اسلامی بیداری 1

 

اسلامی بیداری کو مسلمان احیاء اسلام ، تحریک اسلامی اور اسلام دشمن مغربی عناصربنیاد پرستی سے تعبیر کررہے ہیں۔ اسلامی بیداری کی تاریخ ایک صدی پرانی ہے ۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی نے عالمی سطح پر اسلامی بیداری میں تازہ روح پھونکی اور دنیا کے سیاسی اور دینی اور ثقافتی معاملات پر گہرا اثر ڈالا۔

امریکی حکومت نے اسلامی دنیا پر قبضہ کرنے اور دنیا کو یک قطبی بنانے کے لئے مشرق وسطی پر قبضہ جمانا ضروری سمجھا اور ساری دنیا میں اپنے سامراجی اقدامات شروع کردئے۔ اس ھدف کے حصول کے لئے امریکہ کے بعض اقدامات مندرجہ ذیل ہیں۔

1۔امریکہ نے دنیا پر قبضہ کرکے یک قطبی دنیا بنانےکے لئے بجٹ حاصل کرنے کےلئے تیل سے مالامال علاقوں اور ان ممالک کی حکومتوں کو اپنا پٹھو بنانےکی بھرپور کوششکی اور اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہا اور آج بھی ہے۔ اسی طرح امریکہ نے یہ بھی کوشش کی کہ تیل کی مالک حکومتوں عالمی سطح پر طاقتور بننے سے روکے۔

2۔ امریکہ نے ہرطرح سے صیہونی حکومت کی سکیوریٹی کی ضمانت دی اور آج بھی اسی پالیسی پر گامزن ہے۔

3۔ انقلابی اسلام کے سامنے ہرطرح کی رکاوٹیں ڈالنا اور اسلامی تحریکوں کو مشرق وسطی میں ہی روکے رکھنا تاکہ دیگر علاقوں پران کےا ثرات مرتب نہ ہوں۔

گرجہ امریکہ کو انقلابی اسلام اور انقلابی تحریکوں کو کنٹرول کرےمیں کامیابی حاصل نہیں ہوئي ہے تاہم امریکہ اورمغربی ملکوں نے اسلامی ملکون میں مغربی تہذیب وتمدن پھیلاکر، عوام کو مغرب زدہ کرکے نیز سکیولیزم کی فکر پھیلاکر اورثقافتی و تعلیمی مراکز کو پوری طرح مغربی تہذیب و تمدن کا دلدادہ بنالیا ہےاوراسلام و مسلمیں کےخلاف نفسیاتی اور تشہراتی جنگ شروع کردی ہے۔ امریکہ کی یہ نفسیاتی جنگ دہشتگردی کے خلاف جنگ، انسانی حقوق کے دفاع اور عام تباہی پھیلانےوالے ہتھیارونکی تباہی اور جمہوریت کی بحالی جیسے حربوں سے جاری رکھی ہے۔ اکیسویں صدی میں یہ امریکہ کا اسٹراٹیجیک منصوبہ ہے اور اس پرعمل کرنے کےلئےامریکہ اور اسکے اتحادی اپے سارے وسائل وذرایع سے استفادہ کررہےہیں۔

مقدمہ :

چودھویں صدی ہجری عالم اسلام میں تبدیلیوں اور نئي تحریکوں کا آغاز تھی۔ گرچہ یہ تحریک کسی حدتک غیر محسوس تھی لیکن آہستہ آہستہ مسلمانوں کی سیاسی اور سماجی زندگي میں تبدیلیآں آتی گئيں۔ مسلمانوں کی بدیاری اور دینی حکومت اور عدالت پسندی اور آزادی کے مطالبے نے اسلامی بیداری کی اصطلاح کو عالمی سطح پر سیاسی عرف میں رواج دیا۔ اسلامی بیداری کی تحریک ابتدا میں ملکوں کی داخلی سطح اور مسلمانوں کے سماجی مسائل تک محدود تھی۔

سامراج اور بیروین طاقتوں کے خلاف بعض سیاسی تحریکوں کےبعد سامراج نے اسلامی بیداری سے مقابلے کو اپنے ایجنڈے میں شامل کرلیا۔ سامراج نے اسلامی بیداری کا مقابلہ کرنے کے لئے طویل مدت اور قلیل مدت منصوبے بناے۔ اسلامی بیداری نے ایک صدی تک جدوجہد اوربڑی مصیبتیں اور دشواریاں اٹھانےکےبعد آخر کار چودھوین صدی ہجری قمری میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے ایک نیا رخ اختیار کیا جس کے نتیجے میں عالمی سطح پرثقافتی اقتصادی اور سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئيں۔ یہ تبدیلیاں اتنی واضح اور وسیع تھیں کہ مغرب کے اسٹراٹیجک مطالعاتی مراکز نے ان پر مستقل طورپرتحقیقات کرنا شروع کردیا اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ ان مراکز سے اسلامی انقلاب اور اسکے اثرات کے با

رے میں سیکڑوں کتابیں، مقالے ، مضامین اور ماہرین کے انٹرویوز شایع ہوچکےہیں۔ زیر نظر مضمون میں اسلامی بیداری اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والی تحریکوں کا مقابلہ کرنے کےلئے سرمایہ دارانہ سامراجی طاقتوں بالخصوص امریکہ کی اسٹراٹیجی کا جائزہ لیا گيا ہے۔

اسلامی انقلاب اور اسکے اثرات

دوسری جنگ عظیم کے چالیس برسوں تک سامریہ دارانہ سامراجی نظام نے اپنی ساری توجہ کمیونیزم اور مشرقی بلاک کی طرف مرکوز کررکھی تھی۔ دنیا میں ہرمسئلہ مشرقی اور مغربی بلاکوں یا بالفاظ دیگر سرمایہ داری اور کمیونیزم کے تناظر میں دیکھا اور پرکھا جاتا تھا۔ اس دوران عالم اسلام تین محاذوں پر اپنی جنگیں لڑرہا تھا۔ پہلا محاذ آلہ کار اور وابستہ حکمرانوں سے جنگ کا تھا دوسرا محاذ مغرب پرست فکری اور ثقافتی حلقوں سے جنگ کا تھا اور تیسرا محاذ جہل و خرافات اور پسماندگي کی گوناگوں شکلوں س مقابلے کا میدان تھا۔ یہ جنگیں نہایت دشوار تھیں بلکہ ہیں اور ان میں دشمن کو مات دینے کےلئے بڑا وقت درکار ہے۔

سامراجی طاقتوں نے اسلامی ملکوں پراپنے قبضے کی بقاء کو پٹھو اور وابستہ حکومتوں کو باقی رکھنے میں دیکھا اسی بناپر انہوں نے اسلامی ملکوں میں ہرتحریک کو کچلنے اور بھرپور طرح سے مغربی تہذیب و تمدن کو رائج کرنے میں ہی سمجھی۔

مغربی سامراج کی ان سازشوں کا مقابلہ کرنے کےلئے مسلمانوں نے اپنی تنظیمیں بناکر جوغیر متمرکز اور کسی حد تک سامراج کی آنکھوں سے پوشیدہ تھیں عوام کو حقائق سے آشنا کرنے اور اپنےدینی فرائض کی انجام دہی کی کوشش کی۔ مسلمانوں نے تدریجا لوگوں کو آکاہ کرکے نیز معاشروں میں دینداری کا رجحان پیدا کرکے اپنی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کووسعت دی۔

سیاسی تجزیہ کاروں اور سماجی ماہرین اور بڑی طاقتوں کی نظر میں اسلامی انقلاب نہ صرف اایک غیر معمولی واقعہ تھا بلکہ نہایت تعجب خیز اور ناقابل یقین بھی تھا۔ یہ ایسا انقلاب تھا جس نے دوقطبی دنیا میں خود مختاری اور مشرقی اور مغربی بلاکوں کی نفی کا نعرہ لگایا تھا۔ اسی انقلاب نے دوصدیوں سے دین کو سماج میں الگ تھلک کئے جانے کے باوجود سماج سیاست اور عالمی سطح پر دین کی حکمرانی کا نعرہ لگایاتھا ۔ اسلامی بیداری دراصل مشرق و مغربی سامراجوں کے تسلط کے خلاف ایک ایسی طاقتور تحریک تھی جس کو پہچاننے سے دنیا عاجز تھی اور ایران کا اسلامی انقلاب اسی اسالمی بیداری کا ایک مکمل اور ممتاز ثمرہ ہے جس نے اسلامی بیداری کو بے پناہ وسعت دی ہے۔

امریکہ کی جاسوس تنظیم سی آئی اے کے ایک سابق اعلی عھدیدار مایکل برانٹ کہتےہیں کہ : عالم اسلام صدیون سے مغربی حکومتوں کے زیر نگین رہا ہے، گرچہ بیسویں صدی میں اکثر اسلامی ملکوں نے بظاہر آزادی حاصل کرلی ہے لیکن ان پرحاکم سیاسی نظام اور ان کی تہذیب اب بھی مغربی ملکوں کے زیر تسلط ہے اوریہ ممالک مغرب ہی کی پیروی کرتےہیں۔

وہ کہتےہیں انیس سو اناسی میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے امریکہ کو شدید نقصانات اٹھانے پڑے۔ پہے ہم یہ فکر کررہے تھے کہ یہ انقلاب ایران کے مذہبی معاشرے کا فطری رد عمل ہے جس سے ایران کے مذہبی رہنما فائدہ ا ٹھانا چاہتےہیں اورشاہ کےچلےجانےکےبعد ہم آہستہ آہستہ اپے افراد کو حکومت میں لے آئيں گے ( جیسا کہ امریکہ نے دیگر انقلابوں اور ملکوں کےساتھ کیا ہے ) اور اپنی پالیسیوں کو ایران میں جاری رکھیں گے لیکن جیسے جیسے زمانہ گذرتا گيا اسلامی انقلاب کے اثرات علاقے کے ملکوں بالخصوص عراق، پاکستان ، لبنان اور کویت سمیت دیگر ملکوں میں پھلیتے گئے تو ہماری سمجھ میں آیا کہ ہم نے غلط تجزیہ کیا تھا۔

سی آئی اے کا یہ سابق عھدیدار کہتا ہے کہ سی آئي اے کے عھدیداروں کا ایک اجلاس بلایا گيآ جسمیں برطانوی انٹلجنس ایجنسی کا نمائندہ بھی موجودتھا کیونکہ برطانیہ کے مختلف اسلامی ملکوں کے ساتھ وسیع تجارتی تعلقات ہیں، اس اجلاس میں یہ نتیجہ اخذ کیا گيآ کہ ایران کا اسلامی انقلاب اس تحریک سےمقابلے میں صرف شاہ کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اس کی قیادت کی مذھبی طاقت یعنی مقبولیت اور شہادت کی ثقافت بھی اسمیں دخیل تھی جوکہ چودہ سوبرسوں قبل رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کے نواسے (امام حسین علیہ السلام ) کی شہادت کے بعد وجود میں آئي ہے اور ہرسال محرم کے دنوں میں اس کی ترویج کی جاتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہم اس نتیجے پر بھی پہنچے ہیں کہ شیعہ مسلمان دیگر مذاہب کے پیروں سے زیادہ فعال اور سرگرم ہیں ۔ اس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گيا کہ شیعہ مذہب پرمزید تحقیقات کی جائيں اور اس تحقیقات کے نتیجے کے مطابق منصوبے بناے جائيں۔ ان تحقیقات کے لئے چالیس ملین ڈالر بجٹ مختص کیا گيا۔

سی آئي اے کا یہ کہنہ مشق ایجنٹ کہتاہےکہ یہ تحقیقات مندرجہ ذیل امور پر انجام پائيں

1۔معلومات و اعداد و شمار کی جمع آوری

2۔ شیعہ مسلمانوں کے خلاف پروپگينڈا کرنے اور دیگر مذاہب کےساتھ شیعوں کے اختلافات پھیلانے کے لئے قلیل مدت منصوبوں پر عمل درآمد۔

3۔ شیعہ مذہب کو ختم کرنےکےلئے طویل مدت منصوبوں پر عمل درامد۔

اسلامی بیداری دراصل اسلام کی طرف بازگشت ہے اور ایک مدت خاموشی کے بعد دوبارہ احیاء اسلام ہے۔ اسلام کا احيا اسلامی تحریکوں کے ظہور اور دنیا میں نئے حالات کے سامنے آنے کا سبب بنا جو نہ صرف غیرمتوقع تھے بلکہ ایک صدی قبل اسلامی بیداری کے شروع ہونے اور تیں دھائيوں قبل اسلامی انقلاب کی کامیابی جسے ہم اسلامی بیداری کا ایک اہم ترین مرحلہ قراردے سکتےہیں سامراجی دنیا اس تحریک کا اپنے تمام وسائل وذرایع سے مقابلہ کررہی ہے لیکن اسے کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے اور نہ آج تک وہ اس تحریک کو سمجھ ہی سکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ اسلامی بیداری کی تحریک کے اقدار و ماہیت فطرت الھی سے مکمل طورپر مطابق ہونے کےساتھ ساتھ مادی تہذیب وتمدن سے کہیں برتر و بالا ہے اور ان لوگوں کے لئے جو حقائق کو محض تھیوری اور علم کے سہارے دیکھنے کے قائل ہیں قابل درک نہیں ہیں بنابریں اسلامی بیداری سے مقابلے اور اسکا تجزیہ و تحلیل کرنے کے لئے مختلف اور متعدد شیوے اور روشیں اپنائی گئيں ۔ ہم اپنے اس مضمون میں اسلامی بیداری کے مقابلے میں سرمایہ دارانہ طاقتوں بالخصوص امریکہ کے حربوں کا جائزہ لیں گے کیونکہ کمیونیزم اب تاریخي کوڑے دان میں چلا گيا ہے اور اسکا کوئي وجود نہيں ہے اور دیگر ممالک میں اس کے مقابلے کی توانائي نہیں ہے اور وہ اکثر و بیشتر مغرب کے پیروکار ہیں۔

اسلامی بیداری سے مقابلے کی روشیں

بڑی طاقتیں ان کے سیاسی حلقے اور ان کے مغز ہائے متفکر اسلامی بیداری سے مقابلے کے لئے دوروشیں اپناتےہیں اور ان دونوں روشوں کا ھدف سیاسی اور عالمی سطح پر اسلام کے اثرورسوخ اور مقبولیت کو ختم کرنا نیز اسلام کو بھی ختم کرنا ہے۔ ایک حلقہ اسلام سے مقابلہ کرنے کا قائل ہے اور دوسرا حلقہ اسلام کے ساتھ تعاون کا خواہاں ہے۔ پہلے حلقے کا کہنا ہےکہ اسلام و مسلمین کمیونیزم کی طرح انحصار پسند ، استبدادی اور کٹر اور سرمایہ داری کے مخالف ہیں۔ بنابریں اسلام جمہوریت او لبرالیزم کا مخالف اور اس کے نتیجے میں سکیولریزم کا بھی مخالف ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے والے یہ کہتےہیں کہ اسلام کا خطرہ کمیونیزم ہی کی طرح کا خطرہ ہے۔ مغرب کے اس گروہ کا کہنا ہےکہ اسلام نے دراصل سرد جنگ کے خاتمے کے بعد کمیونیزم کی جگہ لے لی ہے ۔

جارج بش کے زمانے میں امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ایک رکن ڈینیل پائپٹیس اس بات پرزور دیا کرتا تھا کہ مغرب کے خلاف اسلامی انتھا پسندی کا خطرہ کمیونیزم کے خطرے سے کہیں بڑھ کر ہے۔ کمیونیسٹ صرف ہماری پالیسیوں کے مخالف تھے ہمارے فلسفہ کائنات کے نہیں، وہ ہمارے لباس پہننےکے طریقے، ہماری عبادت کی روش اور ہمارے شادی کرنے کےطریقوں کے مخالف نہیں تھے۔ اسکی نظر میں اسلام ذاتا مغرب کا مخالف ہے۔ امریکی اسلام کو ایک دشمن کی طرح دیکھتےہیں اور جس طرح سے سرد جنگ کے زمانےمیں کمیونیزم کو اپنا دشمن سمجھتے تھے اسلام کو بھی اسی طرح اپنا دشمن سمجھتےہيں۔ یہ نظریہ دراصل امریکہ کے سابق صدر رچرڈ نیکسن کے معاون واٹر مک ڈوگال نے پیش کیا تھا اور انہوں نے ہی سابق سوویت یونین کو عیسائیت کا ہمنوا بنا کر مشترکہ دشمن، اسلام کا مقابلہ کرنے کی ترغیب دلائي۔

 

تبصرے
Loading...