ایک امر واجب،حج کی توہین

ایک امر واجب،حج کی توہین

اڑتیسواں گناہِ کبیرہ حج کو حقیر سمجھنا اور اسے اہمیت نہ دینا ہے۔ چنانچہ حضرت امام جعفرصادق سے اعمش نے اور حضرت امام رضا سے فضل بن شاذان نے جو روایت کی ہے اس میں ان دونوں اماموں نے اسے گناہِ کبیرہ بتایا ہے اور چونکہ حج بھی نماز کی طرح اسلام کے ضروری احکام میں شامل ہے اس لیے جو شخص حج سے منکر ہو کر اسے ترک کرتا ہے وہ کافر (ظاہری اور باطنی دونوں طرح سے) اور جو اس پر عقیدہ رکھتے ہوئے اس کے بجا لانے میں غفلت کرتا ہے اسے اہمیت نہیں دیتا اور دنیوی مشغلوں کی وجہ سے اسے چھوڑ دیتا ہے تو ایسے بڑے واجب حکم کی عملی توہین جس کے بارے میں اس قدر تاکید کی گئی ہے گناہِ کبیرہ ہے۔
استطاعت اور مقدرات کے وقت سال آگے ٹالنا حرام ہے
حج کا بالکل ترک کرنا ہی گناہِ کبیرہ نہیں ہے بلکہ مقدرت کے سال سے آگے ٹالنا بھی گناہِ کبیرہ ہے چاہے وہ اس کے ایک سال کے بعد ہی کیوں نہ بجا لائے کیونکہ واجب حج فوراً بجا لانا چاہیئے یعنی جو شخص حج کے زمانے میں مقدرت رکھتا ہو اسے اسی سال حج کرنا چاہیئے اس کے لیے دوسرے سال تک رُکنا حرام ہے۔
محقق شرائع میں فرماتے ہیں “استطاعت کے سال سے آگے حج کو ٹالنا ہلاک کرنے والا گناہِ کبیرہ ہے” اور شہید ثانی نے مسالک میں فرمایا ہے “اس مسئلے میں امامیہ علماء کے درمیان اختلاف نہیں ہے اور کتاب اور سنت میں بہت سی دلیلیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ استطاعت کے سال سے آگے حج کو ٹالنا گناہِ کبیرہ ہے” ۔ظاہر ہے کہ حج میں دیر کرنا ایک طرح سے اس کی عملی توہین ہی ہے۔
اس کے کبیرہ ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ خدا نے قرآن مجید میں حج ترک کرنے کو کفر سے تعبیر فرمایا ہے یعنی حج کا ترک کرنا خدا سے انکار اور اس کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہوتا ہے۔ جس طرح شرک اور کفر بخشے نہیں جا سکتے اسی طرح حج کا ترک کرنا بھی ناقابل معافی ہے۔ خداوندعالم سورہ آل عمران میں فرماتا ہے “جو شخص مکّہ معظمہ پہنچنے کی مقدرت رکھتا ہے اس پر حج اور خانہٴ خدا کی زیارت واجب ہے اور جو اسے ترک کرے گا وہ کافر ہو جائے گا اور گھاٹے میں رہے گا کیونکہ خدا تو دُنیا والوں کا محتاج نہیں ہے۔” (آیات ۹۶۔۹۷)
حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں “اس آیت میں لفظ “کفر” کے معنی چھوڑ دینے کے ہیں۔ یعنی وہ شخص جو حج ادا نہ کرے۔ حضرت امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ “بلا شبہ خدا نے مقدرت رکھنے والے لوگوں پر ہر سال حج واجب فرمایا ہے۔” (یعنی بدلے کے طور پر کہ اگر مقدرت کے سال میں حج ادا نہ کرے تو آخر عمر تک ہر سال ان پر وہ حج واجب ہوتا رہے گا۔ اس جملے کے معنی میں دوسرے اسباب بھی بیان کیے گئے ہیں جو رسالہ عروة الوثقی میں دیکھے جا سکتے ہیں) اور یہ خدا کا حکم ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے خدا کی طرف سے ان لوگوں پر جو استطاعت رکھتے ہیں خانہ کعبہ کا حج واجب ہے اور جو کوئی کافر ہو جائے اور حج چھوڑ ہی بیٹھے تو خدا دُنیا والوں سے بے نیاز ہے۔” علی بن جعفر کہتے ہیں میں نے آپ سے عرض کیا “تو کیا ہم میں سے جو شخص حج نہیں کرے گا وہ کافر ہو جائے گا ؟” تو آپ نے فرمایا “نہیں بلکہ جو شخص یہ کہے گا کہ حج ایسا نہیں ہے وہ گویا کافر ہو گیا،” (یعنی اس کے واجب ہونے سے انکار کرنے کی بنا پر)
حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) بھی فرماتے ہیں “جو شخص مر جاتا ہے اور حج واجب بجا نہیں لاتا جبکہ حج کی ادائیگی میں اس کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں تھی یعنی اسے کوئی ضرورت یا پریشانی لاحق نہیں تھی نہ اسے کوئی ایسی بیماری لگی تھی جس کی وجہ سے وہ حج نہ کر سکتا ہو نہ کوئی طاقتور شخص اسے روک رہا تھا تو خدا اسے قیامت میں یہودی یا نصرانی اُٹھائے گا۔”
(۱) آپ نے ایک اور حدیث میں فرمایا ہے “جو شخص حج واجب ادا کیے بغیر مر جاتا ہے (جبکہ اس کے لیے کوئی رکاوٹ بھی نہیں تھی) تو وہ یہودی یا نصرانی شمار ہو گا۔” آپ ایک اور روایت میں فرماتے ہیں کہ وہ قیامت میں یہودیوں اور نصرانیوں میں اُٹھایا جائے گا۔
محدث فیض وانی میں فرماتے ہیں “حدیث مذکور کے جملے “حاجة تجحف” کے معنی ایسی حاجت کے ہیں جس نے اس شخص کو مفلس بنا دیا ہے یا اسے عنقریب مفلس بنانے والی ہے اور یہ جو امام نے فرمایا ہے کہ بلاوجہ حج ترک کرنے والا یہودی یا نصرانی مرے گا اس لیے فرمایا ہے کہ حقیقت میں اس پر اس کا ایمان اور اعتقاد نہیں ہے کیونکہ اگر وہ حج پر اعتقاد رکھتا اور بیچ میں کوئی رکاوٹ بھی نہ ہوتی تو حج ضرور کرتا کہ ممکن ہے اگلے سال تک زندہ نہ رہے۔
حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں “جو شخص سالم اور مالدار ہونے کی حالت میں مر جاتا ہے (یعنی حج کر سکتا تھا) اور نہیں کرتا تو وہ ایسا شخص ہو گا جس کے لیے خدا فرماتا ہے کہ اسے قیامت میں اندھا اُٹھاؤں گا” ابوبصیر نے تعجب سے پوچھا “کیا ایسا شخص قیامت میں اندھا اُٹھے گا؟” تو آپ نے فرمایا “ہاں! خدا نے اسے حق کا راستہ دیکھنے کے قابل نہیں رکھا ہے” آپ ایک اور روایت میں فرماتے ہیں “بہشت کے راستے کے لیے اسے اندھا کر دیا ہے۔” (کافی)
(۱)کتاب داستانہائے شگف میں اس حدیث کی تائید میں وہ قصے تنبیی حکایتوں کے سلسلے میں بیان کیے گئے ہیں۔
محمد بن فضیل کہتے ہیں “میں نے حضرت امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) سے پوچھا کہ اس آیت کے کیا معنی ہیں جو خدا فرماتا ہے کہ “جو شخص اس دُنیا میں اندھا ہو گا وہ آخرت میں بھی اندھا اور اور زیادہ گمراہ ہو گا؟”
امام نے فرمایا “یہ وہ شخص ہے جو حج کو ایسی صورت میں بھی ٹال دیتا ہے جبکہ اس کے پاس حج کرنے کے لیے خرچ بھی موجود ہے اور وہ کہتا ہے کہ اگلے سال کر لوں گا یہاں تک کہ حج کرنے سے پہلے مر جاتا ہے۔” (من لایحضرہ الفقیہ)
وہ آیتیں جن سے حج ترک کرنے والا مراد ہے
سورہ منافقون میں کہا گیا ہے “ہم نے جو کچھ تمہیں دیا ہے اسے خدا کی راہ میں خرچ کر ڈالو اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آ جائے اور وہ کہنے لگے کہ اے پروردگار! تو نے میری موت میں دیر کیوں نہیں کی اور مجھے کچھ مہلت کیوں نہیں دی جو میں اس وقت میں صدقہ دیتا (زکوٰة اور دوسرے واجب حقوق ادا کر دیتا) اور نیکوں (حج کرنے والوں) میں سے ہو جاتا لیکن خدا جب کسی شخص کی موت کا وقت آ جاتا ہے تو اس کی موت میں دیر نہیں کرتا۔” (آیات ۱۰۔۱۱)
حضرت امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) سے روایت ہے “فاصدق” سے مراد واجب صدقہ اور “اکن من الصالحین” سے مراد حج کرتا ہے۔” (فقیہ) اور اس آیت میں بھی کہ “کہہ دو کیا ہم تمہیں بتا دیں کہ سب سے زیادہ گھاٹے میں وہ لوگ ہیں جو دُنیا میں گمراہی میں دوڑتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ نیکو کار ہیں۔” (سورہ کہف آیات ۱۰۳۔۱۰۴)حضرت امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ ان لوگوں سے وہ مرا دہیں جو حج کا فریضہ ادا کرنے میں غفلت کرتے ہیں، اسے ٹالتے رہتے ہیں اور ہر سال کہتے ہیں کہ اگلے سال کریں گے۔
حج کو ٹالنے اور ترک کرنے کو گناہِ کبیرہ بتانے والی روایتیں تو بہت ہیں لیکن صرف اتنی ہی مقدار پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
حج میں ڈھیل ڈالنے کے دُنیاوی نتائج
واضح رہے کہ حج ترک کرنے کے کچھ دنیاوی نتائج ہوتے ہیں جن کا حدیثوں میں ذکر کیا گیا ہے ان میں سے ایک اس چیز کے حصول میں ناکامی ہے جس کی خاطر حج ٹالا جاتا ہے۔
حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں “جو شخص کوئی چیز حاصل کرنے یا دُنیا کا کوئی کام کرنے کے لیے حج کو ترک کرے گا، اسے معلوم ہو گا کہ لوگ حج کر کے لوٹ بھی آئے اور اس کا کام پورا نہیں ہو پایا اور اس کا مقصد حاصل نہیں ہو پایا ہے۔”
(من لا یحضرہ الفقیہ)
حج ترک کرنے سے افلاس بھی آتا ہے جیسا کہ جناب رسول خدا نے غدیر خم کے خطبے میں فرمایا تھا “اے لوگو! خانہٴ خدا کا حج کرو، جو گھرانے حج کرتے ہیں وہ دولت مند ہو جاتے ہیں اور جو خاندان حج کو ترک کریں گے وہ مفلس ہو جائیں گے۔” (احتجاج طبرسی) چنانچہ حج سے انسان غنی ہو جاتا ہے جیسا کہ فرمایا ہے۔ ” اے لوگو! خدا حج کرنے والوں کی مدد کرتا ہے اور جو کچھ وہ خرچ کرتے ہیں اس کا عوض (اسی دنیا میں) انہیں مل جاتا ہے اور خدا( آخرت میں) نیک بندوں کا ثواب ضائع نہیں کرتا۔” (احجاج طبرسی)
حضرت امام باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں “تین باتوں کا ثواب آخرت کے علاوہ اس دنیا میں بھی ملتا ہے ۔ حج جس سے تنگدستی دُور ہوتی ہے، صدقہ جو بلائیں رد کرتا ہے، نیکی اور احسان عمر میں اضافہ کرتا ہے۔” (مستدرک)
حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں “اگر لوگ حج ترک کر دیں گے تو ان پر عذاب نازل ہونے میں دیر نہیں لگے گی یا ان پر عذاب نازل ہو گا۔” (کافی)
سماعہ کہتے ہیں کہ حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) نے مجھ سے پوچھا “کیا بات ہوئی کہ تم نے امسال حج نہیں کیا؟” میں نے کہا “میں نے کچھ لوگوں کے ساتھ ایک معاملہ کیا ہے اور کچھ دوسرے کام تھے اور امید ہے کہ یہ کام جو میرے حج میں رکاوٹ بنے ہیں نیک ہوں گے۔” آپ نے فرمایا “خدا کی قسم خدا نے ان کاموں میں کوئی نیکی نہیں رکھی ہے جو تیرے حج کی راہ میں رکاوٹ بنے ہیں۔ ہر شخص اپنے کیے ہوئے گناہ کے باعث حج سے محروم ہوتا ہے۔” (کافی)
اسحٰق بن عمار نے حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) سے عرض کیا “ایک شخص نے حج کو جانے کے لیے مجھ سے مشورہ کیا اور چونکہ میں نے اسے کمزور پایا (یعنی اس کی جسمانی اور مالی طاقت وتوانائی کم دیکھی) میں اسے نے اسے حج پر جانے سے روک دیا۔” امام نے فرمایا “تُو نے جو یہ کام کیا ہے اس کے باعث تو اس بات کا سزاوار ہے کہ تجھے ایک سال تک کے لیے کوئی مرض لاحق ہو جائے۔” اسحق کہتے ہیں کہ جیسا کہ امام نے فرمایا تھا میں ایک سال تک کے لیے مریض ہو گیا۔ (کافی)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کو یہ نہیں چاہیئے کہ کسی کو نیک کام خصوصاً حج سے روکے اور اگر اس نے ایسا کیا تو گویا اس نے خدائی راستہ بند کر دیا۔ اس کے بجائے اسے چاہیئے کہ نیکی میں جلدی کرنے کا شوق پیدا کرے کہ ایسا نہ ہو اس سے یہ کام رہ جائے۔ اسی طرح ایک شخص کو یہ بھی نہیں چاہیئے کہ کسی کو پیشِ نظر نیک کام سے دوسری نیکی کی طرف پھیرے جو اس کی سمجھ میں بہتر ہے کیونکہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ ایک نیکی کو ترک کر دے اور بہتر نیکی بھی حاصل نہ کر سکے۔ اگر وہ نیکی کی نیت رکھنے والے کی حوصلہ افزائی کرے اور اسے نیکی میں جلدی کرنے پر مجبور کرے تو اس کا امر بالمعروف کرنے والوں میں شمار ہو گا۔
حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں “اپنے دینی بھائی کو حج سے روکنے سے ڈرو اور پرہیز کرو۔ اگر کسی نے ایسا کیا تو اس عذابِ آخرت کے علاوہ جو اسے دیا جائے گا وہ اس دُنیا میں بھی بلاؤں میں مبتلا ہو گا۔” (وافی)
حج کی فضیلت
جس طرح حج ترک کرنے کی سخت سزائیں مقرر ہیں اسی طرح اس کے بجا لانے پر بھی بڑے بڑے انعامات، کثیر تعداد فوائد اور دُنیا وآخرت کی نیکیاں رکھی گئی ہیں جن کا اکثر روایتوں میں ذکر ملتا ہے۔ ان میں سے کچھ کا یہاں تذکرہ کیا جاتا ہے۔
جناب رسولِ خدا فرماتے ہیں “حج کرنے والوں کی تین قسمیں ہوتی ہیں پہلی قسم وہ ہے جس میں شامل لوگوں کا حصہ دوسروں سے زیادہ ہے اور وہ یہ کہ ان کے اگلے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے اور خدا انہیں عذابِ قبر سے محفوظ رکھے گا۔ ان کے بعد وہ لوگ ہیں جن کے صرف پچھلے گناہ بخشے جائیں گے اور تیسری قسم میں وہ لوگ ہیں جن کا مال اور اولاد اس وقت تک خدا کی محافظت میں رہیں گے جب تک وہ حج سے نہیں لوٹ آتے۔” (کافی)
ایک اور حدیث میں ہے کہ اس قسم میں ایسا شخص شامل ہو گا جو حج کے قبول ہونے کی شرائط نہ رکھنے کے باعث آخرت کا ثواب نہیں پائے گا اور صرف حج سے واپسی تک اس کے اہل وعیال اور مال کی حفاظت ہو گی۔
مسجد الحرام میں ایک شخص نے حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) سے پوچھا “گناہ اور بدقسمتی میں سے سے بڑھا ہوا کونسا شخص ہے؟” آپ نے فرمایا “وہ شخص جو موقف (یعنی عرفات اور مشعرالحرام) کے درمیان کھڑا رہتا ہے، صفا اور مروہ کے درمیان دوڑتا ہے، خانہٴ خدا کے گرد طواف کرتا ہے ، مقامِ ابراہیم میں نماز پڑھتا ہے اور اس کے بعد یہ سمجھتا ہے کہ خدا نے اسے نہیں بخشا ہے۔ ایسے شخص کا گناہ سب سے بڑھا ہوا ہے۔” (کیونکہ وہ خدا کی رحمت سے ناامید ہے اور جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ مایوسی گناہِ کبیرہ ہے)۔
(وافی۔ من لا یحضرہ الفقیہ)
حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) اپنے بزرگوں سے روایت کرتے ہیں کہ ایک اعرابی حضرت رسولِ خدا کی خدمت میں حاضر ہوا اور بولا “میں حج کے لیے روانہ ہوا اور نہیں پہنچ پایا حالانکہ میں مالدا ہوں۔ حکم دیجئے میں کتنا مال خرچ کروں جو حج کا ثواب حاصل کر سکوں؟” آنحضرت نے فرمایا “کوہ ابوقبیس کی طرف دیکھ اگر یہ سب سونا ہو جائے اور تیری ملکیت میں آ جائے اور تو سب کو خدا کی راہ میں خرچ کر دے، پھر بھی تو حج کرنے والے کے درجے کو نہیں پہنچ سکے گا۔” اس کے بعد آپ نے فرمایا جس وقت حج کرنے والا سفر حج کے انتظام میں مشغول ہوتا ہے جو چیز اُٹھا اُٹھا کر رکھتا جاتا ہے اس کے عوض اس کے نام دس دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اس کے دس درجے بلند ہو جاتے ہیں، جب اونٹ پر سوار ہو جاتا ہے تو وہ جو قدم اُٹھاتا ہے ہر قدم پر اس کے لیے ایسا ہی ہوتا ہے اور جب اس نے خانہٴ خدا کا طواف کر لیا تو وہ گناہوں سے پاک ہو گیا، جب وہ صفا اور مروہ کے درمیان دوڑ چکا تو پھر گناہوں سے دُور ہو گیا، جب عرفات میں ٹھہرا تو پھر گناہوں سے پاک ہو گیا، جب مشعر میں ٹھہرا تو پھر گناہوں سے پاک ہو گیا اور جب اس نے رمی کی تو پھر گناہوں سے پاک ہو گیا۔ اس طرح آنحضرت ہر موقف کا بیان فرماتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے ک ہوہ گناہوں سے پاک ہو گیا ،وہ گناہوں سے پاک ہو گیا۔ پھر آپ نے اعرابی سے فرمایا تو حج کرنے والے درجات تک کیسے پہنچ سکتا ہے؟” (تہذیب باب فضل الحج)
حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں “حج کرنے والے کے چار ماہ تک گناہ نہیں لکھے جاتے بلکہ اگر گناہ کبیرہ نہ کرے تو اس کا نام اس مدت میں نیکیاں ہی نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔”
محدث فیض نے اس حدیث کی شرح میں فرمایا ہے کہ گناہوں کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں۔ نتیجہ خیزی، دل کے سیاہ کرنے اور چھوٹائی بڑائی کے لحاظ سے ان کے درجے ہوتے ہیں۔ شاید اس حدیث سے ان کی مراد یہ ہے کہ حج کرنے والا ہر موٴقف میں ایک خاص قسم کے گناہ سے پاک ہو جاتا ہے یا ایک درجے کے گناہ سے پاک ہو جاتا ہے یہاں تک کہ ہر قسم کے گناہ سے پاک ہو جاتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ بعض گناہوں کو صرف مرنے کے دن عرفات کا قیام ہی پاک کرتا ہے۔
یہ بھی فرماتے ہیں کہ حج اور عمرہ کرنے والے خدا کے مہمان ہوتے ہیں۔ اگر وہ خدا سے کچھ مانگے ہیں تو وہ انہیں عطا کر دیتا ہے، اگر اسے پکارتے ہیں تو وہ جواب دیتا ہے، اگر کسی کی سفارش کرتے ہیں تو قبول کر لیتا ہے، اگر خاموش رہیں گے تو مانگے بغیر انہیں عطا کر دے گا اور ایک ایک درہم کے عوض کو اس کی راہ میں کرچ کریں گے ہزار ہزار بخش دے گا۔ (وافی)
آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ جب حاجی مکے میں پہنچتا ہے خدا اس پر دو فرشتے متعین کر دیتا ہے جو طواف، نماز اور سعی میں اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ جب مرنے کے دن وہ قیام کرتا ہے تو اس کا دایاں کندھا تھپتھپاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا نے تیرے پچھلے گناہ بخش دئیے اب اپنے مستقبل کی فکر کر۔ (وافی)
حج کی فضیلت کے متعلق بہت سی حدیثیں ہیں لیکن اتنی ہی کافی ہیں۔
حج کے واجب ہونے کی شرطیں
اوّل بالغ ہونا
چنانچہ اگر کوئی بچہ بلوغ سے پہلے حج کرتا ہے تو اگرچہ یہ اور دوسری عبادتوں کی طرح صحیح اور مستحب ہو گا لیکن حج واجب کا عوض نہیں ہو سکے گا۔ اگر بالغ ہونے کے بعد حج کی تمام شرطیں اس میں جمع ہو گئیں تو حج اس پر واجب ہو گا۔
دوسری شرط عقل
تیسری شرط اس کا آزاد ہونا (غلام نہ ہونا)
چوتھی شرط یہ ہے کہ حج کرنے کی وجہ سے وہ ایسا مجبور نہ ہو جائے جو کوئی حرام کام انجام دے یا واجب عمل ترک کر دے (بعض کہتے ہیں کہ اس معاملے میں اہم اور مہم کا لحاظ کرنا چاہیئے)۔
پانچویں شرط یہ ہے کہ حج پر جانے کی استطاعت رکھتا ہو۔
استطاعت کی شرطیں
استطاعت چند باتوں پر منحصر ہے:
اوّل
حج پر جانے اور واپس آنے کے لیے توشہ اور سواری رکھنا یا اتنا مال اس کے پاس ہو جس سے وہ اس سفر کے لیے اپنی حیثیت کے مطابق توشہ اور سواری کا انتظام کر سکے۔
دوسری
اتنی صحت اور طاقت جو حج کر سکے اور واپس آ سکے۔
تیسری
راستے میں کوئی ایسی رکاوٹ نہ ہو جو حج کے سفر میں خلل ڈالے۔چنانچہ اگر اسے اس بات کا اندیشہ ہو کہ راستے میں اس کی جان، مال یا آبرولٹ جائے گی تو اس پر حج واجب نہیں ہے۔
چوتھی
حج کی تکمیل تک کے لیے اس کے پاس وقت ہو۔
پانچویں
حج پر جانے اور واپس آنے تک کی مدت کے لیے اپنے کنبے کا خرچ رکھتا ہو اور اس کے کنبے میں وہ لوگ شمار ہوں گے جو اس کی سرپرستی اور کفالت میں ہوں گے چاہے اس پر ان کا نفقہ واجب ہو جیسے بیوی اور اولاد یا واجب نہ ہو جیسے چھوٹا یا بڑا بھائی جو تنگدست ہوں اور بھائی کے ذمے روٹی کھاتے ہوں یا جسے اس نے اپنے پاس رکھ لیا ہو اور جس کا وہ کفیل ہو یا جیسے نوکر اور ماما۔
چھٹی
حج سے واپسی پر روزی کی خاطر تکلیف اور پریشانی میں نہ پڑ جائے یعنی اس کی کمائی کا سلسلہ یا جائیداد کی آمدنی یا اپنی اور اپنے کنبے کی روزی کے لیے کوئی دوسرا ذریعہ ایسا نہ ہو جو جھگڑے میں پڑ جائے۔
جان لینا چاہیئے کہ عمر بھر میں ایک سے زیادہ حج واجب نہیں ہیں۔ ایک حج ادا کرنے کے بعد استطاعت کی صورت میں باقی تمام برسوں کے حج مستحب ہیں۔ مذکورہ شرطوں کے جمع ہو جانے پر واجب ہے کہ اسی سال حج کرے۔ دوسرے یعنی اگلے سال کے لیے اسے ملتوی کرنا حرام اور گناہِ کبیرہ ہے جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے۔ اگر بھول گیا اور اس سال حج نہیں کیا تو واجب ہو جاتا ہے کہ اگلے سال ادا کرے چاہے استطاعت نہ بھی رکھتا ہو اور مصیبت اور پریشانی میں مبتلا ہو جائے جس سے حج نہ کر سکے اور اس بیماری سے شفا پانے کی بھی کوئی امید نہ ہو تو واجب کہ اپنی طرف سے حج کروائے یعنی ایک شخص کو مقرر کرے کہ وہ اس کی طرف سے حج ادا کر دے اور وہ اس شخص اجیر کے اخراجات بھی دے۔ اگر اس نے نائب بھی مقرر نہیں کیا اور مر گیا تو واجب ہے کہ لوگ اس کے اصل مال سے حج کے اخراجات علیحدہ کر دیں اور اس کا واجب حج ادا کرنے کے لیے نائب مقرر کر دیں چاہے اس نے وصیت کی ہو یا نہ کی ہو اور چاہے اتنی رقم کے علاوہ اس کے ترکے یا وراثت میں کچھ مال باقی رہے یا نہ رہے چاہے اس کا وارث نابالغ ہی کیوں نہ ہو کیونکہ مردے کے واجب حج کی نیابت اس کے دوسرے مالی قرضوں کی طرح ہے جو وراثت پر مقدم ہے یعنی پہلے اس کا قرض ادا کرنا چاہیئے پھر اگر کچھ مال بچ جائے تو وارثوں میں بانٹ دیا جائے۔
اس صورت میں جبکہ مرنے والے نے حج کی وصیت کی ہو اس کے حج کے اخراجات اس کے ایک تہائی مال سے محسوب کرنا چاہئیں۔
زندہ یا مردہ کے لیے نائب مقرر کرنا مستحب ہے
مستحب حج کے لیے زندہ یا مردہ شخص کی طرف سے نائب مقرر کرنا مستحب ہے جیسا کہ وسائل میں روایت ہے کہ محمد بن عیسیٰ یقطینی کہتا ہے کہ حضرت امام رضا (علیہ السلام) نے میرے پاس کچھ رقم بھیجی کہ حضرت کی طرف سے میں خود اور میرے بھائی موسیٰ اور یونس بن عبدالرحمن حج کریں۔
عبداللہ بن سنان کہتا ہے کہ میں حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) کے پاس تھا کہ ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ امام نے اسے تیس دینار دئیے کہ آپ کے فوت شدہ بیٹے اسماعیل کی طرف سے حج بجا لائے اور اس پر یہ شرط عائد کر دی کہ اسماعیل کی طرف سے حج اور عمرہ کے تمام افعال بجالائے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا “اگر تُو ایسا کرے گا تو اسماعیل کو ایک مستحب حج کا ثواب ملے گا کیونکہ یہ حج اس کا مال خرچ کرنے سے ہو گا اور تجھے نو حج کا ثواب ملے گا اس لیے کہ تو اپنے جسم کو تکلیف دے گا۔” (وسائل الشیعہ)
امام کا نائب پرہیز گار ہونا چاہیئے
وسائل الشیعہ میں لکھا ہے کہ ابو محمد علجی کے دو بیٹے تھے ایک پرہیز گار اور دوسرا بدکار۔ کچھ شیعوں نے اسے رقم دی کہ حضرت حجةبن الحسن کی طرف سے حج کے لیے نائب مقرر کر لے اور یہ شیعوں کی اچھی عبادت تھی۔ چنانچہ ابو محمد نے وہ رقم اپنے بدکار بیٹے کو دے دی اور اس کے ساتھ حج کیا۔ ابو محمد کہتا ہے کہ میں نے عرفے کے دن ایک گیہوں رنگ کے خوبصورت اور خوش لباس جوان کو دیکھا جو دعا مانگنے اور گڑگڑانے میں سب سے بڑھا ہوا تھا۔ جب لوگوں کے عرفات سے مشعر کے لیے روانہ ہونے کا وقت آیا تو اس نے مجھ سے کہا “اے شیخ کیا تجھے خدا سے شرم نہیں آتی؟” میں نے پوچھا “کیوں؟” وہ بولا “تجھ سے حج کرنے کے لیے کسی ایسے نائب کے لیے کہا گیا تھا جسے تو جانتا ہو اور تو اسے ایسے شخص کے سپرد کر دیتا ہے جو شراب پیتا ہے اور گناہ پر پیسہ خرچ کرتا ہے، کیا تو اندھا ہو جانے سے نہیں ڈرتا؟” پھر اس نے میری آنکھوں کی طرف اشارہ کیا، میں شرمندہ ہوا، جب میرے حواس درست ہوئے تو میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی لیکن اسے نہیں پایا۔ چالیس دن گذرنے سے پہلے پہلے میری آنکھوں میں زخم ہو گئے اور میں اندھا ہو گیا۔
کتاب کافی میں موسیٰ بن قاسم سے روایت ہے کہ میں نے حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کی خدمت میں عرض کیا “میں آپ اور آپ کے بزرگوں کی طرف سے طواف کرنا چاہتا تھا لیکن بعض لوگوں نے کہا کہ امام کی طرف سے طواف کرنا جائز نہیں ہے”۔ حضرت نے فرمایا “جس قدر کر سکتا ہے طواف کر بے شک یہ کام جائز ہے۔” راوی کہتا ہے “پھر تین سال کے بعد میں آپ کی خدمت میں پہنچا ور میں نے عرض کیا کہ چند سال پہلے میں نے آپ سے اجازت لی تھی کہ آپ اور آپ کے بزرگوں کی طرف سے طواف کروں، آپ نے اجازت دے دی تھی۔ چنانچہ جتنا خدا نے چاہا تھا میں نے طواف کیا، ایک دن جناب رسولِ خدا کے لیے طواف کیا، ایک دن امیرالمومنین کے طواف کیا، اسی طرح آخری دن میں نے آپ کے لیے طواف کیا۔ اے میرے آقا! میں نے جن لوگوں (محمد وآلِ محمد) کا ذکر کیا ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کی محبت کو میں نے اپنا دین وایمان جانا ہے”۔ حضرت نے فرمایا” ایسی صورت میں تو نے ایسا دین اختیار کیا ہے جس کے علاوہ خدا کوئی دوسرا دین قبول نہیں کرتا۔ پھر میں نے کہا “اکثر ایسا ہوا ہے کہ میں نے آپ کی والدہ حضرت فاطمہ کے لیے طواف کیا اور کبھی نہیں کیا۔ ” حضرت نے فرمایا “اکثر ایسا کیا کر بے شک یہ کام جو تو کرتا ہے تمام کاموں سے افضل ہے۔”
حج واجب ہونے کے اسباب
اہل بیت سے ملنے والی چند روایتوں میں حج کے واجب ہونے کے اسباب اور اس کے مناسک کی مصلحتیں بیان کی گئیں ہیں۔ چنانچہ وسائل الشیعہ میں حضرت امام رضا (علیہ السلام) سے ایک روایت بیان کی گئی ہے جس کا خلاصہ نیچے پیش کیا جاتا ہے۔
آپ فرماتے ہیں کہ لوگوں کو حج کرنے کا حکم صرف اسی لیے دیا گیا ہے کہ انہیں مادی اور روحانی فائدے پہنچیں یعنی:
(۱) خدا سے قریب ہونا
(۲) بہت زیادہ انعامات حاصل کرنا
(۳) کیے ہوئے گناہوں سے پاک ہونا جبکہ اپنے ماضی پر شرمندہ ہو اور مستقبل میں خدا کی اطاعت اور بندگی کرنا چاہتا ہو
(۴) خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنا اور خدا کی خاطر اپنے جسم کو تکلیف دینا
(۵) اپنے کنبے سے الگ ہونا اور ان کی محبت ترک کر دینا
(۶) خوشیوں سے اپنے نفس کو روکے رکھنا اور سردی او گرمی میں عاجزی اور انکسار سے خدا کی بارگاہ میں حاضر ہونا غرض تمام تعلقات ختم کر کے خدا سے پوری پوری لَو لگانا۔
(۷) دُنیا بھر کے مسلمانوں کو بہت سارے فائدے پہنچانا چاہے وہ مکے میں ہوں چاہے دوسرے شہروں میں چاہے وہ لوگ ہوں جو تجارت، مال برداری، خرید وفروخت، مزدوری اور کرائے پر چیزیں دینے سے کافی فائدہ اُٹھاتے ہیں، چاہے وہ بہت سے غریب ہوں جنہیں کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے اور چاہے بہت سے ایسے مسلمان ہوں جن کی حاجتیں ایک مقام پر بہت سے لوگوں کے جمع ہونے سے پوری ہو جاتی ہیں
(۸) حج میں اکٹھے ہونے سے بہت سے ناواقف لوگوں کو صحیح اعتقادات اور دین کے سچے احکام اور اہل بیت کی روایتیں اور ان کے بارے میں چیزیں معلوم ہو جاتی ہیں۔
خدا کی بند گی، فرشتوں سے مشابہت
حضرت امیرالمومنین نہج البلاغہ کے ایک خطبے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ خدا نے تم پر خانہ کعبہ کا حج واجب کر دیا ہے اور اسے لوگوں کا قبلہ قرار دیا ہے۔ وہاں حج کرنے والے اسی طرح اکٹھے ہوتے ہیں جس طرح چوپائے (اس گھر میں ان لوگوں کا ثواب حاصل کرنے کے لیے جمع ہونا ایسا ہی ہے جیسا کسی پانی کے چشمے پر پیاسے چوپایوں کا ہجوم کرنا) اور وہاں پہنچنے کا ایسا ہی شوق رکھتے ہیں جیسا کبوتر اپنے گھونسلے میں پہنچنے کا شوق رکھتے ہیں۔ خدائے بزرگ نے اس گھر کو اپنی بزرگی اور عظمت مقابلے میں لوگوں کی عاجزی اور اپنی عزت اور سلطنت کی تصدیق کی علامت اور نشانی قرار دیا ہے اور اپنے ان سننے والے بندوں کے لیے منتخب کیا ہے جنہوں نے (وہاں جانے کے لیے) اس کی دعوت قبول کی اور اس کے حکم کو صحیح مان کر اس پر عمل کیا۔ پیغمبروں کی جگہ کھڑے ہو کر اپنے آپ کو ان فرشتوں سے مشابہ قرار دیا جو عرش الہٰی کا طواف کرتے ہیں۔ اپنے ایمان کے سرمائے سے خدا کی عبادت کے کاروبار میں بہت زیادہ فائدہ اُٹھتے ہیں اور جلدی کرتے ہیں اور خدا کی بخشش کی وعدہ گاہ کے قریب پہنچنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خدا نے اس گھر کو اسلام کی نشانی اور پناہ چاہنے والوں کی پناہ گاہ بنایا ہے اور اس کا حج واجب کر دیا ہے، اس کا احترام لازم قرار دیا ہے اور وہاں جانے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ سورہ آلِ عمران آیت ۹۷ میں فرمایا ہے “بیت الحرام کا حج خدا کا ان لوگوں پر حق ہے (اور اس کا حق ادا کرنا واجب ہے) جو وہاں جانے کی استطاعت اور طاقت رکھتے ہیں اور جو کوئی کافر ہو جائے (استطاعت رکھتے ہوئے بھی خدا کا حکم نہ بجا لائے) تو وہ خدا کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا اس لیے کہ خدا تمام دُنیاوالوں سے بے نیاز ہے یعنی ان سے کوئی حاجت نہیں رکھتا (اسے لوگوں کے ایمان اور عبادت کی ضرورت نہیں ہے اس لیے گھاٹا اسی کا ہوتا ہے جو نافرمانی کرتا ہے۔)” نہج البلاغہ جلد اوّل فیض الاسلام خطبہ ۲ صفحہ ۳۲)
نراقی نے معراج السعادة میں حج کے ظاہری اور باطنی اسباب نہایت شیریں عبارتوں میں اور اچھے اسالیب سے بیان کیے ہیں جس کے کچھ جملے یہاں دہرائے جاتے ہیں۔ حج دین کا سب سے بڑا ستون ہے اور اتنی اچھی بات ہے کہ انسان کو خدا کے قریب پہنچا دیتی ہے اور وہ اللہ کی طرف سے سب سے اہم فریضہ اور سب سے سخت جسمانی عبادت ہے۔ اس کا ترک کرنے والا یہودیوں اور عیسائیوں میں شمار ہوتا ہے اور بہشت سے محروم رہتا ہے۔ اس کی فضیلت اور اسے ترک کرنے کی برائی سے متعلق حدیثیں مشہور ہیں اور حدیث کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں۔
انسان کی پیدائش کی اصلی غرض یہ ہے کہ وہ خدا کو پہچانے اور اس سے محبت اور انس رکھے اور یہ اس کے نفس کی پاکیزگی پر منحصر ہے اور یہ اس بات پر منحصر ہے کہ وہ فطری خواہشات سے دُور رہے، اپنے نفس کو شہوانی لذتوں سے بچائے، دُنیا کا مال ومتاع ترک کر دے۔ خدا کی خاطر سخت اعمال بجا لانے میں اپنے جسم اور اعضائے جسم کو استعمال کرے، خدا کو برابر یاد رکھے اور دل کو اس کی طرف متوجہ رکھے۔
اسی لیے خدا نے ایسی عبادتیں مقرر فرمائی ہیں جن سے یہ اغراض حاصل ہوتی ہیں۔ چنانچہ بعض عبادتیں خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے سے متعلق ہیں جو مالِ دُنیا سے دل ہٹا دیتی ہیں جیسے زکوٰة، خمس اور صدقات۔بعض عبادتوں میں خواہشات اور لذات کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ جیسے روزہ۔ بعض خدا کو یاد کرنے، اس سے لَو لگانے اور جسمانی اعضاء کے استعمال سے متعلق ہیں جیسے نماز اور حج کی عبادت ان سب اغراض پر مشتمل ہے۔ کیونکہ اس میں وطن چھوڑنا، جسم کو استعمال کرنا، مال کی خیرات کرنا، امیدیں توڑ لینا، محنت ومشقت برداشت کرنا، خدا سے کیے ہوئے عہد کو دُہرانا، طواف، دعا، نماز اور ایسے کاموں میں مشغول ہونا بھی شامل ہے جن سے آدمی مانوس نہیں ہو پایا اور جنہیں عقلیں نہیں سمجھ پاتی ہیں۔ مثلاً کنکریاں مارنا، صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا۔ ان جیسے اعمال سے انتہائی بندگی اور ذلت اور بے مائگی ظاہری ہوتی ہے کیونکہ تمام عبادتیں ایسے اعمال ہیں جنہیں بہت سی عقلیں سمجھ لیتی ہیں اور اسی لیے طبیعتیں ان سے مانوس ہو جاتی ہیں اور نفس کو ان سے لگاؤپیدا ہو جاتا ہے ۔
لیکن حج کے بعض اعمال ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ہم جیسوں کی عقلیں ان کی تہ تک نہیں پہنچ پاتیں۔ چنانچہ انہیں مالک کی بندگی اور اس کے حکم کی بجا آوری ہی کے لیے ادا کرتے ہیں اور ایسے ہی عمل میں بندگی کا اظہار زیادہ ہوتا ہے کیونکہ حقیقی بندگی اسی عمل میں ہوتی ہے جس کا سبب اپنے مالک کی اطاعت کے سوا اور کچھ نہ ہو یہی وجہ تھی کہ رسول خدا نے حج کے سلسلے میں فرمایا ہے کہ “لبیک بحجة حقاً تعبداً ورقاً” یعنی اے خدا میں نے تجھے بندگی اور اطاعت سے حج کر کے جواب دیا ہے اور دوسری عبادتوں میں ایسا نہیں فرمایا۔ اس لیے ایسی عبادت جس کی تہ تک کسی کی عقل نہ پہنچ پائے، بندگی ظاہر کرنے میں زیادہ کامل ہے۔ اب جو لوگ ان عجیب کاموں پر تعجب کرتے ہیں وہ عبودیت اور بندگی کے اسرار نہیں جانتے اور یہی وجہ حج کے مقرر کرنے کی ہے۔
حج کے ہر عمل میں آخرت کی کسی نہ کسی حالت کا نمونہ ہوتا ہے یا اس کا کوئی اور سبب ہوتا ہے جیسا کہ اس کا ذکر کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ حج کی عبادت کے لیے لازمی ہے کہ دُنیا والے ایک ایسی جگہ اکٹھے ہوں جہاں وحی لانے والے فرشتے آتے جاتے رہے ہیں اور رسولِ اکرم کی خدمت میں پہنچے ہیں اور آپ سے بھی پہلے خدا کے خلیل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس مقام پر پہنچے تھے اور وہاں ان پر فرشتے نازل ہوتے رہے بلکہ وہ مقام ایسی پاک زمین ہے جہاں آدم (علیہ السلام) سے خاتم تک بڑے بڑے نبی برابر ٹھیرے رہے ہیں، ہمیشہ وحی نازل ہوتی رہی ہے اور فرشتے اُترتے رہے ہیں۔ اسی جگہ سیّد الانبیاء پیدا ہوئے اور آپ کے اور تمام نبیوں کے مبارک قدم اکثر اس زمین پر پڑے، خدا نے اسے اپنا گھر کہا، اپنے بندوں کی عبادت کی غرض سے بنایا، اپنے گھر کے اطراف کو حرم گاہ مقرر کیا۔ عرفات کو اپنے گھر کے ابتدائی میدان سے مثل قرار دیا، اپنے گھر کے احترام اور عزت کی غرض سے اس جگہ جانداروں کا ستانا اور درختوں اور گھاس وغیرہ کا اکھاڑنا حرام کر دیا۔ اسے بادشاہوں کی رجدھانی کی خاطر خاص اور اہم مقام قرار دیا جس کو دیکھنے کے لیے لوگ لمبے لمبے سفر کر کے دُور دراز کے مقامات سے الجھے بالوں اور دھول سے اَٹے ہوئے چہروں اور جسموں کے ساتھ وہاں آئیں تاکہ اس گھر کے مالک کے آگے جھکیں اور زبان سے اقرار کریں کہ وہ زمان اور مکان سے ماورا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایسے محترم مقام پر جمع ہونے سے محبت پیدا ہوتی ہے اور دُنیا بھر سے حج کے لیے آنے والے اچھے اچھے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے اور صحبت رہتی ہے۔ دعائیں بہت جلد قبول ہوتی ہیں۔ پیغمبراکرم ، ان کی عظمت وبزرگی، دینِ الہٰی کے رائج کرنے اور خدائی احکام کے پھیلانے میں ان کی کوشش اور محنتیں یاد آ جاتی ہیں اور یہ سب باتیں مل کر نفس کو پاک وپاکیزہ بنا دیتی ہیں۔

http://shiastudies.com/ur/201/%d8%a7%db%8c%da%a9-%d8%a7%d9%85%d8%b1-%d9%88%d8%a7%d8%ac%d8%a8%d8%8c%d8%ad%d8%ac-%da%a9%db%8c-%d8%aa%d9%88%db%81%db%8c%d9%86/

تبصرے
Loading...