دوستی

دوستی

كیونكہ انسان مدنی الطبع (فطرتاً گروہ كی صورت میں رہنا پسند كرنے والا) ہے تنہا رہنا پسند نہیں كرتا اور چاہتا ہے كہ دوسرے انسانوں كے ساتھ مل جل كر زندگی بسر كرے لہذا اسكے لۓ ضروری ہوتا ہے كہ كوئ اسكا مونس و مددگار ہمدم و ہمراز دوست ہو۔ اسی بنا پر اسلام نے قرآنِ كریم اور سنتِ معصومین میں دوستی ورفاقت كے متعلق گفتگو كی ہے اور اس بارے میں ضروری رہنمائ فرمائ ہے ۔ ممكن ہے اعزہ و اقربا سے تعلقات اور ان كے ساتھ مل جل كر رہنا انسان كی روحانی پیاس نہ بجھاسكے اور وہ اپنوں كے درمیان بھی خود كو اجنبی اور تنہا محسوس كرے او راپنے بھی اسے پراۓ نظر آئں۔ لہٰذا اسے كچھ ایسے لوگوں كی ضرورت ہو گی جو اسكی فكر اور روح سے قریب ہوں اور ممكن ہے یہ اسكے اقربا و اعزہ سے بھی زیادہ اسكے قریب ہو جائں۔اس بارے میں امیر المومنین ں نے كیا خوبصورت جملہ فرمایا ہے كہ: رُبَّ اَخٍ لَكَ لَم تَلِدہُ اُمُّكَ ممكن ہے تمہارے بھائوں میں سے كچھ ایسے بھی ہوں جنہیں تمہاری ماں نے پیدا نہ كیاہو۔
دوستی قرآن كی نظر میں اس گفتگو كی روشنی میں نیز ایك دوست كے دوسرے دوست پر بہت زیادہ اثر انداز ہونے كے پیش نظر پروردگارعالم نے انسان سے چاہا ہے كہ وہ دیكھ بھال كر اپنے دوست كا انتخاب كرے ۔اسی لۓ خداوندِ عالم نے قرآن مجید میں مثبت اور مفید دوستی كے بارے میں بھی گفتگو فرمائ ہے اور منفی مخرب اور خطرناك دوستی كے بارے میں بھی انتباہ كیا ہے۔
مثبت دوستی
مثبت ومفید دوستی وہ ہے جو تقویٰ و پرہیز گاری كی بنیاد پر استوار ہو۔ یہ ایسا رابطہ ہے جو انسان كے افكار و خیالات اسكے قلب اور اس كی پوری زندگی كو تقویت پہنچاۓ۔ اس طرح كہ وہ فكری تقویٰ كا حامل ہو اور سواۓ حق كے اسكی كوئ فكر نہ ہووہ قلبی تقویٰ كا حامل ہو اور سواۓ خیر اور نیكی كے اسكا دل كسی اور چیز كے لۓ نہ دھڑكے اسكی پور ی حیات تقویٰ سے معمور ہو اور سواۓ صراطِ مستقیم كے كسی اور راستے پر قدم نہ اٹھاۓ۔ اگر انسان متقی اور پرہیز گار ہو او راس كی زندگی پرہیزگاری وتقویٰ پر مبنی ہو تو ایسا شخص یقینا اپنے دوست كا خیرخواہ ہوگا اسے ہدایت اور اسكی راہنمائ كرے گا۔ كیونكہ دین ہے ہی نصیحت اور خیر خواہی ایسا فرد اپنے دوست كا وفادار بھی ہوگا كیونكہ وفاداری ایمان كے عناصر میں سے ایك عنصر ہے۔ اگر انسان مومن ومتقی ہو تو یقینااپنے دوست كی مدد كرے گا حتیٰ اس كو خود پر ترجیح دے گا۔
اسی بنا پر خداوندِ عالم فرماتا ہے كہ دوستی تقواۓ الٰہی كی بنیاد پر استوار ہو كیونكہ جن روابط و تعلقات كی بنیاد تقویٰ و پرہیزگاری پر قائم ہو ان كا آغاز خدا اسكے رسول اور اسكے اولیاء كے لۓ ہوتا ہے اور وہ اسلامی عقائد پر استوار ہوتے ہیں۔ لہٰذا جب تك انسان تقویٰ كے راستے پر گامزن ہو گا گویا اس نے خدا كی مضبوط رسی كو تھاما ہوا ہے۔ كیا یہ درست نہیں ہے كہ پروردگارِ عالم نے اپنی رسی مضبوطی سے تھامنے والا ایسے شخص كو كہا ہے جو نیكوكار اور اسكے سامنے تسلیم ہو؟ (١) پھرپروردگارِ عالم نے ایسی ہی دوستی كو قیامت تك باقی رہنے والی دوستی كہا ہے كیونكہ دنیامیں قائم ہونے والی ایسی دوستیاں جن كی بنیاد خدا پر ایمان اور تقویٰ و پرہیز گاری ہو وہ اپنا حقیقی مقام روزِ قیامت ہی دیكھ سكیں گی كیونكہ آخرت رضوانِ اكبر اور الٰہی نعمتوں كا گھر ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے جس كے بارے میں قرآن كریم میں یوں ارشاد ہوا ہے: ألاَخِلّٰائُ یَؤمَئِذٍ بَعضُہُم لِبَعضٍ عَدُوٌّ لَّا المُتَّقِینَ اس روز صاحبان تقویٰ كے سوا تمام دوست ایك دوسرے كے دشمن ہوجائں گے (سورئہ زخرف ۴۳ آیت ۶۷) یعنی صرف اہلِ تقویٰ كی دوستی باقی اور جاویدانی ہوگی۔ كیونكہ متقین كی دوستی ناقابلِ زوال اور قوی بنیادوں كی حامل ہے جو نہ صرف موت كی وجہ سے ختم نہیںہوتی بلكہ جس طرح اس دنیا میں ان كے درمیان محبت ہو گی اسی طرح سے یہ محبت آخرت میں بھی ان كے درمیان باقی رہے گی۔
آخرت میں دوست
روز قیامت باایمان اور باتقویٰ دوستوں كے بہشت میں مل بیٹھنے كے بارے میں خداوندِ عالم فرماتا ہے: وَنَزَعنٰا مَافِی صُدُورِہِم مِن غِلٍّ خوَاناً عَلیٰ سُرُرٍ مُتَقٰابِلِینَ اور ہم نے ان كے سینوں سے ہر طرح كی كدورت نكال لی ہے اور وہ بھائوں كی طرح آمنے سامنے تخت پر بیٹھے ہوں گے۔ (سورئہ حجر ۱۵ آیت ۴۷)
میدانِ حشر میں قدم ركھنے والے ان دوستوں كے دل میں كسی قسم كا كینہ وكدورت نہ ہوگی بلكہ ان كے دل محبت وعشقِ خدا سے پُر ہوں گے اور وہ خداسے اپنے اس عشق ومحبت كی بناپر تما م انسانوں كو دوست ركھیں گے چاہے وہ ان كے حامی ہوں یا مخالف۔ لہٰذا اگر كوئ واقعاً خداپر ایمان ركھتا ہو۔ یعنی خدا كی محبت نے اس كے دل كو لبریز كرركھا ہو تو پھراس كے پاس كینہ كدورت اور نفرت كے لۓ كوئ جگہ باقی نہیں رہتی۔ یہ وہی بات ہے جس كی تعلیم ہمیں رسولِ كریم نے دی ہے۔ جن لوگوں نے آنحضرت صلی االله علیہ وآلہ وسلم كواذیت دی ان كے متعلق آپ نے پروردگارعالم سے اس طرح شكوہ كیا اور دعا فرمائ: أللّٰہُمَّ اہدِقَومِی فَنَّہُم لاٰیَعلَمُونَپرودگار ا! میری قوم كی ہدایت فرما، بلا شبہ یہ لوگ نہیں جانتے۔اس گفتگو كا نچوڑ یہ ہے كہ جن لوگوں كے دلوں میں دوسروں كے لۓ كینہ وكدورت نہیں اور جو بندگانِ الٰہی سے اس لۓ محبت كرتے ہیں كیونكہ خدا سے محبت كرتے ہیں وہی حقیقی مومن ہیں۔رسول اكرم فرماتے ہیں: اَلخَلقُ عَیٰالُ اللّٰہِ فَاَحَبُّ الخَلقِ لَی اللّٰہِ مَن نَفَعَ عَیٰالَ اللّٰہِ وَادخَلَ عَلیٰ بَیتٍ سُرُوراً تمام مخلوق خدا كا كنبہ ہے اور خدا كے نزدیك محبوب ترین فرد وہ ہے جو خدا كے كنبے كو فائدہ پہنچاۓ اور ان كے گھروں میں سے كسی گھر میں خوشی داخل كرے ۔ (اصول كافی ج۳ ص ۱۷۰) ارشاد الٰہی ہے: وَنَزَعنٰا مَافِی صُدُورِہِم مِن غَلٍّ خوَاناً عَلیٰ سُرُرٍ مُتَقٰابِلِینَ اور ہم نے ان كے سینوں سے ہر طرح كی كدورت نكال لی ہے اور وہ بھائوں كی طرح آمنے سامنے تخت پر بیٹھے ہوں گے۔ (سورئہ حجر ۱۵ آیت ۴۷) ایمانی دوست محبت بھرے ماحول میں ایك دوسرے كے ساتھ گفتگو میں مشغول ہوں گے سعادت مند زندگی بسر كر رہے ہوں گے اور عظیم الٰہی نعمتوں سے سرفراز ہوں گے وَرِضوانٌمن اللہ ۔
كن لوگوں سے دوستی كریں؟
قرآنِ كریم ایك ایسے معاشرے كی تشكیل پر زور دیتا ہے جس كی بنیاددوستی اور مل جل كے زندگی بسركرنا ہو لیكن دیكھنا یہ ہے كہ كون لوگ دوستی او رمعاشرت كے قابل ہیں ؟ خداوندِ عالم رسولِ كریم سے فرماتا ہے: وَاصبِر نَفسَك۔۔۔۔۔
ہاں خداوند ِ عالم براہِ راست پیغمبرِ اسلام سے خطاب فرما رہا ہے لیكن دراصل آنحضور كے توسط سے تمام افرادِ بشر سے مخاطب ہے ۔ یہ اندازِ تخاطب لوگوں كے سامنے موضوع كی اہمیت میں مزید اضافہ كر دیتا ہے۔ كیونكہ جب رب العالمین اپنے حبیب اور مخلوقات میں سے اپنی محبوب ترین ہستی سے ایك عمل كا خواستگار ہے اور اس سلسلے میں انہیں تكلیف اور مشقت برداشت كرنے كا حكم دے رہا ہے تو كیسے ہو سكتا ہے كہ عام لوگوں سے یہ نہ چاہے ؟ یوں یہ انداز خداوندِ عالم كے نزدیك اس مسئلے كی انتہائ اہمیت كا عكاس ہے۔ فرمان الٰہی ہے: وَاصبِر نَفسَكَ مَعَ الَّذِینَ یَدعُونَ رَبَّہُم بِالغَدوٰةِ وَالعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجھَہُ وَلاٰ تَعُد عَینٰاكَ عَنہُم تُرِیدُ زِینَةَ الحَیٰوةِ الدُّنیٰا وَلاٰ تُطِع مَن أَغفَلنَا قَلبَہُ عَن ذِكرِنٰاوَاتَّبَعَ ہَوٰاہُ وَكَانَ اَمرُہُ فُرُطاًاور اپنے نفس كو ان لوگوں كے ساتھ صبر پر آمادہ كرو جو صبح و شام اپنے پروردگار كو پكارتے ہیں اور اسی كی مرضی كے طلب گار ہیں اور خبردار تمہاری نگاہیں ان كی طرف سے پھر نہ جائں كہ تم زندگانی ٔ دنیا كی زینت كے طلبگار بن جائو اور كسی صورت اس كی اطاعت نہ كرنا جس كے قلب كو ہم نے اپنی یاد سے محروم كر دیا ہے اور وہ اپنی خواہشات كا پیروكار ہے اور اسكا كام سراسر زیادتی كرنا ہے۔ (سورئہ كہف ۱۸ آیت ۲۸)
عنی ایسے افراد سے دوستی كیجۓ جن كی زندگی بس خدا كے لۓ ہو وہ صرف اسی كی پرستش كرتے ہوں او ران كا مقصدِ وحید خدا ہی ہو۔كیونكہ ایسے افراد كی دوستی ایمان میں اضافہ كرتی ہے اور وہ آپ سے اپنی دوستی كے بندھن كی حفاظت كرتے ہیں اوراپنے عہد وپیمان پر باقی رہتے ہیں۔
دوست كا كردار
پروردگارِعالم نے دوزخ میں داخل ہوتے وقت اہلِ عذاب كی چیخ وپكار اور مدد كی التجا كا ذكر كرتے ہوۓ دوست كی اہمیت اور اس كے كردار كے متعلق بیان كیاہے ۔روز قیامت وہ كس طرح فریاد كررہے ہوں گے؟ قرآن ان كی زبان میں كہتا ہے: فَمٰالَنٰا مِن شَافِعِینَ وَلاٰصَدِیقٍ حَمِیمٍاب ہمارے لۓ كوئ شفاعت كرنے والا بھی نہیں ہے اور نہ كوئ دل پسند دوست ہے۔ (سورئہ شعرا ۲۶ آیت ۱۰۰ ۔ ۱۰۱) حضرت اما م صادق ں اس آیت كی تفسیر میں فرماتے ہیں: لَقَدعَظُمَت مَنزِلَةَ الصَّدِیقِ حَتّٰی أَنَّ أَہلَ النّٰارِ یَستَغِیثُونَ بِہِ وَیَدعُونَ بِہِ فِی النّٰارِ قَبلَ القَرِیبِ الحَمِیمِ قٰالَ اللّٰہُ مُخبِراً عَنہُم: فَمٰالَنٰا مِن شَافِعِینَ وَلاٰصَدِیقٍ حَمِیمٍ دوست كا كردار اس درجہ اہم اور عظیم ہے كہ اہلِ عذاب بھی اپنے دوستوں كو مدد كے لۓ بلائں گے اور قبل اس كے كہ جہنم كے كھولتے پانی (حمیم) كو پئں آتش جہنم میں انہیں پكاریں گے۔ پروردگارِ عالم ان كی حالت بیان كرتے ہوۓ فرماتا ہے : (وہ كہیں گے) نہ اب كوئ ہماری شفاعت كرنے والا ہے اور نہ ہی كوئ مخلص دوست ۔ یہاں صدیق حمیم سے مراد ایسا مخلص او رحقیقی دوست ہے جو وفادار ہو اوردوست كی مدد كے لۓ اٹھ كھڑا ہو۔ یہاں تك كہ اہلِ عذا ب بھی اپنے دائں بائں دیكھیں گے او راپنے كسی دوست كو تلاش كریں گے لیكن انہیں ان میں سے كوئ بھی نظر نہیں آۓ گا ۔ لہٰذاایك دوسرے سے سوال كریں گے كہ میراوہ فداكار دوست كہاں ہے؟اس وقت انھیں احساس ہوگاكہ غیر مومن اور غیر خداپرست شخص كے ساتھ ان كی دوستی كسی مضبوط بنیاد پر استوار نہ تھی لہٰذا موت كے بعد باقی نہیں رہی۔ جی ہاں !
ألأَخَلّٰاءُُ یَؤمَئِذٍ بَعضُہُم لِبَعضٍ عَدُوٌّ إلَّا المُتَّقِینَ
آج كے دن صاحبانِ تقویٰ كے سوا تمام دوست ایك دوسرے كے دشمن ہو جائں گے۔ (سورئہ زخرف ۴۳ آیت ۶۷)
برے دوست
پروردگارعالم نے برے اورنامناسب دوستوں كے متعلق بھی ارشاد فرمایا ہے۔ یہ ایسے دوست ہیں جن كی دوستی پر لوگ روزِ قیامت شرمندہ ہوں گے۔ پروردگارِعالم فرماتا ہے: وَیَومَ یَعَضُّ الظّٰالِمُ عَلیٰ یَدَیہِ یَقُولُ یٰا لَیتَنِی تَّخَذتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِیلاًاور جس دن ظلم كرنے والا (مارے افسوس كے) اپنے ہاتھ كاٹنے لگے گا اوركہے گا كہ كاش میں بھی رسول كے ساتھ دین كا سیدھا راستہ اختیار كرتا۔ (سورئہ فرقان ۲۵ آیت ۲۷) یہاں ظالم سے مراد ایسا شخص ہے جس نے كفر گمراہی اور گناہ كی راہ اختیار كركے اپنے اوپر ظلم كیا ہے۔ یہ شخص روزِ قیامت حسرت و اندوہ كے عالم میں كہے گا كہ كاش میں نے رسول كی دكھائ ہوئ راہ اختیار كی ہوتی۔ قرآنِ كریم مذكورہ بالا آیت میں آگے چل كر اس افسوس كرنے والے كی زبان میں كہتا ہے: یٰا وَیلَتٰی لَیتَنِی لَم تَّخِذ فَلاٰناً خَلِیلاً ہاۓ افسوس كاش میں نے فلاں شخص كو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا۔ (سورئہ فرقان ۲۵ آیت ۲۸)
اس سے سوال كیا جاۓ گا :تمہیں كیا ہواہے فلاںنے تمہارے ساتھ كیا كیا ہے؟ وہ جواب میں كہے گا: لَقَد أَضَلَّنِی عَنِ الذِّكرِ بَعدَ ذجَائَنی وَكَانَ الشَّیطٰانُ لِلاِنسَانِ خَذُولاً اس نے ذكر (كلامِ الٰہی) آنے كے بعد بھی مجھے گمراہ كر دیا اور شیطان تو آدمی كو رسوا كرنے والا ہے ہی۔ (سورئہ فرقان۲۵ آیت ۲۹)
خدا كی نصیحت اسكے پیغمبر كے ذریعے مجھ تك پہنچی جس نے میرے قلب و ذہن كو روشن كیا لیكن یہ شخص میرا دوست میرے پاس آیا اور اس نے مجھے كلام الٰہی سے دور كر دیا میری روح اورمیری فكر كو فطری راستے سے ہٹادیا او راپنی مطلوبہ جگہ پہنچانے كے بعد مجھے تنہا چھوڑ گیا۔ جی ہاں! شیطان چاہے وہ جنوں میں سے ہو چاہے انسانوں میں سے بالآخر وہ انسان كو تنہا چھوڑدیگا ۔ پروردگار عالم نے انسانوں كو فریب دینے كے لۓ شیطان كے حیلوں و بہانوں كے متعلق فرمایا ہے:كَمَثَلِ الشَّیطٰانِ ذقٰالَ لِلاِنسٰانِ اكفُر فَلَمّٰا كَفَرَ قٰالَ نِّی بَرِیئٌ مِنكَ نِّی اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ العٰالَمِینَان كی مثال شیطان جیسی ہے كہ اس نے انسان سے كہا كہ كفر اختیار كر لے اور جب وہ كافر ہوگیا تو كہنے لگا كہ میں تجھ سے بیزار ہوں میں عالمین كے پروردگار سے ڈرتا ہوں۔ (سورئہ حشر ۵۹ آیت ۱۶)
روزِ قیامت شیطان محشر میں كھڑا ہوگا لوگ آكر كہیں گے كہ اے پروردگار! شیطان نے ذمے داری قبول كرنے كے ساتھ ہمیں گمراہ كیا اور فریب دیا ہے۔ لیكن شیطان دوسرے طریقے سے اپنا دفاع كرے گا اورساری كی ساری ذمے داری خود لوگوں كے سر ڈالے گا: وَقَالَ الشَّیطٰانُ لَمّٰا قُضِیَ الأَمرُ اِنَّ اللّٰہَ وَعَدَكُم وَعدَالحَقِّاور شیطان تمام امور كا فیصلہ ہو جانے كے بعد كہے گا كہ اȎنے تم سے بالكل برحق وعدہ كیا تھا۔ (سورئہ ابراہیم ۴۱ آیت ۲۲)
اور كہے گا: سٰارِعُوا لیٰ مَغفِرَةمِن رَبِّكُم وَجَنَّةٍ عَرضَہَا السَّمٰوٰاتِ وَالأرضِ اُعِدَّت لِلمُتَّقِینَ اور اپنے پروردگاركی مغفرت اور اس جنت كی طرف سبقت كرو جس كی وسعت زمین و آسمان كے برابر ہے اور اسے ان صاحبانِ تقویٰ كے لۓ مہیا كیا گیا ہے۔ (سورئہ آل عمران ۳ آیت ۱۳۳)
اور كہے گا: انَّ اللّٰہَ وَعَدَكُم وَعدَالحَقِّ وَ وَعَدتُكُم فَاخلَفتَكُم االله نے تم سے بالكل برحق وعدہ كیا تھا اور میں نے بھی ایك وعدہ كیا تھا پھر میں نے اپنے وعدے كی مخالفت كی۔ (سورئہ ابراہیم ۱۴ آیت ۲۲)
كیونكہ میں تو چاہتا ہی یہ تھا كہ تم سے جھوٹا وعدہ كروں تمہارے دلوں میں وسوسہ پیداكروں تمہارے سامنے اچھائوں كوبرائ اور برائوں كو اچھائ بناكر پیش كروں اس لۓ كہ تم سے میری دشمنی كی ابتدا تو تمہارے باپ آدم اور تمہاری ماں حوا ہی سے ہو چكی ہے۔ االله تعالیٰ نے فرمایا ہے :انَّ الشَّیطٰانَ لَكُم عَدُوًّا فَاتَّخِذُوہُ عَدُوًّا نَّمٰا یَدعُوحِزبَہُ لِیَكُونُو مِن اَصحٰابِ السَّعیربے شك شیطان تمہارا دشمن ہے تم بھی اسے اپنا دشمن سمجھو ۔وہ اپنے گروہ كو صرف اس بات كی طرف دعوت دیتا ہے كہ وہ سب كے سب جہنمی بن جائں۔ (سورئہ فاطر ۵۳ آیت ۶) دشمن دشمن كے ساتھ كس طرح پیش آتا ہے؟كیا دشمن دشمن كا خیر خواہ ہوتا ہے یا اس سے كینہ و عداوت ركھتا ہے؟ پروردگارِ عالم اپنی كتاب قرآن مجید میں شیطان كے قول كو نقل كرتا ہے (وہ كہے گا) ۔ وَمٰاكٰانَ لی عَلَیكُم مِن سُلطٰانٍاور میرا تمہارے اوپر كوئ زور بھی نہیں تھا۔ (سورئہ ابراہیم۱۴۔ آیت ۲۲) اور پرودگارِ عالم نے شیطان كو خطاب كركے كہا: اِنَّ عِبٰادِی لَیسَ لَكَ عَلَیہِم سُلطٰاناً اِلّٰا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الغٰاوِینَ میرے بندوں پر تیرا كوئ اختیار نہیں ہے سواۓ ان گمراہوں كے جو تیری پیروی كرنے لگیں۔ (سورئہ حجر ۱۵ آیت ۴۲) فَلاٰ تَلُومُونی تو اب تم مجھے ملامت نہ كرو (سورئہ ابراہیم ۱۴ آیت ۲۲) اس وقت شیطان كہے گا كہ پروردگار كی طرف سے اس قدر اتمام حجت كر دینے كے بعد مجھے ملامت نہ كرو۔ اس لۓ كہ میں نے پہلے ہی پروردگار عالم سے عرض كردیا تھا: فَبِمٰا اَغوَیتَنِی لَأَقعُدَنَّ لَہُم صِرَاطِكَ المُستَقِیمَ ثُمَّ لَاٰتِیَنَّہُم مِن بَینَ اَیدِیہِم وَمِن خَلفِہِم وَعَن اَیمٰانِہِم وَعَن شِمٰائِلِہِم وَلٰاتَجِدُ اَكثَرَہُم الشَّاكِرِینَ پس جس طرح تو نے مجھے گمراہ كیا ہے میں تیرے سیدھے راستے پر بیٹھ جائوں گا۔ اسكے بعد سامنے پیچھے اور دائں بائں سے آئوں گا اور تو دیكھے گا كہ اكثریت شكرگزار نہیں۔ (سورئہ اعراف ۷ آیت ۱۶ ۱۷)
لہٰذا میرا مقصداور ارادہ پہلے ہی سے واضح تھا او رمیں نے تمہارے باپ آدم سے كینہ او رانتقام كی بنا پر تمہیں فریب دینے كا فیصلہ كیا ہے۔ وَلُومُوا اَنفُسَكُم پس میرے بجاۓ خود اپنے آپ كو ملامت كرو ۔ پروردگارِ عالم نے تمہیں عقل دی تمہارے لۓ اپنے پیغمبر بھیجے تمہیں ارادہ و اختیار اور حقِ انتخاب بخشا سعادت اورشقاوت كے راستے تمہارے سامنے واضح كۓ پھر بھی تم نے كیوں جنت كا راستہ نہیں اپنایا اور جہنم كا راستہ منتخب كیا؟جبكہ تم كو علم تھا كہ میرا گروہ جہنمیوں كا گروہ ہے: مٰااَنَا بِمُصرِخِكُم نہ میں تمہاری مددكو پہنچ سكتا ہوں وَمٰا اَنتُم بِمُصرِخِی او رنہ تم میری مدد كو پہنچ سكتے ہو۔ وہاں ہر ایك كو اپنی پڑی ہو گی۔ انِّی كَفَرتُ بِمَا اَشرَكتُمُونِ میں تو پہلے ہی سے اس بات سے منكر ہوں كہ تم نے مجھے اس كا شریك بنا دیا۔ (سورئہ ابراہیم ۱۴ آیت ۲۲)
اقوالِ معصومین میں دوستی
ہم نے جو كچھ عرض كیا اس سے واضح ہے كہ یہ آیت (سورئہ ابراہیم كی آیت ۲۲) بہت سی احادیث كے معنی كو اجاگر كرتی ہے۔ رسول اسلام كی ایك حدیث ہے جس میں آنحضرت فرماتے ہیں: اَلمَرئُ عَلیٰ دِینِ خَلِیلِہِ فَلیَنظُر اَحَدُكُم اِلیٰ مَن یُخٰالِلُ ہر شخص اپنے دوست كی عادات و اطوار اپناتاہے لہٰذا تم میں سے ہر ایك كو نظر ركھنا چاہۓ كہ وہ كس سے دوستی كررہا ہے۔ یعنی دوستی اور میل جول انسان پر اثر انداز ہوتی ہے اور اسی كے زیر اثر وہ اپنے دوستوں اور ملنے جلنے والوں كا دین اپنا لیتا ہے۔ لہٰذا جب بھی كسی سے دوستی كرنا چاہیں تو اس شخص كے دین كی تحقیق كرلیں اور جب تك مطمئن نہ ہوجائں كہ مدِمقابل آپ كو آپ كے عقیدے اور دین سے منحرف نہ كرے گا اور نہ صرف آپ كو آپ كے دین سے گمراہ نہ كرے گابلكہ آپ كے دین میں تقویت كا بھی باعث ہو گا اس وقت تك اسكی جانب دوستی كا ہاتھ نہ بڑھائں۔ اس كے ساتھ ساتھ انسانوں كے بارے میں فیصلہ كرنے كا ایك ذریعہ ان كے دوست بھی ہیں۔ لہٰذا اگر آپ كسی انسان كے اچھا یا برا ہونے كا فیصلہ كرنا چاہتے ہیں تو یہ فیصلہ كس بنیاد اور كسوٹی پر كریں گے؟ حضرت سلیمان بن داؤد فرماتے ہیں: لٰا تُحَكِّمُوا عَلیٰ رَجُلٍ بِشَیئٍ حَتّٰی تَنظِرُوا لیٰ مَن یُصٰاحِبكسی شخص كے بارے میں اس وقت تك فیصلہ نہ دو جب تك یہ نہ دیكھ لو كہ وہ كس كے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے۔ یہ وہی معروف مثل ہے جس میں كہا گیا ہے كہ: تم بتائو كس كے دوست ہو تاكہ ہم بتائں كہ تم كون ہو۔ او رحقیت بھی یہی ہے۔ انسان كو اس كے ہم فكر، ہمدل اور ہمدم سے پہچانا جا سكتا ہے ۔اس لۓ كہ ہر شخص اپنے ہم رنگ سے مانوس ہوتا ہے: ایك دوسری حدیث میں پیغمبر اسلام سے نقل ہوا ہے: ختَبُروا النَّاسَ بِاَخدَانِہِملوگوں كی شناخت ان كے دوستوں كے ذریعے كرو۔ اخدان خدین كی جمع ہے خدین یعنی ہم راز دوست یا راز محفوظ ركھنے والا دوست لہٰذا جو كوئ بھی اپنے لۓ كسی كو ہمراز دوست كے بطور منتخب كرتا ہے ، درحقیقت اس سے فكری وروحی مماثلت ركھتا ہے۔ اور یہ احادیث اس بات كی شدیدتاكید كررہی ہےں كہ دوستی مشكلات كا سبب اور خطرناك بھی ہوسكتی ہے۔ واضح سی بات ہے كہ جب انسان كسی كی جانب كشش محسوس كرتا ہے اور اسكا شیفتہ ہوتا ہے تو دراصل اسكی صفات اور عادات و اطوار كا شیفتہ ہوتا ہے اسكی شخصیت كے عناصر سامنے والے فرد كی شخصیت كے عناصر سے نزدیك ہوتے ہیں۔
حضرت علیں فرماتے ہیں:اَلنَّفُوسُ اَشكٰالٌ فَمَا تَشَاكَلَ مِنہٰا اِتَّفَقَ وَالنَّاسُ اِلیٰ اَشكٰالِہِم اَمیَلُ نفوس مختلف اور طرح طرح كی شكلوں كے ہوتے ہیں ایك جیسی شكلیں آپس میں مل جاتی ہیں اور لوگ اپنی شكلوں كی جانب زیادہ مائل ہوتے ہیں۔ایك دوسری حدیث میں فرمایا: فَسَادُالاَخلاٰقِ مَعٰاشِرُة السُّفہٰائِ وَصَلاٰحُ الاَخلاٰقِ بِمُنٰافِسَةِ العُقَلاٰئِ وَالخَلقُ اَشكٰالٌ فَكُلٌّ یَعمَلُ عَلیٰ شَاكِلَتِہِ وَالنّٰاسُ اِخوٰانٌ فَمَن كٰانَت اِخوَتُہُ فِی غَیرِ ذَاتِ اللّٰہِ فَاِنَّہٰا تَحُوزُ عَدَاوَةً وَذٰالِكَ قَولُہُ تَعٰالیٰ: اَلاٰخَلاّٰئَُ یَومَئِذٍ بَعضُہُم لِبَعضٍ عَدُوٌّ اِلاّٰ المُتَّقِینَ احمقوں اور بےوقوفوں كے ساتھ ہم نشینی اخلاقی بگاڑ پیداكرتی ہے اور عقلمندوں كے ساتھ میل جول اخلاقی سدھار كا موجب ہوتا ہے۔ لوگ طرح طرح كے ہوتے ہیں اور ہر شخص اپنے جیسے شخص كے ساتھ گامزن ہے ۔ لوگ آپس میں بھائ بھائ ہیں ۔ اب جس كی برادری بھی خدا كے لۓ نہ ہو دشمنی میں تبدیل ہوجاتی ہے اور یہی پروردگارِ عالم كے اس قول كے معنی ہیں كہ: اس دن سارے دوست ایك دوسرے كے دشمن ہوجائں گے سواۓ متقین كے ۔ قرآن كریم نے حساب اور عذاب كے موقع پر برے دوست كی كیفیت كے متعلق اس طرح فرمایا ہے: قٰالَ قَائِلٌ مِنہُم اِنّی كٰانَ لِی قَرِینٌ یَقُولُ اَئِنَّكَ لَمِنَ المُصَدِّقِینَ اَئِذٰا مِتنٰا وَكُنّٰا تُرٰاباً وَعِظٰاماًأَ ئِ نَّا لَمَدیِنُونَ قَالَ ہَل اَنتُم مُطَّلِعُونَ فَاطَّلَعَ فَر ہُ فِی سَوَائِ الجَحیمِ قَالَ تَاللّٰہِ اِن كِدتَ لَتُردِینَ انھیں میںسے ایك كہنے والا كہے گا كہ دنیا میں میرا ایك دوست تھا اور (مجھ سے) كہا كرتا تھاكہ كیا تم بھی قیامت كی تصدیق كرنے والوں میں سے ہو۔ بھلا جب ہم مركر مٹی اور ہڈی ہو جائں گے تو ہمیں ہمارے عمل كا بدلہ دیا جاۓ گا (پھر بہشت میں اپنے ساتھیوں سے كہے گا) كیا تم لوگ بھی اسے دیكھوگے۔ یہ كہہ كر نگاہ ڈالی تو اسے بیچ جہنم میں پڑا ہوا دیكھا (یہ دیكھ كر بے ساختہ) كہے گا كہ خدا كی قسم قریب تھا كہ تو مجھے بھی تباہ كر دیتا ۔ (سورئہ صافات ۳۷ آیت ۵۱ ۵۶)
توہمیں ہوشیار رہنا چاہۓ اور ایسے دوست بنانے چاہئں جو اہلِ بہشت میں سے ہوں جنہیں لوگ ان كے ایمان اور عمل صالح كی وجہ سے پہچانتے ہوں اہلِ كفر و عذاب میں سے نہ ہوں۔جب انسان روزِ قیامت اپنے برے دوست كو دیكھے گا تو پشیمان ہوگا او رایسے دوست كی دوستی پر كفِ افسوس ملے گا۔ قرآن مجید نے اس لمحے كی اس كیفیت كو ان الفاظ میں بیان كیا ہے: قَالَ یٰالَیتَ بَینی وَبَینَكَ بُعدَ المَشرِقَینِ فَبِئسَ القَرِینِكہے گا كاش میرے اور تیرے درمیان مشرق ومغرب كا فاصلہ ہوتا یہ تو بڑا بدترین ساتھی نكلا۔ (سورئہ زخرف ۴۳ آیت ۳۸) اے كاش میں كبھی نہ تجھ سے ملا ہوتا میرے اور تیرے درمیان اس قدر فاصلہ ہوتا كہ كبھی ہماری ملاقات نہ ہوئ ہوتی ۔مجھے یاد ہے كہ تونے مجھ میں كیسے كیسے وسوسے پیدا كۓ مجھے گمراہ كیا اور ایسے راستے پر ڈال دیا جس كا انجام دوزخ میں ڈالے جانے كی صورت میں برآمد ہوا۔ پروردگارِ عالم برے دوست كی كیفیت كے متعلق اس طرح فرماتا ہے: جب انسان كے عمل كا حساب وكتاب ہورہا ہوگا اورجب وہ پرودگارِعالم كی عدالت میں اس كے سامنے كھڑا ہوگا تو اپنے اعمالِ بد كے لۓ عذر پیش كرے گا بہانے تلاش كرے گا اوراپنی گمراہی كاالزام اپنے دوست كے سر ڈالنے كی كوشش كرے گا۔قٰالَ قَرِینُہُ رَبَّنٰا مَا اَطغَیتُہُ وَلٰكِن كٰانَ فِی ضَلاٰلٍ بَعِیدٍ قٰالَ لاٰ تَختَصِمُوا لَدَیَّ وَقَد قَدَّمتُ لَیكُم بِالوَعِیدِمٰا یُبَدَّلُ القَول لَدَیَّ وَمٰااَنَا بِظَلاّٰمٍ لِلعَبِیدِ یَومَ نَقُولُ لِجَہَنَّمَ ہَلِ امتَلاتِ وَتَقُولُ ہَل مِن مَزِیدٍ اس وقت اس كا ساتھی كہے گا پروردگارا! ہم نے اس كو گمراہ نہیں كیا تھا بلكہ یہ تو خود گمراہی میں بہت دور چلا گیا تھا۔ اس پر خدا فرماۓ گا: ہمارے سامنے جھگڑا نہ كرو میں تو تم كو پہلے ہی عذاب كی خبر دے چكا تھا میرے یہاں بات بدلا نہیں كرتی اورنہ میں بندوں پر ذرّہ برابر ظلم كیا كرتا ہوں۔ اس دن ہم دوزخ سے پوچھیں گے كہ كیا تو بھر چكی ہے تو وہ كہے گی: كیا كچھ اور مل سكتا ہے۔ (سورئہ ق ۵۰ آیت ۲۷ ۳۰)
دوسر ے مقام پر االله رب العزت ان برے احباب كے متعلق (جو اس پر مسلط ہیں اور اسے چاروں طرف سے گھیرے ہوۓ ہیں) اس طرح فرماتا ہے: وَقَیَّضنٰا لَہُم قُرَنٰائَ فَزَیَّنُوا لَہُم مٰا بَینَ اَیدِیہِم وَمٰاخَلَفَہُماو رہم نے ان پر ایسے احباب او رہم نشینوں كو مقرر كیا كہ جنھوں نے جو كچھ ان كے سامنے تھا او رجو كچھ ان كے پیچھے تھا اسے ان كی نظروں میں خوبصورت بناكر پیش كیا تھا۔ (سورئہ فصلت ۴۱ آیت ۲۵)
صحیح ہے كہ پروردگارِعالم نے اس آیت میں برے دوستوں كے ذریعے لوگوں كی گمراہی كا قصور وار خود انہی لوگوں كو قرار دیاہے لیكن اس كے یہ معنی نہیں ہیں كہ خدا نے برے دوستوں كو ان پر زبردستی مسلط كردیا تھا بلكہ خود انھوں نے اپنے ارادے اور اختیار سے برے دوستوں كا انتخاب كیا تھا۔ اسی طرح پروردگارِعالم نے ہمیں یہ اختیار وارادہ دیا ہے كہ ہم برے دوستوں كی جگہ اچھے اور صحیح ددستوں كا انتخاب كریں اور سیدھا راستہ طے كرنے میں ان سے مدد لیں۔
دوست كی آزمائش
حضرت امام صادق ں نے كچھ ایسی علامات بتائ ہیں جن كے ذریعے دوستوں كی آزمائش كی جاسكتی ہے۔مَن غَضَبَ عَلَیكَ مِن خوَانِكَ ثَلاٰثَ مَرّٰاتٍ فَلَم یَقُل فِیكَ شَرّاً فَاتَّخِذہُ لِنَفسِكَ صَدِیقاً
تمہارے بھائوں میں سے جو كوئ تم سے تین مرتبہ ناراض ہو اس كے باوجود تمہارے بارے میں كوئ بری بات نہ كہے تو اسے اپنا دوست بنالو۔ بعض اوقات دوستوں كے درمیان اختلاف اور مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ ایك دوست ددسرے دوست سے ناراض ہو جاتا ہے لیكن ان میں محبت اسی طرح باقی رہتی ہے اور ایك دوسرے كی برائ نہیں كرتے۔ لہٰذا اگر یہی كیفیت تین مرتبہ پیش آۓ تو اپنے ساتھی كو ایك متوازن شخصیت كا حامل اورودستی كے قابل سمجھو۔ كیونكہ ایسا شخص اخلاقی قواعد كی پابندی كرے گا اوراسے اس كا غصہ تمہارے متعلق برا بھلا كہنے پر آمادہ نہ كر سكے گا۔ایك دوسری حدیث میں حضرت سے وارد ہوا ہے: لٰاتَسَمِّ رَجُلاً صَدِیقاً سِمَۃً مَعرُوفَۃً حَتّیٰ تَختَبِرَہُ بِثَلاٰثٍ فَتَنظُر غَضَبَہُ یَخرُجُہُ مِنَ الحَقِّ اِلیٰ البٰاطِلِ وَعِندَ الدِّینٰارِ وَالدِّرہَمِ وَحَتّیٰ تُسٰافِرَمَعَہُ كسی كو اس وقت تك اپنا جگری دوست نہ كہو اور ایك دوست كی حیثیت سے اسكا تعارف نہ كرائو جب تك تین چیزوں سے اس كا امتحان نہ كرلو۔ دیكھو كہ :
1۔ اس كا غصہ اسے حق سے نكال كر باطل كی طرف تو نہیں لے جاتا۔
2۔ درہم ودینار (روپے پیسے كے معاملے) میں كیسا ہے؟ (خیانت كا مرتكب ہوتا ہے یا تمہارے اموال كو بطور امانت محفوظ ركھتا ہے؟ روپیہ پیسہ اسے تمہاری دوستی سے زیادہ تو عزیز نہیں۔)
3۔ اس كے ساتھ سفر كرو (كیونكہ بعض اوقات سفر كی صعوبتیں انسان كوتعادل اور توازن سے خارج كردیتی ہیں۔ لہٰذا اگر اس موقع پر اس میں توازن باقی رہا تو اس كا مطلب یہ ہے كہ مضبوط اخلاقی اصولوں كی بنیاد پر چلنے والا شخص ہے) ۔
مطلوب دوست
معصومین كی احادیث میں ان لوگوں كی خصوصیات كا ذكر كیا گیا ہے جن سے دوستی كی جاسكتی ہے اور جنہیں بطور دوست منتخب كیا جاسكتا ہے ۔حضرت امام صادق ں فرماتے ہیں :اِصحَب مَن تَتَزَیَّنَ بِہِ وِلاٰ تَصحَب مَن یَتَزَیَّنُ بِكَ ایسے شخص كو دوست بنائوجو تمہاری زینت بنے اور ایسے شخص كو دوست نہ بنائو جو (تم سے سوء استفادہ كرے) تمہارے ذریعے اپنی شان بناۓ (اور بالا خر تمہاری آبرو كم ہوجاۓ) ۔ یعنی ہم نشینی اور دوستی كے لۓ مفید شخص كا انتخاب كرو تاكہ اس دوران اس كے علم واخلاق سے استفادہ كر سكو۔ ایسے شخص كو دوستی كے لۓ منتخب نہ كرو جس سے مستفید نہ ہو سكواوروہ تمہیں اپنا دوست سمجھے جبكہ وہ تمہارا ہم پلہ نہ ہو بلكہ تم سے كمتر ہو۔حضرت امام حسن ںنے اپنی عمر كے آخری لمحات میں جنادہ كو نصیحت فرمائی: اِصحَب مَن اِذَا صَحِبتَہُ زَانَكَ وَاِذَا خَدَمتَہُ صٰانَكَ واِذٰا اَرَدتَ مِنہُ مَعُونََۃً اَعٰانَكَ وَاِن قُلتَ صَدِّقَ قَولَكَ وَاِن صِلتَ شَدَّ صَولَكَ وَاِن مَدَدتَ یَدَكَ بِفَضلٍ مَدَّہٰا وَاِن بَدَت عَنكَ ثُلمَةً سَدَّہٰا وَاِن رَایٰ مِنكَ حَسَنَۃً عَدَّہٰا وَاِن سَاَلتَہُ اَعطٰاكَ وَاِن سَكَتَّ عَنہُ اِبتَدَاكَ وَاِن نَزَلَت ِاحدَی المُلِمّٰاتِ بِہِ َسٰاوَاَكَ دوستی اورہم نشینی كے لۓ ایسے شخص كا انتخاب كروجس كی دوستی تمہارے لۓ زینت كا باعث ہو اور جب اس كی خدمت كرو تو وہ تمہارا خیال ركھے اگر اس سے مدد چاہو تو وہ تمہاری مددكرے اگر كوئ بات كہو تو تمہاری تصدیق كرے اگر گوئ حملہ كرو تووہ تمہارے حملے كو شدت بخشے اگر ہاتھ بڑھا كر اس سے كوئ چیز طلب كرو تو تمہاری مدد كرے اگر تم كوئ نقصان اٹھائو تو وہ اس كی تلافی كرے اگر تم اس كے حق میں نیكی اور بھلائ كرو تو اس كا لحاظ ركھے اگر اس سے كوئ چیز مانگو تو تمہیں عطاكرے، اگر (حیا كی وجہ سے) خاموش رہو تو مدد اور بخشش میں پیش قدم ہو اور اگر كسی مصیبت سے دوچار ہوجائو تو وہ بھی خود كو مصیبت میں مبتلا سمجھے۔حضرت علیںنے فرمایا: اَكثِرِالصَّوابَ وَالصَّلاٰحَ فِی صُحبَۃِ اُولی النُّہیٰ وَالاَلبٰابِاپنی خوش نصیبی اور شائستگی كوصاحبانِ خرد كی ہم نشینی سے بڑھائو۔ مزید فرماتے ہیں: صاحب الحكمائ (صاحبان حكمت كی صحبت اختیار كرو۔) تاكہ ان كی حكمت سے فائدہ اٹھائو۔ وَ جَالِسِ الحُلَمَاء (بردبار اور حلیم افراد كے ہم نشین بنو) بردبار افراد وہ ہیں جن كے قلوب میں وسعت پائ جاتی ہے ۔ وَاَعرِض عَنِ الدُّنیٰا تَسكُنُ جَنّۃََ المٰأویٰ (دنیا سے منھ موڑلو تاكہ بہشتِ بریں میں جگہ حاصل كرسكو) ۔ دوسرے مقام پر حضرت علی ں فرماتے ہیں: عَجِبتُ لِمَن یَرغَبُ فِی التَّكَثُّرِ مِنَ الاصحٰابِ كَیفَ لٰا یَصحَبُ العُلَمَاء الأَلِبَّاء الاَتقِیَاء اَلَّذِینَ یَغنِمُ فَضَائِلَہُم وَتُہَذِّبُہُ عُلُومُہُم وَتُزَیِّنُہُ صُحبَتَہُم ۔مجھے تعجب ہے ایسے شخص پر جو دوستوں كی كثرت كا خواہشمند ہوتا ہے آخر وہ كیوں صاحبانِ علم و خرد اور اہلِ تقویٰ كی صحبت اختیار نہیں كرتا ہے جن كے فضائل اسكے لۓ غنیمت ہوں گے جن كے علوم اسے مہذب بنائں گے نیز ان كی ہم نشینی اس كے لۓ زینت بخش ہو گی۔مَن دَعٰا كَ اِلَی الدَّارِالبَاقِیۃِ وَاَعٰانَكَ عَلَی العَمَلِ فَہُوَالصَّدیقُ الشَّفِیقُ جو بھی تمہیں دارِ بقا (آخرت) كی طرف بلاۓ اورمیدانِ عمل میں تمہارا معاون ومددگار ہو وہ تمہارامہربان اور حقیقی دوست ہے۔ كیونكہ ایسا ہی دوست تمہیں آخرت كی یاد دلانے والا خدا پسند كاموں میں تمہاری مدد كرنے والا اور تمہیں نجات اور اچھے راستے كی طرف لے جانے والا ہے۔ نیز آپ نے فرمایا: قٰارِن اَہلَ الخَیرِ تَكُن مِنہُم وَبٰایِن اَہلَ الشَّرِّ تَبِن مِنہُم بِہِ نیك افراد كا قرب اختیار كرو تاكہ انھیں میںسے ہوجائو او ربرے افراد سے دور رہو تاكہ ان میں شمار نہ كۓ جائو۔
اہلِ بیت (ع) كے افكار
میرے عزیزو! ائمہ ٔ اہل بیت كی امامت كا پیروكار ہونا ہم پر لازم كرتا ہے كہ ہم زندگی كے متعلق ان كی راہ وروش كا مطالعہ كریں وہی راہ و روش جو صحیح معنی میں حقیقی اور خالص اسلامی راہ و روش ہے ۔ ہمارا فرض ہے كہ ان كے كلمات او ران كے ارشادات بھی پیشِ نظر ركھیں اور واقعات وحوادث كے مقابل ان كے طریقے اور سیرت كو بھی مدِنظر ركھیں ۔اس لۓ كہ امامت كی پیروی كے معنی كتاب خدا اور سنتِ پیغمبر سے ماخوذ اسلام كی پیروی ہے۔ ائمۂ ہدیٰ كی سیرت سیرتِ پیغمبر ہی ہے اور ان كا كلام بھی وہی ہے جو رسولِ خدا كا كلام ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنی زندگی كو ان كی فكری اور عملی زندگی كے مطابق بنانا چاہۓ صرف ان كے غم اور مسرت كے ایام منانے پر اكتفانہ كریں۔ كیا یہ درست نہیں ہے كہ وہ اسلام كا ان حضرات نے جو كچھ بھی مظالم او رمصائب برداشت كۓ وہ صرف اسلام كے لۓ تھے۔اور یہ وہی چیز ہے جسے ہم معصومۂ كونین سیدة النساء العالمین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا كی زندگی میں بھی دیكھتے ہیں۔ بالخصوص فتنہ وآشوب كے ایام میں آپ نے جو كچھ فرمایا جب اس كا مطالعہ كرتے ہیں اور اس پر غور كرتے ہیں تو احساس ہوتا ہے كہ آپ كے كلام كا محور اسلام اور اس كا دفاع تھا۔حتی آپ نے حضرت علی كا دفاع بھی اس وجہ سے كیا تھا كہ وہ مسلمانوں كے برحق امام اور امیرِ اسلام تھے اس وجہ سے نہیں كہ علی آپ كے شوہر تھے۔ گو كہ ہم حضرت علی كے امامِ برحق اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا كے شوہر ہونے كے درمیان كسی فرق كے قائل نہیں ہیں لیكن انھوں نے آپ كی امامت كی وجہ سے آپ كا دفاع كیا اپنا شوہر ہونے كی بناپر نہیں۔ یہ وہ نكتہ ہے جسے ہمیں اپنی زندگی میں زیادہ سے زیادہ مدِ نظر ركھنا چاہۓ اور اہلِ بیت سے فكر عقیدے عمل اور زندگی كے میدان میں رابطہ استوار كرنا چاہۓ تاكہ ہم انہیں اپنے عصر اور زمانے میں لا سكیں اور انھیں تاریخ كے ایك خاص حصے او ردائرے میں محدود نہ كریں اسی طرح جیسے بدقسمتی سے تاریخ كے دوران ان كے ساتھ یہی سلوك ہوا ہے۔
ہمارا خیال ہے كہ ہمیں مسلمانوں اور غیر مسلموں نیز مغرب و مشرق میں پھیلے ہوۓ عصرِ حاضر كے انسانوں كے اذہان كو افكارِ اہلِ بیت سے معمور اور منور كرنا چاہۓ۔ كیونكہ صرف انہی كے افكار انسانی حیات كو روشن كر سكتے ہیں۔ پس ہمیں انہیں چھوٹا اور معمولی بنا كر پیش نہیں كرنا چاہۓ انہیں صرف اشك و عزا تك محدود نہیں كرنا چاہۓ بلكہ ہمیں چاہۓ كہ انہیں فكر و تہذیب كا سرچشمہ اور تمام عالم كو منور كرنے والا سمجھیں۔
قرآن كی نظر میں غیر مطلوب اور ناقابلِ معاشرت دوست
قرآن كی نظر میں غیر مطلوب اور ناقابلِ معاشرت دوست یہ بات جاننے كے لۓ كہ كن لوگوں سے دوستی اور فاقت كا رشتہ قائم نہ كیا جاۓ اور ان معیارات اور پیمانوں كی تشخیص كے لۓ جن پر مومن اور صالح افراد كی دوستیاں استوار ہونی چاہئں ہم كتابِ خدا قرآن مجید اور احادیثِ معصومین سے رجوع كرتے ہیں۔اس بارے میں قرآن مجید فرمارہا ہے: یَومَ یَعَضُّ الظّٰالِمُ عَلیٰ یَدَیہَ اس دن ظالم (مارے افسوس كے) اپنے ہاتھوں كو كاٹے گا۔یہاں ظالم سے مراد وہ شخص ہے جس نے كفر فسق وفجور او رانحراف كی راہ اپنا كر اپنے آپ پر ظلم كیا ہے۔ یَقُول یٰالَیتَنِی تَّخَذتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِیلاً اور كہے گا كہ كاش میں نے رسول كے ساتھ ہی راستہ اختیار كیا ہوتا۔یعنی اے كاش میں اس راستے كو اختیار كرتا جسكی پیغمبر نے دعوت دی تھی اور اسی راہ پر ان كے ہمراہ چلتا۔ پھر جانكاہ فریاد كے ساتھ كہے گا: یٰا وَیلَتیٰ لَیتَنی لَم اَتَّخِذُ فُلاَناً خَلِیلاً ہاۓ افسوس كاش میں نے فلاں شخص كو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا۔ یعنی كافر او رگمراہ شخص جس نے غیر مناسب فرد كو اپنا دوست بنایا ہو گا اب اس دوستی پر كفِ افسوس ملے گا۔لیكن كیوں پشیمان ہو گا؟ اس لۓ كہ: لَقَداَضَلَّنی عَنِ الذِّكرِ بَعدَ اِذجَائَنیاس (دوست) نے ذكر آنے كے بعد بھی مجھے گمراہ كر دیا۔وہ ذكر جسے پیغمبر لے كر آۓ وہ قرآنِ كریم ہے ایك ایسی كتاب جو انسان كو خداوندِ متعال اور اس راہ كی طرف متوجہ كرتی ہے جس پر انسان كو چلنا چاہۓ ۔وَكٰانَ الشَّیطٰانُ لِلانسٰانِ خُذُولاً اور شیطان تو انسان كو ذلت ورسوائ میں چھوڑدیتاہے ۔ اور روز قیامت كوئ ذمے داری قبول نہیں كرتا۔ ایك اور طرح كے دوست جن كی قرآنِ مجید میں مذمت كی گئ ہے اور جنہیں نامناسب قرار دیا گیا ہے وہ افراد ہیں جو باطل اور غلط طریقے سے آیاتِ الٰہی میں غور و خوض كرتے ہیں تاكہ بخیال خود ان میں نقص اور كمی ڈھونڈ كر ان كا انكار كریں ان كا مذاق اڑائں او ران كی مخالفت كریں۔ اس طرح كے دوستوں كے متعلق قرآن مجید فرماتا ہے: وَاِذ رَاَیتَ الَّذِینَ یَخُوضُونَ فی آیٰاتِنٰا فَاَعرِض عَنہُم حَتّٰی یَخُوضُوا فی حَدِیثٍ غَیرَہُ وَاِمّٰا یُنسَیَنَّكَ الشَّیطٰانُ فَلاٰتَقعُد بَعدَ الذِّكریٰ مَعَ القَومِ الظّٰالِمِینَ اور جب تم ان لوگوں كو دیكھو جوہماری آیتوں كے متعلق بیہودہ بحث كررہے ہیں تو ان (كے پاس) سے ہٹ جائو یہاں تك كہ وہ لوگ كسی اور بات پر بحث كرنے لگیں او راگر شیطان تمہیں یہ حكم بھلادے تو یاد آنے كے بعد ظالم لوگوں كے ساتھ ہرگز نہ بیٹھنا۔ (سورہ انعام ۶ آیت ۶۸)
قرآنِ مجید كی اس آیت سے اچھی طرح سمجھا جاسكتاہے كہ ہمیں اسلام كے خلاف زہر اگلنے والے افراد سے دور رہنا چاہۓ۔ پردگارِعالم كو یہ بات پسند نہیں كہ ہم اس بزم میں شریك ہوں جس بزم میں لوگ اسلام كے خلاف گفتگو میں مصروف ہوں۔ لہذا ظاہر ہے كہ وہ ہمیں اس بات كی اجازت بھی نہ دے گا كہ ہم اس طرح كے افراد كے ساتھ نشست وبرخاست ركھیں۔جب االله تعالیٰ یہ چاہتا ہے كہ ہم اس محفل تك سے نكل جائں جس میں اسلام كے خلاف گفتگو ہورہی ہو تو پھر كیسے یقین كیا جاسكتا ہے كہ وہ ایسے افراد كے ساتھ ہماری دوستی او ران سے ہمارا میل جول قبول كرے گا؟ پروردگارِعالم ہم سے كہتا ہے كہ ایسی دوستی قائم كریں جس كی بنیاد ایمان اورتقویٰ پر ہو۔ لہٰذا ایسے مومن سے دوستی كا رشتہ قائم كریں جو خدا رسول اولیاۓ الہٰی اور روزِقیامت پر ایمان نیز تقویٰ خشوع اوراطاعتِ خدا میں آپ سے نزدیك ہو۔ كیونكہ ایسی ہی دوستیاں باقی رہتی ہیں یہاں تك كہ ایسے دوست باہم بہشت بریں میں داخل ہوں گے اور وہاں بھی اسی طرح دوست بن كر رہیں گے جس طرح دنیا میں ایك دوسرے كے دوست تھے۔ لیكن وہ لوگ جو دیانت اور تقوا میںآپ كی مثل و مانند نہ ہوں روز قیامت ان كی دوستی ختم ہو كر دشمنی میں تبدیل ہوجاۓ گی: آج (قیامت) كے دن صاحبانِ تقویٰ كے سوا تمام دوست ایك دوسرے كے دشمن ہو جائں گے۔ جی ہاں! صرف متقین كی دوستیاں روزِ قیامت تك باقی رہیں گی ۔ارشاد الٰہی ہوتا ہے: اِذ تَبَرَّاَ الَّذِینَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِینَ اتَّبَعُوا وَرَأؤُا العَذٰابَ وَتَقَطَّعَت بِہِمُ الاَسبٰابَ وَقٰٰالَ الَّذِینَ اتَّبَعُوا لَو اَنَّ لَنٰا كَرَّةً فَنَتَبَرَّا مِنہُم كَمٰا تَبَرَّأَوامِنّٰا كَذالِكَ یُرِیہِمُ اللّٰہُ اَعمٰالَہُم حَسَرَاتٍ عَلَیہِم وَمٰاہُم بِخٰارِجِینَ مِنَ النّٰار جب پیشوا اپنے پیروكاروں سے لاتعلقی كا اظہار كریں گے اور سب كے سامنے عذاب ہو گا اور تمام وسائل منقطع ہو چكے ہوں گے۔ اور پیروكار كہیں گے كہ اے كاش ہم ان سے اسی طرح لاتعلق رہتے ہوتے جس طرح یہ آج ہم سے لاتعلقی كا اظہار كر رہے ہیں ۔خدا ان سب كے اعمال كو اسی طرح حسرت بنا كے پیش كرے گا اور ان میں سے كوئ بھی جہنم سے نكلنے والا نہیں ہے۔ (سورئہ بقرہ ۲ آیت ۱۶۶ ۱۶۷) پس متقی اور پرہیز گار شخص كو دوست بنانا چاہۓ او راگر آپ ایسے دوست كے طالب ہیں جسے پروردگارِعالم انبیائ اولیاۓ الہٰی او رمومنین پسند كریں اور وہ روزقیامت آپ كے ہمراہ اور آپ كا رفیق ہو تو آپ كومعلوم ہونا چاہۓ كہ اس قسم كا دوست وہ ہے جو آپ كے اندر یادِ خدا پیدا كرے۔ ایسے ہی خدا محو ردوستوں كے بارے میں كہا گیا ہے كہ: اِخوَاناً عَلیٰ سُرُرٍ مُتَقٰابِلِینَ وہ بھائیوں كی طرح آمنے سامنے تخت پر بیٹھے ہوں گے۔ (سورئہ حجر ۱۵ آیت ۴۷)
 

http://shiastudies.com/ur/168/%d8%af%d9%88%d8%b3%d8%aa%db%8c/

تبصرے
Loading...