کیوں قرآن کی بعض آیتیں انبیاء کی عصمت کے منافی هیں ؟ براه کرم واضح کیجے۔

اس سوال کے جواب میں اس طرح کها جاسکتا هے که :

1۔ عصمت، معصوم فرد کے نفس کی ایک خاص بالیده حالت کو کهتے هیں جس کی بنا پر وه گناهوں، لغزشوں سے دور بلکه هر قسم کے خطا، نسیان ، بھول ، چوک سے بھی محفوظ رهتا هے ؛ بغیر  یه که اس سے اس کا اختیار چھن جائے ؛ یا معصوم پر کسی قسم کا دباؤ یا جبر حاکم هو۔

2۔ انبیاء کی عصمت کا راز، شهود حق کی منزل پر فائز  ان کے علم کامل، گهرے ایمان و عقیدے ، خداوند عالم سے وه الٰهانه عشق و محبت، حق تعالی کی عظمت کے احساس، اور اس کے صفات جمال و جلال کے عرفان میں پوشیده هے۔ اس کے علاوه خداوند عالم کی تائید اور توفیق، انبیاء کو شیاطین کے شر سے نیز نفسانی خواهشات کی اتباع سے محفوظ رهنے میں مزید تقویت دیتی هے۔

3 ۔ انبیاء کی عصمت کی ضرورت ، اور انھیں لازمی طور سے معصوم هونے کے سلسله میں عقلی دلائل بھی بهت هیں؛ منجمله یه که ان کے معصوم نه هونے سے “نقض غرض” پیش آتا هے اور تحصیل غرض کا لازمه عصمت هے ۔

4 ۔ اگر قرآن کریم کی بعض آیتیں عقلی دلائل کے خلاف نظر آ رهی هوں، تو آیات کے مفاد میں غور و فکر کرکے، نیز دوسری آیتوں اور روایتوں کو بھی مدّ نظر رکھ کے، اس کے صحیح معنی کو حاصل کرنا چاهے؛ اور بادی النّظر میں آنے والے اس کے سطحی معنی کو صحیح انداز سے سمجھنا چاهے۔

5۔ انبیاء کے لئے عصمت کی ضرورت اور اس کے لازمی هونے پر قرآن کریم کی بهت سی آیتیں بھی دلالت کرتی هیں؛ اگر چه ان میں “عصمت” لفظ استعمال نهیں هوا هے ؛ مثال کے طور پر :

الف: قرآن کی بهت سی آیتوں میں انبیاء کو “مخلَص” بتایا گیا هے : جیسے سوره “صٓ” کی 45 سے 48 آیتوں میں ؛ اور مخلَص اسے کهتے هیں جس پر شیطان کی گمراهیوں کا سایه بھی نه پڑے ۔

ب: انبیاء، خاص “الهی هدایت” سے بهره مند هیں ؛ اس سلسله میں بھی بے شمار آیتیں موجود هیں ، مثال کے طور پر سوره انعام کی 84 سے 90 تک کی آیتیں ؛ ظاهر سی بات هے خداوند عالم کی خاص هدایت  جس کے شامل حال هو، اس کے سلسله میں خطا، لغزش، گمراهی وغیره کا کوئی سوال هی پیدا نهیں هوتا۔

ج: خداوند عالم نے بهت سی آیتوں میں انبیاء کی پیروی اور ان کی تبعیت کا حکم دیا هے اور لوگوں کو ان کی بے قید و شرط اطاعت پر مأمور کیا هے ۔ مثال کے طور پر سوره آل عمران کی 31 اور 32 آیتوں میں؛ یا سوره نساء کی آیت نمبر 80 میں ؛ یا سوره نور کی آیت نمبر 52 میں ؛ ظاهر سی بات هے کسی کی بے قید و شرط اطاعت کا لازمه یه هے که وه معصوم هو، اور عصمت اس میں لازمی طور سے  پائی جاتی هو۔

د: سوره جن کی 26 سے 28 تک کی آیتیں، خداوند عالم کی جانب سے انبیاء کی هر طرف، هر جانب سے حفاظت پر دلالت کرتی هے ۔

ھ: آیه تطهیر ( احزاب⁄32) رسول خدا صلی الله علیه آله و سلم کی عصمت پر روشن اور واضح دلیل هے ۔

6 ۔ وه آیتیں جو ظاهراً مقام عصمت کے منافی هیں ؛ یا تو وه “جمله شرطیه” هیں جو که معصیت کے واقع هونے پر دلالت نهیں کرتیں ؛ یا تو اس کے اصلی مخاطب عام مؤمنین هیں نه که انبیاء ۔

7 ۔ عام طور سے حضرت آدم کے عصیان کے سلسله میں سب سے زیاده شبهات وارد هوتے هیں ؛ اس کا جواب یوں دیا جاسکتا هے ۔

1۔ آیات میں مذکوره نهی “ارشادی” تھی نه که “مولوی”۔

2۔ نهی مولوی کی صورت میں بھی، نهی “تحریمی” نهیں تھی جو که گناه شمار هو، بلکه صرف ترک اولی تھا۔

3۔ وه عالم، عالم فرائض، واجبات و محرمات نهیں تھا که اس کی مخالفت عصیان هو۔

8۔اگر خداوند عالم نے بعض مقام پر انبیاء عظام سے سختی کے ساتھ خطاب کیا هے ؛ تو اس لئے که بهر حال وه بھی انسان هیں ؛ ان کے اندر بھی وه تمام انسانی اور نفسانی خواهشات پائی جاتی هیں جو ایک عام انسان میں هوتی هیں ؛ لهذا وه بھی الهی نصیحتوں، رهنمائیوں کے محتاج هیں که اگر ایک لمحے بھی خود ان پر چھوڑ دیا جائے تو هلاک هو جائیں گے ۔

تبصرے
Loading...