اول یہ کہ اس میں آپ نے اپنے مرجع تقلید کو مشخص نہیں کیا ہے، دوسرا یہ کہ اس زمین کا عنوان مجہول ہے، یعنی مشخص نہیں ہے کہ یہ زمین وراثت میں ملی ہے یا ہبّہ میں ملی ہےیا خریدی ہوئی ہے؟ اس لحاظ سے تمام مفروضوں کے پیش نظر ہم ذیل میں اس مسئلہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
اگر وہ زمین وراثت میں ملی ہو:
معاصرفقہا کا اتفاق ہے کہ انسان کو ملنے والی وراثت پر خمس نہیں ہے، مگر یہ کہ:
1۔ دور کے رشتہ دار سے وراثت ملی ہو اور نہیں جانتا ہو کہ اس کے ساتھ کیسی رشتہ داری ہے ( نتیجہ کے طور پر اس وراثت کی توقع نہ رکھتا تھا) یہاں پر اگر سال کے اخراجات سے زیادہ نہ ہو تو بھی اس پر خمس نہیں ہے، لیکن اگر سال کے اخراجات سے زیاہ ہو تو بعض فقہا فرماتے ہیں: احتیاط واجب کی بناپر اس کا خمس دینا چاہئے۔[1] بعض فقہا ضروری نہیں سمجھتے ہیں بلکہ فرماتے ہیں: مستحب ہے اس کا خمس ادا کرے”۔[2]
2۔ اس کو وراثت میں ایک ایسا مال ملے اور وہ جانتا ہو کہ واثت میں ملے مال کا خمس نہیں دیا گیا ہے، تو اسے اس کا خمس دینا چاہئے۔[3]
3۔ خود اس مال میں خمس نہیں ہے، لیکن انسان جانتا ہے کہ جس سے وہ مال اسے وراثت کے طور پر ملا ہے اس کے نام خمس قرض ہے۔ اس صورت میں بھی اس کے مال سے خمس نکالنا چاہئے۔[4]
لیکن اگر وہ زمین ھبہ میں ملی ہو:
ھبہ، جو وہی ھدیہ (تحفہ) یا بخشش ہے، اس پر خمس تعلق رکھتا ہے یا نہیں ؟ فقہا کے درمیان اس مسئلہ کے بارے میں چند اقوال پائے جاتے ہیں، کہ کلی طور پر ان کومندرجہ ذیل اقوال میں خلاصہ کیا جاسکتا ہے:
1۔ اس کا خمس نہیں ہے۔[5]
2۔ اگر سال بھر کے اخراجات سے بچ جائے یعنی سال کے آخر پر جو کچھ بچ جائے، اس کا خمس دینا ہے۔[6]
3۔ اگر سال کے آخر پر کچھ بچ جائے احتیاط واجب کی بنا پر اس کاخمس دینا چاہئے۔[7]
لیکن اگراس ہبّہ کئے گئےمال پر پہلے خمس تعلق رکھتا ہو، تو تقریبً تمام فقہا ہبّہ یا ھدیہ وصول کرنے والے پر خمس ادا کرنا واجب جانتے ہیں۔[8]
اگر اس زمین کو خریدا گیا ہو، تو اس صورت میں مندرجہ ذیل چند صورتیں قابل تصور ہیں:
1۔ اگر خمس و زکواة ادا نہ کی گئی رقم سے زمین یا کوئی ملک خریدے، تو اسے خمس ادا کرنا ہے تب تک اس مال میں تصرف حرام ہے اور اس ملک میں نماز باطل ہے۔[9]
2۔ اگر اس ملک کو ذمہ کے طور پر خرید لے اور خرید تے وقت یہ قصد ہو کہ جس مال کا خمس یا زکواة ادا نہ کی گئی ہے، اسے ادا کرے گا۔[10] لیکن اس مال میں تصرف اور اس میں نماز پڑھنے کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں:
الف) اس ملک میں تصرف حرام اور نماز پڑھنا باطل ہے۔[11]
ب) احتیاط واجب کی بنا پر اس سے پرہیز کرنی چاہئے۔[12]
ج) اس ملک میں تصرف حرام نہیں ہے اور اس میں نماز بھی صحیح ہے۔[13]اور[14]
آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی ( ان کے دفتر سے کئے گئے استفتاء کے مطابق) نے فرمایا ہے: خمس ادا کرنے کے بارے میں اگر زحمت ہو،تو اس کا نصف خمس آپ کو بخش دیتا ہوں اور باقی نصف کو رفتہ رفتہ ادا کیجئے۔
لیکن حج :
جو حج کے شرائط رکھتا ہو اس پر پوری عمر میں ایک بار زیارت خانہ خدا کے لئے جانا واجب ہے۔ حج واجب ہونے کے شرائط:
1، 2اور 3۔۔ بالغ، عاقل اور آزاد ہو۔
4۔ حج پر جانے سے حج سے زیادہ اہم کسی حرام کام کو بجا لانے پر مجبور نہ ہو یا ایک ایسے واجب کام کو ترک کرنے پر مجبور نہ ہو جو حج سے زیادہ اہم ہے۔
5۔ مستطیع ہو، یعنی مالی طاقت رکھتا ہو اور صحت و سلامتی اور حج کو بجالانے کی طاقت رکھتا ہو۔[15]
6۔اعمال حج بجا لانے کے برابر وقت رکھتا ہو۔ اس بنا پر حج کی استطاعت کے تمام شرائط متحقق ہونے کی صورت میں اس پر حج واجب ہے اور عذر موجہ کے بغیر اس کو ترک کرنا شرعاً گناہ کبیرہ شمار ہوتا ہے۔
نتیجہ یہ کہ اگر استطاعت کے شرائط رکھتا ہو اور کوئی بنیادی رکاوٹ نہ ہو تو وہ مسطیع ہے اور اس پر واجب ہے کہ حج کو بجالائے اور استطاعت کے شرائط میں سے کسی ایک کے فاقد ہونے کی صورت میں اس پر حج واجب نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت آیت اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی( ان کے دفتر سے کئے گئے آخری استفتاء کے مطابق) نے فرمایا ہے کہ: اگر زمین کے پیسوں کی ضرورت رکھتے ہو، تو آپ پر حج واجب نہیں ہے۔