نماز کو قائم کرنا پڑھنے سے زيادہ اہميت ک حامل ہے

لوگوں نے بيان کيا ہے کہ دنيا ميں جتنے آئين اور جتنے لوگ ہيں، ہر ملت کي نماز ان کے نظريے کا خلاصہ ہوتي ہے چنانچہ اس بيان کے مطابق ہم کہہ سکتے ہيں کہ نماز بھي ايسي ہي ہے اور اسلام نے جو نماز مقرر کي ہے اس ميں روح و جسم ۔۔۔۔ماديت و روحانيت ( معنويت) ۔۔۔۔ اور دنيا و آخرت ۔۔۔۔۔ کو يکجا کرديا گيا ہے۔ يہ نماز کي عظيم الشان خوبيان ہيں جو اسلام نے بيان کي ہيں۔ يہي وجہ ہے کہ جب ايک مسلمان نماز اد اکرتا ہے تو وہ اپني تمام ( مادي و روحاني) طاقتوں اور قوتوں کو اپنے وجود کے کمال کے لئے استعمال کرتا ہے يعني وہ بيک وقت اپني جسماني ۔۔۔ فکري ۔۔۔۔ اور روحي قوتوں کو اپنے کمال و ارتقائ کے لئے استعمال کرتا ہے۔ 

نماز پڑھنے والا اس دليل کي وجہ سے۔۔۔ اپني تمام ( مادي و روحاني) صلاحيتوں اور قوتوں کے ساتھ خدائي راستے پر قدم بڑھاتا ہے ۔۔۔۔ اور اپنے وجود ميں سر اٹھانے والے شر کے جذبات ۔۔۔۔۔ فساد کے ميلانات اور انحرافات کا مشاہدہ کرتا ہے تو نماز کے ذريعے سے ان کو ترک کرتا جاتا ہے چنانچہ قرآن ميں کئي مقامات پر نماز کو قائم کرنے کو کہا گيا ہے اور يہي دينداري کي پہچان اور علامت ہے اور اسي وجہ سے ہماري يہ خيال ہوتا ہے کہ نماز کو قائم کرنا نماز کو پڑھنے سے زيادہ اہميت والا ہے يعني آيات قرآني ميں جس کثرت کے ساتھ نماز کو قائم کرنے کا حکم آيا ہے اس کا مطلب فقط يہ نہيں ہے کہ ايک شخص صر ف( ظاہري صورت اور آداب کے ساتھ) نماز پڑھ لے بلکہ حقيقتاً نماز کو قائم کرنے کا مقصد يہ ہے کہ نماز ہميں جس سمت لے جانا چاہتي ہے ہم اسي سمت پيش قدمي کريں۔۔۔۔ جس منزل کي طرف ہماري توجہ مبذول کرانا چاہتي ہے ہم اس کے لئے بھرپور توجہ کريں ۔۔۔۔ اور جن اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے آمادہ کرتي ہے ہم ان کے حصول کے لئے جدوجہد کريں يعني ہم نيک صفات اور تمام خير و خوبيوں کو حاصل کرنے کا عہد کريں جن کا خلاصہ نماز ہے يا دوسرے الفاظ ميں ياد خدا اور اسلام کے بيان کردہ تمام مقاصد ہمارے دل ميں قيام کريں اور يہ دوسروں کي زندگي ميں قيام کريں۔ ہم بھي اسلام کے مقرر کردہ ہدف و مقصد کے حصول کے لئے جدوجہد کريں اور دوسرے بھي انہي مقاصد کے حصول کے لئے کوشاں رہيں۔ 

گويا نماز کو قائم کرنے سے مراد يہ ہے کہ انسان اپني کوشش کے ذريعے اپنے ماحول اور زندگي کي فضا کو ايسا بنائے کہ جيسا نما زہم سے تقاضا کرتي ہے يعني سب خدا کي تلاش و توجہ ميں ہمہ وقت کوشاں ہوں، خدا پرست ہوں اور اس سمت اور اس راستے پر حرکت کريں کہ جس سمت اور جس راہ پر نما ز ہميں لے جانا چاہتي ہے۔ 

پس ايک مومن ہو يا مومنين کا گروہ۔۔۔۔۔ نماز کو قائم کرکے اپني تباہي ، گناہ کي طرف توجہات و ميلانات اور فساد کي تمام کيفيات کو اپني ذات سے ختم کرديتا ہے اور نہ صرف اپني ذات کو ان سے پاک کرتا ہے بلکہ اپنے ماحول اور معاشرے کو بھي پاک کرتا ہے۔ 

يعني ايک گروہ جب نماز قائم کرتا ہے تو اس کا مطلب يہ ہوتا ہے کہ وہ خود کو تباہي و بربادي سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ 

نماز ان تمام کيفيات کو ۔۔۔ جو انسان کو اس کے مقصد و ہدف سے انحراف و بغاوت پر اکساتي ہيں ۔۔۔۔ ختم کرديتي ہے، ہمارے گناہوں کو جلاديتي ہے ، نماز ہي ہمارے اندروني و بيروني جوش و جذبات کے طوفان کو پرسکون کرديتي ہے اور نفس کے ان عوامل کو ۔۔۔۔ خواہ شخصي و فردي ہوں يا اجتماعي ۔۔۔ بے جان کرديتي ہے ۔ حقيقت يہ ہے کہ نماز فرد واحد کي اصلاح کے ساتھ ساتھ ايک معاشرے کو بيہودہ اور ناپسنديدہ اعمال سے روکنے کا ذريعہ ہے۔ 

تبصرے
Loading...