امربالمعروف ونہی ازمنکر آئمہ(علیہم السلام) کی زندگی میں

امربالمعروف ونہی ازمنکر آئمہ(علیہم السلام) کی زندگی میں

آئمہ اطہار(علیہم السلام)نے جب کوئی تحریک شروع کی تو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے لئے تھی ۔ اگر حکومت وقت سے جنگ کر نے کی قدرت تھی یا منکرات اس قدر بڑھ گئے تھے کہ قیام ضروری ہو گیا تھا تو ہمیں کر بلا کی وہ نہ بھولنے والی تحریک یاد آتی ہے جس کا مقصد خود امام حسین- کچھ یوں بیان فرماتے ہیں:”میں نے ہوس اور جاہ طلبی کے لئے قیام نہیں کیا ہے میرا خروج اور قیام اپنے جد کی امت کی اصلاح کے لئے ہے میں چاہتا کے نیکی کی دعوت دوں اور برائیوں سے روکوں”۔(نفس المہوم۔ صفحہ۴۵)اور اگر قیام نہ کر سکے تو قول اور عمل سے یہ جہاد انجام دیا اور جابر سے جابر حکمرانوں کے سامنے حق گوئی کو ترک نہ کیا۔شقرانی رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے آزادکر دہ غلام کا بیٹا تھا اسی وجہ سے خاندان نبوت سے آشنائی بھی تھی لیکن اس کے با وجود شراب پیتا تھا وہ خود نقل کر تا ہے کہ: ایک دفعہ منصور دوانیقی لوگوں میں تحفے تقسیم کر رہا تھا لوگوں کا ہجوم لگ گیامیں کسی کو نہیں پہچانتا تھا جس کے ذریعے سے یہ تحفہ حاصل کر تا ۔ دیکھا کہ امام صادق- وہاں سے گزر رہے ہیں میں نے اپنی حاجت ان سے بیان کی امام- نے اس کو قبول کر لیا اور آگے جا کر میرے لئے تحفہ لے لیا اور مجھ کو تحفہ دیتے ہوئے فرمایا:”اے شقرانی نیکی ہر شخص سے ہو اچھی ہے مگر تم سے بہت اچھی کیونکہ تم سے ہماری نسبت ہے اور برائی ہر شخص سے ہو بری ہے لیکن تم سے ہماری نسبت ہے اس لئے بہت بری ہے”۔انوار البھیہ صفحہ ۲۴۵ایک دفعہ امام جعفر صادق- حیرہ کے سفر پر گئے ہوئے تھے (حیرہ کو فہ اور بصرہ کے درمیان ایک شہر ہے )وہاں پر منصور دوانیقی بھی موجود تھا اور اس نے اپنے بیٹے کی ولادت کی خوشی میں جشن کا اہتمام کیا تھا امام صادق- کو بھی نا گزیر وہاں پر جانا پڑا دسترخوان بچھا یا گیا اور مہمان کھانے میں مشغول ہو گئے اسی دوران کسی نے پانی مانگا تو پانی کے بجائے اس کو شراب پیش کی گئی جیسے ہی شراب کا جام اس کے ہاتھ میں دیا گیا ویسے ہی امام صادق- اپنی جگہ سے کھڑے ہوگئے اور یہ فرماتے ہوئے جشن کی محفل کو ترک کر دیا کہ رسول خدا کا ارشاد ہے۔ملعون ہے وہ شخص جو ایسے دسترخوان پر بیٹھے کہ جہاں شراب ہو۔(فروع کافی جلد۶ صفحہ ۲۶۸)لمحہ فکر یہ ہے ہمارے لئے کہ کیا ہم کسی ایسی محفل میں ہوتے جس میں سر عام گناہ انجام پا رہے ہوں تو کیا ہم اس کو ترک کر سکتے ہیں ۔ اگر ہم واقعاً امام- کے پیرو کار ہیں تو ہمیں یہ کر نا پڑے گا۔یعقوب سراج کہتے ہیں کہ ایک دفعہ امام صادق- کی خدمت میں حاضر ہوا۔ دیکھا کہ گہوارے کے نزدیک اپنے فرزند (موسیٰ کاظم-) سے باتیں کر رہے ہیں جب فارغ ہوئے تو میں ان کے نزدیک گیا۔ مجھ سے فرمانے لگے کہ اپنے مولا کے نزدیک جاؤ اور سلام کرو میں گہوار ے کے نزدیک گیا اور سلام کیا موسی بن جعفر- جو کہ بچے تھے اور گہوارے میں تھے متانت کے ساتھ میرے سلا م کا جواب دیا اور مجھ سے فرمانے لگے کہ جاؤ جو نام کل تم نے اپنی بیٹی کے لئے چنا ہے اس کو تبدیل کردو اور پھر میرے پاس آؤ کیونکہ خدا اس قسم کے ناموں کو پسند نہیں کر تا ۔ امام صادق- نے مجھ سے فرمایا کہ جاؤ اور اس کے حکم کے مطابق عمل کرو تا کہ ہدایت پاؤ یعقوب سراج کہتے ہیں کہ میں نے بھی فوراً اپنی بیٹی کا نام تبدیل کر دیا۔ (اصول کافی جلد ۱صفحہ۳۱۰)عام طور پر لوگ اس طرف توجہ نہیں کر تے اور بچوں کے نام رکھتے ہوئے بے احتیاطی سے کام لیتے ہیں جب کہ بچوں کے ناموں کا ان کی شخصیت پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ نام کے چناؤ کے وقت اس بات کو ضرور مد نظر رکھیں کہ وہ خدا کو پسند ہو۔موسی بن بکیر کہتے ہیں کہ حضرت امام موسیٰ کاظم- کے حضور میں تھا اور کچھ دینار حضرت کے آگے رکھے ہوئے تھے آپ- نے ان میں سے ایک سکہ کو اٹھایا اور دو ٹکڑے کر کے مجھے دیتے ہوئے فرمایا:”اس جعلی دینار کو کنوئیں میں پھینک دو تاکہ اس سے کوئی معاملہ نہ ہو سکے” (اصول کافی جلد ۵، صفحہ۱۶۰)امام- کے پاس حکومت نہیں تھی لیکن پھر بھی امام- کے لئے یہ بات قابل بر داشت نہ تھی کہ معاشرے میں لوگوں کے ساتھ کسی قسم کی خیانت ہو ۔حضرت امام رضا- جب خراسان میں تشریف فرما تھے تو مامون کے حکم سے مختلف فرقوں کے علماء و اکابر مناظرہ کے لئے آتے تھے اور امام- ان سے بحث و مناظرہ فر ماتے تھے۔ اسی طرح کی ایک نشت میں عمران صابی جو کہ نامور دانشمندوں میں سے تھا امام- سے توحید کے سلسلے میں سوال و جواب کر رہا تھا ۔ اما م- محکم دلیلوں کے ذریعے سے اس کے نظریات کو رد کر رہے تھے بحث اور مناظرہ اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا نماز کا وقت ہو گیا۔ امام- نے مامون کو مخاطب کر تے ہوئے فرمایا ” اَلصَّلٰوةُ قَدْ حَضَرَتْ “نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ عمران صابی نے کہا:”اے میرے مولا میرے سوالوں کے جوابات کو منقطع نہ کیجئے ورنہ میرا دل ٹو ٹ جائے گا”امام- نے عمران صابی کے اس جملہ کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور فر مایا: نصلی و نعود “نماز پڑھ کر واپس آجاؤں گا۔ “امام- اپنے اصحاب کے ساتھ اٹھے اور نماز پڑھنے کے بعد دوبارہ سے بحث کا آغاز کیا۔جب امام رضا- کا قیام خراسان میں تھا ، تو کسی دور دراز علاقہ سے شیعوں کا ایک گروہ امام- کی زیارت کے لئے آیا یہ لوگ کہنے کو تو شیعہ تھے مگر گناہوں میں آلودہ تھے تقریباً ایک مہینہ تک ان لوگوں کا خراسان میں قیام رہا اور ہر روز دو مر تبہ اما م کے گھر زیارت کے لئے جاتے تھے لیکن گھر کا دربان ان کو گھر میں داخل ہو نے کی اجازت نہیں دیتا تھا آخرتھک ہار کر ایک دن انہوں نے دربان کے ذریعے سے امام کے حضور پیغام بھجوایا کہ ہم بہت دور سے آپ کی زیارت کے لئے آئے ہیں اگر آپ سے ملاقات نہ ہوئی تو روسیاہ ہو جائیں گے اور جب وطن واپس پہنچیں گے تو لوگوں کے سامنے سر اٹھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ ہمیں ملاقات کی اجازت دے دیجئے ۔ دربان نے ان لوگوں کا پیغام امام- کی خدمت میں پہنچادیا۔ امام- نے ان کو اجازت دی جب انہوں نے امام- کو دیکھا تو شکایت کی ۔ امام- نے ان لوگوں کو مخاطب کر تے ہوئے فرمایا کہ یہ جو میں تم لوگوں کو اجازت نہیں دے رہا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ تم لوگ یہ دعوی کرتے ہو کہ تم شیعان علی- میں سے ہو لیکن تم لوگوں کا کہنا غلط ہے۔ علی- کے شیعہ تو حسن- و حسین- سلمان و ابوزر و مقداد و عمار جیسے لوگ تھے تم لوگ یہ دعوی ٰکر تے ہو کہ تم علی- کے شیعہ ہو لیکن اپنے اکثر کاموں میں تم ان کی مخالفت کر تے ہو۔یہ سنتے ہی ان افراد کے سر شرم کے مارے جھک گئے اسی وقت امام- کے سامنے اپنے گناہوں سے توبہ کی اور امام- نے بھی ان کو بغل گیر کر لیا۔ (بحار الانوار جلد ۶۸، صفحہ۱۵۸، ۱۵۹ سے اقتباس )امام محمد تقی- کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا جو بہت خوش نظر آرہا تھا ۔ امام- نے خوشی کا سبب دریافت کیا اس نے کہا کہ یا بن رسول اللہ میں نے آپ کے والد بزر گوار سے سنا ہے کہ “بہترین دن وہ ہے کہ جب انسان خدا کی طرف سے یہ توفیق حاصل کرے کہ اپنے دینی بھائیوں کے ساتھ نیکی کر ے اور ان کی مدد کرے اور اس دن ضرور خوش ہو”میں نے آج دس نادار اور بے سہارا افراد جو کہ بال بچوں والے تھے ان کی مالی مدد کی ہے اور آج میں بہت خوش ہوں۔ حضرت نے فرمایا کہ ہاں ضرور خوش ہو لیکن اس شرط کے ساتھ کے اس نیکی کو تباہ و بر باد نہ کرو اس شخص نے کہا کہ کس طرح سے میں اس نیکی کو تباہ کر سکتا ہوں جب کہ میں آپ کے خالص شیعوں میں سے ہوں امام- نے فرمایا کہ اس آیت کی وجہ سے کہ جس میں ارشاد ہوتا ہے:”وَلااَا تَبْطُلُوا صَدَقَاتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی””اپنے صدقات کو جتانے اور تکلیف پہنچانے کی وجہ سے بر باد نہ کرو”اس نے کہا کہ جن افراد پر میں نے احسان کیا نہ ان پر جتایا نہ ان کو کسی قسم کی تکلیف پہنچائی ۔ امام- نے فرمایا: یہاں پر مراد ہر قسم کی تکلیف ہے نہ فقط ان لوگوں کی جن کی تم نے مدد کی ہے تمہاری نظر میں ان کو تکلیف دینا عذاب کا سبب ہے یا فرشتوں کو جو کہ تمہارے اوپر مامور کئے گئے ہیں؟ یا ہم اھل بیت کو تکلیف پہنچانا؟ اس نے کہا کہ آپ- اہل بیت کو اور ملائکہ کو تکلیف پہنچنا حضرت نے فرمایا کہ تم نے مجھ کو تکلیف پہنچائی ہے اور تمہارا احسان اور نیکی سب بر باد ہو گئی۔ اس نے کہا کہ کیوں اور کس طرح؟امام- نے فرمایا: کہ یہی بات جو تم نے کہی کہ میں کس طرح اپنی نیکی کو بر باد کر سکتا ہوں جب کہ آپ کا مخلص شیعہ ہوں۔ امام- نے پوچھا تم کو پتا ہے کہ ہمارا خالص اور مخلص شیعہ کون ہے؟ اس نے تعجب سے جواب دیا نہیں!امام- نے فرمایا:مومن آل فرعون، سلمان، ابوذر، مقداد اور عمار تم نے اپنے آپ کو ان افراد کے برابر سمجھا ہے کیا تم نے اپنی اس بات سے مجھ کو اور فرشتوں کو تکلیف نہیں پہنچائی اس نے کہا کہ: استغفراللّٰہ واتوب الیہ یا بن رسول اللّٰہ ” تو پھر میں کیا کہوں؟ امام- نے فرمایا کہ:تم کہو کہ “میں آپ کے چاہنے والوں میں سے ہوں آپ کے دوستوں کو دوست اور دشمنوں کو دشمن رکھتا ہوں۔ ” اس نے کہا کہ میں یہی کہوں گا اور جو کچھ پہلے کہا اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں تھا کہ آپ کو یا فرشتوں کو تکلیف دوں اور میں نے توبہ کی ۔ حضرت نے فرمایا کہ ہاں اب تمہاری وہ نیکیاں جو بر باد ہو گئیں تھیں تم کو واپس مل گئیں ۔متوکل خلیفہ عباسی کو جاسوسوں نے اطلاع دی کہ امام ہادی- اسلحہ جمع کر رہے ہیں اور خلیفہ کے خلاف قیام کا ارادہ رکھتے ہیں متوکل نے حکم دیا کہ امام- کے گھر پر رات میں چھاپہ مارا جائے اور وہ جس حال میں بھی ہوں ان کو میرے پاس لے آؤ۔ جب امام- کو متوکل کے پاس لائے تو وہ اپنے دوستوں کے ساتھ شراب پینے میں مشغول تھا اس نے کھڑے ہو کر اما م- کا ستقبال کیا اور اپنے برابر میں ان کو بیٹھنے کی جگہ دی اور امام- کو شراب کا جام پیش کیا۔اما م- نے فرمایا: ہر گز میرا گوشت و خون شراب سے آلودہ نہیں ہوا ہے تو متوکل نے کہا پھر کوئی شعر سنائیے۔ امام- نے فرمایا کہ مجھے زیادہ شعر حفظ نہیں ہیں متوکل نے زیادہ اصرار کیا تو امام نے چند شعر سنائے۔
امام کے چند شعرباتواعلی قلل لجبال تحر سھمغلب الرجال فما اغنتھم القلل
والستنزد بعد عز عن معاقلھمفادوعا حفرا بئس مانزلوا
ناداھم صارخ من بعد ماقبرواابن الاسرتہ و الیبجاغن الحلل
ابن الوجوہ التی کانت منعمةمن عونھا تضرب الاستار الکلل
فافصح القبر عنھم حین ساء لھمتلک الوجوہ علیھا الدور یقتل
قد طالما اکلوا دھرا وما شربوافاصحبوا بعد طول الدھر قد اکلو
ترجمہ اشعار:۱۔ظالم افراد پہاڑوں کی چوٹیوں پر سوتے ہیں اور اپنے لئے قوی ہیکل دربان اور نگہبان کا انتخاب کر تے ہیں تا کہ وہ ان کے لئے پہرہ دے سکیں لیکن جب موت ان کے پاس آتی ہے تو وہ دربان کچھ نہیں کر سکتے۔۲۔ان کو ان کی پناہ گاہوں سے کھینچ کر نکالا جاتا ہے اور تاریک گڑھوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے ہاں یہ کیسی خراب جگہ ہے۔۳۔اور جب دفن کر دیئے جاتے ہیں تو منادی ندا دیتا ہے کہ ہاں کہاں گئے وہ تخت و تاج اور شاہانہ لباس۔۴۔کہاں گئے وہ چہرے جو ہمیشہ نازو نعمت میں رہتے تھے اور ہمیشہ تاج پہنتے تھے۔۵۔قبر ان کی طرف سے جواب دے گی یہاں ہیں وہ چہرے کہ جن کو کھانے کے لئے کیڑے ایک دوسرے پر دوڑ پڑے ہیں، اور جو کیڑوں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں ۔۶۔ایک زمانے تک کھانے پینے میں مشغول رہنے کے بعد اب یہ کیڑے مکوڑوں کی غذا بنے ہوئے ہیں۔یہ شعر سننے کے بعد تمام افراد رونے لگے اور متوکل نے حکم دیا کہ اس شراب کی بساط کو اٹھا دیں۔ اور امام ہادی- کو عزت و احترام کے ساتھ رخصت کیا۔
 
 

http://shiastudies.com/ur/2266/%d8%a7%d9%85%d8%b1%d8%a8%d8%a7%d9%84%d9%85%d8%b9%d8%b1%d9%88%d9%81-%d9%88%d9%86%db%81%db%8c-%d8%a7%d8%b2%d9%85%d9%86%da%a9%d8%b1-%d8%a2%d8%a6%d9%85%db%81%d8%b9%d9%84%db%8c%db%81%d9%85-%d8%a7%d9%84/

تبصرے
Loading...