یوم عاشور کا پیغام،اتحاد بین المسلمین!

سرکار دو عالم ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفٰی احمد مجتبٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس ہستی کے بارے میں فرمایا تھا کہ ”حسین ع مجھ سے ہے،اور میں حسین ع سے ہوں“ وہی حق و باطل کی تصویر کے ہر رنگ کے فرق کو نمایاں کر کے یہ بتا سکتا تھا کہ کامیابی صرف وقتی اور ظاہری فتح کا نام نہیں

آج یوم عاشور ہے۔وہ دن جب نواسہ رسول حضرت امام حسین ع اور ان کے ساتھی تین دن تک بھوکے پیاسے رہ کر شہید کر دئیے گئے۔حضرت امام حسین ع اور ان کے جانثار ساتھیوں کی شہادت کا یہ سانحہ عظیم اپنے دامن میں دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے اعلیٰ کردار و عمل کی بے شمار مثالیں سمیٹے ہوئے ہے۔حضرت امام حسین ع نے اس بے مثال قربانی کے ذریعے حق و صداقت کی جو شمع روشن کی ہے وہ مسلمانان عالم کے دلوں میں تاابد روشن رہے گی۔امام عالی مقام ع نے دنیا کو دکھا دیا کہ صبر کی قوت،تسلیم و رضا کی کیفیت،ایمان کی حرارت موجود ہو اور احکام الٰہی کی عملی شہادت پیش کرنا مقصود ہو تو فتح ہمیشہ حق کی ہوتی ہے۔

سرکار دو عالم ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفٰی احمد مجتبٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس ہستی کے بارے میں فرمایا تھا کہ ”حسین ع مجھ سے ہے،اور میں حسین ع سے ہوں“ وہی حق و باطل کی تصویر کے ہر رنگ کے فرق کو نمایاں کر کے یہ بتا سکتا تھا کہ کامیابی صرف وقتی اور ظاہری فتح کا نام نہیں،آخری تجزیے میں یہ اللہ کی راہ پر چلنے والوں کا مقدر بنتی ہے،چاہے وہ وقتی طور پر مغلوب نظر آتے ہوں۔جس ہستی نے دنیا بھر کی بادشاہتوں کے نظام کے مقابل انصاف،مساوات اور احترام آدمیت پر مبنی معاشرے کو پوری آب و تاب سے جلوہ گر ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھا،جس نے دو جہاں کے سردار حضرت محمد مصطفٰی احمد مجتبٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوراک اور طرز زندگی کو عام آدمی جیسا سادہ پایا،جس کے مشاہدہ کے مطابق کسی ملاقاتی کی ذاتی گفتگو کے دوران بیت المال سے ملنے والا چراغ اس لئے گل کر دیا جاتا ہو کہ سرکاری خزانے کے وسائل صرف ریاستی و قومی مفادات کے لئے ہوتے ہیں، اس کے لئے ممکن ہی نہیں تھا کہ تعلیمات اسلامی کے منافی انداز و اطوار کی حمایت کر کے اسے سند جواز عطا کرتا۔ 

یوں راہ حق میں شروع کیا جانے والا وہ سفر جو بظاہر مدینہ منورہ سے شروع ہو کر میدان کربلا میں پہنچنے کے بعد ختم ہوا،آج بھی جاری ہے۔ہر سال طلوع ہونے والا محرم کا چاند جہاں امت کے دلوں میں غم حسین ع کو تازہ کرتا ہے وہاں اسے ہر دور کی کربلا سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ بھی دیتا ہے کہ دنیائے اسلام کو عالم کفر کی جن مسلسل سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا سامنا ہے وہ آج اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی نظر آتی ہیں۔دنیا بھر کے مسلمانوں،خاص طور پر وطن عزیز کے حکمرانوں اور عام لوگوں کو اس بات کا احتیاط اور باریک بینی سے جائزہ لینا ہو گا کہ جو مشترکہ غم تمام مسالک کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ جوڑنے کا ذریعہ ہے،اسے پارہ پارہ کرنے کے لئے کس قسم کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔اور ان سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے کیا حکمت عملی اختیار کی جانی چاہئے۔ 

حضرت امام حسین ع کا مدینے سے کربلا تک سفر کا مقصد بھی یہی تھا کہ نانا کی امت کے شیرازے کو بکھرنے سے بچایا جائے۔ شب عاشور کی تقریر سمیت آپ کے تمام خطبات سے واضح ہے کہ آپ امت کو افہام و تفہیم کا درس دے رہے ہیں۔سمجھا رہے ہیں کہ باہمی معاملات میں تلوار کا استعمال مسائل کو الجھا دیتا ہے۔قافلہ حر کو پانی پلا کر دکھا رہے ہیں کہ امت کے لوگوں کو ظاہری دشمنی کے باوجود حسن سلوک سے اپنے موقف کی اصابت کی طرف متوجہ کرنا چاہئے۔ہمارے علماء،دانشور اور صاحبان علم امام حسین ع کے پیغام کی روشنی پھیلا کر اس عصبیت اور فرقہ پرستی کا پردہ چاک کر سکتے ہیں جس نے امت مسلمہ،خاص طور پر وطن عزیز کو کئی گمبھیر مسائل سے دوچار کر رکھا ہے۔ 

یہ بات ملحوظ رکھنے کی ہے کہ بیشتر مسلم ممالک میں محرم کے جلوس سمیت غم حسین ع کے مظاہر کا اہتمام ہوتا ہے،مگر وہاں وہ افسوسناک واقعات رونما نہیں ہوتے جو وطن عزیز میں نظر آتے ہیں۔ اس کے اسباب کا سنجیدہ مطالعہ و تجزیہ کیا جانا چاہئے کہ کیا اس کے پس منظر میں پاکستان کو اس کی ایٹمی صلاحیت سے محروم کرنے کی کوئی خواہش کارفرما ہے،اس کی ٹیکنالوجی سمیت مختلف میدانوں میں آگے بڑھنے کی رفتار کو روکنے کے مذموم عزائم شامل ہیں یا بعض ویب سائٹس پر دئیے گئے نقشوں کے مطابق جغرافیے میں تبدیلی کا کوئی ناپاک منصوبہ روبہ عمل لایا جا رہا ہے۔کتنی عجیب بات ہے کہ جس عظیم شخصیت کا کردار تمام مسلمانوں کے لئے مثالی حیثیت رکھتا ہے اور نوجوانان جنت کے سردار کا رتبہ رکھنے کے باعث جس کا احترام سب ہی کے عقیدے کا حصہ ہے،اس کے یوم شہادت پر امن وامان برقرار رکھنے کے لئے غیر معمولی نوعیت کا انتظامی ڈھانچہ درکار ہوتا ہے۔

اطلاعات کے مطابق پنجاب کے متعدد اضلاع میں فوج اور رینجرز کو بلایا گیا ہے،سندھ سمیت دوسرے صوبوں میں بھی سیکورٹی کے خصوصی انتظامات کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔کراچی میں پچھلے برس جو افسوسناک سانحہ ہوا،اس کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچادیا جاتا تو ممکن تھا کہ اس بار خطرات کو اس شدت کے ساتھ محسوس نہ کیا جاتا۔ہماری ہمیشہ کی طرح آج بھی تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے اہل ایمان سے یہ دردمندانہ اپیل ہے کہ وہ اس بنیادی حقیقت کو محسوس کریں کہ یہ ملک ہم سب کا ہے۔سب کو اس میں رہنا ہے۔اس کی سلامتی اور بقاء میں ہی ہم سب کی بقاء ہے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارا ملک دنیا میں رونما ہونے والی تیز رفتار تبدیلیوں،دہشت گردی کے واقعات،توانائی کے بحران،معیشت کی زبوں حالی جیسے سنگین مسائل میں بری طرح الجھا ہوا ہے۔ 

لہٰذا وقت اور حالات کا اولین تقاضا یہ ہے کہ تمام مسالک کے علمائے کرام،خطیبوں،بااثر افراد اور اداروں کے علاوہ حکومت کو بھی قومی سطح پر اس وسیع تر ہم آہنگی اور یگانگت کے فروغ کیلئے پورے خلوص دل سے تدابیر کرنی چاہئیں،جو رسول اور آل رسول سے محبت کا بنیادی تقاضا ہے۔ہر مسلک کے لوگوں تک امام حسین ع کے خطبات اور پیغام کو پہنچانا چاہئے۔یاد رکھنا چاہئے کہ معاشرے میں امن و ہم آہنگی اور رواداری اسلام کا طرہ امتیاز ہے اور ہم اس بات پر فخر کر سکتے ہیں کہ اسلامی معاشروں میں مذہبی اقلیتوں کو بھی ہر ممکن تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔

ایسی صورت میں دین متین کے اندر مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے باہمی یگانگت اور اتفاق و اتحاد کے ساتھ ان سازشوں کو کیوں ناکام نہیں بنا سکتے،عالم اسلام بالعموم اور پاکستان بالخصوص جن کی زد میں ہے۔ملک و قوم کو درپیش گوناگوں مسائل و مشکلات کے پیش نظر ہم پوری دردمندی اور صدق دل سے یہ سمجھتے ہیں کہ آج ہمارے لئے یوم عاشور کا سب سے اہم اور ہمیشہ یاد رکھا جانے والا پیغام یہی ہے کہ ہم اپنی صفوں میں مکمل اتحاد و اتفاق قائم کر کے ملک و قوم کے خلاف کی جانے والی ان ناپاک سازشوں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ناکام بنا دیں،جو اسلام اور پاکستان کے بدخواہ ہمارے خلاف ایک عرصہ سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔آج کے دن ہمیں شہدائے کربلا کی یاد مناتے ہوئے حکیم الامت علامہ محمد اقبال کے اس فکر انگیز شعر کو اپنے قلب و ذہن کی جلا کیلئے بطور خاص پیش نظر رکھنا چاہئے۔

تبصرے
Loading...