مہر، خلوص و سچائي کي علامت ہے يا لڑکي کي قيمت؟

مہر، خلوص و سچائي کي علامت ہے يا لڑکي کي قيمت؟

پيغمبر ۰نے زمانہ جاہليت ميں مہر کي رسم کو توڑ دياوہ شخصيت جو خود مہر کو بتانے والي ہے، نبي اکرم۰ کي شخصيت ہے کہ جو تمام کائنات ميں سب سے بلند مقام پر فائز ہيں اور اُن کي عزيز اور پاک و پاکيزہ بيٹي جو اولين و آخرين کي خواتين ميں سب سے زيادہ بلند مقام کي مالک ہے اور ان کے شوہر حضرت امير المومنينٴ ہيں کہ حضرت ختمي مرتبت۰ کے بعد از ازل تا ابد جميع خلائق سے بہتر و برتر ہيں۔ اِن دو نوجوانوں کيلئے جو خوبصورت و وجيہ بھي تھے، صاحب مقام، محترم اور شہرِ مدينہ کي سب سے بڑي اور عظيم شخصيت کے بھي مالک تھے، ديکھئے پيغمبر۰ نے ان دونوں کے ليے کتنا مہر رکھا تھا؟پيغمبرِ اسلام۰ آئے اور اُنہوں نے ان تمام قيود و شرائط اور رسم و رواج کو پامال کرديا، اس ليے کہ يہ شادي کي راہ ميں مانع ہيں اور يہ چيزيں نوجوان لڑکے لڑکيوں کي شادي ميں رکاوٹ بنتي ہيں۔ آپ۰ نے فرمايا کہ ان تمام چيزوں کو چھوڑ دو۔ شادي کي ابتدا آسان ہے اور شادي مادي لحاظ سے بہت سہل و آسان بنائي گئي ہے۔ جو چيز شادي ميں اہميت کے قابل ہے وہ بشري اور انساني احساسات اور پہلوؤں کا خيال رکھنا ہے۔آپ يہ خيال نہ کريں کہ اُس زمانے ميں مہر کي بڑي بڑي رقموں يا بڑے جہيز کا کوئي تصور نہيں تھا، کيوں نہيں تھا؟ اُس زمانے ميں بھي بعض بے عقل افراد آج کے عقل سے پيدل افراد کي مانند تھے۔ مثلاً دس لاکھ مثقال سونے کو اپني بيٹيوں کا مہر قرار ديں بالکل آج کے بعض بے وقوف افراد کي مانند۔ يہ بڑے بڑے خرچے دراصل جاہلوں کے کام ہيں۔ اسلام نے آکر ان تمام چيزوں کو روند ڈالا۔ بيٹي کا مہر رکھنے کي وجہ يہ نہيں تھي کہ پيغمبر۰ نہيں جانتے تھے کہ يہ کہيں کہ ميري بيٹي کا مہر سرخ رنگ کے بالوں والے ايک ہزار اونٹ اور وہ بھي فلاں شرائط کے ساتھ۔ وہ ايسا کرسکتے تھے ليکن انہوں نے ايسا نہيں کيا کيونکہ اسلام نے ان تمام جاہلانہ رسم و رواج پر خطِ باطل کھينچ ديا ہے۔
مَھْرُ السُّنَّۃ يا شرعي مہرمہر کي بڑي بڑي رقموں کا تعلق زمانہ جاہليت سے ہے اور پيغمبر اسلام۰ نے آکر اُن سب کو منسوخ کرديا۔ پيغمبرِ اکرم۰ نے ايک متمول گھرانے ميں آنکھيں کھوليں اور ان کے خاندان کا شمار قريش کے تقريباً سب سے زيادہ اہلِ ثروت اور متمول خاندانوں ميں ہوتا ہے۔ وہ خود بھي اسلامي معاشرے کے رہبر اور حاکم تھے۔ تو اس بات ميں کيا مضائقہ تھا کہ اُن کي بہترين بيٹي اس عالم کي تمام خواتين سے زيادہ بہتر ہے اور خداوند عالم نے اُنہيں مِنَ الْاَوَّلِيْن وَالْآخِرِيْن ميں سے سَيِّدَۃُالنِّسَائِ الْعَالِمِيْن بنايا ہے۔ اس عالم ہستي کے سب سے بہترين نوجوان سے جو مولائے متقيانٴ ہیں، شادي کرے اور اُن کا مہر زيادہ ہو؟! رسولِ اکرم۰ کيوں آگے بڑھے اور مہر کي رقم کو کم قرار ديا کہ جسے مَھْرُالسُّنَّۃ ١ يا شرعي مہر کہا جاتا ہے۔ميري فکر کے مطابق حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا کے جہيز اور مہر ميں اس قدر سادگي کا خيال رکھا گيا تھا کہ تمام اہلِ بيت اس کم مہر يعني ” مَھْرُالسُّنَّۃ‘‘کے مقيد و پابند تھے۔ جبکہ وہ سب يہ بات اچھي طرح جانتے تھے کہ اس سنّتي مہر سے زيادہ مہر رکھنا جائز ہے ليکن انہوں نے اس مقدارکي پابندي کي۔ اس ميں علامتي پہلو تھا۔ اس ليے کہ لوگوں ميں ايک فکر رائج ہوسکے تا کہ اس پر عمل کرسکيں اور وہ مہر ميں اضافے سے جنم لينے والي مشکلات ميں گرفتار نہ ہوں۔———–١ ايران ميں آجکل زيادہ تر مہر ميں سونے کا سکہ رکھا جاتا ہے۔ جسے سکہ بہار آزادي کہا جاتا ہے اور جس کي قيمت تقريباً ٧٣٠٠ روپے ہے۔ ايران کے ديندار گھرانے چہاردہ معصوم کے نام پر ١٤ سکے مہر رکھتے ہيں تاکہ ١٤ کا ہندسہ بابرکت ہو۔ رہبرِ عاليقدر نے يہ فرمايا تھا کہ جس کا مہر ١٤ سکوں سے زيادہ ہوگا اس کا نکاح نہيں پڑھائيں گے۔ دراصل يہ کم مہر کو رائج کرنے اور مہر کي بڑي بڑي رقموں کو توڑنے کا ايک نفسياتي حربہ ہے۔ ١٤چودہ سکوں کي رقم آجکل تقريباً ١٠٢٢٠٠ روپے بنتي ہے۔ جو ايراني معاشرے ميں مناسب رقم ہے۔ ہمارے معاشرے ميں چہاردہ معصومٴ کے نام پر چودہ ہزار روپے مہر کيلئے رکھے جاتے ہيں اور ہمارے يہاں اُسے چہاردہ معصومٴ کي برکت کي وجہ سے شرعي مہر کہا جاتا ہے جبکہ اس کا شريعت سے کوئي تعلق نہيں ہے۔ (مترجم)١٤ کے ہندسے پر اصرار کيسا ؟يہ جوآپ سنتے ہيں کہ ہم نے کہا ہے کہ ہم چودہ سکوں ١ سے زيادہ مہر کا نکاح نہيں پڑھائيں گے۔ يہ اِس ليے نہيں ہے کہ چودہ سکوں سے زيادہ کے مہر سے شادي ميں کوئي عيب پيدا ہوجاتا ہے، نہيں۔ چودہ ہزار سکے بھي ہوں تب بھي شادي ميں کوئي عيب اور شرعي اشکال نہيں ہوگا۔ صرف اس ليے کہ ہماري شاديوں ميں مادي رنگ پر معنوي رنگ غلبہ حاصل کرے اور شادي ايک تجارت،اقتصادي معاملے اور مادي اشيائ کي خريد و فروخت نہ بنے۔ اگر آپ نے شاديوں ميں سے يہ فضول خرچياں کم کرديں تو شادي کا معنوي پہلو خود بخود مضبوط ہوجائے گا۔مہر کي رقم جتني کم ہو شادي اپني فطري صورت سے اتنا ہي نزديک ہوگي کيونکہ شادي تجارتي معاملہ نہيں ہے شادي کسي چيز کي خريد و فروخت اور کسي چيز کو کرائے پر دينے کا نام نہيں ہے بلکہ يہ دوا انسانوں کا باہم مل کر زندگي کي تعمير کرنا ہے اور اس کا مالي اور مادي مسائل سے بھي کوئي تعلق نہيں ہے۔ يہي وجہ ہے کہ حضرت ختمي مرتبت۰ نے مہر کي ايک مقدار معين کردي ہے تاکہ سب کا مہر ايک جيسا ہو ليکن اُسے بہت زيادہ نہيں ہونا چاہیے مہر کي رقم ايسي ہو کہ معاشرے کے تمام طبقے اُسے اپنے ليے مقرر کرسکيں۔ شادي ميں جو چيز سب سے زيادہ قابلِ اہميت ہے وہ دو انسانوں اور دو روحوں کا ملاپ اور زندگي کا يادگار ترين واقعہ ہے نہ کہ ايک مالي اور اقتصادي معاملہ۔ اگرچہ کہ شادي ميں تھوڑي مقدار ميں مال ( يعني مہر، بيوي کے اخراجات وغيرہ کي صورت ميں) وجود رکھتا ہے اور شريعت ميں اُس مال کي اپني ايک جداگانہ حيثيت ہے۔ وہ انساني خلوص و صداقت کي علامت ہے کوئي خريد و فروخت کا سرمايہ اور لين دين نہيں ہے۔
زيادہ مہر لڑکي کي بے احترامي ہےاگر کوئي اپني بيٹي کو اہميت ديتا ہے يا کوئي لڑکي خود کو صاحبِ حيثيت سمجھتي ہے تو اس کا مطلب يہ نہيں ہے کہ وہ يہ کہے کہ ميرے مہر کو بہت زيادہ ہونا چاہیے۔ مہر کي رقم جتني کم ہوگي اس مقدس رشتے ميں انساني پہلو کا احترام اتنا ہي زيادہ ہوگا۔————١ کافي جلد ٥، باب السُنۃ في المھور، صفحہ ٣٧٥، حديث ٧کوئي بھي مال و دولت ايک انسان کے برابر نہيں ہوسکتا اور نہ ہي کوئي مہر ايک مسلمان عورت کے انگلي کے ايک پور کي قيمت بن سکتا ہے۔ اسي طرح کسي بھي قسم کي درآمد يا ثروت ايک مرد يا عورت کي شخصيت کي برابري کي صلاحيت نہيں رکھتي ہے۔وہ لوگ جو اپني بيٹيوں کے مہر کي رقم کو اُن کي عزت و آبرو اور شان و شوکت ميں اضافے کي غرض سے زيادہ کرتے ہيں وہ احمقوں کي جنت ميں رہتے ہيں۔ يہ احترام نہيں بلکہ انکي بے احترامي ہے۔ اِس ليے کہ آپ مہر کي رقم کو زيادہ کرنے سے اس انساني ملاپ و انساني رشتے کے دونوں طرف کو کہ جس کے ايک طرف مرد اور دوسري طرف عورت ہے، ايک جنس اور قيمت کے مادي معاملے کي سطح پر تنزل دے دیتے ہيں اور يہ کہتے ہيں کہ ميري بيٹي تو اس قابل ہے کہ اس کا مہر اتنا زيادہ ہونا چاہیے۔ نہيں جناب! آپ کي بيٹي (اور اس کے احساسات، جذبات، خيالات، اُميدوں، آرزوؤں اوراس کي زندگي کي شيريني اور مٹھاس) کا مال و دولت سے ہر گز موازنہ نہيں کيا جاسکتا ہے۔مہر در حقيقت ايک خدائي امر اور سنّتِ نبوي۰ ہے۔ اِس ليے نہيں ہے کہ اس محترم اور شريف و عزيز موجود انسان عورت کے مقابلے ميں شوہر کوئي مادي چيز يا مال و دولت دے (اوريوں لڑکي کے جذبات و احساسات کو خريد لے!)۔
مہر بخشتي ہوں تم ميري جان چھوڑو!بعض اوقات يہ ديکھنے ميں آتا ہے کہ شوہر برا ہے اور بيوي خواہ کتنے ہي زيادہ مہر کي مالک کيوں نہ ہو، اس سے کہتي ہے کہ ”ميں اپنا مہر تم کو بخشتي ہوں تم ميري جان چھوڑدو‘‘ ۔ مہر تو کسي کو خوشبخت نہيں کرسکتا۔ جو چيز انسان کو سعادت اورخوش بختي سے ہمکنار کرسکتي ہے وہ شرعي اور ديني روش کو اپنانا ہے۔ محبت کا بھي مال و دولت سے کوئي تعلق نہيں ہے۔ ايسے انساني رشتوں ميں دولت و ثروت کي آميزش اور مادي عُنصر کي ملاوٹ جتني کم ہو اُن کا انساني پہلو اتنا ہي زيادہ مستحکم ہوتا ہے اور محبت ميں اتنا ہي اضافہ ہوتا ہے۔بعض لوگ يہ خيال کرتے ہيں کہ مہر کي بڑي رقم مياں بيوي کے بندھن کو قائم رکھنے ميں مدد کرتي ہے۔ يہ بہت بڑي غلطي اور خطا ہے اگر خدانخواستہ مياں بيوي ايک دوسرے کے ليے نا اہل ہوں تو مہر کي بڑي سے بڑي رقم بھي کوئي معجزہ نہيں کرسکتي۔کچھ گھرانے ايسے ہيں جو يہ کہتے ہيں کہ ہم اپني لڑکي کا مہر بہت زيادہ نہيں کہيں گے ليکن لڑکے کے گھروالے اتراتے ہوئے نخرے کريں گے اور کہيں گے کہ ايسا تو نہيں ہوسکتا ہے! آپ کي لڑکي کا مہر چند لاکھ روپے يا فلاں مقدار تک تو ہونا چاہیے۔ يہ تمام باتيں اسلام سے دوري کا نتيجہ ہیں۔ کوئي بھي زيادہ مہر سے خوش بخت نہيں ہوسکتا۔يہ لوگ جو يہ خيال کرتے ہيں کہ اگر لڑکي کا مہر نہ ہو (يا کم ہو) تو ان کي لڑکي کي شادي خطرے ميںپڑجائے گي، يہ لوگ غلطي کررہے ہيں۔ اگر شادي کي بنياد محبت پر قائم ہو اورزندگي بھي اچھي ہو تو زندگي بغير مہر کے بھي قائم رہے گي۔ ليکن اگر شادي اور زندگي پر خباثت، چالاکي، دھوکہ اور فريب وغيرہ حاکم ہوں اور مہر کي رقم خواہ کتني ہي زيادہ کيوں نہ ہو تب بھي اپني بات کو تھوپنے اور مسلط کرنے والا مرد ايسا کام کرے گا کہ اتنا بڑا مہر بھي اس کے فرار کا راستہ نہيں روک سکے گا۔بعض لوگ ہيں جو يہ کہتے ہيں کہ ہم مہر کو اس ليے بڑھاتے ہيں تاکہ شوہر، بيوي کو طلاق نہ دے سکے۔ يہ تو بہت بڑي خطا ہے۔ بڑے سے بڑا مہر بھي طلاق کا راستہ نہيں روک سکتا اور نہ ہي روک سکا ہے۔ جو چيز طلاق کا راستہ روک سکتي ہے وہ انسان کا اچھا اخلاق، عملِ صالح اور اسلامي اقدار و احکام کي رعايت کرنا ہے۔
بڑے بڑے مہر، نوجوانوں کي شادي کي راہ ميں رکاوٹجو لوگ اپني خواتين کيلئے بڑے بڑے مہر رکھتے ہيں وہ اپنے معاشرے کو نقصان پہنچاتے ہيں۔ بہت سي لڑکياں گھر بيٹھي رہ جاتي ہيں اور بہت سے لڑکے رشتہ ازدواج ميں منسلک ہوئے بغير تنہا زندگي گزارتے ہيں۔ صرف اس ليے کہ جب معاشرے ميں بڑے بڑے مہر رکھنے کي عادت پختہ ہوکر رواج پاجائے اور ”مَھْرُالسُنَّۃ‘‘(شرعي مہر) کے بجائے جاہلانہ رسم و رواج اور مہر معاشرے کو اپنے پنجوں ميں دبوچ ليں تو پورا معاشرہ ہي خراب ہوجائے گا۔اگر شادي اور اس سے متعلق مسائل ميں ماديات کو مرکزي حيثيت حاصل ہو تو دو روحوں کا يہ ملاپ اور دو انسانوں کے دھڑکتے دلوں کے احساسات و جذبات کا يہ رشتہ مادي معاملے ميں تبديل ہوجائے گا۔ يہ بڑے بڑے جہيز، مادي رقابت و سبقت اور اپني دولت و ثروت کا فضول خرچي کے ذريعے اظہار کرنا کہ جس ميں بعض لوگ غير دانستہ اور غافلانہ طور پرگرفتار ہيں، دراصل شادي کے آسان و مقدس امر کو خراب کرتے ہيں۔ يہي وجہ ہے کہ شريعت ميں ہميں يہ حکم ديا گيا ہے کہ مہر کو کم رکھا جائے کہ اس سے مراد ”مَھْرُالسُّنَّۃ‘‘(شرعي مہر) ہے۔ اگر مہر زيادہ رکھا جائے تو شادياں بھي مشکل ہوں گي اور لڑکے لڑکياں اپني ازدواجي زندگي سے محروم ہوجائيں گے۔ميں ملک کے تمام باشندوں سے اپيل کرتا ہوں کہ مہر کو اتنا زيادہ نہ کريں، يہ جاہلانہ روش ہے۔ يہ وہ کام ہے کہ جس سے خدا اور اس کا رسول۰ خاص طور پر اس زمانے ميں راضي نہيں ہيں۔ ميں يہ نہيں کہتا کہ يہ کام حرام ہے اور شادي اس سے باطل ہوجاتي ہے۔ ليکن يہ کام سنّتِ نبوي۰ ، اہلِ بيتٴ کي سيرت اور علمائے اسلام کي روش کے سراسر خلاف ہے۔ خاص طور پر اس زمانے ميں کہ جب ہمارے ملک کو اس بات کي ضرورت ہے کہ تمام صحيح کام آسان طريقے سے انجام پائيں۔ اس ميں کوئي بھلائي يا بہتري نہيں ہے کہ بعض لوگ شادي کو اس طرح مشکل بنائيں۔
 

http://shiastudies.com/ur/2386/%d9%85%db%81%d8%b1%d8%8c-%d8%ae%d9%84%d9%88%d8%b5-%d9%88-%d8%b3%da%86%d8%a7%d8%a6%d9%8a-%da%a9%d9%8a-%d8%b9%d9%84%d8%a7%d9%85%d8%aa-%db%81%db%92-%d9%8a%d8%a7-%d9%84%da%91%da%a9%d9%8a-%da%a9%d9%8a/

تبصرے
Loading...