موجودات کی فطری اور تکوینی ہدایت

فصل بہار اور گرمیوں میں درخت کے پتوں کا سرسبز و شاداب ہونا، اور سردیوں میں ان کا خشک ہوجانا ، باره برجوں پر خورشید کا حرکت کرنا، شب و روز کی کیفیت 

امام علیہ السلام کے کلمات میں جن باتوں کی طرف اشارہ ہوا ہے ان میں ایک اہم نکتہ پایا جاتا ہے جس پر قرآن مجید نے بھی مکرر تاکید کی ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام موجودات خلقت اور مادہ میں ایک خاص زمانہ پایا جاتا ہے اوران میں آپس میں تضاد و اختلاف ہونے کے باوجود یہ ایک دوسرے سے ہماہنگ اور متصل ہیں اور ایک دوسرے کو کامل کرتی ہیں اور ہمیشہ داخلی اور خارجی نظم و ترتیب کے ذریعہ ان کی ہدایت ہوتی ہے اور ایک منظم قافلہ کی صورت میں ایک ساتھ اپنے آخری ہدف کی طرف گامزن ہیں اور اپنے راستہ سے منحرف نہیں ہوتے ہیں اور بطور دقیق اپنے مقصد کی طرف جار ہے ہیں ۔

فصل بہار اور گرمیوں میں درخت کے پتوں کا سرسبز و شاداب ہونا، اور سردیوں میں ان کا خشک ہوجانا ، باره برجوں پر خورشید کا حرکت کرنا، شب و روز کی کیفیت ، زمین کا اپنے گردگھومنا اور اسی طرح انسان کی داخلی اور ظاہری طاقت خدا وند عالم کی تکوینی ہدایت پر گواہ ہیں جیسا کہ قرآن مجید حضرت موسی(علیہ السلام) کی زبانی فرماتا ہے : ”ربنا الذی اعطی کل شئی خلقہ ثم ھدی“ ( ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر شے کو اس کی مناسب خلقت عطا کی ہے اور پھر ہدایت بھی دی ہے) (۱) ۔

دوسری جگہ فرماتا ہے: ”فطرة اللہ التی فطر الناس علیھا“ (یہ توحید اور اسلام )وہ فطرت الہی ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے) (۲) ۔

اور نیز فرماتا ہے : ”و ان من شئی الا عندنا حزائنہ و ما ننزلہ الا بقدر معلوم“ (اور کوئی شئے ایسی نہیں ہے جس کے ہمارے پاس خزانے نہ ہوں او رہم ہر شے کو ایک معین مقدار میں (نظم و حساب کے مطابق )ہی نازل کرتے ہیں) (۳) ۔

یہ حقیقت میں خداوند عالم کے وجود کی ایک اہم نشانی ہے کہ جس قدر بھی انسان اس میں غور و فکر کرے ، ہدایت تکوینی ، نظم اور مختلف چیزوں کے درمیان اتصال کے مسئلہ کا بطور دقیق مطالعہ کرے تو اس مسئلہ سے بخوبی واقف ہوجائے گا۔

اس کے بعدمزید فرماتے ہیں : وہ ان چیزوں کو ان کے وجود میں آنے سے پہلے جانتاتھا ان کی حدود و نہایت پراحاطہ کئے ہوئے تھا اور ان کے تمام لوازم و جوانب کو پہچانتا تھا (عالما بھا قبل ابتدائھا محیطا بحدودھا و انتھائھا عارفا بقرائنھا (4) و احنائھا (5)) (6) ۔

حقیقت میں یہ تین جملے پہلے جملوں کیلئے دلیل یا بیان یا وضاحت کے طور پر بیان ہوئے ہیں کیونکہ جو یہ چاہے کہ ہر موجود کو اس کے مناسب وقت پر ایجاد کرے اور مختلف اشیاء کو ایک دوسرے سے متصل کرے ، داخلی غرایزاور اور بیرونی لوازم کو ان کی جگہ پر مقرر کرے ، لہذا ایک طر ف اس سے کامل اور جامع آگاہی کی ضرورت ہے اور دوسری طرف اس پر احاطہ اور تام و تمام قدرت کی ضرورت ہے ۔

اسی وجہ سے آپ نے فرمایا: وہ ان چیزوں کو ان کے وجود میں آنے سے پہلے جانتاتھا ان کی حدود و نہایت پراحاطہ کئے ہوئے تھا اور ان کے تمام لوازم و جوانب کو پہچانتا تھا(عالما بھا قبل ابتدائھا محیطا بحدودھا و انتھائھا عارفا بقرائنھاواحنائھا) ۔

خداوند عالم نہ صرف ان کی ابتداء اور انتہاء سے باخبر تھا بلکہ ان کے لوازم و جوانب اور علل و آثار کو بھی جانتا تھا۔ لہذا جو بھی ان تمام امور سے آگاہ ہو اور ان کو انجام دینے پر قادر و توانائی رکھتا ہو وہ ہر چیز کو منظم طریقہ سے اس کی جگہ پر رکھ سکتا ہے اور ہر چیز کو جس کی ضرورت ہے اس کو عطا کرسکتا ہے اور اس کی حیات اور وجود کی طرف ہدایت کرکے اس کے اصل کمال کی طرف پہنچا سکتاہے ۔

کیا خدا وند عالم پر ”عارف“ کا لفظ اطلاق ہوتا ہے؟

نہج البلاغہ کے بعض مفسرین نے اس مسئلہ میں شک و تردید کیا ہے کہ کیا خدوند عالم کو ”عارف“ سے توصیف کیا جاسکتا ہے ۔

اس شک و تردید کی وجہ دو چیزیں ہیں:

اول یہ ہے کہ مفردات میں راغب کے بقول معرفت اور عرفان کے معنی کسی چیز کے آثار میں غور و فکر اور تدبیر کے ساتھ درک کرنا ہے یادوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ معرفت اس علم کو کہتے ہیں جو محدود ہو اور غور وفکرکے ذریعہ سے حاصل ہو اور یہ بات مسلم ہے کہ خداوند عالم کا علم ایسا نہیں ہے ۔

دوسرے یہ ہے کہ ایک حدیث میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا: ”ان لہ(تعالی) تسعة و تسعین اسما من احصاھا دخل الجنة“ خداوند عالم کے ننانویں (۹۹) نام ہیں اور جو بھی ان ناموں کو پڑھے گا (اور ان پر ایمان و معرفت رکھے گا)وہ جنت میں جائے گااور علماء کا اجماع یہ ہے کہ ان نناویں (۹۹) ناموں میں عارف خدا کا نام نہیں ہے (7) ۔

لیکن ایک اجمالی تحقیق سے پتہ چلتاہے کہ اسلامی روایات میں بارہا خداوندعالم کے اوپر اس لفظ کا اطلاق ہوا ہے اور نہج البلاغہ (میں یہ لفظ وصف کے طور پر اور دوسری جگہ فعل کی صورت یمں آیا ہے) کے علاوہ کہ اصول کافی میں بھی یہ لفظ متعدد بار استعمال ہوا ہے (8) ۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ معرفت کے لفظ میں اگر چہ محدودیت کے معنی یا اس میں غور و فکر کی ضرورت کے معنی پائے جاتے ہیں لیکن بعد میں کثرت استعمال کی وجہ سے اس کا مفہوم وسیع ہوتا چلا گیا جس کی وجہ سے یہ علم و آگاہی کی ہر قسم پر استعمال ہونے لگا چہ جائیکہ اس میں فکر و اندیشہ نہ پایا جاتا ہو۔

لیکن نناویں(۹۹) ناموں والی روایت کے متعلق یہ کہا جائے کہ اس روایت سے کبھی بھی خدا کے ناموں کو نناویں(۹۹) ناموں میں محدود نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ حقیقت میں خداوند عالم کے برجستہ صفات اور خدا کے اسمائے حسنی ہیں اور اسی وجہ سے بعض روایات میں خدا کے ایک ہزار نام بیان ہوئے ہیں اور اس پر اس سے بہتر اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ امام علی(علیہ السلام)جو کہ خود خدا کے ناموں اور صفات سے سب سے آگاہ ہیں ، آپ نے نہج البلاغہ کے مطابق خداوند عالم کے ان ناموں یاان سے مشتق ناموں کو استعمال کیا ہے ۔

۱۔ سورہ طہ، آیت ۵۰۔

۲۔ سورہ روم، آیت ۳۰۔

۳۔ سورہ حجر، آیت ۲۱۔

4۔ ”قرائن“ ، قرینہ کی جمع ہے ، اس کے معنی مصاحب اور دوست کے ہیں ۔(صحاح ، قاموس اور لغت کی دوسری کتابیں) نہج البلاغہ کے بعض شارحین جیسے ”ابن ابی الحدید“ نے ”قرائن“ کو ”قرونہ“ (معونہ کے وزن پر) کی جمع اور اس کے معنی نفس سمجھے ہیں ، لیکن مذکورہ تمام جملوں میں جو تعبیر بیان ہوئی ہے اس کے اعتبار سے پہلے معنی زیادہ مناسب ہیں ۔

5۔”احنا“ ، ”حِنو“ (فِعل کے وزن پر) کی جمع ہے اورمقاییس ولسان العرب کے بقول ” حَنو“ (حَرف کے وزن پر)ہر اس چیز کو کہتے ہیں کہ جس میں کجی پائی جاتی ہو ، جیسے ٹھڈی اور دانتوں کی ہڈی۔ اس کے بعد جوانب کے معنی میں بھی آیا ہے (کیونکہ اشیاء کے اطراف و جوانب اکثرا ٹیڑھے ہوتے ہیں) ۔

6۔ توجہ رہے کہ ان چند جملوں میں جو ضمیریں استعمال ہوئی ہیں یہ سب ”اشیاء“ کی طرف پلٹتی ہیں نہ کہ ”غرائز“ کی طرف، جیسا کہ بعض نہج البلاغہ کے مفسرین نے بیان کیا ہے کیونکہ دوسرے احتمال کا جملوں کے ساتھ کوئی خاص تناسب نہیں پایا جاتا۔

7۔ ابن میثم نے اس بات کو ایک اشکال کے طور پر پیش کیاہے اور اس کے بعد جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ خداوند عالم کے نام اس سے زیادہ ہیں اور اس پر کچھ دلیلیں بھی دی ہیں(شرح نہج البلاغہ، ابن میثم، جلد۱، ص ۱۳۷) ۔

اس بات کی طرف توجہ رہے کہ مذکورہ حدیث صحیح بخاری، مسلم،مسند احمد ، سنن ترمذی اور دوسری معتبر کتابوں سے در المنثور میں نقل ہوئی ہے، الدر المنثور، جلد۳، ص ۱۴۷(پیام قرآن، جلد ۴، صفحہ ۴۶) ۔

8۔ اصول کافی،جلد۱، ص ۹۱، باب النسبة، حدیث ۲ و صفحہ ۱۱۳، باب حدوث الاسماء، حدیث ۲۔

تبصرے
Loading...