ماؤں کو حکیمانہ نصیحت

جعفر صادق کی علمی فوقیت کے اظہار ات میں سے ایک یہ تھا کہ آپ نے ماؤں کو وصیت کی کہ اپنے شیر خوار بچوں کو اپنے بائیں طرف سلائیں ۔

صدیوں سے اس تاکید کو بے محل اور فضول کیا جاتا رہا جس کی وجہ یہ تھی کہ کسی نے تاکید پر غور نہیں کیا تھا اور بعضوں نے اس پر عمل کرنے کو خطرناک سمجھا ان کا خیال تھا کہ ار شیر خوار بچے کو ماں کی بائیں جانب سلاد یا جائے تو ممکن ہے کہ ماں سوتے میں کروٹ بدلے اور بیٹے کو اپنے جسم کے نیچے کچل دے ۔

محمد بن ادریس شافعی جو ۱۵۰ ہجری میں جعفر صادق (علیہ السلام ) کی پیدائش کے دو سال بعد غزہ میں پیدا ہوئے اور ۹۹ ہجری میں قاہرہ میں فوت ہوئے جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ماں کو اپنے بچے کو بائیں طرف سلانا چاہیے یا دائیں طرف ۔

تو انہوں نے جواب دیا دائیں اور بائیں میں کوئی فرق نہیں ماں اپنے بچے کو جس طرف آسان سمجھے اس طرف سلائے بعض لوگوں نے جعفرصادق (علیہ السلام ) کے فرمان کو عقل سلیم کے خلاف قرار دیا چونکہ ان کے خیال میں دایاں بائیں سے زیادہ محترم ہے ان کا خیال تھا کہ مان اپنے بچے کو دائیں جانب سلائے تاکہ بچہ اس کے دائیں جانب کرامت سے بہرہ مند ہو سکے ۔

جعفر صادق (علیہ السلام ) کی اس وصیت کو نہ تو مشرق میں کوئی اہمیت دی گئی اور نہ ہی مغرب میں کسی نے اس کی قدرو قیمت کو جانا ۔ حتی کہ علمی احیاء کے دور میں جب کہ دانشور ہر علمی موضوع پر اچھی طرح غور کر رہے تھے کسی نے جعفر صادق (علیہ السلام ) کے قول کو خاطر خواہ اہمیت نہ دی اور نہ ہی یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ آپ کا یہ فرمان علمی نقطہ نظر سے سود مند ہے یا نہیں ؟

سولہویں ‘ سترہویں اور اٹھارویں صدی عیسوی کے ادوار جو علمی احیا کے ادوار کہلاتے ہیں گزر چکے تھے اور انیسویں صدی عیسوی پہنچ آئی تھی اور اس صدی کی دوسری دھائی میں امریکہ کی کورنیل یونیورسٹی قائم ہو کر کام کرنا شروع کر چکی تھی عزراکورنیل جو کورنیل یونیورسٹی کا بانی تھا اور جس نے بچپن میں کافی مشکلات جھیلی تھیں نے فیصلہ کیا کہ اس یونیورسٹی میں شیر خوار اور تازہ پیدا ہونے والے بچوں پر تحقیق کیلئے ایک انسٹیٹیوٹ قائم کیا جائے اور اس انسٹیٹیوٹ نے پہلے ہی سال تدریس شروع کر دی اور اسے میڈیکل کالج سے منسلک کر دیا گیا ایک صدی سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے کہ اس یونیورسٹی میں تازہ پیدا ہونے والے اور شیر خوار بچوں پر تحقیق کا کام جاریہے بعید ہے کہ نوازائیدہ اور شیر خوار بچوں کے متعلق کوئی موضوع ایسا ہو جس پر اس انسٹیٹیوٹ میں تحقیق نہ ہوئی ہو دنیا میں کوئی ایسا علمی مرکز نہیں ہے جس میں تازہ پیدا ہونے والے اور شیر خوار بچوں کے بارے میں اس مرکز جتنی معلومات کا ذکیرہ ہو یہاں تک کہ تازہ پیدا ہونے والے اور شیر خوار بچوں کے اشتہارات اور سائن بورڈ پر تک بھی اس انسٹیٹیوٹ میں تحقیق ہوتی تھی ۔

اس بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں اس انسٹیٹیوٹ کے محقیقین نے دنیا کے عجائب گھروں میں پائے جانے والے نو مولود بچوں کے متعلق سائن بورڈوں پر نگاہ ڈالی تو انہیں پتہ چلا کہ ۴۶۶ سئن بورڈوں میں سے اکثریت ایسی ہے جن میں ماؤں نے بچے کو بائیس جانب بغل میں لیا ہوا ہے ان میں سے ۳۷۳ سائن بورڈوں پر ماؤں نے بچے کو بائیں جانب بغل میں لیا ہوا ہے اور صرف ۹۳ سائن بورڈ ایسے ہیں جن میں ماؤں نے بچے کو دائیں طرف بغل میں لیا ہوا ہے ۔

اس بنا پر عجائب گھروں میں پائے جانے والے اسی فیصد سائن بورڈ ایسے تھے جن میں ماؤں نے بچے کو بائیں بغل میں لیا ہوا تھا نیویارک کی ریاست میں کورنیل یونیورسٹی سے منسلک چند زچہ خانے ایسے ہیں جو حقیقی کے مرکز سے وابستہ ہیں اور وہاں پر کام کرنے والے ڈاکٹر صاحبان اپنے معائنے اور تحقیق کی رپورٹیں مذکورہ مرکز کو بھجتے رہتے ہیں ان ڈاکٹروں کی طرف سے ۔

ایک طویل مدت تک بھیجی جانے والی مذکورہ رپورٹوں کے مطابق پیدائش کے بعد پہلے دنوں میں جب نو مولود ماں کی بائیں جانب سوتا ہے تو اسے دائیں جانب سونے کی نسبت زیادہ آرام ملتا ہے اور اگر اسے دائیں طرف سلایا جائے تو جلد ہی جاگ اٹھتا ہے اور رونے لگتا ہے ۔

مذکورہ تحقیقی مرکز کے محقیقین نے اپنی تحقیق کا دائرہ کار صرف سفید فام امریکنوں تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ انہوں نے سیاہ فام اور ریڈ انڈین بچوں پر بھی تحقیق کی ہے اور طویل تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس موضوع کا تعلق رنگ و نسل سے نہیں دنیا کی تمام اقوام کے بچوں میں یہ خاصیت موجود ہے کورنیل یونیورسٹی کے تحقیقی مرکز نے اس موضوعپر مسلسل تحقیق کی تھی اس مرکز کے ڈاکٹروں نے نا معلوم شعاعوں کے ذریعے جنین کا حاملہ عورت کے پیٹ میں معائنہ کیا لیکن ان کی معلومات میں کوئی خاص اضافہ نہ ہوا یہاں تک کہ ہو لو گرافی ایجاد ہو گئی ۔

ہو لو گرافی کی ایجاد کے بعد اس تحقیقی مرکز کے ڈاکٹروں نے ہو لو گرافی کے ذریعے ماں کے پیٹ میں جنین کی تصویر لی ‘ انہوں نے دیکھا کہ ماں کے دل کی دھڑکن کی آوازوں کی لہریں جو تمام بدن میں پھیلتی ہیں جنین کے کانوں تک پہنچتی ہیں ۔

اس مرحلے کے بعد ڈاکٹروں نے یہ معلوم کیا کہ کیا ماں کے دل کی دھڑکنوں کا وقفہ بھی جنین میں رد عمل ظاہر کرتا ہے یا نہیں ؟

چونکہ ڈاکٹر صاحبان مان کے دل کی دھڑکن کو ہلاکت کے اندیشے سے نہیں روک سکتے تھے لہذا نہوں نے اس تحقیق کو ممالین یعنی دودھ دینے والے جانوروں پر جاری رکھا انہوں نے جو نہی ماں کے دل کی دھڑکن رو کی انہوں نے دیکھا کہ جنین میں رد عمل پیدا ہوا ۔

جب انہوں نے یہ تجربات بار بار دھرائے تو انہوں نے یقین کر لیا کہ ممالین جانوروں کے دل کی دھڑکن کو روکنے سے ان کے جنین میں رد عمل ظاہر ہوتا ہے اور ماں کی موت کے بعد جنین بھی ہلاک ہو جاتا ہےکیونکہ ماں کے دل سے نکلنے والی ایک بڑی شریان جنین کو خون پہنچاتی ہے جو اس کی غذا بنتا ہے اور جب دل ساکن ہوجائے گا تو جنین کو غذا نہیں پہنچے گی اور وہ ہلاک ہو جائے گی ۔

کورنیل یونیورسٹی کے تحقیقی مرکز کے سائنس دانوں نے متعدد تجربات سے یہ اخذ کیا ہے کہ بچہ نہ صرف یہ کہ ماں کے پیٹ میں اس کے دل کی دھڑکنوں کو سننے کا عادی ہو جاتی ہے بلکہ ان دھڑکنوں کا اس کی زندگی سے بھی گہرا تعلق ہے اگر یہ دھڑکن رک جائے تو بچہ ماں کے پیٹ میں بھوک سے مر جائے ۔

ماں کے دل کی دھڑکن سننے کی جو عادت بچے کو پیدائش سے پہلے ہوتی ہے وہ اس میں اس قدر نفو کر جاتی ہے کہ بچہ پیدائش کے بعد اگر ان دھڑکنوں کو نہ سنے تو پریشان ہو جاتی ہے بچہ ان دھڑکنوں کی بخوبی پہچان رکھتا ہے جس وقت بچے کو مان کی بائیں جانب سلایا جاتا ہے تو بچہ ان دھڑکنوں کو سن کر پر سکون رہتا ہے لیکن چونکہ دائیں جانب دل کی دھڑکنیں سنائی نہیں دیتیں لہذا بچہ مضطرب ہو جاتا ہے ۔

اگر کورنیل یونیورسٹ کا بانی نو مولود اور شیر خوار بچوں پر تحقیق کا یہ مرکز قائم نہ کرتا تو اس موضوع پر ہر گز تحقیق نہ ہوتی اور یہ معلوم نہ ہو سکتا کہ امام جعفر صادق (علیہ السلام ) نے یہ کیوں فرمایا کہ مائیں اپنے شیر خوار بچوں کو بائیں طرف رکھیں اور سلائیں ؟ اور اس میں کیا مصلحت اور فوائد مضمر ہیں ۔

ان میں جس جس کمرے میں نو مولود لیٹیہوتے ہیں وہاں ایک مشین رکھی ہوتی ہے جس سے ماں کے دل کی دھڑکنوں جیسی آواز سنائی دیتی ہے یہ آواز ایک ریسیور کے ذریعے ہر بچے کے کان تک پہنچائی جاتی ہے بالغ انسان چاہے مرد ہو یا عورت عموما اس کا دل ایک منٹ میں ۷۲ بار دھڑکتا ہے کورنیل یونیورسٹی سے وابستہ تحقیقی انسٹی ٹیوٹ میں قائم شیر خوار بچوں کی پرورش کے مذکورہ مراکز میں اگر ماں کے دل کی مصنوعی دھڑکنیں ایک سو دس سے بیس ہو جائیں تو ایک کمرے میں موجود تمام بچے رونے لگتے ہیں پس سائنس دانوں نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ماں کے دل کی مصنوعی دھڑکنیں ۷۲ دھڑکنیں فی منٹ ہونا چاہیے تاکہ بچے پیرشان نہ ہوں اور رونے نہ لگیں ۔ مذکورہ مراکز میں چند مرتبہ یہ تجربات دھرائے گئے ہیں ۔

کچھ نو مولودوں کو ایک ایسے کمرے میں رکھا گیا جہاں ماں کے دل کی مصنوعی دھڑکنیں ان کے کانوں تک نہیں پہنچتی تھیں اور کچھ نو مولودوں کو ایک دوسرے کمرے میں رکھا گیا جہاں وہ ماں کے دل دل مصنوعی دھڑکنیں سن سکتے تھے اس دوران یہ معلوم ہو اکہ وہ نو مولود جن کے کانوں تک ماں کے دل کی مصنوعی دھڑکنیں پہنچ رہی تھیں حالنکہ دونوں کمروں والے بچوں کی غذا ایک جیسی تھی لیکن وہ کمرہ جہاں ماں کے دل کی مصنوعی دھڑکنیں سنائی دے رہی تھیں اس کے بچے زیادہ بھوک کا اظہار کرتے ہوئے غذا کھاتے تھے اور جب کہ اس کے برعکس دوسرے کمرے والے کم بھوک والے ہوتےتھے ۔

کورنیل یونیورسٹی کے تحقیقی مرکز سے وابستہ شیر خوار بچوں کی پرورش کے مراکز میں ماں کے دل کی مصنوعی دھڑکنوں کی شدت کے لحاظ سے بھی تحقیق کی گئی ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگر یہ دھڑکنیں ماں کے دل کی قدرتی دھڑکنوں کی آواز سے زیادہ شدید ہوں تو بچے مضطرب ہو کر رونے لگتے ہیں ۔

کورنیل یونیورسٹی کے تحقیقی مرکز کے ایک ڈاکٹر نے دنیا کے براعظموں کا سفر کرکے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ مختلف ممالک میں مائیں اپنے بیٹوں کو اٹھائے ہوئے کسی طرف گود میں لیتی ہیں ؟

یہ ڈاکٹر جس کا نام ڈاکٹر لی سالک بیان کیا جاتا ہے اور ابھی تک کورنیل یونیورسٹی کے تحقیقی مرکز میں کام میں مشغول ہے اس کے بقول دنیا کے تمام براعظموں میں مائیں اپنے بیٹوں کو بائیں طرف کی بغل میں لیتی ہیں اور وہ خواتین جو اپنے بیٹوں کو دائیں طرف والی بغل میں لیتی ہیں ان میں سے اکثر بائیں ہاتھ سے کام کرنے والی ہیں۔

خصوصا جب وہ ٹوکری اٹھاتی ہیں تو اپنے بچوں کو دائیں طرف والی آغوش میں لیتی ہیں تاکہ وہ بائیں ہاتھ سے ٹوکری اٹھا سکیں ۔

ڈاکٹر لی سالک نے تحقیقی مرکز سے منسلک بچوں کی پرورش گاہ میں زچہ خواتین سے جو پیدائش کے بعد وہاں سے چلی جاتی ہے اور نو مولودوں کو بائیں طرف بغل میں لیتی ہیں سوال کیا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آ اپنے بچے کو بائیں بغل میں کیوں رکھتی ہیں ؟

لیکن ابھی تک کسی خاتون نے ڈاکٹر لی سالک کو جواب نہیں دیا کہ چونکہ دل سینے کے بائیں حصے میں واقع ہے اور بچوں کیلئے اس کی دھڑکنوں کا آواز سننا مفید ہے مائیں اس بات سے آگاہ نہیں کہ وہ بچے کو بائیں طرف رکھنے کو کیوں ترجیح دیتی ہیں پھر بھی وہ بچے کو بائیں طرف بغل میں رکھتی ہیں ۔

یہاں تک کہ افریقہ کے سیاہ فام قبائل کی عورتیں جب بچے کو پیٹھ پر نہیں اٹھاتیں تو اسے بائیں جانب بغل میں رکھتیہیں اور افریقہ کے تمام سیاہ فام قبائل میں خواتین کو علم ہے کہ بچے کو بائیں طرف سینے پر رکھنے سے اس کی بھوک بڑھتی ہے اور وہ خوب دودھ پیتا ہے جب کہ دائیں طرف کے اثرات اس کے برعکس ہیں ڈاکٹر لی سالک نے ماؤں سے سنا ہے کہ رات کو بچہ جب بھوکا ہوتا ہے تو اندھیرے میں حیران کن تیزی سے مان کے پستان کو تلاش کرکے اس پر منہ رکھ کر دودھ پینا شروع کر دیتا ہے ۔

انہیں تعجب ہے کہ بچہ روشنی کے بغیر ہی ماں کے پستان کو ڈھونڈ کر اس سے دودھ پینا شروع کر دیتا ہے۔

ڈاکٹر لی سالک نے ماؤں کو بتایا کہ رات کی تاریکی میں ماں کے پستان سے دودھ پینے میں ماں کے دل کی دھڑکن بچے کی مدد کرتی ہے اور جب بچہ ماں کے دل کے دھڑکنے کی آواز سنتا ہے تو فورا پستان کو ڈھونڈ کر دودھ پیتا ہے ۔

ہرشے متحرک ہے

امام جعفر صادق (علیہ السلام ) کے اہم نظریات میں ایک اورنظریہ اشیاء کی حرکت کے متعلق ہے آپ نے فرمایا جو کچھ موجود ہے حرکت کر رہا ہے حتی کہ جمادات بھی متحرک ہیں اگرچہ ہماری آں کھیں ان کی حرکات کو نہیں دیکھ سکتیں لیکن کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو متحرک نہ ہو ۔

یہ بات جعفر صادق (علیہ السلام ) کے زمانے میں قابل قبول نہیں نہ آيی تھی جب کہ آج نا قابل تردید حقیقت ہے اور کائنات میں کوئی ایسا جسم نہیں جو متحرک نہ ہو علم اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ کیا حرکت کے بغیر بھی کسی چیز کا وجود ہو سکتا ہے تصور کی بھی کوئی طاقت کسی سکن جسم کا اتہ پتہ نہیں بتا سکتی جو نہی حرکت رکی تصور کی وہ طاقت جسے حرکت کو فرض کرنا تھا ختم ہو گئی چونکہ جس لمحے حرکت رک جاتی ہے انسان مر جاتا ہے ۔

جعفر صادق (علیہ السلام ) نے ساڑھے بارہ سو سال پہلے اس حقیقت کو بیان کیا اور فرمایا تھا کہ جس لمحے حرکت رک جاتی ہے انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے ۔

لیکن موت کے بعد بھی ایک دوسری طرف سے حرکت جاری رہتی ہے ورنہ ادمی کا جسد خراب نہ ہو ہم زمانے میں تبدیلی کو صرف حرکت کے زیر اثر احساس کرتے ہیں اور اگر ہمارے وجود میں دائمی حرکت نہ ہو تو ہم ہرگز لمبائی چوڑائی اور بلندی وغیرہ کو استنباط نہیں کر سکتے تاکہ مکان کا کھوج لگائیں ہر ساکن جسم میں دو قسم کی دائمی حرکت موجود ہوتی ہے پہلی حرکت جو ایٹم کیاندر ہے اور گذشتہ صفحات میں ہم نے ذکر کیا ہے کہ الیکٹران ایٹم کے مرکز کے ارد گرد ایک سیکنڈ میں تین کیٹریلین مرتبہ چکر لگاتا ہے دوسری حرکت مالیکیولوں کی دائمی ارتعاش ہے اور ہر جسم کے مالیکیول سردی ہوچاہے گرمی ہو صفر سے دس کیٹریلین مرتبہ فی سیکنڈحرکت کرتے ہیں ۔

فرانسیسی ڈرامہ نویس مولیر جو فرانسیسی کامیڈی کا بانی ہے اس نے اپنے ایک ڈرامے کے ہیرو کے متعلق کہا کہ وہ زندہ تھا لیکن حرکت نہیں کر رہا تھا ۔

یہاں تک کہ مولیر خود بھی متعجب تھا کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک چیز حرکت نہ کرے اور وہ زندہ ہو ۔

آج یہ مذاق قابل قبول نہیں ہے اگر کوئی جسم ساکن ہوتو وہ مردہ ہے اور جعفر صادق (علیہ السلام ) کے بقول موت کے بعد بھی اس کے اندر حرکت جاری رہتی ہے لیکن دوسری شکل میں اور وہ حرکت دنیا کے آخری دن تک باقی رہتی ہے اگرچہ انسانی جسم سے بچنے والے ذات مادہ نہ رہیں اور توانائی میں تبدیل ہو جائیں اس صورت میں وہ توانائی کی شکل میں حرکت جاری رکھیں گے جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا جو کچھ ہے خالق کا گرویدہ ہے یہ نظریہ آج تک عرفانینظریہ سمجھا جاتا رہا نہ کہ علمی نظریہ ۔

جعفر صادق (علیہ السلام ) جن عرفا میں سے تھے ( لیکن آپ کا مخصوص عرفان دین اسلام پر مبنی تھا ) ان کا کہنا تھا کہ آدمی کی تخلیق کا یہ مقصد ہے کہ وہ آخر کار خداوند تعالی سے مل جائے ۔

وقت کے گزرنے کے ساتھ تصوف و عرفان کے گوناں گوں فرقے وجود میں آئیا ور یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نظریہ کے کچھ پیروکاروں نے بے باکی دکھائی اور خدا تک پہنچنے کے نظریئے کو خدا ہونا بنا لیا اور یہ وہی نظریہ ہے جو مشرق و مغرب کے عرفا میں وحدت وجود کے نام سے پھیل چکا ہے اور حتی کہ اپسی نوزا کی مانند ایک فلسفی بھی وحت وجود کے عرفانی مکتب کا پیرو کار بن گیا اور اس نے اپنے فلسفے کو وحدت وجود کی بنیاد پر لکھا اور چھپوا دیا ۔

عرفا کہتے تھے کہ چونکہ خدا کے علاوہ کوئی چیز موجود نہیں ہے لہذا جو کچھ ہے یعنی جسم اور روح درخت اور حیوانات اور چار عناصر سب خدا ہیں پس انسان بھی خدا ہے لیکن عرفان و تصوف و فلسفے کی تاریخ کے دوران اس نظریہ کا صرف ایک مرتبہ ڈنکا بجا اور وہ بھی ہالینڈ کے اپسی نوزا کی طرف سے سترھویں صدی کے نصف کے دوران میں ۔

اس وقت اپسی نوزا کی کتابوں کو نہیایت تیز ی سے جمع کیا گیا اور کتابیں چھاپنے والوں نے اس کی کتاب چھاپنے سے صاف انکار کر دیا چونکہ انہیں علم تھ اکہ ایسا کرنا ان کیلئے خطرناک ہے ۔

صوفیاء اور عرفان جو وحدت وجود کے قائل تھے نے اس نظریئے کو اصلاحات اور تعبیرات کی گھتی میں اس طرح الجھا دیا کہ ان کے علاوہ کوئی دوسرا اس سے کچھ بھینہیں سمجھ سکتا تھا جعفر صادق (علیہ السلام ) کی مذہبی ثقافت میں توسیع کی بعد مشرقی ممالک میں گوناگوں مسائل پر بحث آزاد ہو گئی تھی لیکن پھر بھی وحدت وجود کے حامیوں کو کھلم کھلا اپنا نظرہ بیان کرنے کی جرات نہیں ہوئی کیونکہ ان کے بعض خلفاء اور حکام متعصب تھے اور اس بات کا امکان تھا کہ وہ وحدت وجود کے نظریہ کے حامیوں کو قتل کر دیتے جو کوئی اس نظریئے کا حامی ہوتا اگر وہ قتل نہ بھی کیا جاتا تو مذہبی علما اس پر کفر کا فتوی ضرور لگاتے اورجس پر یہ فتوی لگ جاتا وہ جذام کے مریض سے بھی بد تر سمجھا جاتا اسے آبادی سے باہر نکال کر دور دراز مقام پر پہنچا دیا جاتا ۔

چونکہ جذام کے مریضوں پر رحم کھایا جاتا تھا انہیں زمین اور کھیتی باڑی کا سازو سامان مہیا کیا جاتا تاکہ وہ خود کاشت کریں اور اپنے لئے غلہ پیدا کریں جس پر ایک دفعہ کفر کا فتوی لگ جاتا تو اس پر کسی قسم کا رحمنہ کھایا جاتا اگر وہ کہیں کام کر رہا ہو تا تو اسے وہاں سے نکژال دیا جاتا اور کوئی اس کو کام نہ دیتا اگر وہ سودا گر ہوتا تو نہ اس سے کوئی سودا سلف کریدتا اور نہ اس کو سودا بیچتا اگر وہ صنعتکار ہوتا تو کوئی اس سے کسی چیز کے بنانے کیلئے رجوع نہ کرتا جب وہ اپنے گھر سے باہر آتا تو لوگ اسے تکلیف پہنچاتے اور اس پر عرصہ حیات اس قدر تنگ کر دیا جاتا کہ اس کیلئے گھر سے نکلنا محال ہو جاتا یہاں تک کہ وہ اپنا گھر چھوڑ کر ہجرت بھی نہ کر سکتا تھا یہی وجہ تھی کہ وحد ت وجود کے نظریے کے پیروکاروں نے اپنے نظریئے کو اصطلاحات اور تعبیرات کے لفافے میں اس طرح بند کیا کہ ان کے سوا کسی دوسرے کوخبر نہ ہوتی تھی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور مذہبی علماء ان کے اس کہنے کی بنا پر ان پر کفر کا فتوی نہیں لگا سکتے تھے ۔

صوفیا اور عرفا نے اپنی گفتگو کیلئے میکدہ ‘ ساقی ‘ ‘معشوق ‘ مینا ‘ ساغر اور مئے وغیرہ کی اصطلاحات ایجاد کر لیں اور جب فارسی زبان میں عرفانی شاعری کا رواج ہو ا تو ہ اصطلاحیں جوں کی توں شعر کی زبان میں داخل ہو گئیں اب وہ لوگ جو صوفی اور عارف نہیں تھے جو کچھ عارفوں نے شعروں میں کہا وہ ان کی سمجھ میں نہیں آیا اس طرح صوفیا اور عرفا کفر کے فتوی سیبچ گئے جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ تصوف اور عرفانی سوچ نے تیسری صدی سے زور پکڑا اور اس وقت صوفیا اور عرفا نے یہ خیال کیا کہ جعفر صادق (علیہ السلام ) کا یہ عرفان کہ ہر چیز خدا کی طرف لوٹتی ہے وحدت وجود کا عقیدہ ہے اور اپ کا بھی یہی عقیدہ تھا ۔

جب کہ جعفر صاد ق (علیہ السلام ) وحدت وجود کے معتقد نہ تھے اور مخلوق کو خالق سے جداجانتے تھے دین اسلام کے اصول کے مطابق آپ کا عقیدہ تھا کہ کائنات میں جو کچھ ہے خالق کا تخلیق کیا ہوا ہے بعد میں آنے والے زمانوں میں جب علوم کی درجہ بندی اس طرح کی گئی کہ عرفان اور فلسفہ کو علوم سے جدا کیا گیا علماء نے جعفر صادق (علیہ السلام ) کے اس نظریئے کو کہ ہر چیز خدا کی طرف لوٹتی ہے کہ عرفانی نظریہ سمجھا ہے نہ کہ علمی لیکن آج علماء پر علوم کے میدان میں یہ حقیقت واضح ہوئی ہے کہ جو کچھ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا تھا اس کا تعلق علم سے ہے نہ کہ عرفان سے

ابھی اس بارے میں دو ٹوک الفاظ میں اظہار خیال کرنا قبل از وقت ہے تمام چیزں صرف ایک چیز (جعفر صادق (علیہ السلام ) کے بقول خدا کی طرف پلٹی ہیں ۔

لیکن یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ہر دفعہ جب الیکٹران سے شعاع نکلتیہے تو وہ شعاع ایک طرف کو جاتی ہے اور جب تک اس کے راستے میں مقناطیسی قوت حائل نہ ہو وہ اطراف میں نہیں پھیلتی البتہ وہ اس صورت میں اطراف میں پھیلتی ہے جب برقی اور مقناطیسی لہر کا جزو شمار ہوں کہ اس صورت میں وہ اطراف میں پھیلتی ہیں یہی لہریں ہیں جن سے ٹیلی فون ‘ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کام کرتے ہیں ۔

ہم الیکٹرانوں کی ایک ہی سمت میں حرکت کو قطب نما کی سوئی کے ذریعے محسوس کر سکتے ہیں جو ہمیشہ شمال کی جانب رہتی ہے کہا جاتا ہے کہ کرہ زمین میں قطب نما شمالی قطب کے مقناطیسی میدان کی طرف کھنچا رہتا ہے اور اسی بنا پر قطب نما کی سوئی شمال کی جانب رہتی ہے ۔

قطب نما مسلمانوں کی ایجاد ہے اور جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ اس ایجاد نے سمندری سفر میں کافی مدد کی ہے اگر قطب نما ایجاد نہ ہوتا تو نہ تو پرتگال کا باشندہ واسکوڈے گاما پندرھویں صدی کی دوسری دھائی میں کشتی کے ذریعے جنوبی افریقہ ‘ ہندوستان پہنچ سکتا تھا اور نہ اٹیلی کا کرسٹوفرکولمبس اپنے زمانے میں کشتی کے ذریعے امریکہ دریافت کر سکتا تھا اور نہ پرتگالی ماجیلان اسپین کے بادشاہ کے خرچ پر کشتی کے ذریعے دنیا کے اطراف میں چکر لگا سکتا تھا اس طرحاس نے نا قابل تردید طور پر ثابت کیا ہے کہ زمین گول ہے جیسا کہ ہم مانتے ہیں کہ آج بھی قطب نما جہازرانی کیلئے انتہائی ضرورت ہے اس کے باوجود کہ ہوائی جہاز کا رابطہ ایئر پورٹ کیساتھ مسلسل قائم رہتا ہے اور کنٹرول ٹاور سے اسے ہدایات ملتی رہتی ہیں کوئی ہوائی جہاز قطب نما سے بے نیا زنہیں ۔

جب خلائی جہاز چاند پر پہنچے تو ان کے قطب نما کی سوئی اس طرح شمال کی جانب مڑی رہی اس پر سائنس دانوں نے گمان کیا کہ قطب نما ابھی تک زمینی مقناطیس کے زیر اثر ہے دوسرے ستاروں کی جانب جانے والے خلائی جہازوں میں قطب نما ابھی تک زمینی مقناطیس کے زیر اثر ہے دوسرے ستاروں کی جانب جانے والے خلائی جاہزوں میں قطب نما کچھ عرصہ کیلئے ناکارہ رہنے کے بعد ستاروں کے شمالی علاقے کی نشاندہی کرتا ہے ( اسے زمین کا شمال نہ سمجھا جائے ) اور اس طرح جیسے ہر جگہ شمال کی جانب رخ کرنے والی ایک مقناطیسی سوئی موجود ہے اور دوسرے سیاروں مثلا مریخ زہرہ اور مشتری کی جانب جانے والے خلافئی جہازوں میں کوئی دوسر چیز سامنے آئے جس سے ابھی تک لوگوں کو اطلاع نہیں ہے ۔ البتہ چونکہ آج اٹھارویں اور انیسویں صدی عیسوی کی مانند علمی معلومات رکھنے والے ان معلومات کو مفت لوگوں کے حوالے نہیں کرتے اس دور میں بعض علمی معلومات فوجی رازوں کا حصہ ہیں اور جو حکومتیں اپنے خلائی جہازوں یا مصنوعی سیاروں کی مدد سے یہ معلومات حاصل کر لیتی ہیں وہ انہیں ظاہر نہیں کرتیں ۔

ہمیں معلوم ہے کہ دوسرے سیاروں کی جانب سفر کرنے والے خلائی جہاز جن کو سفر میں کئی ماہ لگتے ہیں قطب نما کے بغیر سفر کرتے ہیں ۔

اس کے باوجود کہ چاند زمین سے نزدیک ہے چاند کی طرف سفر کرنے والے اپالو کو قطب نما کی ضرورت پیش نہیں آئی چونکہ قطب نما جب زمین کے مقناطیسی فیلڈ سے دور ہوتا ہے اس میں گڑ بڑ شروع ہو جاتی ہے اور وہ کسی خاص سمت کی نشاندہی نہیں کرتا ۔

بعض اوقات زمین پر بھی برقی فیلڈ کی موجودگی کی وجہ سے قطب نما فضا میں گڑ بڑ کرنے لگتا ہے اور قطب نما کی سوئی ہر لمحے مختلف سمتوں کی نشاندہی کرتی ہے چونکہ آج تمام بہر جہاز فولاد سے بنائے جاتے ہیں لہذا قطب نما کو ان میں اس طرح فٹ کیا جاتا ہے کہ وہ بحری جہاز کی دھات سے کوئی ربطہ نہ رکھتا ہو ورنہ اس میں خلل پڑ سکتا ہے اور یہاں تک کہ بعض اوقات ستر درجے تک غلطی کر جاتا ہے (قطب نما پر لگے ہوئے کل درجے تین سوساٹھ ہیں )۔

اگر کرسٹو فرکولمبس کے امریکہ کی جانب سفر کرنے والے بحری جہاز لکڑی کے بنے ہوئے نہ ہوتے اور لوہے کے بنے ہوتے تو وہ اٹالین کشتی ران ہر گز امریکہ دریافت نہ کر سکتا قطب نما کی غلطی اسے کسی اور سمت میں لے جاتی۔

موجودہ زمانے کے مشہور طبیعات دانوں میں سے ایک پروفیسر ڈاش ہے جو واشنگٹن یونیورسٹی میں پڑھاتا ہے یہ شخص جو ماہر فلکیات بھی ہے کائنات کے بارے میں ایک ایسا نظریہ رکھتا ہے جس سے جعفر صادق (علیہ السلام ) کے اس نظریئے کی تائید ہوتی ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ ہے اس نے خالق کی طرف لوٹنا ہے ہم سب جانتے ہیں کہ علم نے انیسویں صدی سے لے کرآج تک کائنات کی صورت و حرکت کی وضاحت کرنے پر توجہ دی ہے اور اس ضمن میں تین علماء کی جانب سے متعدد نظریات پیش کئے گئے ہیں لیکن یہ تمام نظریات صرف تھیوری کی حد تک محدود رہے ہیں ۔

علم کائنات میں موجود بعض قوانین مثلا قوت تجاذب کے قانون سورج کے اردگر د سیاروں کے گھومنے کا قانون اور آزاد اجسام کے گرنے کے قانون کی جانب توجہ دی ہے اور یہ تمام قوانین انیسویں صدی عیسوی میں پہلے دریافت ہو چکے تھے ۔

سائنس دانوں نے جو کچھ آج تک کائنات کی شکل و صورت اور حرکات ( محسوس ہونے والی حرکات کے علاوہ ) کے بارے میں کہا ہے اس کا تعلق تھیور ی سے ہے ۔

تبصرے
Loading...