیدا ہونے والے آثار و نتائج کے ناقابل تلافی ہونے کی طرف توجہ دلائی ہے اور اس بارے میں مسلمانوں کو تنبیہ کر کے ان سے مطالبہ کیا ہے کہ تمام قوتوں کے ساتھ دین اور خدا کے دشمنوں کے مقابلہ میں اٹھ کھڑے ہوں۔

ثقافتی حملہ کے متعلق قرآن کی تنبیہ

چونکہ فوجی حملہ کے برخلاف ثقافتی حملہ کے برے نتائج و خطرات لوگوں کے دینی افکار و اعتقادات کو متأثر کرتے ہیں اور غفلت کی صورت میں مسلمانوں کی دنیا و آخرت کی سعادت نیز انسانیت خطرے میں پڑجاتی ہے، لہذا قرآن بھی حد سے زیادہ حساسیت کے ساتھ اسے قابل توجہ قرار دیکر اس سے ہوشیار کرتا ہے۔

مسلمان اہل فہم و بصیرت پر یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ظاہری جنگ اور فوجی فتنہ کے محاذ پر شکست کے آثار و نتائج، بہ نسبت ثقافتی حملہ سے غفلت کے آثار و نتائج کے بہت کم ہیں، اس لئے کہ فوجی حملہ میں مسلمانوں کی چند دنوں کی زندگی معرض خطر میں پڑتی ہے لیکن ثقافتی فتنہ اور حملہ میں دین و عقائد او رمسلمانوں کی دنیا و آخرت کی سعادت نہایت خطرے سے دو چار ہوجاتی ہے۔

اسی وجہ سے قرآن نے بھی ”دین میں فتنہ اور ثقافتی حملہ” کو فوجی چڑھائی سے زیادہ بڑا سمجھ کر مسلمانوں کو اس سے غفلت کرنے سے ڈرایا ہے اور فوجی جنگ اور فتنہ کی اہمیت اور اس کے خطرے کو ثقافتی حملہ کے مقابلہ میں کم سمجھا ہے۔

قرآن کریم فرماتا ہے: (وَ اقْتُلُوہُم حَیثُ ثَقِفتُمُوہُم وَ اَئخرِجُوھُم مِن حَیثُ اَئخرَجُوکُم وَ الفِتنَۃُ أَشَدُّ مِنَ القَتلِ)١؎ اور ان مشرکین کو جہاں پاؤ قتل کردو اور جس طرح انھوں نے تم کو آوارہ وطن کردیا ہے تم بھی انھیں نکال باہر کردو اور فتنہ پردازی تو قتل سے بھی بدتر ہے۔

البتہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن اور دینی ثقافت کے مخالفین، صدر اسلام اور آیات قرآن کے نزول کے زمانہ میں زیادہ تر جنگ کے میدانوں میں ظاہری مقابلوں اور فوجی حملوں کے ساتھ اس بات کے درپے تھے کہ اسلام اور مسلمین کو نابود کردیں، لیکن ان سب کے باوجود قرآن کی حساسیت اور تشویش دینی اور ثقافتی فتنہ کے خطرے کے متعلق فوجی حملے کے خطرے سے زیادہ ہے۔

قرآن فرماتا ہے: (وَالفِتنَۃُ أکبَرُ مِنَ القَتلِ)٢؎ فتنہ (فکر شرک) اور اس کا

…………………………………………………

(١)سورہ  بقرہ، آیت ١٩١ ۔

(٢)سورہ  بقرہ، آیت ٢١٧ ۔

گناہ فوجی حملہ اور قتل و غارت سے زیادہ خطرناک ہے کہ ثقافتی فتنہ کے زیادہ خطرناک ہونے کی دلیل اس سے پہلے واضح طور سے بیان کی گئی۔

شرک نئے بھیس میں

عقیدہئ شرک نے عقیدہئ توحید کے مقابلہ میں ہمیشہ پوری تاریخ میں بعض بشر کے افکار کو اپنے قبضہ میں رکھا ہے۔ جن لوگوں نے خدا کی بندگی قبول کرنے اور خالق کائنات کے سامنے تسلیم سے روگردانی کی ہے اور جو لوگ اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے میں لگے رہے ہیں وہ دوسرے لوگوں کے دین حق قبول کرنے سے ناخوش ہوکر مختلف طریقوں سے اس سے روکتے رہے ہیں۔

واضح بات ہے کہ عقیدہئ شرک کے طرفدار ہر زمانے میں اس زمانے کے افکار کے مطابق کوئی طریقہ اختیار کر تے ہیں اور مناسب ہتھکنڈے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے انتخاب کرتے ہیں۔ لہذا صدر اسلام میں اس لحاظ سے کہ عقیدہئ شرک بت پرستی کی شکل میں ظاہر تھا، شرک کے سرغنے اور جو لوگ بندگی ِخدا اوردین حق کو قبول کرنے پر آمادہ نہ تھے وہ پتھر اور لکڑی کے بنے ہوئے بتوں کی تبلیغ کرتے تھے اور انسانوں کو وحدانیت قبول کرنے سے روکتے تھے۔ ان کارستانیوں کی اصل وجہ بھی یہ تھی کہ دین اور توحیدی ثقافت و مکتب فکر کی حاکمیت کی صورت میں ان کے نفسانی خواہشات پورا کرنے کی گنجائش باقی نہ رہ جاتی۔

آج بھی عقیدہئ شرک کی تبلیغ ماڈرن طریقے سے اور علمی نظریہ کی صورت میں مختلف مجامع میں کی جا رہی ہے۔ اگر صدر اسلام میں صرف ٣٦٠ بتوں اور معبودوں کی پوجا کی جاتی تھی اور دنیا پرست انسان لوگوں کے افکار کو بے حس کرنے کے لئے ان کی تبلیغ کرتے تھے، تو آج عقیدہئ شرک کے طرفدار اس کوشش میں ہیں کہ انسانوں کی تعداد کے برابر خیالی بت تراش کر انسانوں کی فکر و عقل کو خداوند متعال سے پھیر کر شیطانی اوہام، خیالات او روسوسوں کی طرف موڑ دیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ ”سیدھے راستوں اور دین کی مختلف قرائتوں” کے نظریہ کا بھی یہی حال ہے، جیسا کہ اس کے عنوان ہی سے معلوم ہوتا ہے، اس نظریہ سے مراد یہ ہے کہ ہر شخص جوبات بھی خدا اور دین کے متعلق دینی کتابوں سے سمجھے اسی کو اسے چاہئے کہ اپنے اعتقاد و عمل کی بنیاد قرار دے، کیونکہ وہی حق اور عین واقعیت ہے۔

اس بنا پر انسانوں کی تعداد اور خدا و دین کے متعلق ان کی مختلف فکروں کے اعتبار سے بہت سے فردی اور خصوصی خدا اور ادیان بن جاتے ہیں۔

واضح ہے کہ یہ بات روح توحید سے جو کہ ”لا الہ الا اللہ” کے نعرہ میں جلوہ گر ہے، تضاد رکھتی ہے اور بالکل اس کے مقابلہ میں قرار پاتی ہے۔

بہرحال چونکہ انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ حساس موضوع یعنی توحید و شرک کا مسئلہ، کہ اس کی دنیا و آخرت کی سعادت اسی سے تعلق رکھتی ہے، درمیان میں ہے، ضروری ہے کہ انسان اپنے عقائد و افکار پر نظر ثانی اور غور و فکر کرے، اپنے عقائد و افکار کو قرآن اور اہلبیت (ع) کے علوم کی کسوٹی پر پرکھے اور ہوا و ہوس سے دور رہ کر منطق و عقل سلیم کے ساتھ اپنے عقائد و افکار کی اصلاح کرے او رخود کو گمراہی کے گڑھے میں گرنے سے نجات دے۔

البتہ خود شکنی اور ہوائے نفس پر غلبہ حاصل کرنا بہت مشکل کام ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت نبی اکرم (ص) نے اسے جہاد اکبر سمجھا ہے، خصوصاً اگر انسان ایسی حالت میں ہو کہ شیاطین اور دشمنان توحید و اسلام اس کی تشویق کریں اور اپنے سیاسی اور سامراجی مقاصد تک پہنچنے اور اسلام کا مقابلہ کرنے کے لئے اسے ایک عالمی شخصیت بنانے کا لالچ دیں۔

اگر چہ ایسی حالت میں انسان کا سنبھل جانا او رجہاد اکبر کے میدان میں قدم رکھنا نیز شیاطین اور د شمنان اسلام کے وعدوں اور دھمکیوں کو خاطر میں نہ لانا ایک انوکھا اور معجزنما کام ہے لیکن ناممکن نہیںہے۔ تاریخ میں ایسے افراد کم نہیں ہیں جو کہ ایک لحظہ میں سنبھل گئے اور اپنے کو نفسانی خواہشات اور جنی اور انسی شیطانوں کے جال سے چھڑا کر ہلاکت سے نجات حاصل کرلی اور توحید کی آغوش میں واپس آگئے۔

”دین میں فتنہ” واقع ہونے کے متعلق قرآن کی پیشین گوئی

قرآن کریم نے مسلمانوں کو سعادت و تکامل تک پہنچنے کے راستوں کی نشاندہی کی ہے اور ایک ایسے روشن چراغ کے مانند جو کبھی خاموش نہیں ہوسکتا، ہدایت کا صراط مستقیم حقیقت کے طلبگار انسانوں کو دکھایا ہے۔

حضرت محمد مصطفی (ص) نے بھی شرک و کفر کے گردو غبار کو انسانیت کے چہرے سے صاف کیا اور امید و کامیابی کا بیج حقیقت کے پیاسے انسانوں کے دل و جان میں بوکر اسے بارور اور پرثمر بنایا نیز حکومت کو توحید کی بنیاد پر قائم کیا۔

اس درمیان ایسے انسان کم نہ تھے جو کہ مصلحت اندیشی کے لحاظ سے مسلمان ہوتے تھے اور ان کا ایمان زبان کے مرحلہ سے آگے نہیں بڑھتا تھا نیز توحید ان کے دلوں میں جگہ نہ پاتی تھی۔

ظاہر سی بات ہے کہ ایسے لوگ جو کہ اپنے نفسانی خواہشات کو خدا کی رضا اور پیغمبر (ص) کے احکام پر مقدم رکھیں، جو کہ باطن میں اسلام اور پیغمبر (ص) کے دشمن تھے، وہ پیغمبر (ص) کے زمانہئ حیات میں مصلحت نہیں دیکھتے تھے کہ آشکار اور علانیہ مخالفت کے لئے اٹھیں، نیز حکومت الٰہی کو گرانے، امام معصوم (ع) کی مخالفت اور لوگوں کو ائمہئ معصومین علیهم السلامکی رہبری سے محروم کرنے کا نقشہ برملا کریں۔ لہذا یہ شیطان اور دنیا پرست انسان اس بات کے منتظر تھے کہ پیغمبر (ص) دنیا سے گزر جائیں تو پھر اپنے منحوس منصوبوں کو عملی جامہ پہنائیں۔

قرآن کریم اس سازش کو پیش نظر رکھ کر ہوشیار کرتا ہے: (أحَسِبَ النَّاسُ أَن یُّترَکُوا أَن یَّقُولُوا آمَنَّا وَ ہُم لایُفتَنُونَ)١؎ کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ وہ یہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور وہ فتنہ میں مبتلا نہیں ہوں گے؟ ایک دن امیر ا لمومنین حضرت علی – قرآن کریم کے بارے میں ارشاد فرما رہے تھے اور لوگوں کواس الٰہی حبل المتین کے محور پر جمع رہنے اور اس کے احکام پر عمل کرنے کی دعوت دے رہے تھے اور اہل سعادت و شقاوت کو جنت و جہنم کی خبر دے رہے تھے کہ ایک شخص نے اٹھ کر فتنہ کے متعلق سوال کیا اور حضرت (ع) سے خواہش کی کہ اس بارے میں حضرت پیغمبر (ص) کا ارشاد بیان فرمائیے۔

…………………………………………………

(١) سورہ  عنکبوت، آیت ٢ ۔

حضرت (ع) نے جواب میں فرمایا: جب خداوند متعال نے اس آیہئ کریمہ (أَحَسِبَ النَّاسُ…) کو نازل فرمایا اور لوگوں کودین میں فتنہ واقع ہونے اور نہایت بڑے امتحان سے خبردار کیا، تو میں نے سمجھا کہ یہ فتنہ پیغمبر (ص) کی وفات کے بعد ہوگا۔

میں نے پیغمبر (ص) سے سوال کیا کہ یہ فتنہ جو کہ دین میں واقع ہوگا اور خداوند متعال نے جس کی خبر دی ہے کون سا فتنہ ہے؟ اور اس کی حقیقت کیا ہے؟

تو پیغمبر (ص) نے فرمایا کہ: میری امت میرے بعد فتنہ سے دوچار ہوگی۔

یہاں پر اس بات سے قبل کہ پیغمبر (ص) اپنی وفات کے بعد کے فتنوں کی قسموں کو بیان کریں، حضرت علی – اس خوف سے کہ کہیں راہ خدا میں شہادت کی کامیابی سے محروم ہو جائیں حضرت پیغمبر اسلام (ص) کو جنگ احد کی یاد دلاتے ہیں اور عرض کرتے ہیں: یقینا آپ کو یاد ہے کہ جنگ احد میں عالم اسلام کی کیسی بڑی بڑی شخصیتوں (مثلاً حضرت حمزہ سید الشہداء وغیرہ) نے سبقت حاصل کر لی تھی اور شہادت کی عظیم کامیابی پر فائز ہوئے اور میرے اور راہ خدا میں شہادت (اولیائے الٰہی کے اس معشوق) کے درمیان جدائی ہوگئی اور یہ جدائی مجھے بہت گراں لگی۔

آپ کو یاد ہے کہ آپ نے مجھے میری تمنا حاصل ہونے کی بشارت دی اور فرمایا: راہ خدا میں شہادت تمھیں ملنے والی ہے اور میں اسی طرح شہادت کے انتظار میں ہوں۔

یا رسول اللہ(ص)! آیا وہ فتنہ جو کہ آپ کے بعد واقع ہوگا میری شہادت تک پہنچے گا؟

پیغمبر (ص) نے جواب میں فرمایا کہ ہاں تم اپنی تمنا کو پہنچو گے۔

پھر پیغمبر (ص) امیر المومنین (ع) سے پوچھتے ہیں کہ جس وقت تم ایسے فتنے سے دوچار ہوگے تو تم کہاں تک صبر کرو گے؟

حضرت (ع) نے فرمایا: یا رسول اللہ(ص)! یہاں صبر کی جگہ نہیں ہے، بلکہ یہ ان امور میں سے ہے کہ اس پر شکر کرتا ہوں اور اسے اپنے لئے بشارت و خوشخبری سمجھتا ہوں۔

اس وقت حضرت پیغمبر اکرم (ص) ان فتنوں کے گوشوں کی طرف اشارہ فرماتے ہیں جو کہ دین میں واقع ہوں گے اور لوگوں کو ان سے ہوشیار کرتے ہیں۔

پیغمبر (ص) کے بعد فتنوں کی پیشین گوئی

حضرت پیغمبر اسلام (ص) حضرت علی – کو حضرت (ع) کی تمناپوری ہونے اور شہادت کی بشارت سے متعلق اطمینان دلانے کے بعد حضرت (ع) سے خطاب فرماتے ہیں اور ان فتنوں کی قسموں کو بیان فرماتے ہیں جو کہ دنیا پرست افراد کے ہاتھوں دین میں واقع ہوں گے۔

آنحضرت (ص) اپنے ارشاد میں فتنہ کی تین اہم قسموں کو بیان فرماتے ہیں:

”یَاعَلِیُّ! اِنَّ الْقَومَ سَیُفتَنُونَ بِاَموَالِہِم وَ یَمُنُّونَ بِدِینِہِم عَلٰی رَبِّہِم وَ یَتَمَنَّونَ رَحمَتَہُ وَ یَأمَنُونَ سَطوَتَہُ یَستَحِلُّونَ حَرَامَہُ بِالشُّبہَاتِ الْکَاذِبَۃِ وَ الأَہوَاءِ السَّاہِیَۃِ، فَیَستَحِلُّونَ الْخَمرَ بِالنَّبِیذِ وَ السُّحتَ بِالہَدِیَّۃِ وَ الرِّبَا بِالبَیعِ”١؎

اے علی! عنقریب لوگوں کو ان کے اموال کے ذریعہ آزمایا جائے گا اور وہ اپنے

…………………………………………………

(١) بحار الانوار، ج٣٢، ص ٢٤١ ۔

دین کے ذریعہ اپنے رب پر احسان رکھیں گے اور اس کی رحمت کی تمنا کریں گے اور خود کو اس کے غلبہ سے محفوظ سمجھیں گے جھوٹے شبہات اور بیہودہ خواہشوں کے سبب حرام کو حلال قرار دیں گے اور شراب کو آبِ جو، رشوت کو تحفہ اور سود کو تجارت قرار دیکر حلال سمجھ لیں گے۔

١۔ مالی فتنہ

سب سے پہلا مسئلہ کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) جس کی طرف اشارہ فرماتے ہیں، اموال میں فتنہ ہے۔ جو لوگ اسلامی فقہ سے آگاہ ہیں ان پر پوشیدہ نہیں ہے کہ اسلام کے عملی احکام کا ایک عظیم حصہ اموال، کسب و اکتساب، تجارت اور اقتصادی امور سے متعلق ہے۔

اسلام میں لوگوں کے حقوق کی طرف سب سے زیادہ اور اچھی طرح شارع مقدس نے توجہ دی ہے۔

خرید و فروش اور کسب و تجارت کے وہ اصول و ضوابط اور قواعد و احکام کہ شرع مقدس نے مسلمانوں کے لئے جن کی پابندی کو لازم قرار دیا ہے وہ ایسے اصول و قواعد ہیں جو کہ انسانوں کی اجتماعی زندگی کے حقیقی مصالح کی بنیاد پر تشریع اور نافذ کئے گئے ہیں تاکہ لوگ ان پر عمل کر کے سالم زندگی اور دنیوی و اخروی سعادت سے بہرہ مند ہوں۔ چونکہ معاشرہ میں سب سے زیادہ اقتصادی روابط بیع و شراء اور خرید و فروخت کی بنیاد پر انجام پاتے ہیں، اجتماعی زندگی کا وجود و قوام اور انسانوں کے درمیان تعلق و تعاون ایک دوسرے کی ضرورتیں پوری کرنے میں لین دین اور معاملات پر ا ستوار ہے او ردوسری طرف انسان کے اندر حرص اور لالچ کے جذبہ کی وجہ سے سودی معاملات جو کہ اسلام کی نظر میں سب سے زیادہ منفور اور بدترین قسم کے معاملات ہیں جو کہ لوگوں کے درمیان رائج رہے ہیں، لہذا قرآن نے سودی معاملات اور سودی لین دین سے شدت کے ساتھ منع کیا ہے۔

قرآن کا لہجہ اس کام سے منع کرنے کے متعلق نہایت سخت ہے یہاں تک کہ اسے خداوند متعال سے جنگ کے مانند سمجھتا ہے: (فَاِن لَّم تَفعَلُوا فَأذَنُوا بِحَربٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُولِہِ)١؎ اگر تم نے سودی معاملات سے ہاتھ نہیں کھینچا تو سمجھ لو کہ خدا اور اس کے رسول (ص) سے اعلان جنگ کیا ہے۔

حضرت پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں کہ: میرے بعد لوگ اپنے اقتصادی روابط اور اموال میں فتنہ سے دوچار ہوں گے اور ربا (سود) کی حرمت کے متعلق قرآن کے صریحی حکم کو نظر انداز کردیں گے اور خرید و فروخت کے بہانے سے، بیہودہ حیلوں کے ذریعہ سود کھائیں گے۔

٢۔ اعتقادی فتنہ

جس بات کی ہر ایک عقلمند انسان اپنے تمام وجود کے ساتھ تصدیق کرتا ہے اور تصدیق کے بعد اسے اس کے لوازم کا پابند ہونا چاہئے وہ یہ ہے کہ ہم تمام انسان خدا کی مخلوق اور اس کے بندے ہیں۔ خداوند متعال ہی نے عالم کو خلق کیا ہے او رہم کو وجود کی

(١) سورہ  بقرہ، آیت ٢٧٩ ۔

نعمت سے بہرہ مند کیا ہے اور اس لئے کہ ہم انسان تکامل و سعادت تک پہنچیں اپنے بہترین بندوں کو آسمانی کتابوں کے ساتھ بھیج کر اپنی نعمت کو ہم پر تمام کردیا ہے۔

دین و ہدایت کا شکر و سپاس، جو کہ نعمت وجود کے بعد سب سے بڑی الٰہی نعمت ہے، خدا کی بندگی اور عبودیت قبول کرنے کے علاوہ تحقق نہیں پیدا کرسکتا کہ یہ بھی انسان کے حق میں سب سے زیادہ بلند مرتبہ سمجھا جاتا ہے۔

دوسری طرف خداوند متعال ہی انسانوں پر احسان کرتا ہے کہ اس نے اپنی نعمت ان کے حق میں تمام کی ہے اور ان کے پاس ہدایت ودین حق کو بھیجا ہے۔ سچ ہے کہ کتنے کم ہیں ایسے لوگ جو کہ اپنی ناقدری اور بے وقعتی کو پہچانتے ہیں اور خدا کی عظمت اور ان نعمتوں کی بزرگی کو سمجھتے ہیں جو انسان کے لئے پیدا کی گئی ہیں او ر اپنے حق میں خدا کے لطف و کرم کو درک کرتے ہیں۔

سچ ہے کہ کتنی بری اور ناپسند بات ہے اور کتنی بڑی ناشکری ہے کہ نادان انسان خدا پر احسان جتائے کہ اس نے اس کی ہدایت و رہنمائی کو قبول کیا ہے، وہ اس بات سے غافل ہے کہ خدا نے خود ہم پر احسان کیا ہے اس لئے کہ اس نے ہم کو دین حق کی ہدایت کی ہے۔

قرآن کریم حضرت پیغمبر اکرم (ص) کو خطاب کر کے فرماتا ہے: (یَمُنُّونَ عَلَیکَ أَن أَسلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَیَّ اِسلامَکُم بَلِ اللّٰہُ یَمُنُّ عَلیَکُم أن ہَدَاکُم لِلاِیمَانِ)١؎ یہ لوگ آپ پر احسان جتاتے ہیں کہ اسلام لے آئے ہیں تو

(١) سورہ  حجرات، آیت ١٧ ۔

آپ کہہ دیجئے کہ ہمارے اوپر اپنے اسلام کا احسان نہ رکھو یہ خدا کا احسان ہے کہ اس نے تم کو ایمان لانے کی ہدایت دیدی ہے۔

یہ تم پر واجب و لازم ہے کہ بندگی ، اطاعت اور عبادت کے ساتھ اس حق کو شائستہ طور سے ادا کرو، نہ یہ کہ ایمان لانے کے بہانے سے اپنے کو صاحب حق سمجھو او رخداوند متعال سے تقاضا کرو۔

اس بنا پر دینی مکتب فکر میں اصل، خدا کے سامنے تسلیم، بندگی اور عبودیت ہے، نہ کہ خدا کے سامنے انانیت اورتکبر ۔

حضرت پیغمبر اکرم (ص) خدا کے سامنے تسلیم و بندگی کے جذبہ کے بجائے انانیت، تکبر اور استکباری جذبہ رکھنے کو دین میں فتنہ کا ایک مظہر بتاتے ہیں۔

آنحضرت (ص) فرماتے ہیں: میرے بعد دین میں فتنے کے مظاہر میں سے ایک مظہر یہ ہوگا کہ لوگ بجائے اس کے کہ دین و ہدایت کی نعمت پر خدا کے شکر گزار ہوں اور دین حق کی خاطر اس کے ممنون ہوں، خود خدا پر احسان جتائیں گے کہ دین کو قبول کیا ہے، اپنے کو صاحب حق اور خدا کا قرضخواہ سمجھیں گے اور خدا سے (قرض کا تقاضا کرنے کے مانند) جزا اور رحمت کی امید رکھیں گے اسی طرح ایمان لانے کے عوض (متکبرانہ طریقے سے) اپنے کو کسی بھی طرح کی سزا کا مستحق نہ سمجھیں گے، اگرچہ خداوند متعال کوئی بھی جزا و سزا، بغیر دلیل کے کسی بندے کو نہیں دیتا، لیکن پیغمبر اکرم (ص) ایسا جذبہ رکھنے کو ”دین میں فتنہ” سمجھتے ہیں، اس لئے کہ ایسا جذبہ رکھنے والے جس وقت دینی احکام کی پابندی ان کے نفسانی خواہشات کے موافق نہیں ہوتی تو آسانی کے ساتھ غلط توجیہیں کر کے خود کو اور دوسروں کو فریب دینے لگتے ہیں۔

اس بنا پر خدا کے سامنے ایسا استکباری اور متکبرانہ جذبہ رکھنا، دین کی حقیقت اوراسلام کی روح (کہ صرف دین خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونا ہے) کے موافق نہیں ہے۔

٣۔ جھوٹی توجیہیں خطرناک ترین فتنہ

دین میں سب سے زیادہ خطرناک فتنہ، کہ جس نے پیغمبر (ص) کو بھی تشویش میں رکھا اور پیغمبر (ص) نے اسے حضرت علی – سے بیان کرتے ہوئے اس سے ہوشیار کیا تھا، وہ دین میں تحریف کی سازش اور اس کا فتنہ نیز منزل اعتقاد میں الٰہی محرمات کو حلال کرنا ہے۔ اگر چہ منزل عمل میں احکام شریعت کی رعایت نہ کرنا اور پروردگار کی خدائی کے سامنے استکباری جذبہ رکھنا بہت بڑا گناہ ہے، لیکن اس سے زیادہ خطرناک یہ ہے کہ انسان اپنے دین مخالف اعمال اور گناہوں کے لئے غلط اور جھوٹی توجیہیں گڑھنے لگے اور اپنے نفسانی خواہشات پر دین و شریعت کا رنگ چڑھانے لگے۔

اس صورت میں شیطان تمام قوتوں کے ساتھ مسلمان نما دنیا پرستوں کی مدد کے لئے دوڑ پڑتا ہے تاکہ احکام دین کی تحریف اور شبہات پیدا کرنے میں ان کی مدد کرے۔

حضرت پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں فتنہ پرور افراد اپنے نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے غلط افکار و تخیلات، جھوٹی توجیہات اور شبہات کے ذریعہ اس بات کے درپے ہیں کہ الٰہی محرمات کو حلال کردیں اور دین خدا کے ساتھ کھلواڑ کریں۔

جس بات کی یاد دہانی ضروری ہے اور حضرت پیغمبر اکرم (ص) بھی فتنوں اور فتنہ پروروں کے سامنے حضرت علی – کے فریضہ کے بیان میں جس بات کی طرف توجہ دیتے ہیں، وہ ایسی فتنہ انگیزیوں کے باقی رہنے کا مسئلہ ہے جو کہ امام زمانہ حضرت صاحب الامر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور تک جاری رہے گا۔ جو کچھ پیغمبر اکرم (ص) نے شراب کو اس بہانے حلال کرنے کے عنوان سے کہ شراب وہی حلال کشمش ہے، یا رشوت کو تحفہ اور ہدیہ کے بہانے سے حلال سمجھنے، اور سود خواری کو خرید و فروخت کے بہانے حلال سمجھنے کو بیان کیا ہے، وہ صرف ان فتنوں کے چند نمونے ہیں جو کہ دین میں واقع ہوں گے، نہ یہ کہ یہ مسئلہ فقط انھیں چیزوں میں منحصر ہے۔

آج بھی ایسے افراد مسلمانوں کے درمیان پائے جاتے ہیں جو ظاہری طور سے مسلمان ہیں اور ہرگز اپنے کو اسلام کے دائرہ سے خارج نہیں سمجھتے، لیکن باطنی اور روحی لحاظ سے وہ ایسے نہیں ہیں کہ احکام الٰہی کو تہ دل اور رغبت کے ساتھ قبول کریں۔

یہ لوگ جن میں سے بعض اجتماعی حیثیتوں کے بھی حامل ہیں ایک طرف مغربی ثقافت اور مکتب فکر سے متأثر ہو کر خود باختگی کا شکار ہوگئے ہیں اور اپنی دینی شخصیت سے فاصلہ اختیار کرلئے ہیں، اور دوسری طرف ان کی معلومات دین کے معارف کے متعلق ناکافی ہیں۔حالانکہ ان لوگوں میں دین کے خصوصی مسائل کے متعلق اظہار نظر کی تھوڑی سی بھی صلاحیت نہیں ہے۔ بس مسند قضاوت پر بیٹھ جاتے ہیں اور کبھی کبھی دشمنان دین کی تشویق اور شیطان کے وسوسوں سے متاثر ہو جاتے ہیں اور شعوری یا لاشعوری طور پر ایسی باتیں کہتے ہیں جو اسلام کے دائرہ سے خارج ہو جانے اور انکار دین کا باعث ہوتی ہیں۔

مثال کے طور پر اگر کوئی کہے کہ اسلام کے قوانین صدر اسلام اور اس زمانہ کے لوگوں سے مخصوص ہیں اور اس کے احکام صدر اسلام کے معاشروں کے مناسب اور موافق تھے، لیکن زمانہئ حال اور اکیسویں صدی میں قرآن اور احکام اسلام معاشرہ کی رہبری کے لئے کافی نہیں ہیں لہذا اس کے احکام کو انسانوں کی صوابدید اور پسند کے مطابق تبدیل کرنا چاہئے، یا کوئی شخص یہ کہے کہ اکیسویں صدی کے لوگ اپنے زمانہ کے مطابق ایک نبی و پیغمبر کے محتاج ہیں، ایسی باتیں اگر چہ انکار دین کے معنی میں سمجھی جاتی ہیں، لیکن خود یہ باتیں پہلے درجہ میں دین و احکام دین کی صحیح شناخت نہ رکھنے کی نشانی ہیں۔

ضروری ہے کہ ایسے افکار و نظریات کے حامل افراد اظہار نظر اور زبان کھولنے سے پہلے صحیح طور سے اپنی بات کے معنی اور ان کے لوازم و نتائج پر توجہ دیں۔ اس صورت میں شاید ایسی باتیں کہنے سے پرہیز کریں کہ جن سے ”دین میں فتنہ” کی بو آتی ہے، اور خود کو دشمنان اسلام و قرآن اور شیطان کے جال سے چھڑا لیں۔

عام لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے ماحول کو تاریک کرنا

جو کچھ اب تک بیان کیا گیا اس سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ دین و قرآن کے دشمنوں کے ہتھکنڈے اور وسائل فوجی حملہ اور فتنہ میں، ثقافتی یلغار اور فکری حملہ اور فتنہ کے ہتھکنڈوں سے بالکل مختلف ہیں۔ کہا گیا کہ وہ لوگ فوجی حملہ کے برخلاف فکری فتنہ جاری رکھنے میں آشکارا طور پر انکار دین اور لوگوں کے دینی مکتب فکر کی مخالفت کا موقف ظاہر نہیں کرتے اور علانیہ طور سے اپنے قلبی اعتقادات کو ظاہر نہیں کرتے۔ کیونکہ اس صورت میں جو لوگ ان کی باتیں سنتے ہیں وہ ان کی باتوں میں غور و فکر کر کے یا ان کو قبول کر لیتے ہیں یا ان کے بطلان کو سمجھ جاتے ہیں اور ہر حال میں ان کے باطل عقائد کو قبول کرنے کی صورت میں جو گمراہی آجاتی ہے وہ علم و آگاہی کی بنیاد پر ہوتی ہے اور یہ جو کچھ ہوا ہے اسے فتنہ کا نام نہیں دیا جاسکتا کیونکہ فریب اور افکار میں تحریف کے ذریعہ گمراہ نہیں کیا گیا ہے۔

جو کچھ آج ہمارے معاشرہ میں ثقافتی فتنہ کے عنوان سے پایا جاتا ہے اور قرآن اور دینی مکتب فکر کے دشمن پوری کوشش کے ساتھ فکری حملہ کے ذریعہ اس کو انجام دے رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ معاشرہ کے ثقافتی اور فکری ماحول کو اس طرح آشفتہ اور تیرہ و تار بنادیں کہ لوگ خصوصاً طالب علم جوان طبقہ، حق و باطل کی تشخیص کی قدرت کھو بیٹھے اور لاشعوری طور پر ان کے باطل اور گمراہ کن افکار و اعتقادات کے جال میں پھنس جائے۔

واضح سی بات ہے کہ اگر ایک ملک کا تعلیم یافتہ طبقہ فکری انحراف سے دوچار ہو جائے تو اس معاشرہ کے عام لوگوں کے انحراف اور گمراہی کا میدان بھی ہموار ہو جاتا ہے کہ ”اِذَا فَسَدَ الْعَالِمُ فَسَدَ الْعَالَمُ” جب عالم فاسد و گمراہ ہو جاتا ہے تو سارا عالم فاسد و گمراہ ہو جاتا ہے۔

اس بنا پر مذکورہ ثقافتی فتنہ کہ جس سے پیغمبر اکرم (ص) نے خبردار کیا ہے، وہ ان خطرناک ترین امور میں سے ہے جو کہ لوگوں کی دنیا و آخرت کی سعادت کو خطرے میں ڈالتا ہے۔

ہمارا خیال ہے کہ ایسے خطروں سے مقابلے کے لئے اسلامی حکومت کو چاہئے کہ حقائق دین بیان کرنے اور قرآن کے مکتب فکر اور معارف کو نشر کرنے کی قدرت کے اعتبار سے اتنی قوی ہو، اور پرائمری (مکتب) سے لیکر کالج اور یونیورسٹی تک کے تعلیمی نظام نیز ملک کے تمام ثقافتی مراکز کو اپنی دقیق نظارت کے تحت رکھے اتنا کہ اسلام کے دشمن اور بدخواہ افراد ثقافتی اور فکری ماحول کو پرآشوب کر کے دوسروں کو گمراہ کرنے پر قادر نہ ہوں۔

دوسری طرف علمائے دین کا اہم ترین فریضہ بھی لوگوں کی ہدایت و اصلاح کرنا (خصوصاً معاشرہ کے جوان طبقہ کی اصلاح اور ہدایت جو کہ دینی معارف اور قرآنی علوم سے کافی آشنائی نہیں رکھتے) اور ثقافتی فتنہ کا مقابلہ کرنا ہے۔

یہ دینی علماء کا فریضہ ہے کہ توضیح و تفصیل کے ساتھ عوام او رجوان نسل کو ثقافتی اوراعتقادی خطروں سے اور دشمنان دین کی سازش سے آگاہ کریں اور انھیں شیطانی جالوں سے بچائیں۔ اور یہ دیندار لوگ ہی ہیں جو کہ باعمل دینی علماء کی حمایت و نصرت کے ساتھ معاشرہ کی ہدایت کے لئے اہم اور بڑے فرائض کے انجام دینے میں ان کا ساتھ دے سکتے ہیں۔

جیسا کہ کتاب کے شروع میں بیان کیا تھا اب ہم اس حصہ میں حضرت علی – کی نظر سے نہج البلاغہ میں مذکورہ دینی ثقافت اور مکتب فکر کے مخالفین کے علل و مقاصد کو ذکر کر تے ہیں۔ پہلے ہم حضرت علی – کی نظر سے مذکورہ افراد کا تعارف کرائیں گے پھر بحث کو دینی مکتب فکر اور قرآنی تعلیمات و احکام کی مخالفت میں ان افراد کے علل و مقاصد کو بیان کر کے ختم کردیں گے۔

دینی معارف میں تحریف کرنے والے حضرت علی – کی نظر میں

امیر المومنین حضرت علی – ان لوگوں کو جو حقائق دین میں تحریف کرنا اور لوگوں کی دینی تہذیب و ثقافت کو برباد کرنا چاہتے ہیں، عالم نما جاہل کہتے ہیں۔

حضرت علی(ع) ارشاد فرماتے ہیں: ”وَ آخَرُ قَد تُسَمَّی عَالِمًا لَیسَ بِہِ”١؎ قرآن کے سچے پیرووں کے مقابل ایک دوسرا گروہ بھی ہے جو کبھی کبھی معاشرہ کے درمیان عالم و دانشور تصور کیا جاتا ہے، اس نے اپنا نام عالم رکھ لیا ہے حالانکہ اسے علم سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔

ایسے لوگ حقیقت سے خالی اورعاریتی عناوین سے سوء استفادہ کر کے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ ممکن ہے یہ سوال قارئین کے سامنے آئے کہ تو پھر جو کچھ یہ لوگ علمی اور دینی مطالب کے نام سے بیان کرتے ہیں وہ کیا ہے؟ وہ لوگ جو اپنی باتوں کو دین و قرآن سے ماخوذ قرار دیتے ہیں ان کو حضرت علی – جواب دیتے ہیں: ”فَاقْتَبَسَ جَہَائِلَ مِن جُہَّالٍ”٢؎ یہ لوگ جو کچھ دین سے اپنے اخذ شدہ مفاہیم اور علمی مطالب کے نام سے بیان کرتے ہیں اور دین کی مختلف قرائتوں کے بہانے سے دین پر اپنے باطل عقائد لادنا چاہتے ہیں، وہ ایسی جہالتیں ہیں جو کہ دوسرے جاہل و نادان انسانوں سے لی گئی ہیں اور وہ انھیں دینی معارف اور علمی مطالب کے نام سے بیان کرتے ہیں۔

شاید آپ کو تعجب ہو کہ کیسے ممکن ہے کہ لوگ جہل و نادانی کو دوسروں سے حاصل کرتے ہیں؟ دوسروں سے جہل و نادانی کے حاصل کرنے کے کیا معنی ہیں؟ اس بات کے لئے کہ ہم حضرت علی – کے کلام کے ا عجاز سے واقف ہوں اور حق سے منحرف افراد

(١) نہج البلاغہ ، خطبہ ٨٦ ۔

(٢)نہج البلاغہ ، خطبہ ٨٦ ۔

کے مقابل اصلاح و ہدایت سے متعلق اپنی ذمہ داری سے زیادہ سے زیادہ آشنا ہوں، دوسروں کی ان جہالتوں او رنادانیوں سے جو آج علمی سوغاتوں کے نام سے بیان کی جارہی ہیں، عالم نما جاہلوں کے اقتباس کے ایک نمونہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

آج کل مغرب میں یہ فلسفی فکر رائج ہے کہ حصول علم انسان کے لئے نا ممکن ہے اور انسان کو چاہئے کہ ہر چیز میں شک کرتاہو اور ہرگز کسی چیز کے بارے میں یقین پیدا نہ کرے۔

اس نظریہ کے طرفدار معتقد ہیں کہ اگر کوئی شخص کہے کہ میں کسی مطلب اور بات کا یقین رکھتا ہوں تو یہ اس کی نافہمی اور حماقت کی نشانی ہے، اس لئے کہ کسی چیز کا علم ممکن ہی نہیں ہے۔

وہ لوگ اس شک و جہل پر بڑے فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ علم و دانش اور عقل مندی کی علامت یہ ہے کہ انسان کسی مطلب کا ، خواہ دینی ہو یا غیر دینی، یقین نہ کرے۔ ایسی اٹکل پچو باتیں تقریباً ایک سو سال سے اہل یورپ کے درمیان چھڑی ہوئی ہیں اور اس سے پہلے شکّاکین١؎ کی فکری بنیاد رہی ہیں۔

آج کل ہمارے معاشرہ میں بھی کچھ لوگ ان کی جاہلانہ باتوں کومبنیٰ قرار دیکر اسی بات کے درپے ہیں کہ لوگوں کے دینی معتقدات میں شک و شبہہ پیدا کر کے، اس بہانے سے کہ ہم کسی چیز کے متعلق یقینی معرفت نہیں حاصل کرسکتے، ان کو اپنے دینی اعتقادات میں

(١) شکّاکین: قدیم یونان میں حکماء کا ایک گروہ تھا، جو اس بات کا قائل تھا کہ تجربہ سے ماوراء کسی بھی چیز کا علم محال ہے اور کسی امر میں قطعی رائے اور حکم کا اظہار نہیں کرنا چاہئے اور تمام امور کو شک و شبہہ کے ساتھ دیکھنا چاہئے (مترجم)۔

سست اور کمزور کردیں اور اپنے نفسانی خواہشات اور مقاصد کو عملی جامہ پہنائیں۔

نرالی بات یہ ہے کہ وہ لوگ ان باتوں کو علمی مطالب کے نام سے بیان کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہمارے بافہم اور نکتہ سنج لوگ ان کو قبول کرلیں۔

امیر المومنین حضرت علی – پوری تاریخ میں ایسے شیطان صفت انسانوں کے وجود کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”فَاقْتَبَسَ جَہَائِلَ مِن جُہَّالٍ وَ اَئَضَالِیلَ مِن ضُلَّالٍ”١؎ وہ لوگ ایک گمراہ او رجاہل گروہ سے جاہلانہ اور گمراہ کن باتیں لے لیتے ہیں اور ان کو علمی مطالب کے عنوان سے بیان کرتے ہیں۔ ان کی علمی بات یہ ہے کہ ہر چیز میں شک کرنا چاہئے اور بشر کو کسی چیز میں علم و یقین نہیں پیدا کرنا چاہئے، دینی امور میں ہر شخص جو بھی سمجھتا ہے وہی حق ہے، اس لئے کہ اصلاً کوئی حق و باطل وجود نہیں رکھتا، حق و باطل کے لئے ہر شخص کی ذاتی سمجھ کے علاوہ کوئی معیار نہیں پایا جاتا۔

”وَ نَصَبَ لِلنَّاسِ اَشْرَاکاً مِن حَبَائِلَ غُرُورٍ وَ قَولِ زُورٍ”٢؎ اس گمراہ و نادان گروہ اور عالم نما جاہلوںنے مکر و فریب اور جھوٹی باتوں کے جال بچھا دیئے ہیں اور لوگوں کو اپنے گمراہ کن اقوال و اعمال سے فریب دیتے ہیں۔

”قَد حَمَلَ الْکِتَابَ عَلٰی آرَائِہِ”٣؎ یہ لوگ قرآن کریم کی تفسیر اپنی رائے سے کرتے ہیں اور اس کی آیات کو اپنے افکار و خیالات پر حمل کرتے ہیں اور حق کو اپنے نفسانی میلانات و خواہشات کے مطابق قرار دیتے ہیں۔

(١) نہج البلاغہ، خطبہ ٨٦ ۔     (٢)گزشتہ حوالہ ، خطبہ ٨٦ ۔    (٣)گزشتہ حوالہ ، خطبہ ٨٦ ۔

پھر حضرت علی – ان افراد کے تبلیغاتی ہتھکنڈوں کو قابل توجہ قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں: وہ لوگ لوگوں کی توجہ اور دوسروں کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے لوگوں کو گناہان کبیرہ اور ان کے برے انجام سے محفوظ قرار دیتے ہیں اور لوگوں کو ان کے ا نجام دینے کی تشویق کرتے ہیں اور جرائم و معاصی کے ارتکاب کو لوگوں کی نظر میں آسان اور بے اہمیت بنادیتے ہیں۔

یہ لوگ حقیقت میں ان حرمت شکنیوں کے ذریعہ لوگوں میں دینی غیرت اور خدا ترسی کے جذبہ کو کمزور کردیتے ہیں۔

حضرت علی – فرماتے ہیں: یہ لوگ بحث و گفتگو میں ایسا ظاہر کرتے ہیں کہ ہم شبہات کے مواقع پر توقف کرتے ہیں اور مشکوک و مشتبہ احکام اور باتیں کہنے سے پرہیز کرتے ہیں، حالانکہ یہ لوگ دین و شریعت کے احکام و موازین سے بے خبر اور شبہات کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں۔

باتوں میں اس طرح اظہار کرتے ہیں کہ ہم خلاف دین احکام اور بدعتوں سے الگ رہتے ہیں، حالانکہ بدعتوں ہی کے درمیان اٹھتے بیٹھتے ہیں چنانچہ دین کے بارے میں وہ جو بات اپنی رائے سے کہتے ہیں، وہ بدعت ہے۔

ایسے انسان اگر چہ صورت میں انسان ہیں لیکن ان کا قلب و روح جانوروں کا قلب و روح ہے، کیونکہ یہ نہ تو باب ہدایت کو پہچانتے ہیں کہ اس کا اتباع کر کے ہدایت یافتہ ہو جائیں، اور نہ ضلالت و گمراہی کے دروازے کو پہچانتے ہیں کہ اس سے الگ رہیں، یہ افراد در حقیقت زندوں کے درمیان چلتی پھرتی لاشیں ہیں۔

پھر حضرت علی – لوگوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں: حق و باطل واضح ہو جانے اور ہر ایک کو پہچاننے کے بعد آخر تم لوگ کدھر جارہے ہو اور تمھیں کس سمت موڑا جارہا ہے؟ جبکہ حق کے عَلَم قائم ہیں اور اس کی آیات اور نشانیاں واضح ہیں، منارے نصب کئے جاچکے ہیں اور تمھیں بھٹکایاجارہا ہے اور تم بھٹکے جارہے ہو، دیکھو تمھارے درمیان تمھارے نبی (ص) کی عترت (اہلبیت(ع)) موجود ہے، یہ سب حق کے زمامدار، دین کے عَلَم اور صداقت کی زبان ہیں، انھیں قرآن کریم کی بہترین منزل پر جگہ دو اور ان کے پاس اس طرح وارد ہو جس طرح پیاسے اونٹ چشمہ پر وارد ہوتے ہیں۔

تمھیں اہلبیت رسول (ص) کے انوار ہدایت سے روشنی حاصل کرنا چاہئے، تو پھر کیوں اپنے کو علوم اہلبیت (ع) سے محروم کئے ہو اور حیران و سرگرداں کیوں ہو؟

قرآن کریم حضرت علی – کے بیان سے بھی زیادہ سخت بیان کے ساتھ ان عالم نما جاہلوں کا نام لیتا ہے اور لوگوں کو ان کی فریب کاریوں سے ڈارتے ہوئے فرماتا ہے: ”وَ کَذٰلِکَ جَعَلنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوّاً شَیَاطِینَ الاِنسِ وَ الجِنِّ یُوحِی بَعضُہُم اِلٰی بَعضٍ زُخْرُفَ الْقَولِ غُرُوراً وَ لَو شَاءَ رَبُّکَ مَافَعَلُوہُ فَذَرْہُم وَ مَایَفتَرُونَ”١؎ اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے انس و جن کے شیاطین کو ان کا دشمن قرار دیا ہے یہ آپس میں ایک دوسرے کی طرف دھوکہ دینے کے لئے مہمل باتوں کے اشارے کرتے ہیں اور اگر خدا چاہ لیتا تو یہ ایسا نہ کرسکتے ، لہذا اب آپ انھیں ان کے افترا کے حال پر چھوڑ دیں۔

(١) سورہ  انعام، آیت ١١٢ ۔

انبیاء (ع) کے دشمن اور ہدایت الٰہی کے مخالف اگر چہ ظاہری صورت میں انسان ہیں، لیکن چونکہ ان کی تمام کارستانیاں اور کوششیں، دوسروں کو گمراہ کرنے، شبہوں اور وسوسوں میں ڈالنے، لوگوں کے دینی اعتقادات کو کمزور کرنے اور ہدایت الٰہی کا مقابلہ کرنے کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں رکھتیں، لہذا قرآن ان کو شیاطین انس کہتا ہے اور لوگوں کو ان کی پیروی سے روکتا ہے۔

قرآن کے ساتھ مسلمان نما دنیا پرستوں کا برتاؤ

جو لوگ خدا پر ایمان اوراس کے لوازم کے اعتبار سے ذرا سا بھی قوی نہیں ہیں اور شائستہ و بائستہ طور سے ایمان ان کے قلب و روح میں رسوخ نہیں کئے ہے، وہ لوگ نفسانی خواہشات اور خدا کی خواہش نیز دینی اقدار کے درمیان تعارض کے موقع پر خوشروئی کا اظہار نہیں کرتے اور روحی اعتبار سے چاہتے ہیں کہ دینی احکام و اقدار کی اپنی نفسانی خواہشات کی جہت میں من مانی طور پر تفسیر و توجیہ کریں۔ اور اگر دین و قرآن کی تفسیر ان کی نفسانی خواہشات سے میل کھاتی ہے تو اس گروہ کو بہت اچھا لگتا ہے، کیونکہ ایک طرف اپنی نفسانی خواہشات کو بھی حاصل کرلیتے ہیں اور دوسری طرف بظاہر اسلام کے دائرہ سے خارج بھی نہیں ہوتے اور اسلامی معاشرہ میں مسلمان ہونے کی خصوصیات اور مراعات سے بھی بہرہ مند ہوتے ہیں۔

اسی طرح واضح سی بات ہے کہ جن لوگوں کی روح و جان میں ا یمان و تقویٰ راسخ نہیں ہے اور الٰہی احکام نیز دینی اقدار کے ذرا سا بھی پابند نہیں ہیں وہ بھی دین و قرآن سے حاصل کردہ ایسے من پسند مطالب کا استقبال کرتے ہیں اور جو لوگ دین و قرآن اور دینی اقدار کی تفسیر و توجیہ ان کے نفسانی خواہشات کے مطابق کرتے ہیں وہ ان کی پیروی کرتے ہیں، انھیں اپنا نمونہ قرار دیتے ہیں اور ان کی تعریف و تمجید کرتے ہیں۔ نیز فطری طور پر ایسے لوگ دینی علماء کے اس گروہ سے اچھا سلوک نہیں رکھتے جو کہ قرآن و احکام کی تفسیر و توجیہ حق کے مطابق کرتے ہیں اور لوگوں کے ذوق و شوق اور پسند کے موافق نہیں کرتے ہیں۔

بہت افسوس ہے کہ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ دینی متون و کتب کی مختلف قرآئتوں کے بہانے سے اس بات کے درپے ہیں کہ اپنے نفسانی میلانات و خواہشات پر دینی رنگ چڑھائیں اور اپنے دنیوی اغراض و مقاصد تک پہنچنے کے لئے دین خدا اور قرآن کریم کے ساتھ کھلواڑ کریں۔

امیر المومنین حضرت علی – مذکورہ حالت کی پیشین گوئی کے ساتھ اپنے زمانہ اور آخری زمانہ میں قرآن کی غربت و مہجوریت کے متعلق شکوہ کرتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں:

”اِلَی اللّٰہِ اَشْکُو مِن مَعشَرٍ یَعِیشُونَ جُہَّالًا وَ یَمُوتُونَ ضُلاَّلاً وَ لَیسَ فِیہِم سِلْعَۃٌ أَبْوَرُ مِنَ الْکِتَابِ اِذَا تُلِیَ حَقَّ تِلاوَتِہِ وَ لاسِلْعَۃٌ أَنفَقُ بَیْعاًوَ لا أَغْلَیٰ ثَمَناً مِنَ الْکِتَابِ اِذَا حُرِّفَ عَنْ مَوَاضِعِہِ”١؎

میں خداوند متعال کی بارگاہ میں فریاد کرتا ہوں ایسے گروہ کی جو زندہ رہتے ہیں تو جہالت کے ساتھ اور مرجاتے ہیں تو ضلالت کے ساتھ، ان کے نزدیک کوئی متاع،

(١) نہج البلاغہ، خطبہ ١٧ ۔

کتابِ خدا سے زیادہ بے قیمت نہیں ہے جبکہ اس کی واقعی تلاوت کی جائے اور اس کی برحق تفسیر کی جائے، اور کوئی متاع اس کتاب سے زیادہ قیمتی اور فائدہ مند نہیں ہے جبکہ اس کے مفاہیم میں تحریف کردی جائے اور اسے اس کے مواضع سے ہٹا دیا جائے۔

اسی طرح امیر المومنین حضرت علی – آخری زمانہ کے لوگوں کے درمیان قرآن اور معارف دین کی حیثیت کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:

”وَ اِنَّہُ سَیَأتِی عَلَیکُمْ مِن بَعدِی زَمَانٌ لَیسَ فِیہِ شَیءٌ أَخْفَیٰ مِنَ الْحَقِّ وَ لا أَظْہَرَ مِنَ الْبَاطِلِ وَ لااَکْثَرَ مِنَ الْکِذْبِ عَلَی اللّٰہِ وَ رَسُولِہِ وَ لَیسَ عِندَ أَہلِ ذٰلِکَ الزَّمَانِ سِلْعَۃٌ اَبْوَرَ مِنَ الْکِتَابِ اِذَا تُلِیَ حَقَّ تِلاوَتِہِ وَ لا أَنفَقَ مِنہُ اِذَا حُرِّفَ عَن مَوَاضِعِہِ وَ لا فِی الْبِلادِ شَیءٌ اَنْکَرَ مِنَ الْمَعرُوفِ وَ لا أَعرَفَ مِنَ الْمُنْکَرِ فَقَد نَبَذَ الْکِتَابَ حَمَلَتُہُ وَ تَنَاسَاہُ حَفَظَتُہُ فَالْکِتَابُ یَومَئِذٍ وَ اَہْلُہُ طَرِیدَانِ مَنفِیَّانِ وَ صَاحِبَانِ مُصْطَحِبَانِ فِی طَرِیقٍ وَاحِد ٍ لا یُؤوِیہِمَا مُؤوٍ فَالْکِتَابُ وَ اَہْلُہُ فِی ذَالِکَ الزَّمَانِ فِی النَّاسِ وَ لَیْسَا فِیہِم وَ مَعَہُمْ وَ لَیْسَا مَعَہُمْ لِاَنَّ الضَّلالَۃَ لاتُوَافِقُ الْہُدَیٰ وَ اِنِ اجْتَمَعَا فَاجْتَمَعَ الْقَوْمُ عَلٰی الْفُرْقَۃِ وَافْتَرَقُوْا عَلیٰ الْجَمَاعَۃِ کَأَنَّہُم أَئِمَّۃُ الْکِتَابِ وَ لَیْسَ الْکِتَابُ إِمَامَہُمْ”١؎

”یقینا میرے بعد تمھارے سامنے وہ زمانہ آنے والا ہے جس میں کوئی شے حق

(١)نہج البلاغہ، خطبہ ١٤٧ ۔

سے زیادہ پوشیدہ اور باطل سے زیادہ نمایاں نہ ہوگی، سب سے زیادہ رواج خدا اور رسول (ص) پر افتراء کا ہوگا اور اس زمانے والوں کے نزدیک کتاب خدا سے زیادہ بے قیمت کوئی متاع نہ ہوگی اگر اس کی واقعی تلاوت کی جائے اور اس سے زیادہ کوئی فائدہ مند بضاعت نہ ہوگی اگر اس کے مفاہیم کو ان کی جگہ سے ہٹا دیا جائے، شہروں میں ”منکَر” سے زیادہ معروف اور ”معروف” سے زیادہ منکَرکچھ نہ ہوگا، حاملان کتاب کتاب کو چھوڑ دیں گے اور حافظان قرآن قرآن کو بھلادیں گے، کتاب اور اس کے واقعی اہل، شہر بدر کردیئے جائیں گے اور دونوں ایک ہی راستہ پر اس طرح چلیں گے کہ کوئی پناہ دینے والا نہ ہوگا، کتاب اور اہل کتاب اس دور میں لوگوں کے درمیان رہیں گے لیکن واقعاً نہ رہیں گے، انھیں کے ساتھ رہیں گے لیکن حقیقتاً الگ رہیں گے، اس لئے کہ گمراہی، ہدایت کے ساتھ نہیں چل سکتی ہے چاہے دونوں ایک ہی مقام پر رہیں، لوگوں نے افتراق پر اتحاد اوراتحاد پر افتراق کرلیا ہے جیسے یہی قرآن کے امام اور پیشوا ہیں اور قرآن ان کا امام و پیشوا نہیں ہے”۔

نہایت ضروری ہے کہ ہمارا معاشرہ آئندہ کے افراد اور دینی حالات کے متعلق قرآن اور نہج البلاغہ کی ان پیشین گوئیوں کو قابل توجہ قرار دے اور اپنے معاشرہ پر غالب و حاکم ثقافتی اور فکری حالت کو بھی ملاحظہ کریں اور اس کا ان پیشین گوئیوں سے مقائسہ کریں تاکہ خدانخواستہ اگر معاشرہ کا دینی ماحول غلط سمت میں دیکھیں تو خطرہ کا احساس کریںاور معاشرہ کے دینی ماحول کی اصلاح کریں، ہر زمانہ کے لوگوں کو چاہئے کہ ولی فقیہ اور دینی علماء کی پیروی کے ذریعہ اپنے عقیدتی حدود اور دینی اقدار کی حفاظت و حراست کا انتظام کریں اور قرآن کو نمونہ قرار دیکر اپنے کو آخری زمانہ کے فتنوں سے محفوظ رکھیں اور ان پیشین گوئیوں کا مصداق قرار پانے سے ڈریں اور پرہیز کریں۔

بہرحال امیر المومنین حضرت علی – ایسی پیشین گوئی فرماتے ہیں کہ: ”ایک زمانہ میرے بعد آنے والا ہے کہ اس زمانہ میں کوئی چیز حق سے زیادہ مخفی اور کوئی چیز باطل سے زیادہ مشہو رنہ ہوگی، اس زمانہ میں خدا اور رسول خدا پر افتراء سب سے زیادہ امور میں سے ہوگا جو کہ عالم نما جاہل اور دنیا پرست منافقین اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے انجام دیں گے۔

لوگوں کو حضرت علی – کی تنبیہ

جو بات اس خطبہ میں بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور ایک سخت تنبیہ لوگوں کے لئے سمجھی جاتی ہے یہ ہے کہ آئندہ تمام لوگوں کے ماحول اور روحی کیفیت کی تصویر کشی ہے۔ جو کچھ اب تک قرآن کریم کی آیات اور حضرت علی – کے کلام سے اس کتاب میں زیر بحث و گفتگو قرار دیا گیا ہے اگرچہ وہ تمام لوگوں سے خطاب ہے، لیکن ان میں زیادہ تر روئے سخن معاشرہ کے خواص اور ان لوگوں کی طرف ہے جو معاشرہ کے کلچر اور ماحول کو تحت تاثیر قرار دینے والے ہیں۔

اس خطبہ میں حضرت علی – معاشرہ کے بعض خواص پر غالب و حاکم روح کی توضیح کے بعد، کہ وہ لوگ اپنے د نیوی اغراض و مقاصد حاصل کرنے کے لئے سب سے زیادہ افترا اور جھوٹ کی نسبت خدا اور پیغمبر (ص) کی طرف دیتے ہیں اور دین و قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کر کے لوگوں کو گمراہی کی طرف کھینچتے ہیں، تمام لوگوں پر غالب و حاکم مکتب فکر اور ماحول کے متعلق اس طرح پیشینگوئی فرماتے ہیں: اس زمانہ کے لوگ بھی ایسے ہیں کہ اگر قرآن اور کتاب خدا کی صحیح اور برحق تفسیر و توضیح کی جائے تو وہ ان کے نزدیک سب سے زیادہ گھٹیا اور بے قیمت چیز ہے، اور اگر ان کے نفسانی خواہشات کے مطابق تفسیر کی جائے تو ان کی نظر میں وہ سب سے زیادہ رائج اور پر رونق چیز ہے۔

اس زمانہ میں دینی تعلیمات اور الٰہی اقدار لوگوں کی نظر میں سب سے زیادہ ناپسند اور برے سمجھے جائیں گے اور مخالف دین چیزیں سب سے زیادہ پسندیدہ اور محبوب سمجھی جائیں گی۔

باخبر لوگوں پر یہ بات پوشید ہ نہیں ہے کہ قرآن کے دشمن اور سامراجی طاقتیں آج اس بات کے درپے ہیں کہ ایسے مکتب فکر اور ماحول کو ہمارے معاشرہ پر حاکم کریں۔

وہ لوگ ثقافتی اور فکری حملہ کی سازش کر کے دینی مقدسات پر حملہ اور مخالف دین چیزوں کی تبلیغ کے ساتھ چاہتے ہیں کہ دھیرے دھیرے اسی ماحول کو ہمارے معاشرہ پر غالب و حاکم کردیں کہ جس کی امیر المومنین حضرت علی – نے پیشین گوئی کی ہے اور لوگوں کو اس میں مبتلا ہونے سے ڈرایاہے۔

حضرت علی – اس کے آگے ارشاد فرماتے ہیں: ”اس زمانہ میں کلام خدا سے آشنا افراد سے بے اعتنائی کے علاوہ، اور حافظان قرآن سے، کہ جن کا فریضہ دینی اقدار کی حفاظت و پاسداری ہے، انجام فریضہ میں غفلت و فراموشی کے علاوہ کوئی تحرک نہیں دیکھا جائے گا۔

اس زمانہ میں قرآن اور اس کے سچے پیرو اور علمائے دین اگرچہ لوگوں کے درمیان ہوں گے لیکن درحقیقت ان سے جدا ہوں گے اور لوگ بھی ان سے دور ہوں گے اس لئے کہ وہ ان کو گوشہ نشین اور کنارہ کش کر کے ان کی پیروی نہیں کریں گے۔ وہ حضرات اگرچہ لوگوں کے درمیان ہی زندگی بسر کریں گے لیکن لوگوں کے دل ان کے ساتھ نہ ہوں گے کیونکہ جو راستہ لوگ اختیار کریں گے گمراہی ہوگی اور وہ راہ قرآن کے ساتھ، جو کہ راہ ہدایت ہے، جمع نہیں ہوسکتا۔

آخر میں حضرت علی – ارشاد فرماتے ہیں:

”فَاجْتَمَعَ الْقَومُ عَلٰی الْفُرقَۃِ وَ افْتَرَقُوا عَلیٰ الْجَمَاعَۃِ کَأَنَّہُم أَئِمَّۃُ الْکِتَابِ وَ لَیْسَ الْکِتَابُ إِمَامَہُمْ”

لوگ اس زمانہ میں افتراق و اختلاف پر اجتماع کریں گے۔ گویا اس بات پر توافق کرلیں گے کہ قرآن اور حقیقی مفسرین سے موافقت نہ کریں، اور اس حال میں کہ گویا خود کو قرآن کا رہبر سمجھیں گے اور قرآن کی تفسیر و توجیہ اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق کریں گے، عالم نما جاہلوں کی پیروی کر کے، حقیقی مفسرین، دینی علماء اور سچے مسلمانوں سے جدا ہو جائیں گے اور ان سے فاصلہ اختیار کرلیں گے،بجائے اس کے کہ فکر و عمل میں قرآن کو اپنا امام، رہبر اور راہنما قرار دیں، قرآن کو پیچھے چھوڑ کر اس کی امامت و رہبری سے روگردانی کریں گے او ردین و قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کریں گے۔

اس وقت دین و قرآن کے دشمنوں نے مسلمان قوم کو ان کی دینی شخصیت سے کھوکھلا کرنے کے لئے اپنی تمام قوتیں صرف کردی ہیں اور اس کوشش میںہیں کہ ان کے دینی عقائد کمزور کر کے ان کی شخصیت، آزادی اور استقلال کو چھین لیں۔

ان حالات کی اہمیت اور حساسیت کے پیش نظر بہت ضروری ہے کہ ملت مسلمان خصوصاً دینی علماء خطرہ کو سمجھیں اور ہوش میں آجائیں اور ا پنے کو ہرگز اسلام و قرآن کے دشمنوں کے خطرے سے محفوظ نہ سمجھیں۔

اس درمیان، جیسا کہ اس کے قبل اشارہ کیا گیا، اہم نکتہ یہ ہے کہ اسلام کے عالمی دشمن اور کفر اپنے سامراجی مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے، لوگوں کے دینی مکتب فکر کے مقابلہ اورثقافتی حملہ میں، فوجی حملہ کے برخلاف، اسلام اور امت اسلامی سے اپنی دشمنی کو علانیہ طور پر ظاہر نہیں کرتے۔

اس حملہ میں وہ لوگ ایسے انسانوں کو اپنا آلہئ کار بناتے ہیں جو ظاہر میں مسلمان ہیں اور اسلامی معاشرہ میں زندگی گزارتے ہیں، جو ایک طرف اجتماعی اور ثقافتی عہدوں اور حیثیتوں کے حامل ہوتے ہیں اور دوسری طرف دینی معارف کے سلسلہ میں کچھ مطالعہ رکھتے ہیں اگر چہ وہ بہت کم او رناقص ہوتا ہے، یہ افراد شعوری یا لاشعوری طور پر بیگانہ طاقتوں کا آلہئ کار بن کر دینی معارف کو تحریف کر کے لوگوں کی گمراہی کے اسباب فراہم کرتے ہیں۔

قرآن کریم کی بہت سی آیات اور ائمہئ معصومین علیهم السلامکی روایات میں ان افراد کی مذمت کی گئی ہے اور لوگوں کو تاکید کی گئی ہے کہ ان کی باتیں سننے سے پرہیز کریں اس لئے کہ یہ افراد دنیوی اوراخروی سعادت کے حصول سے باز رہنے اور گمراہی کا سبب ہوجاتے ہیں۔

معارف دین کی تحریف کرنے میں

عالم نما جاہلوں کا سبب، حضرت علی (ع) کی نظر میں

جیسا کہ ہم نے اس کے پہلے بیان کیا، قرآن کریم اسلامی معاشرہ میں ایسے انسانوں کی کارستانیوں کا نام ”فتنہ” رکھتا ہے اور جو لوگ قرآن اور دین کے معارف و حقائق میں تحریف کرنے کے درپے ہوتے ہیں انھیں ایسا فتنہ پرداز سمجھتا ہے جو دینی معارف میں تحریف کر کے لوگوں کو گمراہ کرنے میں شیطان کا ساتھ دیتے ہیں۔ اب ممکن ہے یہ سوال پیش کیا جائے کہ ایسے لوگ باوجودیکہ حق کو جانتے ہیں اور ان اوہام اور جہالتوں سے جو کہ دوسروں سے عاریت میں لئے ہیں، واقف ہیں، تو پھر کیوں اپنی فریب کاریوں کی توجیہ کر کے دوسروں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں؟

دوسری لفظوں میں جو افراد دینی معارف میں تحریف کرتے ہیں اور حقائق دین میں تحریف کر کے لوگوں کی گمراہی کے اسباب فراہم کرتے ہیں، وہ نفسیاتی اور روحی اعتبار سے کون سی مشکل رکھتے ہیں کہ جس کے حل کرنے کے لئے دین خدا سے کھلواڑ کر بیٹھتے ہیں؟ حقیقت میں ”دین میں فتنہ” جو کہ معارف دین میں تحریف کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، وہ کہاں سے پیدا ہوتا ہے؟

امیر المومنین حضرت علی – اس سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ”إِنَّمَا بَدْءُ وُقُوْعِ الْفِتَنِ اَہْوَاءٌ تُتَّبَعُ وَ اَحْکَامٌ تُبْتَدَعُ”١؎ جو بات روحی اعتبار سے انسان

(١) نہج البلاغہ ، خطبہ ٥٠ ۔

کے اندر ایسے انحراف کا سبب بنتی ہے اور فتنہ کی جڑ سمجھی جاتی ہے اس سے مراد ”نفسانی خواہشات” ہیں جو فتنے دین میں پیدا کئے جاتے ہیں ان کا سرچشمہ نفسانی خواہشات اور دنیاوی اغراض و میلانات ہیں۔

جو لوگ دینی معارف میں تحریف کر کے لوگوں کو گمراہی کی طرف کھینچتے ہیں وہ ایسے افراد ہیں جو خداوند متعال کے مقابل تسلیم و بندگی کی روح نہیں رکھتے یا شیطانی وسوسوں کے زیرا ثر، تسلیم و بندگی کی روح کھو بیٹھے ہیں۔

تسلیم و بندگی کی روح اس بات کی مقتضی ہے کہ انسان خدا اور اس کے احکام کے مقابل سراپا تسلیم ہو اور قول و فعل میں شریعت اور دینی اقدار و تعلیمات کا پابند ہو۔ اس روح کا پایا جانا اس وجہ سے لازم ہے کہ ممکن ہے دین و شریعت کے بہت سے احکام انسان کی نفسانی خواہشات کے موافق نہ ہوں او رانسان رغبت اور چاہت کے ساتھ نہ ان کو قبول کرے اور نہ ان پر عمل کرے۔

لوگ ایسے موقع پر ہمیشہ دو راہے پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ناگزیر انھیں ایک راستہ انتخاب کرنا پڑتا ہے، یا خدا اور شریعت کی خواہش کو منتخب کریں اور خواہش نفس کی مخالفت کریں، یا اپنے نفس کی خواہش کو خدا کی خواہش اور دینی اقدار پر مقدم کریں۔ ایسے افراد کم نہیں ہیں کہ اس عظیم امتحان میں جن کے اوپر نفسانی خواہشات غالب آجاتی ہیں اور جو شیطان کے وسوسہ اور بہکاوے سے نفسانی خواہشات و میلانات کو خدا اور دینی تعلیمات پر مقدم کرتے ہیں۔

انہیں کے درمیان کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ایسا حوصلہ اور جذبہ رکھتے ہیں کہ صراحت کے ساتھ کہتے ہیں ہم اپنے کو دینی اعتقادات و تعلیمات کا پابند نہیں رکھتے، البتہ ہم دینی تعلیمات کی تحریف اور مخالفت کے درپے بھی نہیں ہیں۔

دین کے ساتھ اس طرح کا سلوک اگر چہ معصیت ہے لیکن اس کو ”دین میں فتنہ” نہیں سمجھا جاتا اور ایسا جذبہ فتنہ کی جڑ نہیں ہے، اس لئے کہ کوئی شخص اس صورت میں فریب کاری کے ذریعہ گمراہی کی طرف کھینچ کر نہیں لایا گیا ہے۔

خدا اور احکام الٰہی کے سامنے تسلیم و بندگی کے جذبہ کا فقدان اس وقت ”دین میں فتنہ” کے پیدا ہونے کا سبب بنتا ہے جبکہ اس روح سے عاری افراد جھوٹی توجیہیں کر کے دین کی تفسیر اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق کرنے لگیں۔

ایسے افراد خصوصاً اگر اجتماعی حیثیت کے اعتبار سے ایسے مرتبہ پر ہوں کہ ایک گروہ ممکن ہے ان کی باتیں سنتا ہو تو دوسروں سے زیادہ شیطان ایسے لوگوں کی طمع کرتا ہے، اس لئے کہ یہ اشخاص ایسی خواہشات رکھتے ہیں کہ ایک طرف دین و شریعت نے انسان کو ان سے منع کیا ہے اور دوسری طرف ان امور کو چھوڑ نا اور ان کو نظر انداز کرنا ان افراد کے لئے روح بندگی کمزور ہونے کے سبب بہت سخت ہے، اور دوسری طرف یہ افراد ایسی قوتوں کے مالک ہیں جن سے استفادہ کر کے حق کو خود ان پر مشتبہ کیا جاسکتا ہے۔ شیطان اس سنہری موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرتا ہے اور ایسے افراد کے دل و جان میں گھس کر ان کو فتنہ اور گمراہی کی سمت موڑ کر ان کی تشویق و ترغیب کرتا ہے۔

شیطان اپنے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ان افراد کی نفسانی خواہشات کو ان کی نگاہوں کے سامنے مجسم کر کے پیش کرتا ہے اور ان سے استفادہ کے شوق کی آگ کو ان کے دل میں بھڑکا دیتا ہے۔ دوسری طرف ا ن کے دل میں ایسے وسوسے ڈالتا ہے کہ جو کچھ علمائے دین نے دینی فرائض و تعلیمات کے عنوان سے بیان کیا ہے، کہاں سے معلوم ہوا کہ وہ وہی ہے جسے خدا اور دین نے ہم سے چاہا ہے؟

ایسے افراد جب دیکھتے ہیں کہ قرآن، علوم اہلبیت (ع) اور علماء دین کے بیانات کے ہوتے ہوئے وہ اپنی نفسانی خواہشات تک نہیں پہنچ سکتے تو ایک نیا راستہ نکالتے ہیں تاکہ اپنی خواہشات کو بھی پورا کرلیں اور ظاہری طور پر دائرہئ اسلام سے خارج بھی نہ ہوں نیز دینی معاشرہ کی اجتماعی حیثیتوں اور خصوصیتوں کے بھی حامل رہیں۔ اس بنا پر جو چیز اندر سے ان کو انحراف و گمراہی کی طرف کھینچ لاتی ہے وہ تسلیم و بندگی کا جذبہ نہ رکھنا اور نفسانی خواہشات کی پیروی کرنا ہے۔

امیر المومنین حضرت علی – اس سوال کے جواب میں کہ کون سا عامل اس بات کا سبب بنتا ہے کہ یہ افراد اسلامی معاشرہ میں ”دین میں فتنہ” برپا کرتے ہیں، ارشاد فرماتے ہیں کہ ان تمام فتنوں کی جڑ جو کہ دین میں واقع ہوتے ہیں نفسانی خواہشات ہیں کہ مذکورہ اشخاص ان سے صرف نظر نہیں کرسکتے اور ان کو حاصل کرنے کے لئے دینی احکام و تعلیمات کے مقابل نیا راستہ ایجاد کر کے فتنہ پھیلاتے ہیں۔

لیکن جو نیا راستہ وہ لوگ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے پیدا کرتے ہیں وہ کیا ہے؟

حضرت علی – فرماتے ہیں کہ: ”وہ لوگ نئے نئے احکام اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق گڑھ کر ایجاد کرلیتے ہیں اور ان کی نسبت اسلام کی طرف دیتے ہیں اور خود ساختہ اور بے بنیاد تفسیروں او رتوجیہوں کے ذریعہ حقائق دین کی تحریف کرتے ہیں اور قرآن و آیات الٰہی کی تفسیر اپنی رائے سے کرتے ہیں۔ نتیجہ میں ایسی باتیں کہتے ہیں جو دین اور قرآن کریم کی حقیقت کے موافق نہیں ہے اور لوگوں کو قرآن اور دینی تعلیمات کے خلاف دوسری سمت موڑ دیتے ہیں۔

البتہ واضح ہے کہ یہ افراد اس طرح عمل کرتے ہیں کہ لوگ ان کے شیطانی مقاصد سے باخبر نہ ہوں، اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ اس صورت میں لوگ ان کی پیروی نہ کریں گے۔

اسی بنا پر حضرت علی – ان تمام فتنوں اور دین میں ایجاد کی جانے والی بدعتوں کی جڑ، تسلیم و بندگی کا فقدان اور خواہش نفس کو قرار دیتے ہیں اور لوگوں کو خصوصاً معاشرہ کے خواص کو ہوا و ہوس کی پیروی سے منع کرتے ہیں نیز اس بات سے باخبر کرتے ہیں کہ کہیں آیہئ (أَرَأَیتَ مَنِ اتَّخَذَ اٖلٰہَہُ ھَوٰاہُ)١؎ (کیا تم نے اس کو دیکھا ہے جس نے اپنا خدا اپنی خواہش کو بنالیا ہے؟) کا مصداق نہ ٹھہر جائیں۔

البتہ جو لوگ شیطان کا سب سے بڑا آلہئ کار بن کر آج دینی معارف میں تحریف کا کام انجام دے رہے ہیں وہ شاید ابتدا میں ایسا ارادہ نہ رکھتے ہوں۔

کتنے ہی افراد ایسے تھے جو کہ ابتدا میں سچے مسلمانوں کا جزء اور قرآن و معارف دین کے سچے مبلغ شمار کئے جاتے تھے، لیکن بیچ راستے میں سمت کو بدل کر مخالفین اسلام کے گروہ سے مل گئے اور خدا کی ولایت سے خارج ہو کر شیطان کی ولایت و سرپرستی کو قبول کرلیا۔

(١) سورہ  فرقان، آیت ٤٣ ۔

اسی طرح ایسے انسان بھی بہت زیادہ ہیں جو کہ برسوں ضلالت و گمراہی میں رہنے اور دوسروں کو گمراہ کرنے کے بعد توبہ کر کے دامن اسلام میں واپس آگئے اور باقی عمر اپنے مکروہ و ناپسند ماضی کی تلافی میں صرف کردی۔

بہرحال پوری زندگی میں انسانوں کے افکار و نظریات کی یہ تبدیلی ایک ایسا امر ہے جو انسانوں کی زندگی میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے، لیکن جس بات کی طرف توجہ دینا ضرور ی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کی نظر میں کوئی بھی گناہ، دین میں فتنہ سے بڑا اور اس سے زیادہ خطرناک نہیں ہے۔ سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ لوگ حق کو پہچاننے اور دین کے احکام و معارف سے آشنا ہونے کے بعد بھی یہ کوشش کریں کہ لوگوں کو ان کی آشنائی اوران پر عمل کرنے سے روکیں۔

بہر صورت ہم جس بات کی طرف آخر میں تمام لوگوں کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں اور خداوندمتعال سے دعا کرتے ہیں کہ اس کی توفیق عطا فرمائے، وہ امیر المومنین حضرت علی – کا یہ گرانقدر ارشاد ہے:

”حَاسِبُوُا أَنْفُسَکُم قَبْلَ اَنْ تُحَاسَبُوْا”١؎ تم لوگ خود اپنے عقائد، افکار اور اعمال کا محاسبہ کرو اور اپنا فیصلہ ضمیر و وجدان سے کرو اور قبل اس کے کہ خدا سے توبہ و انابت کا وقت ہاتھ سے نکل جائے، قرآن اور دین حق کے سائے میں واپس آجاؤ، اور خود کو شیطان اورنفس امارہ کے جال سے چھڑا لو، اور سخت انجام اور بری عاقبت سے ڈرو۔

(١) بحار الانوار، ج ٨، ص ١٤٥ ۔

ہم اپنے اس بیان کا خاتمہ قرآن کریم کی اس تنبیہ پر کر رہے ہیں:

”ثُمَّ کَانَ عَاقِبَۃَ الَّذِینَ أسَاءُ وا السُّوأیٰ أَن کَذَّبُوا بِاٰیَاتِ اللّٰہِ وَ کَانُوا بِہَا یَستَہزِءُ ونَ”١؎

اس کے بعد برائی کرنے والوں کا انجام برا ہوا کہ انھوںنے خدا کی نشانیوں کو جھٹلا دیا اور برابر ان کا مذاق اڑاتے رہے۔

ہم خداوند متعال سے دعا کرتے ہیں کہ ہم سب کو راہ حق کی ہدایت کرے۔

والسلام علی من اتبع الہدیٰ

(١) سورہ  روم، آیت ١٠ ۔

تبصرے
Loading...