اخلاقی عمل

اخلاقی عمل

١لف ۔اخلاقی عمل کے قیمتی عناصراس بحث میں اخلاقی عمل سے مراد ‘اچھا عمل’ ہے اسلامی اخلاق کے نظام میں، جہاں اخلاق کے لئے جزا وسزا کو ضروری مانا گیا ہے، اچھا عمل وہ عمل ہے جس کے ہمراہ اخروی بدلہ اور ثواب موجود ہو، خواہ اس کے ہمراہ دنیوی بدلہ ہو یا نہ ہو۔اس بنا پراس بحث کا مقصد ایسی شرطوں کو بیان کرنا ہے کہ ایک عمل انجام دینے والا اُخروی ثواب اور جزا کو حاصل کر سکے۔ایک مجموعی تقسیم بندی کے لحاظ سے ایک اچھے اور قیمتی اخلاقی عمل کے لئے اس کے ضروری عناصر کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: فاعلی عناصر اور فعلی یاعینی عناصر۔ فاعلی عناصر سے مراد ایسے حالات ہیں جو ایک طرح سے فاعل کی طرف پلٹتے ہیں۔ فعلی یا عینی عناصر یعنی ایسے حالات جن کا فاعل کے ارادہ اور حالات سے آزاد ہو کر ایک واقعی اور عینی امر کے عنوان سے فعل میں موجود رہنا ضروری ہو۔ مجموعی طورپریہ دو طرح کے عناصر جو اخلاق کی اصلی فضیلتوں کی بنیادوں کوتعمیر کرتے ہیں، درج ذیل ہیں: (١)
١ ۔فاعلی عناصرفاعل میں دو اساسی عنصر کی موجودگی لازم ہے تا کہ اس کے عمل فعل میں موجود دوسری شرطوں کے باوجود اخلاق کے اچھے اور قیمتی زیورسے آراستہ ہو۔ یہ دو عنصر جنھیں ‘فاعل کی آزادی اور اس کے اختیار ‘ اور ‘ایک خاص نیت اور مقصد کے وجود’ سے تعبیر کیا گیا ہے اس انسان میں فعل کے شروع ہونے سے تمام ہونے تک پائے جاتے ہیں۔…………………………………١۔ توجہ کرنی چاہئے کہ اخلاق اسلامی کی کلامی شرطیں جیسے مبدأ ومعاد ورسالت پر عقیدہ جو بعض عناصر کے محقق ہونے کے لئے مبنأاور ابتدائی شرطیں ہیں، یہاں ان کے سلسلہ میں بحث نہیں کی جائے گی۔ بلکہ علم اخلاق کے کلامی اصول کے عنوان سے ان کو مسلم جانا جاتا ہے۔ اس تصور کے ساتھ کہ کلامی بحثوں اور اسلامی معارف کے درسوں میں ان پر تحقیق ہوئی ہے اور ان کو قبول کیا گیا ہے۔

ایک: فاعل کی آزادی اور اس کا اختیارجیسا کہ علم اخلاق کی تعریف سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اخلاق انسان کے اُن اختیاری اعمال اوراس کی اُن قدرتوں اور صفتوں کے بارے میں گفتگو کرتا ہے جو اختیاری مبدا ٔکی حیثیت رکھتی ہیں اوروہ چیزیں جو اس کی آزادی اور اختیار سے باہر ہیں اصولی طور پر وہ اخلاقی تحسین وتقبیح اور فیصلہ کے دائرہ سے باہرہیں اوروہ اخلاقی حکم کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں اوروہ اس کی مستحق بھی نہیں ہیں۔

انسان دو طرح کے افعال انجام دیتا ہے: ایک وہ افعال ہیں جو فطری اور اضطراری (بے اختیاری) طور پر انجام دئے جاتے ہیں اور دوسرے وہ افعال ہیں جواختیاری اور ارادی طور پر انجام دئے جاتے ہیں۔فطری اور اضطراری افعال انسان کی طبیعت سے صادر ہوتے ہیں اور ان کے انجام میں علم وآگاہی کا دخل نہیں ہوتا ہے جیسے سانس لینا۔

انسان کے ارادی اور اختیاری افعال اس کے علم وآگاہی کے ذریعہ صادر ہوتے ہیں۔ یعنی انسان ابتدا میں اس عمل کو پہچانتا ہے اور اسے دوسرے تمام اعمال سے جدا کرتا ہے، پھر اسے نفس کے کمال کا مصداق سمجھتا ہے۔

اس کے بعد اسے انجام دینے کے لئے اقدام کرتا ہے۔ (١)البتہ جس طرح فلسفی اور کلامی بحثوں میں ثابت ہوچکا ہے اوراس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان ان کاموں کی نسبت جوعلم وارادہ سے انجام دیتا ہے، اختیار تکوینی رکھتا ہے۔ ہاں یہ جاننا چاہئے کہ آدمی کا اختیار مطلق نہیں ہوتاہے، کیونکہ اس کااختیار سلسلہ ٔ علل کے اجزاکاایک جز ہے۔

خارجی اسباب وعلل بھی اس کے اختیاری افعال کے محقق ہونے میں دخیل ہیں۔ مثلاً تغذیۂ انسان، اس کے ارادہ وخواہش کے علاوہ غذا کے خارج میں موجود ہونے اور اس تک دسترسی و کھانے کی قابلیت و صلاحیت اور قوۂ ہاضمہ کی سلامتی اور دسیوں بلکہ سیکڑوں ایسی علتیں ہیں جو اس کے اختیار سے باہر ہیں، ان علتوں کے سلسلہ میں خدا کی مرضی و ارادہ کی بھی ضرورت ہے، یہ ایسی حالت میں ہے کہ انسان کے ارادہ کی بقا بھی اس کی مرضی سے وابستہ ہے۔ (٢)

اس بنا پر انسان کے ارادہ کی آزادی، اس کے ارادی افعال کے دائرہ میں بھی محدود اور مشروط ہوتی ہے لیکن اس کے عمل کی نسبت اخلاقی تعریفیں اور مذمتیں اس کے اختیاری فعل کے دائرہ کے لحاظ سے محدود ہیں۔

١۔ رجوع کیجئے علامہ طباطبائی ، المیزان، ج١، ص ١٠٦،١٠٧۔٢۔ ایضاً، ج١٦، ص٦٧۔

اختیاری اور ارادی فعل کے مقابلہ میں طبیعی اور جبری (غیر ارادی) فعل ہے، جبر واختیار کے الفاظ کا مختلف علوم کی اصطلاح میں مختلف طریقہ سے اور سماج کی عام بول چال میں اس کے بہت سے معانی میں استعمال ہونے کی بناپر لوگوں کے ذہنوں میں بہت سے شبہے پیدا ہوتے ہیں۔یہاں مناسب ہے کہ جبر واختیار کے مختلف استعمالات اور ان کی اہم قسموں کو بیان کیا جائے۔

کلمۂ جبر مندرجہ ذیل مقامات پر استعمال ہوتاہے اورآزادی واختیارہر جگہ اس کے مقابل معنی رکھتا ہے:

١۔فلسفی جبر:وہ اعمال جو انسان سے صادر ہوتے ہیں لیکن ان کے وجود میں آنے کے لئے اس کاکچھ بھی دخل نہیں ہوتاہے۔جیسے آدمی کا سانس لینا، اس کی طبیعت کے مطابق ہے۔اس طرح کے جبر کے مقابلہ میں، فلسفی آزادی اور اختیار ہے۔

٢۔ اخلاقی جبر:وہ اعمال جنھیں اخلاقی حکم وتقاضہ کے مطابق انسان انجام دیتا ہے یا ترک کرتا ہے جیسے یہ کہ انسان اخلاقی لحاظ مامور سے ہے کہ نماز پڑھے یا حرام ہے کہ وہ شراب پئے اس طرح کا جبر، اخلاقی آزادی واختیار کے مقابلہ میں ہے۔

٣۔ حقوقی جبر:قانونی لحاظ سے انسان کے لئے ضروری ہو تاہے کہ اپنی اجتماعی زندگی میں کچھ مخصوص اعمال کو انجام دے یا کچھ خاص اعمال کو ترک کرے۔

جیسے قانون کے مطابق ہم سب مجبور ہیں کہ اپنی آمدنی کے لحاظ سے ٹیکس اور مال گذاری ادا کریں یادوسروں کی ملکیت اوران کی خصوصی زندگی کے حقوق کا احترام کریں۔ ان امورکی مخالفت کی صورت میں قانونی سزائوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جبرکے اس مفہوم کے مقابلہ میں حقوقی آزادی اور اختیار ہے۔

علم حقوق میں جن ضروری اعمال کی مناسبت سے گفتگو ہوتی ہے وہ اسی زمرہ میں آتے ہیں۔٤۔ نفسیاتی جبر:کبھی ایساہوتاہے کہ انسان نفسیاتی وضعیت اور باطنی حالت سے متاثر ہوکر کچھ ایسے اعمال کو انجام دیتایاترک کرتاہے کہ وہ اس کے لئے ناگزیر ہوتاہے۔ جیسے کوئی انسان اپنی ماں کے انتقال کی وجہ سے غمگین ہوجاتاہے اوراس پر قلبی رقت طاری ہوجاتی ہے اوروہ اس حالت میں دوسرے کے ساتھ مہربانی کے ساتھ پیش آتا ہے یااپنی زوجہ کو تکلیف نہیں پہنچاتا ہے یا اپنی روزانہ کی مالا مال آمد کی کثرت سے مست ہوجاتا ہے، یا اپنے عزیزوں سے ملاقات کے شوق وولولہ کی خاطر ناگزیر ہوکر خودسے متعلق دوسروں کی بداعمالیوں کو معاف کردیتا ہے اور بذل وبخشش سے کام لیتاہے۔اس طرح کا جبر نفسیاتی آزادی اور اختیار کے مقابلہ میں ہے۔

علم نفسیات میں، جبر واختیار کا اس طرح سے معنی کرنا زیادہ رائج ہے۔٥۔سماجی جبر:کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اجتماعی اور سماجی حالات، آداب وتہذیب اس کی رسموں اور طور طریقوں کی وجہ سے انسان خود سے ایک خاص فعل کو ظاہر کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور مجبوراً بعض اعمال کو ترک کردے۔ جیسے ہمارے سماج میں ایک بازاری دوکاندار پر یہ سماجی دبائو رہتا ہے کہ عاشور کے دن وہ اپنے کار وبار کو بند کردیتا ہے ، اگرچہ اس کی مرضی نہ بھی ہو۔ یا اجتماعی تحولات وتعمیرات کے موقع پر جو صنعتی ترقی کی بنا پر ہوتے ہیں، انسان مجبور ہے مٹرو سے اُترتے وقت تکلفات کونظر انداز کردے اور اس کے دروازوں کے بند ہونے سے پہلے مختصر وقت میں ہی اس سے باہر آجائے۔

سماجی آزادی اور اختیار، اس طرح کے جبر کے مقابلہ میں ہے۔ اجتماعی اور سماجی علوم میں جبر کا یہ مفہوم وسیع پیمانہ پر مستعمل ہے۔کلمۂ جبر و اختیار کے مشہور طریقۂ استعمالات کی اجمالی شرح کے بعد اب ہم جبر واختیار کے نوعی مفہوم کو جو اخلاقی عمل کارکن ہے، آسانی سے جان اور سمجھ سکتے ہیں۔

کسی عمل کوجو چیزعلم اخلاق کی عدالت میں حاضر کرتی ہے وہ فلسفی مفہوم میں عمل کا اختیاراورآزادہونا ہے۔ فلسفی وتکوینی آزادی اور اختیار، اعتباری جبر جیسے حقوقی واخلاقی جبر سے مغایرت وبے گانگی نہیں رکھتا ہے اور اخلاقی یا حقوقی دستوروں کی موجودگی کسی خاص فعل سے متعلق انسان کی تکوینی آزادی اور اختیار کو سلب نہیں کرتی ہے۔ اُسی طرح جیسے اکراہ واجبار واضطرار، فاعل کی تکوینی آزادی اور اختیار سے ٹکرائو نہیں رکھتے ہیں۔ (١)

اس طرح وہ چیزیں جو کبھی نفسیاتی یا سماجی جبر کے نام سے جانی جاتی ہیں، ہرگزتکوینی وفلسفی آزادی سے مغایرت نہیں رکھتی ہیں۔ ہاں، سبھی اخلاقی یاحقوقی اوامر ونواہی اور نفسانی اور سماجی عوامل کسی عمل کے انجام یا ترک سے متعلق، انسان کے عزم وارادہ کے پیدا ہونے میں اثرانداز ہوسکتے ہیں اوربہت سی جگہوں پر ایسا ہوتابھی ہے لیکن یہ دخالت وہیں سے گذرتی ہے جہاں انسان کی تکوینی آزادی اور ارادہ وجود میں آتاہے اور یہ کبھی انسان کو حقیقی لحاظ سے مجبور اور مسلوب الاختیار نہیں کرتی ہے۔

١۔ رجوع کیجئے علامہ طباطبائی المیزان، ج١، ص١٠٧۔

دو: فاعل کی نیت اورمقصدبہت سے دوسرے اخلاقی مکاتب کے برخلاف، مکتب اخلاق اسلامی، اخلاقی عمل کوانجام دینے کے لئے فاعل کی نیت اور مقصد پر بہت زیادہ زور دیتاہے۔

اصولی طور پر فلسفی لحاظ سے ایک آزاد اور مختار فاعل کے ذریعہ صادر ہونے والا فعل ان چار علتوں (فاعلی، مادی، صوری، غائی) کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہاں نیت اور مقصد سے مراد وہی علت غائی ہے جو فاعل کو کسی عمل پر مجبور کرتی ہے۔ اس بنا پر اختیاری عمل کے محقق ہونے میں مقصد کے موجود ہونے کی اصل ضرورت ایک ایسی بات ہے جس سے انکار نہیں کیا سکتا۔

لیکن بات اصل یہ ہے کہ عمل کو انجام دیتے وقت فاعل کے کسی خاص مقصد کی موجودگی آیااخلاقی عمل کے قابل قدر ہونے کے لئے ایک لازم شرط ہے؟

بہت سے اخلاقی مکاتب نے اس سوال کا جواب منفی دیاہے(١) ، اسلامی اخلاقی مکتب کے نظریہ کے مطابق فاعل میں نیت ومقصد کا ہونا، اخلاقی اقدار کے لئے ایک ضروری شرط ہے۔

یہاں پر اس بات کی یاددہانی ضروری ہے کہ مخصوص نیت اورمقصد کے تحقق کے لئے دواساسی رکن کی موجودگی ضروری ہے، پہلا: فاعل کسی فعل کو انجام دینے کے لئے ارادہ اور توجہ رکھتاہو،

دوسرا: فعل کو انجام دینے سے اس کا مقصدفقط خدا کی خوشنودی حاصل کرنا ہو جسے اخلاص کہا جاتا ہے۔ اس طرح اخلاقی عمل کا فاعلی عنصر یا اس کی شرط اُس صورت میں مخدوش ہوتی ہے جب فاعل کسی کام کو غفلت اورسہوکی وجہ سے انجام دے یاخوشنودی پروردگار کے علاوہ کوئی دوسرا مقصد رکھتا ہو۔ البتہ پہلے رکن کا فقدان ہمیشہ دوسرے رکن کے نہ ہونے کے برابر ماناجائے گا۔ لیکن دوسرارکن، پہلے رکن کے تابع نہیں ہے۔(٢)

اخلاق اسلامی کے فلسفہ میں کسی عمل کی اس وقت اخلاقی قدر وقیمت ہوتی ہے اور اس وقت نیک بدلہ اور اجر کا مستحق ہوتا ہے جب دوسری شرطوں کے محقق ہونے کے علاوہ فاعل کا مقصد خداکی مرضی حاصل کرنا ہو اورعمل کے انجام دینے کو کمال الٰہی اور اس کے جمال وجلال وصفات سے معنوی طور پر نزدیک ہونے کے لئے ایک وسیلہ اور ذریعہ قراردے۔ بس جب بھی کوئی مجنون یااحمق فاعل، پروردگار کی خوشنودی کے علاوہ کسی دوسری وجہ سے کوئی کام انجام دے تو اس کا عمل اخلاقی قدر و قیمت طے کرنے کے لئے ضروری نصاب سے محروم رہے گا۔

١۔ کانٹ کانظریہ یہ نہیں ہے وہ معتقد ہے کہ اخلاقی عمل کو انجام دینے کے لئے انجام فریضہ کے لئے ضروری مصداق ہونا چاہئے اس کے علاوہ انجام فریضہ کی نیت بھی اخلاقی عمل کے لئے شرط ہے۔ ر۔ک: ایمانوئل کانٹ: بنیاد مابعد الطبیعة اخلاق ترجمۂ (فارسی) حمید عنایت وعلی قیصری، ص٢٣،٢٤۔٢۔رجوع کیجئے مطہری، مرتضیٰ، تعلیم وتربیت در اسلام(اسلام میں تعلیم وتربیت) ص١٩٥۔١٩٦۔

اس کے علاوہ فاعل کا مقصد یگانہ اورخالص ہونا چاہئے۔ یعنی فاعل کی نیت بہترین مقصدکے تحت اور خالص ہو۔ کبھی اس شرط کوضرورت کے تحت حسن فاعلی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔یہ حسن فعلی کے مقابلہ میں ہے جوآگے بیان ہو گا۔

اخلاقی عمل کی قدروقیمت کو طے کرنے میںنیت کی اہمیت اور اس کی تاثیر کو عقل وفلسفہ کی نظرسے اوراسلام کی مقدس کتابوں کی زبان سے بھی بیان کیاجاسکتا ہے:

١۔مقصدکی عقلی اہمیت:فلسفۂ اخلاق اسلامی کی نظرمیں انسان کا سب سے بلند و جودی مرتبہ اس کا روحانی مرتبہ ہے۔اس مرتبہ میں انسان کا حقیقی کمال خدا کے صفات کمالیہ زیادہ سے زیادہ معنوی تقرب حاصل کرنے میں ہے۔ دوسرے لفظوں میں انسان کا سب سے بلند روحی مرتبہ اس چیز میں ہے کہ روح جو انسان کا جوہر ہے، الہی اسماء وصفات جمال وجلال کی جلوہ گاہ بن چائے۔

یہ چیز علم اخلاق کے کلامی شرائط اوراس کے مقصد ورسالت سے مربوط ہے۔ یہ عظیم کام اس صورت میں ممکن ہے جب انسان اپنے اختیاری عمل میں، جو روح کی ترقی وتنز لی میں وجودی تاثیر رکھتا ہے، خدا وند متعال سے نزدیک ہو نے کے لئے مقصداور نیت کے ساتھ حرکت کرے۔

نیت اور اخلاقی قدروں کے درمیان یہ تاثیر اور رابطہ ایک تکوینی اور حقیقی رابطہ ہے نہ کہ جعلی اور قرارداری۔

٢۔وحی کے مطابق مقصدکی اہمیت: اسلام کی مقدس کتابوں میں، خواہ وہ قرآن سے مربوط ہویا سنت سے اخلاقی عمل کے لئے خدائی مقصد کے موجود رہنے کی ضرورت پرواضح طریقہ سے تاکید کی گئی ہے۔

ان کی چند مشہور مثالیں مندرجہ ذیل ہیں:’یہ غنائم یا بلند درجہ اُن فقیرمہا جرین کے لئے ہے جن کو اپنے وطن اور مال سے محروم کردیا گیا۔

جبکہ وہ خوشنودی خدااور فضل الہی حاصل کرنے کے لئے کام کرتے ہیں اور خدا اور اس کے رسول کے امورمیں مدد کرتے ہیں۔ یہ سچے اور حقیقت پسند لوگ ہیں۔’ (١)’وہ لوگ خداسے دوستی کی بناپرمسکین ویتیم واسیرکو کھانا کھلاتے ہیں۔ (اور وہ لوگ کہتے ہیں کہ) ہم خوشنودی خداکے لئے کھانا کھلاتے ہیں اورتم سے کوئی بدلہ اورشکریہ نہیں چاہتے ہیں۔’ (٢)

١۔ سورۂ حشرآیت ٨۔٢۔ سورۂ انسان۔آیت ٨و٩۔’اور جن لوگوں نے اپنے خداکی خوشنودی کے لئے صبروشکیبائی سے کام لیا اور نمازکو قائم کیا اور ہم نے اُن کو جو روزی دی ہے اس میں سے پوشیدہ وآشکارطریقہ سے انفاق کیا اور بدی کو نیکی کے ذریعہ دفع کرتے ہیں آخرت کا گھر اِنھیں کے لئے ہے ‘۔ (١)

یہ بات واضح ہے کہ الٰہی مقصد پر قرآن کی یہ تاکید صرف مذکورہ موارد اور مقامات سے مخصوص نہیں ہے، اور مخصوص اعمال کا ذکر بعنوان مثال اورشاید الٰہی مقصد کی حفاظت میں انسان کے ذریعہ ہونے والی لغزشوں کے سب سے مشہور اور بنیادی مقامات کے ذکر کے عنوان سے ہے۔پیغمبر اکرم ۖ سے یہ نقل ہواہے کہ فرمایا:’بیشک اعمال کی اہمیت انہیں انجام دینے کی نیت پر منحصر ہے اورانسان کے لئے وہی چیزیں رہیں گی جن کی نیت کی ہے (٢) ، مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے’ (٣)

نیت کے مراتب:کبھی ایسا ہوتا ہے کہ حتیٰ وہ افراد جو خدا کے وجود کو قبول کرتے ہیںاور قیامت اور پیغمبروں کی بعثت پر عقیدہ رکھتے ہیں وہ بھی اپنے اعمال کو ثواب حاصل کرنے وبہشت میں جانے، اس کی لازوال نعمتوں سے بہرہ مندہونے اور دوزخ وجہنم کے کیفر اور سزائوں سے نجات کی غرض سے انجام دیتے ہیں، نہ کہ خداکی مرضی حاصل کرنے کے لئے۔

مقدس اسلامی کتابیں خاص طور سے قرآن بہشت کی زیبائیوں اور خصوصیتوں سے نیز اخروی سزائوں کی شدت اور ان کے قطعی ہونے سے خبردار وہوشیا رکرکے ایک طرح سے کیفر سے ڈرنے اورجزاو ثواب کی امید کی نیت سے عمل کرنے کو صحیح مانتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا اس طرح کے اخلاقی اعمال کی قبولیت بیان شدہ اخلاقی عمل کی قیمتی شرطوں سے سازگار ہے؟ اس بنیادپرکہ فاعل کو اپنے عمل میں فقط خداکی مرضی کا حصول مدّنظر رکھنا چاہئے۔

1۔ سورۂ رعد، آیت ٢٢، اسی طرح سورۂ مائدہ آیت نمبر١٥۔١٦، سورۂ بقرہ آیت ٢٠٧، ٢٢٥، ٢٦٤، ٢٧٢، ٢٨٤، سورۂ ممتحنہ آیت نمبر١، سورۂ نساء آیت نمبر٣٨، سورۂ روم آیت ٣٨۔٣٩ کی طرف رجوع کیجئے۔

٢۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج٧٠، ص٢١٢، ح٣٨۔٣۔ کلینی، کافی، ج٢، ص٨٤۔

اس سوال کے جواب میں کہا گیا ہے کہ خدا کی مرضی کے متعدد مراتب ہیں اور انسان انہیں حاصل کرنے کے لئے مختلف طریقہ اختیار کرتاہے۔کبھی خدا کی مرضی کواس وجہ سے اختیار کرتا ہے کہ وہ اخروی بدلہ وثواب کا باعث یا قیامت کے دن کیفر وسزا سے نجات کا ذریعہ وسبب ہے

لہٰذا وہ اخلاقی عمل کے انجام میں انسان کے لئے توجہ کا مرکزقرار پاتی ہے اور کبھی صرف خدا کی مرضی کو حاصل کرنا صرف مقصد کے تحریک کرنے اور آگے بڑھانے کے لئے ہوتاہے(١) یعنی خدا کے نزدیک عمل کی محبوبیت ہے جوعمل کی انجام دہی میں انسان کی اس سے محبت اور اس کی طرف مائل ہونے کا سبب بنتی ہے لہٰذا خدا کے نزدیک بھی فاعل کی محبوبیت وجود میں آئے گی اورخدا اس سے محبت کرے گا۔

البتہ اس طرح کے اخلاقی عمل کی انجام دہی، خدا کے صرف خاص بندوں کے ذریعہ ہی میسر ہے۔اس بناپر پہلی صورت میں بھی فاعل کا مقصد، خدا کی مرضی کا حصول ہے اس وجہ سے کہ وہ بدلہ دینے کا باعث اور کیفر وسزا سے بچنے کا سبب ہے۔

مقصد اور ایمان کارشتہ:یہ بات ذکر ہوچکی ہے کہ اسلام کے اخلاقی نظام میں، اخلاقی عمل اس وقت اہمیت اورقیمت رکھتا ہے جب فاعل اسے انجام دینے میں معبود کی مرضی کاسودا کرے۔ چاہے خدا کی مرضی ذاتی طور پر مطلوب ہو اور چاہے پروردگار کی خوشنودی اس وجہ سے کہ وہ ثواب کا باعث اور عذاب سے بچنے کاسبب ہے، اس وجہ سے اسے اپنا مقصد قرار دیدے۔

(دونوں صورتوں میں اہمیت رکھتا ہے) عقلی طور پر اس امر کا محقق ہونااس صورت میں ممکن ہے جب فاعل خدا کے وجود روز قیامت اور جزا و سزا کی حقّانیت، انبیاء کی بعثت اور ان کی تعلیمات پر یقین اور عقیدہ رکھتا ہو۔ البتہ خدا پر ایمان رکھنے میں، معاد ونبوت سے متعلق ایمان بھی اس کے شامل حال ہو جاتا ہے۔

اسی وجہ سے ہماری دینی کتابوں میں ایمان پر اخلاقی قدروں کے لئے ضروری شرط کے عنوان سے بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ اس کے کچھ نمونے مندرجہ ذیل ہیں:’عورت اورمرد میں سے جوکوئی نیک اور شائستہ کام انجام دے اورمؤمن ہو، قطعی طور پر ہم اسے ایسی زندگی عطا کریں گے جو حیات طیبہ اور پاکیزہ ہے اور مسلّم طور پر جو کچھ انہوں نے انجام دیا ہے اس سے بہتر ان کے کئے ہوئے کا بدلہ دیں گے’۔(٢)

١۔رجوع کیجئے مصبا ح یزدی، محمد نقی، اخلاق درقرآن، ص٩٦۔٢۔ سورۂ نحل، آیت٩٧۔’نیکی صرف یہ نہیں ہے کہ اپنے چہرہ کو مشرق ومغرب کی طرف کرلیں بلکہ نیکی یہ ہے کہ کوئی خدا، قیامت، فرشتوں، آسمانی کتاب اور نبیوں پر ایمان لائے اور ….. (١)’خدا کے پیغمبر اُن چیزوں پرجو اس کے پروردگار کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہیں ایمان لائے ہیں اور مؤمنین بھی سب خدا، فرشتوں، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم اس کے رسولوں میں کسی کے سلسلہ میں فرق نہیں کرتے ہیں اور وہ یوں کہتے ہیں کہ ہم نے پیغام الٰہی کو سنا ہے اور اس کی اطاعت کرتے ہیں۔ اے پروردگار! ہم تیری مغفرت چاہتے ہیں اور ہم تیری طرف پلٹ کے آنے والے ہیں’۔(٢)

ایمان کی حقیقت اور علم کے درمیان کے متعلق ایک طرف اوردوسری طرف اس کے اور اسلام کے درمیان فرق کے بارے میں یہ کہا جاچکا ہے کہ ایمان ایک قلبی بات ہے، اسی کے ساتھ اختیاری بھی ہے۔ جبکہ علم وعقیدہ انسان کے لئے ممکن ہے غیراختیاری صورت میں بھی حاصل ہوجائے، اس لئے علم اورایمان کے درمیان وجودی حقیقت کے لحاظ سے کوئی ملازمہ اور اُن میں وابستگی ضروری نہیں ہے۔ یعنی ممکن ہے کوئی انسان کسی حقیقت کے سلسلہ میں عالم ہو لیکن اسی سلسلہ میں کفر کا اظہار کرے'(٣)

قرآن کریم ایمان سے علم کے جداہونے کے بارے میں فرماتاہے:’اس کے باوجود کہ ان کے دل اس کے سلسلہ میں یقین کرچکے تھے، لیکن ظلم وزیادتی اورتکبر کی بناپر اس سے انکار کردیا۔ بس دیکھ لو فساد کرنے والوں کا انجام کیا ہوتاہے'(٤)البتہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ ایمان کا عام راستہ علم سے ہوکر گذرتا ہے۔ لیکن علم انفرادی طور پر ایمان کے محقق ہونے کے لئے کافی نہیں ہے۔

١۔ سورۂ بقرہ، آیت١٧٧۔٢۔ سورۂ بقرہ، آیت ٢٨٥۔٣۔ رجوع کیجئے علامہ طباطبائی ، المیزان، ج١٨، ص٢٥٩۔٤۔ سورۂ نحل، آیت ١٤۔ایمان اور اسلام کے فرق کے بارے میں قرآن کی آیۂ شریفہ اس طرح بیان کرتی ہے:

(اِنّ الْمُسلمینَ والمسلمات والمؤمنین والمؤمنات۔۔۔) (١)اوراسی طرح دوسری آیتیں بھی(٢)

اسلام کو ایمان کے مقابلہ میں قراردیتی ہیں۔ دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ اسلام دین کے سامنے عملی طور پر تسلیم ہوجانے کے معنی میں ہے اور تسلیم عملی بدن کے ظاہری اعضاء وجوارح کے ذریعہ محقق ہوتی ہے۔ لیکن ایمان ایک قلبی، اعتقادی اور باطنی چیز ہے اور یہ چیز اس طرح ہے کہ اس کے آثار بدنی اور ظاہری اعمال میںبھی ظاہر ہوتے ہیں۔ اس بناپر ہر مؤمن مسلمان ہے لیکن ہر مسلمان مؤمن نہیں ہے(٣) جیسے منافق، جودین کے دستور وں پر عمل کرتاہے لیکن ایمان نہیں رکھتا۔

ایمان اورعمل کا رشتہ :

قرآن مجید کی بہت سی آیتوں میں ایمان کو قیمتی، موجب سعادت اور صالح عمل کے ساتھ شمارکیاگیا ہے۔ اُن میں سے اس مثال کو ملاخطہ فرمائیے:’جولوگ ایمان لائے ہیں اورعمل صالح انجام دیتے ہیں ہم ان کو بہت جلدان باغ ہائے جنت میں داخل کریں گے جن کے درختوں کے نیچے نہریں بہتی ہو نگی اوروہ ہمیشہ اس میں زندگی گزاریں گے …..۔'(٤)بعض دوسری آیتوں میں صرف ایمان کو انسان کی سعاتمند ی اورکامیابی اوربہشت میں داخل ہو نے کے لئے ایک شرط کے طورپرپیش کیا گیا ہے۔’خدا نے مومنین ومومنات سے ان باغات کا وعدہ کیا ہے جہاں درختوں کے نیچے نہریں جاری ہو ں گی اور وہ اُن میں سے ہمیشہ زندگی گزاریں گے، ان جنّات عدنٍ میں پاکیزہ جگہ دینے کا بھی وعدہ کیا ہے اور خدا کی خوشنودی سب چیزوں سے بڑی ہے اوریہ سب سے بڑی کا میا بی ہے۔'(٥)

١۔ سورۂ احزاب ۔آیت: ٣٥۔

٢۔ جیسے سورۂ حجرات کی چودہویں اور پندرہویں آیت۔

٣۔ رجوع کیجئے علامہ طباطبائی المیزان، ج١٦، ص٣١٣۔٣١٤۔٤۔ سورۂ نساء آیت٥٧، ١٢٢، اورسورۂ بقرہ کی آیت ١٠٣، سورۂ نساء کی آیت١٢٤، اورسورۂ کہف کی آیت٣٠ کی طرف رجوع کیاجائے۔

٥۔ سورۂ توبہ، آیت٧٢۔

اس آیت میں واضح طریقہ سے خدا کی بڑی نعمتوں مثلاً ایمان کے ساتھ اس کی مرضی کی بشارت دی گئی ہے اور اس کے ساتھ کسی عمل کے موجود ہونے اور اس کی ضرورت پرکوئی گفتگونہیں کی گئی ہے۔ کیا اس طرح کی آیتیں، گزری ہوئی یاآگے آنے والی آیتوں سے، اس بناپر کہ اخلاقی قدروں کے محقق ہونے کے لئے عمل صالح کا موجود ہونا ضروری ہے، اختلاف نہیں رکھتیں؟

کیا اسلام کے اخلاقی نظام میں صرف ایمان، اخلاقی قدروں اور تعریف وجزا کے مستحق ہونے کا سبب بن سکتاہے؟ اس سوال کا جواب دینے اور ان دو طرح کی آیتوں کے مفہوم کے درمیان مناسب رابطہ برقرار کرنے کے لئے یہ کہاگیاہے:’ ایمان کی حقیقت اور اسلام وعمل سے اس کی نسبت کے بارے میں جوکچھ بیان ہواہے اس پر توجہ کرتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ آیتیں جو ایمان کے ساتھ عمل کا ذکر کرتی ہیں، وہ عام حالات پر نظر رکھتی ہیں، یعنی ان لوگوں سے مربوط ہیں جن کے لئے کام کرنے کی شرطیں جیسے قدرت، فرصت وغیرہ فراہم ہیں اور وہ ان حالات میں عمل کرتے ہیں اور وہ آیتیں جو صرف ایمان کو ہی کامیابی کا سبب قرار دیتی ہیں، ان حالات سے مربوط ہیں جن میں انسان ایمان لاتاہے لیکن عمل کو انجام دینے کے لئے حالات جیسے قدرت، فرصت وغیرہ اس کے لئے فراہم نہیں ہیں۔ ‘(١)

کافروں کے نیک اعمال:آخری سوال جو مقصداور نیت کے بارے میں جواب کا مستحق ہے یہ ہے: جو کافرین اور غیر مؤمن افراد مبدأ، معاد اور نبوت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں لہٰذا اپنے اعمال کی انجام دہی میں (اگر چہ ذاتی طور پر وہ عمل پسندیدہ ہیں) خداکی مرضی حاصل کرنے کی نیت نہیں رکھتے ہیں، کیا وہ لوگ اسلام کے اخلاقی اصول کی رو سے کسی طرح کی تعریف اور جزا کے مستحق نہیں ہیں؟

کیا ان کے نیک اعمال کی کوئی اہمیت وقیمت نہیں ہے اور کیاپروردگار کی جانب سے انہیں بدلہ نہیں ملے گا؟اس سوال کے جواب میں یہ کہا گیاہے:’وہ اعمال جو مذکورہ خصوصیت نہیں رکھتے ہیں لیکن شارع کے معین کردہ طریقوں کے مخالف بھی نہیں ہیں اور

١ ۔ر۔ک مصباح یزدی، محمد تقی، اخلاق درقرآن، ص١١٢،١١٣۔

کوئی منفی مقصد بھی نہیں رکھتے ہیں یعنی دین حق اور اس کے ماننے والوں سے دشمنی کے مقصد سے انجام نہیں دیتے اور فاعل انھیں انجام دینے کے لئے مادی اور حیوانی ضرورتوں کے پورا کرنے سے بالاتر مقصد دکھاتا ہے یعنی اس کا عمل، انسانی احساسات وعواطف کی خاطر انجام پاتاہے (جیسے کسی کو معاف کردیتا ہے اور سخاوت کو ظاہر کرتا ہے اس جیسے دوسرے اعمال) اگرچہ انسانی نفس کی بلندی وتکامل کے لئے ضروری شرطیں نہیں رکھتے اور اس کے لازمی نصاب تک نہیں پہنچتے لیکن وہ اس کے لئے مقدمہ فراہم کرتے ہیں یعنی انسان کی روح وجان کو معنوی سفر طے کرنے کے لئے آمادہ کردیتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض روایتوں کی بناپر اُخروی سزائوں کے رفع ہونے یا اُن میں تخفیف ہونے کا سبب بن جاتے ہیں اور اگرچہ لازم شرطوں کے نہ ہونے کی بناپر بہشت میں داخل نہیں ہوگا اوراسے ابدی سعادت میسر نہیں ہوگی لیکن مطلق ایسا بھی نہیں ہے کہ اس کی کوئی اہمیت نہ ہو’۔ (١)

٢۔فعلی اور عینی عنصراخلاقی عمل کے لئے ان شرطوں کے علاوہ جو فاعل کے ذریعہ ان کی انجام دہی میں ہونی چاہئے، لازم ہے کہ وہ عمل فی نفسہ اورذاتی طور پربھی نیک، اچھا اور پسندیدہ ہو۔اسلامی علوم میں رائج تعبیر کے مطابق اُسے حُسن فعلی کے عنوان سے یاد کرتے ہیں یہ حُسن فاعلی کے مقابلہ میں ہے جس کے بارے میں عنصر فاعلی کے عنوان کے تحت اس کتاب میں گفتگو ہوئی ہے۔اس سوال کے بارے میں کہ کیا کوئی عمل ذاتی طور پر نیک اور شائستگی کا حامل ہے یانہیں؟

اس سے پہلے اس سلسلہ میں اجمالی طور پر گفتگو ہوچکی ہے اور اس سلسلہ میں زیادہ تحقیق اورمعلو مات کے لئے اس سے مربوط منابع ومصادر میں جستجو کرنی چاہئے (٢) لیکن اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے کہ اس عمل کا معیار اور اس کی نشانی انسان پر منحصر ہیں اور انھیںنشانیوں کی بنیاد پر اُسے نیکی اور برائی سے متّصف قرار دیاجاتاہے اور وہ ثواب یا عقاب کا مستحق ہوتا ہے اور محاسبہ وآزمائش کی بنیاد پر انسان خدا کے نزدیک جگہ پاتاہے۔ جب کہ اگر خارجی عمل پر اس کے علائم سے ہٹ کر اس پر توجہ کی جائے تو صرف ایک بدنی حرکت ہوگی اور وہ حرکت باقی تمام حرکتوں کی طرح نہیں ہوگی اور اس کی بہ نسبت اچھائی اور برائی کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔(٣)

١۔ ر۔ک مصباح یزدی، محمد تقی، اخلاق درقرآن، ص١١٧١،١٧٢۔

٢۔ سبحانی، جعفر: حسن وقبح عقلی، پایہ ہائے جاودان اخلاق کی طرف رجوع کیجئے۔

٣۔ علامہ طباطبائی: المیزان، ج١٦، ص٨٢۔

اخلاقی عمل کے لئے حُسْن فعلی کی ضرورت کو عقلائی لحاظ سے بیان کرنے کے لئے کہا جاسکتاہے کہ انسان کا ارادی وآزادانہ (غیر ارادی) فعل اس کے نفس کے ذریعہ وجود میں آتاہے اورکمیّت، کیفیت، شکل، زمانی ومکانی خصوصیات وغیرہ کے لحاظ سے وہ فاعل کے مقصد کے تابع ہے۔ یعنی حقیقت میں فاعل کا مقصد اس کے عمل کی روح اور اسے وجود میں لانے والا ہے۔

اس بناپر ہر کام کو ہر مقصد کے ساتھ انجام نہیں دیا جاسکتا ہے اور ہر مقصد ایک خاص طریقہ سے کسی عمل کے ساتھ سنخیت اورمناسبت رکھتا ہے۔

سونے کی حالت میں کسی علمی امتحان میں کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی ہے۔ گھرمیں بیٹھ کر کعبہ کی زیارت نہیں ہو سکتی ہے اوردوسروں کی عزت وحرمت اور مال کے ساتھ زیادتی کر کے پروردگارکی خوشنودی حاصل نہیں کی جاسکتی ہے۔(١)اس طرح فلسفۂ اخلاق اسلامی میں فاعل کی نفسانی حالت اور مقصد پر بھی تو جہ کی جاتی ہے اس کے علاوہ عمل کی عینی ماہیت اوراس کے واقعی وحقیقی آثار کو بھی تو جہ کامرکزبنا یاجاتاہے۔

یہ مکتب اُن اصالتِ فاعل کے طرفدار مکاتب کے برخلاف ہے جو عمل کی انجام دہی میں فقط فاعل کے نفسانی پہلووں پرتاکیدکرتے ہیں اور اصالت عین کے طرفدار مکاتب کے بر خلاف بھی ہے جو صرف خارجی عمل کی طبیعت اوراس کے عینی ومادی آثار کو اخلاقی اچھائی اوربرائی کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ جو شرائط وحالات اخلاق اسلامی میں فاعل کے مقصد کے لئے عمل کا معنوی عنصرہیں اوراسی طرح اخلاقی عمل کے مادی عنصرکے لئے ضروری مانے جاتے ہیں، وہدوسرے اخلاقی مکاتب میں بیان ہونے والے شرائط وحالات سے بنیادی طورپرمختلف ہیں۔

١۔ر۔ک: مصباح یزدی، محمدتقی، دروس فلسفۂ اخلاق، ص١٦٧،١٦٨۔

تبصرے
Loading...