مومن کے نزدیک خوشبختی کا معیار

کچھ سوال جو شاید بہت سے مسلمانوں کے لئے نہایت تکلیف دہ ہونے کے باوجود ان کے ذہنوں میں کلبلاتے ہیں اور متاسفانہ وہ اکثر ان سوالات کا برملا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں وہ یہ کہ کیوں مسلمان مشکلات کا شکار ہیں اور کفار آسائش کی زندگی بسر کر رہے ہیں؟ کیوں مسلمان روز بروز تنزل کر رہے ہیں جبکہ مشرکین زندگی کے ہر میدان میں ترقی کرتے جا رہے ہیں؟ کیوں مسلمان آخری نمبر پر ہیں جبکہ کفار آگے ہیں؟ آیا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انکی خدا پر بےاعتقادی و کفر ہی انکی ترقی کا راز ہے اور مسلمانوں کی پسماندگی کی دلیل ان کا مسلمان ہونا ہے۔ یا ہم مسلمان ہیں تو ہمیں اسکا کیا صلہ مل گیا ہے الٹا ہر کوئی ہمیں مارنے کے درپے ہے، ہم سے بےدین بھلے کم از کم چین کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ 
کیا قرآن نہیں کہتا کہ:
وَ لَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرى آمَنُوا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنا عَلَیْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَ الْأَرْضِِ وَ لكِنْ كَذَّبُوا فَأَخَذْناهُمْ بِما كانُوا یَكْسِبُون۔ (سوره اعراف، آیه 96)
“اگر اہل قریہ ایمان لے آتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے، تو ہم آسمان و زمین سے اپنی برکتیں ان پر کھول دیتے لیکن انہوں نے ہمیں جھٹلایا تو ہم نے بھی انہیں انکے ان کاموں کے بدلے میں پکڑا جو انہوں نے کیے تھے”۔ جب قرآن میں ایمان والوں کے لئے برکات کا نزول ہے تو پھر کیوں مسلمان تنگی میں ہیں اور اسکے برعکس کفار جنکا کوئی دین و ایمان نہیں نعمتوں سے مالا مال ہیں۔

ہم یہاں یہ کہنا چاہیں گے کہ اسطرح کے سوالات عموما ان لوگوں کے اذہان میں آتے ہیں جو اسلام پر ایمانِ کامل نہیں رکھتے، ہم میں سے اکثریت صرف اس لئے مسلمان ہے کیونکہ مسلمان گھرانوں میں آنکھ کھولی، اور ان تعلیمات کی تقلید کی جو ہمارے والدین نے انجام دیں، پس اسلامی تعلیمات ہر گھرانے کے ذاتی عقیدے کی بنا پر مختلف شکلوں میں ہمیں پلیٹ میں سجی سجائی ملیں، اور ہمیں اس کے لئے کسی قسم کی کوئی زحمت نہیں کرنی پڑی، اوپر جو سوالات مطرح کئے گئے یہ وہ سوالات ہیں کہ جب ہم میں سے کچھ لوگوں پر کوئی مصیبت نازل ہوتی ہیں تو فورا ہماری زبان پر شکوے کی صورت
میں مچلنا شروع ہو جاتے ہیں، یہ سوچے بنا، کہ حالیہ مصیبت ہو سکتا ہے محض آزمائش الھی ہو، یا پھر ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہو، آخر کیوں ہم ہر مصیبت و تکلیف کو صرف اپنے مسلمان ہونے سے ہی مربوط کرتے ہیں۔

ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اسلام اگر واقعا مسلمانوں کی بدبختی کا باعث ہے، تو پھر تاریخ کو بھی اس بات کی گواہی دینی چاہیے، لیکن جب ہم تاریخ پر ایک اجمالی نگاہ ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں مسلمان اتنی آب و تاب سے چمک رہے ہیں کہ اسکی مثال نہیں ملتی ہے۔ تقریبا ہزار سال پہلے کا علم و فرہنگ اس بات کا نشانگر ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت باقی اقوام کے مقابلے میں تمام میادین میں آگے تھی جسکہ وجہ سے تمدن اسلامی نے علم و فن آوری میں مثالی ترقی کی۔ یہ وہ دوران تھا جس نے بوعلی سینا، جابر بن حیان، زکریا رازی، غیاث الدین اور جمشید کاشانی جیسی شخصیات کو جنم دیا اور انکی تربیت کی۔

مانچسٹر یونیورسٹی کے استاد سلیم الحسنی نے 2006ء میں ایک تحقیق “جہان میں 1001 نئی ایجادات مسلمانوں کی میراث ہیں” کے عنوان سے انجام دی، اس تحقیق میں انہوں نے 600ء سے لے کر 1600ء میلادی تک کی مسلمانوں کی تمام علمی محصولات کی بررسی کی ہے۔ اس تحقیق میں اس عراقی استاد نے یہ ثابت کیا ہے کہ کسطرح مسلمان دانشمندوں نے علم ستارہ شناسی، الجبرا، اعداد، ہندسہ، فزکس، کیمسٹری، جغرافیا، طب، انجینئرنگ، ہنر، ادبیات، اور حتی تعلیم و تربیت کے مختلف شعبوں میں اسپین سے چین تک کام کیا۔

اگر ہم مغربی دنیا کی علمی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ انہوں نے اپنے علم و دانش کی بنیاد مشرقی زمین کو غصب کرکے اس پر رکھی ہے، غربی دنیا نے مسلمانوں کا بنیادی علمی مواد استعمال کرکے قابل تعریف ترقی کی ہے۔ دلچسپ یہ کہ بہت سی اہم ایجادات جو سالھا قبل مسلمان دانشمندوں کے توسط سے ایجاد یا کشف ہوئی تھیں آج مغربی دانشمندوں کے نام سے ثبت ہیں، پس یہ کہا جا سکتا ہے کہ غرب نے مسلم دنیا کی علمی ثروت پر بہت بڑا ڈاکہ ڈالا اور اسکی بدولت بےانتہا دولت کمائی جو اصل میں مسلمانوں کا حق تھی۔ اس بنا پر اگر آج مسلمان ممالک مشکلات کا شکار ہیں تو انکی مشکلات کی اصل وجہ انکا مسلمان ہونا نہیں بلکہ انہیں دوسرے موارد کی بررسی کرنی چاہیے، کہ کیوں پہلی دس صدیوں میں مسلمانوں نے ترقی کی اور اب مشکلات کا شکار ہیں۔ مسلمانوں کی آج کی تنزلی اگر واقعا اتنی ہی شدید ہے جتنی وہ کہتے ہیں، اگر یہ حقیقت ہو اور محض ایک نعرہ نہ ہو تو اس کا ریشہ ہمیں بعض مسلمانوں کی سستی اور نااہلی میں بھی تلاش کرنا چاہیے۔ جنہیں صرف غرب سے متاثر ہونا آتا ہے، یہ سوچے بنا کہ ان کی ترقی کا راز کیا ہے۔

کہتے ہیں ایک بیمار ڈاکٹر کے پاس گیا اور دوا لی، لیکن کچھ دن کے بعد بھی جب اسے کوئی افاقہ نہ ہوا تو بازار میں آ کر دہائی دینے لگا کہ لوگو اس ڈاکٹر کے پاس نہ جانا کسی کام کا نہیں، اسکو کچھ نہیں آتا، یہ سن کر ڈاکٹر اسکے پاس آیا اور پوچھا کہ جو دوا میں نے دی تم نے اسے کیسے استعمال کیا؟ اس شخص نے کہا میں نے استعمال ہی نہیں کی لیکن یہی کہ میں نے دوائیاں خریدیں کیا کافی نہیں ہے، اسکے باوجود کوئی افاقہ نہیں ہوا، اور یہی بات تمہاری نالائقی کو ثابت کرتی ہے۔ ہم مسلمان بھی بالکل ایسے ہی ہیں، ہم نے بھی اسلامی تعلیمات کو اس مریض کی دوائیوں کی طرح لے کر اپنے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر سجا لیا ہے اور ان پر عمل کئے بنا چاہتے ہیں عرش ثریّا تک پہنچ جائیں۔ ہم یا تو صرف مسلمانی کا دعوی کرنا جانتے ہیں یا پھر مصیبت میں اسلام کو زیر سوال لانا۔

قرآن نے ” ایمان و تقوی” کو انسان کے رشد و کمال کی کلید کے طور پر متعارف کرایا ہے، قرآن ایسا شفا بخش نسخہ ہے جو انسان کی فردی و اجتماعی سعادت کو دنیا و آخرت میں تضمین کرتا یے لیکن شرط یہ ہے کہ قرآن کی تعلیمات پر من و عن عمل کیا جائے اور اسکے احکامات کو نظرانداز نہ کیا جائے، لیکن افسوس کہ کئی سالوں سے مسلمان اسکی تعلیمات سے دور ہیں جبکہ غیرمسلموں نے اسکی تعلیمات کو اپنا کر ترقی کی منازل کو تیزی سے طے کیا ہے۔ نظم، صداقت، امانتداری، اتحاد اور کسبِ علم جیسی قرآنی تعلیمات کو آج ہم مسلمان معاشرے کی بجائے مغربی معاشرے میں زیادہ دیکھتے ہیں۔ جو کوئی بھی اس شفابخش نسخے پر جتنا عمل کرے گا اسی قدر ترقی کرے گا، اور جو کوئی اسکی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال دے گا حتی اگر درخشاں ماضی کا مالک بھی ہو ترقی کے میدان میں پیچھے رہ جائے گا۔ ہم جبتک انگریز کی غلامی سے نجات نہیں حاصل کرتے اور قرآن کو اسوہ کامل جان کر اس کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے اسوقت تک ترقی نہیں کر سکتے۔
اقبال رہ نے ایسے ہی بہانہ جو لوگوں کے لئے کیا خوب کہا ہے:
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق

اوپر مطرح کئے گئے سوالات میں سورہ اعراف کی آیہ نمبر 96 کا حوالہ بھی دیا گیا ہے تو اس میں یہ نکتہ واضح ہے کہ نعمتوں کی بقا و دوام صرف پرہیزگاروں کے لئے ہے یا دوسرے الفاظ میں یہ کہ آیت یہ ہرگز نہیں کہہ رہی کہ دنیا میں دوسری اقوام ترقی نہیں کر سکتیں، بلکہ آیت اس بات کی بیانگر ہے کہ نعمتوں کا دوام صرف اور صرف پرہیزگاروں کے لئے ہے۔ آیہ شریفہ میں “برکت” کا معنی پائیداری و ثبات ہے اور یہ ہر پائیدار رہنے والی نعمت پر اطلاق ہوتا ہے۔ اسی بنا پر اگر کوئی حکومت یا قوم تقوی و پرہیزگاری کو اپنی زندگی کا اصلی ہدف قرار دیتی ہے تو یقینا وہ ترقی کرے گی اور ان نعمات الھی کو پا لے گی جو پائیدار اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہیں، لیکن اسکے مقابلے میں ممکن ہے وہ قومیں جو ایمان نہیں رکھتیں وہ بھی ترقی کی منازل طے کر لیں، لیکن چونکہ ان کے پاس نعمتوں کے دوام کی وہ “اساسی شرط” موجود نہیں، کچھ ہی عرصہ گزرنے کے بعد نابود ہو جائیں گی۔

تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ گنہکار اور ظالم قوموں کو خدا نے اپنے عذاب سے دوچار کیا، اور اب انکا اثر بھی باقی نہیں۔ مثلا قومِ عاد نے اپنے دور میں اسقدر ترقی کی کہ یہ لوگ بہت بلند مقام پر مرفّع گھروں میں رہتے تھے، انکے سردیوں اور گرمیوں کے الگ الگ گھر تھے، خدا نے ان کو اپنی نعمتوں کے سمندر میں غوطہ ور کیا ہوا تھا اور قرآن کے مطابق کوئی دوسرا شہر انکے خطے کی طرح پرطراوت و سرسبز نہیں تھا، اور طرح طرح کے باغات موجود تھے۔ (سوره فجر, آیه 7 و 8) لیکن ناسپاس تھے، فراوانی کے باعث نعمتوں کی بےحرمتی کیا کرتے تھے، اسی لئے عذاب الھی سے دوچار ہوئے۔

آج بعض مسلمان جس بدبختی اور پسماندگی کا ذکر کرتے ہیں، البتہ واقعا اگر وہ اس صورتحال سے دوچار ہیں، اور یہ اپنی سستی اور نااہلی کو چھپانے کے لئے صرف ایک نعرہ نہیں تو اس الجھی ڈور کا سرا ان جیسے لوگوں کے اپنے ہاتھ میں ہے چاہیں تو اس سلجھا لیں۔ قرآن میں نعمتوں کے نزول کی اصلی شرط تقوی و پرہیزگاری بیان ہوئی ہے چاہیں تو اس اختیار کرتے ہوئے اور اپنی تدبیر اور صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر آسمان کی رفعتوں کو چھو لیں، لیکن بعض مسلمان ایسے بھی ہیں جو مغرب کی تقلید میں اسقدر آگے نکل گئے ہیں کہ ان کے منہ میں یورپ کی زبان ہے اور وہ اپنی زندگی کو انکی زندگی سے مقایسہ کرتے ہیں، اور اس مقایسے میں یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں۔ شاید وہ اپنے آپ کو پورپین دیکھنا چاہتے ہیں اور اسے وہ پسماندگی کا نام دیتے ہیں حالانکہ بقول اقبال رہ انکی خودی دم توڑ گئی ہے، وہ اغیار کی سوچ کے غلام ہیں اور ان سے متاثر ہیں، اغیار کے اشاروں پر رقص کرتے ہیں۔
انہوں نے شاید ایسے ہی لوگوں کے لئے کہا ہے:
چھوڑ یورپ کے لئے رقصِ بدن کے خم و پیچ
روح کے رقص میں ہے ضرب کلیم اللھی

آخر میں ہمارا ایسے لوگوں سے ایک سوال ہے وہ یہ کہ ان کے نزدیک خوشبختی کا معیار کیا ہے، اور وہ کونسی چیزیں ہیں جو انسان کو خوشبخت کرتی ہیں؟ تو ہمارا خیال ہے ان میں سے اکثریت کا یہ جواب ہو گا کہ پیسہ اور اچھی پرتعیش زندگی کہ جس میں دنیا کی تمام سہولیات موجود ہوں، اور اگر یہ نہ ہوں تو انسان بدبخت ہے۔

دلچسپ یہ کہ بہت سے دولتمند لوگوں کے زندگیوں پر ہونے والی مختلف تحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ وہ عام لوگوں سے زیادہ روحی، روانی اور جسمانی مشکلات کا شکار ہیں، اور اگر ان تحقیقات کے نتیجے میں سامنے آنے والے خودکشی اور مختلف جرائم کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو ان کی تعداد اسلامی ممالک میں یورپی ممالک کی نسبت بہت کم ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ ممالک جدید ٹیکنالوجی اور پیشرفت کے باوجود انسان کی سب سے اہم ضرورت سے غافل ہیں اور وہ ہے انسان کا “معنوی نیاز”۔ زندگی میں آرام و سکون اور ایک خوشحال گھر کا تصور جہاں سب ایک دوسرے پر جان دیتے ہوں، میاں بیوی کی محبت، ایک دوسرے کے سکون کا خیال، بچوں کی والدین سے اور والدین کی بچوں سے محبت، بہن بھائی کا مقدس رشتہ، اور ماں، باپ، چچا، ماموں، خالہ، پھوپھی، دادا، دادی، نانا، نانی، جیسے بہت سے شیریں اور مقدس رشتے جو اسلامی معاشرے کا خاصہ ہیں، یورپیینز کی زندگیاں اس شیرینی سے محروم ہیں، یہ آرام و سکون صرف اور صرف پیسے کا مرہون منت نہیں، بلکہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے سے حاصل ہے، ایک دوسرے کے احترام میں پنہاں ہے۔

گوکہ ہم پیسے کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کرتے لیکن ایسی فراوان مثالیں موجود ہیں کہ مناسب سی متوسط آمدنی والے گھرانے بھی اسلامی اقدار پر عمل کر کے بہت خوشحال زندگی گزار رہے ہیں، کیونکہ اسلام صبر و توکل کا درس دیتا ہے۔ پس اپنی بدبختی کا رونا رونے اور نعوذ باللہ اسلام کو اسکا ذمہ دار ٹہرانے کی بجائے اپنی فکر و سوچ کی اصلاح کرتے ہوئے اسلامی راہ کو اپنانا ہو گا کہ اسی میں دنیاوہی و اخروی سعادت چھپی ہوئی ہے۔

 

تبصرے
Loading...