نجات کا راستہ

”جن کی آنکھوں کے سامنے جنت اور دوزخ ہوں (اوروہ کامل طور سے اُن پر بھی ایمان رکھتا ہو اُن کاموں سے دور رہتا ہے جو اُس دنیا (آخرت) میں کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے)، اور وہ شدّت کے ساتھ اس مستقبل کی فکر میں کھویا ہوا ہے جو اُسے درپیش ہے 

امام علیہ السلام اپنی بیعت کے بعد بازار امتحان کے گرم ہونے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے لوگوں کو حق وباطل وتقویٰ اورگناہ سے متنبہ کرتے ہیں ، آپ(علیه السلام) اپنے اس کلام کے حصّے میں ہوا وہوس کے چنگل سے نجات کے راستوں کو پہچنوا رہے ہیں اور منزل سعادت تک پہنچے کے راستے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جامع بیانات کے پیرایہ میں مہم مطالب بیان کررہے ہیں ۔

سب سے پہلے سعادت ونجات کے راستہ پر چلنے والے لوگوں کو تین گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں لہٰذا حضرت(علیه السلام) فرماتے ہیں: ”جن کی آنکھوں کے سامنے جنت اور دوزخ ہوں (اوروہ کامل طور سے اُن پر بھی ایمان رکھتا ہو اُن کاموں سے دور رہتا ہے جو اُس دنیا (آخرت) میں کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے)، اور وہ شدّت کے ساتھ اس مستقبل کی فکر میں کھویا ہوا ہے جو اُسے درپیش ہے (اور اس پر چلنے والوں کے تین گروہ ہیں:) ۔

وہ گروہ جو زیادہ کوشش کرتا ہے اور تیزی کے ساتھ آگے بڑھتا ہے، وہ اہلِ نجات ہے، ایک گروہ وہ ہے جو سست رفتار ہے ؛ وہ بھی نجات کا اُمید وار رہتا ہے؛ لیکن وہ گروہ جو کوتاہی کرتا ہے اور اس راہ میں مقصِّر ہے (بدبختی کی وادی اور جہنم کی آگ میں) گرجائے گا“(شُغِلَ مَنِ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ اَمَامَہُ! سَاعٍ سَرِیْعٌ نَجَا، وَطَالِبٌ بَطِیٴءٌ رَجَا، وَمُقَصَّرٌ فِی النَّارِ ھَویٰ) ۔

بعض شارحین کے عقیدہ میں یہ تین گروہ وہی ہیں جن کی طرف قرآن مجید کے سورہٴ فاطر میں اشارہ ہواہے: ” ثُمَّ اٴَوْرَثْنَا الْکِتَابَ الَّذِینَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْھُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِہِ وَمِنْھُمْ مُقْتَصِدٌ وَمِنْھُمْ سَابِقٌ بِالْخَیْرَاتِ بِإِذْنِ اللهِ؛ پھر ہم نے اس (آسمانی) کتاب کا اپنے منتخب بندوں کو وارث بنایا؛ ÷

بندوں میں سے بعض نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا اور ان میں سے کچھ میانہ رو تھے اور ایک گروہ نے خدا کے اذن سے نیکیوں کی طرف بڑھنے میں (سب پر) سبقت حاصل کی“(۱)

اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے: یہ سورہٴ واقعہ کے تین گروہوں کی طرف اشارہ ہیں: ”وَکُنتُمْ اٴَزْوَاجًا ثَلَاثَةً، فَاٴَصْحَابُ الْمَیْمَنَةِ مَا اٴَصْحَابُ الْمَیْمَنَةِ، وَاٴَصْحَابُ الْمَشْاٴَمَةِ مَا اٴَصْحَابُ الْمَشْاٴَمَةِ، وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ، اٴُوْلٰئِکَ الْمُقَرَّبُونَ ؛“تم تین گروہوں میں بٹ جاوٴگے، سعادت مند اور بابرکت، کتنے سعادتمند اور بابرکت! (دوسراگروہ) شقاوتمند اور نحس، کتنے شقاوتمند اورنحس! (تیسرا گروہ) آگے بڑھنے والے آگے بڑھنے والے ہیں اور وہی مقرب ہیں“(۲) ۔

بہرحال انسانی معاشرہ میں ہمیشہ سے یہ تینوں گروہ رہے ہیں اور جب امتحانات کا بازار گرم ہوتا ہے (جیسے حضرت علی علیہ السلام کے زمانہ خلافت میں ) تو ان گروہوں کو پہنچاننا آسان ہوجاتا ہے، کچھ لوگ (خواہ کتنے ہی کم ہوں) کسی شک وتردید اور لغزش کے بغیر راہ حق پر گامزن ہوکر تیزی کے ساتھ مقصد کی طرف بڑھ جاتے ہیں، ایک گروہ وہ ہے جس کا ایمان ضعیف ہوتا ہے کبھی شک وتردید اور کبھی اطمینان خاطر کے ساتھ رگڑتے اور لنگڑاتے ہوئے قدم اٹھاکر آگے بڑھتا ہے، اعمال صالحہ وغیر صالحہ کو آپس میں ملادیتا ہے، لیکن اُمید رکھتا ہے کہ خدا کا دستِ کرم اُن کے ہاتھ کو پکڑلے، آخرکار مقصد تک پہنچ ہی جاتا ہے؛ لیکن تیسرا گروہ وُہ ہے جس کے اوپر ہوائے نفس غالب آجاتی ہے، ایمان اور تقویٰ کو الوداع کہہ دیتا ہے اور غلط راستہ میں سرگرداں ہوکر بدبختیوں کی گھاٹیوں میں گرجاتا ہے ۔

۱۔ سورہٴ فاطر، آیت۳۲․

۲۔ سورہٴ واقعہ، آیت۷۔۱۱․

اس جملے سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ فقط قیامت کے اوپر ایمان ہی انسان کو گناہ وفساد سے محفوظ رکھ سکتا ہے؛ جس قدر بھی یہ ایمان قوی ہوگا اُسے محفوظ رکھنے والی طاقت کا اثر بھی اسی قدر ہوگا ۔

بہت سوں کا خیال ہے کہ جملہٴ خبریہ ”شُغِلَ مَنِ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ اَمَامَہُ“مقام انشاء میں ہے یعنی جو لوگ اپنے سامنے دوزخ اور جنت کو مجسّم دیکھتے ہیں؛ ان کو زرق وبرق دنیا اور ہوا و ہوس سے چشم پوشی کرنا چاہیے! لیکن مذکورہ بالا جملہ کی جملہٴ خبریہ کی صورت میں تشریح کرنے میں بھی کوئی مشکل نہیں ہے یعنی اس طرح کے مومنین ہوا وہوس سے چشم پوشی کریں گے ۔

پھر اس وضاحت کے بعد جو آپ(علیه السلام) نے مذکورہ بالا تین گروہوں کے بارے بیان فرمائی ہے لوگوں کو راہ راست پر چلنے، کج اور منحرف راستوں سے دوری اختیار کرنے نیز ان کی علامتوں کے ذکر کے ساتھ حق کی طرف دعوت دی ہے لہٰذا آپ(علیه السلام) فرماتے ہیں: ”داہنے اور بائیں گمراہی اور ضلالت ہے اور درمیانی اور سیدھا راستہ (الٰہی) شاہراہ ہے “ (اٴَلْیَمِیْنُ وَالشِّمَالُ مَضَلَّةٌ(۱)، وَالطَّرِیْقُ الْوُسْطیٰ ھِیَ الْجَادَّةُ)

یہ سخن اس مشہور قول کی طرف اشارہ ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ مقصد تک پہنچانے والا سیدھا راستہ ایک سے زیادہ نہیں ہوسکتا اور اس کے دونوں طرف ہزاروں انحرافی راہیں ہوتی ہیں جو انسان کو گمراہی کی طرف لے جاتی ہیں ۔

یمین اور شمال (دائیں اور بائیں) سے تعبیر کرنا ممکن ہے افراط وتفریط (بے جا زیادتی اور بے جاکمی) کی طرف اشارہ ہو کہ ایک گروہ افراط کے راستے پر چلے اور منزل مقصود اس کی دوسری طرف ہو اور ایک گروہ تفریط پر گامزن ہو اور ہرگز مقصد تک نہ پہنچے؛ یہ وہی ہے جسے قرآن مجید نے صراط مستقیم سے یاد کیا ہے، دوسری جگہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: ”وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ اٴُمَّةً وَسَطًا؛ ہم نے تمھیں درمیانی امت بنایا ہے (افراط وتفریط کے درمیان حد اعتدال) “(۲)

۱۔ ”مَضَلَّة“ (مفعلہ کے وزن پر ہے) بعض ار باب لغت کے قول کے مطابق ایک جگہ پر کسی چیز کی کثرت کو کہا جاتا ہے؛ لہٰذا یہاں پر مفہوم یہ ہو گا کہ داہنے اور بائیں طرف منحرف ہوجانا زیادہ گمراہیوں کا سبب ہوتا ہے ۔

۲۔ سورہ بقرہ، آیت۱۴۳․

اور جیسا کہ بزرگ علماء اخلاق نے کہا ہے کہ تمام صفات فضیلہ، رذیلہ صفتوں کے درمیان حدّ اعتدال کا نام ہے جبکہ صفات رذیلہ افراط یا تفریط کی طرف قرار پاتی ہیں اسی طرح انھوں نے تمام اخلاقی صفات کو اس تقسیم میں جمع کردیا ہے دوسرے لفظوں میں یہ وہی عدالتِ اخلاقی کا مسئلہ ہے جو انسان کو حد اعتدال اور درمیانی راہِ مستقیم پر ہر طرح کے انحرافی میلان سے دور رکھتا ہے ۔

بعض شارحین نہج البلاغہ نے طریق وسطیٰ کی، معصوم کی امامت وولایت سے تفسیر کی ہے کہ ان بزرگ ہستیوں کے سلسلے میں ہر طرح کا غلو اور افراط ، کوتاہی اور تقصیر گمراہی کا سبب ہوتی ہے؛ لیکن کوئی ممانعت نہیں کہ مذکورہ جملہ کا مفہوم اسقدر وسیع ہو جو مسئلہ ولایت اور تمام اعتقادی، عملی اور اخلاقی مسائل کو شامل ہوجائے ۔

خدا کی معرفت کے مسئلہ میں ایک گروہ تشبیہ کی وادی میں گرفتار ہوگیا اور خد اکو اس کی مخلوقات کی تشبیہ دینے لگا اور ایک گروہ تعطیل کے گڑھےمیں جاپڑا اور کہنے لگا خدا ایسا ہے کہ جس کی معرفت (اجمالی معرفت تک) پر کوئی قادر نہیں ہے لیکن حد وسط تعطیل اور تشبیہ کے درمیان ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا کو اس کے افعال سے پہنچانیں لیکن اس کی کُنہِ ذات سے بے خبر ہیں ۔

افعال عباد کے مسئلہ میں نہ راہ جبر صحیح ہے اور نہ راہ تفویض، بلکہ درمیانی راستہ، یعنی ”امرٌ بینَ الامرَین“ صحیح ہے اسی طرح ولایت کے سلسلے میں نہ غلو صحیح ہے اور نہ تقصیر، اخلاقیات اور اعمال میں بھی ایسا ہی ہے مثلاً بخل اور اسراف کی حد وسط انفاقہے ۔

عجیب بات تو یہ ہے کہ جو لوگ حضرت کی مخالفت پر اُتر گئے تھے وہ بھی ان گروہوں سے باہر نہ تھے ایک افراطی خوارج کا گروہ تھا اور دوسرا شامیوں کا تفریطی گروہ اور دونوں نے اس عظیم امام کو نہیں پہچانا تھا ۔

اس کے بعد آپ اس معتدل اور درمیانی راستہ کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”قرآن مجید الله کی ہمیشہ رہنے والی کتاب اور آثار نبوت اسی راستہ پر گامزن ہیں، اور پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم میں داخل ہونے کی جگہ یہی ہے اور امور کی بازگشت اسی کی طرف ہے“۔

”عَلَیھَا بَاقِی الْکِتَابِ“کی شرح کے سلسلے میں دو تفسیریں بیان ہوئی ہیں: پہلی تفسیریہ کہ قرآن مجید جو ایک زندہ وجاوید کتاب ہے اور تعلیمات، قوانین واحکام فقط اسی میں موجود ہیں اور اس کے علاوہ کسی اور جگہ نہی مل سکتے ہیں ۔

دوسری تفسیر یہ کہ خدا کی زندہ وجاوید کتاب سے مراد امام معصوم علیہ السلام کا وجود ہے جو کتاب خدا کا محافظ اور معروف ومشہور حدیث ثقلین کے مطابق ہمیشہ قرآن کے ساتھ تھا اور رہے گا، لیکن پہلے معنی زیادہ مناسب معلوم ہوتے ہیں خصوصاً آثار نبوت جس کا ذکر اس کے بعد ہوا ہے ”باقی ماندہ“ کی تشریح کے قابل ہے کہ وہ بھی اماموں کے پاس موجود ہیں ۔

یہاں پرکچھ دوسرے احتمالات بھی دیئے گئے ہیں جو بہت بعید ہیں ۔

”وَمِنھَا مَنْفَذُ السُّنَّةِ“کے جملہ سے مراد (اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ”منفذ“ کے معنی ”دریچہ، نور کے گزرنے کا راستہ، یا مطلقاً گزرنے کا راستہ ہیں) یہ ہے کہ سنت پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو حاصل کرنا اسی معتدل اور درمیانی راستہ سے امکان پذیر ہے اور اسی کے ذریعہ پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کے مضمون سے آشنا ہوا جاسکتا ہے، اس تشریح کی روشنی میں ان چاروں جملہ کا فرق واضح ہوجاتا ہے ۔

ابتداء میں مولافرماتے ہیں:خدا کی ہمیشہ زندہ رہنے والی کتاب اسی راستہ پر گامزن ہے، پھر فرماتے ہیں: نبوت کی نشانیاں اور آثار اور پیغمبر کا اعجاز بھی اسی راستہ پر ہے، اس کے بعد فرماتے ہیں: آنحضرت کی سنت اور آپ کی تعلیمات میں داخل ہونے کا راستہ یہی ہے، آخر کار فرماتے ہیں: منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے اسی راستہ کو استعمال کرنا ہوگا؛ جیسا کہ قرآن مجید اعلان کرتا ہے: ”وَالْعَاقِبَةُ لِلمُتَّقِین؛ نیک سرانجام پرہیزگاروں کے لئے ہے“(۱)

پھر مولا امیرالمومنین علیہ السلام امامت اور رہبری کے جھوٹے دعویداروں کی عاقبت کو بیان فرماتے ہیں اور ان کی حالت کو چار جملوں میں روشن کرتے ہیں ۔

لہٰذا فرماتے ہیں: ”جو شخص ناحق (امامت وولایت کا) دعویٰ کرے گا، ہلاک ہوجائے گا (کیونکہ وہ خود تو گمراہ ہے ہی دوسروں کو بھی گمراہی میں ڈال دے گا)“(ھَلَکَ مَنِ ادَّعیٰ) ۔

”اور وہ شخص جو خدا اور پیغمبر پر جھوٹ باندھتے ہوئے ایسے مقام کو طلب کرے گا، محروم رہے گا اور کسی بھی جگہ نہیں پہنچ پائے گا“ (وَخَابَ(۲) مَنِ افْتَریٰ) ۔

”اور وہ شخص جو (باطل دعووں کے ساتھ) حق کے آڑے آئے گا اور اس کے مقابل جھنڈا کھڑا کر ے گا ہلاک ہوجائے گا!“ (مَنْ اَبْدی صَفْحَتَہُ(۲) لِلْحَقِّ ھَلَکَ)

اور انسان کی جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنی قدر کو نہ پہچانے! (چادر سے زیادہ پاوٴں پھیلائے اور اس مقام کا دعویٰ کرے جو اس کے لئے مناسب نہیں ہے ۔)“ (وَکَفیٰ بِالْمَرْءِ جَھْلاً اَلَّا یَعْرِفَ قَدْرَہُ) ۔

۱۔ سورہٴ اعراف، آیت۱۲۸․

۲۔ ”خاب“ کا مادہ ”خیبة“ ہے اور اس کے معنی بے فائدہ اور محروم ہونا ہے؛ اسی وجہ سے آگ جلانے اور پتھر کو ”خیاب“ کہتے اور یہاں پر”خاب“ کے معنی محروم اور بے نتیجہ ہونے کے ہیں ۔

۳۔ ”صفحہ“ اصل میں ہر چیز کی چوڑائی کو کہتے ہیں اور کبھی کبھی صفحہ کے معنی صورت کے بھی ہوتے ہیں اور ”مصافحہ“ یعنی (ہاتھ کی ہتھیلیوں) کے صفحہ کو ایک دوسرے کو دینا ۔

یہاں پر یہ احتمال بھی دیا جاسکتا ہے کہ مذکورہ بالا جملے فقط امامت کے تناظر میں نہ ہوں کیونکہ یہ خطبہ اسی پر ناظر ہے؛ بلکہ اس کے معنی اس سے زیادہ وسیع ہوں جس میں ہر طرح کے جھوٹے دعوے چاہے وہ امامت کے ہوں یا کسی اور چیز کے سب شامل ہیں، حقیقت میں یہ باطل دعویداروں کو ایک دھمکی ہے کہ یہ بہت خطرناک اور باعث ہلاکت و شقاوت اور اس بدبختی کا راستہ ہے جو انسان کی اپنی قدر ومنزلت کے نہ پہچاننے سے پیدا ہوتی ہے لہٰذا اس راستے پر نہ چلیں ۔

بعض شارحین نہج البلاغہ نے ”مَنْ اَبْدی صَفْحَتَہُ لِلْحَقِّ ھَلَکَ“ کی ایک اور دوسری تفسیر ذکر کی ہے اور وہ یہ ہے کہ جو کوئی، نادان لوگوں کے درمیان حق کے دفاع کے لئے کھڑا ہو اور اس کی حمایت میں جھنڈا بلند کرے، اپنے آپ کو خطرے میں ڈال دے گا اور جاہلوں کے غیض وغضب کا نشانہ بن جائے گا ۔

اگرچہ حقیقت یہ ہی ہے لیکن مذکورہ جملہ کی تفسیر نہیں ہوسکتی کیونکہ نہ ہی تو اس سے پہلے والے جملوں سے کہ جن میں باطل دعویداروں کا تذکرہ ہے، سازگار ہے اور نہ ہی بعد کے جملہ سے جس میں نادان اور جاہل لوگوں کی قدر ومنزلت کے بارے می گفتگو ہے، مناسب ہے ۔

آخر کار امام علیہ السلام اپنی گفتگو کے آخر میں امامت وحکومت سے مربوط مسائل کے سلسلے میں کہ جو گذشتہ حصّے میں بیان ہوئے ہیں، سب لوگوں کو کچھ نصیحتیں دیتے ہیں کہ اگر وہ اس پر عمل کریں گے تو نفاق، باطل دعویداروں اور پروپیکنڈہ کرنے والوں کے چنگل سے رہائی پاجائیں گے ۔

پہلے آپ(علیه السلام) تقویٰ وپرہیزگاری کی دعوت دیتے ہوئے کہ جو صحیح وسالم تحریک اور پاک وپاکیزہ عمل کی بنیاد ہے، فرماتے ہیں: ”وہ درخت جو تقویٰ کی زمین میں لگایا جائے گا کبھی بھی نابود نہیں ہوگا اور جو بیج تقویٰ کی زمین میں چھڑکا جائے گا کبھی پیاسا نہ رہے گا!“۔

( لَایَھْلِکُ عَلَی التَّقْویٰ سِنْخُ(۱) اٴصْلٍ وَلَایَظْمَاٴُ عَلَیہَا زَرْعُ قَومٍ)

حقیقت میں امام علیہ السلام اپنی اس پُر معنی گفتگو میں تقویٰ کو آمادہ، زرخیز اور پانی سے بھری زمین سے تشبیہ کرتے ہیں نہ تو اس میں درختوں کی جڑیں خشک ہوتی ہیں اور نہ ہی اس میں بیج اور کھیتی پیاس سے مرتے ہیں؛ ایسی مٹی جو زرخیز بھی ہے اور نرم بھی، اس میں پانی سے بھری نہریں بھی ہیں کہ جو انسان کے اعمال صالحہ کے گل وگیاہ، میووں اور فضائل کی پرورش کے لئے پوری طور سے تیار ہے، حقیقت میں اعمال، بیج وبذر کے مانند ہیں، جسے آمادہ زمین میں ڈالنا چاہیے اور اس کی منظم طور سے آبپاشی کرنا چاہیے؛ یہ زمین اور یہ پانی تقویٰ کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے!

دوسری نصیحت میں فرماتے ہیں: ”اپنے گھروں میں چھپ کر بیٹھ جاوٴ (اور منافقوں کی گروہ بندیوں اور پارٹی بازیوں میں شرکت نہ کرو)“ (فَاسْتَتِرُوْا فِی بُیُوتِکُم) ۔

کیونکہ امام علیہ السلام کی ذرہ بین نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ آپ کی حکومت ان لوگوں پر جو عثمان کے زمانے میں بیت المال کو برباد کرتے تھے اور دنیائے اسلام میں بے عدالتی اور ظلم کو رواج دیتے تھے، عرصہ حیات کو تنگ کردے گی اور وہ بھی خاموش نہیں بیٹھیں گے اور اپنے جیسے ایک گروہ یا نادان لوگوں کو اکھٹا کریں گے؛ یقیناً ایسے لشکر کی سیاہی میں اضافہ کرنا گناہ ہے اور یہی وہ موقع ہے جہاں اپنے گھروں میں بیٹھ جانا چاہیے اور بعض شارحینِ نہج البلاغہ کے قول کے مطابق جب شور وغل مچانا معاشرے کے نقصان میں ہو تو سکون اور خاموشی بہترین حرکت ہے ۔

تیسری نصیحت میں طرفداران حق کی صفوں میں اتحاد، اور ہر طرح کے نفاق اور تفرقہ سے پرہیز اور اہل باطل کی صفوں میں اتحاد کی قوت سے شگاف ڈالنے کے سلسلے میں فرماتے ہیں: ”اپنے درمیان صلح وآشتی کی کوشش کرو (لوگوں میں بھی صلح کراوٴ اور ان کے مقابلے میں اپنی صفوں کو متحد کرلو!)“ (وَاصْلِحُوا ذَاتَ بَیْنِکُمْ) ۔

آخر کار اپنی چوتھی اور آخری نصیحت میں، ان لوگوں کو جو پہلے لغزشوں کا شکار ہوگئے تھے اور گذشتہ حکومتوں میںخطاوٴں کے مرتکب ہوگئے تھے اور اب ان کا ضمیر ان کے اس کام پر ان کو ملامت کرتا ہے، مشورہ دیتے ہیں کہ تقویٰ کے پانی سے اپنے دامن سے گناہ کے داغوں کو دھو ڈالیں! لہٰذا فرماتے ہیں: ”توبہ تمھارے سامنے اور تمھاری دسترس میں ہے! اس سے متمسک ہوجاوٴ اور اس کے سایہ میں قرار پاوٴ)“ (وَالتَّوبَةُ مِنْ وَرَائِکُمْ(۱)) ۔

اس بات کو کامل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کسی بھی تعریف کرنے والے کو خدا کے علاوہ کسی کی تعریف نہیں کرنا چاہیے اور خطا وگناہ میں اپنے نفس کے علاوہ کسی کی ملامت نہیں کرنا چاہیے!“ (وَلَایَحْمَدُ حَامِدٌ اِلَّا رَبَّہُ، وَلَایَلُمْ لَائِمٌ اِلَّا نَفْسَہُ)

۱۔ ”ورء“ ”وری“ کے مادہ سے (وَزَنَ) کے وزن پر ہے، اصل میں اس کے معنی چھپنے اور کبھی کبھی ”پیچھے“ کے بھی آتے ہیںجو سامنے دکھائی نہیں دیتا اور کبھی اس کے معنی ”سامنے“ کے بھی ہوتے ہیں کہ جو پیچھے سے دکھائی نہیں دیتا، اور مذکورہ بالا عبارت میں جملہ کی مناسبت سے ”آگے“ کے معنی میں ہے ۔

اشارہ ہے اس بات 6کی طرف کہ تمام نعمتیں خدا کی جانب سے ہیں اور جو بھی توفیق اور سعادت انسان کو نصیب ہوتی ہے خدا کے جلی اور خفی الطاف کی برکتیں ہیں، لہٰذا اطاعت کے وقت مغرور نہ ہونا چاہیے اور جو بھی خطا اور گناہ سرزد ہوتے ہیں تمھاری غلطی کی وجہ سے ہوتے ہیں! اپنے نفس کے علاوہ کسی کی ملامت نہ کریں اور اپنے گناہوں کو کسی دوسرے کے سر نہ مڑھیں اور نہ ہی قضا وقدر کی ہی گردن میں ڈالیںکوشش کریں کہ ان سب کو آبِ توبہ سے دھو ڈالیں!

 

 

تبصرے
Loading...