والد ین کا عاق کرنا

والد ین کا عاق کرنا

گناہان کبیرہ میں سے چھٹا گناہ کبیرہ ماں باپ کا عاق ہے۔ چنانچہ حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور بعض آئمہٴ اطہار (علیہم السلام) سے روایت ملتی ہے کہ والدین کا عاق بڑے گناہوں میں سے ہے۔ جیسا کہ اس کتاب کے شروع میں تفصیل سے ذکر ہوا ہے۔ بلکہ حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے منقول ہے کہ تمام گناہان کبیرہ میں سب سے بڑا گناہ اللہ کا شریک قرار دینا اور والدین کا عاق ہے۔
عاق ایسا گناہ ہے جس کے لیے قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں عذاب جہنم کا وعدہ ہے۔ قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قول اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں یوں بیان کرتا ہے:
وَبَرّاً م بِوَالِدَتِیْ وَلَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّاراً شَقِیْاً
“اور مجھ کو اپنی والدہ کا فرمان بردار بنایا اور الحمد للّٰلہ کہ مجھ کو سرکش نافرمان نہیں بنایا۔”(سورہ۱۹ ۔آیت۳۲)
     چونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے باپ نہ تھے اس لیے ماں کا ذکر کیا گیا۔ اس سورے کی پانچویں آیت میں حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے ماں باپ دونوں کا ذکر ہے۔

ان آیتوں میں عاق والدین کو تین صفات سے یا د فرمایا ہے:(۱) جبار یعنی سرکش (۲) شقی یعنی بد بخت (۳) عصی یعنی گناہ گار۔

اور ہر صفت کے لیے سخت عذاب کا وعدہ دیا گیا ہے۔ چنانچہ جبار کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:

وَخَابَ کُلُّ جَبَّارِ عَنِیْدٍ مِّنْ وَّرَائِہ جَھَنَّمُ وَیُسْقِیٰ مِنْ مَّآءٍ صِدِیْدٍ یَتَجَرَّعُہ وَلَا بَکادُ یُسِیْغُہُ وَیََاْ تِیْہِ الْمَوْتُ مِنْ کُلِّ مَکانٍ وَمَاھُوَ بِمَیِْتٍ ط وَمِنْ وَّرَآئِہ عَذَابٌ غَلِیْظِ

(سورہ۱۴۔آیت ۱۵۔۱۶۔۱۷)

“اور ہر ایک سرکش عداوت رکھنے والا ہلاک ہوا ۔ یہ تو دنیا کی سزا تھی اور اس کے پیچھے ہی پیچھے جہنم ہے اور اس میں اسے پیپ و لہو بھرا ہوا پانی پینے کو دیا جائے گا(زبردستی) اسے گھونٹ گھونٹ کر کے پینا پڑے گا۔ اور اُسے حلق سے بآسانی نہ اُتار سکے گا۔ اور (وہ مصیبت ہے کہ) اسے ہر طرف موت ہی موت آتی دکھائی دیتی ہے حالانکہ وہ مارے نہ مر سکے گا اور پھر اس کے پیچھے سخت عذاب ہو گا۔”

اور شقی صفت رکھنے والے کے بارے میں فرماتا ہے:

فَاَمَّا الَّذِیْنَ شَقُوْا فَفِی النَّارِ لَھُمْ فِیْھَا زَفِیْرٌ وَّشَھِیْقٌ خَالِدِیْنَ فِیْھَا مَادامَتِ السَّمٰواتُ وَالْاَرْضُ اِلاَّمَاشَآءَ رَبُّکَ ط اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِمَا یُرِیْدُO

(سورہ۱۱۔آیت۱۰۶،۱۰۷)

“پس جو لوگ بد بخت ہیں وہ دوزخ میں ہوں گے اور اسی میں ان کی ہائے وائے اور چیخ و پکار ہو گی۔ وہ لوگ جب تک آسمان اور زمین ہے، ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ (مگر جب تمہارا پروردگار نجات دینا چاہے) بے شک تمہارا پروردگار جو چاہتا ہے وہ کر ہی کے رہتا ہے۔”

عصی یعنی نافرمان کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:

وَمَنْ یَعْص اللّٰہِ وَرَسُوْلہُ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہ یُدْخِلقہ نَاراً خَالِداً فِیْھَا وَلَہ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ

(سورہ۴۔ آیت۱۴)

“اور جس شخص نے خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کی اور اس کی حدود سے گزر گیا تو بس خدا اس کو جہنم میں داخل کرے گا۔ اور وہ اس میں ہمیشہ (اپنا کیا بھگتتا)رہے گا۔ اس کے لیے بڑا رسوائی کا عذاب ہے۔”

عاق والدین سے متعلق احادیث

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

اِیَّاکُمْ وَعُقُوْقِ الْوَلِدَیْنِ فَاِنَّ رِیْحَ الجَنَّةِ یُوْجَدُ مِنْ مَسِیْرَةِ اَلْفِ عَامٍ وَلَا یَجِدُ ھَا عَاقٍ وَّلَاقَاطِعُ رَحِمٍ (وسائل الشیعہ)

“خبردار! والدین کی ناراضگی سے پرہیز کرو ۔ بے شک بہشت کی خوشبو ایک ہزار سال دور کے فاصلے سے سونگھ سکتا ہے لیکن ماں باپ کے عاق اور رشتہ داروں سے قطعِ تعلق کرنے والا جنت کی خوشبو محسوس نہیں کر سکے گا۔”

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) ہی سے روایت ہے:

مَنْ اَسْخَطَ وَالِدَیْہِ فَقَد اَسْخَطَ اللّٰہَ وَمَنْ اَغْضَبَھُمَا فَقَدْ اَغْضَبَ اللّٰہَ (مستدرک)

“جس نے اپنے والدین کو ناراض کیا تو گویا اس نے اللہ کو ناراض کیا ۔ اور جس نے ان دونوں کو غضب ناک کیا تو اس نے اللہ کو غضب ناک کیا۔”

ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:

مَنْ آذیٰ وَالِدَیْہِ فَقَدْآذَانِی وَمَنْ آذَانِیْ آذَیٰ اللّٰہَ وَمَنْ آذیٰ اللّٰہَ فَھُوَ مَلْعُوْنٌ۔ (مستدرک)

“جس کسی نے اپنے والدین کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی ہے اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے اللہ کو اذیت دی اور جس نے اللہ کو اذیت دی پس وہ ملعون ہے۔”

نیز آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا ارشاد ہے:

وَلیَعْمَل الْعَاقُ مَاشآءَ اَنْ یَعْمَلَ فَلَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ (مستدرک)

“ماں باپ کو جس نے ناراض کیا پھر وہ جتنا بھی چاہے عمل کرے بہشت میں داخل نہیں ہو سکتا۔”

ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:

ثَلَاثَةٌ لاَّیُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ ی۔وْمَ الْقِیَامَةِ وَلَایُزَکِیْھِمْ وَلَایَنْظُرُ اِلَیْھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلَیْمٌ وَھُمُ الْمُکَذِّبُ بِالْقَدَرِ وَالْمُدْمِنُ لِلْخَمْرِ وَلْعَاقُ ل،وَالِدَ یْہِ

(مستدرک۔ کتاب نکاح۔ باب۷۵)

“تین گروہوں کے ساتھ خداوند تعالیٰ قیامت کے دن بات نہیں کرے گا، نہ ان پر نظر رحمت رکھے گا، نہ ان کو گناہوں سے پاک فرمائے گا اور ان کے لیے دردنات عذاب ہے۔ ان تین گروہوں میں ایک تقدیر الٰہی کو جھٹلانے والا، دوسرا ہمیشہ شراب پینے والا اور تیسرا والدین کا عاق کیا ہوا۔

والدین کا عاق قابل مغفرت نہیں

عاق والدین کی شقاوت کے لیے یہی کافی ہے کہ جبرائیل امین (علیہ السلام) نے اس کے حق میں بد دعا کی اور کہا:

مَنْ اَدْرَکَ وَالِدَیْہِ وَلَمْ یُوٴَرِّ حَقَّھُمَا فَلَاغَفَرَاللّٰہُ لَہُ فَقُلْتُ آمِّیْن۔ (بحارالانوار)

“جس نے اپنے والدین کو پایا اور ان کے حقوق ادا نہ کئے تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت نہ کرے گا۔”

اس وقت حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے جبرائیل امین کی بد دعا کے بعد آمین کہا۔

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے روایت ہے:

مَلْعُوْنٌ مَلْعُوْنٌ مَنْ ضَرَبَ وَالِدَیْہِ، مَلْعُوْنٌ مَلْعُوْنٌ مَنْ عَقَّ وَالِدَیْہِ (مستدرک)

“ملعون ہے، ملعون ہے وہ شخص جس نے اپنے والدین کو مارا۔ ملعون ہے، ملعون ہے وہ شخص جس نے اپنے والدین کو ناراض کیا ہو۔”

عاق والدین کی نماز قبول نہیں

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ:

مَنْ نَظَرَاِلٰی اَبَوَیْہِ نَظَرَ مَاقِتٍ وَّھُمَا ظَالِمَانِ لَہ لَمْ یَقْبَلِ اللّٰہُ لَہُ صَلوٰةً (کافی)

“جو کوئی اپنے والدین کی طرف غصے سے نظر کرے گا حالانکہ والدین اولاد کے حق میں ظالم ہوں پھر بھی اللہ اس کی نماز قبول نہیں کرے گا۔”

احتضار کی حالت میں ایک جوان کے لیے پیغمبر کی شفاعت

ایک جوان آخری سانسیں لے رہا تھا ۔ اسی اثناء میں حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) تشریف لائے اور اس کے پاس بیٹھ کر اسے شہادتین کی تلقین فرمانے لگے۔ مگر وہ جوان کچھ نہ بول سکا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے دریافت کیا کہ کیا اس کی ماں موجود ہے؟ جوان کے سرہانے بیٹھی ہوئی ایک عورت نے کہا ، جی ہاں ، میں اس کی ماں ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا کیا تم اس سے ناراض ہو؟ عورت نے عرض کیا: ہاں ، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ)۔ چھ سال سے میرے اور اس کے درمیان بات چیت بند ہے۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اس کی ماں سے خواہش کی کہ اپنے بیٹے کو معاف کر دے۔

چنانچہ اس عورت نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے کہنے پر بیٹے کی غلطیوں سے درگزر کیا اور اس سے راضی ہو گئی۔ فوراً ہی وہ جوان کلمہ شہادت پڑھنے لگا۔

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے سوال کیا: اس وقت تم کیا دیکھ رہے ہو؟

نوجوان نے عرض کیا: اے رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) ایک کالا مرد نہایت بد صورت و بد بودار مجھے نہیں چھوڑ رہا۔

آپ نے فرمایا،یہ دعا پڑھو:

یَامَنْ یَّقْبَلُ الْیَسِیْرَ وَیَعْفُوْعَنْ الْکَثِیرَ اقْبَلْ مِنِّیْ الْیَسِیْرَ وَاعْفُ عَنِیّ الْکَثِیْرَ۔

حضور (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے پوچھا، اب کیا دیکھ رہے ہو؟

نوجوان نے عرض کیا ایک سفید رنگ کا خوب صورت اور معطر مرد میری طرف بڑھ رہا ہے۔ فرمایا، اسی دعا کی تکرار کرو۔ جب دوبارہ پڑھی تو کہنے لگا:یا رسول اللہ! دونوں میری نظروں سے غائب ہو گئے ۔ اس کے بعد آنحضرت کے چہرہٴ مبارک پر خوشی کے آثار نمودار ہو گئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا، خداوندا! اس نوجوان کے گناہوں کے بخش دے۔ اس کے بعد جوان کی وفات ہو گئی۔(بحار الانوار)

اس حدیث شریف سے پتہ چلتا ہے کہ عاق والدین کی عاقبت کس قدر سخت ہے۔ وہ بے ایمانی کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوتا ہے اور ہمیشہ عذاب الٰہی میں مبتلا رہتا ہے۔ ورنہ کلمہ توحید کی تلقین کرنے والے جناب رسول خدا تھے۔ اس کے باوجود جوان کی زبان نہ کھل سکی۔ یہاں تک کہ اس کی ماں اس سے راضی نہ ہوئی۔ رسول خدا کے قدموں کی برکت اور ماں کی رضایت سے اس نوجوان کی بخشش ہو گئی۔

عاق سے کیا مراد ہے

علامہ مجلسی کتاب کافی کی شرح میں فرماتے ہیں:

الْمُرَادُ بِعُقُوْقِ الْوَالِدَیْنِ تَرْکُ الْاَدَبِ لَھُمَا وَالْاِتْیَانُ بِمَایُوْذیْھِمَا قَوْلاً وَفِعْلاً وَمُخَا لِفُتُھِما فِیْ اَغْرَضِھِمَا الْجَائِزَةِ عَقْلاً وَنَقْلاً۔

“عاق والدین سے مراد یہ ہے کہ اولاد ان کا ادب و احترام نہ کرے۔ کسی قسم کی گفتار و رفتار سے ان کو تکلیف پہنچائے۔ ان کی ایسی خواہشات و مطالبات کی مخالفت کرے جن کا پورا کرنا عقلاً و شرعاً جائز ہو۔

عاق والدین حرام ہونے کی دلیل کتاب و سنت اور اہل تشیع و اہل تسنن کا اجماع ہے۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ “کم سے کم عاق ماں باپ کے سامنے اُف کہنا ہے۔ اگر خدا کی نگاہ میں اس سے کمتر کوئی چیز ہوتی تو اس کی مثال دے دیتا۔ والدین کی طرف تندی اور غصے سے نظر کرنا عاق کا سبب بنتا ہے۔ نیز والدین کو غمگین کرنے سے عاق ہو جاتا ہے۔ ایسے مواقع جن سے والدین کا ناراض ہونا یقینی ہو گناہ کبیرہ ہے۔”

والدین سے نیک کرنا واجب ہے

آیات قرآنی اور احادیثِ آئمہٴ طاہرین (علیہم السلام) سے استفادہ ہوتا ہے کہ والدین کی نافرمانی ان کی خاطر آزردہ کرنا اور تکلیف پہنچانا، جہاں حرام و گناہِ کبیرہ ہے وہاں ان کے حق میں احسان و نیکی کرنا اور کما حقہ‘ حق کی ادائیگی کرنا بھی واجب ہے۔ چنانچہ کچھ آیات تبرکاً ذکر کی جاتی ہیں:

وَوَصَّینا الْاِنسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْناً (سورہ۲۹ آیت۸)

“اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ سے نیکی کرنے کا حکم دیا ہے۔”

اَنِ اشکُرْ لِیْ وَلواَلِدَیْکَ (سورہ۳۱۔ آیت۱۳)

“ہم نے انسان کو تاکید کی کہ میرا شکر ادا کرے اور اپنے والدین کا بھی۔”

اس آیہٴ شریفہ میں اپنا شکر اور والدین کا شکر ایک ساتھ ذکر فرمایا ہے۔ بے شک بندگانِ خدا پر اس کے شکر واجب ہے۔ اسی طرح اولاد پر والدین کا شکر بھی واجب ہے۔

وَقضیٰ رَبُّکَ اَنْ لاَّ تَعْبُدُوْا اِلاَّ اِیَّاہ وَبالْوَالِدَیْنِ اِحْساناً اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الکِبَرُ اَحَدُھُمَا اَوْکلَاھُمَا فَلَا تَقُلْ لَّھُمَا اُفٍّ وَّلَاتَنْھَرْ ھُمَا وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلاً کَرِیْماً۔ وَخْفِضْ لَھُمَا جَناحَ الذُّلّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیراً (سورہ۱۷۔آیہ ۲۳،۲۴)

“اور تمہارے پروردگار نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کرنا اور اپنے ماں باپ سے نیکی کرنا۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچیں اور تمہاری خدمت کی ضرورت پڑے (یا ناراض ہوں) تو خبردار ان کے جواب میں “اُف” تک نہ کہنا اور نہ جھڑکنا اور (جو کچھ کہنا سننا ہو تو) بہت ادب سے کہا کرو اور رحم دلی سے ان کے سامنے خاکساری کا پہلو جھکاؤ اور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار ! جس طرح ان دونوں نے میرے چھٹپنے میں میری پرورش کی ہے ، اسی طرح تو بھی ان پر رحم فرما۔”

یہاں آیہٴ مذکورہ میں خداوند عالم نے والدین کے ساتھ نیکی کو اپنی عبادت کے مترادف قرار دیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت واجب ہے، اسی طرح والدین کے ساتھ احسان کرنا بھی واجب ہے۔

حضرت صادق آل محمد (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ اگر “اُف” سے چھوٹا کوئی کلمہ عربی زبان میں ہوتا تو ذکر ہوتا اور ممنوع قرار دیا جاتا۔

ابی ولاد نے آپ سے وبالوالدین احساناً کے معنی دریافت کیے تو فرمایاکہ وا لدین کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو۔ اگر ان کو کسی چیز کی ضرورت پڑے تو اظہار سے پہلے پیش کر دو۔

اس کے بعد وَ قُلْ لَّھُمَا قَوْلاً کَرِیْماًکے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ اگر والدین تم کو ماریں تو تم کہو کہ اللہ آپ کی مغفرت کرے۔

پھر وَاخْفِضْ لَہھُمَا کے بارے میں پوچھا تو آپ (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا کہ تندی سے ان کی طرف نگاہ نہ کرنا ، اپنی آواز ان کی آواز سے بلند نہ کرنا ، ایک ساتھ چلتے وقت آگے نہ بڑھنا، مجالس میں ان سے پہلے جگہ نہ لینا، اپنے ہاتھ کو ان کے ہاتھوں سے بلند نہ کرنا۔

http://shiastudies.com/ur/251/%d9%88%d8%a7%d9%84%d8%af-%db%8c%d9%86-%da%a9%d8%a7-%d8%b9%d8%a7%d9%82-%da%a9%d8%b1%d9%86%d8%a7/

تبصرے
Loading...