قدس امت اسلامی کی سرزمین آرزو

فلسطینی قوم اور امت اسلامی مٹھی بھر یہودیوں کے جرائم اور ان کی اہانت و توہین کو ہرگز نہیں بھولے گی. مختلف النوع جارحیتیں، حیلہ گریاں، سازشیں، قتل عام اور دسیوں لاکھ افراد کی دربدری اور بیرون ملک ہجرت صہیونی یہودیوں کی کارکردگی کا نتیجہ ہے جو نصف صدی سے اسلامی سرزمینوں پر قابض ہوئے ہیں.
اس مضمون میں صہیونی یہودیوں کے شرمناک افعال و اعمال کے اعداد و شمار بتانا مقصد نہیں ہے کیوں کہ یہ لوگ دنیا کی آنکھوں کے سامنے ہر قسم کے جرائم کو بے دھڑک سرانجام دینے والے ہیں اور دنیا والے بھی ان کی مذمت کے روادار نظر نہیں آتے.

اس مضمون کا ہدف یہ ہے کہ سب سے پہلے قرآن مجید کی نظر میں یہودیوں کا بے نقاب چہرہ قارئین کرام کو دکھایا جائے؛ بیت المقدس کے اصلی باشندوں کو تاریخ کے آئینے میں دیکھا جائے؛ مسلمانوں کی کارکردگی پر روشنی ڈالی جائے؛ یہودیوں کے مذہبی اور غیر مذہبی شعبوں پر آدھی سے نگاہ ڈالی جائے اور آخر میں امن مذاکرات کا بھی ایک مختصر سا جائزہ لیا جائے.

یہود قرآن کی روشنی میں

یہوديوں کو «عبرانى » اور «عبرى » کہا گیا ہے اور یہ لفظ، کلمہ «عبر» سے مأخوذ ہے اور عبر حضرت ابراہیم خلیل اللہ (ع) کا نام ہے جو یہودیوں کے جد اعلی شمار کئے جاتے ہیں جن کا تعلق «دریائے فرات» کے کنارے (بابل) سے تھا. انہیں اسرائیل اور بنواسرائیل بھی کہا گیا کیونکہ ان کے ایک جدّ یعنی حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب «اسرائيل » تھا جو نبی اللہ تھے. اسرائيل کا لقب «اسراء» (بمعنی بندہ) اور «ئيل» (بمعنی خدا) سے مرکب ہے اور عربی میں «عبداللہ» يعنى بندہ خدا کے معنی میں آیا ہے. (1)

یہود بندہ خدا يا بندہ دنیا؟

پیسہ پرست اور مال دنیا جمع کرنے اور اموال ذخیرہ کرنے کے حوالے سے انسانی تاریخ کے طول و عرض میں قوم یہود کی طرح کوئی بھی دوسری قوم کبھی تاریخ کی آنکھوں کو نظر نہیں آئی ہے. یہودیوں نے اس مقصد کے حصول کے لئے تمام جائز اور ناجائز روشیں استعمال کی ہیں. یہ مسئلہ بظاہر یہود کے اس عقیدے سے تعلق رکھتا ہے کہ یہود اپنے آپ کو خدا کی برگزیدہ ملت سمجھتے ہیں؛ کیونکہ برگزیدہ ملت کے عنوان سے ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ ان کو دنیا پر مسلط ہوجانا چاہئے اور مال و دولت اس ہدف و مقصد تک پہنچنے کا مؤثر ترین وسیلہ ہے. یہودی اسی وقت بھی اپنی جمع کی ہوئی ثروت کی بدولت بہت سے بڑی عالمی حکومتوں کے اصلی مالک ہیں اور اپنی مالی اور اقتصادی سرگرمیوں کے ذریعے عالمی سیاستدانوں پر براہ راست اثر انداز ہوجاتے ہیں. امریکہ سرمایہ داری کی دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے حرف اول و آخر یہودیوں کا ہوتا ہے اور یورپ کے متعدد ممالک میں نفوذ کرنے والے یہودی گروہ ان ملکوں کے مقدرات کے فیصلے کرتے ہیں.

قرآن کی گواہی اور شواہد سے ثابت ہے کہ یہودیوں کے مادی تفکر کا بنیادی سرچشمہ یہ ہے کہ وہ معاد پر یقین نہیں رکھتے؛ قرآن كريم اس سلسلے میں فرماتا ہے:

«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ قَدْ يَئِسُوا مِنَ الْآخِرَةِ كَمَا يَئِسَ الْكُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ»(2) 

«اے ایمان والو! یہودیوں کے ساتھ – جو غضب خداوندی کے لائق ٹہرے ہیں – معاشرت اور دوستی نہ کرو اور ان کی مدد نہ کرو کیوں کہ انہوں نے آخرت کا انکار کیا ہے اور اسی وجہ سے ان کے ثواب اور اخروی جزا کی آرزو منقطع ہوگئی ہے اور وہ قیامت سے اسی طرح ناامید ہیں جیسے کہ کفار اہل قبور سے ناامید ہیں». نيز فرماتا ہے:

«وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَى حَيَاةٍ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُواْ يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَن يُعَمَّرَ وَاللّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ » (3)

«یہود دنیا کی زندگی اور دنیاطلبی کے حوالے سے انسانوں کے درمیان سب سے زبادہ حریص ہیں اور چونکہ وہ صرف دنیا کی طلب رکھتے ہیں لہذا مشرکین سے بھی زیادہ حریص ہیں؛ وہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے لہذا ان میں سے ہر ایک کی خواہش ہے کہ ہزار برس جئے لیکن بالفرض اگر اس کی یہ آرزو پوری بھی ہوجائے تو اس کو عذاب سے نجات نہ دے سکے گی اور خدا ان کے تمام اعمال پر بصیرت رکھتا ہے».

یہودیوں کو اس دنیاوی حرص و لالچ کی وجہ سے خدا کی طرف سے سزا ملی اور وہ غذائیں اور اشیاء خورد و نوش جو پہلے ان کے لئے حلال تھیں ان پر حرام کردی گئیں جیسا کہ فرمان خداوندی ہے:

«فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِينَ هَادُواْ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَن سَبِيلِ اللّهِ كَثِيرًا – وَأَخْذِهِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُهُواْ عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا »

ان یہودیوں پر ہم نے ان کے ظلم و نافرمانی اور خدا کی راہ بند کرنے کی وجہ سے، بعض وہ پاک چیزیں حرام کردیں جو ان پر حلال تھیں؛ اور اسی طرح (حلال اشیاء کی حرمت کے اسباب اور بھی تھے اور وہ یہ کہ) وہ سود حرام وصول کرتے تھے جبکہ انہیں اس سے منع کیا گیا تھا اور وہ لوگوں کے اموال باطل روشوں (جیسے رشوت خواری، جعلسازی، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی اور ناپ تول میں کمی و دہوکہ دہی) کے ذریعے کھالیتے تھے (اور سب سے اہم بات یہ کہ وہ رباخواری کو مباح سمجھتے تھے) اور ہم نے ان کے لئے دردناک ترین عذاب تیار کیا ہے»(4) .

یہودی موت کی آرزو کبھی نہیں کرتے اور اس کی دلیل خداوند متعال کا یہ فرمان ہے کہ:

مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ – قُلْ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ هَادُوا إِن زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِيَاء لِلَّهِ مِن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ – وَلَا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ – قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِي تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُ مُلَاقِيكُمْ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ

وہ لوگ (یہود) جن کو تورات پر عمل کرنے کا فریضہ سونپا گیا مگر انہوں نے تورات کا حق ادا نہیں کیا اس گدھے کی مانند ہیں جس پر کتابیں لادی گئی ہیں (جو انہیں پیٹھ پر لئے پھرتا ہے مگر اس کی حقیقت سے واقفیت نہیں رکھتا)؛ وہ لوگ ہیں جو آیات خداوندی کا انکار کرتے ہیں اور ان کی مثال بہت بری ہے اور خداوند متعال اہل ظلم و ستم کو ہرگز سیدھے راستے کی طرف راہنمائی فراہم نہیں کرتا – کہہ دو اے میرے رسول! اے یہودیو! اگر تمہارا گمان یہ ہے کہ صرف تم ہی خدا کے دوست ہو اور دوسرے لوگ ایسے نہیں ہیں تو موت کی آرزو کرو اگر سچ بولتے ہو (تا کہ تم اپنے محبوب کی ملاقات کرسکو)! مگر وہ ہرگز موت کی خواہش و آرزو نہیں کریں گے ان اعمال کی وجہ سے جو انہوں نے اپنے اٹھ جانے سے پہلے سرانجام دیئے ہیں اور خداوند متعال ظالموں کو بہت اچھی طرح جانتا ہے- کہہ دو! یہ موت جس سے تم بھاگ رہے ہو، آخرکار تم کو آہی لے گی اور اس کے بعد غیب و شہود کے عالم و دانا (حضرت حق تعالی) کے پاس لوٹا دئے جاؤگے اور پھر خداوند متعال تمہیں ان اعمال کی خبر دے گا جو تم سرانجام دیتے رہے تھے!»۔(5)

اسی دنیا طلبی کی بنیاد پر آج یہودیوں کے سیاسی مکتب نے صہیونیت کے عنوان سے امریکہ کے زیر نگرانی «مشرق وسطی امن» نامی “مکر” کے تحت فلسطینی اور ارد گرد کے ممالک کے مسلمانوں کو ناچیز سا فائدہ دے کر عرب اور غیر عرب ممالک کے ساتھ طویل المدت معاہدے کرکے عظیم معاشی فوائد حاصل کرے اور مشرق وسطی کے عظیم مالی و اقتصادی ذخائر پر قبضہ کرلے.

یہود وہ واحد جماعت ہے جس نے جدید اقتصادی اور مالیاتی نظام کو سودخوری پر استوار کیا ہے؛ چنانچہ گذشتہ صدی میں گذرنے والے یہودی خاندان «راچلڈ» کے افراد – جو یورپ اور امریکہ میں پھیل گئے تھے، وہی لوگ ہیں جنہوں نے عالمی اقتصادی نظام کی بنیاد رباخواری اور سودخوری پر استوار کی اور دنیا کے مالیاتی و اقتصادی مراکز میں سرگرم عمل یہودی سود پر مبنی کاروبار میں ملوث ہیں اور اسی قاعدے کے تحت حکومتوں کو قرضے دیتے ہیں اور اپنی پالیسیاں بھی مقروض ممالک پر ٹھونس دیتے ہیں.

1- ماضی کا بیت المقدس

الف. بیت المقدس کے اصلی باشندے

آج سے 5ہزار سال قبل «بیت المقدس» کے ابتدائی باشندے «یبوسی» اور دیگر کنعانی قبائل تھے جو جزیرہ نمائے عرب سے کوچ کرکے اس سرزمین (کنعان یا فلسطین) میں آباد ہوگئے تھی اور «ملک صادق» کی سرکردگی  میں اس سرزمین کے ایک گوشے میں «یبوس» نامی شہر تعمیر کیا تھا. ان لوگوں کا سلطان ایک امن پسند آدمی تھا جو اس شہر کی تعمیر و ترقی کے لئے کوشاں تھا؛ چنانچہ وہاں کے باشندوں نے اپنے امن پسند بادشاہ کے رویے کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے شہر کا نام تبدیل کرکے «اورسالم» (یعنی شہر سالم یا امن و سلامتی کا شہر) رکھا.

اورسالم جو عبری زبان میں «اورشالم» کہلاتا تھا؛ سترہ مرتبہ گھیرے میں لیا گیا؛ کئی بار اس شہر کو ویران کرکے خاک کے ڈھیر میں تبدیل کیا گیا اور اس کے باشندوں کو تہہ تیغ کیا گیا. میلاد مسیح سے پہلے رومی سپہ سالار «پامبیوس» نے اورسالم کو فتح کیا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور اس کو ویرانے میں تبدیل کیا. سنہ 700 عیسوی میں «طیطوس» نے اسے تباہ و برباد کرکے رکھ دیا اور اورسالم سے مٹی کا ایک ڈھیر ہی رہ گیا. 614 عیسوی میں اس شہر پر ایرانیوں نے ہلہ بول دیا – اس وقت اس شہر کا نام «ایلیا» تھا – ایرانیوں نے اس کی تمام عبادتگاہوں اور گرجاگھروں کو ملبے میں تبدیل کیا مگر «ہرقل» کی سربراہی میں رومی افواج نے ایرانیوں کو نکال باہر کیا.

من حیث المجموع یہ شہر 15 صدیوں تک یبوسیوں کے ہاتھ میں تھا اور یبوسی وہی کنعانی تھے جو جزیرة العرب سے آئے ہوئے تھے اور اس شہر کے بانی مبانی تھے. اس کے بعد 4 صدیوں تک بنی اسرائیل کے قبضے میں رہا اور کئی صدیوں تک ایرانیوں کے قبضے میں تھا؛ دوصدیوں تک ایران کے اشکانی بادشاہوں اور یونانی قابضین کے قبضے میں رہا اور 4 صدیوں تک رومیوں کے قبضے میں تھا اور اس تمام عرصے میں بھی اس شہر کے اصلی باشندے یعنی یبوسی اور کنعانی اس شہر میں ساکن رہے.

چنانچہ ثابت ہے کہ اورسالم کا شہر عرب یبوسیوں اور کنعانیوں نے تعمیر کیا تھا اور اس کی عمارت کا یہودیوں سے کسی بھی طرح کا کوئی بھی تعلق نہ تھا. اس شہر کے باشندوں کے ساتھ مسلمانوں کے معاہدے سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس شہر کے باشندوں کی اکثریت کا تعلق یبوسیوں اور کنعانیوں سے تھا جو وقت گذرنے کے ساتھ عیسائییت کے پیروکار بن چکے تھے اور یہودی جنہوں نے بزور شمشیر اس شہر پر قبضہ کیا تھا؛ اورسالم کے اصلی اور بنیادی باشندے نہیں سمجھے جاتے تھے جس کی بنا پر اس شہر کے باشندوں کے ساتھ مسلمانوں کی عہدنامے میں یہودیوں کا کوئی بھی ذکر نہیں ملتا.

ب. بيت المقدس (اورسالم) در دست مسلمانان

«اورسالم» یا «ایلیا» کو مسلمانوں نے خلیفہ ثانی کے دور میں پرامن انداز سے فتح کیا؛ اور چونکہ قرآن مجید نے اس مبارک اور مقدس قراردیا تھا اور قرآن ہی کی گواہی کے مطابق مسلمانوں کے قبلہ اول کا درجہ رکھتا تھا؛ مسلمانوں نے اسے «بیت المقدس» کا نام دیا. گو کہ مسلمانوں نے فتح کے وقت شہر کے باشندوں کے ساتھ نیک سلوک روا رکھا مگر ماضی کی ویرانیان اب بھی باقی تھیں اور شہر کے باشندے اس صورت حال سے نالان تھے؛ چنانچہ مسلمانوں نے فوری طور پر اس شہر کی تعمیر و ترقی کا آغاز کیا جبکہ عیسائیوں کو بھی مکمل آزادی دی گئی اور انہوں نے مسلمانوں کی تعاون سے «قیامت» اور «عذراء» نامی دو بڑے گرجاگھروں کو از سر نو تعمیر کیا. سنہ 75 میں اموی بادشاہ نے «مسجدالاقصی» کی عمارت کی تعمیر نو کے منصوبے کو مکمل کیا اور مسلمانوں نے عیسائیوں کے ساتھ حسن سلوک کی انتہا کی اور انہیں مسجد کی عمارت کی تعمیر نو میں شریک کیا.

شہر پر قبضے کی وقت – جو خونریزی کے بغیر مکمل ہوا – خلیفہ ثانی نے شہر کو اپنی تحویل میں لینے کی غرض سے مدینہ سے ایلیا کا سفر اختیار کیا اور عیسائی راہبوں اور عیسائیوں کے مذہبی پیشواؤں کے ساتھ عہدنامے پر دستخط کئے. یہ عہدنامہ اپنے مضمون کے حوالے سے منفرد تھا؛ کیوں کہ یہودیوں نے اپنے حملوں کے دوران ان کے شہر کو تہس نہس کیا تھا اور ان کی عبادتگاہوں کو نیست و نابود کردیا تھا اور وہاں کے باشندوں کا قتل عام کرتے رہے تھے مگر مسلمانوں نے اس عہدنامے کے تحت ان کی جان و مال، مریض و تندرست افراد، صلیب و کلیسا اور تمام باشندوں کو امان دی تھی اور انہوں نے اپنے آپ کو پابند کیا تھا کہ ان کے گرجاگھروں پر حملہ نہیں کریں گے اور انہیں منہدم نہیں کریں گے.

آج کے دور کی ایک اچھائی بیان، مذہب اور عقیدے کی آزادی ہے اور مغربی اقوام کا گمان یہ ہے کہ یہ آزادیان ان کی جدوجہد اور قرون وسطی کی ظلمتوں کے خلاف ان کے قیام کا نتیجہ ہے! جبکہ مسلمانوں نے چودہ سو سال قبل اس عہدنامے کے مطابق اورسالم کی عوام کے لئے دین و مذہب اور عقیدے کے اظہار کی پوری آزادی دی تھی؛ عہدنامے کا ایک اقتباس کچھ یوں ہے:

«(مسلمان اس طرح سے) امان دیتے ہیں کہ کوئی بھی یہاں کے باشندوں کی صلیب، ان کے مال و دولت سے کوئی سروکار نہیں رکھے گا؛ یہاں کے عوام کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہوگی؛ کوئی کسی بھی باشندے کو تکلیف نہیں پہنچائے گا؛ اگر کوئی شخص یہاں سے نکل کر کہیں اور جانا چاہے اس کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی اور اگر کوئی یہیں سکونت اختیار کرنا چاہے تو اسے ایسا کرنے کی آزادی حاصل ہوگی؛ اور جو بھی باشندہ رومیوں کے ہمراہ جانا چاہے یا اپنے قرابت داروں کے پاس لوٹ کر جانا چاہے اسے مکمل آزادی حاصل ہوگی. (6)

درحقیقت یہ دعوی کیا جاسکتا ہے کہ تاریخ اسلام میں صرف مختصر سے عرصے کے سوا غیر مسلموں کے خلاف مسلمانوں نے کبھی بھی تعصب اور عدم تحمل کا مظاہرہ نہیں کیا اور «متوکل» اور «معتصم» کے دور کے سوا – جب معتزلی سنیوں کے خلاف اشعریت کے عناد و نفرت کا شدید مظاہرہ دیکھنے کو ملا اور غیر مسلموں کے خلاف بھی اذیت و آزار کا بازار گرم ہوا؛ دیگر ادوار میں مسلم مملکت میں بسنے والے اہل ذمہ کا پورا پورا لحاظ رکھا گیا.

625 ہ (1228 عیسوی) میں صلیبیوں نے دوبارہ لشكركشى کی اور اس دور کے بادشاہ نے صلیبیوں کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کے تحت بیت المقدس صلیبیوں کے سپرد کیا گیا؛ لیکن سنہ 642 ہ(1244عیسوی) میں مسلمانوں نے بیت المقدس کو اہل مغرب سے آزاد کرایا اور اس کے باشندوں کو اجازت دے کہ مسلمانوں کے ساتھ پوری آزادی کے ساتھ رہیں. سنہ 1517 عیسوی سے بیت المقدس سلطنت عثمانی کی عملداری میں آیا اور 1917 تک عثمانیوں کے ہاتھ میں رہا. 1917 میں انگریز سامراج نے پہلی عالمی جنگ میں اپنے اتحادیوں اور نام نہاد انقلابی عرب جنگجؤوں کی مدد سے بیت المقدس پر قبضہ کیا چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ سنہ 15 ہجری سے لے کر سنہ 1337 ہجری تک سوائے تھوڑے سے عرصے کے بیت المقدس تقریبا تیرہ صدیوں تک مسلمانوں کے پاس رہا اور مختلف مذاہب و ادیان کے پیروکاروں نے مکمل مذہبی آزادی سے بہرہ مند ہوکر مسلمانوں کے ساتھ زندگی گذاری.

2- انیسویں صدی کی ساتویں عشرے کی ابتدا میں صہیونی تحریک کا ظہور

بعض یہودی مفکرین نے فلسطین کی جانب لوٹے اور اس کی تعمیر و ترقی کی دعوت کا آغاز کیا. ان میں سب سے پہلا شخص «ہیرش کالیشر»(7) جو ایک یہودی خاخام (8) تھا جس نے اس دعوت کا آغاز اپنی کتاب «صہیون کی تلاش میں» سے کیا. یہ کتاب سنہ 1861 میں شائع ہوئی. بعض دیگر یہودی دانشوروں نے اسی سلسلے میں کتابیں لکھیں اور بیشتر یہودیوں کو فلسطین میں چلے جانے اور وہاں صہیونی ریاست کی تشکیل کے لئے ذہنی طور پر آمادہ کیا.

مذہبی صہیونیت اور سیاسی صہیونیت

یہودی مفکرین میں دو قسم کی سوچ اور دو قسم کا طرز فکر پایا جاتا ہے. ان میں سے بعض مذہبی جذبات و احساسات کے حامل تھے جو یہودی عرفان کے پہلو پر زور دیتے تھے اور ان کا اصل مقصد «یہودی مصلح کا قیام» تھا.

اس یہودی فکر کے مطابق، آخرالزمان میں ظہور قائم کے وقت خدا کی سلطنت – جس کے ساتھ روئے زمین پر بسنے والی تمام اقوام و قبائل نے میثاق باندھی ہے – پوری انسانیت کے لئے قائم ہوگی اور پوری انسانیت ان سرزمینوں کی طرف روانہ ہوجائے گی جن میں تورات کے مطابق حضرت ابراہیم اور حضرت موسی علیہماالسلام کی عمر اور ان کی نبوت کے ایام گذرے ہیں. ہمارے قریب کے زمانے – انیسویں صدی – میں «صہیون کے عشاق» کی کوشش تھی کہ صہیون کی سرزمینوں میں یہودی عقائد و تہذیب کی پرچار کی غرض سے ایک روحانی مرکز کی بنیاد رکھی جائے.

دلچسپ امر یہ ہے کہ مذہبی صہیونیت نے کبھی بھی مسلمانوں کی دشمنی کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا کیوں کہ مسلمان بھی اپنی آپ کو ابراہیم (ع) کی ذریت سے وابستہ اور اس کے دین کی پیروکار سمجھتے تھے. یہ مذہبی صہیونیت کسی بھی یہودی ریاست کے منصوبے سے بیگانہ تھی اور فلسطین پر مسلط ہونے کے منصوبوں سے دور. اس صہیونیت نے کبھی بھی مسلمان اور مسیحی عربوں کے ساتھ جدل و نزاع کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا اور اس حوالے سے سرگرم عمل نہیں رہے. (9)

حتی کہ ہرٹزل (10) نے سنہ 1882 میں اپنا ڈاکٹرین پیش کیا. اس نے اپنا نظریہ یا وہی ڈاکٹرین اپنی کتاب «یہودی ریاست» میں تدوین کیا اور 1897 میں سوئٹزر لینڈ کی شہر «بال» میں پہلی عالمی صہیونیت کانگریس کے بعد اس کی عملی روشوں پر کام شروع کیا. ہرٹزل مذہبی صہیونیوں کے برعکس خدا کے وجود تک میں شک کیا کرتا تھا اور اس کا فکری مشغلہ ہرگز مذہبی نہ تھا بلکہ سیاسی تھا چنانچہ اس نے صہیونیت کا مسئلہ مختلف انداز میں پیش کیا۔ اس کی طرز فکر کے خد و خال کو درج ذیل عناوین میں خلاصہ کیا جاسکتا ہے:

1- پوری دنیا کے یہودی – جو دنیا کے کسی ملک میں بھی ہوں – مجموعی طور پر ایک قوم کی تشکیل کرتے ہیں.

2- یہودی جن ملتوں اور اقوام کے درمیان بھی بستے ہوں ان میں قابل جذب و ادغام نہیں ہیں اور وہ قوموں کے اندر تحلیل نہیں ہوتے (نسل پرستى اور نسلی امتیازات پر یقین).

3- یہودی تمام زمانوں اور تمام ممالک میں ظلم و ستم کا شکار رہے ہیں. (11)

تہیوڈور ہرٹزل (Theodor Hertzl) کی مجوزہ راہ حل جو اس کے مندرجہ بالا افکار سے ظاہر ہوتی ہی اور اس کے مطابق دیگر ملتوں کے اندر یہودیوں کی تحلیل ممکن نہیں ہے؛ یہودی عقائد کی ترویج کے لئے ایک روحانی مرکز کا قیام نہیں بلکہ ایک ریاست کی تشکیل ہے جس میں دنیا بھر کے یہودیوں کو مجتمع کیا جاسکے.

ہرٹزل کے مطابق ایک نکتہ یہ ہے کہ یہودی ریاست ایک ایسی سرزمین میں قائم کی جائے جو خالی ہو اور اس کا کوئی دعویدار نہ ہو جس کا مطلب یہ ہے کہ مقامی لوگوں کو اہمیت نہیں دینی چاہئے اور ان کو ہیچ قرار دینا چاہئے. ہرٹزل کے فارمولوں میں بھی اور عالمی صہیونی تحریک کی تأسیس کی مجالس میں بھی فلسطینی عوام کی موجودگی کو کوئی اشارہ نہیں کیا گیا ہے؛ فلسطینی عوام کی عدم موجودگی سیاسی صہیونیت کے مسلمہ اصولیوں اور اس کی بنیادوں میں شامل ہے اور یہی اصول بعد کے زمانوں میں رونما ہونے والے انسانیت سوز مظالم و جرائم کی بنیاد ہے. «مسز گولڈامائر» 15 جون 1969 کے روزنامہ سنڈےی ٹایمز میں اعلان کرتی ہے کہ: «کسی فلسطینی کا کوئی وجود نہیں ہے؛ ایسا نہیں ہے کہ ہم تصور کریں کہ فلسطین کی سرزمین پر فلسطینی نام کی کوئی مخلوق رہتی تھی اور ہم نے آکر انہیں باہر نکالا ہے! ان کا کوئی وجود ہی نہیں ہے. (12)

«پروفیسر بینزين ڈنر» (13) جو اسرائیلی ریاست کا پہلا وزیر تعلیم اور اسرائیل کے بانی «داؤد بن گورین» کا قریبی ساتھی تھا نے سنہ 1954 میں «تاریخ ہاگاناہ» (14)نامی کتاب کے دیباچے میں لکھا ہے: ہمارے ملک میں یہودیوں کے سوا کسی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے؛ ہم عربوں سے کہیں گے کہ : باہر! (گیٹ آؤٹ)! اگر وہ نکلنے پر آمادہ نہ ہوئے یا مزاحمت پر اترآئے تو ہم انہیں زبردستی نکال باہر کریں گے.(15)

یہ دعوی ایسے حال میں سامنے آیا کہ سنہ 1917 میں انگریزی سامراج کے وزیر خارجہ «بالفور» کا اعلامیہ جاری ہونے، «فلسطین واپسی» کے سلسلے میں سیاسی صہیونیت کی 20 سالہ سرگرمیوں کے شروع ہونے اور روس، پولینڈ اور رومانیہ میں صہیونیوں کے منصوبوں سے بھاگے ہوئے لوگوں کی پہلی ہجرت کے بعد انگریزوں کی 31 دسمبر 1931 کی مردم شماری کے مطابق فلسطین میں بسنے والے افراد کی کل تعداد سات لاکھ ستاون ہزار تھی جن میں 663000 (چھ لاکھ تریسٹھ ہزار افراد) عرب تھے. (590000 (پانچ لاکھ نوے ہزار) افراد مسلم عرب اور 73000 (تہتر بزار عیسائی عرب) اور صرف 83000 (تراسی ہزار) یہودی تھے.

ہرٹزل نے ساز باز اور وعد و وعید کے ذریعے انگریزوں کی باضابطہ حمایت حاصل کرلی اور یہ حمایت 2 نومبر 1917 کو بالفور کی طرف سے یہودی مالدار شخص «لارڈ راچیلڈ»(16) کے نام ایک خط کے طور پر ظاہر ہوئی اور یہ خط «اعلامیہ بالفور» کے نام سے مشہور ہوا. یہ اعلامیہ اسی حال میں برطانیہ کے صہیونیوں اور ان کے راہنما «حایئم وایزمین»(17) کی کوششوں کی کامیابی سمجھی جاتی ہے.

بالفور کے اعلامئے میں واضح طور پر ذکر ہوا ہے کہ: برطانوی شاہی حکومت فلسطین میں یہودی وطن کی تشکیل پر خاص توجہ رکھتی ہے اور مستقبل قریب میں اس ہدف تک پہنچنے اور اس کے وسائل کی فراہمی کے سلسلے میں ضروری اقدامات عمل میں آئیں گے. (18)

3- سیاسی صہيونيت اور تورات سے ناجائز فائدہ اٹھانا

«گولڈامائر» اور «مناخیم بگين » کا کہنا ہے: «اس سرزمین کا ہمیں وعدہ دیا گیا اور ہمارا اس پر حق ہے». (19)

«موشے دايان » کہتا ہے: اگر ہم تورات پر مسلط ہیں اور اس پر عبور رکھتے ہیں اور اپنے آپ کو قوم تورات سمجھتے ہیں؛ لازماً ہمیں «توراتی سرزمینوں» پر مسلط ہونا پڑے گا؛ قاضیوں اور سفیدریشوں کی سرزمینیں، «بیت المقدس»، «حبرون» (الخلیل)، «اریحا» ، اور ان کے بعد دیگر سرزمینیں.(20)

وہ تسلسل کے ساتھ زمین کا دعوی بھی کرتے ہیں اور فلسطین پر مالکیت کے خدائی حق کی بات بھی کرتے ہیں. کہتے ہیں: ہمارے لئے ہرچیز جائز ہوجاتے ہے، جب ہم «خداکی برگزیدہ قوم» اور «عامل مطلق» ہونگے؛ اسی بنیاد پر اذیتیں دینا، بدسلوکیاں، دہشت گردی، دھونس دہمکیاں، خوف وہراس پھیلانا، گرفتاریاں کرنا، زبردستی ہجرتیں کروانا، اجتماعی طور پر مقامی لوگوں کو جلاوطن کرنا، لوگوں کے اموال و املاک تباہ اور ضبط کرنا، اجتماعی قتل، وغیرہ جیسے اقدامات کا حق اپنے لئے محفوظ رکھتے ہیں اور اسی جعلی حق کے تحت «دیر یاسین» میں فلسطینیوں کا قتل عام کیا گیا: 9 اپریل 1948 کو صہیونیوں کے ایک گروہ «ایرگون» نے سابق صہیونی وزیراعظم «مناخیم بیگن» کی سرکردگی میں دیر یاسین پر حملہ کرنے «اورادور» میں نازیوں کی طرز پر اس گاؤں کے 254 باشندوں (مردوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں) کا قتل عام کیا، بیگن نے بعد میں اپنی ایک کتاب «ایرگون کا تاریخی قیام» میں لکھا: «اگر ہم دیریاسین میں فتح حاصل نہ کرتے یہودی ریاست بھی وجود میں نہ آتے». اس نے مزید لکھا ہے «ہاگاناہ» [نامی دہشت گرد صہیونی گروہ] نے دیگر محاذوں پر بھی بڑے کامیاب حملے کئے ہیں؛ عرب عوام ڈر کے مارے بھاگے جاتے تھے اور چلایا کرتے تھے : «دیر یاسین دیر یاسین»!

یہ مفہوم، یہ وعدے اور حربے اور ان کو عملی جامہ پہنانے کے وعدے، جیسے «قوم برگزیدہ»، «عظیم تر اسرائیل نیل سے لے کر فرات تک» وغیرہ سیاسی صہیونیت کے سیاسی نظریئے اور آئیڈیالوجی کی تشکیل کرتے ہیں. یہ ایک حقیقت ہے کہ سامراجیوں نے تاریخ میں ہمیشہ سرزمینوں پر قبضے، ان کے الحاق اور جہانگشائی کے لئے مختلف بہانے اور جواز تراشے ہیں؛ اور عام طور پر ان کا بہانہ ثقافتی اور علمی برتری تھا جو حملہ آور اور غاصب کو اپنی «نسل» کی جانب سے تہذیب بنانے کی ایک مآموریت و ذمہ داری سونپ دیتی تھی «کہ وہ جائیں اور بے تہذیب ممالک کو تہذیب کے دہارے میں شامل کریں» اور مذہبی بہانہ بھی ایک سماجی گروہ کی جانب سے دوسرے سماجی گروہ پر تسلط کے لئے استعمال ہوتا رہا ہے.

برگزیدہ قوم کی سوچ تاریخی اور سیاسی لحاظ سے جرم آفرین ہے کیونکہ جب یہ نظریہ ہوگا حملے ہونگے، وسعت طلبی ہوگی، تسلط پسندی ہوگی اور ان سب کی تقدیس بھی ہوگی اور یہ سارے اعمال مقدس سمجھے جاتے رہیں گے اور یہ سب گذشتہ اور معاصر تاریخ – خاص طور پر امریکہ میں سفیدفاموں کی جانب سے سرخ فاموں کی نابودی اور سیاہ فاموں کو غلامی پر مجبور کئے جانے، نازیوں کی جانب سے دنیا کو خاک و خون میں ڈبودیئے جانے اور صہیونی ریاست کی جانب سے فلسطینی قوم پر مظالم کی پہاڑ توڑ دیئے جانے کی صورت – میں واقع ہوا ہے.

برگزیدہ قوم کی سوچ مذہبی لحاظ سے بھی ناقابل برداشت ہے کیونکہ جب برگزیدہ قوم ہوگی «نکالی ہوئی اور ہانکی ہوئی قوم» کا وجود بھی ہوگا!.

 

4- صہیونی ریاست کی پالیسی

الف: داخلی پالیسی (نسل پرستی اور قتل و خونریزی)

فلسطین کی طرف یہودیوں کی ہجرت کا سیلاب آیا تو صہیونیوں نے عرب فلسطینیوں کی زمینیں خریدنے کا سلسلہ شروع کیا اور ساتھ ہی ساتھ دہشت گردوں کے دستے تشکیل دئے اور مالی و فوجی بازؤوں کی تشکیل و تقویت کرکے صہیونیوں کو فلسطینیوں کے خلاف آخری معرکہ لڑنے کی تیاری شروع کردی اور آخرکار تمام قیام اور تحریکیں کچل دینے کے بعد «یہودی گارڈز برطانوی بکتربند گاڑیوں میں بیٹھ کر سڑکوں اور گلیوں میں فلسطینیوں کا شکار کھیلنے لگے اور ان کا عمومی قتل عام عام اس سرزمین میں آنے والے عام صہیونیوں تک کا من پسند مشغلہ بن گیا – اور ان ہی گارڈز نے انگریزی استعمار کے تعاون سے دوسری جنگ عظیم کے بعد خودمختاری کا اعلان کیا اور اسرائیلی ریاست معرض وجود میں آئی.

دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کی حالات آشوب زدہ تھے اور جنگ کی فاتح قوتیں دنیا کی بندربانٹ میں مصروف تھیں؛ نئے نقشے بن رہے تھے اور صہیونیوں کو موقع میسر تھا چنانچہ انہوں نے دنیا کے عدم توازن اور عدم استحکام سے ماہرانہ انداز میں فائدہ اٹھایا اور وسیع سفارتی سرگرمیوں اور پروپیگنڈا مہم کے ذریعے یہودیوں کے وسیع قتل و غارت کے حوالے سے یورپیوں کی ملامت زدہ ضمیر سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے فلسطینی قوم کے قتل عام میں جت گئے اور سرزمین فلسطین کو غصب کرگئے.

29 نومبر 1947 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے امریکہ اور برطانیہ کے دباؤ کے تحت فلسطینی سرزمین کی قراداد منظور کی اور اس وقت تقریبا 5 عشروں تک یہودیوں کی مسلسل فلسطین کی جانب ہجرت کے باوجود فلسطین میں یہودیوں کی تعداد 32 فیصد تک پہنچ رہی تھی مگر 56 فیصد سرزمین فلسطین پر قابض ہوئے اور بالفاظ دیگر صہیونی ریاست نے 56فیصد بہترین زمینیں وصول کردیں. نومبر 47 میں تقسیم فلسطین سے لے کر 15 مئی 1948 کو فلسطین کی سرزمین پر برطانوی سامراج کی سرپرستی(21) کے باقاعدہ خاتمے تک کے مختصر سے عرصے مين مسلح صہیونی گروہوں نے «يافا» و «سن جان ڈاكر» جیسے عربوں سے مختص سرزمینوں پر حملے کئے اور ان پر قبضہ کیا مگر صہیونی ریاست کے لئے یہ زمینیں کافی نہ تھیں اور انہیں اس کے باشندوں سے خالی کرانا ضروری تھا تاکہ اس کے لوگوں کو روایتی سامراجیت کی مانند سستی لیبر بھی فراہم کی جاسکے اور “خالی زمینوں” میں یہودی قصبے بھی بنائے جاسکیں اور اس طرح یہودی مہاجرین کو مقامی آبادی کے گھروں اور ان کی زمین پر بسائے گئے قصبوں میں بسایا جاسکے. 1949 میں پہلی عرب اسرائیل جنگ میں صہیونیوں نے فلسطین کی اسی فیصد سرزمین پر قبضہ کرلیا تھا اور سات لاکھ ستر ہزار فلسطینیوں کو نکال باہر کیا گیا.

ب: خارجہ پالیسی (وسعت پسندی)

«میں آپ کو یادآوری کرانا چاہتا ہوں کہ قبل اس کے کہ دیر ہوجائے، کبھی کبھی «عظیمتر فلسطین» (عظیمتر اسرائیل) کے پروگراموں کو رجوع کیا کریں . بال کانفرنس کے پروگرام میں «عظیم تر فلسطین» یا «فلسطین اور ہمسایہ سرزمینیں» کی اصطلاح شامل ہوجانی چاہئے ورنہ یہ سب بے معنی ہوگا کیونکہ دنیا کے ایک کروڑ یہودیوں کو پچیس ہزار کیلومیٹر مربع زمین میں بسانا آپ کے لئے ممکن نہ ہوگا». (22) یہ خط ہرٹزل کے مشیر اور قریبی دوست «ڈیوڈ ٹریج» نے عالمی صہیونیت کانفرنس کے کچھ عرصہ بعد 29 اکتوبر 1899 کو ہرٹزل کے نام لکھا تھا. صہیونی ریاست کے تمام تر حملے اور وسعت پسندیاں سیاسی صہیونیت کی اسی وحشیانہ منطق پر استوار ہیں.

«بن گورين » اعلانیہ کہا کرتا تھا: «ہمارا مسئلہ موجودہ حالت کی حفاظت نہیں ہی؛ ہمارا فریضہ ہی کہ زیادہ سے زیادہ ترقی اور وسعت کی خاطر ایک فعال اور متحرک ریاست قائم کریں. (23)

«بن گورين » نے سنہ 1937 سے اسرائیلی سرحدات کو تورات کے حوالوں کے مطابق رسم کیا ہے؛ اس کے خیال میں اسرائیلی سرزمین پانچ علاقوں پر مشتمل ہونے چاہئے:

جنوبی لبنان، دریائے لیتانی تک جس کو بن گورین نے شمال مغربی اسرائیل کا نام دیا تھا.

جنوبی شام اور «ماوراء اردن» جو آج «اردن» کہلاتا ہے

فلسطین اور صحرائے سینا

صہیونیوں نے حتی شام کی شہر «حمص» کو تورات میں مذکور «حمات» شہر کا مصداق گردانا ہے جو سفرِ اعداد (باب 34، آيات 1، 2 و 8) میں کنعان کی شمالی سرحد کا تعین کرتا ہے، بعض صہیونیوں کا حتی یہ بھی خیال ہے کہ یہ شہر (حمات) ترکی میں واقع ہے. 

اصولی طور پر حفظ ما تقدم کے عنوان سے ایک جنگ – جو سرحدات کی وسعت کی ضمانت فراہم کرے – صہیونی نظام کی منطق ہے. 12 اکتوبر 1955 کو مناخیم بیگن نے اعلان کیا: میں تہہ دل سے معتقد ہوں کہ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر ہمیں عرب ممالک کے خلاف حفظ ما تقدم کی بنیاد پر ایک جنگ کا آغاز کرنا چاہئے، ابتداء میں ہمیں عربوں کی طاقت کو منہدم کرنا چاہئے اور اس کے بعد سرحدوں کو وسعت دینی چاہئے. یہ نام نہاد حفظ ما تقدم والی جنگ چھ روزہ جنگ سنہ 1967 میں جاپانی فاشسٹوں کی طرز پر انجام پائی. (یادرہے کہ 7 دسمبر سنہ 1941 کو جاپانیوں نے اعلان جنگ کئے بغیر پرل ہاربر میں بحرالکاہل کے امریکی بحری بیڑے پر یکایک ہلہ بول کر اس کو تباہ کردیا تھا) 5 جون 1967 کو اسرائیل کے جنگی ہوائی جہازوں نے اعلان جنگ کئے بغیر مصری ہوائی جہازوں کو ہوائی اڈوں پر ہی تباہ کردیا. (24)

صہیونيوں نے اس جنگ کے نتیجے میں سنہ 1947 کی تقسیم میں حاصل کی ہوئی زمین کے تین گنا زمینوں پر قبضہ کیا اور ساتھ ساتھ نئی سرزمینوں پر قبضے کی خواہش میں مزید اضافہ ہوا. انہوں نے بیت المقدس اور جولان کی پہاڑیاں مقبوضہ سرزمینوں میں ضمیمہ کرنے کا اعلان کیا جس کیے نتیجے میں بیگن اور سادات کے درمیان “کیمپ ڈیوڈ” کی شرمناک قرارداد پر دستخط اور 1982 میں لبنان پر اسرائیلی قبضہ غیر متوقع نہ تھا کیونکہ صہیونی ریاست کی پالیسی ارضی وسعت کے حصول پر مبنی ہے.

5- نام نہاد امن مذاکرات اور اسرائیلی کاز کے ساتھ وداع

13 ستمبر 1993 کو فلسطینی خودمختار اتھارٹی کے صدر مرحوم یاسر عرفات اور صہیونی وزیراعظم اسحاق شامیر کے درمیان «اوسلو» کی معاہدے پر دستخط ہوئی جس کے بعد فلسطین کی خودمختاری اور سرکاری اختیارات کی منتقلی کے لئے 5سالہ دور کا آغاز ہوا.

اس معاہدے پر مئی 1994 سے عملدرآمد ہونا تھا اور طے یہ پایا تھا کہ 1999 میں فلسطینی ریاست کی قیام کا باضابطہ اعلان ہوگا اور امن مذاکرات اسرائیلیوں کی پسپائی کی تیسری دور سے شروع ہونے تھی. اسرائیل نے اپنی آپ کو پابند کیا تھا کہ دریائی اردن کی مغربی کنارے اور غزہ میں مسلسل پسپائی اختیار کری اور پشپائیان تین مرحلوں میں مکمل کی جائیں مگر ابی تک اس نے پسپائی کا دوسرا مرحلہ بھی شروع نہیں کیا ہی اور اسرائیل کا موقف ہی کہ دوسری مرحلی میں تیرہ فیصد سرزمینوں سے پسپائی میں «جنگلی پارک» کا علاقہ بھی شامل ہی جو تین فیصد پر مشتمل ہی مگر اس پر فلسطینیوں کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے.

دریائی اردن کی مغربی کنارے کو تین علاقوں میں تقسیم کیا گیا ہی جس کا کچھ حصہ خودمختار فلسطینی اتھارٹی کی عملداری میں شمار کیا جاتا ہی اور اس کا ایک حصہ (معاہدے کی تحت) اسرائیل کی عملداری میں رہی گا اور آخری حصہ منحصرا خودمختار اتھارٹی کی حوالے ہوگا اور تین فیصد علاقہ مبہم رہی گا. یہ وہ شرطیں ہیں جن پر اسرائیل دوسری مرحلی کی پسپائی اختیار کرنی سے قبل زور دی رہا ہے.

بعد کی قرراداد «گرویلند ریور» کی قرارداد ہی جس کا نتیجہ علاقے میں اسرائیلی بہانہ جوئیوں اور فلسطینی ریاست کی بھیس میں طویل المدت امریکی موجودگی کی سوا کچھ بھی نہیں ہے. 23 اکتوبر 1998 کو وہائت ہاؤس میں اردن کی آنجہانی بادشاہ شاہ حسین ، سابق امریکے صدر کلنتن کی موجودگی میں اسرائیل کے وزیر اعظم اور مرحوم یاسر عرفات کی دستخطوں سے منعقد ہونے والی وائی ریور قرارداد کی بعض نکات کچھ یوں ہیں:

 دہشت گرد گروہوں کو کالعدم قرار دیا جائی گا اور ان کی خلاف اقدامات کئی جائیں گی. فلسطینی فریق کو دہشت گردی کی اقدامات کے حوالے سے مشکوک افراد کو گرفتار کرکے ان پر مقدمہ چلاکر سزادینی ہوگی.

 فلسطینی فریق اپنی پولیس کی نفری کی نام و نشان اسرائیلی فریف کی حوالے کرنا پریں گی.

 فلسطینی اتھارٹی کی عملداری میں واقع علاقوں میں ہر قسم کی گرم ہتھیار اور گولہ بارود کا حصول، پیداوار، اور درآمدات جرم کی زمری میں آئیں گی؛ غیرقانونی ہتھیار اکتھی کئی جائیں گی اور امریکہ نے اتفاق کیا کہ اس سلسلے میں فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ پورا پورا تعاون کرے گا.

 (یاسر عرفات کی سربراہی میں) فلسطین کی حریت پسند تنظیم (فلسطینی لبریشن فرنٹ یا پی ایل او) کی انتظامی کمیٹی نے امریکے صدر سے وعدہ کیا کہ فلسطین کے قومی منشور سے اسرائیل مخالف نکات حذف کئے جائیں گے!.

 مذاکرات کے دوران تشکیل پانی والی کمیتیوں کی اجلاسوں کو امریکہ کی نگرانی اور اسرائیل موجودگی کی صورت ہی میں باضابطہ تصور کیا جاسکی گا.

یہ ساری نکات اس حکومت کی حصول کے لئے خودمختار فلسطیینی اتھارٹی کی ذلت و حقارت کی دلیل ہیں جو امریکہ اور اسرائیل کی منظوری کی نتیجی میں قائم ہوگی. وائی ریور کی معاہدے کی متن میں «امن» اور «صلح» کا لفظ کا حتی ایک بار بھی ذکر نہیں ہوا ہی جبکہ دوسری طرف سے اسرائیل کو 40 امتیازی حقوق دئی گئی ہیں.

اس معاہدے کے بعد جب امریکے صدر نے فلسطین کا دورہ کیا عرفات  اور پی ایل او کی مرکزی کمیتی کی ارکان نے امریکے صدر اور اس کی آئی ہوئی وفد کی موجودگی میں فلسطین کی ملّی منشور میں موجود اسرائیل مخالف نکات کی حذف کئی جانی کی تجویز سے اتفاق کی نشانی کی طور پر اپنی ہاتھ اوپر اتھائی. یہ وہ منشور تھا جو 40 سال قبل سنہ 1960 کی عشرے میں 6 روزہ شرمناک جنگ کے بعد صہیونی ریاست کی خلاف مسلحانہ جدوجہد کی غرض سے ترتیب دیا گیا تھا اور اس کے نکات میں اسرائیل کی نابودی تک غاصبوں کے خلاف لڑنے پر تاکید کی گئی تھی. یہ ایک تینتیس نکاتی منشور تھا اور صہیونیوں کے ساتھ عرفات کے وعدے کے مطابق اس کے اٹھائیس نکات کو حذف کیا جانا تھا. (گویا کہ منشور پورا کا پورا باطل ہوگیا تھا اور اس کے صرف 5 نکات باقی رہ گئے تھے صرف یہی نہیں بلکہ) اگر ان نکات پر مختصر سے نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ حتی خودمختار اتھارٹی نے صہیونی ریاست کے مدنظر نکات کو حذف کرکے فلسطین کے اندر فلسطینی قوم کی موجودگی کی بھی نفی کی ہے اور وہ خود اپنی وجود کے منکر ہوگئے ہیں.

ان نکات میں موجود اہم ترین موضوعات کچھ یوں ہیں:

 فلسطين، ملت فلسطين کا وطن ہے.

 فلسطين ناقابل تقسیم و تفکیک سرزمين ہے.

 ملت فلسطين کو فلسطین میں رہنے کا شرعی اور قانون حق حاصل ہے.

 فلسطین میں اس سرزمین پر قبضہ ہونے سے قل کے رہنے والے یہودی فلسطینی شمار کئے جاتے ہیں.

 مسلحانہ جدوجہد فلسطین کی آزادی کا واحد راستہ ہے.

 ملت فلسطين وطن کی آزادی کے لئے ایک عوام انقلاب کی طرف حرکت کرے گی.

 گوریلا جنگ، ملت فلسطین کی حریت کی جنگ کا اصل مرکزہ ہے.

 عرب ممالک کا اتحاد فلسطین کی آزادی پر منتج ہوگا اور فلسطین کی آزادی عرب ممالک کے اتحاد پر منتج ہوگی.

 1947 میں فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کی تأسیس باطل ہے.

 اسرائیل کا غیر فطری وجود فلسطینی سرزمین میں ملت فلسطین کی سکونت کے ساتھ مغایرت رکھتا ہے.

 یہود اور فلسطین کے درمیان تاریخی تعلق کا دعوی بے بنیاد اور توہمات پر مبنی ہے.

 یہودی ایک ملت اور ایک قوم نہیں ہیں بلکہ فلسطین میں درآمد شدہ دیگر ممالک کے شہری ہیں.

 صہیونیت ایک سیاسی تحریک اور عالمی سامراج سے وابستہ ہے.

 صہیونيت نسل پرست، وسعت پسندانہ عزائم کے حامل، فاشسٹ اور جارح تحریک ہے.

مذکورہ بالا نکات منشور فلسطین کے صہیونیت مخالف نکات تھے چنانچہ ان میں سے بہت سے نکات کا حذف کیا جانا در حقیقت فلسطینی ملت کی موجودگی، ان کی پوری ہستی اور حق حیات کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے اور ان نکات کو حذف کرکے خودمختار اتھارٹی نے فلسطینی قوم کے حق میں عظیم ترین اور بدترین خیانت کا ارتکاب کیا ہے. کلنٹن نے بیت المقدس کو اسرائیل کا ابدی دارالحکومت ہونے پر تاکید کی تھی اور عرفات نے اس کے موقف کا خیر مقدم بھی کیا تھا اور بعد میں خالی خولی نعروں میں بیت المقدس کو آزاد فلسطین کا دارالحکومت بنانے پر بھی تاکید کرتے رہتے تھے تھے. حقیقت یہ ہے کہ پی ایل او کی شوری نے 81 موافق اور سات مخالف ووٹ دے کر ان نکات کو منشور فلسطین سے حذف کردیا تھا.

وائی ریور کی قرارداد کی بنیاد مغربی کنارے سے اسرائیلیوں کی پسپائی پر استوار ہے مگر اس قرارداد پر عمدرآمد کا دار و مدار بھی صہیونیوں کی مرضی پر ہے اور ہم نے دیکھا کہ منشور فلسطین کو ناکارہ کرنے کے بعد صہیونیوں نے نہ صرف اس علاقے سے پسپائی مؤخر کردی بلکہ انہوں نے نئی شرطیں عائد کردیں:

امریکی صدر «بل كلنٹن » نے نام نہاد امن کا بازار دوبارہ گرم کرنے کی غرض سے یاسرعرفات اور اسرائیل کی اس وقت کے وزیر اعظم «بنیامین نیتان یاہو» کی موجودگی میں سہ فریقی کانفرنس میں تیسری فریق کے عنوان سے شرکت کی.

قدس پر قابض صہیونی ریاست کے وزیر اعظم نیتان یاہو کے دفتر کی رپورٹ کے مطابق اس نے اس کانفرنس میں قرارداد کے نکات پر عملدرآمد کے لئے 10 نئی شرطیں عائد کی ہیں اور یوں لگتا ہے کہ گویا یاسرعرفات خودمختارفلسطینی اتھارٹی کی عملداری میں واقع سرزمینوں میں صہیونیوں کے پولیس میں ہیں!

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سیدعلی خامنہ ای نے غاصبین اور ان کی چیلوں کے موقف اور ان کے منصوبوں سے گہری آگہی کی بنیاد پر فرمایا:

«امریکی مشینری اور امریکے صدر اپنی پوری کوششیں بروئے کار لارہے ہیں کہ فلسطین کے مسئلے کو عالم اسلام اور مشرق وسطی کے مسائل و موضوعات کی فہرست سے کلی طور پر حذف کردیں اور مسئلہ فلسطین، فلسطینی کاز اور فلسطین کی تحریک باقی ہی نہ رہے؛ یہ ان کا بہت بڑا اور اہم ہدف ہے. اسی خاطر وہ دورے کررہے ہیں اور متحرک ہوئے ہیں اور ضعیف النفس اور خیانت پیشہ اور حقیر افراد جو فلسطینیوں کے درمیان موجود ہیں – جس طرح کہ دنیا کی تمام قوموں کے اندر بھی ایسے افراد کی کوئی کمی نہیں ہے اور باعث افسوس ہے کہ انسانی معاشرے تاریخ کے بیشتر ادوار میں حقیر اور مرعوب انسانوں کا شکار رہے ہیں – سرتسلیم خم کرکے فلسطین کے قومی منشور کو ان کی سامنے رکھے ہوئے ہیں اور وہ لوگ وہ تمام نکات اس منشور سے مٹانا چاہتے ہیں  جن میں صہیونیوں، غاصبوں اور فلسطینی عوام کے قاتلوں اور جرائم پیشہ جارحین کے خلاف مواد موجود ہے وہ ان نکات کو حذف کرانا چاہتے ہیں بلکہ انہیں حذف کرچکے ہیں! اب اگر وہ ان نکات کو کاغذ کے صفحے سے حذف بھی کریں یہ کیونکر ممکن ہے کہ فلسطینی مملکت اور فلسطینی حیثیت و موجودیت کے دفاع کے محرکات کو فلسطینیوں کے دلوں سے مٹایا جائے کیا وہ سب اپنے ملک کا دفاع بھول جائیں گے…؟

کیا فلسطینی انتفاضہ یا لبنان کے اندر رضائے الہی اور خدائی فریضے اور اسلامی سرزمین کے دفاع کے لئے اپنی جان خطرات میں ڈالنے والے مسلم نوجوان منشور فلسطین کے نکات کی رو سے لڑ رہے تھے – جو اب جبکہ تم نے اس منشور میں تحریف کی ہے- وہ پیچھے ہٹ جائیں؟!» .

اس کے بعد وائی ریور قرارداد (25) میں اصلاحات کی باری آئی اور طے پایا کہ:

1- فریقین کو ایک سال کے اندر آپس کے مسائل پر کسی نتیجے تک پہنچنا پڑے گا.

2- اسرائیلی پسپائی تین مرحلوں میں ایک پیچیدہ نظام کے تحت ہوگی.

3- فلسطینی قیدیوں کو مرحلہ وار رہا کیا جائے گا.

4- فریقین یکطرفہ اقدامات سے پرہیز کریں گے!

5- فلسطینی اتھارٹی مشکوک افراد کو گرفتار کرے گی؛ غیرقانونی ہتھیار ضبط کرے گی اور فلسطینی پولیس کی تعداد میں کمی کرے گی.

6- پناہ گزینوں کے امور کی نگرانی کے لئے کمیٹی تشکیل دی جائے گی.

7- غزہ میں نئی بندرگاہ تعمیر ہوگی.

8- یکم اکتوبر 1998 سے غزہ کی پٹی سے صہیونی ریاست کے زیرقبضہ «الخلیل» کی طرف فلسطینیوں کا آنا جانا ممنوع ہوگا

اس وقت اس قرارداد کا حال کچھ یوں ہے:

1-    کئی سال گذرنی کے باوجود کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا اور نئے مسائل دنیا کے سامنے ہیں

2-    اسرائیل نے تمام علاقوں کی ناکہ بندی کی ہوئی ہے.

3-    فلسطینی قیدیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور اب تو اتھارٹی کے وزراء اور فلسطینی پارلیمنٹ کے اراکین بھی جیلوں کی ہوا کھا رہے ہیں.

4-    اسرائیل نے اپنی یکطرفہ کاروائیوں میں کئی گنا اضافہ کیا ہے جبکہ اتھارٹی میں کوئی اقدام کرنے کی سکت ہی نہیں ہے اور اتھارٹی کا بہائی صدر اسرائیل کا ڈنڈا بردار سپاہی ہے جبکہ فلسطین کی منتخب حکومت غزہ میں قیدی ہے!

5-    اتھارٹی نے کئی بار مجاہدین کے خلاف خائنانہ اقدامات کئے اور کئی سرکردہ مجاہد راہنماؤں کو شہید بھی کیا.

6-    40 لاکھ فلسطینی فلسطین سے باہر دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور اسرائیلی انہیں فلسطین میں آنے کی اجازت دینے کے کسی قیمت پر بھی روادار نہیں ہیں اور امریکہ و یورپ کی حمایت بھی صہیونی ریاست کا ابدی سرمایہ ہے!

7-    غزہ کی بندرگاہ نہیں بنی اور غزہ کے اردگرد اسرائیلی موجود ہیں اور سمندر میں بھی ان کی جہاز لنگر انداز ہیں جو غزہ کی ناکہ بندی کی نگرانی کررہی ہیں اور اس وقت تو غزہ پر دوبارہ حملوں کی تیاریاں بھی ہورہی ہیں.

بعد کے مذاکرات میں طے یہ تھا کہ ایک مستقل مملکت فلسطین کی قیام پر بات چیت ہو اور اس مملکت کا دائرہ اختیارات متعین ہو، سرحدات کا تعین ہو، پناہ گزینوں،یہودی قصبوں، پانی کے ذرائع پر کنتٹرول جیسے مسائل پر بات چیت ہو مگر بعد میں صہیونی وزیراعظم ایہود باراک نے عرفات کو «نصیحت» کی کہ مغربی کنارے میں اسرائیلی افواج کی بجائے فلسطینی فورسز کی تعیناتی، قدس، پناہ گزینوں، فلسطین کی آیندہ حکومت، یہودی قصبوں کے قیام، آبراہوں، گذرگاہوں اور سرحدی تنازعات جیسے «پیچیدہ اور اہم» مسائل پر اظہار خیال نہ کریں. (26) مگر جب چڑیاں کھیت چگ گئیں تو عرفات صاحب پچھتائے اور قدس کو مرکز فلسطین بنانے پر اصرار کیا جبکه امریکه اور اسرائیل اس سی اپنی فائدی اتها چکی تهی اور ان کی تاریخ استعمال گذرچکی تهی چنانچه عرفات صاحب کی ناکہ بندی ہوئی اور اسی دوران انہیں مسموم کیا گیا جس کے نتیجے میں وہ چل بسے اور اسرائیل اپنی فتح پر خوشی کا جشن مناتا رہا جو جولائی 2006 تک جاری رہا.

6- انتفاضہ

انتفاضہ مقبوضہ سرزمینوں میں فلسطینی عوام کی تحریک کا نام ہے. فلسطینی عوام صہیونی ریاست کے قیام کے بعد یا تو پناہ گزین ہوکر دوسرے ممالک میں بس گئے یا پھر صہیونیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں رہ گئے. 1987 میں ایران کے انقلاب اسلامی سے الہام لے کر فلسطینی عوام نے اپنی سرزمین میں صہیونی سپاہیوں کی طرف پتھر پھینک کر اس تحریک کا آغاز کیا اور یہ درحقیقت عرب ممالک کی مریض حال سفارتکاری اور پی ایل او جیسے ساز باز کرنے والے گروہوں سے فلسطینی عوام کی انتھائی ناامیدی کا نتیجہ تھا. «جہاداسلامی تحریک» جو «اخوان المسلمین» تحریک سے الگ ہونے والی جماعت ہے، «شہیدڈاکٹرفتحی شقاقی» کی قیادت میں سنہ 1980 کو تشکیل پائی.(27) جہاد اسلامی تحریک غاصب صہیونیوں کے خلاف جدوجہد کرنے والے فعال ترین اور متحرک ترین تحریک ہے. یہ تحریک در حقیقت ایران کی اسلامی انقلاب کی صدائے بازگشت تھی جو «جہاد»، «شہادت»، اور «ہدف کی راہ میں جانفشانی» جیسے اصولوں سے بہرہ مند ہے اور مسلحانہ جہاد کی قائل ہے؛ نے اس انتفاضہ کے آغاز میں نہایت اہم کردار ادا کیا اور انتفاضہ کی حقیقی قیادت بھی اسی تحریک کے ہاتھوں میں تھی.

جہاد اسلامی کے ہاتھوں انتفاضہ کے آغاز کے بعد «حرکة المقاومة الاسلامیة» (حماس) معرض وجود میں آئی جس کے روحانی پیشوا «شہید شیخ احمد یاسین» تھے.

اسی انتفاضہ کے نتیجے کے طور پر ہی صہیونی ریاست نے پی ایل او کو فلسطین پر سودا کرنے کے لئے منتخب کیا جبکہ اس سے قبل صہیونی قابضین فلسطینیوں کے ساتھ بات کرنا اپنی لئے عیب سمجھتے تھے. بعد میں جب شیرون نے اپنے ناپاک قدم مسجدالاقصی میں رکھے تو نئی انتفاضہ کا آغاز ہوا جس کو مسجد الاقصی کی انتفاضہ کا نام دیا گیا. اور اس کے دوران حماس نے بھی اسرائیل کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے میں کردار ادا کیا اور اس کے بعد منعقد ہونے والے انتخابات میں حماس کو حکومت بنانے کا موقع ملا مگر جب سے وہاں جمہوری حکومت قائم ہوئی ہے جمہوریت کے بیں الاقوامی سوداگروں نے وہاں کے عوام کا ناطقہ بند کیا ہے اور ان کے متعدد راہنما شہید ہوئے ہیں اور کئی جیلوں میں ہیں.

2003 میں عراق پر امریکی قبضے کے بعد امریکہ بہادر نے علاقے کی سرحدوں میں تبدیلی پر کام شروع کیا اور اس کو عظیم تر مشرق وسطی کا نام دیا گیا اور جب عراق اور افغانستان پر قبضہ ہوا تو دلدل میں پھنس گیا اور اسرائیل کو لبنان پر قبضہ کرنے کا ہدف دیا. چنانچہ اسرائیل نے جولائی 2006 میں لبنان کے خلاف «ایک ہفتے کی جنگ» کا آغاز کیا اور بہانہ یہ بنایا کہ وہ حزب اللہ کو نہتا کرنا چاہتا ہے اور امریکہ نے اعلان کیا کہ اب عظی متر مشرق وسطی کی تشکیل کا باضابطہ آغاز ہوچکا ہے مگر اسرائیل کو اپنی 60 سالہ شرمناک تاریخ کے دوران پہلی بار نہایت کانٹے دار قسم کے معرکے کا سامنا کرنا پڑا اور جنگ طول پکڑ گئی. اسرائیلیوں نے اپنی کمزوری کا احساس کرکے جنگ بندی کی بہتیری کوشش کی مگر امریکہ کی سیاہ فام وزیر خارجہ کونڈالیزا رائس “تل ابیب” میں براجمان ایہود اولمرٹ کو جنگ بندی سے روکتی رہی یہاں تک کہ جنگ کا ایک مہینہ پورا ہوگیا اور حزب اللہ نے اپنے تمامتر وعدوں اور دعؤوں کو سچا ثابت کرکے دکھایا اور 33 دن پورے ہوئے اور تل ابیب بھی حزب اللہ کے راکت حملوں کے زد میں تھا کہ صہیونی ریاست نے نہایت کمزور صورت حال میں جنگ بندی کا اعلان کیا.

اسرائیل کو پہلی بار شکست ہوئی اور اب تک یعنی 2008 میں بھی اسرائیل کو اس شکست کے نتائج بھگتنا پڑ رہے ہیں؛ اولمرٹ کو مستعفی ہونا پڑا ہے اور :

اسرائیلیوں نے اعتراف کیا ہے کہ صبرا و شتیلا کے خونخوار قصائی ایریل شیرون کے بعد اسرائیل میں مقتدر شخصیات کا دور گذر گیا ہے اور اب جو بھی حکومت آئے گی اولمرٹ کی حکومت سے کمزور ہی ہوگی.

اولمرٹ نے بھی حال ہی میں کہا ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کا ساٹھ سالہ رویہ درست نہیں تھا! اور بعض صہیونی نظریہ پردازوں کا توخیال ہے کہ حزب اللہ کی ہاتھوں پٹ جانے کے بعد اسرائیل کے دن گنے جاچکے ہیں اور یہ کہ اسرائیل کی نابودی کی ذمہ داری حزب اللہ پر عائد ہوتی ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر جناب ڈاکٹر محمود احمدی نژاد نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لئے نیویارک روانہ ہونے سے پہلے پریس ٹی وی کے ساتھ اپنی بات چیت میں کہا ہے کہ : کسی وقت صہیونی نظریہ پرداز عظیم تر اسرائیل اور نیل سے لے کر فرات تک کی باتیں کرتے رہتے تھے مگر اب تو صہیونیوں کو چھوٹے سے اسرائیل کی حفاظت میں جان کے لالے پڑرہے ہیں».

7- بین الاقوامی قانون کے مطابق صہیونی ریاست غاصب ہے

بین الاقوامی قوانین کے مطابق اسرائیل «ریاست» یا «مملکت» کی معمولی تعریف کے مطابق مملکت یا ریاست کے زمرے میں نہیں آتا. کیونکہ ہر ریاست کی تین خصوصیات ہوتی ہیں اور اسرائیل ان تین خصوصیات سے کلی طور پر بےبہرہ ہے:

1- عوام

2- معلوم اور جانی پہچانی سرزمین

3- حکومت

1- عوام

گوکہ اس وقت فلسطین میں بسنے والے یہودی اکثریت میں ہیں مگر کسی پر بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ لوگ اس ملک کے رہنے والے نہیں ہیں بلکہ اجنبی اور بیگانیے ہیں اور دنیا کی چار اطراف سے یہاں کے عوام کی مرضی کے خلاف اس سرزمین میں آبیٹھے ہیں اور فلسطینی عوام کو طاقت کا استعمال کرکے نکال باہر کیا گیا ہے. چنانچہ یہ لوگ عوام کا مصداق نہیں ہوسکتے چہ جائیکہ انہیں «فلسطینی عوام» کا نام دیا جائے

اس سلسلے میں رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا موقف نہایت دلچسپ ہے:

انہوں نے اسرائیلی عوام کو صہیونیت کا لشکر قراردیتے ہوئے فرمایا کہ وہ لوگ جنہیں اسرائیلی عوام کا لقب دیا جارہا ہے در حقیقت  غاصب ہیں اور صہیونیت کی سپاہ کی عددی افزودگی کا باعث ہیں.

انہوں نے ماہ رمضان المبارک 1429 ہجری کے تیسرے جمعے کی نماز میں لاکھوں روزہ دار نمازگزاروں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

«(ممکن ہے) ایک فرد اٹھ کر فلسطین میں آبسنے والے لوگوں کے بارے میں اظہار خیال کرے؛… سوال یہ ہے کہ اسرائیل کے عوام درحقیقت ہیں کون؟ یہ لوگ وہی لوگ ہیں جو فلسطینیوں کے گھروں، کھیتی باڑیوں، سرزمین اور کاروبار غصب کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں. یہی لوگ ہیں جو صہیونیوں کے لشکر میں شامل ہیں اور ان کے لشکر کی عددی افزودگی کا باعث ہیں؛ مسلم امہ اسلام کے بنیادی دشمنوں کے آلہ کاروں کے حوالے سے خاموشی اختیار نہیں کرسکتی؛ ہاں مگر ہمارا عام یہودیوں کے ساتھ کوئی منازعہ نہیں ہے؛ عیسائیوں کے ساتھ ہمارا کوئی مسئلہ نہیں ہے؛ دنیا میں مختلف ادیان کے پیروکاروں کے ساتھ ہمارا کوئی جھگڑا نہیں ہے مگر فلسطینی سرزمین پر قابض غاصبین کے ساتھ ہمارا بنیادی جھگڑا ہے؛ غاصب صرف صہیونی ریاست ہی نہیں ہے (بلکہ ہر غاصب کے ساتھ ہمارا اختلاف ہے) یہ ہمارے اسلامی نظام کا سرکاری موقف ہے؛ یہ ہمارے انقلاب کا موقف ہے اور ہمارے عوام کا موقف ہے… اسرائیل اور دوسرے ممالک کے درمیان بنیادی فرق ہے؛ یہاں کے لوگ غصب شدہ سرزمین میں سکونت اختیار کئے بیٹھے ہیں؛ یہودی قصبے ان ہی لوگوں کے توسط سے قائم کئے جارہے ہیں جنہیں اسرائیلی عوام کا نام دیا جاتا ہے؛ فلسطینی سرزمین کو ان ہی لوگوں نے بھر دیا ہے؛ یہ وہی لوگ ہیں جنہیں جعلی صہیونی ریاست نے فلسطینی عوام کے خلاف مسلح کیا ہے تاکہ فلسطینی عوام ان قصبوں کے قریب جانے کی جرأت نہ کرسکیں. یہ وہی لوگ ہیں … ان کی خلاف نظام اسلامی کا موقف واضح ہے…»

2- معلوم اور جانی پہچانی سرزمین

ایک مملکت و ریاست کی سرحدیں معلوم ہوتی ہیں جبکہ اسرائیل کی سرحدیں معلوم نہیں ہیں یہاں تک فلسطین کی مقبوضہ سرزمیوں پر بھی فلسطینی عوام اور ارد گرد کے عرب ممالک کا دعوی ہے اور یہ سرزمینیں بھی متنازعہ ہیں. بین الاقوامی حقوق و قوانین کی روشنی میں اگر ایک سرزمین پر ایک ہی تنازعہ بھی موجود ہو تو اس سرزمین کی قانونی حیثیت کا انکار کیا جاسکتا ہے.

3- حکومت:

بین الاقوامی اور ملکوں کے قومی قوانین کے مطابق حکومت کو ملکی عوام کا نمایندہ ہونا چاہئے جبکہ فلسطین کو غصب کرنے والی حکومت ان لوگوں کی نمایندگی کررہی ہے جن کا اس سرزمین سے تعلق ہی نہیں ہے. اس غاصب ریاست نے یہاں کے مقامی عوام کو اس ملک سے نکال باہر کیا ہے چنانچہ اس ریاست پر تین بنیادی تعریفوں کا اطلاق ممکن نہیں ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسرائیل کوئی ملک نہیں ہے؛ اس کے عوام کی حیثیت مخدوش ہے،؛ اس کی سرزمین متنازعہ اور مقبوضہ ہے اور اس کی حکومت غیروں کی حکومت ہے. یہ کیسے ممکن ہے کہ مثلا یورپ کے عوام کے منتخب کردہ حکمران ایشیا کے کسی ملک پر فرمانروائی کرتے پھریں!؟

بقلم: مہدى قاسمى ایم فل پولیٹیکل سائنس

ترجمه، اپ ڈیٹ و تکمیل: فرحت حسین مہدوی

مأخذ :

1. عفيف عبدالفتاح طباره، یہود از نظر قرآن، ترجمه على منتظمى، انتشارات بعثت، ص 11. 
2. ممتحنه، 13. 
3. بقره، 96 
4. نساء، 161 – 160.

5. جمعه آیات 5 تا 8 – اس زمانے میں قرآن کی اس گواہی کی زندہ مثال لبنان و فلسطین کے سنگدل قصائی ایریل شیرون کا نیم مرده جسم ہے جو عرصہ دراز سے کومے میں پڑا ہے مگر اس کے منہ اور ناک سے آکسجن کا ماسک نہیں ہٹایا جارہا کیونکہ وہ مرکر بھی دنیا میں رہنا چاہتا ہے اور آخرت کا انکاری ہوکر خدا کے پاس جانے کے لئے تیار نہیں ہے اور اس کی پیروکار بھی اس کو اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں کیون که شیرون کی بغیر امن سی جینا شاید صهیونیون کی لئی ناممکن هی مگر آخر کار اس دفنانی کا فیصله کرنا هی پری گا مگر کب تک؟ عجیب یہ ہے کہ خود ریاست اسرائیل کا بھی یہی حال ہے اور اس کو بھی مغربی طاقتوں نے آکسیجن کا ماسک چِِڑھایا ہے ورنہ اس ریاست کی بھی آخری ہچکیاں قریب ہیں اور جس دن یہ ماسک ہٹے گا اور یہ مرا ہؤا جسم بهی تاریخ کے قبرستان میں دفنادیا جائے گا.
6. تاريخ طبرى، جلد 3، ص 609. 
7. 
Hirsch Kalischer 
8. خاخام: (عبرى) یہودی علماء اور مذہبى پيشوا، جو عربی میں لفظ “حكيم” کے ہم معنی ہے. فرهنگ معين، ص 1384-فرهنگ عميد، ص 816 
9. روژه گارودى 
Roje Garodi ، اسرائیل فائل اور سیاسی صہیونیت، ترجمه ڈاكٹر نسرين حكمى، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامى 1988۔ 
10. 
Theodor Hertzl 
11. ڈاكٹرين: (فرانسیسی) مسلك، عقيده، رائے، نظريہ، فكر. فرہنگ عميد، ص 957 
12. گارودى، ، اسرائیل فائل اور سیاسی صہیونیت۔ 
13. گارودى، ، اسرائیل فائل اور سیاسی صہیونیت ، ص 38 
14. 
Benzion Dinur 
15. “هاگاناه” یہودى تنظیم تھی جس کی بنیاد انگریزوں نے رکھی تھی اور اس کی تاسیس کا مقصد ذاتی دفاع تھا مگر اس کا کام عربوں پر حملے کرنا اور دہشت گرد یہودی گروہوّ کی حمایت کرنا تھا اور صہیونی ریاست کی تشکیل کے بعد اسرائیلی فوج کے افسران اسی دہشت گرد تنظیم سے لئے گئے 
16. گارودى، پيشين، ص 39 
17. روچيلاز، ترجمه رضا سندگل، منيژه اسلامبولچى، انتشارات وزارت ارشاد 
18. [حييم، حائم يا خئوم واتيسمان 
Chaim Weizmann ] روس میں پیدا ہؤا تھا. ابتداء میں کیمیادان کی حیثیت سے میدان عمل میں داخل ہؤا. اس نے پہلی کانگریس کے سوا باقی تمام صہیونی کانگریسوں میں شرکت کی تھی.  1904 مین برطانیہ پہنچا اور تھوڑا عرصہ بعد انگلستان کی اہم ترین صہیونی شخصیت کے عنوان سے ابھرا. 
19. رحمانى، شمس الدين، عالمی جرم، انتشارات پيام نور، 1369، تهران، ص 146 
20. لوموند، شماره 15، اكتبر 1971 
21. گارودى، پيشين 
22. سازش کا بیج (
برطانوی وزارت خارجہ کی خفیہ دستاویزات کا خلاصہ) ترجمه ڈاكٹر حسين ابوترابيان، انتشارات اطلاعات، 1370 
23. گارودى، اسرائیل فائل اور سیاسی صہیونیت،  ص 131 
24. گارودى، اسرائیل فائل اور سیاسی صہیونیت،  ص 133 
25. گارودى، اسرائیل فائل اور سیاسی صہیونیت ، ص 136 
26. روزنامه انتخاب، يكشنبه 14 شهريور ماه 1998، ش 121 
27. نداء القدس، سال سوم، 31/4/78 (جهاد اسلامى)

تبصرے
Loading...