تربيت کا اثر

تربيت کا اثر

تربيتيزيد بن معاويہ کا ايک بيٹا تھا جو اسے بہت عزيز تھا۔ اسي لئے يزيد نے اس کا نام اپنے باپ کے نام پر معاويہ رکھا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس بچے کي اپنے مزاج کے مطابق تربيت کرے تاکہ وہ اس کا حقيقي جانشين بن سکے۔ جب معاويہ بن يزيد اس عمر کو پہنچا کہ اسے لکھنا پڑھنا سکھايا جائے تو اس کے لئے اس وقت کے ايک بہت قابل استاد ‘عمر المقصوص‘‘ کو منتخب کيا گيا۔ يہ شخص اہلبيت عليہم السلام سے محبت اور يزيد اور اس کے اجداد سے شديد نفرت کرتا تھا ليکن چونکہ يزيد اس بات کو نہيں جانتا تھا اسي لئے معاويہ بن يزيد کو اس کي شاگردي ميں دے ديا۔ اس استاد نے معاويہ بن يزيد کو قرآن کي حقيقي تعليمات سے روشناس کرايا اور ساتھ ہي اہلبيت کي عظمت اور منزلت کا بھي بتايا اور ان کي محبت کا ديا معاويہ کے دل ميں روشن کر ديا۔يزيد ملعون کا يہ بيٹا ابھي بيس سال کا ہي تھا کہ اس کا باپ جہنم رسيد ہوا اور لوگوں نے معاويہ بن يزيد کو مسلمانوں کا خليفہ تسليم کرليا۔بيس سال کي عمر جواني کا ايسا دور ہے کہ جب انساني خواہشات کي منہ زوري عروج پر ہوتي ہے۔ يزيد کا جانشين ہونا اور پوري اسلامي مملکت پر حکمراني کرنا اپني تمام جائز و ناجائز خواہشات کو پورا کرنے کے لئے بہترين موقع تھا۔ ليکن معاويہ بن يزيد چاليس دن تک تختِ خلافت پر بيٹھا اور ان چاليس دنوں ميں اس نے اپنے باپ اور اجداد کے شرمناک کارناموں کا بہت باريک بيني سے جائزہ ليا۔جب اس نے ديکھا کہ ان لوگوں کي چند سالہ زندگي نے اسلام اور مسلمانوں کو کس قدر عظيم نقصانات پہنچائے ہيں تو اس نے محسوس کيا کہ وہ ايک دوراہے پر کھڑا ہے کہ حکومت کي باگ ڈور تھامے رہے اور ظلم و ستم اور عيش و عشرت کا بازار گرم رکھے يا تخت و تاج کو چھوڑ دے اور اپنے آپ کو ان ہولناک گناہوں اور ان کے دردناک عذاب سے دور رکھے۔بالآخر اس نے فيصلہ کر ہي ليا۔ اس کا فيصلہ ان سچي تعليمات اور اس ايمان کے طفيل ہي ممکن ہوا جو اس کے رگ و پے ميں شامل ہوچکا تھا۔ اس نے ايک عزمِ راسخ کے ساتھ حکومت کے عہديداروں اور عوام کو مسجد ميں جمع کيا اور پھر خود منبر پر جابيٹھا۔ اس نے اپني تقرير ميں سب سے پہلے خدا کي حمد کي اس کے بعد رسولِ اکرم ۰ پر درود بھيجا اور پھر وہ يوں گويا ہوا۔’ميرے جد (معاويہ) نے اس شخص سے تخت و خلافت کے لئے جنگ کي جو تمام لوگوں ميں سب سے زيادہ اس مقام کا حقدار تھا۔ اسلام ميں اس کاکردار سب سے زيادہ روشن تھا۔ شجاعت اور علم ميں وہ سب سے آگے تھا۔ وہ سب سے پہلے ايمان لايا اور رسولِ خدا ۰ کے سب سے زيادہ نزديک تھا۔ وہ رسول۰ کا چچازاد، فاطمہ زہرا کا شوہر اور سبطينٴ کا پدر تھا۔ پھر بھي جب ميرے جد (معاويہ) نے اس سے جنگ کي تو تم سب نے ميرے جد کا ہي ساتھ ديا اور ميرے جد نے اس خلافت پر قبضہ کرليا۔ اور وہ اس وقت تک قابض رہا جب تک اس کي موت نہ آپہنچي اور آج اپني قبر ميں اپنے اعمال اور اپنے ظلم و ستم کا جواب دے رہا ہوگا۔اس کے بعد خلافت ميرے باپ يزيد کے حصہ ميں آئي۔ وہ اپنے اعمال اور بدکرداري کي وجہ سے ہرگز اس کا اہل نہيں تھا ليکن وہ بھي اس پر قابض رہا اور اس کا نفس اسے بدترين کاموں کي ترغيب ديتا رہا۔ وہ اپنے برے کاموں پر بھي فخر کرتا تھا۔ اس نے بھي خدا کي بتائي ہوئي حدود سے تجاوز کيا۔ رسول اللہ ۰ کي اولاد پر اس نے بدترين مظالم ڈھائے۔ ليکن اس کي حکومت کي مدت بہت تھوڑي تھي اور بہت جلد اس کي شرمناک زندگي کا خاتمہ ہوگيا۔ آج وہ بھي اپنے اعمال کے حساب کتاب ميں الجھا ہوا ہوگا۔‘‘جب معاويہ بن يزيد کي بات يہاں تک پہنچي تو اس کا گلا رُندھ گيا۔ کافي دير تک وہ بلند آواز سے روتا رہا۔ اس کے بعد وہ دوبارہ گويا ہوا:’اے لوگو! ميں تمہارے گناہوں کا بوجھ اپنے کاندھوں پر نہيں اٹھا سکتا اور نہ تمہاري دوستي کا طوق اپنے گلے ميں ڈالوں گا۔ اب تم خود جو بہتر سمجھو کرو، يا وہ حکومت کرے جس کا تم انتخاب کرو۔ميں اپني بيعت تم لوگوں پر سے اٹھاتا ہوں اور اس خلافت کو ٹھکراتا ہوں۔‘‘معاويہ بن يزيد کے ان جملوں نے محفل ميں ايک طوفان برپا کرديا۔ سب حيرت او راضطراب سے ايک دوسرے کو تکنے لگے اور پھر زور زور سے شور مچانے لگے۔ ہر شخص اپني رائے دے رہا تھا۔ مروان بن حکم جو منبر کے نزديک ہي بيٹھا تھا اس نے کھڑے ہوکر معاويہ پر اعتراض کرنا چاہا جس پر معاويہ نے غصے سے چيخ کر مروان سے کہا:’مجھ سے دور ہوجا! کيا تو حيلے اور بہانے سے ميرے ذہن ميں داخل ہونا چاہتا ہے۔ ميں نے تمہاري خلافت کا مزہ نہيں چکھا ہے کہ تمہارے گناہوں کي ذمہ داري اٹھاوں۔ اگر يہ خلافت فائدہ مند چيز ہے تو افسوس کہ ميرے باپ نے اس کے ذريعہ صرف اپنے گناہوں اور بدبختي ميں اضافہ کيا ہے اور اگر يہ نقصان دہ چيز ہے تو جو بدبختي اس سے ميرے باپ نے سميٹي ہے، وہي کافي ہے۔ ميں اپنے آپ کو اس سے آلودہ نہيں کروں گا۔‘‘يہ کہہ کر وہ زار و قطار رونے لگا اور پھر منبر سے نيچے اتر آيا۔بنو اميہ جس کے لئے يہ واقعہ ايک بہت بڑا خطرہ تھا اور اس کے بعد خلافت ان سے چھن سکتي تھي وہ اس کا انتقام لينے کے لئے سب سے پہلے ‘عمر المقصوص‘‘ يعني معاويہ بن يزيد کے استاد کے پاس پہنچے اور اس سے کہنے لگے:تم نے اس طرح اس کي تربيت کي کہ آج اس نے خلافت کو ٹھکرا ديا۔ تم نے ہي اس کو بھڑکايا ہے کہ وہ سب کے سامنے بھرے مجمع ميں اس طرح تقرير کرے اور بني اميہ کے ظلم و ستم کو سب کے سامنے بيان کرے۔ اس کے بعد ان ظالموں نے اس عالم کو پکڑ کر ايک گڑھا کھودا اور اسے زندہ دفن کرديا۔٭¥٭¥٭درجِ بالا تاريخي واقعہ دو اہم پہلووں کي طرف اشارہ کرتا ہے: پہلا يہ کہ بچے کي تربيت ميں استاد کا کردار کتني اہميت کا حامل ہے۔ اگر معاويہ بن يزيد کا استاد اس کي صحيح تربيت نہ کرتا تو وہ بھي اپنے اجداد کي طرح اس تختِ خلافت سے ناجائز فائدہ اٹھاتا اور دنيا کي چند روزہ زندگي کو ہي سب کچھ سمجھتے ہوئے عيش و عشرت ميں غرق رہتا۔ ليکن اس کے متقي اور عالم استاد نے اس کي تعليماتِ قرآن و سيرتِ ائمہ عليہم السلام کي روشني ميں اس طرح تربيت کي تھي کہ يہ تخت و تاج بھي اس کے ارادے کي راہ ميں رکاوٹ نہ بن سکے۔اور دوسرا يہ کہ اگر انسان حق کي جستجو ميں ہو تو خداوندِ عالم اس کو باطل کي گمراہيوں سے نکال کر حق تک ضرور پہنچاتا ہے۔ اب يہ انسان کي مرضي ہے کہ وہ حق کو قبول کر کے اس سے وابستہ رہے اور خدا کے نيک بندوں ميں اس کا شمار ہو يا حق سے منہ موڑ کر گمراہيوں ميں پڑا رہے اور خدا کے عذاب کا حقدار ہو۔
 

http://shiastudies.com/ur/1150/%d8%aa%d8%b1%d8%a8%d9%8a%d8%aa-%da%a9%d8%a7-%d8%a7%d8%ab%d8%b1/

تبصرے
Loading...