ظالموں کی مدد کرنا اور ان سے میل ملاپ

ظالموں کی مدد کرنا اور ان سے میل ملاپ

ظالموں کی مدد کرنا اور ان سے رغبت

ظالموں کی مدد کرنا اور ان سے میل

وہ انتیسواں گناہ کے جس کا کبیرہ ہونا صراحتاً بیان کیا گیا ہے وہ ظالموں کی مدد کرنا ہے ۔ چنانچہ فضل بن شاذان گناہانِ کبیرہ کے ضمن میں امام علی رضا علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

ومعونة الظالمین والرکون الیھم

ظالموں کی مدد کرنا اور ان کی طرف مائل ہونا گناہِ کبیرہ ہے۔

اور روایت اعمش میں اسی طرح کی حدیث امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کی گئی ہے۔” و ترک اعانة المظلومین” یعنی مظلوم سے ظلم دور کرنے کے لئے اس کی مدد نہ کرنا گناہانِ کبیرہ میں سے ہے۔ پس ظا لم کی اس کے ظلم میں مدد کرنا بطریق اولیٰ گناہانِ کبیرہ میں سے ہوگا۔

امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام فرماتے ہیں:

الدخول فی اعمالھم والعون لھم والسعی فی حوائجھم عدیل الکفر والنظر الیھم علی العمد من الکبائر التی یستحق بھا النار

(وسائل الشیعہ کتاب تجارت ب ۴۵ ج ۱۴ ص ۱۳۸)

ظالموں کے کاموں میں شرکت کرنا اور ان کے مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرنا اور ان کی مدد کرنا کفر کے برابر اور جانتے بوجھتے ہوئے ان کی طرف دیکھنا گناہانِ کبیرہ میں سے ہے اور وہ جہنم کا مستحق ہے۔

اور رسولِ خدا نے فرمایا:

فی حدیث الا سراء وما راہ مکتوبا علی ابواب النار ومن جملتہ لا تکن عونا لظالمین (وسائل الشیعہ)

شب معراج میں جہنم کے دروازوں پر یہ حکم لکھا دیکھا “کہ ظالموں کی مدد کرنے والے نہ بنو”

یعنی اگر تم جہنم میں نہیں جانا چاہتے تو ظالموں کی مدد نہ کرو اس کے علاوہ یہ وہ گناہ ہے کہ جس کے بارے میں خداوند عالم نے قرآن مجید میں عذاب کا وعدہ کیا ہے۔

ولا ترکنو ا الی الذین ظلموا فتمسکم النار وما لکم من دون الله من اولیاء ثم لا تنصرون

(سورئہ ھود آیت ۱۱۵)

اور (مسلمانو) جن لوگوں نے (ہماری نافرمانی کر کے) اپنے اوپر ظلم کیا ہے ان کی طرف مائل نہ ہونا ورنہ تمہیں بھی (دوزخ کی ) آ لپیٹے گی اور خدا کے سوا اور لوگ تمہارے سرپرست بھی نہیں۔

تفسیر منہج الصادقین میں لکھا ہے رکون یعنی جس سے اس آیہ شریفہ میں منع کیا گیا ہے۔ اس سے مراد میل یسیر ہے یعنی تھوڑا سا بھی ایسے لوگوں کی طرف مائل ہونا جنہوں نے اپنے اوپر یا دوسروں پر ظلم کیا ہو یعنی عزت سے ان کا ذکر کرنا ان سے باہم میل ملاپ کرنا ان سے محبت کا اظہار کرنا اور ان کے تحائف کی طرف طمع رکھنا ان کی تعریف کرنا اور ان کے حکم کی اطاعت کرنا یہ تمام باتیں ان کی طرف مائل ہونے میں آتی ہیں جب ان باتوں سے منع کیا گیا ہے تو ان سے بہت زیادہ میل ملاپ رکھنا یعنی قلم میں ان کی مدد کرنا اس پر راضی رہنا اور ظلم کرنے میں ان کے ساتھ شریک ہونا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ حضرت رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے۔

من دعا ظالما با لبقاء فقدا حب ان یعص الله فی ارضہ

( منہج الصادقین ج ۴ ص ۴۵۹)

اگر کوئی شخص کسی ظالم کو درازی عمر کی دعا دے تو گویا ایسا ہے کہ وہ روئے زمین پر خدا کی مخالفت کو پسند کرتا ہے۔ کتاب روضات الجنات میں کتاب مدارک الاحکام کے مولف جناب سید محمد کے حالات کے ضمن میں لکھا ہے جناب سید محمد اور جناب شیخ صاحب معلم الاصول نے ایک ساتھ مل کر حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی زیارت کا ارادہ کیا لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ شاہ عباسی صفوی ان دنوں مشہد میں ٹھہرا ہوا ہے تو انہوں نے زیارت کے ارادے کو ترک کر دیا۔

اس کے علاوہ سید بحرالعلوم کے حالات میں لکھا ہے کہ جب والی شوستران کے ساتھ بہت تواضع سے پیش آیا تو انہوں نے فرمایا میرے دل میں اس کی طرف سے تھوڑی سی رغبت پیدا ہو گئی لیکن اس سے قبل کہ میں آیہ شریفہ کا مصداق بنوں میں نے ضروری سمجھا کہ یہاں سے فرار اختیار کروں چنانچہ انہوں نے دیزفول کو چھوڑ کر عراق میں سکونت اختیار کی اور آخری عمر تک وہیں رہے بعض بزرگانِ دین کے حالات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ ظالموں سے بات چیت و خط و کتابت اور ان سے معاشرت سے کس قدر پرہیز کرتے تھے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ظالموں کے دوست بن جائیں اور ان سے ظالموں کی مدح کرنے کا گناہ سرزد ہوجائے۔

کتاب فوائد الرضویہ ص ۲۳ میں محدث جزائری سے نقل کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے شاہ عباس صفوی کے حضور ایک بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا اور سلطان کے خوف سے اس نے مشہد میں پناہ لی اور مرحوم ملا احمد(مقدس اردبیلی) سے درخواست کی کہ وہ شاہ کے نام ایک خط لکھیں کہ وہ میری غلطی کو معاف کردے اور مجھے سزا نہ دے اور ان مرحوم نے شاہ عباس کو اس طرح لکھا “مانگے ہوئے ملک کے بانی عباس، جان لو کہ اگرچہ یہ مرد شروع میں ظالم تھا لیکن اب مظلوم ہے چنانچہ اس کی غلطی کو درگذر کرو امید ہے کہ خدا تمہاری کچھ غلطیوں کو معاف کر ے گا”۔ “از طرف بندہ شاہ ولایت احمد اردبیلی”۔ ان کے نام شاہ کا جوا ب آیا۔ “آپ نے جن کاموں کے بارے میں مجھے حکم دیا تھا آپ نے مجھ پر احسان کیا اس محب کو دعاؤں میں فراموش نہ کریں “علی کے گھر کا کتا عباس”۔

تاریخ بحیرہ سے نقل کیا گیا ہے کہ خواجہ نظام الملک وزیر (ملکشاہ سلجوقی) کو آخرت اور روز قیامت کے حساب کا بہت خیال رہتا تھا۔ اور وہ اسی وجہ سے ڈرتا تھا۔ اس کے باوجود اپنی مدت وزارت میں وہ عاجزوں کا فریاد رس، دانشمندوں کا پشت بان، دینی آداب و رسوم کا پابند تھا۔ اس کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ اپنی اس مدت وزارت میں اپنے حسن سلوک کے بارے میں لوگوں سے ایک گواہ نامہ لکھوا لیا جائے کہ اہل اسلام کے بزرگ گواہی دیں اور دستخط کریں اورکفن میں رکھا جائے شاید اس طرح نجات پا جائے بہت سے بزرگوں نے اس کے حسن اخلاق کے بارے میں لکھ دیا لیکن جب وہ گواہی نامہ بغداد میں مدرسہ نظامیہ کے مدرس شیخ ابو اسحٰق کو دیا گیا تو آپ نے لکھا۔

“خیر الظلمة حسن کتبہ ابوا سحاق”

یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ شیخ نظام الملک ظالموں میں بہت اچھا ظالم ہے۔

جب ابو اسحٰق کی گواہی خواجہ نے دیکھی تو بہت رویا اور کہا ابو اسحٰق نے جو کچھ لکھا ہے سچ اور حقیقت یہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ظالموں کی مدد کرنا ہر صورت میں حرام اور گناہانِ کبیرہ میں سے ہے، نیز ظالم کی اقسام اور ظالم کی مدد کرنے کی قسمیں ان سب کے لئے حکم ہے اور وہ چیز کہ جس کا سمجھنا ضروری ہے۔

ظالموں کی اقسام

ظلم سے مراد احکام خدا سے رو گردانی کرنا اور وہ چیز جوعقل و شرع نے متعین کی ہے اس کی مخالفت کرنا اور اس کی دو قسمیں ہیں۔

(۱) حدود الہٰی سے تجاوز کرنا انسان کا مشرک ہونے کے برابر ہے۔

جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:

ان الشرک لظلم عظیم(سورئہ لقمان آیت ۱۲) بے شک شرک ظلم عظیم ہے۔

(۲) یا خدا کی آیات کو جھٹلانا جیسا کہ قرآن مجید میں خدا کا ارشاد ہے:

والکافرون ھم الظالمون (سورئہ بقرہ آیت ۲۵۵)

بطور کلی وہ حکم شرعی کہ جس پہ عقلاً و شرعاً اعتقاد رکھنا واجب ہے۔ اسے قبول نہ کرنا اور اس پر یقین نہ رکھنا ظلم ہے۔ اور اس کے علاوہ مثلاً احکام الہٰی سے رو گردانی کرنا یا یہ کہ واجب کو ترک کرنا اور حرام کا ارتکاب کرنا یہ سب ظلم ہے۔

چنانچہ ارشاد رب العزت ہے:

ومن یتعد حدود الله فا ولئک ھم الظالمون(سورئہ بقرہ آیت ۴۲۹)

جو حدود الہٰی سے تجاوز کرتے ہیں پس وہی ظالمین ہیں یعنی ان تمام موارد میں خود ہی انسان نے اپنے اوپر ظلم کیا جیسا کہ فرمان خدا ہے۔

“فمنھم ظالم لنفسہ” (سورئہ فاطر آیت ۲۹)

یہ خود اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہیں۔

کسی دوسرے شخص کے بارے میں حدود الہٰی سے تجاوز کرنا یعنی کسی شخص کو جسمانی لحاظ سے تکلیف دینا مثلاً مارنا قتل کرنا قید کرنا یا کسی کی بے عزتی کرنا مثلاً گالی دینا، غیبت کرنا، تہمت لگانا اس کی توہین کرنا یا کسی کے مال پر ناجائز قبضہ کرنا مثلاً کسی کا مال اس کے مالک کی اجازت کے بغیر لے لینا یا کسی صاحب حق کو اس کا حق نہ دینا اور اسی طرح غصب کی دوسری اقسام ہیں جن میں سب سے بڑا گناہ مقام منصب و ولایت پر قبضہ کرنا ہے جبکہ واضح طور پر اہل بیت ہی اس کے مستحق تھے جسے ظالم خلفا بنی امیہ و بنی العباس نے غصب کیا اور اسی طرح اس کی دوسری مثال غیر عادل مجتہد کا کرسی قضاوت پر بیٹھنا ہے اور ایسے ظالموں کی بھی دو قسمیں ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ ظلم و ستم اس شخص کا پیشہ ہو جیسا کہ ظالم اور لٹیرے حکمران۔ دوسرے یہ کہ ظلم اس شخص کا پیشہ نہ ہو لیکن اتفاقاً بعض اوقات اس سے کوئی ظلم صادر ہوا ہو اور وہ کسی پر ستم ڈھائے ان احکام کو جاننے کے لئے ان اقسام میں سے ہر ایک کی چار ابواب میں توضیح کی جائے گی۔

ظالم کی ظلم میں مدد کرنا

وہ ظالم کہ ظلم کرنا جس کا پیشہ ہو اس کے ظلم میں مدد کرنابغیر کسی شک کے گناہانِ کبیرہ میں سے ہے۔ مثلاً کسی مظلوم کو مارنے کے لئے اس کے ہاتھ میں تازیانہ دینا یا کسی مظلوم کو پکڑنا تاکہ اسے مارے، قتل کرے یا قیدکردے اور کسی بھی طرح ظالم کے ظلم میں مدد کرنا حرام ہے۔

شیخ انصاری علیہ الرحمہ مکاسب میں فرماتے ہیں ظالموں کی ان کے ظلم میں مدد کرنا چار دلیلوں ( جو کہ احکام ثابت کرنے کا ذریعہ ہیں( یعنی قرآن، عقل، سنت اور اجماع) سے ثابت اور گناہانِ کبیرہ میں سے ہے۔ دلیل عقلی یہ ہے کہ اگر کوئی ظالم کی مدد کرنے والا نہ ہو اور اس صورت میں ظالم ظلم نہ کر سکے تو عقل یہ حکم دیتی ہے کہ اس کی مدد کرنا حرام ہے۔ اور عقل ظالم کی مدد کرنے والے کو اور ظالم دونوں کو ان کے برے کردار اور اعمال کی جواب دہی کے لحاظ سے برابر سمجھتی ہے خلاصہ عقل بغیر کسی تردید کے ظالم کی اس کے ظلم میں مدد کرنے کو حرام قرار دیتی ہے۔

اجماع۔ فقہی کتابوں کی طرف رجوع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ظالم کی اس کے ظلم میں مدد کرنا تمام فقہاء کے نزدیک حرام ہے اور یہ اجماعی مسئلہ ہے۔ اور قرآن میں فقط “ولا ترکنوا الی الذین ظلموا” کی آیت ظالم کی اس کے ظلم میں مدد کرنے کی حرمت کے لئے کافی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ جب ظالم کی طرف تھوڑا سا بھی مائل ہونا حرام ہو تو یقینا ظلم میں اس کی مدد کرنا بطریق اولیٰ حرام ہوگا کیونکہ ظالم کی مدد کرنا اس کی طرف مائل ہونے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ ارشاد خدا ہے۔

ولا تعاونوا علی الا ثم والعدوان واتقو الله ان الله شدید العقاب

(سورئہ مائدہ آیت ۲)

اور گناہ اور ظلم میں باہم کسی کی مدد نہ کرو اور خدا سے ڈرو (کیونکہ) خدا تو یقینا بڑا سخت عذاب دینے والا ہے۔

ظالم کی مدد اور روایات اہل بیت (ع)

اس سلسلے میں بھی بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں۔ اور شیخ انصاری نے کتاب ورام میں رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا۔

من مشی مع ظالم لیعینہ وھو یعلم انہ ظالم فقد خرج من الاسلام

(مجموعہ ورام جز اول ص ۴۵)

اگر کوئی ظالم کے ساتھ اس کی مدد کرے جائے حالانکہ وہ یہ جانتا ہو کہ یہ ظالم ہے تو یقینا وہ دین اسلام سے خارج ہو گیا اور ظاہر ہے کہ وہ چیز جو انسان کو دائرہ ایمان و اسلام سے خارج کر دے وہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے جو کہ ہلاکت کا باعث بنے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

اذا کان یوم القیمة نادی منا د این الظلمة واعوان الظلمة و اشباہ الظلمة حتی من برء لھم قلما ولا ق لھم دواتا قال فیجمتمعون فی تابوت من حدید ثم یرمی بھم فی جھنم(وسائل ج ۱۴ ص ۱۳۱)

جب قیامت برپا ہوگی ایک منادی یہ ندا دے گا۔ ظالم اور ظالموں کی مدد کرنے والے اور ظالموں کی مانند لوگ کہاں ہیں۔ یہاں تک اگر کسی نے ظالم کے لئے قلم یا سیاہی کی دوات بنائی ہو تاکہ وہ ظلم کا حکم لکھ سکے پس ان تمام لوگوں کو ایک لوہے کے تابوت میں جمع کیا جائے گا اور جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔

اور حضرت رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ومن علق سوطا بین یدی سلطان جایر جعلھا الله حیة طولھا سبعون الف ذراع فیسلط الله علیہ فی نار جھنم خالد ا فیھا مخلدا

(وسائل کتاب تجارت ج ۱۴ ص ۱۳۱)

اگر کوئی شخص کسی ظالم بادشاہ کے حضور تازیانہ لٹکا دے تاکہ وہ اس سے مظلوم کو مارے تو خدا وند عالم اس تازیانے کوستر ہزار گز لمبے سانپ کی صورت میں بدل دے گا اور اس سانپ کو جہنم کی آگ میں ہمیشہ اس پر مسلط رکھے گا۔ اس کے علاوہ آپ نے فرمایا:

من تولی خصومة ظالم او اعان علیھا ثم نزل بہ ملک الموت قال لہ البشر بلعنة ا للّٰہ ونارجھنم وبئس المصیر ومن دل سلطانا علی الجور قرن مع ھامان وکان ھو السلطان من اشد اھل النار عذابا ومن سعی باخیہ الی سلطان ولم ینلہ منہ سوء او مکروہ اوا ذی جعلہ ا للّٰہ فی طبقة مع ھامان فی جھنم

(وسائل ج ۱۲ ص ۱۳۲)

اگر کوئی ظالم کے لڑائی جھگڑے کے (معاملے)کو اپنے ہاتھ میں لے اور ظالم کی مدد کرے تو موت کے وقت فرشتہ اجل اس کو لعنت خدا اور جہنجک کی نوید دیتا ہے۔ جو بری جگہ ہے۔ اور اگر کوئی ظالم کی ظلم وستم کی طرف راہنمائی کرے تو وہ ہامان(فرعون کے وزیر)کے ساتھ محشور ہوگا (اور اس شخص یعنی ظلم کی طرف رہنمائی کرنے والے کا )اور عذب دوسرے دوزخیوں سے زیادہ سخت ہوگا اور اگر کوئی شخص اپنے کسی مومن بھائی کی بادشاہ کے سامنے چغلی کرے (یعنی اس مسلمان کا بادشاہ سے مومن کے بارے ایسی باتیں کہنا کہ جسے سن کر بادشاہ مومن پرغضب ناک ہو) لیکن اگر بادشاہ کی طرف سے اس مومن کو کچھ بھی نہ کہا جائے اور نہ ہی کوئی اذیت دی جائے تو خداوند عالم اس چغل خور کے سب نیک اعمال ضائع کردے گا لیکن اگر بادشاہ کی طرف سے اس مومن پر کوئی مصیبت نازل ہو (یعنی اذیت وتکلیف پہنچے) تو خداوند عالم اس چغل خور کو جہنم کے اس طبقے میں رکھے گا جہاں ہامان ہے۔

ظالم کی تعریف کرنا بھی حرام ہے

ظالم کی اس طرح تعریف کرنا جو کہ اس کی قوت وشان شوکت کا باعث ہو اور وہ زیادہ ظلم کرسکے یا یہ کہ اس کی تعریف کرنا ظالم کو اور جری بنادے اور اس سلسلے میں جو دلیلیں پہلے گزرچکی ہیں اور اس کے علاوہ نہی عن المنکرکے لئے جو دلائل پیش کئے جاتے ہیں سب اس کے گناہ کبیرہ ہونے کو ثابت کرتے ہیں۔

خصوصاً شیخ انصاری رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے نقل کرتے ہیں کہ آپنے فرمایا:

من عظم صاحب الدنیا واحبہ لطمع دنیاہ سخط ا للّٰہ علیہ وکان فی درجتہ مع قارون فی التابوت الاسفل من النار (کتاب التجارہ وسائل ج۱۴ ص۱۳۱)

اگر کوئی شخص کسی دولت مند کی تعظیم کرے اور اسے مکرم ظاہر کرے اور اس کی دولت کی لالچ میں اسے اچھا سمجھے تو خدا وند عالم ا س پر غضب ناک ہوگااور اسے آگ کے تابوت میں دوزخ کے سب سے نچلے طبقے میں ایسی جگہ پر رکھے گا جہاں پر قارون ہے۔ اور یہ بات مخفی نہیں کہ یہ روایت سب کے لئے ہے اور اگر جس کی تعریف کی گئی ہو وہ ظالم ہو تو بطریق اولیٰ تعریف کرنے والا بھی عذاب کا مستحق ہوگا۔ اس کے علاوہ حضرت رسول خد ا (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے مروی ہے۔

من مدح سلطاناجائراو تخفف و تصنعضع لہ طمعافیہ کان قرینہ فی النار

(وسائل ج ۱۴ ص ۱۳۳)

اگر کوئی ظالم بادشاہ کی تعریف کرے یا لالچ میں آکر اپنے آپ کو اس سے چھوٹا اور پست ظاہر کرے تو وہ جہنم کی آگ میں اس کے ساتھ ہوگا۔

نیز آپنے فرمایا:

اذا مدح الفاجر اھتزاالعرش وغضب الرب (سفینة البحارج ۱ ص ۱۷۷)

جب بھی کسی فاسق کی تعریف کی جاتی ہے تو عرش خدا لرز نے لگتا ہے اور خدا کا غضب تعریف کرنے والے کو گھیرلیتاہے۔

ظالم کی طرف سے منصب قبول نہیں کرنا چاہئے

ظالم کی مدد کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ اس کی طرف سے کسی مقام و منصب کو قبول کرنا ہے بے شک وہ مقام و منصب کسی قسم کے ظلم کا باعث نہ ہو ۔ مثلاً نظم و ضبط و امن و امان کی حفاظت کرنا۔ چہ جائیکہ اس مقام کا لازمہ ہی ستم کرنا ہو۔ مثلاً ظالم کی طرف سے ظلم و ستم کے ذریعے لوگوں کے اموال چھین لینے پر مامور ہونا اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسری صورت میں گناہ شدید اور اس کا عذاب بہت سخت ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کی یہ معروف روایت جو کہ تحف العقول میں ہے فرماتے ہیں:

و اما وجہ الحرام من الولا یة الوالی الجائر و ولا یة والعمل لھم والکسب معھم بجھة الولایة لھم حرام محرم معذب من فعل ذلک علی قلیل من فعلہ او کثر لان کل شی من جھة المعونة معصیتہ کبیرة من الکبائر وذلک ان فی ولا یة الوالی الجائر دروس الحق کلہ واحیاء الباطل کلہ و اظہار الظلم و الجورو الفسادو ابطال الکتب و قتل الانبیاء و المومنین وھدم المساجد و تبدیل سنة الله و شرایعہ فلذلک حرم العمل معھم و معونتھم والکسب معھم الا بجھة الضرورة نظیر الضرورة الی الدم المیتة(تحف العقول ص ۲۴۶)

حرام منصب، ظالم حاکم کا منصب اور ان لوگوں کامنصب ہے جو ظالم کی طرف سے کاموں میں مصروف ہیں تو پس اس عہدے کے لئے اس کا کام انجام دینا حرام ہے۔ اور اس کاکام کرنے کی وجہ سے وہ شخص عذاب میں مبتلا ہوگا۔ چاہے وہ کام تھوڑا ہو یا زیادہ لیکن ایسا ہر کام کے جس میں ظالم کی مدد کی ہو ایک بڑاگناہ اور گناہان کبیرہ میں سے ہے۔ کیونکہ ظالم کی طرف سے کوئی منصب قبول کرنا ۔ حقوق پامال ہونے ، باطل ظاہر ہونے، طلم وفساد آشکار ہونے، اور آسمانی کتابیں ختم ہونے، پیغمبروں کے قتل ہونے، مساجد کے برباد ہونے اور احکام دینی میں تبدیلی کا سبب ہوگااسی وجہ سے ان کے ساتھ کام کرنا حرام اور انکی مدد کرنا حرام ہے۔ سوائے مجبوری وناچاری کی صورت میں مثلاًخون پینے اور مردے کا گوشت کھانے کی نوبت آجائے۔

اس کے علاوہ آپ نے فرمایا:

ما یصنع ا للّٰہ عزّو جلّ بمن تولی لھم عملا ان یضرب علیہ سرادقا من النار الی ان یفرغ ا للّٰہ حساب الخلائق

ایسے لوگوں کو جو ظالموں کے لئے کسی کام کو قبول کریں روز قیامت خداوند عالم جو سب سے معمولی سزا دے گا وہ یہ ہے کہ انہیںآ گ کے پاس اس وقت تک کھڑا رکھے گا جب تک کہ سارے لوگوں کا فیصلہ نہ ہوجائے (اور پھر اس کے بعد ان کا فیصلہ کردے گا)

دارلسلام کے آخر میں عراقی مکاشافات برزخی کے باب میں سید جلیل عارف نبیل سید محمد علی عراقی کا مکاشفہ لکھتے ہیں ۔جن کاذکر کیاگیا وہ ان لوگوں میں ہیں جنہوں نے امام مہدی کی زیارت کی ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اپنی جوانی کے ایام میں عراق میں اپنے اصلی وطن(کرھرود) جو عراق کی بستیوں میں سے ایک مشہور بستی ہے وہاں رہتاتھا۔ انہی دنوں ایک ایسے شخص کاجسے میں نام ونسب سے پہنچانتا تھاانتقال ہوگیا اور اسے ہمارے گھر کے مقابل جو قبرستان وہاں دفنایا گیا۔ پس چالیس دن تک مغرب ہوتے ہی اس کی قبر سے آگ نکلتی اور گریہ وزاری کی دہلا دینے والی آوازسنائی دیتی اور انہی ابتدائی راتوں میں سے ایک رات اس شخص کے رونے اور وحشت نے شدت اختیار کی میں بہت پریشان وخوفزدہ ہوا اور دہشت کے باعث میں اس طرھ لرز نے لگاکہ خود پر بالکل قابو نہ رکھ سکا اور مجھ پر بے ہوشی ظاہرہونے لگی جب میرے جاننے والوں کو میری خبر ملی تو وہ مجھے اٹھا کر لے گئے اور جس وقت میں بہترہوا تو اس شخص کی حالت کی وجہ سے تعجب میں تھا کیونکہ مجھے اس کے حالات زندگی معلوم نہ تھے مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ شخص اپنے محلے کی کچہری میں کام کرتا تھا اور ایک دن اس نے ایک سید سے عدالتی ٹیکس مانگا لیکن وہ سید ٹیکس اداکرنے کی استطاعت نہیں رکھتا تھا تو اس شخص نے سید ٹیکس کے لئے اسے قید کیا اور ایک عرصے تک اسے اپنے گھر کی چھت سے لٹکائے رکھا۔ اور سید کو اذیت دینے کی بنیاد پر اس شخص کو عذاب قبر کا سامنا کرا پڑا۔

اسی موضوع سے متعلق ایک معتبر شخص نے نقل کیا ہے کہ کچھ عرصے پہلے کا شان میں آقا محمد علی نامی ایک شخص رہتا تھا جو کہ عطر کا کاروبار کرتا تھااور اس کا کچہری سے بھی تعلق تھا اس نیسب پر یہ پابندی لگادی تھی کہ کوئی شخص کسی بھی قسم کے عطر کی خرید وفوخت نہیں کرے گا۔ اسی عرصے میں ایک سید نے ایک من عطر لیا اور اسے کسی شخص کو بیچ دیا لیکن جب اس ظالم شخص کو اس بات کی خبر ہوئی تو وہ بازار میں اس سے ملا اور اسے خوب گالیاں دیں اور اس کے منہ پر تھپڑ مارے اس پراس سید نے جاتے ہوئے کہا میرے جد تمہیں اس کی سزا دیں گے اس ظالم نے یہ سنا تو پلٹ آیا اور پنے غلام سے کاہ اس سید کو پکڑ کر لاوٴ اس کے بعد اس سید کودنڈے سے مارا اور کاہ جاوٴ اورپنے جد سے کہوکہ میرے بازو نکال دیں پس دوسرے ہی دن اس ظالم کو بخار ہوگیا اور رات کو اس کے بازووٴں میں درد شروع ہوا اور تیسرے دن بازووٴں پر شدید سوجن ہوئی اور پیپ بہنا شروع ہوگئی چوتھے روزطبیبوں نے اس کے بازووٴں کو اس طرح کاٹا کہ اس کے مونڈھے نظر آنے لگے اور ساتویں دن وہ شخص واصل جہنم ہوگیا۔ ظالم کی طرف سے کوئی منصب قبول کرنا اس کے ظلم میں بہت بڑی مدد کرناہے۔ کیونکہ اس مقام ومنصب کے ہوتے ہوئے یہ ناممکن ہے کہ انسان سے کوئی ظلم یا گناہ سرزد نہ ہو۔ چنانچہ صحیحہ داوٴزربی میں ہے کہ اس نے کہا کہ امام سجاد علیہ السلام کے دوستوں میں سیکسی نے مجھے یہ خبر دی اور کہاکہ میں نے امام سے عرض کیا کہ داوٴد بن علی (حاکم مدینہ )سے یا دوسرے اراکین حکومت سے میری سفارش کریں تاکہ وہ مجھے مقام ومنصب دیں ۔ امام نے فرمایامیں ایسا کام ہر گز نہیں کروں گاوہ کہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ شاید امام کااس سلسلے میں کوئی اقدام نہ کرنے کاسبب یہ ہو کہ امام اس بات سے خوفزدہ ہوں کہ کہیں مجھ سے کوئی ظلم وستم سرزد نہ ہو۔ پس میں امام کی خدمت میں حاضر ہوا اور بڑی بڑی قسمیں کھائیں اور عہد کیا کہ میں کوئی ظلم نہیں کروں گا۔ اور لوگوں کی مدد کے علاوہ کوئی کام انجام نہیں دوں گا پس امام نے آسمان کی طرف رخ کیا اور رونے لگے اور فرمایا کہ آسمان پر جانا اس کام سے زیادہ آسان ہے ظاہر اً امام کے اس فرمان کا مطلب یہ تھا کہ ظالم کی طرف سے منصب قبول کرنے کے بعد انسان ظلم نہ کرے اور تمام حالات میں عدل وانصاف سے کام لے یہ محال ہے۔

وہ موارد جہاں پر حکومت قبول کرناجائز ہے۔

دو مقمات پر ظالم کی طرف سے کوئی مقام ومنصب قبول کرنا جائز ہے بلکہ بعض اوقات واجب ہوجاتاجیسا کہ زکر ہوگا۔ مورد اول بے چارگی، جبر یا تقیہ کی صورت میں اگر ظالم کی طرف سے قبول نہ کرے تو جان ومال یا عزت و آبر وخطرے میں ہو۔ اس قسم کی ولایت اضطراری قبول کرنے کے سلسلے میں عمومی اور خصوصی بہت سی دلیلیں ہیں۔

جیسا کہ حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا ارشاد ہے۔

ومااکرھواعلیہ ومااضطروالیہ (کتاب خصال صفحہ ۴۱۶)

جس چیز کے بارے میں میری امت پر جبر کیا جائے اور وہ مجبور ہوتواس سے کوئی مواخذہ نہیں کیا جائیگا۔ اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا۔

مامن شی الا وقد احلہ ا للّٰہ لمن اضطرالیہ(وسائل الشیعہ)

کوئی چیز ایسی نہیں کہ جسے خداوندعالم نے مجبور کے لئے حلال نہ کیا ہو۔ امام علی رضا علیہ السلام سے وسائل الشیعہ میں روایت نقل کی گئی ہے کہ ان کا ماموں الرشید کی طرف سے ولایت ومنصب کو قبول کرنا جبر اورتقیہ کی وجہ سے تھا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے ظالم بادشاہ کے لئے کام کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا۔

لاالاان لا یقد ر علی شیء یا کل ولا یشرب ولا یقد ر علی حیلة فان فعل فساد فی یدہ شیء فلیبعث بخمسہ الی اہل البیت۔

جائز نہیں مگر یہ کہ انسان کھانے پینے کی چیزیں کسی کے ذریعے سے بھی حاصل کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو اور جان کا خوف ہو۔ اور قوت لا یموت صرف بادشاہ کے کسی کام کو قبول کرنے پر منحصر ہو تو جائز ہے۔ (مختصراً یہ کہ بے چارگی کی صورت میں کوئی حرج نہیں) پس اگر ظالم حاکم کے ذریعے اس تک کوئی مال پہنچے تو چاہیئے کہ اس کے خمس کو اہل بیت تک پہنچائے۔

جائز ہونے کے موارد میں دوسری قسم یہ ہے کہ بعض ایسے عہدوں کو قبول کرنا جس کے ذریعے کوئی ظلم و ستم سرزد نہ ہو مثلاً فوجی و ملکی عہدے کہ جن کے ذریعہ ملک میں امن و امان اور نظم و ضبط کی حفاظت ، راستوں اور مسلمانوں کی سرحدوں کی نگہبانی اور اسی طرح کی دوسری ذمہ داریاں کہ جن کا مقصد صرف مسلمانوں کے مصالح اور مظلوموں کی خبر گیری ہو اور مومنوں کی مدد کرنا اور صاحب حق کو اس کا حق پہنچانا ہو تو ایسے منصب کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں خلاصہ یہ کہ اس قسم کے عہدوں کو ظالم کی طرف سے قبول کرنا اس ارادے سے کہ عدل کا پرچار ہو اور مومنین کے ساتھ احسان کیا جائے تو نہ صرف جائز بلکہ زیادہ مستحب ہے۔ زیاد بن ابی سلمہ کہتا ہے کہ میں امام موسیٰ بن جعفر کی خدمت میں حاضر ہوا تو امام نے مجھ سے فرمایا کہ تم حکومت کے ملازم ہو۔ میں نے کہا جی ہاں امام نے فرمایا کیوں ؟ میں نے عرض کی میں صاحب مروت اور احسان کرنے والا اور ضرورت مندوں کی مدد کرنے والا ہوں اور اس طرح کہ میں اسے چھوڑ نہیں سکتا اس کے علاوہ یہ کہ میں بال بچوں والا ہوں اور اپنے اخراجات پورے کرنے کا کوئی ذریعہ میرے پاس نہیں امام نے فرمایا اے زیاد اگر مجھے پہاڑی کی بلند و بالا چوٹی سے گرادیا جائے اور میں ٹکڑے ٹکڑے ہوجاؤں تو مجھے یہ بات زیادہ پسند ہے بہ نسبت اس کے کہ میں ایسے لوگوں کا کوئی کام انجام دوں یا ان میں سے کسی کے گھر میں قدم رکھوں صرف ایک صورت کے علاوہ جانتے ہو وہ صورت کیا ہے۔ میں نے کہا میری جان آپ پر فدا میں نہیں جانتا امام نے فرمایا سوائے اس کے کہ مومنین کو غم وانددہ سے نجات دلاوٴں یا کسی قیدی مومن کو آزادکراوٴں یا مومن کے قرض کو ادا کروں اس کے بعد فرمایااے زیاداگر ظالموں کی طرف سے تمہیں کوئی عہدہ ملے تو اپنے مومن بھائیوں کے ساتھ نیکی کرو تاکہ ان لوگوں کے کاموں میں مصروف رہنے کے باعث جس گناہ کا تم سے ارتکاب ہو اس کی تلافی ہوسکے۔

فضل بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے امام موسیٰ بن جعفر کو لکھا :

استاذنہ فی اعمال السطان فقال لا بائس بہ مالم تغیر حکما ولم تبطل حداوکفارتہ قضاء حوائج اخوانکم (مستدرک الوسائل)

کہ مجھے حکومت میں ملازمت کرنے کی اجازت دیجئے ۔ اما م نے فرمایااگر تم احکام الہی میں سے کسی حکم میں تبدیلی پیدا نہ کرو حدود الہی کی کسی حد کو باطل نہ کرو تو کوئی حرج نہیں اور تمہارے عمل کا کفارہ تمہارا اپنے مومن بھائیوں کی حاجت کو پورا کرنا ہے۔ علی بن یقطین جو کہ ہارون کے وزیر اعلیٰ تھے امام موسی بن جعفر علیہ السلام کو لکھا۔

فی لاخروج من عمل السطان فاجابہ الی لا اری لک الخروج من عمل السلطان فان ا للّٰہ بابواب ابی الجابرة یدفع بھم عن اولیائہ وھم عتقائہ من النار فاتق ا للّٰہ فی اخوانک (مستدرک وسائل باب ۳۹)

مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس عہدے سے مستعفی ہوجاوٴں۔ امام نے ان کے جواب میں لکھاکہ میں تمہارے لئے جائزنہیں سمجھتا کہ تم نظام حکومت سے علیحدہ ہوجاوٴ کیونکہ خداوندعالم کے لئے ظالموں کے دربار میں وہ لوگ ہیں جن کے ذریعے سے خدااپنے دوستوں سے مصیبتوں کو دور کرتاہے۔اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جنہیں خداوند عالم نے ا ٓتش جہنم سے آزاد قرار دیا ہے۔ چنانچہ اپنے بھائیوں کے سلسلے میں اللہ سے ڈرے رہو۔

محمد بن اسماعیل بزیع جو ہارون کے وزیروں میں سے تھے انہیں تین اماموں حضرت موسیٰ کاظم ، حضرت علی رضا اور حضرت جواد علیہ السلام کی زیارت کا شرف حاصل ہوا اور اپنے کفن کے لئے امام جواد علیہ السلام سے ان کا پیراہن لیا۔ وہ امام رضا علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :

ان ا للّٰہ بابواب الظالمین من نور ا للّٰہ اخذ لہ البر اھان ومکن لہ فی البلاد لیدفع بھم عن اولیائہ ویصلح ا للّٰہ بہ امور المسلمین الیھم یلجا المومن من الضرو الیھم یقرع ذوالحاجة من شیعتنا وبھم یو من ا للّٰہ روعة المومن فی دارالظلمة اولئک ھم المومنون حقا واولیک امناء ا للّٰہ فی ارضہ الی ان قال علیہ السلام فھنیئا لھم ما علی احدکم ان لوشاء لنال ھذا کلہ قال قلت بما ذاجعلنی ا للّٰہ فداک قال علیہ السلام یکون معھم فیسرنا باد خال السرور علی المومنین من شعیتنا فکن منھم یا محمد (بحارالانور ا ج ۵ ۱ ص ۴۱۳ اور ج ا سفینة البحار ص ۳۱۶)

خداوند عالم کے لئے ظالموں کے دربار میں وہ لوگ ہیں کہ ان کے ذریعے اپنی حجت کو ظاہر کرتاہے اور انہیں شہروں پر مقرر کرتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے سبب سے اپنے دوستوں کی پریشانیوں کو دور کرتا ہے اور ان کے ذریعے سے مسلمانوں کے کاموں کی اصلاح کرتا ہے۔ مومن سختی میں ان کے پاس پناہ لیتے ہیں اور انہی کے ذریعے ہمارے ضرورت مندشیعوں کی ضرورت پوری ہوتی ہے۔ اور خدا وند عالم ان کے وسیلے سے مومن کیخوف وگھبراہٹ کو ظالموں کے گھروں پر مقرر کردیتا ہے پس یہی حقیقی مومن ہیں جوخدا کی زمین پر اس کے امین ہیں یہاں تک کہ فرمایا۔ ان کو وہ مقام ومرتبہ مبارک ہو۔ اس کے بعد فرمایا کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ تم میں سے کوئی ایک ان تمام مراتب تک پہنچ جائے۔ محمد نے کہا میںآ پ پر فدا ہوجاوٴں کس طرح انسان ان درجات تک پہنچ سکتا ہے۔ امام نے فرمایا ظالموں کے ساتھ ہوتے ہوئے ہمارے شیعہ مومنین کے دلوں کو خوش کریں جس سے ہم خوش ہوتے ہیں۔ اے محمد تم اس کے بعد ان لوگوں میں شمار ہوسکتا ہے جن کے درجات بلند ہیں۔

ایک صورت میں حکومت یا کسی منصب کا قبول کرنا واجب ہے

بعض لوگوں کے لئے حکومت کا قبول کرنا اور بعض عہدوں پر فائز ہونا واجب ہوتا ہے لیکن وہ اس صورت میں کہ اگر کسی شخص کو یہ یقین ہو کہ اگر فلاں مقام ومنصب کو قبول کر لے تو مفاسد دینی میں سے ایک بہت بڑے مفسدہ کو ختم کرسکتا ہے یا غیر شرعی باتوں میں سے کسی ایک برائی کی روک تھام کرسکتا ہے لیکن ایسا موقع بہت کم ملتا ہے کیونکہ اس کی بنیادی شرط اپنے اطمینان پر ہے یعنی اس منصب کو قبول کرنے کے بعد کسی بھی طرح اس سے کوئی ظلم وستم یا جرم سرزد نہ ہو، اور عدل وانصاف اور احکام خدا کے خلاف کوئی کام نہ کرے اور ظاہر ہے کہ اس مقصد کوحاصل کرنا بہت دشوار ہے کیونکہ حکومت میں بہت بڑے بڑے خطرے پوشیدہ ہوتے ہیں اور ان سے اپنے آپ کو بچانا بہت مشکل ہوتاہے۔

امام جعفر علیہ السلام نے اھواز کے حاکم عبداللہ نجاشی کے خط کے جواب میں یہ تحریرفرمایا:

انک بلیت بولا یة الا ھواز وفسرنی ذلک وسائنی وساخبرکما سائنی من ذلک وما سرنی انشاء ا للّٰہ واما سروری بولا یتلک فقلت عسی ان یغیث اللّٰہ بک ملھوفا خائفا من اولیاء ال محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) ویعزبک ذلیلھم ویکسوبک عاریھم ویقوی بک ضعیفھم ویطفئی بک نارا المخا لفین عنھم واما الذی سائنی من ذلک فان ادنی ما اخاف علیک ان تعشر بولی لنا فلا تشم رائحة خطیرةالقدس (کتاب مکاسب محرمہ)

میں نے سنا ہے کہ تم نے اھواز کی حکومت سنبھال لی ہے۔ میں اس خبر سے خوش بھی ہوا اورغمزدہ بھی خوش اس لئے ہوں کہ امید ہے کہ خدا تمہارے وسیلے سے آل محمد کے دوستوں کی سختیوں اور پریشانیوں کو دور کرے گا اور انکی مدد فرمائے گا اور تمہارے ذریعے سے مخالفین کی آگ کوان پر ٹھنڈا کرلے گا اور میں غمزدہ اس لئے ہوں کہ سب سے معمولی بات کہ جس وجہ سے میں تمہاری طرف سے ڈرتا ہوں کہ کہیں تم ہمارے دوستوں میں سے کسی کی پریشانی اور بے چینی کا سبب بنو اوربہشت کی خوشبو بھی تم تک نہ پہنچ سکے۔

جناب پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں:

من تولیٰ عرافة قوم اتی بہ یوم القیمة ویداہ مغلو لتان الی عنقہ فان قام فیھم بامر اللّٰہ عزّو جلّ لاطلقہ ا للّٰہ وان کان ظالما ھوی بہ فی نارجھنم وبئس المصیر۔ ومن تولی عرافة قوم ولم یحسن فیھم حبس علی شفیر جھنم بکل یوم الف سنة و حشر ویدہ مغولة الی عنقہ فان کان قام فیھم بامر ا للّٰہ اطلقھا ا للّٰہ وان کان ظالما ھوی بہ فی نا رجھنم سبعین خریفا (وسائل ج ۱۴ ص۱۳)

وہ شخص جو کسی قوم کی رہبری کے عہدے پر فائز ہو تو روز قیامت اس طرح وارد ہوگا کہ دونوں ہاتھ اس کی گردن کے گرد بندھے ہوں گے پس اگر اس نے لوگوں کے درمیان احکام خدا کے مطابق عمل کیا تو اس کو خدا آزاد کر دے گا لیکن اگر ستم کیا ہو تو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا اور وہ بہت بری جگہ ہے۔ اور اگر کسی قوم کا رہبر لوگوں کے ساتھ انصاف اور نیکی کے ساتھ پیش نہ آئے تو اسے ہر اس دن کے مقابلے میں کہ جتنے عرصے تک اس نے حکمرانی کی ہزار سال جہنم کے کنارے کھڑا کیا جائے گا۔ اس حالت میں اس کے دونوں ہاتھ گردن کے پیچھے بندھے ہوں گے پس اگر اس نے امر الہیٰ کے مطابق عمل کیا ہو تو آزاد ہو جائے گا اور اگر ظلم کیا ہو تو ستر سال کی گہرائی تک جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

اور امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

من تولی امرا من امور الناس فعدل فیھم و فتح بابہ و رفعہ سترہ و نظر فی امور الناس کان حقا علی الله ان یومن روعتہ یوم القیمة و ید خل الجنة

(کتاب وسائل تجارت ب ۴۶ ص ۱۴۰)

اگر کوئی شخص لوگوں کے امور میں سے کسی امر کا ذمہ دار ہو تو پس اگر وہ ان کے درمیان عدل سے کام لے اور رجوع کرنے والوں اور مدد کے طالب لوگوں کے لئے اپنے گھر کے دروازے کو کھلا رکھے اور ان سے دوری اختیار نہ کرے اور لوگوں کے کاموں پر نظر رکھے تو خدا اسے روز قیامت خوف و دہشت سے امان میں رکھے گا اور بہشت میں داخل کرے گا۔

یاد رہے کہ مستثنی موارد کی فروعات بہت زیادہ ہیں اور اختصار پیش نظر تھا اس لئے ذکر نہیں کیا گیا جاننے والے فقہ کی کتابوں کی طرف رجوع کریں۔

ظالم کی ظلم کے علاوہ کسی اور کام میں مدد کرنا

ظالم کی ظلم کے علاوہ کسی کام میں مدد کرنا مثلاً ظالم کی خدمت کرنا اس کے لئے سلائی کرنا یا عمارت بنانا یا اس کے خزانے اور دوسرے اموال کی رکھوالی کرنا اور اسی طرح کی دوسری چیز جن کی تین اقسام ہیں۔

۱۔ بعض اوقات یہ امور حرام کا سبب بنتے ہیں مثلاً ایسی زمین جو غصب کی گئی ہو مستری کو اس پر عمارت بنانے کا حکم دے یا وہ کپڑا جو جبراً لوگوں سے لے لیا گیا ہو درزی اس کے کپڑے سئیے یا لوگوں کے وہ اموال جو ان سے چھین لئے ہوں محافظ ان کی حفاظت کرے اور اسی طرح کے دوسرے امور۔

اس قسم کی مدد کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں کیونکہ غصب کی ہوئی چیز پر تصرف کرنا جبکہ انسان جانتا ہو حرام ہے چاہے وہ تصرف غصب کرنے والا کرے یا کوئی دوسرا۔

ایسی صورت میں جبکہ اس طرح کے کام حرام تو نہ ہوں لیکن ظالم سے تعلق کی بنا پر عرف عام میں اسے ظالم کی مدد کرنے والوں میں شمار کیا جائے اور ظالم کی تقویت اور شان و شوکت کا باعث ہو اور اس کا نام ظالموں کی فہرست میں لکھا جائے اور حقوق غصب کرنے والوں میں اس کا شمار ہو تو بہت سی روایات سے واضح ہوتا ہے کہ یہ قسم حرام ہے۔

امام جعفر علیہ السلام فرماتے ہیں۔

من سود اسمہ فی دیوان ولد سابع حشرہ الله یوم القیمة خنزیرا

(وسائل کتاب تجارت ب ۴۲ ص ۱۳۰ ج ۱۴)

اگر کوئی شخص اپنا نام بنی عباس کے دفتر میں لکھوائے تو روز قیامت وہ خنزیر کی صورت میں محشور ہوگا۔

اور دوسری روایت میں فرماتے ہیں کہ سیاہ صورت کے ساتھ محشر میں وارد ہوگا۔ اس کے علاوہ آپ نے فرمایا۔

لا تعنھم علی بناء مسجد(وسائل کتاب تجارت ب ۴۲ ص ۱۳ ج ۱۴) مسجد کی تعمیر میں ظالموں کی مدد نہ کرو۔

ابن ابھی یعفور کہتے ہیں کہ امام صادق کی خدمت میں تھا کہ اتنے میں آپ کے شیعوں میں سے ایک آدمی حاضر ہوا اور امام سے کہنے لگا میں آپ پر قربان جاؤں ہم میں سے بعض افراد کو کبھی معاشی لحاظ سے پریشانی اور تنگ دستی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسی عالم میں بنی عباسی کی طرف سے عمارتوں کو تعمیر کرنے یا نہر کھودنے یا زراعت کا کام کرنے کے لئے ان افراد کو طلب کیا جاتا آپ اس سلسلے میں کیا فرماتے ہیں۔ امام نے فرمایا۔

ما احب الی عقدت لھم عقدة او وکیت لھم و کا ء و ان لی ما بین لا بیتھا لا ولا مدة بقلم ان اعوان الظلمة یوم القیمة فی سرادق من نارحتی یحکم الله بین العباد

(ب ۴۲ ج ۱۲ ص ۱۲۹)

میں ایک گرہ یا مشک کا منہ یا تھلے کا سرا بھی ان کے لئے باندھنے کو پسند نہیں کرتا۔ اگرچہ وہ اس کے بدلے مدینہ اور جو کچھ اس میں ہے مجھے دے دیں میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ مدہ قلم (یعنی وہ سیا ہی جو قلم کی نوک پر لگتی ہے) کے برابر بھی ان کی مدد کرؤں۔ بے شک روز قیامت ظالم لوگ آتش جہنم کے کنارے اس وقت تک کھڑے رہیں گے جب تک کہ خدا تمام لوگوں کا فیصلہ نہ کر دے۔

محمد بن عذافر سے مروی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے میرے والد عذافر سے فرمایا:

یا عذافر نبئت انک تعمل ابا ایوب والربیع فما حالک اذانودی بک فی اعوان الظلمة قال فوجم الی فقال لہ ابو عبداالله علیہ السلام لما رائی ما اصابہ ای عذافرانما خوفتک بما خوفنی الله عزّو جلّ بہ قال محمد فقدم ابی فمازال مغموما مکروبا حتی مات

(وسائل کتاب تجارت ب ۴۲ ج ۱۴ ص ۱۲۸)

مجھ تک یہ خبر پہنچی ہے کہ تم ابو ایوب اور ابو ربیع سے باہم لین دین کر رہے ہو۔ پس اس وقت تمہاری کیا حالت ہوگی جب ظالموں کی مدد کرنے والوں کی فہرست میں تمہارا نام بھی ہوگا۔ پس امام کا فرمان سننے کے بعد میرے والد غمزدہ و پریشان ہوگئے جب امام نے ان کی بے چینی دیکھی تو فرمایا اے عذافر میں نے تمہیں اسی بات سے ڈرایا ہے کہ جس سے خدا نے مجھے ڈرایا پس میرے والد مرتے دم تک غمزدہ رہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ خدا پر لازم ہے کہ تمہیں اس جماعت کے ساتھ محشور کرے جس سے تم دنیا میں فائدہ اٹھاتے رہے۔ اس کے علاوہ آپ نے فرمایا کچھ وہ لوگ جو حضرت موسی پر ایمان لا چکے تھے اپنے آپ سے کہنے لگے کہ ہمیں چاہیئے کہ فرعون کے لشکر میں شامل ہوجائیں تاکہ ان سے دنیاوی فائدہ حاصل کر سکیں اور جب موسٰی فرعون پر فتح حاصل کر لیں تو ان کے ساتھ شامل ہو جائیں گے اور جس وقت حضرت موسٰی اپنے ساتھیوں کے ساتھ جو ان پر ایمان لیکر آئے تھے فرعونیوں سے بچ کر بھاگے تو یہ لوگ بھی جلدی سے سوار ہو کر روانہ ہوگئے تاکہ حضرت موسیٰ کے ساتھ شامل ہوجائیں لیکن اس وقت خداوند عالم جلّ جلالہ نے ایک فرشتہ بھیجا تاکہ ان کے سواری کے جانوروں کو مارے اور انہیں لشکر فرعون کی طرف دوبارہ لوٹا دے اور وہ انہی کے ساتھ غرق ہوگئے۔(وسائل کتاب تجارت ب ۴۴ جلد ۱۴۵ ص ۱۳۴) اس کے علاوہ آپ فرماتے ہیں کہ خدا سے ڈرو اور اپنے دین کو تقیہ بے نیازی اور اسکے فضل سے قوی کرو اور صاحب حکومت سے حاجت طلب کرنے سے بچو اور اگر کوئی انسان کسی دنیاوی شخص یا مذہب کے مخالف کے سامنے اس چیز کے لئے جو اسکے پاس ہے عجز و انکساری سے پیش آئے تو خدا اسے ذلیل و رسوا کرے گا اور اپنا دشمن رکھے گا اور اسے اسکے حال پر چھوڑ دے گا۔ پس اگر اس شخص کے ذریعے کوئی مال دنیا اس تک پہنچے تو خدا اس سے برکت اٹھا لے گا اور اگر وہ اس مال سے حج کرے یا غلام آزاد کرائے یا دوسرے نیک امور میں خرچ کرے تو اس کا ثواب نہیں ملے گا (کتاب کافی اور تہذیب جلد ۶ ص ۳۳)

علی بن ابی حمزہ کہتے ہیں کہ بنی امیہ کے کاتبوں میں میرا ایک دوست تھا اس نے مجھے کہا کہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے ملنا چاہتا ہوں امام کی خدمت میں حاضر ہونے کے بعد اس نے سلام کیا اور کہا میں آپ پر قربان جاؤں میں بنی امیہ کے دربار میں تھا اور ان کے ذریعے مجھے بہت سا مال ملا اس مال کے حصول کے لئے میں نے حلال و حرام کی پرواہ نہیں کی امام نے فرمایا اگر بنی امیہ میں ایسے لوگ ہوتے جو ان کے لئے کتابت کرتے ان کے مال کو جمع کرتے اور ان کے دشمنوں سے جنگ کرتے اور انکی جماعت میں حاضر ہوتے تو یقینا وہ ہمارے حق کو غصب نہیں کرسکتے تھے اور اگر لوگ انہیں ان کے حال پہ چھوڑ دیتے تو جو کچھ ان کے پاس تھا اس کے علاوہ انہیں کچھ نہ ملتا۔ اس کے بعد اس مرد نے کہا میں آپ پر قربان جاؤں آیا میں نے جو کچھ کیا ہے کیا میرے لئے نجات ہے امام نے فرمایا اگر میں بتاؤں تو کیا عمل کرو گے کہا۔ جی ہاں امام نے فرمایا جو بھی مال تم نے وہاں رہتے ہوئے حاصل کیااسے الگ کر دو اگر صاحبان حق میں سے کسی کو جانتے ہو تو اس کا حق ادا کرو اور جس کو نہیں جانتے تو اس کی طرف سے صدقہ دو (یعنی راہ خدا میں صاحب حق کی طرف سے صدقہ دو) تاکہ میں اس بات کی ضمانت دے سکوں کہ خدا تمہیں بہشت میں داخل کرے گا۔ علی بن ابی حمزہ کہتے ہیں کہ اس جوان نے تھوڑی دیر کے لئے اپنے سر کو جھکایا اس کے بعد کہا۔ میں آپ پر قربان جاؤں جو کچھ آپ نے فرمایا ہے۔ اس پر عمل کروں گا۔ اور اس کے بعد ہمارے ساتھ کوفہ آگیا اور جو کچھ اس کے پاس تھا جس طرح آپ نے فرمایا تھا اس کے صاحب کو لوٹا دیا اور باقی کو صدقہ کر دیا یہاں تک کہ جو لباس پہنا ہوا تھا وہ بھی دے دیا اس کے بعد میں نے اپنے ساتھیوں سے کچھ رقم لے کر اس کے لئے لباس خریدا اور اسکے لئے خرچہ بھیجا اور کچھ مہینے بعد وہ بیمار پڑگیا ایک دن میں اسکی عیادت کے لئے گیا میں نے دیکھا کہ وہ جان کنی کے عالم میں ہے اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور کہا اے علی بن ابی حمزہ خداکی قسم تمہارے امام نے جو وعدہ کیا تھا پورا کیا اس کے بعد وہ مرگیا پس میں نے تجہیز و تکفین کے بعد اسے دفن کیا اور اسکے بعد میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں مدینہ آیا امام نے فرمایا اے علی میں نے وہ وعدہ وفا کیا جو تمہارے ساتھی کے ساتھ کیا تھا۔ میں نے کہا میں آپ پر قربان جاؤں آپ سچ فرماتے ہیں کیونکہ مرتے وقت میرے ساتھی نے بھی یہی کہا تھا۔(وسائل کتاب تجارت ب ۷۶ ص ۵۱۵)

ایسی مدد جس پر حرام ہونا اور تقویت پہنچانا صدق نہ آئے

(۳) تیسری قسم میں ایسے امور شامل ہیں جن میں کسی قسم کی حرمت کا پہلو نہیں اور نہ وہ ظالم کی تقویت کا سبب بنتے ہیں اور نہ ہی ان کاموں کی وجہ سے انسان کا شمار عرف عام میں ظالم کی مدد کرنے والوں میں ہوتا ہے۔ مثلاً یہ کہ اپنی گاڑی کو انہیں کرایہ پہ دینا یا ان سے جائز چیزوں کے اٹھانے کے لئے کرایہ پر لینا مثلاً اشیاء خوردنی کو ایک شہر سے دوسرے شہر لے کر جانا اور مثلاً اسی طرح ایسے عملے کو جو اجرت لیکر ظالم کی عمارت تعمیر کر رہا ہو اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا اس قسم کا حرام ہونا مسلم نہیں ہے۔ لیکن بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ سخت احتیاط کی بنا پر اسے ترک کرنا چاہیئے کیونکہ اس سلسلے میں پہلے جو روایات گذر چکی ہیں ان کا مطلق ہونا اس قسم کو بھی اپنے زمرہ میں شامل کرتا ہے اور ثانیاً انسان ایسے موارد میں ظالم کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔

صفوان جمال سے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا فرمان

صفوان بن مہران جمال کو فی امام جعفر صادق اور امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کے صحابیوں میں سے تھے بہت متقی پرہیز گار انسان تھے اور اونٹوں کو کرائے پردینا ان کا ذریعہ معاش تھا ان کے پاس بہت زیادہ اونٹ تھے وہ کہتے ہیں کہ میں ایک دن امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو امام نے فرمایا اے صفوان تمہارے سارے کام اچھے ہیں سوائے ایک کام کے میں نے کہا آپ پر قربان جاؤں وہ کونسا کام ہے کہا تم اپنے اونٹوں کو اس مرد (ہارون الرشید خدا اس پر لعنت کرے)کو کرایہ پر دیتے ہو میں نے عرض کی ان اونٹوں کو کرائے پر نہ لالچ نہ اپنی دولت کو زیادہ کرنے اور نہ ہی پرندوں کے شکار اور لہو و لعب کے لئے دیتا ہوں بلکہ خدا کی قسم جب وہ حج پر جاتا ہے تب دیتا ہوں اور اس کی خدمت کے لئے خود نگہبان نہیں بنتا بلکہ اپنے غلاموں کو اس کے ساتھ بھیجتا ہوں امام نے فرمایا آیا کرائے کی رقم نقد لے لیتے ہو یا اس پر اور اس عزیزوں پر رقم کی ادائیگی باقی رہتی ہے میں نے عرض کیا کہ رقم کی ادائیگی وہ واپس آکر کرتے ہیں امام نے فرمایا کہ کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ ہارون اور اسکے عزیز و اقارب تمہاری رقم کی ادائیگی تک زندہ رہیں میں نے کہا جی ہاں تو امام نے فرمایا۔

من احب بقا ئھم فھو منھم ومن کان منھم کا ورد النار۔

جو بھی ان لوگوں کی بقا کو پسند کرتا ہے تو وہ انہی کی طرح ہے اور جو کوئی ان کے ساتھ محسوب ہو تو وہ دوزخ میں جائے گا۔(وسائل الشیعہ کتاب تجارت ب ۴۲ ص ۱۳۲ ج ۱۲)

صفوان کہتے ہیں کہ امام کے فرمان کے بعد میں نے اپنے تمام اونٹوں کو بیچ دیا جب یہ خبر ہارون کو پہنچی تو اس نے مجھے طلب کیا اور کہا میں نے سنا ہے کہ تم نے اونٹوں کو بیچ دیا ہے میں نے کہا جی ہاں میں بوڑھا و ضعیف ہوگیا ہوں اور اونٹوں کی حفاظت نہیں کر سکتا اور میرے غلام بھی جس طرح حفاظت کرنی چاہیئے نہیں کر سکتے ہارون نے کہا ایسا نہیں ہے میں جانتا ہوں کہ تمہیں کس نے اس کام کے لئے آمادہ کیا ہے یہ کام موسیٰ بن جعفر کے اشارہ پر کیا ہے۔ میں نے کہا بھلا مجھے موسیٰ بن جعفر سے کیا مطلب اس نے کہا جھوٹ بولتے ہو اگر ماضی میں تمہارے ہم سے اچھے تعلقات نہ ہوتے تو تمہیں قتل کروادیتا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں۔

من احب بقاء الظالمین فقد احب ان یعصی الله۔

(وسائل الشیعہ کتاب تجارت ب ۴۴ ص ۱۳۴ ج ۱۴)

جو کوئی ظالموں کی بقا کو پسند کرتا ہے تو وہ زمین میں معصیت الہٰی کی بقا کو پسند کرتا ہے۔ اور اسی طرح اس آیہ شریفہ ولا ترکنوا الی الذین ظلمو فتمسکم النار (یعنی ظالموں کی طرف مائل نہ ہو کر تم تک بھی دوزخ کی آگ آ لپٹے گی) کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:

ھو الرجل یاتی السلطان فیحب بقاوٴہ الی ید خل یدہ فی کیسہ فیعطیہ

(وسائل کتاب تجارت ب ۴۴ ص ۱۳۳)

کہ اگر کوئی شخص کسی بادشاہ کے پاس آئے پس وہ اسکے زندہ رہنے کو صرف اتنی دیر کے لئے پسند کرے کہ بادشاہ اپنے تھیلے میں ہاتھ ڈال کر کچھ رقم اسے دے۔

خلاصہ ظالم کی بقا کو پسند کرنا خواہ وہ اس سے بھی کم مقدار میں ہو ظالم کی طرف مائل ہونا ہے۔

ایسے ظالم کی مدد کرنا کہ ظلم جس کا پیشہ نہ ہو

ایسے ظالم کی مدد کرنا کہ ظلم جس کا پیشہ نہ ہو بلکہ اتفاقاً بعض اوقات اس سے کوئی ظلم صادر ہو اور وہ کسی پر ستم ڈھائے یعنی کسی کو ناحق قتل کرے یا اسکی بے عزتی کرے یا کسی کا مال نا حق لیکر اس کا حق ادا نہ کرے تو ایسے ظالم کی اس ظلم میں مدد کرنا بغیر کسی پیشہ کے حرام ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص جانتا ہو کہ یہ شخص اس مورد میں ظالم ہے اس کے باوجود اس کا مقصد پورا کرنے کے لئے اسکی مدد کرے تو یقینا حرام بلکہ گناہانِ کبیرہ میں سے ہے کیونکہ خود ظلم کرنا ایسے گناہوں میں سے ہے کہ جس کے بارے میں خداوند عالم نے قرآن میں عذاب کا وعدہ کیا ہے اور فرماتا ہے۔

انا اعتدنا للظالمین نارا احاط بھم سرادقھا وان یستغیثوا یغاثوبماء کالمھل یشوی الوجوہ بئس الشراب وسائت مرتفقا (سورئہ کہف آیت ۲۹)

ہم نے ظالموں کے لئے ایسی آگ تیار کی ہے جو ان کو چاروں طرف گھیر لے گی اگر وہ پیاس کا اظہار کریں گے اور پانی چاہیں گے تو ایسا پانی جو انتہائی گرم اور کھول رہا ہوگا۔ انہیں دیا جائے گا جب وہ اسے اپنے منہ کے قریب لائیں گے تو ان کے چہروں کے گوشت بھون کر رکھ دے گا بہت برا پانی ہے۔ جو انہیں دیا جائے گا اور بہت بری جگہ ہے جہاں انہیں جگہ دی جائے گی۔

ظالم اور ظلم میں اس کی مدد کرنے والا دونوں کا گناہ برابر ہے۔ جیسا کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں۔

العامل بالظلم والمعین لہ والراضی بہ شر کاء ثلا ثتھم

(کتاب تجارت ب ۴۳ ص ۱۲۸)

ظالم اور اس کی مدد کرنے والا اور اس ظلم پر راضی ہونے والا تینوں ظلم میں شریک ہیں۔

یعنی گناہ ظلم میں تینوں برابر ہیں۔ اور اسی قسم کی روایت امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کی گئی ہے کہ حضرت رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

من نکث بیعة او رفع لواء ضلالة او کتم علما او اعتقل مالا ظلما او اعان ظالما علی ظلمہ وھو یعلم انہ ظالم فقد برء من الا سلام

(مستدرک الوسائل کتاب تجارت ابواب ما یکتسب باب ۳۵)

جو کوئی امام کے ساتھ کی گئی بیعت توڑے یا پرچم گمراہی کو بلند کرے یا ایسے علم کو چھپائے کہ جس کا ظاہر کرنا واجب ہو یا کسی کے مال پر ناحق قبضہ کرے یا ظالم کی اس کے ظلم میں مدد کرے حالانکہ جانتا ہو کہ وہ ظالم ہے۔ پس وہ دین اسلام سے خارج ہو گیا۔

اور شب معراج وہ جملے جو جہنم کے دروازوں پر لکھے دیکھے ان کے بارے میں فرمایا:

و علی باب الرابع من ابواب النار مکتوب ثلث کلمات اذل الله من اھان الاسلام اذل الله من اھان اہل البیت اذل الله من اعان الظالمین علی ظلمہم للمخلوقین (تجارت مستدرک باب ۳۵)

جہنم کے چوتھے دروازے پر یہ تین جملے لکھے ہوئے تھے خدا اس شخص کو ذلیل اور رسوا کرتا ہے جو اسلام کو رسوا کرے اہلبیت کو رسوا کرے جو ظالم کی اس کے ظلم میں مدد کرے۔

اور اس طرح آیات اور روایات کا ما حصل یہ ہے کہ ظلم کرنا گناہ کبیرہ ہے اور ظالم کے ظلم میں مدد کرنے والا بھی ظلم اور گناہ میں اس کے مساوی ہے۔ اس کے علاوہ ظالم کی مدد کرنے والا ایسا ہے کہ جیسے اس نے اہم ترین واجبات خدا یعنی برائی سے روکنے کو ترک کیا بلکہ وہ حقیقت میں منافق ہو گیا کیونکہ اس نے برائی کا حکم دیا اور یہ چیز منافقین کی صفات میں سے ہے چنانچہ خداوند عالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا۔

المنافقون والمنافقات بعضھم من بعض یا مرون بالمنکر وینھون عن المعروف (سورئہ برائت آیت ۶۶)

منافق عورتوں میں سے بعض ، بعض دوسروں کو برائی کا حکم دیتے اور نیکی سے روکتے ہیں۔

ظلم کی روک تھام ضروری ہے

اگر کوئی مسلمان ظالم کو کسی دوسرے پر ظلم کرتا ہوا دیکھے اور ایسی صورت میں کہ اگر نہی از منکر کی تمام شرائط موجود ہوں تو اس پر واجب ہے اسے ظلم کرنے سے روکے چنانچہ حضرت رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔

انصرا خاک ظالما کان او مظلوما فقیل یا رسول الله نصرہ مظلوما فما بالنا ننصرہ فقال صلی الله علیہ والہ وسلم خذو اعلی یدیہ وامنعوہ عن الظلم فھذا نصرتکم لا خیکم (انوار نعمانیہ ج ۳ ص ۴۴)

کہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یامظلوم پوچھا گیا یا رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم مظلوم کی تو ہم مدد کریں گے لیکن ظالم نہ کر سکے اگر تم نے یہ عمل انجام دیا تو دراصل تم نے اس کی مدد کی ہے (یعنی اس کے لئے رکاوٹ بننا اس کے ظلم کو روکنا ہے) اور اس طرح روکنا مومن بھائی کی نصرت ہے۔

ایسے ظالم کی اس کے ظلم کے علاوہ مدد کرنا کہ ظلم جس کا پیشہ نہ ہو

ایسے ْطالم کی مدد کرنا تمام جہات سے مباح اور جائز ہے لیکن اگر وہ شخص اور جری ہوجائے یعنی دوبارہ شدت سے ظلم کرے ۔ یا اپنے کئے پر پیشمان نہ ہو اور اس ظلم سے توبہ نہ کرے تو اس وقت اس کی مدد کرنا حرام ہوجاتا ہے ۔ خلاصہ یہ کہ نہی عن المنکر کے واجب ہونے سے ظالم کی اس کے دوسرے کاموں میں مدد کرنا حرام ہوجاتا ہے۔ لیکن اس کے دوسرے کاموں میں مدد کرنے کاظلم سے (اثباتاً نفیا۔ ابتداواستمراراً)معمولی سابھی تعلق نہ ہوتومدد کرنا حرام نہیں ۔اس بنا پر ظالم کی اس کے ظلم کے علاوہ مدد کرنا اگر نہی از منکر کے موارد میں نہ ہوتو حرام نہیں ہے۔

گناہ میں بھی مدد نہیں کرنی چاہیئے

ایسے ظالم کی مدد کرنا کہ اس کا گناہ کسی دوسرے پر ظلم نہ ہو بلکہ خود اپنی ذات سے متعلق ہو مثلاًنماز اور روزے کو ترک کرنا، شراب پینا، زنا کرنا ، جوا کھیلناوغیرہ بحث کے شروع میں ذکر کیا گیا ہے کہ آیات وروایات میں ہر گناہ گار کوظالم اوراپنے آپ پر ظلم کرنے والا کہاگیا ہے اس بنا پر اگر کوئی بھی شخص کسی گناہ میں اس کی مدد کرے تو اس نے ظالم کی مدد کی جو یقیناحرام ہے اور وہ اس گناہ گار کے گناہ معصیت میں شریک ہے چنانچہ خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔

تعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم و العد وان واتقواللّٰہ ان ا للّٰہ شدید العقاب(سورئہ مائدہ آیت ۲)

(اور تمہارا فرض یہ ہے کہ ) نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو۔ اور گناہ ریادتی میں باہم کسی کی مدد نہ کرو ۔ اورخدا سے ڈرتے رہو (کیونکہ ) خدا یقینابڑا سخت عذاب دینے والاہے۔ اثم وہ معصیت جو دوسرے تک نہ پہنچے اور عدوان ایسے گناہ ہیں جو دوسروں تک پہنچ جائیں

وہ تما م دلائل جو نہی عن المنکر کے وجوب اور وہ آیات وروایات انذار جو اس کو ترک کرنے والے کے بارے میں ہیں ان کا اطلاق اس مورد پر بھی ہوتا ہے۔

گناہ میں مدد کرنے کی دو قسمیں ہیں

اگر کوئی گناہ کرنا چاہتا ہو اور گناہ کرنے کے لئے جن باتوں کا ہونا ضروری ہے ان میں سے کسی ایک میں اس کی مدد کرنا مثلاً (۱) اپنے انگوروں کو شراب بنانے کے لئے بیچے۔ (۲) اگر کوئی شخص حرام کے لئے کوئی سبب مہیا کرے اور اس کا ارادہ نہ ہو کہ وہ حرام میں مبتلا ہو لیکن اگروہ شخص اس سبب کو مہیا نہ کرے تو وہ حرام کام نہیں ہو سکتا مثلاً انگور والا شراب بنانے والے کو انگور بیچتا ہے اور اس کا ارادہ نہ ہو کہ اس سے شراب بنائی جائے لیکن کیونکہ اس شخص کا انحصار انگور بیچنے والے پر ہے یعنی اس طرح کہ اگر وہ انگور نہ بیچے تو شراب بنانے والے کا کام رک جائے گا اس لئے کہ دوسری جگہ پر انگور نہیں بک رہے یا اس کی دسترس سے باہر ہیں اس صورت میں انگور کا بیچنا قطعاً حرام ہے اگرچہ انگور بیچنے والا شراب بنانے کے ارادے سے انگور نا بیچتا ہو کیونکہ عرف عام میں ایسی صورت میں انگور بیچنا شراب سازی میں مدد کرنے کے مترادف ہے۔

گناہ گار کی گناہ کے علاوہ کسی کام میں مدد کرنا

گناہ گار کی گناہ کے علاوہ کسی کام میں مدد کرنا مثلاً شراب خور یا بے نمازی کو قرض دینا یا وقت ضرورت اس کی فریاد رسی کرے بہت سے لوگوں کے ساتھ اس طرح کا اتفاق ہوتا ہے اور ان موارد میں ذمہ داری کو مشخص کرنا بہت زیادہ مشکل کام ہے کیونکہ ان موارد میں حقوق کا ٹکراؤ ہوتا ہے جیسا کہ ایک طرف گناہ گاروں سے لازم دوری اختیار کرنے کا حکم ہے چنانچہ حضرت امیرالمومنین فرماتے ہیں۔

امرنا رسول الله ان نلقی اھل المعاصی بوجوہ مکفھرہ

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۴۱۳)

پیغمبر خدا نے ہمیں گناہ گاروں سے ترش روی سے پیش آنے کا حکم دیا ہے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے اپنے کچھ اصحاب کی سرزنش کے لئے فرمایا:

وا نتم یبلغکم عن الرجل منکم القبیح فلا تنکرون علیہ ولا تھجرونہ ولا توذونہ حتی یترک (تہذیب ج ۶ ص ۱۸۲)

معاشرے میں تمہارے ساتھ یہ اتفاق ہو سکتا ہے تم میں سے کوئی شیعہ کسی گناہ کا ارتکاب کرے تو تم اسے نہ روکو اور اس سے قطع تعلق نہ کرو اور اسے تکلیف نہ دو تاکہ وہ اپنے گناہ کو چھوڑ دے اور بعض مخصوص گناہوں کے بارے میں بہت سخت روایات ہیں جیسا کہ۔

من اعان تارک الصلوة بلقمة او کسوة فکا نما قتل سبعین نبیا اولھم ادم و اخرھم محمد صلی الله علیہ والہ وسلم (لئالی الاخبار باب ۸ ج ۳ ص ۵۱)

اگر کوئی کسی بے نمازی کی روٹی کے ایک لقمے یا کپڑے کے ایک ٹکڑے کے برابر مدد کرے تو گویا ایسا ہے کہ اس نے ستر پیغمبروں کو قتل کیا جس میں پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخر حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ اور دوسری روایات میں حضرت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے منقول ہے۔

من اعان تارک الصلوة بشربة ماء فکاناما حارب و جادل معی و مع جمیع الانبیاء(لئالی الاخبار ب ۸ ص ۵۱ ج ۳)

اگر کوئی بے نمازی کی ایک گھونٹ پانی سے بھی مدد کرے تو گویا ایسا ہے کہ اس نے مجھ سے اور تمام انبیاء علیہم السلام سے جنگ کی اس کے علاوہ آپ نے فرمایا۔

من تبسم فی وجہ تارک الصلوة فکا نما ھدم الکعبة سبعین مرة

(لئالی الاخبار ب ۸ ص ۵۱ ج ۴)

اگر کوئی بے نمازی کے ساتھ ہنسے تو گویا اس نے ستر مرتبہ خانہ کعبہ کو منہدم کیا اور دوسری روایات جو اس سلسلے میں وارد ہوئی ہیں ان میں شراب خور سے میل جول رکھنے کے بارے میں قطع رحم کرنے والے اور جھوٹ بولنے والے کے بارے میں بہت زیادہ سرزنش کی گئی ہے اور دوسری طرف بہت سی روایات ایسی ہیں کہ جن میں مومن کے حق کی رعایت کرنے اہل بیت کے دوستوں سیدوں اور پڑوسیوں اور ان کے علاوہ دوسرے افراد سے محبت اور میل جول کو واجب قرار دیا ہے۔

اور وہ روایات صرف باتقویٰ لوگوں کے لئے مخصوص نہیں ہیں یعنی رشتے داروں کا حق ادا کرنا واجب اور قطع رحم کرنا حرام ہے اور بطور کلی کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ متقی نہ ہو تب بھی جیسا کہ قطع رحم حقوق والدین کے باب میں گزر چکا ہے قطع رحم اور حقوق والدین حرام ہے اگرچہ رشتے دار کافر یا فاجر ہو اور سیدوں کے بارے میں بھی رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے یہ روایت وارد ہوئی ہے۔

اکرموا اولادی الصالحونلله والطالحون لی

میری اولاد کی احترام کرو کہ ان میں سے صالح افراد پر خدا کی وجہ سے احسان کرو اور بروں پر میری وجہ سے۔

آل محمد علیہم السلام کے دوستوں کے بارے میں امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:

کن محبا لال محمد صلی الله علیہ والہ وسلم وان کنت فاسقا و محبا لمحبھم وان کانوا فاسقین (داراسلام ج ۴ ص ۴۰۳)

آل محمد کو دوست رکھو اگرچہ تم فاسق ہو اور دوست رکھو ان کے دوستوں کو چاہے وہ فاسق ہی ہوں۔ اور پڑوسیوں کے بارے میں روایت ہے کہ اگر ہمسایہ مسلمان ہے تو تم پر دو حق رکھتا ہے اور اگر رشتہ دار ہو تو تین حق رکھتا ہے اور اگر کافر ہو تو اس کا حق ہمسائیگی پھر بھی باقی ہے۔(کتاب حج مستدرک ب ۷۴ ص ۷۹)

اس بنا پر ضروری ہے کہ اہل بیت کے دوستوں کو دوست رکھا جائے اور ان کی مدد کی جائے اور ان کی حاجتوں کو پورا کرے چاہے وہ باتقویٰ نہ ہوں اور سیدوں کا احترام کرنا چاہیئے یا ضروری ہے کہ رشتہ داروں کے حق کی رعایت کرے اگرچہ وہ گناہ گار ہوں اس بنا پر کیا ذمہ داری ہے؟

دونوں کو انجام دینا ممکن ہو تو دونوں کو انجام دے ورنہ اہم کو ترجیح دے۔

حقوق کے ٹکراؤ کی اور کچھ مختلف ذمہ داریوں کا سامنا کرنے کی صورت میں پہلی صورت یہ ہے کہ اگر آسان ہو تو سب کو بجا لائے اور اگر آسان نہ ہو اور مجبور ہو کہ ایک کو انجام دے اور دوسرے کو ترک کرے تو دونوں میں سے اہم کو پیش نظر رکھے یعنی ان دونوں میں سے جو شارع مقدس کے نزدیک اہم ہو اسے مقدم کرے مثلاً اگر ایک شخص نے روزہ واجبی رکھا ہو اور دوسری طرف بچہ پانی میں ڈوب رہا ہو اور بچے کو نجات دلانے کا انحصار اس بات پر ہو کہ یہ شخص پانی میں (اپنا سر لے) جائے ایسی صورت میں دو مختلف ذمہ داریاں ( کہ جنہیں ایک وقت میں انجام دینا اس کے لئے نا ممکن ہو) اس پر عائد ہوتی ہیں ایک یہ کہ روزے کی حالت میں پانی کے اندر سر کرنا حرام ہے دوسرے یہ کہ ایک فرد کی جان بچانے کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ پانی میں (سر لے) جائے پس ایک ہی عمل جہت سے واجب اور ایک جہت سے حرام ہے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شارع کے نزدیک روزہ توڑنے کے مقابلے میں ایک زندگی کا بچانا زیادہ اہم ہے اور روزے کو بعد میں قضا کیا جا سکتا ہے چنانچہ اس پر واجب ہے کہ پانی میں جاکر بچے کو نجات دلائے اور یہ گناہ بھی نہیں کیونکہ اس نے شریعت کے مطابق عمل کیا اور اس کو اس کام کی جزا بھی ملے گی۔

برائی سے روکنا اہم اور مقدم ہے

ان باتوں کو جاننے سے یہ واضح ہوا کہ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا آیات و روایات کی روشنی میں واجبات خدا میں سے اس قدر اہم ہے کہ بعض واجب حقوق سے ٹکرانے کی صورت میں اس کے مقدم ہونے میں کوئی شک نہیں مثلاً جب ماں، باپ، بیٹا یا کوئی دوسرے عزیز رشتہ دار نماز نہیں پڑھتے یا کسی بھی گناہ کا ارتکاب کرتے ہوں تو اگر ان کی حالت ایسی ہو کہ اگر ان کے ساتھ نیکی نہ کی جائے یا وقت ضرورت ان کی مدد نہ کی جائے تو وہ اپنا برا عمل چھوڑ دیں گے یا نماز پڑھنے لگیں گے تو ایسی صورت میں نہی عن المنکر کی رو سے واجب ہو جاتا ہے کہ ان کے ساتھ نیکی نہ کی جائے اور نہ ہی رشتہ داروں کی مدد کی جائے۔

مثلاًایک سید شراب پیتا ہے۔ اگر اس کے ساتھ نیکی کرنا چھوڑ دیا جائے تو وہ بھی شراب خوری چھوڑ دے گا یہی صورت حال پڑوسی اور اہل بیت علیہم السلام کے دوستوں کی ہے۔ یعنی اگر نیکی نہ کرنا فائدہ مند ہو تو واجب ہو جاتا ہے کہ نیکی اور مدد نہ کی جائے لیکن اگر نیکی اور مدد نہ کرنے سے بھی اس پر کوئی اثر نہ ہو اور وہ گناہ چھوڑدینے پر آمادہ نہ ہو تو ایسی صورت نیکی اور مدد کرنے کی حرمت معلوم نہیں کیونکہ گناہ گار کی مدد اس وقت تک حرام تھی کہ جب مدد نہ کرنے کی صورت میں وہ بھی گناہ ترک کر دیتا ہو (یعنی نہی عن المنکر کے لحاظ سے حرام تھی) لیکن جب اس کی مدد کرنا، نہ کرنا، احسان کرنا، اور نہ کرنا برابر ہو یعنی اس پر کوئی اثر نہ ہو اور وہ گناہ کو ترک نہ کرے تو نہی عن المنکر کی رو سے احسان و امداد کا حرام ہونا ختم ہوجاتا ہے۔ یعنی یہ باتیں حرام نہیں رہتیں لیکن کسی دوسرے پہلو سے اس کا حرام ہونا معلوم نہیں مثلاً بے نماز کی مدد کرنا جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے۔ اس صورت میں حرام ہوتی ہے کہ جب مدد نہ کرنا اس کے نماز پڑھنے کا سبب بن جائے تو اگر کسی کے والدین یا عزیز نماز نہیں پڑھتے اور ان کے ساتھ نیکی نہ کرنے کی صورت میں بھی وہ نماز نہیں پڑھتے تو ایسی صورت میں ان کی نا فرمانی اور قطع رحم بدستور حرام رہے گا۔

مراتب کا لحاظ رکھنا چاہیئے

واضح رہے کہ نہی عن المنکر کی رو سے امداد اور احسان ترک کرنا باقی تمام حقوق مثلاً رشتہ داروں ، سیدوں، اور پڑوسیوں کے حقوق وغیرہ پر مقدم ہے اور اس سلسلے میں جو کچھ کہا گیا وہ اس صورت میں ہے کہ سب سے پہلے تو نہی عن المنکر کے واجب ہونے کی شرائط موجود ہوں جن میں سے ایک تو یہ کہ اثر ہونے کا امکان ہو یعنی جب تک نیکی و مدد کو ترک نہ کیا جائے کوئی فائدہ ہو کیونکہ نہی عن المنکر میں اس کی تفصیل کے مطابق جو آگے آرہی ہے۔ مراتب کا لحاظ ضروری ہے یعنی جہاں تک ممکن ہو زیادہ آسان طریقے پر عمل کیا جائے اور زیادہ سخت طریقے سے آگے نہ بڑھا جائے اس لئے کسی بھی ایسے موقع پر کہ جب انسان مدد اور احسان کی بدولت زیادہ جلد گناہ سے دوری اختیار کر سکتا ہو تو بے شک امداد و احسان کے ذریعے نہی عن المنکر کیا جائے مثلاً اگر کسی کا باپ کا بیٹا نماز نہیں پڑھتا اور اس بات کا قوی امکان ہو کہ محبت و احسان کی بدولت جیسا کہ زیادہ تر ہوتا ہے وہ اس گناہ کو چھوڑ دیں گے یعنی اس سے قبل کہ ان سے ناطہ توڑا جائے یا نیکی نہ کی جائے وہ نمازی بن جائیں گے تو ایسی صورت میں نیکی اور مدد کرنا واجب ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ جس صورت میں احسان و مدد کا اس شخص کے گناہ سے کوئی تعلق نہ ہو یعنی چاہے احسان اور مدد کی جائے یا نہ کی جائے تو اس کی حرمت معلوم نہیں بلکہ بعض معاملات میں تو مدد اور احسان کرنا واجب ہے اور اس کا ترک کرنا حرام ہے۔

تَرْک اِعَانة المظلومین

مظلوموں کی مدد نہ کرنا

 

تیسواں وہ گناہ کے جس کا کبیرہ ہونا صراحتاًذکر کیا گیا ہے۔ وہ مظلوموں کی مدد نہ کرنا اور ان پر کئے جانے والے ظلم کی روک تھام نہ کرنا ہے چنانچہ اعمش کی روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام گناہانِ کبیرہ کے ضمن میں فرماتے ہیں “و ترک معونة المظلومین” یعنی مظلوموں کی مدد نہ کرنا گناہانِ کبیرہ میں سے ہے۔

دراصل مظلوم کی مدد کرنا عملی طور پر برائی سے روکنا ہے پس اگر کوئی مظلوم کی مدد نہ کرے تو اس نے ایک بہت بڑے واجب الہٰی کو ترک کیا ہے۔

امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام فرماتے ہیں۔

من قصد الیہ رجل من اخوانہ مستجیرا بہ فی بعض احوالہ فلم یجرہ بعد ان یقدر علیہ فقد قطع ولا یة الله عزّو جلّ (کافی ج ۴ ص ۳۶۶حدیث ۴)

اگر کوئی شخص اپنے بعض حالات سے مجبور ہو کر اپنے کسی مسلمان بھائی سے پناہ لینا چاہے (مثلاً اس کا پناہ لینا اپنے آپ سے ظالم کو دور کرنے کے لئے ہو) اور وہ اسے پناہ نہ دے اور قدرت رکھتے ہوئے اس کی مدد نہ کرے تو اس نے خود اپنے آپ سے خدا کی مدد کو دور کردیا۔

یعنی خدا جو ہر مومن کا ولی ہے لیکن مومن کی مدد نہ کرنے والے کا خدا ولی نہیں اور اس کے کاموں کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ اور امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں۔

ایما مومن بخل بجاھہ علی اخیہ المومن وھو ا وجہ جاھا منہ الامسہ قترو ذلة فی الدنیا والاخرة

جو مومن استطاعت رکھتے ہوئے کسی مومن کی مدد نہ کرے تو خدا اسے دنیا و آخرت میں ذلیل و رسوا کرتا ہے۔

جناب امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں۔

لا یحضرن احد کم رجلا یضر بہ سلطان جائر ظلما و عدوانا ولا مقتولا ولا مظلوما اذا لم ینصرہ لان نصرة المومن علی المومن فریضة واجبة اذا ھو حضرہ والعافیة اوسع مالم یلزمک الحجة الباھرة (سفینة البحارج ۴ ص۵۹۰)

تم میں سے کسی ایک کو بھی ایسی جگہ پر کہ جہاں ظالم بادشاہ کسی مظلوم کو مار رہا ہو یا نا حق قتل کر رہا ہو یا اس پر ظلم کر رہا ہو نہیں جانا چاہیئے جبکہ وہ وہاں موجود ہونے کے باوجود اس کی مدد نہ کرسکتا ہو کیونکہ مقام ظلم پر موجود ہونے کی صورت میں ایک مومن کا دوسرے مومن کی مدد نہ کرنا واجبات خدا میں سے ایک واجب فریضہ ہے لیکن اگر وہ موجود نہ ہوتو اس پر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوگی عمروبن قیس کہتا ہے کہ میں اپنے چچا کے بیٹے کے ساتھ بنی مقاتل کے محل میں امام حسین علیہ السالم کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں سلام کیا انہوں نے ہم سے (مختصر سی بات چیت کے بعد )فرمایا کیا تم میری مدد کرنے کے لئے آئے ہو میں نے کہا میں بال بچوں والا آدمی ہوں اور میرے پاس لوگوں کا مال ہے۔ میں نہیں جانتا کہ میری عاقبت کیا ہوگی اور میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ لوگوں کی امانت کو ضائع کروں اور میرے چچا کے بیٹے نے بھی امام کے جوب میں یہی کہا۔ پس امام نے فرمایا۔

فانطلق فلا تسمعلای واعیة ولا تری لی سوادا فانہ من سمع واعیتنا او رای سوا دنا فلم یجبنا ولم یغثنا کان حقا علی ا للّٰہ ان یکبہ ا للّٰہ علی منخریہ فی النار (سفینة البحار ج۴ص ۵۹۰)

اگر تم میری مدد نہیں کرسکتے تو اس بیابان سے دور ہوجاوٴ کہ کہیں تم میری آہ زاری کوسنو اور مجھے نہ دیکھو کیونکہ اگر کوئی بھی ہماری بے کسی کی فریاد کو سنے یا ہمیں بے کسی کے عالم میں دیکھے اور ہماری مدد نہ کرے توخدا پر لازم ہے کہ اسے جہنم کی آگ میں پھینک دے ۔ امام جعفر صاد ق علیہ السلام فرماتے ہیں۔

انہ جلد بعض الا حبارفی قبرہ جلدة من عذاب ا للّٰہ فامتلی قبرہ نارا صلی یوما بغیر وضو ومر علی ضعیف فلم ینصرہ (سفینہ البحار ج ۴ ص ۵۹۰)

یہودیوں کے کسی عالم کو اس کی قبر میں اس طرح عذاب کے تازیانے مارے کہ اس کی آگ قبر سے بھر گئی اور اس کی وجہ تھی کہ ایک دن اس نے بغیر وضو کے نماز پڑھی اور مظلوم کے پاس سے گزرا لیکن اس کی مدد نہ کی۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ فرماتے ہیں۔

وینصرہ ظالما ومظلوما فاما نصرتہ ظالما فیردہ عن ظلمہ واما نصرتہ مظلوما فیعینہ علی اخذحقہ (داراالسلام نوری ج ۶ ص ۱۹۷)

مومن کی مدد کرنا ضرروی ہے چاہے وہ ظالم ہو یا مظلو م اگر ظالم ہوتو اسے ظلم کرنے سے روکا جائے اور اگر مظلوم ہوتو ظالم سے اس کا حق لینے میں اس کی مدد کرے اور اسے ترک نہ کرے اور نہ ہی اسے اس کے حال پہ چھوڑے

اما م جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں۔

مامن مومن یخذل اخاہ وھویقد ر علی نصرتہ الا خذلہ ا للّٰہ فی ا لدنیا والاخرة

(بحارا الانوار ج ۷۴ ص ۳۱۶)

وہ مومن نہیں جو استطاعت رکھتے ہوئے اپنے مومن بھائی کی مدد نہ کرے تو پس خدا بھی اسے اس کے حال پہ چھوڑدیتا ہے اور دنیا وآخرت میں اس کی مدد نہیں کرتا۔

اور امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں۔

من عیب اخوہ المومن فلم ینصرہ ولم یدفع عنہ وھو یقد ر علی نصرتہ و عونہ فضحہ ا للّٰہ فی الدنیا والاخرہ

اگر کسی کے سامنے اس کے مسلمان بھائی کے عیب کاذکر کیا جائے اور وہ اس کی مدد نہ کرے یعنی ممکن ہوتے ہوئیاس کی عیبکو دور نہ کرے توخداوند عالم دنیا وآخرت میں اسے رسواکرے گا۔

اس حدیث اوردوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مظلومیت صرف جسم اور مال سے مخصوص نہیں بلکہ اس کا تعلق عزت و آبرو سے بھی ہے کیونکہ کسی مومن کی عزت اس کے جان ومال کی طرح قابل احرام ہے۔ جس طرح اس کا خون بہانا یا اس کامال لینا جائز نہیں بالکل اسی طرح اس کوبے عزت کرنابھی حرام ہے۔ اور روایات میں اس بارے میں بہت سختی سے ڈرایا گیا ہے اور جس طرح مومن کے قتل ہونے اور اس کا مال لٹنے سے بچانے میں اس کی مدد کرنا واجب ہے اسی طرح اس کی عزت وآبر ہ کی حفاظت میں اس کی مدد کرنا واجب ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں۔

من روی علی المومن روایة یرید بھا شینہ وھدم مروتہ یسقطہ من ا عین الناس اخرجہ ا للّٰہ من ولا یتہ الی والا یة الشیطان فلا یقبلہ الشیطان (اصول کافی ج۴ ص ۵۳)

اگر کوئی شخص کسی مومن کو ایسی بات بتائے کہ جس کے ذریعہ یہ چاہتا ہوکہ وہ برا ہوجائے اس کی غیر ت وحیا ختم ہوجائے اور وہ لوگوں کی نظر وں سے گر جائیاور لوگ اس پر اعتبار نہ کریں اوراس کی عزت نہ کریں توخداوند عالم اسے اپنے ولایت نصرت سے محروم کردیتا ہے اور اس کو شیطان کے لئے چھوڑ دیتاہے اور شیطان بھی اسے قبول نہیں کرتا۔ اور حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں۔

من تطول علی اخیہ فی غیبة سمعھا فیہ فی المجلس فرد ھا عنہ ردا للّٰہ عنہ الف باب من الشرفی الدنیا والاخرة فان ھو لم یردھا وھوقادر علی ردھا کان علیہ کوزرمن اغتابہ سبین مرة(مکاسب اور شرح مکاسب ج۴ ص۶۹)

اگرکوئی اپنے مومن بھائی کے عیب کو سنے اور اسے ایسا کرنے سے منع کرے” یعنی اس مومن کو بے عیب ظاہر کرے ” تو خدا وند عالم دنیاوآخرت میں ہزار شر کے دروازے اس پر بند کردیتا ہے اور اگر وہ قدرت رکھتے ہوئے عیب بیان کرنے والے کو نہ روکے توپس اس کے گناہ ستر غیبت کرنے والوں کے برابر ہوں گے۔

شیخ انصاری علیہ الرحمہ کہتے ہیں اس کے گناہ سترغیبت کرنے والوں کے برابر ہوں گے اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ اگر عیب بیان کرنے والے کو نہ ٹوکا جائے اور خاموشی اختیار کی جائے تو عیب بیان کرنے والا اس گناہ یا دوسرے گناہوں میں اور دلیر ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ آپ فرماتے ہیں کہ غیبت کرنے والے کو روکنے سے مرادیہ نہیں ہے کہ صرف اسے منع کیا جائے بلکہ اس کی مدد کرنی چاہیئے یعنی وہ عیب جو اس نے مومن سے منسوب کیا ہے اس عیب سے اس مومن کو بالکل بے عیب ظاہر کرے۔ مثلاً اگر وہ عیب دنیا کے کاموں سے متعلق ہو تو یوں کہے بھئی یہ کوئی خامی تو نہیں کیونکہ اس نے کوئی گناہ تو کیا نہیں اور عیب تو وہ ہے جسے خدا نے حرام قرار دیا ہو۔ اگر وہ عیب دینی امور میں سے ہو تو اس کے صحیح ہونے کی کوئی وجہ پیش کرنا چاہیئے اور اسے صحیح ظاہر کرنا چاہئیے مثلاً اگر وہ کہے فلاں شخص نماز نہیں پڑھتا تو اسے جواب میں یہ کہے کہ شاید وہ بھول گیا ہو یا اس نے نماز پرھی ہو اور تمہیں پتہ نہ چلا ہو۔ یا اگر وہ کہے کہ فلاں شخص شراب پیتا ہے تو وہ جواباً کہے کہ شاید وہ شراب نہ ہو اور اگر یوں کہنا صحیح نہ ہو تو کہے کہ مومن معصوم تو نہیں ہوتا اس سے گناہ سرزد ہوتے رہتے ہیں تمہیں چاہیئے کہ اس کے لئے استغفار کرو اور اس کے غم بانٹنے کی کوشش کرو نہ یہ کہ اس کی غیر موجودگی میں اس کی برائیاں بیان کرو ۔

ضروری نہیں کہ صرف مدد طلب کرنے والے ہی کی مدد کی جائے

جان لیں کہ مظلوم کی مدد کا واجب ہونا صرف اس مظلوم کے لئے نہیں جو مدد طلب کرے بلکہ ہر وہ شخص جو با خبر ہو اور ظلم کو مومن سے دور کر سکتا ہو تو اس پر مدد کرنا واجب ہے اور اگر مظلوم خود ہی مدد طلب کرے تو اس کی مدد کرنا سخت ضروری ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔

من سمع رجلا ینادی یا للمسلمین فلم یجبہ فلیس بمسلم

(جہاد وسائل ب ۵۹ ص ۱۰۸)

اگر کوئی شخص کسی کی یہ صدا سنے کہ اے مسلمانوں میری مدد کو پہنچو پس وہ اس کی فریاد رسی اور مدد نہ کرے تو وہ مسلمان نہیں اور امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں۔

ایما رجل سئلہ اخوہ المومن حاجة فمنعہ ا یاھا وھو یقدر علی قضائھا الا سلط الله علیہ شجا عا فی قبرہ تنھشہ (مستدرک)

اگر کوئی شخص اپنے دینی مسلمان بھائی سے مدد طلب کرے اور وہ قدرت رکھتے ہوئے اس کی حاجت پوری نہ کرے تو خداوند عالم اس کی قبر میں اس پر (دوزخ کے سانپوں میں سے ) ایک نہایت بڑے سانپ کو مسلط کر دیتا ہے تاکہ وہ اسے ڈستا رہے۔

اور دوسری حدیث میں ہے کہ وہ شخص قیامت تک اسی عذاب میں مبتلا رہے گا اگرچہ اسے بخش دیا گیا ہو، اس کے علاوہ آپ فرماتے ہیں۔

لم یدع رجل معونة اخیہ المسلم حتی یسعی فیھا و یوا سیہ الا ابتلی بمعونة من یا ثم ولا یوجر (کاف ج ۲ ص ۱۶۶)

کوئی اپنے مسلمان بھائی کی مدد اور دل جوئی کو ترک نہیں کر سکتا مگر یہ کہ اس کی مدد اور دل جوئی کرنے میں کسی قسم کا فائدہ نہ ہو (بلکہ الٹانقصان ہو) یعنی مدد اور دل جوئی کرنا اس کے لئے گناہ کا باعث ہو۔

اس بارے میں کچھ روایات وارد ہوئی ہیں حضرت امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں۔

والذنوب التی تنزل البلاء ترک اعانة الملھوف (معانی الاخبار ۲۷۱)

وہ گناہ کے جس کے سبب بلائیں نازل ہوتی ہیں۔ وہ مجبور لوگوں کی فریاد کو نہ پہنچنا ہے۔ اور خدا سے مناجات کرتے ہوئے آپ نے فرمایا۔

اللھم انی اعتذرا الیک من مظلوم ظلم بہ حضرتی فلم انصرہ او نخذل ملھوفا

(دعاء ۳۸ صحیفہ سجادیہ)

پروردگار! میں تجھ سے معافی مانگتا ہوں کہ میرے سامنے کسی مظلوم پر ظلم ہو اور میں اس کی مدد نہ کروں خدایا کسی مجبور و مصیبت زدہ کی مدد نہ کرنے پہ میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں۔ وہ روایات جو اس بارے میں وارد ہوئی ہیں بہت زیادہ ہیں۔ لیکن اتنی ہی مقدار کافی ہے۔

مظلوم کی مدد کرنا صرف مومن کے ساتھ مخصوص نہیں

مظلوم کی مدد کرنا واجب ہے۔ اس سے مراد صرف مومن نہیں بلکہ اس مقام پر آیات و روایات کے اطلاق کا تقاضہ اور نہی عن المنکر کے واجب ہونے اور مظلوم کی مدد کرنے کا وجوب اس وقت ہے جبکہ وہ قدرت رکھتا ہو اگرچہ وہ مظلوم شیعہ نہ ہو اور مسلمانوں کے دوسرے فرقوں سے تعلق رکھتا ہو۔ بلکہ اگر کسی کافر غیر حربی اور حیوان پر بھی ظلم ہو رہا ہو تو اسے نہی عن المنکر کے قانون کے تحت روکنا واجب اور اس ظلم کا خاتمہ ضروری ہے۔ منتھی الامال میں لکھا ہے جس سال منصور دوانیقی مکہ معظمہ گیا ہو ا تھا تو ایک روز بہت ہی قیمتی ہیرا بیچنے کے لئے اس کے سامنے لایا گیا۔ منصور تھوڑی دیر تک ہیرے کو دیکھتا رہا اور اس کے بعد کہا اس گوہر کا تعلق ہشام بن عبدالملک مروان سے ہے اور اس ہیرے کو مجھ تک پہنچنا چاہیئے تھا۔ پس محمد نامی اس کا بیٹا زندہ ہے اور یقینا اسی نے ہیرا بیچنے کا ارادہ کیا ہے۔ اس کے بعد اس نے پہرہ دار ربیع سے کہا کل صبح نماز کے بعد مسجد الحرام کے تمام دروازوں کو بند کر دینے کا حکم دو اور پھر اس کے بعد صرف ایک دروازے کو کھولو اور ایک ایک کر کے مردوں کو جانے کی اجازت دو اور جب محمد بن ہشام کو پہچان لو تو اس کو پکڑ کر میرے پاس لے آؤ۔

دوسرے دن جب صبح کی نماز کے بعد تمام دروازے بند کردیئے گئے اور اعلان کیا گیا کہ تمام لوگ ایک ایک کر کے فلاں دروازے سے باہر جائیں تو محمد بن ہشام سمجھ گیا کہ یہ سارا چکر اس کو گرفتار کرنے کے لئے ہے تو وہ وحشت زدہ ہو گیا اور چاروں طرف حیران پریشان ہو کر دیکھنے لگا۔ اور اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے اسی اثناء میں محمد بن زید بن علی بن الحسین علیہ السلام (جو سادات دستغیب اور سادات دشتکی کے جد ہیں) اس کے پاس پہنچے اور اس سے فرمایا کہ تم کون ہو اور کیوں اس طرح پریشان کھڑے ہو اس نے کہااگر میں اپنا تعارف کراؤں تو کیا میری جان کو امان ہوگی انہوں نے فرمایا ہاں میں عہد کرتا ہوں کہ تمہیں اس خطرے سے نجات دلاؤں گا اس نے کہا میں ہشام بن عبدالملک کا بیٹا ہوں اب آپ بھی اپنا تعارف کرائیے تاکہ میں آپ کو پہچان سکوں آپ نے فرمایا میں محمد بن زید بن علی بن الحسین ہوں بے شک تمہارے باپ مروان نے میرے والد زید کو شہید کیا لیکن اے میرے چچا کے بیٹے اب تم اپنی جان کی طرف سے اطمینان رکھو کیونکہ تم میرے والد کے قاتل نہیں ہو اور تمہیں قتل کرنا میرے والد کے ناحق خون کی تلافی نہیں کر سکتا اور اس وقت جیسے بھی ممکن ہو میں تمہیں اس خطرے سے نجات دلاؤں گا اور میری نظر میں اس مسئلے کا ایک حل ہے۔ اور میں چاہتا ہوں اس پر عمل کروں اس شرط کے ساتھ کے تم میرا ساتھ دو گے اور خوف و ڈر کو اپنے پاس بھٹکنے نہ دو گے۔ پس اسے یہ حکم دینے کے بعد آپ نے اپنے جسم سے عبا اتاری اور اسے محمد کے سر اور چہرے پر ڈال دیا اور اسے اپنے ساتھ کھینچتے ہوئے پے درپے تھپڑ مارتے ہوئے لے جا رہے تھے اور جب مسجد کے دروازے پر پہرہ دار ربیع کے پاس پہنچے تو با آواز بلند اس سے مخاطب ہو کر کہا یہ خبیث مرد کوفہ کا رہنے والا شتر بان ہے اور اس نے مجھے اپنا اونٹ کرایہ پہ دیا کہ اس پر آنا جانا میرے اختیار میں تھا لیکن بعد میں یہ بھاگ گیا اور کسی دوسرے آدمی کو اونٹ کرایہ پر دے دیا اور اس سلسلے میں میرے پاس دو عادل گواہ بھی ہیں ابھی تم اپنے ملازموں کو میرے ساتھ بھیجو تاکہ اسے قاضی کے پاس لے جاؤں۔ ربیع نے دو پہرہ داروں کو محمد بن زید کے ہمراہ کردیا وہ سب ساتھ مسجد سے باہر آئے اور راستے میں انہوں نے محمد بن ہشام کی طرف رخ کر لیا اور کہا اے خبیث اگر اب بھی تم میرا حق ادا کرنے پر تیار ہوجاؤ تو میں پہرہ داروں اور قاضی کو زیادہ زحمت نہ دوں۔ محمد بن ہشام جو اچھی طرح متوجہ تھا کہنے لگا یا بن رسول الله میں آپ کی اطاعت کروں گا پس محمد بن زید نے نگہبانوں سے فرمایا کیونکہ اس نے عہد کر لیا ہے کہ میرا حق ادا کرے گا اس لئے اب تم لوگ زیادہ زحمت نہ اٹھاؤ جب مامورین واپس چلے گئے تو محمد بن ہشام جو کہ بہت آسانی سے موت کے خطرے سے نکل آیا تھا۔ محمد بن زید علیہ السلام کے سرو چہرے کو بوسہ دیا اور کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں خداوند بہتر جانتا تھا اسی لئے رسالت کو آپ کے خاندان میں قرار دیا پس اس کے بعد ایک قیمتی ہیرا اپنی جیب سے نکالا اور کہا یہ میری طرف سے تحفہ قبول کر کے مجھے افتخار کا موقعہ دیں۔ محمد بن زید علیہ السلام نے فرمایا میں اس خاندان میں سے ہوں جو نیک کام کے عوض کوئی چیز نہیں لیتا اور جب میں نے تمہارے بارے میں اپنے والد کے خون کو درگزر کر دیا تو اب اس ہیرے کو کیونکر لوں۔

عابد زمین میں دھنس جاتا ہے

شیخ طوسی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ بنی اسرائیل کا ایک بوڑھا عابد نماز میں مشغول تھا کہ اس نے دیکھا کہ دو بچے ایک مرغے کو پکڑ کر اس کے پر نوچ رہے ہیں اور وہ مرغا چیخ و پکار کر رہا ہے۔ لیکن وہ عابد اسی طرح نماز میں مصروف رہا اور اس حیوان کو نجات نہیں دلائی اور بچوں سے اسے نہیں چھڑایا۔ پس خداوند عالم نے زمین کو حکم دیا کہ اس عابد کو نگل لے۔ اور زمین اسے سب سے نچلے حصے میں لے گئی۔

وہ ثواب جو مومن کی مدد کرنے سے دنیا اور آخرت میں حاصل ہوتے ہیں

وہ روایات جو مظلوموں کی مدد کرنے اور کلی طور پر مومنین کی حاجتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنے کے بارے میں وارد ہوئی ہیں بہت زیادہ ہیں اور ان کی زیادتی کے باعث کچھ کا یہاں ذکر کیاجائے گا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

من اغاث اخاہ المومن اللھفان عند جھدہ فنفس کرتبہ واعانہ علی نجاح حاجتہ کتب الله عزّو جلّ لہ بذالک ثنتین و سبعین رحمة من الله یعجل لہ منھا واحدة یصلح بھا امر معیشتہ وید خر لہ احدی وسبعین رحمة لا فزاع یوم القیامة واحوالہ (وسائل کتاب الامر بالمعروف ب ۲۹ ج ۱۱ ص ۵۸۶)

جو کوئی اپنے مومن بھائی کی مجبوری اور پریشانی میں فریاد رسی کرے اور اس کے غم کو دور کرے اور اس کی حاجتوں کو پورا کرنے میں اس کی مدد کرے تو اس کے اس عمل کی وجہ سے خدا کی طرف سے بہتر رحمتیں اس کے لئے واجب ہو جاتی ہیں کہ ان میں سے ایک رحمت اسے دنیا میں دے دی جاتی ہے تاکہ اس کے دنیا کے مسائل کی اصلاحی ہو اور اکہتر رحمتیں اس کے لئے آخرت کے خوف و پریشانی کے لئے ذخیرہ کر دیتا ہے۔

اس کے علاوہ فرماتے ہیں۔

من سعی فی حاجة اخیہ المسلم فا جتھد فیھا فاجری الله علی یدیہ قضا ھا کتب الله عزّو جلّ لہ حجة و عمرة و اعتکاف سھرین فی المسجد الحرام و صیامھما وان اجتھد ولم یجر الله قضا ھا علی یدیہ کتب الله لہ حجة و عمرة

(الامر بالمعروف ب ۴۸ ج ۱۱ ص ۵۸۵)

اگر کوئی شخص کسی مومن کی حاجت کو پورا کرنے کی کوشش کرے یہاں تک کہ وہ حاجت اس کے ہاتھوں سے پوری ہو جائے تو خداوند عالم اس کے نامہ اعمال میں حج و عمرہ اور دو ماہ مسجدالحرام میں اعتکاف اور دو ماہ روزے کا ثواب لکھتا ہے اور اگر وہ حاجت اس کے ذریعے پوری نہ ہو تو ایک حج اور عمرہ کا ثواب لکھا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ آپ فرماتے ہیں خدا تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام پر وحی نازل کی اور فرمایا کہ میرے بندوں میں سے ایک بندے کی ایک نیکی مجھ تک پہنچے گی اور میں اسے جنت میں داخل کروں گا۔ داؤد علیہ السلام نے کہا اے خداوند وہ کونسی نیکی ہے فرمایا مومن سے اس کے غم اور مصیبتوں کو دور کرنا اگرچہ وہ ایک کھجور کے برابر ہو۔ داؤد علیہ السلام نے کہا خدایا تیری ذات ہی اس بات کی سزا وار ہے کہ جس نے تیری معرفت حاصل کر لی اسے چاہیئے کہ تجھ سے نا امید نہ ہو۔

کتاب فقیہ میں میمون بن مہران سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا میں امام حسن علیہ السلام کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اسی اثناء میں ایک شخص آیا اور کہا اے فرزند رسول میں فلاں آدمی کا مقروض ہوں اور اب وہ مجھے قید کر دینا چاہتا ہے امام نے فرمایا میرے پاس مال موجود نہیں ہے کہ تمہارا قرض ادا کر سکوں میں نے کہا آپ اس سلسلے میں اس سے گفتگو کیجئے شاید وہ مجھے قید نہ کرے امام نے اپنے جوتوں کو پہنا تو میں نے کہا اے فرزند رسول کیا آپ بھول گئے کہ آپ اعتکاف میں ہیں اور مسجد سے باہر نہیں جا سکتے امام نے فرمایا میں نے فراموش نہیں کیا لیکن میں نے اپنے والد سے سنا ہے کہ میرے جد رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کی حاجت کو پورا کرنے کی کوشش کرے تو گویا اس نے نو ہزار سال تک دن میں روزہ رکھ کر اور راتوں کو جاگ کر خدا کی عبادت کی ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کا خط اھواز کے حاکم کے نام

جس وقت نجاشی اھواز کا حاکم بنا تو اس کے ملازموں میں سے ایک نے امام صادق علیہ السلام سے عرض کی کہ نجاشی کے حساب و کتاب میں میرے ذمہ کچھ حساب ہے۔ اور وہ مرد مومن ہے اور آپ کا فرمانبردار ہے اور اگر آپ بہتر سمجھیں تو میری خاطر اسے ایک خط لکھیں۔ امام نے یہ تحریر فرمایا۔

(۱)ٰ بسم الله الرحمٰن الرحیم سرا خاک یسر ک الله

(اصول کافی باب ادخال السرور علی المومن ص ۱۹۰)

اپنے بھائی کو خوش کرو تاکہ خدا تمہیں خوش کرے۔

وہ کہتے ہیں کہ جب میں نجاشی کے پاس گیا تو وہ اپنے سرکاری کام میں مصروف تھا جب وہ فارغ ہوا تو میں نے امام کا خط اسے دیا اور کہا یہ امام کا خط ہے۔ اس نے خط کو چوم کر اپنی دونوں آنکھوں سے لگایا اور کہا کیا کام ہے۔ میں نے کہا آپ کے حساب میں میرے ذمے کچھ رقم ہے نجاشی نے کہا کتنی رقم ہے ۔ میں نے کہا دس ہزار درہم نجاشی نے اپنی منشی کو طلب کیا اور اسے حکم دیا کہ اس شخص کی طرف سے اس کی رقم ادا کرو اور اس کے نام کا حساب رجسٹر سے ختم کر دیا جائے اور پھر حکم دیا کہ آئندہ سال کے لئے بھی اس کے لئے اتنی ہی رقم لکھ دو اس کے بعد اس نے کہا کیا میں نے تمہیں خوش کر دیا اس نے جواب دیا جی ہاں اس کے بعد نجاشی نے سواری کے لئے ایک گھوڑا ایک کنیز اور ایک غلام اور ایک جوڑا لباس اسے دینے کا حکم دیا اور ہر چیز دینے کے بعد کہتا کیا میں نے تمہیں خوش کر دیا وہ جواب دیتا تھا جی ہاں میں آپ پر قربان جاؤں اور جس قدر کہتا تھا جی ہاں اسے اتنا ہی زیادہ دیتا تھا جب یہ چیزیں دے چکا تو اس کے بعد اس سے کہا اس کمرے کا پورا قالین جس پر میں بیٹھا ہوں اپنے ساتھ لے جاؤ کیونکہ تم نے میرے آقا و مولا کا خط اسی قالین پر مجھے دیا ہے اور اس کے علاوہ کوئی بھی حاجت ہو تو بیان کرو۔ اس آدمی نے شکریہ ادا کیا اور وہاں سے روانہ ہوا اور جب امام کی خدمت میں حاضر ہوا تو تمام باتیں امام کو بتائیں امام نجاشی کے اس عمل سے بہت خوش ہوئے اس نے امام سے کہا اے فرزند رسول آپ میرے ساتھ نجاشی کے اس عمل سے خوش ہیں۔ امام نے فرمایا ہاں خدا کی قسم اس نے خدا اور اس کے رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم کوبھی خوش کیا۔

علی کے والد یقطین سے نقل کیا گیا ہے کہ اھواز میں یحیٰی بن خالد کے منشیوں میں سے ایک منشی ہمارا والی مقرر ہوا میرے اوپر کافی زیادہ ٹیکس تھا جس کے ادا کرنے سے میں معذور تھا کیونکہ ٹیکس کی ادائیگی کی صورت میں میری تمام جائیداد اور مال میرے ہاتھوں سے چلا جاتا لوگ کہتے تھے کہ وہ امامت کا قائل اور شیعوں میں سے ہے میں ڈرا کہ کہیں میں اس سے ملاقات کروں اور وہ شیعہ نہ ہو میرے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ اھواز سے مکہ کی طرف فرار اختیار کروں پس حج سے فارغ ہونے کے بعد میں نے مدینہ جانے کا ارادہ کیا اور جب میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے عرض کیا۔ اے میرے آقا ہمارے اوپر فلاں شخص والی مقرر ہوا ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ وہ آپ کے دوستوں میں سے ہے میں اس خوف کی بنا پر کہ شاید وہ شیعہ نہ ہو اور اس کے پاس جانے سے میرا تمام مال میرے ہاتھوں سے چلا جائے میں نے خدا کی طرف اور آپ کی طرف فرار کیا۔

امام نے فرمایا اب تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں اور ایک چھوٹا سا رقعہ لکھا۔

بسم الله الرحمن الرحیم ان الله فی ظل عرشہ ظلا لا لا یملکھاالا من نفس عن اخیہ المومن کربة واعانة بنفسہ او صنع الیہ معروفا ولو بشق تمرو ھذا اخوک والسلام (از کتاب کلمہ طیبہ)

الله کے عرش کے سائے میں بہت سے سائبان ہیں کہ جن کا مالک صرف وہی شخص ہوگا جو اپنے بھائی کو غم سے نجات دلائے اسے کسی قسم کی سہولت فراہم کرنے یا اس سے کوئی نیکی کرے اگرچہ آدھا خرمہ ہی ہو۔ اور یہ شخص تمہارا بھائی ہے۔

امام نے اس رقعہ پر مہر لگائی اور فرمایا یہ اسے دینا، جب میں اپنے شہر واپس آیا را ت کو اس کے گھر گیا اور اجازت طلب کی اور کہا میں امام جعفر صادق علیہ السلام کا بھیجا ہوا ہوں پس میں نے دیکھا کہ وہ فوراً ننگے پاؤں باہر نکل آیا اور جیسے ہی اس کی نظریں مجھ پر پڑیں آگے بڑھ کر مجھے سلام کیا۔ اور میری پیشانی چوم کر کہا جناب کیا آپ کو میرے مولانے بھیجا ہے میں نے کہا جی ہاں اس نے کہا اگر یہ سچ ہے تو آپ کے لئے میری جان بھی قربان ہے۔ پس اس نے میرے ہاتھوں کو تھام لیا اور دریافت کیاجب آپ میرے مولا سے رخصت ہوئے تو ان کا کیا حال تھا۔ میں نے کہا اچھے تھے اس نے کہا خدا کی قسم میں نے کہا خدا کی قسم اس نے تین مرتبہ یہ الفاظ مجھ سے کہے۔ پس میں نے امام کا رقعہ اسے دیا اس نے پڑھ کر چوما اور اپنی آنکھوں سے لگایا۔ اس کے بعد اس نے کہا۔ اے بھائی آپ کو مجھ سے کیا کام ہے بتائیں میں نے کہا سرکاری حساب میں میرے ذمے کچھ ہزار درہم ہیں اور ان کے ادا کرتے کرتے میری جان نکل جائے گی۔ یہ سن کر اس نے سرکاری فائل طلب کی اور جو کچھ میرے ذمے تھا اسے معاف کر دیا اور مجھے ادائیگی کی رسید دے دی اس کے بعد اس نے اپنے مال کے صندوق منگوائے اور اس میں سے آدھا مال مجھے دیا پھر اپنے گھوڑے منگوائے اس میں سے ایک مجھے دیتا تھا اور ایک اپنے لئے رکھتا تھا پھر اپنے کپڑے منگوائے ایک جوڑا خود لیتا اور دوسرا مجھے دے دیتا۔ یہاں تک کہ اپنے تمام مال میں سے آدھا مجھے عطا کیا اور مسلسل یہ کہتا جاتا تھا اے بھائی آیا میں نے تمہیں خوش کر دیا۔ میں نے کہا جی ہاں خدا کی قسم۔

جب حج کا زمانہ آیا تو میں نے کہا میں اس کے احسان و مہربانی کی ہرگز تلافی نہیں کر سکتا سوائے اس چیز کے جو خدا اور اس کے رسول کے نزدیک سب سے بہتر ہو۔ اس کے بعد حج کے لئے روانہ ہوا تاکہ اس کے لئے دعا کروں اور اپنے امام اور مولا کی خدمت میں جانے کا ارادہ کیا تاکہ ان کے سامنے اس کی تعریف کروں اور امام سے اس کے لئے دعا کراؤں۔ مکہ کے بعد جب میں امام کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہیں بہت خوش پایا امام نے فرمایا اے یقطین وہ آدمی تمہارے ساتھ کیسا پیش آیا جب میں نے وہ تمام باتیں امام کے گوش گزار کیں تو امام کا چہرہ خوشی سے دمکنے لگا۔ اس کے بعد میں نے کہا اے میرے مولا کیا اس کے اس عمل سے آپ خوش ہیں ( تاکہ خدا اسے خوش کرے)امام نے فرمایا ہاں خدا کی قسم اس نے میرے آباواجداد کو خوش کیا خدا کی قسم اس نے امیرالمومنین کو رسول خدا صلوات الله علیہم کو اور عرش پر خدا کو خوش کیا۔

 

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اور علی بن یقطین

ابراہیم جمال نے علی بن یقطین (ہارون رشید کے وزیر) سے ملاقات کرنا چاہی لیکن اسے اجازت نہیں ملی اور اسے منع کر دیا گیا اسی سال علی بن یقطین حج سے مشرف ہوئے اور مدینہ گئے اور جب امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کی زیارت کے لئے اجازت چاہی تو امام نے انہیں اجازت نہیں دی اور دوسرے دن انہوں نے امام سے ملاقات کی اور عرض کیا اے میرے مولیٰ میرا ایساکونسا گناہ ہے کہ کل آپ نے مجھے ملنے کی اجازت نہیں دی تھی امام نے فرمایا کیونکہ تم نے اپنے بھائی کو اجازت نہیں دی اسی لئے خداوند تمہاری کوشش کو قبول نہیں کرے گا۔ جب تک ابراہیم جمال تمہیں معاف نہ کردے انہوں نے عرض کیا میرے مولا اس وقت ابراہیم جمال یہاں کہاں وہ تو کوفہ میں ہے اور میں مدینہ میں اسے اپنے آپ سے کیسے راضی و خوشنود کر سکتا ہوں۔

امام نے فرمایا جب رات ہوجائے تو اکیلے بقیع میں جاؤ اس طرح کہ تمہارا کوئی دوست سمجھ نہ سکے وہاں ایک (اچھی نسل کا) گھوڑا ہوگا اس پر سوار ہو جانا علی بن یقطین نے ایسا ہی کیا تھوڑی ہی دیر میں انہوں نے اپنے آپ کو ابراہیم جمال کے گھر کے دروازے پر پایا دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا میں علی بن یقطین ہوں ۔ ابراہیم نے گھر کے اندر ہی سے کہا علی بن یقطین کا مجھ سے کیا تعلق ہے۔ علی نے فریاد کی مجھے تم سے بہت ضروری کام ہے اور اسے قسم دی کہ مجھے گھر میں داخل ہونے کی اجازت دے اور جب وہ داخل ہوئے تو کہا اے ابراہیم میرے مولیٰ نے مجھے اس وقت تک قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے جب تک کہ تم مجھے معاف نہ کر دو ابراہیم نے کہا خدا تمہیں بخشے علی بن یقطین نے اسے قسم دی کہ اپنے پیروں کو میرے چہرے پر رکھو۔ ابراہیم نے قبول نہ کیا علی نے دو مرتبہ اسے قسم دی ابراہیم نے ایسا ہی کیا تو علی بن یقطین نے کہا خدا یا گواہ رہنا۔ بعد میں گھوڑے پر سوار ہوئے اور اپنے آپ کو امام کے دروازے پر پایا۔ دروازہ کھٹکھٹایا امام نے انہیں داخل ہونے کی اجازت دے دی۔

اس حدیث سے برادران ایمانی کے حقوق کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ با وجودیکہ علی بن یقطین امام کے خاص صحابیوں میں سے تھے اور امام ہی کے حکم ہی سے انہوں نے وزارت کے عہدہ کو قبول کیا اور ان پر امام کی اس قدر عنایت تھی کہ عید قربان کے دن امام نے فرمایا کہ علی بن یقطین کے سوا اس دن میرے دل میں کسی کا خیال نہ آیا اور میں نے اس کے لئے دعا کی اس مقام و مرتبے کے باوجود امام علی بن یقطین سے اس وقت تک راضی نہ ہوئے جب تک اسے اپنے آپ سے راضی نہ کر لیا چنانچہ ہمیں بھی اپنی روزمرہ کی زندگی میں بڑی احتیاط سے کام لینا چاہیئے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم سے کسی برادر مومن کی حق تلفی ہو اور یہ بات خدا اور رسول کی ناراضگی کا سبب بنے۔

خود اس شخص کی حاجت بھی پوری ہو جاتی ہے

واضح رہے کہ اگر کوئی شخص کسی مظلوم پر سے ظلم دور کرنے یا مومنوں کی حاجت پوری کرنے ی کوشش کرتا ہے تو آخرت کے ثواب کے علاوہ اس دنیا میں بھی اس کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کی اپنی حاجتیں بھی پوری ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں بہت سی روایات اور واقعات ملتے ہیں یہاں صرف ایک واقعے کا ذکر کیا جاتا ہے جو حدیث پر بھی مشتمل ہے۔

کتاب محاسن کے مصنف عالم جلیل احمد بن محمد بن خالد البرقی جو حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے زمانے میں اور غیبت صغریٰ میں بھی موجو د تھے فرماتے ہیں کہ میں شہر رے پہنچا اور کوتکین کے منشی ابوالحسن مادرانی کا مہمان ہوا اس کی طرف سے میرے لئے سالانہ وظیفہ مقرر تھا جو میں کاشان میں واقع ایک علاقے کے ٹیکس سے محسوب کر لیتا تھا لیکن اچانک مجھ سے ٹیکس کا مطالبہ کیا گیا اور وہ اپنے کچھ کاموں کی وجہ سے میری طرف سے غافل ہو گیا ایک روز جب کہ میں سخت فکر و پریشانی میں مبتلا تھا کہ یکایک میرے پاس ایک پاکیزہ بزرگ آدمی آیا جو بہت کمزور تھا اور لگتا تھا کہ اس کے بدن میں خون بالکل نہیں یعنی وہ زندوں کی شکل میں ایک مردہ تھا اس نے مجھ سے کہا اے ابو عبدالله میرے اور تمہارے درمیان وجہ اشتراک دین کی پاکیزگی اور آئمہ طاہرین کی دوستی ہے۔ خدا کی خوشنودی اور ہم سادات کی دوستی کی خاطر میرے لئے انہی ایام میں کچھ نہ کچھ کرو میں نے دریافت کیا آخر آپ کی حاجت کیا ہے۔ وہ بولا لوگوں نے میرے متعلق یہ مشہور کر دیا ہے کہ میں نے کوتکین کے خلاف سلطان کو خفیہ طور سے کچھ لکھ دیا ہے اسی لیے انہوں نے میرا مال ضبط کر لیا۔ میں نے اس سے وعدہ کیا کہ میں آپ کی حاجت پوری کروادوں گا اور وہ چلا گیا میں نے کچھ سوچ کر اپنے دل میں کہا کہ اگر اپنی اور اسکی حاجت بیک وقت طلب کرتاہوں تو دونوں پوری نہیں ہو سکتیں اور اگر اس کی حاجت طلب کرتا ہوں تو اپنی حاجت پوری نہیں ہوتی اس کے بعد میں اپنی لائبریری میں گیا تو مجھے حضرت صادق علیہ السلام کی ایک حدیث ملی کہ اگر کوئی خلوص دل سے اپنے مومن بھائی کی حاجت پوری کرنے کی کوشش کرے تو خدا اس کے ذریعے اس کی حاجت پوری کرتا ہے اور اگر خود اس کی بھی کوئی حاجت ہو تو وہ بھی پوری ہو جاتی ہے۔ بس میں اسی وقت اٹھ کھڑا ہوا اور ابوالحسن مادرانی کے دروازے پر جا پہنچا اور جب میں اجازت لے کر اس کے پاس آیا تو دیکھا کہ وہ اپنی جگہ کرسی پر تکیہ لگائے بیٹھا ہے اور اس کے ہاتھ میں ایک چھڑی ہے۔ میں نے سلام کیا اس نے سلام کا جواب دیا اور کہا بیٹھو پس خدا نے میری زبان پر یہ آیت جاری کر دی جسے میں نے بلند آواز سے پڑھا۔

وا بتغ فیما اتا ک الله الدار ا لاخرة ولا تنس نصیبک من الدنیا واحسن کما احسن الله الیک ولا تبغ الفساد فی الارض ان الله لایحب المفسدین

(سورئہ قصص آیت ۷۷)

یعنی خدا نے تمہیں جو مال و جاہ اعضاء و جوارح کی نعمت عطا کی ہے ان سے سعادت اخروی حاصل کرو اور دنیا سے بھی اپنے حصہ (یعنی زندگی، صحت، فراغت، تونگری اور جوانی جسے تم اچھے کام میں صرف کرو) سے غافل نہ ہو اور اسی طرح نیکی کرو جس طرح خدا نے تمہارے ساتھ نیکی کی ہے اور زمین پر فساد نہ کرو یقینا خدا فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

ابوالحسن نے کہا تمہارا یہ آیت پڑھنا اس بات کی دلیل ہے کہ تمہیں کوئی حاجت ہے۔ تو کھل کر بیان کرو میں نے کہا لوگوں نے فلاں شخص کے خلاف اس طرح کی باتیں کی ہیں اس نے پوچھا کیا وہ شیعہ ہے جو تم اسے جانتے ہو میں نے کہا ہاں اس پر وہ کرسی سے اتر آیا اور غلام سے کہا رجسٹر اٹھا لاؤ وہ رجسٹر لایا جس میں اس شخص کا مال درج تھا اور وہ بہت زیادہ تھا پھر اس نے حکم دیا کہ اسے سب رقم لوٹا دی جائے اور اسے ایک لباس اور خچر دیا جائے اور اسے اس کے اہل و عیال کے پاس عزت و احترام کے ساتھ واپس بھیج دیا جائے پھر کہا اے ابو عبدالله تم نے نصیحت کرنے میں کوتاہی نہیں کی اور میرے کام کی اصلاح کر دی پھر اس نے ایک پرچہ اٹھا کر اس پر لکھا احمد بن محمد بن خالد البرقی کو دے دیا جائے اور یہ کاشان میں اس کی کاشت کے محاصل میں شمار کیا جائے۔پھر کچھ دیر رکا اور کہنے لگا اے ابو عبدالله خدا تمہیں اس کی جزا دے کیونکہ تم نے اس ظلم کو جو اس بے چارے پر ہوا تھا۔ اس سلسلے میں میری ہدایت کی پھر وہ دوسرا رقعہ لکھا کہ اسے دس ہزار درہم دئیے جائیں کیونکہ اس نے ہمیں نیکی کی راہ دکھلائی احمد نے کہا میں نے اس کے ہاتھ چومنا چاہے تو وہ کہنے لگا میرے عمل کو ضائع نہ کرو خدا کی قسم اگر تم میرے ہاتھ چوموگے تو میں تمہارے پاوٴں چوموں گا۔ یہ بات اس کے حق میں کم تھی کیونکہ وہ آل محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی رسی تھامے ہوئے ہے۔
 

http://shiastudies.com/ur/297/%d8%b8%d8%a7%d9%84%d9%85%d9%88%da%ba-%da%a9%db%8c-%d9%85%d8%af%d8%af-%da%a9%d8%b1%d9%86%d8%a7-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d9%86-%d8%b3%db%92-%d9%85%db%8c%d9%84-%d9%85%d9%84%d8%a7%d9%be/

تبصرے
Loading...