خداوند متعال نے کیوں فرمایا ہے:” ان مع العسر یسرا” اور یہ نہیں فرمایا ہے کہ: ” ان بعد العسر یسرا”؟

خداوند متعال نے اس آیہ شریفہ میں اپنے پیغمبر{ص] سے خطاب کرتے ھوئے فرمایا ہے: ” پس { جان لو کہ} ہر تکلیف کے ساتھ سہولیت بھی ہے-“[1]

پیغمبر اکرم {ص} مکہ مکرمہ میں بہت سی تکالیف اور مشکلات سے دوچار تھے، ظاہر ہے کہ یہ خداوند متعال کی طرف سے ایک وعدہ ہے کہ آپ {ص} کے لئے مدینہ منورہ میں آسانی ہے یا یہ کہ دنیا میں پیش آنے والی سختیوں کے بعد بہشت میں آپ {ص} کے لئے سہولیت ہے-

لیکن آیات کے مفہوم کی وسعت میں تمام مشکلات شامل ھوتی ہیں، یعنی یہ دو آیتیں ایسے پیش کی گئی ہیں کہ صرف پیغمبر {ص} کی ذات اور آنحضرت {ص} کے زمانہ سے مخصوص نہیں ہیں- بلکہ ایک کلی قاعدہ کی صورت میں پیش کی گئی ہیں، اور تمام مومن، مخلص اور کوشش کرنے والے انسانوں کے لئے بشارت ہے کہ ہمیشہ سختیوں کے ساتھ سہولتیں ہیں-[2]

لفظ ” مع” کے استعمال کے سلسلہ میں کئی تفسیریں کی گئی ہیں کہ ان میں سے اکثر قابل جمع ہیں اور ہم ذیل میں ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

الف- لفظ ” بعد” کی جگہ پر لفظ ” مع” کا استعمال اس لئے ہے کہ اس سے عسر { سختی} اور یسر { آسانی} کے درمیان پیوستگی معلوم ھوتی ہے،[3] یعنی آیہ شریفہ میں سختیوں اور سہولتوں کے درمیان ایک قسم کی پیوستگی اور رابطہ پایا جاتا ہے، یعنی اس طرح نہیں ہے کہ انسان سختیوں کے بعد اتفاقی طور پر آسانی تک پہنچتا ہے ، اس لحاظ سے، سختی اور آسانی کے درمیان اس پیوند کے لئے ایک لفظ کی ضرورت ہے، جس میں یہ معنی پائے جاتے ھوں اور وہ لفظ ” مع” ہے-

بہ الفاظ دیگر، آیہ شریفہ لفظ ” مع” کے ذریعہ سمجھاتی ہے کہ آسانی اور رنج و تکلیف میں چولی دامن کا ساتھ ہے، سختیاں برداشت کرنے کے لمحہ سے، رفتہ رفتہ آسانی ہاتھ آتی ہے-[4] بہرحال لفظ “مع” ہمراہی کی علامت ہے،[5] اور معلوم ھوتا ہے کہ یہ دو عسر و یسر نا قابل جدائی ہیں-

ب- اس لئے لفظ” مع” سے استفادہ کیا گیا ہے- تاکہ معلوم ھو جائے آسانی، سختی کے قریب ہے اور اس طرح دل کو اطمینان اور تسلی حاصل ھو جائے-[6]

قابل ذکر ہے کہ علامہ طبا طبائی اس کے قائل ہیں کہ لفظ ” مع = سے” مراد عسر {سختی} کے ضمن میں یسر {آسانی} ہوتی ہے، نہ یہ کہ اس ” مع” سے یہ مراد ھو کہ عسر اور یسر ایک ہی زمانہ میں واقع ھوتے ہیں-[7]

بہرحال ” مع” کے معنی جو بھی ھوں، چونکہ ہر مشکل کے ساتھ آسانی آمیختہ ہے اور ہر تکلیف کے ساتھ ایک سہولت ہے، اور یہ دو چیزیں ہمیشہ ایک ساتھ تھیں اور ھوں گی[8]

اس لئے یہاں پر لفظ ” مع” سے استفادہ کرنا بے معنی نہیں ہے-

 


[1] انشراح، 5 و 6.

[2] مكارم شيرازى، ناصر، تفسير نمونه، ج ‏27، ص 127، دار الكتب الإسلامية، طبع تهران، طبع اول، 1374 ھ ش‏.

[3] طالقانى، سيد محمود، پرتوى از قرآن، ج ‏4، ص 157، شركت سهامى انتشار، تهران‏، 1362 ھ ش‏.

[4] قرشى، سيد على اكبر، تفسير أحسن الحديث، ج ‏12، ص 274، بنياد بعثت‏، تهران‏، 1377 ھ ش.‏

[5] تفسير نمونه، ج ‏27، ص 127و ۱۲8.

[6] طبرسى، فضل بن حسن‏، تفسير جو امع الجامع، ج‏ 4، ص 507، انتشارات دانشگاه تهران و مديريت حوزه علميه قم، تهران‏، طبع اول‏، 1377 ش؛ ابن جزى غرناطى، محمد بن احمد، كتاب التسهيل لعلوم التنزيل، ج ‏2، ص 493، شركت دار الارقم بن ابى الارقم، طبع اول، 1416-

[7] طباطبائی، محمد حسین، تفسير الميزان، موسوى همدانى، سيد محمد باقر، ج‏20، ص 534، دفتر انتشارات اسلامى، قم، طبع پنجم‏، 1374 ھ ش‏.

[8]  نمونه، ج ‏27، ص 127و 128.

 

تبصرے
Loading...