کیا فقر وجودی صرف معلول کی علت فاعلی کی نیازمندی کا معیار ہے؟

کیا فقر وجودی صرف معلول کی علت فاعلی کی نیازمندی کا معیار ہے؟

یا علت تامہ کے لئے بھی کافی ہے؟

فلسفی مفاہیم کے کیوں جنس و فصل نہیں ہیں؟ وغیرہ

 

١۔ فقر وجودی، معلول کے تمام انواع علل کی احتیاج کا معیار ہے، کیونکہ اولاً: مختلف انواع علل علت فاعلی کی طرف رجوع کرتی ہیں، کیونکہ حقیقت میں علت مادی و صوری خود معلول ہیں کہ عقل کے اعتبار سے مادہ اور صورت بن جاتی ہیں، یعنی جب متحد صورت میں لحاظ کئے جائیں تو خود معلول ہیں اور جب مستقل لحاظ کیا جائے تو علت مادی و صوری ہیں، پس ان کا تفاوت اعتباری تفاوت ہے، نہ حقیقی۔ اور معلول علت فاعلی کے شئونات میں سے ہے اور علت غالی بھی ۔ اگر چہ ابتدائی نظر میں ممکن ہے اس کا رجوع غیر فاعل کی طرف ھو، لیکن دقیق نگاہ ڈالنے سے تمام مواقع پر رجوع غایت فاعل، فاعل ھونے کے لحاظ سے، بلکہ فاعل حقیقی میں غایت عین فاعل ہے،[1]  پس اس بحث میں علت تامہ و علت فاعلی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔[2]
ثانیاً: فقر وجودی معلول بہ علت، یعنی وجود معلول کا وجود علت پر توقف، اور یہ توقف علل کی تمام اقسام میں موجود ہے، پس مذکورہ معیار علل کی تمام اقسام میں جاری ہے۔[3]
۲۔ فلسفی مفاہیم، ایسے مفاہیم ہیں کہ اگر موجودات پر حمل کئے جائیں، تو بھی ماہیت نہیں رکھتے ہیں، پس اپنے مصداق کے ساتھ ماھوی مطابقت بھی نہیں رکھتے ہیں، جب کوئی ماھوی مفہوم نہیں ہے، تو معلوم ہے کہ جنس و فصل بھی نہیں ھوں گے، کیونکہ جنس و فصل ماہیت کی قسمیں ہیں۔[4]
۳۔ معلول اپنی علت کے بارے میں علم حضوری رکھتا ہے، لیکن نہ اس علمی کی صورت میں کہ علت اپنے معلول کے بارے میں رکھتی ہے، کیونکہ علت، معلول کے تمام مراتب پر نظررکھتی ہے اور معلول کی حقیقت اس کے پاس موجود ہے، اس کے برعکس معلول، جس کے پاس علت کی صرف رقیقت موجود ہے اور صرف اس کے وجود کی وسعت کے مطابق علت کے بارے میں علم رکھتا ہے، حقیقت میں، اپنے معلول کے بارے میں علم ، عین علت کے بارے میں معلول کا علم ہے۔ البتہ اپنے مرتبہ میں۔[5]
۴۔ زمان کو ہم، مادیات کے لئے اس کی تعریف کے پیش نظر ثابت کرتے ہیں، کیونکہ زمان، یعنی، مقدار متصل غیر فاری جو حرکت پر عارض ھوتی ہے۔[6] اسی لئے جہاں پر حرکت ہے، وہان پر زمان بھی ہے۔
مادی موجودات سیال کے مانند ہیں، ہمیشہ قوت سے فعل کی طرف خارج ھونے کی حالت میں ھوتی ہیں اور حرکت یعنی قوت سے فعل کی طرف خروج، پس مادیات حرکت رکھتی ہیں اور حرکت کی مقدار ہے اور حرکت کی مقدار وہی زمان ہے، پس مادی موجودات ہمیشہ زمان رکھتی ہیں۔
[1] ۔ علامه طباطبائی، محمد حسین، نهایة الحکمة، نورانی، عبدلله، ص 184 – 183،مؤسسه نشر اسلامی وابسته به جامعه مدرسین، قم.
[2] ۔ایضاً ، ص 171- 195.
[3] ۔ ایضاً، ص 170.
[4] ۔ مصباح یزدی، محمدتقی، آموزش فلسفه، ج 1، ص 200، طبع چهارم، مرکز طبع و نشر ذفتر تبلیغات اسلامی، تابستان1370هـ.ش.
[5] ۔ نهایةالحکمة، ص 260.
[6] ۔ ایضاً، ص 214.
تبصرے
Loading...