ٹروریزم اسلامی فقہ کی نگاہ میں

اسلام ہر گز دھشتگردی کی حمایت نہیں کرتا ۔ فقہ شیعہ میں ٹروریسٹ اور دھشتگرد اپنے جرم کے اعتبار سے سزا کا مستحق ہے۔ جیسا اس نے فعل انجام دیا ہو گا ویسی اس کو سزا ملے گی اگر اس نے اسلحہ دکھا کر کسی کو ڈرایا دھمکایا ہے تو اس کی سزا اسی حد تک ملے گی اگر اس نے کسی کو زخم لگایا ہے اور کسی پر اسلحہ کھینچا ہے اس کی سزا بھی فقہ اسلامی میں معین ہے جبکہ اگر اس نے کسی کا قتل کیا ہے تو اسے قصاص کیا جائے گا۔ یہ تمام فقہی احکامات اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ اسلام کسی بھی طرح کے دھشتگردانہ اقدامات کی حمایت نہیں کرتا بلکہ اس کے برخلاف ان کی شدید مذمت کرتا ہے۔ اسلام میں صرف دفاع واجب ہے اور دفاع نہ صرف اسلامی رو بلکہ عقلی رو سے ہر انسان پر واجب ہے اس میں مسلمان اور غیر مسلمان کی کوئی قید نہیں ہے۔

بقلم :سید افتخار علی جعفری

ٹروریزم اسلامی فقہ کی نگاہ میں

مقدمہ
“ٹرور” ایسا ڈراونہ اور وحشتناک کلمہ ہے جس کے سننے سے مختلف طرح کے جرائم،درد ناک واقعات کی ایک فہرست ذہن میں تبادر کر جاتی ہے۔ٹرور کوئی ایسا کلمہ نہیں ہے جو مدتوں سے ادباء کا وردزبان اور لغت کی کتابوں کا حصہ بنا رہا ہو۔ اس کے باوجود اس نے مختصر سے عرصہ میں انسانی وجدانوں کو اس طرح سے زخمی کر دیا ہے کہ ہر انسان اس سے نفرت کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
سب سے زیادہ جس دہشت گردانہ اقدام نے انسانی ضمیروں کو مجروح کیا ہے وہ گیارہ ستمبر کا واقعہ ہے۔ اس واقعہ کے بعد عالمی معاشرے کی آنکھیں کھل گئیں کہ دہشت گردی سب سے خطرناک چیز ہے جو کبھی بھی کسی سماج کو نقصان پہنچا سکتی ہے لہذا اس کا عالمی طور پر مقابلہ کیا جائے۔ چو نکہ اس واقعہ کا اصلی متہم ایک فرضی مسلمان شخص ہے لہذا عالمی برادری کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کی طرف اتہام کی انگلیاں اٹھ گئیں۔ اورسامراج کو ٹروریزم کے ساتھ جنگ کے بہانے سے اسلام کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک موقع مل گیا ۔ تمام مطبوعات، خبری ایجنسیاں بلکہ پورا میڈیا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تبلیغات کرنے پر جھٹ گیا۔ صرف ایک انٹرنٹی سائٹ آمازون پر ۱۵۰۰ کتابیں ٹروریزم کے بارے میں موجود ہیں جو کلی طور پر اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرتی ہیں۔گوگل میں اگر آپ ٹروریزم کو سرچ کریں گے تو ۳۰ لاکھ صفحہ ٹروریزم کے بارے میں دکھائی دیں گے۔اور منجملہ کتابیں جیسے ٹرور خدا کی راہ میں، ٹرور اسلام کے نام پر، دین صلح یا دین ٹرور، ٹرور مقدس، اسلامی ٹروریزم دنیا کی حقیقت، اسلام تیزی سے امریکا پہنچ گیا، سیاسی اسلام کی داستان، جہاد مغرب میں، افراطی اسلام وغیرہ بھی موجود ہیں۔
دنیا بھر کے مسلمان گیارہ ستمبر کے حادثے کی مذمت کرتے ہیں اور اس حادثہ کے آلہ کاروں اور وجود میں لانے والوں کو اسلام سے دور قرار دیتے ہیں۔ لیکن اس دوران کوئی ایسی جامع تحقیق جو ٹرور یسم سے مقابلہ کرنے اور دہشت گردانہ حملے کرنے کے بارے میں اسلامی نظریہ کو پیش کرے عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔
ہم نے اس تحقیق کے اندر اگر چہ مختصر، اس بارے میں ایک قدم اٹھایا ہے۔ اور یہ کوشش کی ہے کہ مندرجہ ذیل سوالوں کے جوابات دئے جائیں:
ٹرور اور ٹروریزم کیا ہے؟
ٹرور اور شرعی دفاع کے اندر کیا فرق ہے؟
ٹرور کی اقسام کیا ہیں؟
ٹرور کی اقسام میں سے ہر ایک کا فقہی حکم کیا ہے؟

ٹروریزم(دہشت گردی) کی تعریف
لغوی تعریف
لغت میں ٹرور(۱) ڈرانے(۲) ، لوگوں کے درمیان خوف اور دہشت ایجاد کرنے (۳)، زور اور زبردستی کی حکومت قائم کرنے(۴) کے معنی میں بیان ہوا ہے۔
بین الاقوامی حقوق کمیٹی نے بین الاقوامی جرائم یعنی ٹروریزم کی اس طرح تعریف کی ہے:
” ٹروریزم عبارت ہے ایسے اقدامات کو جائز سمجھنے سے جو عوام الناس کے اندر وحشت ایجاد کرنے کی غرض سے ہوں”
اصطلاحی تعریف
اب تک کوئی ایسی جامع تعریف جو پوری دنیاکے اہل نظر کے ہاں قابل قبول ہو نہیں ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے اقوام متحدہ نے ۱۹۷۲ کی ایک قرار داد ۳۰۳۴ میں یہ طے کیا ہے کہ ٹروریزم کے بارے میں تحقیقات ہونا ضروری ہے اور اس قرار داد کو تصویب کرنے کے لیے تین کمیٹیوں کو تشکیل دیا گیا:
۱: ٹروریزم کی تعریف کرنے والی کمیٹی
۲: ٹروریزم کے اسباب بیان کرنے والی کمیٹی
۳: ٹروریزم کی روک تھام کرنے کے لیے راہ حل تلاش کرنے والی کمیٹی۔
لیکن افسوس سے ان کمیٹیوں کا کام کچھ ممالک کی اختلاف رائے سے نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا۔ اس کے بعد امریکہ میں گیارہ ستمبر کا واقعہ پیش آنے کے نتیجہ میں ٹروریزم کی جامع تعریف کرنے کی کوشش کی گئی۔ البتہ اس مقالہ میں ان تعریفوں کو بیان کرنے کی گنجائش نہیں۔ ہم یہاں پر اختصار کے ساتھ چند ایک تعریفوں کو بیان کرنے پر اکتفا کریں گے۔اس کے بعد اس کے بارے میں فقہی حکم کو بیان کریں گے۔
۱۹۷۲ کی قرار داد میں ٹروریزم کی اس طرح سے تعریف کی گئی: حکومت میں تحولات ایجاد کرنے کی غرض سے تلاش و کوشش، عوامی خدمات پیش کرنے کی راہ میں مداخلت، بین الاقوامی روابط کو زہریلہ بنانا، حکومت سے سروکار رکھنے والے افراد یا حکومت کے روساء کا قتل کرنا، عمارتوں کو خراب کرنا، آب و غذا کے اندر آلودگی ایجاد کرنا اور مسری بیماریوں کے اسباب فراہم کرنا(۵) ٹروریزم کہلاتا ہے۔
بین الاقوامی حقوق کمیٹی نے عالمی جرائم کو پیش نظر رکھتے ہوئے ٹرور کی یوں تعریف کی ہے:
” ٹروریزم عبارت ہے ایسے اقدامات کو جائز قرار دینے سے جو عوام الناس کو وحشت میں ڈالنے کی غرض سے ہوں۔(۶)
امریکہ کی وزارت دفاع کے ہاں ٹروریزم، غیر قانونی کام انجام دینے، ایک انقلابی گروپ کے ذریعے وحشیانہ اقدامات انجام دینے اورحکومت یا عوام کو کسی کام پر مجبور کرنے کو کہا جاتا ہےکہ جو غالباً سیاسی اہداف کے پیش نظر ہو ۔(۷)
ایک حقوق دان نے ٹروریزم کی تعریف میں یوں لکھا ہے: ٹروریزم ان غیر انسانی اعمال پر اطلاق ہوتا ہے جو سیاسی مقاصد کی خاطر ملکوں کے سیاسی نظام کے ساتھ مقابلہ اور لوگوں میں دہشت اور خوف پیدا کرنے کی غرض سے انجام دئے جاتے ہیں۔(۸)
اقوام متحدہ کی ۱۹۸۴ میں تصویب ہونے والی قرار داد کے اندر ٹروریزم کی تعریف اس طرح سے کی گئی:
” مجرمانہ اور وحشیانہ کام جو کچھ ٹریننگ یافتہ گروپ دہشت پھیلانے کے لیے انجام دیتے ہیں تاکہ اپنے کچھ سیاسی اہداف کو حاصل کر سکیں”(۹)
محمد حسین شاملو احمدی اس بارے میں لکھتے ہیں:
” ٹروریزم ایک ایسا وحشتناک اور انسان کش مکتب ہے جو ملکوں کے سیاسی نظام کی مخالفت میں لوگوں کو اس نظام سے دور کرنے کی غرض سے ان کے درمیان ٹرورسٹی اقدامات انجام دے کر دہشت پھیلاتا ہے۔(۱۰)
۱۹۹۷ میں بین الاقوامی عوامی اسمبلی نے ٹروریزم مخالف قرارداد پیش کرتے ہوئے ٹروریزم کے بارے میں یوں لکھا: ٹروریسٹ وہ انسان کش،قاتل اور جنایتکار آدمی ہے جو لوگوں کے درمیان رعب و دبدبہ پیدا کرنے کے لیے غیر انسانی افعال کا سہارا لیتا ہے۔ جہاں کہیں بھی کوئی جان بوجھ کر اور غیر قانونی راستے سے کوئی بلاسٹ کرے ،کسی کو قتل کرے، حکومتی ادارات، عوامی اجتماعات یا حمل ونقل کے ذرایع کے اندر بم دھماکے کرے وہ ٹروریسٹ شمار ہو گا(۱۱)
ولف، امریکی فلاسفر لکھتا ہے:
” ٹروریزم عبارت ہے کچھ خاص اہداف کو حاصل کرنے کے لیے غیر قانونی طاقت استعمال کرنے سے ، لہذا قانونی طور پر طاقت کا استعمال ٹرور کے مفہوم میں داخل نہیں ہو گا۔(۱۲)
علوم سیاسی کے انسائکلوپیڈیا میں ٹروریزم کی تعریف اس طرح سے کی گئی ہے:
” ٹرور کے معنی وحشت اور خوف کے ہیں، اصطلاح میں اس فوق العادہ وحشت کی حالت پر اطلاق ہوتا ہے جو کسی کے خون میں ہاتھ رنگین کرنے سے کسی گروپ کے ذریعے کچھ سیاسی اہداف کے پیش نظر وجود میں لائی جاتی ہے۔(۱۳)
جن تعریفوں کی طرف ہم نے یہاں پر اشارہ کیا ہے یہ ان تعریفات کا ایک حصہ ہیں جو ٹروریزم کے بارے میں بیان ہوئیں ہیں۔ ان تعریفات کو کلی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
۱: مصداقی تعریفیں: کچھ تعریفیں ایسی ہیں جن میں بجائے تعریف کرنے کے ٹروریزم کے مصادیق کو گنوایا ہے۔
۲: مفہومی تعریفیں: کچھ تعریفیں ایسی ہیں جن میں ٹروریزم کے مفہوم کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔جیسا کہ بین الاقوامی حقوق کمیٹی یا امریکہ کے وزارت دفاعیہ کی تعریف میں بیان ہوا۔
۳: ترکیبی تعریفیں: کچھ تعریفیں ایسی ہیں جن میں مفہوم اور مصداق دونوں کی طرف اشارہ کیا گیاہے۔جیسا کہ بین الاقوامی عوامی کمیٹی نے ٹروریزم کی تعریف پیش کی ہے۔
منطقی لحاظ سے گزشتہ تعریفوں میں سے کوئی ایک تعریف بھی جامع اور مانع نہیں ہے، اور ٹروریزم کی مکمل طور پر عکاسی نہیں کرتی ۔ہماری نظر میں اگر ٹروریزم کی اس طریقے سے تعریف کی جائے تو شائد کسی حد تک منطقی تعریف کے نزدیک ہو۔
” ٹروریزم عبارت ہے وحشیانہ اور دہشت گردانہ اقدامات سے جو سیاسی یا غیر سیاسی اہداف کے تحت مختلف جگہوں پر مخفی انداز میں انجام دئے جائیں اس طریقے سے کہ شرعی دفاع کا عنوان ان پر صدق نہ کرے۔”
اگر مذکورہ تعریف کا منطقی اعتبار سے تجزیہ و تحلیل کرنا چاہیں گے تو ” وحشیانہ اور دہشت گردانہ اقدامات ” اس تعریف کی جنس ہو گی اس لیے کہ یہ دھشتگردی ، دفاع اور جنگ کو بھی شامل ہے۔ اور باقی جملہ اس تعریف کی فصل قرار پائے گا۔ جو ٹروریزم کے مصادیق کو دوسرے مصادیق سے جدا کرتا ہے۔ ” مختلف اور مخفی انداز ” قانونی جنگوں کو خارج کرتا ہے۔ اس لیے کہ جنگیں علی الاعلان کی جاتی ہیں نہ مخفی طور پر۔ اور جملہ : شرعی دفاع کا عنوان اس پر صدق نہ کرے” شرعی اور جائز دفاع کو خارج کرتا ہے۔
ٹروریزم فقہی نگاہ میں
جیسا کہ ملاحظہ کیا مختلف ممالک کی سیاسی شخصیتوں اور لیڈروں نے اپنے اپنے افکار اور عقائد کے مطابق ٹروریزم کی تعریف کی اور ہر کسی نے ایک خاص طبقہ کو ٹروریسٹ قرار دیا۔ لہذا یہاں پر ضروری ہے کہ ہم ایک مشترک نتیجہ نکالنے کے لیے کچھ مشترکہ اصول سے مدد حاصل کریں وہ کلی اصول جنہیں ہر انسانی ضمیر قبول کرتا ہے اس اعتبار سے ہر انسان ان پر متفق ہے۔
یہاں دو ایسے مشترکہ اصول کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو انسانی ضمیر،بین الاقوامی حقوق دانان اور اسلامی فقہ کے یہاں قابل قبول ہیں۔
۱: اپنا دفاع کرنا جائز اور انسانی فطرت کے ساتھ سازگار ہے۔
۲: ٹرورسٹی اقدامات غیر انسانی اور بشری ضمیر کی نگاہ میں مذموم ہیں۔
ضروری ہے کہ ان دو اصول کے درمیان فرق کے قائل ہوں۔ اصلی سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ایسا معیار پایا جاتا ہے جو ” جائز دفاع اور ٹروریزم‘‘ کو تشخیص دینے میں سب کے یہاں قابل قبول ہو؟
جائز دفاع
بہت سارے فلاسفرز (۱۴)اور حقوق دان افرادجائز دفاع کو ہر انسان کا فطری حق سمجھتے ہیں۔ اور جائز دفاع کے مبانی اور اصول ایران کے قانون اساسی میں (۱۵) پیش کئے گئے اور ۱۹۹۱ میں مادہ ۶۱ میں جائز دفاع کو اصلی قانون کے عنوان سے درج کر دیا گیا۔(۱۶)
بین الاقوامی حقوق کے لحاظ سے اہم ترین بین الاقوامی سند کہ جو جائز دفاع کو تمام ممالک کا فطری حق سمجھتی ہے اقوام متحدہ کے منشور میں مادہ نمبر ۵۱ میں درج ہے۔ اس مادہ کی بنیاد پر اگر کوئی ملک کسی دوسرے ملک پر حملہ کرتا ہے بین الاقوامی سلامتی کونسل کے فیصلہ کرنے سے پہلے ہی اس ملک کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنا دفاع کرے۔ (۱۷)
فقہ اسلامی کے اندر بھی دفاع کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ محقق حلی لکھتے ہیں: ہر انسان کو حق ہے کہ وہ اپنے جان و مال و حریم کاحتی الامکان دفاع کرے۔اور اس راہ میں سب سے آسان راستے کا انتخاب کرے۔ پس اگر چلِاّ کر اور شور مچا کر پہلی فرصت میں اپنا دفاع کر سکتا ہے تو اسی پر اکتفا کرے (اس صورت میں کہ چیخ و پکار سے اس کی مدد کر نے کا امکان ہو) اور اگر شور مچانے سے دفاع نہ ہو سکے تو ہاتھ سے دفاع کرے اور ہاتھ کافی نہ ہو تو لاٹھی سے اور اگر لاٹھی بھی کافی نہ ہو تو اسلحہ سے دفاع کرے ۔ اس صورت میں اگر مجرم زخمی ہو جائے یا قتل ہو جائے توکوئی اشکال نہیں رکھتا چاہے وہ آزاد ہو یا غلام۔ اور اگر دفاع کرنے والا قتل ہو جائے تو شہید کا حکم رکھتا ہے۔ (۱۸)
شہید ثانی نے بھی گزشتہ ترتیب کو قبول کیا دفاع کو آسان سے سخت کی طرف جائز قرار دیا ہے۔(۱۹)
صاحب جواہر معتقد ہیں کہ نصوص مطلق ہیں اور جو ترتیب فقہا بیان کرتے ہیں ان نصوص سے معلوم نہیں ہوتی۔ اس اعتبار سے مدافع (دفاع کرنے والا) جس چیز سے چاہے اپنا دفاع کر سکتا ہے۔ آپ اس بارے میں لکھتے ہیں:” نصوص کے اطلاق کا تقاضا یہ ہے کہ دفاع میں اس ترتیب کی رعایت کرنا جو فقہا نے ذکر کی ہے ضروری نہیں ہے خاص کر کے چور اور ڈاکو وغیر کے دفاع میں۔(۲۰)
شرعی دفاع فقہ میں دو قسموں میں تقسیم ہوتا ہے:
۱: انفرادی دفاع(اپنے جان و مال و عزت سے)
۲: اجتماعی دفاع ا(پنی سرزمین اور مملک سے)
جو کچھ بیان کیا گیا وہ انفرادی دفاع کے بارے میں تھا، لیکن اپنی سر زمین اور مملکت سے دفاع کرنا جہاد کی ایک قسم ہے، اس لیے کہ جہاد ابتدائی صورت میں دفاعی حالت پر ہی اطلاق ہوتا ہے اور جہاد دفاعی کی مشروعیت اور جوازیت اسلامی فقہ کے اندر اتنی واضح اور آشکار ہے کہ کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔(۲۱)
جائز اور شرعی دفاع کا معیار
جائز اور شرعی دفاع کرنا، چاہے وہ اپنے ملک اورمملکت سے دفاع ہو یا اپنی جان و مال اور عزت و ناموس سے، کچھ شرائط اور ضوابط کا حامل ہے۔ یہ شرائط اور ضوابط درحقیقت جائز دفاع اور دہشت گردانہ اقدامات میں تشخیص دینے کا معیار ہیں۔ ذیل میں ان شرائط اور ضوابط کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:
جائز دفاع کے شرائط
الف: تجاوز کا دفاع
جائز دفاع کرنے کے بنیادی شرائط میں سے ایک شرط ، تجاوز کا وقوع پانا ہے۔ اس معنی میں کہ کہیں تجاوز واقع ہو گا اس کے مقابلے کے لیے دفاع سے کام لیا جائےگا۔ اس شرط کو عالمی معاشرہ قبول کرتا ہےلیکن یہاں پر اصل مشکل تجاوز کی تعریف اور اسکی حدود کا تعین ہے۔ جیسا کہ بین الاقوامی سلامتی کونسل نے ۱۹۲۳ میں جنگی شرائط بیان کرتے ہوئے کہا: ماڈرن جنگ کے شرائط میں یہ ناممکن ہے کہ تھیوری کے اندر یہ بیان کیا جا سکے کہ کون سی چیز تجاوز ہے اور کون سی غیر تجاوز”(۲۲)
بین الاقوامی معاشرتی کونسل نے کئی سال پے در پے یہ کوشش کی کہ تجاوز کے لیے کوئی مشترک تعریف پیش کریں ۔ ان کی ان کوششوں کو مدنظر رکھ کر تجاوز کو پانچ قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
۱: قانونی تعریف: اس تعریف کے مطابق جو شخص کسی ملک کے قوانین کی مخالفت کرے متجاوز کہلاتا ہے(۲۳)
۲: کلی تعریف: اس تعریف کے مطابق ایک ملک کی دوسرے ملک کو کسی قسم کی دھمکی، اس کے خلاف کسی طرح کی سازش، چاہے علنی ہو یا خفیہ طور پر ۔اور اسی طریقے سے سماجی یا انفرادی دھکمیاں اور ایک دوسرے کے خلاف پروپگنڈے کو تجاوز کہا جائے گا۔(۲۴)
۳: مصداقی تعریف: اس تعریف میں چند ایک مصادیق کے ذکر کرنے پر اکتفا کی گئی ہے(۲۵)
۴: مرکب تعریف: یہ تعریف کلی اور مصداقی تعریف سے مرکب ہے۔ (۲۸)
۵: قضائی عنوان سے تعریف: اس تعریف کے مطابق عدالتوں میں تجاوز کو تشخیص دیا جاتا ہے۔(۲۷)
شیعہ فقہ کی نگاہ میں جائز دفاع میں طاقت اور زور سے کام لینا اس صورت میں مجاز ہے جب تجاوز کے دفاع کے لیے کوئی دوسرا راستہ موجود نہ ہو۔
اسلامی فقہ میں بھی تجاوز کو دفاع کے جواز کے لیے ایک شرط قرار دیا ہے مرحوم کاشف الغطا جہاد کو پانچ قسموں میں تقسیم کرتے ہیں کہ جن میں چار قسمیں دفاعی جہاد پر مشتمل ہیں (۲۷) انفرادی دفاع کی صورت میں طاقت اور زور سے کام لینا جان و مال و ناموس پر تجاوز کرنے کی صورت میں ضروری ہے۔ (۲۹) گزشتہ تمام موارد میں تجاوزکو جائز دفاع کے لیے ایک شرط کے عنوان سے قرار دیا گیا ہے۔
ب: طاقت کے استعمال کی ضرورت
جائز دفاع کے شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ طاقت کے استعمال کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ کار میسر نہ ہو۔(۳۰) جیسا کہ ذکر ہوا شیعہ فقہ میں طاقت کا استعمال کرنا صرف اس صورت میں مجاز ہے جب کوئی دوسرا راستہ تجاوز سے پچنے کے لیے میسر نہ ہو اس بناپر اگر کوئی بھاگ کر یا چیخ و پکار کر کے اپنی جان بچا سکتا ہے تو طاقت کا استعمال کرنا اس کے لیے درست نہیں ہے۔(۳۱)
ج: تناسب
جائز دفاع کے شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ تناسب اور تعادل کا خیال رکھے۔ یعنی دفاعی صورت میں جو اقدام کیا جائے گا اس میں تجاوز کرنے والے کے عمل کی کیفیت اور کمیت کو مدنظر رکھا جائے نہ اس سے کم نہ زیادہ اس کا جواب دیا جائے۔ اسلامی (۳۲) اور بین الاقوامی(۳۳) حقوق کے اندر اس چیز پر تاکید کی گئی ہے۔
شہید ثانی اس بارے میں لکھتے ہیں:
اگر تجاوز کرنے والا اپنے سے رک جائے تو دفاع کرنے والے کو بھی اپنا ہاتھ کھینچ لینا چاہیے۔ اور وہ تجاوز کرنا شروع کرے تو دفاع کرنے والا بھی اپنا دفاع کرنا شروع کر دے۔اس بنا پر جب تجاوز کرنے والا دفاع کرنے والے کی طرف رخ کر کے حملہ کرے تو اس کے ہاتھ کاٹ دے اور جب اس کی طرف پشت کرے تو اس کے پیر کاٹ دے اور نتیجہ میں حملہ کرنے والا مر جائے تو دفاع کرنے والا نصف قصاص کا ضامن ہو گا اور دوبارہ حملہ کرنے والا پلٹ کر حملہ کرنا چاہے اور دفاع کرنے والا اس کا کوئی عضو کاٹ دے اس صورت میں نصف نہیں بلکہ ایک ثلث کا ضامن ہو گا۔(۳۴)
گزشتہ عبارت سے واضح ہو جاتا ہے کہ اسلامی فقہ میں جائز دفاع میں طاقت اور زور سے کام لینا صرف تجاوز کو دفع کرنے کی حد مجاز ہے اور اس سے زیادہ ظلم اور خود تجاوز ہے۔ (۳۵)
نتیجہ:
گزشتہ بحثوں سے مندرجہ ذیل نتائج کو اخذ کیا جا سکتا ہے:
۱: دفاع کرنا انسان کا طبیعی حق ہے اور فقہ اور حقوق کی نگاہ میں جائز ہے۔
۲: دفاع اس صورت میں جائز ہے جب اس کے شرائط فراہم ہوں ورنہ وہ خود ایک طرح کا ظلم اور تجاوز ہو گا۔
یہ شرائط درج ذیل ہیں:
الف: تجاوز کا وقوع پانا: جائز دفاع صرف تجاوز کے وقوع پانے کی صورت میں معنی رکھتا ہے اور انسان کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنا دفاع کرے۔
ب: طاقت کے استعمال کی ضرورت: طاقت کا استعمال اس صورت میں جائز ہے جب کوئی دوسرا راستہ فراہم نہ ہو۔
ج: تناسب: دفاع میں ضروری ہے کہ تجاوز کے ساتھ کمیت اور کیفیت کے لحاظ سے تناسب رکھتا ہو۔اس بنا پر انسان کو حق حاصل نہیں ہے کہ وہ تجاوز کا دفاع کرنے کے بہانے سے ہر طرح کا وحشیانہ عمل انجام دے دے۔
ٹروریزم کے مصادیق اور ان کے فقہی احکامات
گزشتہ باتوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ طاقت اور توانائی کا استعمال کرنا اور مار پیٹ سے کام لینا صرف جائز اور مشروع دفاع میں مجاز ہے وہ بھی شرائط کے تحت۔ اس بنا پر ہر طرح کا مار پیٹ والا کام اور طاقت کا استعمال شرائط کی حدود سے خارج نہیں ہونا چاہیے ورنہ وہ بھی تجاوز اور ظلم کہلائے گا۔اور فقہی اور حقوقی نکتہ نظر میں مذموم ہے چاہے ایسے اقدامات پر ٹروریزم کا عنوان صادق آئے چاہے جنگ کا یا کوئی دوسرا۔ ہم یہاں پر ان غیر انسانی اقدامات کے متعلق فقہی نظر بیان کریں گے جو جائز دفاع کے دائرے سے باہر ہیں۔
چونکہ ٹرورسٹی گروپ مختلف طرح کے غیر انسانی کام انجام دیتے ہیں اس وجہ سے ہر کام کے لیے جداگانہ طور پر فقہی احکام کو بیان کیا جائے گا:
۱: ٹروسٹی اقدامات بغیر کسی سیاسی مقصد کے اس طرح کے اقدامات کا فقہی حکم واضح ہے۔ اس لیے کہ جو لوگ بغیر کسی سیاسی مقصد کے اسلحہ اٹھاتے ہیں اور لوگوں میں خوف و ہراس ایجاد کرتے ہیں سماج کے امن و سکون کو خدشہ دار کرتے ہیں یہ لوگ قرآن کی اصطلاح میں محارب اور مفسد فی الارض کے مصداق ہیں اور قرآن نے ان کے حکم کو واضح طور پر بیان کیا ہے ۔گفتگو کو واضح تر بیان کرنے کے لیے پہلے ضروری ہے کہ محارب اور مفسد فی الارض کے معنی کو فقہی اعتبار سے بیان کریں تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ اس طرح کے اعمال انجام دینے والے کس طبقے کے مصادیق ہیں؟
محارب کی تعریف
محارب ” حرب” کے مادہ سے ہے اور ” سلم ” کا نقیض ہے۔ زبیدی لکھتے ہیں: حرب ،سلم کے مقابلے میں ہے اور یہ دونوں کلمے ایک دوسرے کے نقیض ہیں”۔ سہیلی کی تحقیق کے مطابق کلمہ ” حرب” عبارت ہے دونوں طرف سے تیر اندازی کرنے سے، ایک دوسرے کی طرف نیزہ پھینکنے سے، ایک دوسرے کے تلوار مارنے سے وغیرہ(۳۷)
” حرب” کہ جو محاربہ کا مادہ ہے قرآن کی چھ آیات میں استعمال ہوا ہے (۳۸) کہ ان تمام موارد میں جنگ و جدال، فتنہ و فساد اور خدا و رسول کے مقابلے میں اسلحہ اٹھانے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
اصطلاحی تعریف
فقہاء کی نگاہ میں محارب وہ شخص ہے جو لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے اسلحہ اٹھائے چاہے خشکی میں چاہے تری میں، چاہے دن میں چاہے رات میں، چاہے شہر میں چاہے شہر کے باہر۔ تمام بزرگ فقہا محارب کی اس تعریف پر اتفاق نظر رکھتے ہیں۔
صاحب شرائع لکھتے ہیں:
” محارب وہ شخص ہے جو لوگوں کو ڈرانے کے لیے اسلحہ اٹھائے، چاہے خشکی میں چاہے تری میں، لیکن اس شخص کے محارب ہونے میں جو اسلحہ اٹھائے لیکن ڈرانے کی توانائی نہ رکھتا ہو تردید پائی جاتی ہے۔ البتہ واقع کو دیکھتے ہوئے ایسے شخص کو بھی محارب کہا جا سکتا ہے اور اس کے ارادہ کی وجہ سے اس کو سزا دی جا سکتی ہے۔(۳۹)
صاحب شرائع سے پہلے شیخ مفید (۴۰) ، شیخ طوسی (۴۱)، راوندی (۴۲)، ابن ادریس(۴۳)، ابن حمزہ(۴۴) وغیرہ نے بھی محارب کی یہی تعریف کی ہے۔ علامہ حلی تبصرۃ المتعلمین میں (۴۵) اور تحریر الاحکام میں (۴۶) اسی طرح الارشاد ( ۴۷) اور قواعد الاحکام میں (۴۸) اور آپ کے بیٹے فخر المحققین (۴۹) نے ایضاح میں شہید اول نے دروس میں (۵۰) شہید ثانی نے روضہ (۵۱) شیخ حسن نجفی نے جواہر الاکلام میں (۵۲) اسی تعریف کی تائید کی ہے۔
امام خمینی (رہ) تحریر الوسیلہ میں لکھتے ہیں:
“محارب وہ شخص ہے کہ جو لوگوں کو ڈرانے اور زمین میں فساد پھیلانے کی غرض سے اپنا ہتھیار (اسلحہ) اٹھائے چاہے خشکی میں چاہے تری میں، چاہے دن میں چاہے رات میں، چاہے شہر میں چاہے شہر سے باہر” (۵۳)
جیسا کہ ملاحظہ کیا کہ فقہاء نے ان تعریفوں کے اندر جو محارب کے لیے بیان کی ہیں محارب کے مادی اور معنوی دونوں پہلووں کی طرف اشارہ کیا ہے:
۱: مادی پہلو یعنی اسلحہ اٹھانا۔
۲: زمان و مکان کی قید اس جرم میں کوئی تاثیر نہیں رکھتی ۔
۳: محارب کے کام کا نتیجہ، یعنی محارب کا جرم مطلق ہے نتیجہ کا حصول کوئی تاثیر نہیں رکھتا۔ اس اعتبار سے شہید ثانی نے لکھا ہے کہ ” محارب عبارت ہے اسلحہ برہنہ کرکے لوگوں کو ڈرانے کی غرض سے چاہے وہ اس بات پر قادر ہو یا نہ ہو” (۵۴)
۴: معنوی پہلو کے عنوان سے ڈرانے کے قصد کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ یعنی لوگوں کو ڈرانے کا قصد رکھتا ہو۔ (۵۵)
اسلامی قانون کے مادہ ۱۸۳ میں بھی محارب کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے: ” جو شخص خوف و ہراس پیدا کرنے اور لوگوں کی آزادی سلب کرنے اور ان کے امن و آمان کو چھیننے کی غرض سے اسلحہ اٹھائے محارب اور مفسد فی الارض ہے”
محارب روایات میں
روایات میں مختلف عناوین اور موضوعات سے محارب اور اس کے حکم کو بیان کیا ہے کہ وہ تمام عناوین فساد کے مصادیق شمار ہوتے ہیں۔ جیسے، چور، شب خون مارنے والا، رہزن، ڈاکو، وغیرہ۔ اس سلسلے کی روایات کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
الف: کچھ ایسی روایات ہیں کہ جو دلالت کرتی ہیں کہ محارب وہ شخص ہے جو اسلحہ سے کسی دوسرے کا قتل کرے یا چوری کرے جیسے امام محمد باقر علیہ السلام سے محمد بن مسلم کی نقل کردہ صحیح روایت ہے:
” جو شخص کسی شہر میں اسلحہ اٹھائے، اور کسی کو قتل کردےیاکسی کو زخمی کر دےتو اس کا قصاص کیا جائے گا۔ جو شخص کسی شہر میں اسلحہ اٹھاتا ہے اور کسی کو مارتا ہے اور اسے زخمی کرتا ہے اس کے مال کو چھینتا ہے لیکن کسی کو قتل نہیں کرتا اسے محارب کہا جائے گا اور محارب کو دی جانے والی سزا کا مستحق ہو گا۔۔۔” (۵۶)
ب: وہ روایات جو صرف اسلحہ اٹھانے کومحارب کہتی ہیں چاہے کسی دوسرے جرم کا مرتکب نہ ہوا ہو جیسے ضریس امام باقر علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں: جو شخص رات کو اسلحہ اٹھائے محارب ہے مگر یہ کہ اہل فساد میں سے نہ ہو” (۵۷)
عبید بن بشیر خثعمی کی امام صادق علیہ السلام سے روایت اور عبید اللہ بن مندائنی کی امام رضا علیہ السلام سے روایات بھی اس بات پر دلالت کرتی ہیں(ّ۵۹)۔
ج: کچھ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ محارب وہ شخص ہے جو وحشیانہ قسم کے کام انجام دے کر سماج میں افراتفری اور دہشت پھیلاتا ہے۔
جیسے عیاشی کی امام جواد علیہ السلام سے روایت کہ جس میں اسلحہ اٹھانے کا کوئی تذکرہ نہیں ہے صرف ڈرانے کا ذکر ہوا ہے۔(۶۰)
کلی طور پر اس سلسلے کی آیات و روایات کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ٹروریزم کی یہ قسم یعنی غیر سیاسی مقاصد کی خاطر دہشت گردانہ افعال انجام دینا محارب کے مصادیق میں سے ہے اور ان کی سزا وہی سزا ہے جو قرآن اور سنت نے اس سلسلے میں معین کی ہے۔
یہاں پر ایک آیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
«انما جزاء الذين يحاربون الله و رسوله و يسعون في الارض فساداً ان يقتلوا او يصلبوا او تقطع ايديهم و ارجلهم من خلاف او ينقوا من الارض ذلك لهم خزي في الدنيا و لهم في الآخرة عذاب عظيم»(۶۱)
بس خدا و ررسول سے جنگ کرنے والوں اور زمین میں فساد کرنے والوں کی سزا یہی ہے کہ انہیں قتل کر دیا جائے یا سولی پر چڑھا دیا جائے یا ان کے ہاتھ اور پیر مختلف سمت سے قطع کر دئے جائیں یا انہیں جلا وطن کیا جائے۔ یہ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں عذاب عظیم ہے۔
۲: دہشت گردانہ اقدامات سیاسی اہداف کے پیش نظر
سیاسی اہداف کی خاطر تشدد بھرے کام انجام دینے کی دو قسمیں ہیں:
الف: لوگوں کے خلاف دہشت گردانہ اقدامات کرنا
وہ افراد یا گروہ جو اپنے سیاسی اہداف کی خاطر مستقیم طور پر لوگوں کی جانوں، ان کے مال اور ناموس وغیرہ کو اپنے حملات کا شکار قرار دیتے ہیں اس طرح کے اقدامات کسی بھی مقصد کے تحت ہوں انسانی وجدان کی نگاہ میں مذموم ہیں اور ٹروریزم کا مصداق شمار ہوتے ہیں۔ اسلام میں حتی شرعی دفاع میں بے گناہ لوگوں کو قتل کرنا ، بھاگنے والوں کا پیچھا کرنا، اسیروں کو قتل کرنا، عورتوں بچوں کو مارنا، جنگلوں درختوں وغیرہ کو خراب کرنا فضا کو آلودہ کرنا بالکل جائز نہیں سمجھا جاتا۔ حدیثوں اور تاریخوں کی کتابوں میں اس طرح کے غیر انسانی امور کو انجام دینا حتی شرعی دفاع میں بھی جائز نہیں ہے۔
یہاں پر اس سلسلے میں چند حدیثوں کو نمونہ کے طور پر نقل کرتے ہیں:
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: پیغمبر گرامی اسلام جب کسی لشکر کو جنگ کے لیے بھیجنا چاہتے تھے تو اسے بلاتے تھے اور اپنے سامنے بٹھا کر فرماتے تھے: خدا کے ساتھ، خدا کے لیے اور خدا کی راہ میں اس سفر کا آغاز کریں۔ دھوکہ اور مکر و فریب سے دور رہیں کسی کو مثلہ نہ کریں بوڑھوں بچوں اور عورتوں سے چھیڑ چھاڑ نہ کریں کسی درخت کو نہ کاٹیں مگر مجبوری کی حالت میں۔(۶۲)
امام صادق علیہ السلام نے امام علی علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مشرکین کی زمینوں میں زہر ڈالنےسے منع کرتے تھے۔(۶۳)
حضرت علی علیہ السلام نے جنگ صفین میں اپنے لشکر والوں کو ہدایات کرتے ہوئے فرمایا: ہر گز دشمن کے ساتھ جنگ کو پہلے شروع نہ کرنا جب تک کہ وہ شروع نہ کریں۔ بھاگنے والوں کو قتل نہ کریں زخمیوں کو رہا کر دیں کسی عورت کی حرمت پامال نہ کریں کسی کو مثلہ نہ کریں۔ ان کے گھروں میں داخل نہ ہوں، عورتوں پر حملہ نہ کریں اور کسی کو گالیاں بھی نہ دیں۔ (۶۴)
اسی طریقے سے آپ اپنے اصحاب کو بچوں اور خواتین کے مزاحم ہونے سے منع کرتے تھے(۶۵) کسی کے اموال میں ہاتھ ڈالنے کسی کی ناموس میں ہاتھ ڈالنے (۶۶) کسانوں پر ظلم کرنے، بچوں کو اسیر بنانے (۶۸) زخمیوں پر حملہ کرنے (۶۹) جانوروں پر قبضہ کرنے ، پانی بند کرنے(۷۰) سے شدید منع کرتے تھے۔ اسی طریقہ سے پیغمبر اسلام کی منجملہ سفارشات اور ہدایات اپنے لشکر والوں کو یہ ہوا کرتی تھی: خدا کے عبادتگزاروں کو قتل نہ کرنا، (۷۱) مشرک تاجروں کو قتل نہ کرنا، (۷۲) ان کے سفیروں اور پیام لانے والوں کو قتل نہ کرنا(۷۳) جو گھر میں گھس کر بیٹھ جائے ان سے چھیڑ چھاڑ نہ کرنا، (۷۴) اسی طرح سے زمین بوس افراد، نوجوان اور زبردستی جنگ میں لائے گئے افراد کو قتل کرنے سے منع کرتے تھے۔(۷۵) نیز درختوں کو آگ لگانے اور کھیتوں کو اجاڑنے سے سخت منع کرتے تھے۔ (۷۶)
ب: حکومتوں کے خلاف ٹروریسٹی اقدامات
یہاں تک یہ واضح ہو گیا کہ ہر طرح کا دہشت گردانہ اقدام جو لوگوں کے جانی مالی نقصان کا باعث بنے اور ان کی عزت و آبرو کو صدمہ پہنچائےنیز بچوں و عورتوں کو اپنے حملے کی زد میں قرار دے ٹروریسٹی اقدام کہلاتا ہے اور اسلامی اور انسانی نکتہ نظر میں مذموم ہے۔
اب ہم اس بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں کہ جو اقدامات سیاسی اہداف کے پیش نظر کسی حکومت کو قائم کرنے یا کسی حکومت کی بنیادوں کو ہلانے کی خاطر انجام دئے جاتے ہیں ان کا کیا حکم ہے؟ اس طرح کے اقدامات میں ایک خاص گروہ مد نظر ہوا کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بے گناہ افراد کی جانیں بھی جاتی ہیں۔
اس طرح کے دھشت گردانہ حملات کے بارے میں اختلاف نظر ہے ہر ملک اور صاحب نظر اپنے عقیدہ اور فکر و نظر کی بنیاد پر ان کے بارے میں قضاوت کرتا ہے ایک گروہ انہیں ٹروریسٹی حملات کا نام دیتا ہے اور دوسرا انہیں آزادی کی راہ میں جہاد کا نام دے کر جائز اور مشروع دفاع قرار دیتا ہے۔
مشروع اور جائز دفاع کے بارے میں مفصل طریقے سے گفتگو کر چکے ہیں یہاں پر گفتگو صرف اس سلسلے میں ہے کہ وہ دھشت گردانہ حملات جو سیاسی مقاصد کے تحت حکومتوں کے خلاف جائز دفاع کے عنوان سے انجام دئے جاتے ہیں اسلامی فقہ کی نگاہ میں قابل مذمت اور ناجائز اقدامات ہیں۔ جو لوگ اس طرح کے کام انجام دینے میں سرگرم ہیں باغی یا بغاۃ کے عنوان سے پہچانے جاتے ہیں اس بنا پر اس طرح کے اقدامات فقہ کی نظر میں بغاوت کے مصادیق میں سے ہیں۔
شیخ طوسی بغات کی تعریف میں لکھتے ہیں :
جو شخص امام عادل پر خروج کرے اور اس کی بیعت کو توڑے اور حاکم کے حکم کی مخالفت کرے باغی ہے اور حاکم پر جائز ہے کہ اس کے ساتھ جنگ کرے۔(۷۷)
سید مرتضی (۷۸)، ابن براج(۷۹) راوندی (۸۰)، ابن حمزہ (۸۱) کیذری (۸۲) ابن ادریس(۸۳)، محقق حلی(۸۴)، یحییٰ بن سعید حلی(۸۵) علامہ حلی(۸۶)اور شہید اول (۸۷) نے بھی شیخ طوسی کی تعریف کے مشابہ تعریف بیان کی ہے۔اور لفظ، بغی، باغی اور بغات کا مفہوم سورہ حجرات کی نویں آیت سے اخذ کیا ہے۔
خدا وند عالم فرماتا ہے:
وان طائفتان من المؤمنين اقتتلوا فاصلحوا بينهما فان بغت احداهما علي الاخري فقاتلوا التي تبغي حتي تفي إلي امرأ الله فان فائت فاصلحوا بينهما بالعدل و اقسطوا ان الله يحب المقسطين»(۸۸)
اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں جنگ کریں تو تم ان کے درمیان صلح کرواؤ اور اگر ان میں سے ایک دوسرے کے خلاف ظلم سے کام لے اس گروہ کے ساتھ جو ظلم کر رہا ہے جنگ کرو تا کہ خدا کے حکم کی طرف پلٹ جائے پس اگر وہ پلٹ آئے تو اس گروہ کے درمیان عادلانہ قضاوت کرو اور عدالت سے کام لو کہ خدا عادل افراد کو دوست رکھتا ہے۔
خدا وند عالم مسلمانوں کے اندرونی اختلافات کے مقابلے میں مومنین کی ذمہ داریوں کو اس طریقہ سے بیان کرتا ہے:
الف: دونوں پارٹیوں میں صلح کروانا۔
ب: تجاوز کرنے والوں کے ساتھ جنگ کرنا۔
ج: عادلانہ طریقہ سے قضاوت اور فیصلہ کرنا۔
یہ آیت مومنین کے آپس میں اختلاف کے بارے میں ہے خدا وند عالم مذکورہ آیت میں فرماتا ہے اگر مومنین کا ایک گروہ دوسرے پر ظلم اور تعدی کرے تو وہ ظالم اور باغی ہے اس کے ساتھ جنگ کرو یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف پلٹ آئے۔
فقہاء ان لوگوں کو جو عادل امام کی حکومت پر خروج کرتے ہیں اور ٹروریسٹی اقدامات انجام دیتے ہیں انہیں مومنین پر ظلم اور تعدی کرنے کی وجہ سے باغی ہونے کے عنوان سے پہچنواتے ہیں۔
مرحوم کاشف الغطاء لکھتے ہیں: جو شخص امام علیہ السلام یا ان کے نائب عام و خاص پر خروج کرے اور ان کی اطاعت سے بغاوت کرے اسے بغات کا جزء شمار کیا جائے گا۔(۸۹)
نتیجہ
مذکروہ گفتگو سے واضح ہو گیا ہے کہ اسلام ہر گز دھشتگردی کی حمایت نہیں کرتا ۔ فقہ شیعہ میں ٹروریسٹ اور دھشتگرد اپنے جرم کے اعتبار سے سزا کا مستحق ہے۔ جیسا اس نے فعل انجام دیا ہو گا ویسی اس کو سزا ملے گی اگر اس نے اسلحہ دکھا کر کسی کو ڈرایا دھمکایا ہے تو اس کی سزا اسی حد تک ملے گی اگر اس نے کسی کو زخم لگایا ہے اور کسی پر اسلحہ کھینچا ہے اس کی سزا بھی فقہ اسلامی میں معین ہے جبکہ اگر اس نے کسی کا قتل کیا ہے تو اسے قصاص کیا جائے گا۔ یہ تمام فقہی احکامات اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ اسلام کسی بھی طرح کے دھشتگردانہ اقدامات کی حمایت نہیں کرتا بلکہ اس کے برخلاف ان کی شدید مذمت کرتا ہے۔ اسلام میں صرف دفاع واجب ہے اور دفاع نہ صرف اسلامی رو بلکہ عقلی رو سے ہر انسان پر واجب ہے اس میں مسلمان اور غیر مسلمان کی کوئی قید نہیں ہے۔ ایسے میں اسلام کے دامن پر دھشتگردی کا دھبہ لگانا اور اسے دھشتگردی کا مذہب کہنا انتہائی بے انصافی ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جو لوگ دین مبین اسلام پر یہ الزام عائد کرتے ہیں وہ اسلام کو مسلمانوں کے کردار میں دیکھتے ہیں نہ کہ اسلامی تعلیمات کے مطالعہ سے اسلام کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ واضح ہے کہ کسی بھی مذہب کے پیروکار صددرصد اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں ہوتے بلکہ ان میں بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کو بھی دین کے نام پر رواج دے دیتے ہیں حالانکہ سچا دین ممکن ہے ان کے کسی ایک عمل میں بھی ٹھیک سے نمایاں نہ ہو۔ لہذا ان مسلمانوں کا کردار دیکھ کر جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کو بدنام اور اسلامی اعلی مقاصد کو پامال کرنے پر تلے ہوئے ہیں ہر گز یہ فیصلہ نہیں کر لینا چاہیے کہ اسلام یہی ہے جو ان کا کردار بتلا رہا ہے بلکہ مزید تحقیق اور جستجو کرنے کی ضرورت ہے۔ ممکن ہے ان افراد کے پیچھے اسلام دشمن عناصر ہوں جو ان سے اس طرح کے اقدامات کر وا کر اسلام کو بدنام کروانا چاہتے ہوں تاکہ دوسرے مذاہب کے ماننے والے اسلام سے متنفر ہو جائیں اور اسلام کے قریب نہ آئیں۔حقیقی اسلام کو پہچاننا ہے تو ان افراد کے کردار میں جھانک کر دیکھو جن کا عمل اسلامی تعلیمات کا حصہ بن گیا ، جو حقیقت میں وارث اسلام ہیں اور وہ صرف ائمہ اطہار علیہم السلام ہیں یا پھر وہ علماء اور صلحا جنہوں نے اپنی زندگیوں کو ترویج و تشریح اسلام کے لیے وقف کر دیا۔
حوالہ جات
Terror:1
Terrorism:2
Terrorist:3
:4دكتر عباس آريانپور، فرهنگ كامل انگليسي، فارسي، ج5،ص5709؛ مصطفي مصباح دباره، الارهاب، منشورات جامعه بتغازي، ليبي، الطبعه الاولي 1990، ص 44؛ علي آقا بخشي، فرهنگ علوم سياسي، نشر چاپار، 1379، ش، ص 563؛ محمد حسين شاملو احمدي، فرهنگ اصطلاحات و عناوين جزايي، اصفهان، نشر داديار،ج1،ص130.
Dona.M.Schlaghech, op.cit, p.120:5
U.N.GADR/46 Sess.Sup.mo.10at 238-6 240un.Doc.A/46/10″1991″.:7
8:فرهنگ اصطلاحات و عناوين جزائي، ص 131.
9:آندرو بوسا، بزهكاري بين المللي، ترجمه نگار رخشائي، انتشارات گنج دانش، ص 20.
10:فرهنگ اصطلاحات و عناوين جزايي،ج1،ص1380.
11:وہی
12:الارهاب، ص 44.
13:فرهنگ علوم سياسي، ص 584.
14:ر.ك:ژرژدل و كيو؛ تاريخ فلسفه حقوق، ترجمه دكتر جواد واحدي، ص 68؛ ناصر كاتوزيان، فلسفه حقوق، انتشارات بهنشر، 1365ش،ج1،ص92.
15:ر.ك به اصول 47،40،36،32،22،19قانون اساسي.
16:ماده 61 مجازات اسلامي؛جو شخص اپنی جان مال ناموس عزت آبرو سے دفاع کےمقام پر یا اپنی آزادی یا دوسری آزادی کی خاطر موجودہ یا قریب الوقوع تجاوز کے مقابلہ میں کو کام انجام دے کہ جو جرم ہو درج ذیل شرائط کی صورت میں وہ سزا کا مستحق نہیں ہو گا:
الف) دفاع تجاوز اور خطرے کے ساتھ تناسب رکھتا ہو۔
ب)دفاعی عمل حد سے زیادہ نہ ہو۔
ج) وقت فوت ہونے سے پہلے مربوطہ حکومتی ادارے کو با خبر کیا ہو۔
17:ماده 51 منشور:اقوام متحدہ کے عضو کے خلاف مسلحانہ حملے کے واقع ہونے کی صورت میں جب تک کہ سلامتی کونسل اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کرتی اس کو کسی طرح کا جانی یا مالی صدمہ پہنچانے کا کسی کو حق حاصل نہیں ہے۔ ۔۔۔ علي اكبر خسروي، حقوق بين الملل و دفاع مشروع، موسسه فرهنگي آفرينه، 1373ش،ص133.
18:شرايع الاسلام، دارالهدي، ج1-4، ص 966.
19:الروضه البهيه في شرح اللمعه الدمشقيه، بيروت، دارالعالم الاسلامي، ج9، ص 348.
20:جواهر الكلام،بيروت، دار احياء التراث العربي، ج41، ص 651.
21:شيخ جعفر كاشف الغطاء، كشف الغطاء، مركز النشرالتابع المكتب الاعلام الاسلامي، ج4، ص 288.
22:فريده محمد علي پور، دفاع مشروع در حقوق بين الملل، دفتر مطالعات سياسي و بين المللي، تهران 1379، ص 55.
23:مانند قطنامه 378 مجمع عمومي در سال 1950م با عنوان «وظايف دولت ها در صورت بروز مخاصمات”.( حکومتوں کی ذمہ داریاں اختلافات ظاہرہونے کی صورت میں) .
24:ماده 1 قطعنامه تعريف تجاوز. قطعنامه شماره 2314 مورخ 14 دسامبر 1974 م اس قطنامه کے مادہ 8 میں تجاوز کی تعریف ، متجاوز کی پہچان، تجاوز کی اقسام، اور تجاوز کے آثار بیان ہوئے ہیں۔
25:اس کی مشہور مثال سوئیت ریپبلیکس یونین کا ۱۹۳۳ میں خلع سلاح ہونا ہے
26:جیسے وہ منصوبے جو۱۹۵۱ تیسرے بین الاقوامی اجلاس میں پیس کئے گئے۔
27:جیسے اٹلی کا حبشہ پر حملہ یا سوئیٹ کا فولینڈ پر حملہ ، دفاع مشروع در حقوق بين الملل، ص 57.
28:كشف الغطاء، ج4، ص 288.
29:كشف الغطاء، ج4، ص 292.
30:محمد شفيعي، بررسي مشروعيت دخالت هاي نظامي بشر دوستانه از نگاه حقوق بين الملل، مجله حقوقي، شماره 20، ص 371.
31:شرايع الاسلام، ج 1-4، ص 966.
32:در ماده 61 قانون مجازات اسلامي آمده است
ICJ.Reports, 1996, para.30:33
به نقل از دفاع مشروع در حقوق بين الملل، ص 100.
34:الروضه البهيه في شرح اللعمه الدمشقيه،ج9،ص350.
35:جواهر الكلام، ج 41، ص656، شرايع الاسلام، ج 1-4،ص967.
36:محاربہ اور اس کے فقہی احکام اور فروعات کے بارے میں ایک مفصل گفتگو کی ضرورت ہے یہاں پر اس مختصر سے مقابلہ میں اس کوبیان کرنے کی گنجائش نہیں پائی جاتی۔ انشاء اللہ کسی دوسرے مقام پر اس کے بارے میں تفصیل سے گفتگو کی جائے گی
37:تاج العروس،ج1،ص204؛ لسان العرب، بيروت، دار احياء التراث العربي، ج3،ص99؛ القاموس المحيط، بيروت، دارالجيل، ج1، ص54؛ معجم مفردات الفاظ القرآن، المكتبه المرتضويه، ص 110.
38:سوره مائده(5) آيه 33 و 34؛ سوره بقره (2) آيات 278، 279؛ سوره انفال (8) آيات 57 و 58، سوره توبه (9)آيه107؛ سوره محمد(47)آيه 4.
39:شرايع الاسلام، ج4، ص 180.
40:المقنعه، ص 804.
41:المبسوط ، ج8، ص 47، كتاب الخلاف، دارالكتب العلميه، ح3، ص209.
42:فقه القرآن، ج2،ص378.
43:السرائر، ج3،ص 505.
44:الوسيله، ص 206.
45:تبصره المتعلمين، ص 190.
46:تحريرالاحكام، ج2،ص322.
47:الارشاد،ج2،ص185.
48:قواعد الاحكام،ج2،ص272.
49:ايضاح الفوائد، ج4، ص 542.
50:الدروس الشرعيه،ج2،ص59.
51:الروضةالبهيه،ج9،ص290.
52:جواهرالكلام، ح41،ص564.
53:تحريرالوسيله،ج2،ص442.
:54 الروضةالبهيه،ج9،ص290.
55:شرايع الاسلام، بيروت، دارالاضواء، ج4، ص180؛ جواهرالكلام،ج41،ص46.
56:عن محمدبن مسلم عن ابي جعفر-عليه السلام-قال: من شهر السلاح في مصر من الامصار فعقر اقتص منه و تفي من تلك البلد، و من شهر السلاح في مصر من الامصار و ضرب و عقر و اخذ المال و لم يقتل فهو محارب فجزائه جزاء المحارب… وسائل الشيعه، ج18،ص532.
57:عن ضدبس، عن ابي جعفر -عليه السلام- قال: من حمل السلاح بالليل فهو محارب الا ان يكون رجلا ليس من اهل اتريبه. وسائل الشيعه، ج18، ص 537.
58:وسائل الشيعه،ج18، ص 534.
59:وہی ،ج18،ص534.
60:وہی،ج18،ص535.
61:سوره مائده(5) آيه 33. اس آیت میں دو عنوان ذکر ہوئے ہیں: «محارب» و «مفسد». کیا یہ دو عنوان ایک دوسرے سے مستقل ہیں یا نہیں؟ فقہا اور مفسرین کے درمیان محل اختلاف ہے.
62:عن ابي عبدالله -عليه السلام- قال: كان رسول الله -صلي الله عليه و آله وسلم) إذا اراد ان يبعث سريه دعاهم فاجلسهم بين يديه ثم يقول: سيروا بسم الله و بالله و في سبيل الله، لا تغلو و لا تمثلوا و لا تغدروا؛ و لا تقتلوا شيخا فاينا و لا صبيا و لا امراه و لاتقطعوا شجرا الا ان تضطروا اليها. الفروع من الكافي، بيروت، دار صعب،ج5،ص27.
63:نهي رسول الله ان يلفي السم في بلاد المشركين».وہی.
64:لا تبووا القوم بقتال حتي يبدوكم. و لا تقتلوا مدبرا و لا تجهزوا علي صريح و لا انهتكوا عوره و لا تمتلوا و لا تدخلوا رجال القوم و لا تهيجوا امرأه و لا تسبوا احدا. تذكره الخواص، ص 91.
65:المناقب، ابن شهر آشوب.
66:الكامل في التاريخ، ج3،ص293.
67:بحارالانوار، بيروت،ج97،ص33.
68:الفروع من الكافي، ج5،ص12.
69:تاريخ طبري،ج6، ص 3282.
70:تاريخ يعقوبي، ج2،ص200.
71:سنن بيهقي،ج 9،ص90.
72:وہی.
73:بحارالانوار، بيروت،ج97،ص31.
74:فتوح البلدان، ص 53.
75:المصنف،ج5،ص200.
76:سنن النبي، ص 85.
77:النهايه في مجرد الفقه و الفتاوي، ج9،ص53.
78:الانتصار،ص19،بہ نقل از مجموعه سلسله الينابيع الفقيه، ج9.
79:المهذب، ص101،به نقل از مجموعه سلسله الينابيع الفقيه، ج9.
80:فقه القرآن، ص137،به نقل از مجموعه سلسله الينابيع الفقيه، ج9.
:81الوسيله،ص163،به نقل از مجموعه سلسله الينابيع الفقيه، ج9.
:82اصباح الشيعه،ص169،به نقل از مجموعه سلسله الينابيع الفقيه، ج9.
;83السرائر،ص183،به نقل از مجموعه سلسله الينابيع الفقيه، ج9.
84:شرايع الاسلام،ص216،به نقل از مجموعه سلسله الينابيع الفقيه، ج9.
85:الجامع للشرايع،ص238،به نقل از مجموعه سلسله الينابيع الفقيه، ج9.
86:قواعدالاحكام،ص245،به نقل از مجموعه سلسله الينابيع الفقيه، ج9.
87:اللمعه الدمشقيه، ص275،به نقل از مجموعه سلسله الينابيع الفقيه، ج9.
88:سوره حجرات (49)آيه 9.
89:كشف الغطاء، قم، انتشارات دفتر تبليغات اسلامي،ج4،ص367.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

تبصرے
Loading...