هزاروںسال خداوند متعال کی عباد ت کر نے کے پیش نظر کیا شیطان کو یه حق نهیں تھا که خدا وند متعال اس کی یاری کرے؟

قرآن مجید کی آیات،جیسے:سوره کهف کی آیت نمبر٥٠اور سوره حجر کی آیت نمبر ٣١کے پیش نظر هم اس نتیجه پر پهنچتےهیں که شیطان (ابلیس) جنات کی ذات سے تھا اور عبادت میں کثرت کی وجه سےملائکه کے زمرے میں شمار هو تا تھاـشیطان کے تکبر کی داستان (جو ایک امتحان تھا)قرآن مجید میں تقریبا سات مواقع پر ذکر هوئی هے اور کافی سبق آموز هے ـاس داستان کے کچھـ  جانے مانے پھلو هیں:

٠حضرت آدم علیه السلام پر سجده کر نے کا الهی حکم

٠حضرت آدم علیه السلا م کے خصوصی امتیازات،جن کی بنیاد پر خداوند متعال نے ان کو سجده کر نے کا حکم صادر کیا ـ

٠ابلیس کی مقابله آرائی سجده کر نے سے اس کا انکار

٠اس تکبر کی علت کے سلسله میں اس کا جواب:” میں ایسے بشر کو سجده نهیں کرسکتا هوں جسے تونے خشک اور بدبودار مٹی سے پیدا کیا هے!” (١) اورایک دوسری تعبیریوں کرتا :

” میں اس سے بهتر هوں، مجھے تونے آگ سے پیدا کیا هے اور اسے مٹی سے”(٢)

یه ایک بڑا امتحان تھا، اور امام علی علیه السلام کے فرمودات کے مطابق شیطان نے چھـ هزار سال تک عبادت کی تھی اور معلوم نهیں یه سال دنیوی تھے یا اخروی( که اس کا هر روز ایک هزار سال کے برابر هے) لیکن اتنی عبادت کے باوجود ، اس امتحان  میں شیطان اس قدر نیچے گر کر مردود هوا که اس سے خطاب کیا گیا” فورا یهاں سے نکل جا که تو مردود هے(٤)”اور تجھـ پر قیامت کے دن تک لعنت هے-(٥)” یهاں پر همیں اپنے بارے میں چو کس اور هوشیار رهنا چاهئےـ غور کرنا چاهئے که اگر خداوند متعال نے همیں کوئی توفیق عطا فرمائی اور چند دن هم نے صحیح راسته پر قدم رکھا تو کیا آخر تک اسی راه پر گامزن ره سکتے هیں؟ دنیا تغیرو تحول کا میدان هےـ انسان جب تک زنده هے، زندگی کی باریک اور پیچیده راهوں سے گزرتاهے، اس کے لئے زوال سے دوچار هونے کا احتمال هےـ لهذا همیشه بارگاه الهی سے عاقبت بخیر رھنے کی دعا کرنی چاهئےـ شیطان کے رد عمل کا دوسرا مرحله مردود هونے کے بعد کا هےـ جب اسے معلوم هوا که مسئله سنجیده هے اور حضرت آدم علیه السلام کو سجده نه کرنے کی وجه سے اپنے اس بلند مقام سے گر گیاهےـ تو اس کے اندر حضرت آدم علیه السلام کے تئیں ایک عجیب دشمنی پیدا هوگئی اور خداوند متعال سے مخاطب هوکر کها:”خدایا، اگر تو مجھے قیامت تک مهلت دے گا، تو میں اس (آدم) کی اولاد کو اپنے فرمان کا تابع بناؤں تحت لاٶں گا،مگر ایک تھوڑی سی تعداد کے علاوه (جنھیںایسا نهیں کرسکوں گا)(٦)” اس کے علاوه سوره ص کی آیت نمبر ٨٢ میں یوں آیاهے:” اور تیری عزت کی قسم میں سب کو گمراه کروں گا(٧)”

اب اس مقدمه کے بیان سے واضح هوتاهے که اولا: شیطان جنات کی ذات سے هے اور وه بھی انسانوں کے مانند مکلف هیںـ قرآن مجید میں آیا هے:” پس ابلیس کے علاوه سب نے سجده کیا که وه جنات میں سے تھا(٨)” اور میں نےجنات اور انسان کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیاهے(٩)”

جن، من جمله شیطان، صاحب اختیار و انتخاب مخلوق هے اور وه دوراهے پر قرار پایا هے اور ان میں سے اسے ایک راسته کو منتخب کرنا هےـ اگر حق کو قبول کرے گا تو اسے نیک جزا ملے گی اور اگر باطل کو انتخاب کیا تو سزا پائے گا- جیسا که سوره ذاریات کی آیت نمبر ٥٦ میں ذکر هوا که جنات و انسان عبادت انجام دینے میں مشترک هیں- اور قرآن مجید خود جنات کے بیان کے مطابق نقل کرتاهے که وه دوقسم کے هیں یعنی اچھے اور برے:” اور هم میں سے بعض نیک کردار هیں اور بعض اس کےعلاوه هیں اورهم طرح طرح کے گروه هیں(١٠)”

ثانیا: ابلیس کے حق میں سب سے بڑی مهربانی و عنایت یه تھی که اس کو خدا کی عبادت میں پهلے درجه پر فائز هونے کی توفیق ملی اوراس کے بعد والے درجه میں وه عباد ت کی کثرت کے سبب فرشتوں کے زمرے میںقرار پایا تھااوراس کا یه مقام ملائکه میں اس قدر بلندی تک پهنچ چکا تھا که قرآن مجید آدم کو سجده کرنے کے واقعھ میں ابلیس کو فرشتوں کے جماعت سے مستثنی قرار دیتا هے: ” ابلیس کے علاوه تمام فرشتوں نے سجده کیا” شیطان(ابلیس) کے لئے سب سے بڑی مدد کا حق وهی اس کی فرشتوں کے ساتھـ مصاحبت اور ان کی صفا وپاکی و طهارت کا ادراک تھا- نظام هستی کے قوانین میں سےایک قانون یه هے که جس قدرمعرفت زیاده اور مکلف کا درجه بلندتر هو، خطا اور اشتباه کا مرتکب هونے کی صورت میں اس کی سزا بھی زیاده سخت هوتی هے!

اس لحاظ سے شیطان کے بارے میں حجت تمام هونے اور حضرت آدم علیه السلام کو سجده کرنے کے سلسله میں اس کے تکبر و غرور کے بعد خداوند متعال کا شدید خطاب شیطان کے لئے سخت سزا اوراس کے مقام و منزلت کےزوال کی علامت هے-

 

١-حجر/٣٣

٢-اعراف/١٢

٣- نھج البلاغه،تصحیح صبحی صالح، خطبه قاصعه،ص٢٨٧

٤- حجر/٣٤

٥- حجر/٣٥

٦-اسراء/٦٢

٧- محمد تقی مصباح یزدی، معارف قرآن، بخش دوم ، ص ٢٩٩، موسسه در راه حق

٨- کهف/٥٠

٩- ذاریات/٥٦

١٠- جن/١١

١١- حجر/٣١

تبصرے
Loading...