تكامل اور قرب حاصل كرنيكے كچھ نيك اعمال

تكامل اور قرب حاصل كرنيكے كچھ نيك اعمال

 

اول: واجب نمازيںقرب الہى اور سير و سلوك معنوى كے لئے نماز ايك بہترين سبب اور عامل ہے_ امام رضا عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ ہر پرہيزگار انسان كے لئے نماز قرب الہى كا وسيلہ ہے_(457)معاويہ بن وھب نے امام جعفر صادق عليہ السلام سے پوچھا كہ بہترين وسيلہ جو بندوں كو خدا كے نزديك كرتا ہے اور خدا اسے دوست ركھتا ہے كيا ہے؟

آپ نے فرمايا: اللہ كى معرفت كے بعد ميں نماز سے بہتر كوئي اور كسى چيز كو وسيلہ نہيں پاتا كيا آپ نے نہيں ديكھا كہ اللہ تعالى كے نيك بندے حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ خدا نے مجھے جب تك زندہ ہوں نماز اور زكوة كى سفارش ہے_(458)

امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ اللہ تعالى كے نزديك نماز محبوب ترين عمل ہے_ انبياء كى آخرى وصيت نماز ہے_ كتنا ہى اچھا ہے كہ انسان غسل كرے اور اچھى طرح وضوء كرے اس وقت ايك ايسے گوشہ ميں بيٹھ جائے كہ اسے كوئي نہ ديكھے اور ركوع اور سجود ميں مشغول ہوجائے جب انسان سجدے ميں جائے اور سجدے كو طول دے تو شيطن داد اور فرياد كرتا ہے كہ اس بندے نے خدا كى اطاعت كى اور سجدہ كيا اور ميں نے سجدے كرنے سے انكار كر ديا تھا_(459)

امام رضا عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ ايك بندہ كى خدا كے نزديك ترين حالت اس وقت ہوتى ہے جب وہ سجدے ميں ہوتا اس واسطے كہ خداوند عالم فرماتا ہے كہ واسجد و اقترب_(460)

حضرت صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘جب انسان نماز كے لئے كھڑا ہوتا ہے تو آسمان سے اس پر اللہ تعالى كى رحمت نازل ہوتى ہے اور اس كے ارد گرد ملائكہ گھيرا كر ليتے ہيں ايك فرشتہ كہتا ہے كہ اگر يہ نماز كى ارزش اور قيمت كو جانتا تو كبھى نماز سے روگردانى نہ كرتا_(461)

رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے ‘ جب مومن بندہ نماز كے لئے كھڑا ہوتا ہے تو خداوند عالم نماز سے فارغ ہونے تك اس كى طرف نگاہ كرتا ہے اور آسمان سے اللہ تعالى كى رحمت اسے گھير ليتى ہے اور فرشتے اس كے اردگرد گھيرا ڈال ديتے ہيں خداوند اس پر ايك فرشتے كو معين كر ديتا ہے جو اسے كہتا ہے كہ اے نماز پڑھتے والے اگر تو جان ليتا كہ تو كس كى توجہ كا مركز ہے اور كس سے مناجات كر رہا ہے تو پھر تو كسى دوسرى چيز كى طرف ہرگز توجہ نہ كرتا اور كبھى يہاں سے باہر نہ جاتا_(462)

نماز ميں حضور قلب نماز ايك ملكوتى اور معنوى مركب ہے كہ جس كى ہر جزو ميں ايك مصلحت اور راز مخفى ہے_ اللہ تعالى سے راز و نياز انس محبت كا وسيلہ اور ارتباط ہے_ قرب الہى اور تكامل كا بہترين وسيلہ ہے_ مومن كے لئے معراج ہے برائيوں اور منكرات سے روكنى والى ہے_ معنويت اور روحانيت كا صاف اور شفاف چشمہ ہے جو بھى دن رات ميں پانچ دفعہ اس ميں جائے نفسانى آلودگى اور گندگى سے پاك ہو جاتا ہے اللہ تعالى كى بڑى امانت اور اعمال كے قبول ہونے كا معيار اور ترازو ہے_

نماز آسمانى راز و اسرار سے پر ايك طرح كا مركب ہے ليكن اس كى شرط يہ ہے كہ اس ميں روح اور زندگى ہو_ نماز كى روح حضور قلب اور معبود كى طرف توجہہ اور اس كے سامنے خضوع اور خشوع ہے_ ركوع اور سجود قرات اور ذكر تشہد اور سلام نماز كى شكل اور صورت كو تشكيل ديتے ہيں_ اللہ تعالى كى طرف توجہ اور حضور قلب نماز كے لئے روح كى مانند ہے_ جيسے جسم روح كے بغير مردہ اور بے خاصيت ہے نماز بھى بغير حضور قلب اور توجہ كے گرچہ تكليف شرعى تو ساقط ہو جاتى ہے ليكن نماز پڑھنے والے كو اعلى مراتب تك نہيں پہنچاتى نماز كى سب سے زيادہ غرض اور غايت اللہ تعالى كى ياد اور ذكر كرنا ہوتا ہے_ خداوند عالم پيغمبر عليہ السلام سے فرماتا ہے كہ ‘ نماز كو ميرى ياد كے لئے برپا كر_( 464)

قرآن مجيد ميں نماز جمعہ كو بطور ذكر كہا گيا ہے يعنى ‘ اے وہ لوگو جو ايمان لے آئے ہو موجب نماز جمعہ كے لئے آواز دى جائي تو اللہ تعالى كے ذكر كى طرف جلدى كرو_(465)نماز كے قبول ہونے كا معيار حضور قلب كى مقدار پر قرار پاتا ہے جتنا نماز ميں حضور قلب ہوگا اتنا ہى نماز مورد قبول واقع ہوگي_ اسى لئے احاديث ميں حضور قلب كى بہت زيادہ تاكيد كى گئي ہے_ جيسے رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے ‘كبھى آدھى نماز قبول ہوتى ہے اور كبھى تيسرا حصہ اور كبھى چوتھائي اور كبھى پانچواں حصہ

اور كبھى دسواں حصہ_ بعض نمازيں پرانے كپڑے كى طرح لپيٹ كر نماز پڑھنے والے كے سرپر مار دى جاتى ہے_ تيرى نماز اتنى مقدر قبول كى جائيگى جتنى مقدار تو خدا كى طرف توجہ كرے گا_( 466) امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ جب انسان نماز كے لئے كھڑا ہوتا ہے تو خدا اس كى طرف توجہہ كرتا ہے اور اپنى توجہ كو اس سے نہيں ہٹاتا مگر جب تين دفعہ وہ خدا سے غافل ہو جائے اس وقت خداوند عالم بھى اس سے اعراض اور روگردانى كر ليتا ہے_(467)اميرالمومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ سستى اور بيہودہ حالت ميں نماز نہ پڑھو_ نماز كى حالت ميں اپنى فكر ميں نہ رہو كيونكہ تم خدا كے سامنے كھڑے ہو_ جان لو كہ نماز سے اتنى مقدار قبول ہوتى ہے جتنى مقدار تيرا دل اللہ كى طرف توجہ كرے گا_ (8 46)رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ ‘ جو بندہ نماز كى حالت ميں خدا كے علاوہ كسى كى طرف متوجہ ہو تو خدا اس سے كہتا ہے كہ اے ميرے بندے كس كا ارادہ كيا ہے اور كس كو طلب كرتے ہو؟ كيا ميرے علاوہ كسى كو خالق اور حفاظت كرنے والا ڈھونڈتے ہو؟ كيا ميرے علاوہ كسى كو بخشنے والا طلب كرتے ہو؟

جب كہ ميں كريم اور بخشنے والوں سے زيادہ كريم اور بخشنے والا ہوں اور سب سے زيادہ عطا كرنے والا ہوں ميں تمہيں اتنا ثواب دونگا كہ جسے شمار نہيں كيا سكے گا ميرى طرف توجہ كر كيونكہ ميں اور ميرے فرشتے تيرى طرف توجہ كر رہے ہيں اگر نمازى نے خدا كى طرف توجہ كى تو اس دفعہ اس كے گزرے ہوئے گناہ مٹ جاتے ہيں اور اس نے دوسرى دفعہ خدا كے علاوہ كسى طرف توجہہ كى تو خداوند عالم دوبارہ اسے سابقہ گفتگو كى طرح خطاب كرتا ہے اگر اس نے نماز كى طرف توجہ كر لى تو اس كا غفلت كرنے والا گناہ بخشنا جاتا ہے اور اس كے آثار زائل ہوجاتے ہيں اور اگر تيسرى دفعہ نماز سے توجہہ ہٹا لے خدا
پھر بھى پہلے كى طرح اسے خطاب كرتا ہے اگر اس دفعہ نماز كى توجہ كر لے تو اس دفعہ اس كا غفلت والا گناہ بخش ديا جاتا ہے اور اگر چوتھى دفعہ نماز سے توجہ ہٹا لے تو خدا اور اس كے ملائكہ اس سے توجہ ہٹا ليتے ہيں_ خدا اس سے كہتا ہے كہ تجھے اسى كى طرف چھوڑے ديا ہے كہ جس كى طرف توجہ كر رہا ہے_(469)نماز كى ارزش اور قيمت خدا كى طرف توجہ اور حضور قلب سے ہوتى ہے توجہ اور حضور قلب كى مقدار جتنا اسے باطنى صفا اور تقرب الى اللہ حاصل ہوتا ہے_ بلا وجہ انبياء عليہم السلام اور ائمہ اطہار اور اولياء كرام نماز كو اتنى اہميت نہيں ديتے تھے_ امير المومنين عليہ السلام كے حالات ميں لكھا ہے كہ جب نماز كا وقت ہوتا تھا تو آپ كے بدن پر لزرہ طارى ہوجاتا تھا اور آپكے چہرے كا رنگ بدن جاتا تھا_آپ سے تبديلى اور اضطراب كا سبب پوچھا گيا تو آپ نے جواب ميں فرمايا ‘كہ اس وقت اس امانت كے ادا كرنے كا وقت آپہنچا ہے جو آسمان اور زمين پر ڈالى گئي تھى ليكن وہ ڈرگئے تھے اور اس امانت كے اٹھانے سے انكار كر ديا تھا ليكن انسان نے اس بڑے امانت كے اٹھانے كو قبول كر ليا تھا ميرا خوف اس لئے ہے كہ آيا ميں اس امانت كو ادا كر لونگا يا نہ؟ (470)امام محمد باقر عليہ السلام اور امام جعفر صادق عليہ السلام كے احوال ميں كہا گيا ہے كہ نماز كے وقت ان كے چہرے كا رنگ زرد اور سرخ ہو جاتا تھا اور نماز كى حالت ميں اس طرح ہوتے تھے كہ گويا اس گفتگو كر رہے ہيں كہ جسے وہ ديكھ رہے ہيں_(471)امام زين العابدين كے حالات ميں لكھا ہے كہ جب آپ نماز كے لئے كھڑے ہوتے تھے تو آپ كے چہرے كا رنگ تبديل ہوجاتا تھا اور ايك حقير بندے كى طرح خدا كے سامنے كھڑے ہوتے تھے آپ كے بدن كے اعضاء خدا كے خوف سے لرزتے تھے اور آپ كى نماز ہميشہ و داعى اور آخرى نماز كى طرح ہوا كرتى تھى كہ گويا آپ اس كے بعد كوئي نماز نہيں پڑھ سكيں گے_(472)

حضرت زہرا عليہا السلام كے بارے ميں ہے كہ نماز كى حالت ميں سخت خوف كيوجہ سے آپ كى سانس ركنے لگ جاتى تھي_(473)امام حسن عليہ السلام كے حالات ميں لكھا ہے كہ نماز كى حالت ميں آپ كا بدن مبارك لرزنے لگتا تھا اور جب بہشت يا دوزخ كى ياد كرتے تو اس طرح لوٹتے پوٹتے كہ جيسے سانپ نے ڈس ليا ہو اللہ تعالى سے بہشت كى خواہش كرتے اور دوزخ سے پناہ مانگتے تھے_(474)حضرت عائشےہ رسول خدا(ص) كے بارے ميں فرماتى ہيں كہ ميں رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم سے گفتگو كر رہى ہوتى جب نماز كا وقت آيات تو آپ اس طرح منقلب ہوتے كہ گويا آپ مجھے نہيں پہچانتے اور ميں انہيں نہيں پہچانتي_(475)امام زين العابدين عليہ السلام كے بارے ميں لكھا ہے كہ آپ نماز كى حالت ميں تھے كہ آپ كے كندھے سے عبا گر گئي ليكن آپ متوجہ نہيں ہوئے جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ كے اصحاب ميں سے ايك نے عرض كى اے فرزند رسول(ص) آپ كى عباء نماز كى حالت ميں گر گئي اور آپ نے توجہ نہيں كي؟ آپ نے فرمايا كہ افسوس ہو تم پر جانتے ہو كہ ميں كس ذات كے سامنے كھڑا ہوا تھا؟ اس ذات كى توجہ نے مجھے عباء كے گرنے كى توجہ سے روكا ہوا تھا_ كيا تم نہيں جانتے كہ بندہ كى نماز اتنى مقدار قبول ہوتى ہے كہ جتنا وہ خدا كى طرف حضور قلب ركھتا ہو_ اس نے عرض كى _ اے فرزند رسو ل(ص) پس ہم تو ہلاك ہوگئے؟ آپ نے فرمايا ‘ نہيں _ اگر تم نوافل پڑھو تو خدا ان كے وسيلے سے تمہارى نماز كو پورا كر دے گا_(476)رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے بارے ميں لكھا گيا ہے كہ نماز كى حالت ميں آپ كا چہرہ متغير ہوجاتا تھا اور آپ كے سينے سے غلفے كى طرح آواز اٹھتى ہوئي سنى جاتى تھى اور جب آپ نماز كے لئے كھڑے ہوتے تو اس لباس كى طرح جو زمين پر گرا ہوا ہو حركت نہيں كيا كرتے تھے_
حضور قلب كے مراتبحضور قلب اول اللہ تعالى كى طرف توجہ كرنے كے مختلف درجات ہيں كہ ان ميں سے بعض كامل اور دوسرے بعض زيادہ كامل ہيں_ عارف انسان آہستہ آہستہ ان درجات كو طے كرے تا كہ قرب اور شہود كے اعلى درجے اور عاليتر مقام كو حاصل كر لے_ يہ ايك طويل راستہ ہے اور متعدد مقامات ركھتا ہے كہ جس كى وضاحت مجھ جيسے محروم انسان سے دور ہے دور سے ديكھتے والا جو حسرت كى آگ ميں جل رہا ہے يہ اس كى قدرت اور طاقت سے خارج ہے ليكن اجمالى طور سے بعض مراتب كى طرف اشارہ كرتا ہوں شايد كہ عارف انسان كے لئے فائدہ مند ہو_
پہلا مرتبہيوں ہے كہ نماز پڑھنے والا تمام نماز يا نماز كے بعض حصے ميں اجمالى طور سے توجہ كرے كہ خداوند عالم كے سامنے كھڑا ہوا ہے اور اس ذات كے ساتھ ہم كلام اور راز و نياز كر رہا ہے گرچہ اسے الفاظ كے معانى كى طرف توجہ نہ بھى ہو اور تفضيلى طور سے نہيں جانتا كہ وہ كيا كہہ رہا ہے_
دوسرا مرتبہقلب كے حضور اور توجہ كا يوں ہونا كہ نمازى علاوہ اس كے كہ وہ نماز كى حالت ميں اپنے آپ كو يوں جانے كہ خدا كے سامنے كھڑا اور آپ سے راز و نياز كر رہا ہے ان كلمات كے معانى كى طرف بھى توجہ كرے جو پڑھ رہا ہے اور سمجھے كہ وہ خدا سے كيا كہہ رہا ہے اور كلمات اور الفاظ كو اس طرح ادا كرے كہ گويا ان كے معانى كو اپنے دل پر خطور دے رہا ہے مثل اس ماں كے جو الفاظ كے ذريعے اپنے فرزند كو معانى كو تعليم ديتى ہے_
تيسرا مرتبہيہ ہے كہ نمازى تمام سابقہ مراتب بجا لاتے ہوئے تكبير اور تسبيح تقديس اور تحميد اور ديگر اذكار اور كلمات كى حقيقت كو خوب جانتا ہو اور ان كو علمى دليلوں كے ذريعے پہچانتا ہو اور نماز كى حالت ميں ان كى طرف متوجہ ہو اور خوف جانے كہ كيا كہہ رہا ہے اور كيا چاہتا ہے اور كس ذات سے ہم كلام ہے_
چوتھے مرتبہيہ ہے كہ نمازى ان سابقہ مرحلوں كے ساتھ كلمات اور اذكار كے معانى اور معارف كو اچھى طرح اپنى ذات كے اندر سموئے اور كامل يقين اور ايمان كے درجے پر جا پہنچے اس حالت ميں زبان دل كى پروى كرے گى اور دل چونكہ ان حقائق كا ايمان ركھتا ہے زبان كو ذكر كرنے پر آمادہ اور مجبور كرے گا_
پانچواں مرتبہيہ ہے كہ نمازى سابقہ تمام مراحل كے ساتھ كشف اور شہود اور حضور كامل تك جاپہنچے اللہ تعالى كے كمالات اور صفات كو اپنى باطنى آنكھوں سے مشاہدہ كرے اور سوائے خدا كے اور كسى چيز كو نہ ديكھے يہاں تك كہ اپنے آپ اور اذكار اور افعال اور حركات كى طرف بھى متوجہ نہ ہو خدا سے ہم كلام ہے يہاں تك كہ متكلم اور كلام سے بھى غافل ہے اپنے آپ كو بھى گم اور ختم كر چكا ہے_ اور اللہ تعالى كے جمال كے مشاہدے ميں محو اور غرق ہے_ يہ مرتبہ پھر كئي مراتب اور درجات ركھتا ہے كہ عارف انسانوں كے لحاظ سے فرق كر جاتا ہے _ يہ مرتبہ ايك عميق اور گہرا سمندر ہے بہتر يہى ہے كہ مجھ جيسا محروم انسان اس ميں وارد نہ ہو اور اس كى وضاحت ان كے اہل اور مستحق لوگوں كى طرف منتقل كردے_ اللہم ارزقنا حلاوة ذكرك و
272مشاہدة جمالك
حضور قلب اور توجہ كے اسبابجتنى مقدار حضور قلب اور توجہ كى ارزش اور قيمت زيادہ ہے اتنى مقدار يہ كام مشكل اور سخت دشوار بھى ہے _ جب انسان نماز ميں مشغول ہوتا ہے تو شيطان وسوسہ ڈالنا شروع كرديتا ہے او ردل كو دائما ادھر ادھر لے جاتا ہے اور مختلف خيالات اور افكارميں مشغول كر ديتا ہے_ اسى حالت ميں انسان حساب كرنا شروع كر ديتا ہے بقشے بناتا ہے اور گذرے ہوئے اور آئندہ كے مسائل ميں فكر كرنا شروع كر ديتا ہے_ علمى مطالب كو حل كرتا ہے اور بسا اوقات ايسے مسائل اور موضوعات كو كہ جن كو بالكل فراموش كر چكا ہے نماز كى حالت ميں ياد كرتا ہے اور اس وقت اپنے آپ ميں متوجہ ہوتا ہے كہ جب نماز ختم كر چكا ہوتا ہے اور اگر اس كے درميان تھوڑا سا نماز كى فكر ميں چلا بھى جائے تو اس سے فورا منصرف ہوجاتا ہے_بہت سى تعجب اور افسوس كا مقام ہے _ كيا كريں كہ اس سركش اور بيہودہ سوچنے والے نفس پر قابو پائيں كس طرح نماز كى حالت ميں مختلف خيالات اور افكار كو اپنے آپ سے دور كريں اور صرف خدا كى ياد ميں رہيں_ جن لوگوں نے يہ راستہ طے كر ليا ہے اور انہيں اس كى توفيق حاصل ہوئي ہے وہ ہمارى بہتر طريقے سے راہنمايى كر سكتے ہيں_ بہتر يہ تھا كہ يہ قلم اور لكھنا اس ہاتھ ميں ہوتا ليكن يہ حقير اور محروم بھى چند مطالب كى طرف اشارہ كرتا ہے جو حضور قلب اور توجہہ كے فائدہ مند ہوں گے_
1_ گوشہ نشينياگر مستحب نماز يا فرادى نماز پڑھے تو بہتر ہے كہ كسى تنہائي كے مكان كو منتخب كرے كہ ج ہاں شور و شين نہ ہو اور وہاں كوئي فوٹو و غيرہ يا كوئي ايسى چيز نہ ہو كہ جو نمازى كو اپنى طرف متوجہ كرے اور عمومى جگہ پر نماز پڑھے اور اگر گھر ميں نماز پڑھے تو
بہتر ہے كہ كسى خاص گوشے كو منتخب كر لے اور ہميشہ وہاں نماز پڑھتا رہے نماز كى حالت ميں صرف سجدہ گاہ پر ن گاہ ركھے يا اپنى آنكھوں كو بند ركھے اور ان ميں سے جو حضور قلب اور توجہہ كے لئے بہتر ہو اسے اختيار كرے اور بہتر يہ ہے كہ چھوٹے كمرے يا ديوار كے نزديك نماز پڑھے كہ ديكھنے كے لئے زيادہ جگہ نہ ہو اور اگر نماز كو جماعت كے ساتھ پڑھے تو پھر صرف سجدہ گاہ پر نگاہ كرے اور اگر پيش نماز بلند آواز سے قرات پڑھے تو اس كى قرائت كى طرف خوب توجہ كرے_
2_ ركاوٹ كا دور كرنانماز شروع كرنے سے پہلے جو حضور قلب اور توجہ كا مانع اور ركاوٹ ہے اسے دور كرے پھر نماز پڑھنے ميں مشغول ہوجائے اور اگر پيشاب اور پاخانے كا زور ہو تو پہلے اس سے فارغ ہو جائے اس كے بعد وضو كرے اور نماز ميں مشغول ہو اور اگر سخت بھوك اور پياس لگى ہوئي ہو تو پہلے كھانا اور پانى پى لے اور اس كے بعد نماز پڑھے اور اگر پيٹ كھانے سے بھرا ہوا اور نماز پڑھنے كو دل نہ چاہتا ہو تو پھر ٹھہر جائے اور صبر كرے يہاں تك كہ نماز پڑھنے كو دل چاہنے لگے_اور اگر زيادہ تھكاوٹ يا نيند كے غلبے سے نماز پڑھنے كو دل نہ چاہتا ہو_ تو پہلے اپنى تكاوٹ اور نيند كو دور كرے اس كے بعدنماز پڑھے_ اور اگر كسى مطلب كے واضح نہ ہونے يا كسى واقعہ كے رونما ہونے سے پريشان ہو اگر ممكن ہو تو پہلے اس پريشانى كے اسباب كو دور كرے اور پھر نماز ميں مشغول ہو سب سے بڑى ركاوٹ دنياوى امور سے محبت اور علاقہ اور دلبستگى ہوا كرتى ہے_ مال و متاع _ جاہ و جلال اور منصب و رياست اہل و عيال يہ وہ چيزيں ہيں جو حضور قب كى ركاوٹ ہيں ان چيزوں سے محبت انسان كے افكار كو نماز كى حالت ميں اپنى طرف مائل كر ديتے ہيں اور ذات الہى كى طرف متوجہ ہونے كو دور كر ديتے ہيں_ نماز كو ان امور سے قطع تعلق كرنا چاہئے تا كہ اس كى توجہ اور حضور قلب اللہ تعالى كى طرف آسان ہوجائے_
3_ قوت ايمانانسان كى اللہ تعالى كى طرف توجہ اس كى معرفت اور شناخت كى مقدار كے برابر ہوتى ہے اگر كسى كا اللہ تعالى پر ايمان يقين كى حد تك پہنچا ہوا ہو اور اللہ تعالى كى قدرت اور عظمت اور علم اور حضور اور اس كے محيط ہونے كا پورى طرح يقين ركھتا ہو تو وہ قہر اللہ تعالى كے سامنے خضوع اور خشوع كرے گا_ اور اس غفلت اور فراموشى كى گنجائشے باقى نہيں رہے گي_ جو شخض خدا كو ہر جگہ حاضر اور ناظر جانتا ہو اور اپنے آپ كو اس ذات كے سامنے ديكھتا ہو تو نماز كى حالت ميں جو ذات الہى سے ہم كلامى كى حالت ہوتى ہے كبھى بھى اللہ تعالى كى ياد سے غافل نہيں ہوگا_ جيسے اگر كوئي طاقت ور بادشاہ كے سامنے بات كر رہا ہو تو اس كے حواس اسى طرف متوجہ ہونگے اور جانتا ہے كہ كيا كہہ رہاہے اور كيا كر رہا ہے اگر كوئي اللہ تعالى كو عظمت اور قدرت والا جانتا ہو تو پھر وہ نماز كى حالت ميں اس سے غافل نہيں ہوگا لہذا انسان كو اپنے ايمان اور معرفت الہى كو كامل اور قوى كرنا چاہئے تا كہ نماز ميں اسے زيادہ حضور قلب حاصل ہوسكے_پيغمبر اكرم نے فرمايا ہے كہ ‘ خدا كى اس طرح عبادت كر كہ گويا تو اسے ديكھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہيں ديكھ رہا تو وہ تجھے ديكھ رہا ہے_(478)ابان بن تغلب كہتے ہيں كہ ميں نے امام جعفر صادق عليہ السلام كى خدمت ميں عرض كيا كہ ميں نے امام زين العابدين عليہ السلام كو ديكھا ہے كہ آپ كا نماز ميں ايك رنگ آتا تھآ اور جاتا تھا؟ آپ نے فرمايا ‘ ہاں وہ اس مبعود كو كہ جس كے سامنے كھڑے تھے كامل طور سے پہچانتے تھے_(479)

4_ موت كى يادحضور قلب اور توجہ كے پيدا ہونے كى حالت كا ايك سبب موت كا ياد كرنا ہو
سكتا ہے اگر انسان مرنے كى فكر ہيں اور متوجہ ہو كہ موت كا كوئي وقت نہيں ہوتا ہر وقت اور ہر شرائط ميں موت كاواقع ہونا ممكن ہے يہاں تك كہ شايد يہى نماز اس كى آخرى نماز ہو تو اس حالت ميں وہ نماز كو غفلت سے نہيں پڑھے گا بہتر ہے كہ انسان نماز سے پہلے مرنے كى فكر ميں جائے اور يوں تصور كرے كہ اس كے مرنے كا وقت آ پہنچا ہے اور حضرت عزرائيل عليہ السلام اس كى روح قبض كرنے كے لئے حاضر ہو چكے ہيں تھوڑا سا وقت زيادہ نہيں رہ گيا اور اس كے اعمال كا دفتر اس كے بعد بند ہو جائيگا اور ابدى جہاں كى طرف روانہ ہوجائے گا وہاں اس كے اعمال كا حساب و كتاب ليا جائے گا جس كا نتيجہ يا ہميشہ كى سعادت اور اللہ تعالى كے مقرب بندوں كے ساتھ زندگى كرنا ہوگا اور يا بدبختى اور جہنم كے گڑھے ميں گر كر عذاب ميں مبتلا ہونا ہوگا_اس طرح كى فرك اور مرنے كو سامنے لانے سے نماز ميں حضور قلب اور توجہ كى حالت بہتر كر سكے گا اور اپنے آپ كو خالق كائنات كے سامنے ديكھ رہا ہوگا اور نماز كو خضوع اور خشوع كى حالت ميں آخرى نمازسمجھ كر بجا لائيگا نماز كے شروع كرنے سے پہلے اس طرح اپنے آپ ميں حالت پيدا كرے اور نماز كے آخر تك يہى حالت باقى ركھے_امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ واجب نماز كو اس كے وقت ميں اس طرح ادا كرو كہ وہ تمہارى وداعى اور آخرى نماز ہے اور يہ خوف رہے كہ شايد اس كے بعد نماز پڑھنے كى توفيق حاصل نہ ہو_ نماز پڑھنے كى حالت ميں سجدہ گاہ پر نگاہ ركھے اور اگر تجھے معلوم ہوجائے كہ تيرے نزديك كوئي تجھے ديكھ رہا ہے اور پھر تو نماز كو اچھى طرح پڑھنے لگے تو جان لے كہ تو اس ذات كے سامنے ہے جو تجھے ديكھ رہا ہے ليكن تو اس كو نہيں ديكھ رہا_(480)

5_ آمادگيجب نمازى نے تمام ركاوٹيں دور كر لى ہوں تو پھر كسى خلوت اور تنہائي كي
مناسب جگہ جا كر نماز پڑھنے كے لئے تيار ہوجائے اور نماز شروع كرنے سے پہلے اللہ تعالى كى بے پناہ عظمت اور قدرت اور اپنى ناتوانى اور كمزورى كو ياد كرے اور يہ ياد كرے كہ وہ پروردگار اور تمام چيزوں كے مالك كے سامنے كھڑا ہے اور اس سے ہمكلام ہے_ ايسى عظيم ذات كے سامنے كھڑا ہے كہ جو تمام افكار يہاں تك كہ مخفى سوچ اور فكر كو جانتا ہے_ موت اور اعمال كے حساب اور كتاب بہشت اور دوزخ كو سامنے ركھے اور احتمال دے كہ شايد يہ اس كى آخرى نماز ہو اپنى اس سوچ اور فكر اتنا زيادہ كرے كہ اس كى روح اس كى تابع اور مطيع ہوجائے اس وقت توجہ اور حضور قلب سے اذان اور اقامہ كہتے اور اس كے بعد نماز كى طرف مہيا ہونے والى يہ دعا پڑھے _ اللہم اليك توجہت و مرضاتك طلبت و ثوابك ابتقيت و بك امنت و عليك توكلت اللہم صل على محمد و آلہ محمد و افتح مسامع قلبى لذكرك و ثبتنى على دينك و دين نبيك و لا تزغ قلبى بعد اذ ہديتنى و ہب لى من لدنك رحمة انك انت الوہاباس دعا كے پڑھتے كے وقت ان كلمات كى معانى كى طرف توجہ كرے پھر يہ كہے _ يا محسن قد اتاك المسئي يا محسن احسن الياگر حضور قلب اور توجہہ پيدا ہوجائے تو پھر تكبير الاحرام كہے اور نماز ميں مشغول ہوجائے اور اگر احساس ہوجائے كہ ابھى وہ حالت پيدا نہيں ہوئي تو پھر استغفار كرے اور شيطانى خيالات سے خداوند عالم سے پناہ مانگے اور اتنا اس كو تكرار كرے كہ اس ميں وہ حالت پيدا ہوجائے تو اس وقت حضور قلب پيدا كر كے تكبيرة الاحرام كے معنى كى طرف توجہہ كرے نماز ميں مشغول ہوجائے ليكن متوجہ رہے كہ وہ كس ذات سے ہمكلام ہے اور كيا كہہ رہا ہے اور متوجہ رہے كہ زبان اور دل ايك دوسرے كے ہمراہوں اور جھوٹ نہ بولے كيا جانتا ہے كہ اللہ اكبر كے معنى كيا ہيں؟ يعنى اللہ تعالى اس سے بلند و بالا ہے كہ اس كى تعريف اور وصف كى جا سكے درست متوجہ رہے كہ كيا
كہتا ہے آيا جو كہہ رہا ہے اس پر ايمان بھى ركھتا ہے_امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ جب تو نماز كے قصد سے قبلہ رخ كھڑا ہو تو دنيا اور جو كچھ اس ميں ہے لوگوں اور ان كے حالات اور اعمال سب كو ايك دفعہ بھولا دے اور اپنے دل كو ہر قسم كے ايسے كام سے جو تجھے ياد خدا سے روكتے ہوں دل سے نكال دے اور اپنى باطنى آنكھ سے ذات الہى كى عظمت اور جلال كا مشاہدہ كر اور اپنے آپ كو خدا كے سامنے اس دن كے لئے حاضر جان كہ جس دن كے لئے تو نے اپنے اعمال اگلى دنيا كے لئے بھيجے ہيں اور وہ ظاہر ہونگے اور خدا كى طرف رجوع كريں گے اور نماز كى حالت ميں خوف اور اميد كے درميان رہ تكبرة الاحرام كہنے كے وقت جو كچھ زمين اور آسمان كے درميان ہے معمولى شمار كر كيونكہ جب نمازى تكبيرة الاحرام كہتا ہے خداوند عالم اسكے دل پر نگاہ كرتا ہے اگر تكبير كى حقيقت كى طرف متوجہ نہ ہو تو اسے كہتا ہے اے جھوٹے_ مجھے دھوكا دينا چاہتا ہے؟ مجھے عزت اور جلال كى قسم ميں تجھے اپنے ذكر كى لذت سے محروم كرونگا اور اپنے قرب اور اپنى مناجات كرنے كى لذت سے محروم كر دونگا_ (481)
درست ہے كہ نيت اور تكبرة الاحرام كے وقت اس طرح كى تيارى قلب كے حضور كے لئے بہت زيادہ اثر انداز ہوتى ہے ليكن سب سے مہم تر يہ ہے كہ ايسى حالت استمرار پيدا كرے اگر معمولى سے غفلت طارى ہوگئي تو انسان كى روح ادھر ادھر پرواز كرنے لگے گى اور حضور اور توجہہ خداوند عالم كى طرف سے ہٹ جائيگي_ لہذا نمازى كو تمام نماز كى حالت ميں اپنے نفس كى مراقبت اور حفاظت كرنى چاہئے اور مختلف خيالات اور افكار كو روكنا چاہئے ہميشہ اپنے آپ كو خدا كے سامنے حاضر سمجھے اور اس طرح نماز پڑھے كہ خدا كے ساتھ كلام كر رہا ہے اور اس كے سامنے ركوع اور سجود كر رہا ہے اور كوشش كرے كہ قرائت كرتے وقت ان كے معانى كى طرف متوجہ رہے اور غور كرے كہ كيا كہہ رہا ہے اوركس عظيم ذات كے ساتھ گفتگو كر رہا ہے اس حالت كونماز كے آخر تك باقى ركھے گرچہ يہ كام بہت مشكل اور دشوار ہے ليكن نفس كى مراقبت اور كوشش كرنے سے آسان ہو سكتا ہے و الذين جاہدوا فينا لنہدينہم سبلنا اگر اسے اس كى ابتداء ميں توفيق حاصل نہ ہو تو نااميد نہ ہو بلكہ بطور حتمى اور كوشش كر كے عمل ميں وارد ہوتا كہ تدريجاً نفس پر تسلط حاصل كرلے_ مختلف خيالات كو دل سے نكالے اور اپنے آپ كو خدا كى طرف توجہ دے اگر ايك دن يا كئي ہفتے اور مہينے يہ ممكن نہ ہوا ہو تو مايوس اور نا اميد نہ ہو اور كوشش كرے كيونكہ يہ بہرحال ايك ممكن كام ہے_ انسانوں كے درميان ايسے بزرگ انسان تھے اور ہيں كہ جو اول نماز سے آخر نماز تك پورا حضور قلب ركھے تھے اور نماز كى حالت ميں خدا كے علاوہ كسى طرف بالكل توجہ نہيں كرتے تھے_ ہم بھى اس بلند و بالا مقام تك پہنچنے سے نا اميد نہ ہوں اگر كامل مرتبہ تك نہيں پہنچے پائے تو كم از كم جتنا ممكن ہے اس تك پہنچ جائيں تو اتنا ہى ہمارے لئے غنيمت ہے_ (482)
دوم _ نوافلپہلے بيان ہوچكا ہے كہ سير اور سلوك اور اللہ تعالى سے تقرب كا بہترين راستہ نماز ہے_ اللہ تعالى انسان كى خلقت كى خصوصيت كے لحاظ سے اس كے تكامل اور كمال حاصل كرنے كے طريقوں كو دوسروں سے زيادہ بہتر جانتا ہے_ اللہ تعالى نے نماز كو بنايا ہے اور پيغمبر عليہ السلام كے ذريعے انسانوں كے اختيار ميں ديا ہے تا كہ وہ اپنى سعادت اور كمال حاصل كرنے كے لئے اس سے فائدہ حاصل كريں _ نماز كسى خاص حد تك محدود نہيں ہے بلكہ اس سے ہر زمانے ميں ہر مكان اور ہر شرائط ميں فائدہ حاصل كيا جا سكتا ہے نماز كى دو قسميں ہيں ايك واجب نمازيں اور دوسرى مستحب نمازيں_چھ نمازيں واجب ہيں پہلى پنجگانہ نمازيں يعنى دن اور رات ميں پانچ نمازيں دوسرى نماز آيات تيسرى نماز ميت چوتھى نماز اطراف پانچويں وہ نمازيں جو نذر يا قسم يا
عہد سے انسان پر واجب ہوتى ہيں چھٹى باپ كى نمازيں جو بڑے لڑكے پر واجب ہيں_پنجگانہ نمازيں تو تمام مكلفين مرد اور عورت پر واجب ہيں ليكن باقى نمازيں خاص زمانے اور خاص شرائط سے واجب ہوتى ہيں_ جو انسان اپنى سعادت اور كمال كا طالب ہے اس پر پہلے ضرورى ہے كہ وہ واجب نمازوں كو اس طرح جس طرح بنائي گئي ہيں انجام دے_ اگر انہيں خلوص اور حضور قلب سے انجام دے تو يہ بہترين اللہ تعالى سے تقرب كا موجب ہوتى ہيں_ واجبات كو چھوڑ كر مستحبات كا بجا لانا تقرب كا سبب نہيں ہوتا_ اگر كوئي خيال كرے كہ فرائض اور واجبات كو چھوڑ كر مستحبات اور اذكار كے ذريعے تقرب يا مقامات عاليہ تك پہنچ سكتا ہے تو اس نے اشتباہ كيا ہے_ ہاں فرائض كے بعد نوافل اور مستحبات سے مقامات عالى اور تقرب الہى كو حاصل كر سكتا ہے_ دن اور رات كے نوافل پينتيں ہيں ظہر كى آٹھ ظہر سے پہلے اور عصر كى آٹھ عصر سے پہلے اور تہجد كى گيارہ ركعت ہيں_ احاديث كى كتابوں ميںنوافل كے پڑھنے كى تاكيد كى گئي ہے اور انہيں واجب نمازوں كا متمم اور نقص كو پر كرنے والا بتلايا گيا ہے_ دن اور رات كى نوافل كے علاوہ بھى بعض نوافل خاص خاص زمانے اور مكان ميں بجالانے كا كہا گيا ہے او ران كا ثواب بھى بيان كيا گيا ہے آپ مختلف مستحب نمازوں اور ان كّے ثواب اور ان كے فوائد اور اثرات كو حديث اور دعا كى كتابوں سے ديكھ سكتے ہيں اور نفس كے كمال تك پہنچنے ميں ان سے استفادہ كرسكتے ہيں ان سے فائدہ حاصل كرنے كا طريقہ ہميشہ كے لئے كھالا ہوا ہے_ اس كے علاوہ بھى ہر وقت ہر جگہ اور ہر حالت ميں نماز پڑھنا مستحب ہے_امام رضا عليہ السلام نے فرمايا ‘ مستحب نمازيں مومن كے لئے تقرب كا سبب ہوا كرتى ہيں_ (483)امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ كبھى آدھى اور كبھى تہائي اور چوتھائي نماز اوپر جاتى ہے_ يعنى قبول ہوتى ہے_ اتنى نماز اوپر جاتى ہے اور قبول ہوتى ہے كہ
جتنى مقدار اس ميں حضور قلب ہو اسى لئے مستحب نمازوں كے پڑھنے كا كہا گيا ہے تا كہ ان كے ذريعے جو نقصان واجب نماز ميں رہ گيا ہے پورا كيا جائے_ (484)رسول خدا صلى اللہ عليہ و الہ و سلم نے فرمايا ہے كہ ‘ مومن بندہ ميرے نزديك محبوب ہے اور اس كے لئے واجبات پر عمل كرنے سے اور كوئي چيز بہتر نہيں ہے مستحبات كے بجالانے سے اتنا محبوب ہوجاتا ہے كہ گويا ميں اس كى آنكھ ہوجاتا ہوں كہ جس سے وہ ديكھتا ہے اور گويا ميں اس كى زبان ہوجاتا ہوں كہ جس سے وہ بولتا ہے اور گويا ميں اس كا ہاتھ ہوجاتا ہوں كہ جس سے وہ چيزوں كو پكڑتا ہے اور گويا ميں اس كا پاؤں ہو جاتا ہوں كہ جس سے وہ چلتا ہے اگر وہ مجھے پكارے تو ميں قبول كرتا ہوں اور جواب ديتا ہوں اور اگر كوئي چيز مجھ سے مانگے تو اسے عطا كرتا ہوں ميں نے كسى چيز ميں ترديد اور ٹھہراؤ پيدا نہيں كيا جتنا كہ مومن كى روح قبض كرنے ميں كيا ہے وہ مرنے كو پسند نہيں كرتا اور ميں بھى اس كا ناپسندى كو ناپسند كرتا ہوں_ (485)
سوّم_ تہجّدمستحبات ميں سے تہجد كى نماز كى بہت زيادہ فضيلت حاصل ہے قرآن مجيد اور احاديث ميں اس كى بہت زيادہ تاكيد كى گئي ہے خداوند عالم كى ذ ات پيغمبر عليہ السلام كو فرماتا ہے كہ ‘رات كو تھوڑے سے وقت ميں تہجد كى نماز كے لئے كھڑا ہو يہ تيرے لئے مستحب ہے شايد خدا تجھے خاص مقام كے لئے مبعوث قرار دے دے_ (486)اللہ تعالى اپنے خاص بندوں كے بارے ميں فرماتا ہے كہ ‘ كچھ لوگ رات كو اپنے پروردگار كے لئے سجدے اور قيام كے لئے رات گذارتے ہيں_ (487)اللہ تعالى مومنين كى صفات ميں يوں ذكر كرتا ہے كہ ‘ رات كو بستر سے اپنے آپ كو جدا كرتے ہيں اور اميد اور خوف ميں خدا كو پكارتے ہيں اور جو كچھ انہيں ديا گيا ہے
خرچ كرتے ہيں كوئي نہيں جان سكتا كہ كتنى نعمتيں ہيں جو ان كى آنكھ كے روشنى اور ٹھنڈك كا موجب بنيں گى جنہيں ان كے اعمال كى جزاء كے طور پر محفوظ كيا جاچكا ہے_ (488)رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ خداوند عالم نے دنيا كو وحى كى ہے كہ اپنى خدمت كرنے والوں كو مصيبت اورمشقت ميں ڈال اور جو ترك كر دے اس كى خدمت كر جب كوئي بندہ رات كى تاريكى ميں اپنے خالق سے خلوت اور مناجات كرتا ہے تو خدا اس كے دل كو نورانى كرديتا ہے جب وہ كہتا ہے با رب يا رب تو خدا كى طرف سے كہا جاتا ہے_ لبيك يا عبدي_ تو جو چاہتا ہے طلب كرتا كہ ميں تجھے عطا كروں مجھ پر توكل اور آسرا كرتا كہ ميں تجھے كفايت كروں اس كے بعد اپنے فرشتوں سے كہتا ہے كہ ميرے بندے كو ديكھو كس طرح تاريكى ميں ميرے ساتھ مناجات كر رہا ہے جب كہ بيہودہ لوگ لہو اور لعب ميں مشغول ہيں اور غافل انسان سوئے ہوئے ہيں تم گواہ رہو كہ ميں نے اسے بخش ديا ہے_ (489)رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے فرماتے ہيں كہ ‘ جبرائيل مجھے تہجد كى نماز ميں اتنى سفارش كر رہا تھا كہ ميں نے گمان كيا كہ ميرى امت كے نيك بندے رات كو كبھى نہيں سوئيں گے_ (490)پيغمبر عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ آدھى رات ميں دو ركعت نماز پڑھنا ميرے نزديك دنيا اور اس كى تمام چيزوں سے زيادہ محبوب ہے_ (491)امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ تہجد كى نماز شكل كو خوبصورت اور اخلاق كو اچھا اور انسان كو خوشبودار بناتى ہے اور رزق كو زيادہ كرتى ہے اور قرض كو ادا كراتى ہے اور غم اور اندوہ كو دور كرتى ہے اور آنكھوں كو روشنائي اور جلاديتى ہے_ (492)رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ ‘ تہجد كى نماز اللہ تعالى كى خوشنودى اورملائكہ سے دوستى كا وسيلہ ہے_ تہجد كى نماز پيغمبروں كاطريقہ اور سنت اور ايمان اور معرفت كے لئے نور اور وشنى ہے_ كيونكہ تہجد كى نماز كے ذريعے ايمان قوى ہوتا ہے) بدن كو آرام ديتى ہے اور شيطان كو غضبناك كرتى ہے_ دشمنوں
كے خلاف ہتھيار ہے دعا اور اعمال كے قبول ہونے كا ذريعہ ہے انسان كى روزى كو وسيع كرتى ہے_ نمازى اور ملك الموت كے درميان شفيع ہوتى ہے_ قبر كے لئے چراغ اور فرش ہے اور منكر اور نكير كا جواب ہے_ قبر ميں قيامت تك مونس اور نمازى كى زيارت كرتى رہے گي_ جب قيامت برپا ہوگى تو نمازى پر سايہ كرے گى اس كے سركا تاج اور اس كے بدن كا لباس ہوگي_ اس كے سامنے نور اور روشنى ہوگى اور جہنم اور دوزخ كى آگ كے سامنے نور اور روشنى ہوگى اور جہنم اور دوزخ كى آگ كے سامنے ركاوٹ بنے گي_ مومن كے لئے اللہ تعالى كے نزديك حجت ہے اور ميران ميں اعمال كو بھارى اور سنگين كردے گى پل پر عبور كرنے كا حكم ہے اور بہشت كى چابى ہے كيونكہ نماز تكبير اور حمد تسبيح اور تمجيد تقديس اور تعظيم قرات اور دعا ہے_ يقينا جب نماز وقت ميں پڑھى جائے تو تمام اعمال سے افضل ہے_ (493)تہجد كى نماز ميں بہت زيادہ آيات اوراحاديث وارد ہوئي ہيں_ تہجد كى نماز كو پڑھنا پيغمبروں اور اولياء خدا كا طريقہ اور سنت ہے_ رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم اور آئمہ اطہار نماز تہجد كے بارے ميں خاص اہميت اور توجہ اور عنايت ركھتے تھے_ اللہ كے اولياء اور عرفاء شب كو ہميشہ بجالانے سے اور سحر كيوقت دعا اور ذكر سے عالى مراتب تك پہنچے ہيں_ كتنا ہى اچھا اور بہتر اور لذت بخش ہے كہ انسان سحرى كے وقت نيند سے بيدار ہوجائے اور نرم اور آرام وہ بستر كو چھوڑ دے اور وضوء كرے اور رات كى تاريكى ميں جب كہ تمام آنكھيں نيند ميں گم اور سوئي ہوئي ہيں اللہ تعالى كے حضور راز و نياز كرے اور اس كے وسيلے روحانى معراج كے ذريعے بلندى كى طرف سفر كرے اور آسمان كے فرشتوں سے ہم آواز بنے اور تسبيح اور تہليل تقديس اور تمجيد الہى ميں مشغول ہوجائے اس حالت ميں اس كا دل اللہ تعالى كے انوار اور اشراقات مركز قرار اپائيگا اورخدائي جذب سے مقام قرب تك ترقى كرے گا (مبارك ہو ان لوگوں كو جو اس كے اہل ہے)
نماز شب كى كيفيتتہجد كى نماز گيارہ ركعت ہے دو دو ركعت كر كے صبح كى نماز كى طرح پڑھى جائے باين معنى كہ اٹھ ركعت كو تہجد كى نيت سے اور دور ركعت نماز شفع كى نيت سے اور ايك ركعت نماز وتر كى نيت سے پڑھے_ كے لئے كچھ آداب اور شرائط بيان كئے گئے ہيں_ جنہيں دعاؤں اور احاديث كى كتابوں ميں ديكھےا جا سكتا ہے_

458_معاوية بن وہب قال: سالت ابا عبداللہ عليہ السلام عن افضل ما يتقرّب بہ العباد الى ربّہم و احبّ ذلك الى اللہ عزّوجلّ ما ہو؟ فقال ما اعلم شيئاً بعد المعرفة افضل من ہذہ الصلاة، الا ترى ان العبد الصالح عيسى ابن مريم عليہ السلام قال: و اوصانى بالصلاة و الزكوة ما دمت حيّا_ كافي/ ج3 ص 264_459_زيد الشحام عن ابيعبداللہ عليہ السلام قال سمعتہ يقول: احبّ الاعمال الى اللہ عزّوجلّ حيث الصلاة و ہى آخر وصايا الانبياء فما احسن الرجل يغتسل او يقوضّا فيسبغ الوضوء ثم يتنحى حيث لا يراہ انيس فيشرف عليہ و ہو راكع او ساجد_ انّ العبد اذا سجد فاطال السجود نادى ابليس: يا ويلاہ اطاع و عصيت و سجد و ابيت_ كافي/ ج 3 ص 264_460_قال الرضا عليہ السلام:اقرب ما يكون العبد من اللہ و ہو ساجد و ذالك قولہ تعالى ‘ و اسجد و اقترب’ كافي/ج 2 ص 265_461_قال ابوعبداللہ عليہ السلام:اذا قام المصلّى الى الصلاة نزلت عليہ الرحمة من اعنان السماء الى اعنان الارض و حفّت بہ الملائكہ و ناداہ ملك: لو يعلم ہذا المصلى ما فى الصلاة ما انفتل_ كافي/ ج 3 ص 265_462_قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ:اذا قام العبد المؤمن فى صلاتہ نظر اللہ اليہ_ او قال: اقبل اللہ عليہ_ حتى ينصرف، اظلتہ الرحمة من فوق راسہ الى افق السمائ، والملائكة تحفّہ من حولہ الى افق السمائ، و وكّل اللہ بہ ملكاً قائماً على راسہ يقول لہ: ايّہا المصلّى لو تعلم من ينظر اليك و من تناجى ما التفت و لا زلت من موضعك ابداً_ كافي/ ج 3 ص 265_
463_464_و اقم الصلاة لذكري_ طہ/ 14_465_يا ايہا الذين آمنوا اذا نودى للصلوة من يوم الجمعة فاسعوا الى ذكر اللہ_ جمعہ/9_466_قال النبى صلى اللہ عليہ و آلہ: انّ من الصلوة لما يقبل نصفہا و ثلثہا و ربعہا و خسمہا الى العشر، و انّ منہا لما يلفّ كما يلفّ الثوب الخلق فيضرب بہا وجہ صاحبہا، و انّما لك من صلاتك ما اقبلت عليہ بقلبك_ بحار الانوار/ ج84 ص 260_467_عن ابيعبداللہ عليہ السلام يقول: اذا قام العبد الى الصلوة اقبل اللہ عزّوجلّ عليہ بوجہہ فلا يزال مقبلاً عليہ حيث يلتفت ثلاث مرات فاذا التفت ثلاث مرات اعرض عنہ_ بحار/ ج 84 ص 241_468_قال اميرالمؤمنين عليہ السلام: لا يقومنّ احدكم فى الصلاة متكاسلاً و لا ناعساً و لايفكّرن فى نفسہ فانہ بين يدى ربّہ، و انّما للعبد من صلاتہ ما اقبل عليہ منہا بقلبہ_ بحار/ج 84 ص 239_
338469_قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ:ايّما عبدالتفت فى صلاتہ قال اللہ: يا عبدى الى من تقصد و من تطلب؟ ارباً غيرى تريد اور رقيباً سواى تطلب؟ او جواداً خلاى تبغي؟ و انا اكرم الاكرمين و اجود الاجودين و افضل المعطين، اثيبك ثواباً لا يحصى قدرہ_ اقبل على فانى عليك مقبل و ملائكتى عليك مقبلون_ فان اقبل زال عنہ اثم ما كان منہ_ فان التفت ثانية اعاداللہ مقالتہ فان اقبل على صلاتہ غفر اللہ لہ و تجاوز عنہ ما كان منہ_ فان التفت ثالثة اعاد اللہ مقالتہ، فان اقبل على صلاتہ غفر اللہ ما تقدّم من ذنبہ_ فان التفت رابعة اعرض اللہ عنہ و اعرضت الملائكة عنہ و يقول: ولّيتك يا عبدى الى ما توليت_ بحار الانوار/ ج84 ص 244_470_بحار الانوار/ ج84 ص 248_471_بحار الانوار/ ج84 ص 248_472_بحار الانوار/ ج84 ص 250_473_بحار الانوار/ ج84 ص 258_474_بحار الانوار/ ج84 ص 258_475_بحار الانوار/ ج84 ص 258_476_بحار الانوار/ ج84 ص 265_477_بحار الانوار/ ج84 ص 248_478_قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ:اعبداللہ كانك تراہ فان كنت لا تراہ فانّہ يراك_ نہج الفصاححة/ ص 65_479_ابان بن تغلت قال قلت لا بيعبداللہ عليہ السلام: ان رايت على بن الحسين عليہ السلام اذا قام فى الصلوة غشى لونہ لون آخر_ فقال لي: و اللہ ان على بن الحسين كان يعرف الذى يقوم بين يديہ _ بحار الانوار/ ج84 ص 235_480_قال ابوعبداللہ عليہ السلام: اذا صلّيت صلاة فريضة فصلّہا صلاة مودّع يخاف ان لا يعود اليہا ابداً_ ثم اصرف ببصرك الى موضع سجودك، فلو تعلم من عن يمينك و شمالك لا حسنت صلاتك، و اعلم انك بين يدى من يراك و لا تراہ_ بحار الانوار/ ج84 ص 233_481_قال الصادق عليہ السلام: اذا استقبلت فانس الدنيا و ما فيہا و الخلق و ما ہم فيہ و استفرغ قلبك عن كل شاغ يشغلك عن اللہ و عاين بسرّك عظمة اللہ و اذكر وقوفك بين يديہ تبلوكل نفس ما اسلفت و ردّوا الى اللہ مولاہم الحق_ وقف على قدم الخوف و الرجاء فاذا كبّرت فاستصغر ما بين السماوات العلى و الثرى دذون كبريائہ: فان اللہ تعالى اذا اطلع على قلب العبد و ہو يكبّر و فى قلبہ عارض عن حقيقة تكبيرہ قال: يا كاذب اتخدغني؟ و عزتى و جلالى لا حرمنك حلاوة ذكرى و لا حجبنك عن قربى و المسارة بمناجاتي_ بحار الانوار/ ج84 ص 230_482_براى اينكہ در نماز حضور قلب پيدا كنيم مى توانيم از كتابہايى كہ در اسرار نماز نوشتہ شدہ مانند كتاب ‘ سرّالصلوة’ تاليف عالم ربانى و رہبر كبير انقلاب اسلامى حضرت امام خمينى (قدس سرہ الشريف) استفادہ كنيم_
339483_عن ابى الحسن عليہ اسلام قال: صلاة النوافل قربان كل مؤمن_ بحار الانوار/ ج87 ص 36_484_قال ابو عبداللہ عليہ السلام: ان العبد لترفع لہ من صلاتہ نصفہا او ثلثہا او ربعہا او خسمہا و ما يرفع لہ الّا ما اقبل عليہ منہا بقلبہ و انّما امرنا بالنوافل ليتمّ لہم بہا ما نقصوا من الفريضة_ بحار الانوار/ ج87 ص 28_485_عن ابيعبداللہ عليہ السلام قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ: قال اللہ تعالي: ما تحبّب اليّ عبدى بشيء احبّ اليّ مما افترضتہ عليہ و انّہ يتحبّب اليّ بالنوافل حتى احبّہ فاذا احببتہ كنت سمعہ الذى يسمع بہ و بصرہ الذى يبصر بہ و لسانہ الذى ينطق بہ و يدہ التى يبطش بہا و رجلہ التى يمشى بہا، اذا دعانى اجبتہ و اذا سالنى اعطيتہ و ما تردّدت فى شيء انا فاعلہ كترددى فى موت المؤمن: يكرہ الموت و انا اكرہ مسائتہ_ بحار الانوار/ ج87 ص 31_486_و من الليل فتہجّد بہ نافلة لك عسى ان يبعثك ربّك مقاماً محمودا_ اسري/ 79_487_والذين يبيتون لربّہم سجداً و قياماً_ فرقان/ 64_488_تتجافى جنوبہم عن المضاجع يدعون ربّہم خوفاً و طمعاً و مما رزقناہم ينفقون فلا تعلم نفس ما اخفى لہم من قرة اعين جزائٌ بما كانوا يعملون_ سجدہ/ 16_489_قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ:انّ اللہ جلّ جلالہ اوحى الى الدنيا: ان اتعبى من خدمك و اخدمى من رفضك_ و انّ العبد اذا تخلّى بسيّدہ فى جوف الليل المظلم و ناجاہ اثبت اللہ النور فى قلبہ فاذا قال: يا ربّ يا ربّ ناداہ الجليل جلّ جلالہ: لبيك عبدي، سلنى اعطك و توكّل عليّ اكفك ثم يثول جلّ جلالہ لملائكتہ: يا ملائكتى انظروا الى عبدى فقد تخلّى فى جوف ہذا الليل المظلم و البطالون لاہون و الغافلون ينامون_ اشہدوا انّى قد غفرت لہ _ بحار الانوار/ ج87 ص 137_490_قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ:اشراف امتى حملة القرآن و اصحاب الليل_ بحار الانوار/ ج87 ص 138_491_انس بن مالك قال: سمعت رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ يقول: ركعتان فى جوف الليل احبّ اليّ من الدنيا و ما فيہا_ بحار الانوار/ ج87 ص 148_492_عن ابيعبداللہ عليہ السلام قال: صلاة الليل تحسّن الوجہ و تحسّن الخلق و تطيّب الريح و تدرّ الرزق و تقضى الدين و تذہب بالہمّ و تجلوا البصر_ بحار الانوار/ ج87 ص 153_493_قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ:صلاة الليل مرضاة الربف و حبّ الملائكة و سنّة الانبياء و نور المعرفة و اصل الايمان و راحة الابدان و كراہية الشيطان و سلاح على الاعداء و اجابة للدعاء و قبول الاعمال و بركة فى الرزق و شفيع بين صاحبہا و ملك الموت و سراج فى قبرہ و فراش تحت جنبہ و جواب مع منكر و نكير و مونس و زائر فى قبرہ الى يوم القيامة، فاذا كان يوم القيامة كانت الصلاة ضلّا فوقہ و ناجاً على راسہ و لباساً على بدنہ و نوراً يسعى بين يديہ و ستراً بينہ و بين النار و حجة للمؤمن بين يدى اللہ تعالى و ثقلاً فى الميزان و جوازاً على الصراط و مفتاحاً للجنة_ لانّ الصلاة تكبير و تحميد و تسبيح و تمجيد و تقديس و تعظيم و قرائة و دعاء و ان افضل
340الاعمال كلّہا الصلاة لوقتہا_ بحار الانوار/ ج87 ص 161_

تبصرے
Loading...