رشته مانگنے اور منگنی کے بعد اور نکاح پڑھنے سے پهلے لڑکی لڑ کا آپس میں کس قسم کے تعلقات قائم کر سکتے هیں؟

اسلام کے مطابق مرد اور عورت ایک دوسرے کے متمم هیں اور ایک دوسرے کے لئے پیدا کئے گئے هیں، اس سلسله میں قرآن مجید کا ارشادهے :” اور اس کی نشانیوں میں سے یه بھی هے که اس نے تمھارا جوڑا تمھیں میں سے پیدا کیا هے تاکه تمھیں اس سے سکون حاصل هو اور پھر تمھارے در میان محبت اور رحمت قرار دی هے—”



[1]


زن و مرد کی ضرورتوں میں سے ایک ، جنسی ضرورت هے، لیکن اس ضرورت کو پورا کر نے کے لئے اسلامی قوانین اور دستورات کے دائرے میں عمل کر نا چاهئے تاکه طرفین کی پاکی و عفت کے گوهر کو کوئی نقصان نه پهنچ سکے-

اسلام نے مرد اورعورت کی جنسی ضرورت کو پورا کر نے کے لئے از دواج کا قانون معین کیا هے اور مرد و عورت کے در میان هر قسم کا جنسی رابطه من جمله عاشقانه گفتگو، هاتھـ ملانا اور پیار ومحبت وغیره عقد از دواج موقت (مطعه) یا دائمی کے بعد انجام پانا چاهئے اور یهاں تک که جس لڑکی اور لڑ کے کی منگنی هو چکی هو اور ابھی عقد موقت نه پڑھا گیا هو اور مستقبل قریب میں ان کی شادی هو نے والی هو، وه ایک دوسرے سے جنسی لذت کا استفاده نهیں کر سکتے هیں، اگر چه عاشقانه گفتگو اور هاتھـ ملانے کی حد میں بھی هو-

اس بناپر،ضروری هے که آپ اپنے گزشته اعمال کے بارے میں خدا کے حضور توبه کریں اور چونکه خداوند متعال بخشنے والا اور مهر بان هے اور آپ کاکام جهل و نادانی کی وجه تھا، اس لئے آپ اگر حقیقی معنوں میں توبه کریں گے، تو انشا ءالله خدا وند متعال آپ کے گناهوں کو بخش دے گا اور اگر تم دونوں ایک دوسرے کو چاهتے هو، تو پهلے آپ آپس میں عقد نکاح پڑھایئے اور اس کے بعد آپس میں رابطه قائم کیجئے-

لیکن اگر آپ کا باپ اس شادی سے راضی نهیں هے، تو آپ کو جاننا چاهئے که ماں باپ همیشه اپنے فرزندوں کی سعادت اور خیر خواهی چاهتے هیں اور وه گرانقدر تجربه رکھتے هیں جو ان کے فرزندوں کے مستقبل کے لئے ایک بڑا سر مایه هے- اس لئے، آپ کو اپبے باپ کی مخالفت کی وجه جاننے کی کوشش کر نی چاهئے اور اس کے تجربوں سے زیاده سے زیاده استفاده کر نے کی کوشش کر نی چاهئےاور اگر آپ اطمینان بخش دلیل رکھتی هو تو اسے اپنی دلیل اور بر هان سے مطمئن کیجئے، تاکه وه اس ازدواج کی موا فقت کریں ، اگر پھر بھی آپ کا باپ اس شادی سے راضی نه هوا اور اپنی مخالفت کے سلسله میں کوئی اطمینان بخش دلیل بھی نه رکھتا هو اور تمھاری دلائل کو بھی قبول نه کرے ، تو اپنے خاندان کے مفکروں یا محلے کے عالم دین سے مدد حاصل کیجئےتا که اسے راضی کرسکیں-



[2]


تبصرے
Loading...