1۔ حقیقی ایمان رکھنا اور اسلامی اخلاق کے مسائل کا پابند ہونا، کیونکہ اس قسم کا شخص خدا کے ساتھ دلی رابطہ رکھنے کی وجہ سے ایک قابل اعتماد فرد ہوتا ہے اور دوسری جانب جو جوان اس قسم کے اصولی مسائل کا پابند نہ ہو، معلوم نہیں ہے کہ وہ بعد میں اپنے تعہدات کا پابند ہو۔ امام رضا(ع) فرماتے ہیں: ” اگر کسی مرد نے آپ سے خواستگاری کی، تو اگر تم اس کے دین و اخلاق سے راضی ہوتو اس کے ساتھ ازدواج کی رضایت دینا اور ایسا نہ ہو کہ اس کا فقر اس رضامندی میں تیرے لئے رکاوٹ بنے”۔[1]
2۔ زندگی میں اچھے اخلاق کا مالک ہونا، طرفین اور پورے خاندان کے لئے نشاط و شادمانی کا سبب ہوسکتا ہے۔ روایتوں میں آیا ہے کہ بد اخلاق شریک حیات انسان کو زودرس پیری سے مبتلا ہونے کا سبب بن سکتا ہے۔ بیہودہ سختیوں سے دوری، اور خطاؤں کے بارے میں عفو و بخشش اور مہربانی سے پیش آنا نیک اخلاق کی مثالیں ہیں۔
3۔ صداقت اور راستگوئی: اگر ایک نوجوان خواستگاری اور ازدواج کے ابتدائی مراسم میں ایسی باتیں کرے اور کچھ وعدے دیدے کہ بعد میں ان پر عمل نہ کرے تو ان کی زندگی اعتماد سےعاری ہوگی۔
4۔ خاندانی اصالت: چنانچہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا ہے:” گوبر پر اُگے ہوئے سبز اور تازہ گھاس سے پرہیز کرنا” عرض کی گئی: یا رسول اللہ! اس کلام سے مراد کیا ہے؟ فرمایا:( اس کا مراد) ایک خوبصورت عورت ہے جو بُرے خاندان اور فاسد ماحول میں پرورش پا چکی ہو۔” قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے:” ہم نے زن و مرد کو ایک دوسرے کے لئے پیدا کیا ہے اور عورت کو مرد کے لئے سکون قرار دیا ہے”۔ اور تذکر دیتا ہے کہ عورت مرد کے لئے خیر ہے۔
5۔ ثقافتی، مالی، خاندانی، علمی، مذہبی لحاظ سے لڑکی اور لڑکے کا ہم کفو اور ہم پلہ ہونا کیونکہ لڑکے اور لڑکی کا خاص کر ثقافتی لحاظ سے اختلاف رکھنا بہت مشکل ہے۔ انسان کو حتی الامکان کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے ہم پلہ اور ہم شان سے ازدواج کرے۔ مومن ہی مومن کا کفو ہوسکتا ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں:” اگر کوئی شخص جو تمہاری بیٹی کا ہم پلہ اور ہم شان ہے اور خواستگاری کے لئے آئے تو اسے بیٹی دینا۔ ۔ ۔”[2]
خود اعتماد، اہل کار و کوشش ہونا تاکہ خاندان کے مخارج کو حلال راہ سے آبرومندانہ طور پر پورا کرسکے۔
یہ ایک مطلوب ہمسر کی اصلی خصوصیات اور معیار ہیں اور ان کے علاوہ بہت سے جزئی اور فرعی توافقات زمانہ کے گزرنے کے ساتھ صبر و تحمل سے حاصل ہوتے ہیں۔