فلسفه شهادت

امام حسین علیہ السلام کی تاریخ زندگی کہ جو تاریخ بشریت کی ہیجان انگیز ترین حماسہ کی شکل اختیار کرچکی ہے اس کی اہمیت نہ صرف اس وجہ سے ہے کہ ہر سال لاکھوں انسانوں کے جذبات کی طاقت ور موجیں اپنے اطراف کو شعلہ ور کرتی ہیں اور دوسرے تمام پروگراموں سے زیادہ اچھی طرح اس کو مناتے ہیں بلکہ اس کی اہمیت اس سے بھی زیادہ ہے :اس عظیم حرکت کا محرک صرف انسانوں کے پاک و پاکیزہ جذبات ہیں اور ہر سال اس تاریخی حادثہ کی یاد میں یہ دستہ عزاداری اور جلوس و ماتم جو بہت شان و شوکت سے منایا جاتا ہے اس کیلئے کسی مقدمہ چینی اور تبلیغات کی ضرورت نہیں ہے اور اس لحاظ سے یہ اپنی نوعیت میں بے نظیر ہے۔

ہم میں سے اکثر لوگ اس حقیقت کوجانتے ہیں، لیکن بہت سے لوگوں(خصوصا غیر اسلامی دانشوروں)کیلئے یہ بات واضح نہیں ہوئی ہے ان کی نظر میں ایک معمہ بن کر رہی گئی ہے کہ :

کیوں اس تاریخی حادثہ کو ”کیفیت و کمیت“کے اعتبار سے اتنی اہمیت دی جاتی ہے؟ کیوں اس حادثہ کی یاد کو ہر سال ، گذشتہ سال سے زیادہ جوش و ولولہ کے ساتھ منایا جاتا ہے؟

کیوں آج جب کہ ”بنی امیہ “ اور ان کے حوالیوں و موالیوں کی کوئی خبر نہیں ہے اور اس حادثہ کے وہ تمام لوگ فراموشی کے سپر د ہوچکے ہیں ، کیوں کربلا کا حادثہ ہمیشہ کیلئے زندہ اور باقی ہے؟

اس سوال کے جواب کو اس انقلاب کے اصلی علل و اسباب میں تلاش کیا جاسکتا ہے، ہم تصور کرتے ہیں کہ اس مسئلہ کا تجزیہ و تحلیل ان حضرات کیلئے جو تاریخ اسلام سے آگاہی رکھتے ہیں ، کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

واضح عبارت کے ساتھ یہ کہا جائے کہ کربلا کا خونی حادثہ جو نمودار ہوا وہ دو سیاسی رقیبوں کی جنگ کانتیجہ نہیں ہے کہ وہ ایک مقام و پوسٹ یا کسی زمین کو حاصل کرنے کیلئے جنگ کررہے تھے۔

اسی طرح یہ حادثہ دو مختلف گروہوں کے امتیازات و برتری کے کینہ و حسد کی وجہ سے وجود میں نہیں آیا۔

یہ حادثہ در حقیقت دو فکری اور عقیدتی نظریوں(مکاتب فکر)کی وجہ سے وجود میں آیا کہ جس کی بھڑکتی ہوئی آگ پوری تاریخ انسانیت میں گذشتہ زمانے سے اب تک ہرگز خاموش نہیں ہوئی ہے ، یہ جنگ تمام انبیاء اور دنیا میں اصلاح قائم کرنے والوں کی جنگ کودوام بخشتی ہے ، بعبارت دیگر جنگ ”بدر و احزاب“ کو دوبارہ تشکیل دیا جارہا ہے۔

سب جانتے ہیں کہ اس وقت پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ)نے ایک فکری اور اجتماعی انقلاب کے رہبر کے عنوان سے بشریت کو بت پرستی، خرافات اور جہل کے چنگل سے آزادی اور نجات دلانے کیلئے قیام کیا تھا۔اور جن لوگوں پر ظلم ہوا تھا اور حق کے طالب لوگ جو اس زمانے کو بدلنے میں سب سے اہم کردار ادا کررہے تھے پیغمبر اکرم نے ان سب کو جمع کیا، اس وقت اس اصلاحی قیام کے مخالف لوگ جن میں سب سے آگے آگے بت پرست ثروتمند اور مکہ کے سود کھانے والے لوگ تھے انہوں نے اپنی صفوں کو مرتب کیا اور اس آواز کو خاموش کرنے کیلئے انہوں نے اپنی پوری طاقت سے کام لیا اور اس اسلامی حرکت کے خلاف سب سے آگے آگے ”اموی گروہ“ جن کا سرکردہ اور سرپرست ابوسفیان تھا۔

لیکن آخر کار اس عظمت اور خیرہ کرنے والے اسلام کے سامنے اس کو گھٹنے ٹیکنے پڑے ، ان کی تمام انجمنیں بالکل نابود ہوگئیں۔

یہ بات واضح رہے کہ نابود ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ بالکل جڑ سے ختم ہوگئے بلکہ انہوں نے اسلام کے خلاف اپنی تمام تر کوششوں کو آشکار اور ظاہر میںانجام دینے کے بجائے پشت پردہ انجام دینا شروع کردیں(جو کہ ایک ہٹ دھرم، ضعیف اور شکست خوردہ دشمن کا حربہ ہوتا ہے) اور ایک فرصت کے انتظار میں بیٹھ گئے۔

بنی امیہ نے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ)کی رحلت کے بعد اسلام سے پہلی حالت کی طرف پلٹنے کیلئے ایک قیام کو ایجاد کرنے کی کوشش کی اور اس طرح انہوں نے اسلامی حکومت میں اپنا نفوذ قائم کرلیااور مسلمان، پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ )کے زمانے سے جتنا دور ہوتے جارہے تھے یہ لوگ حالات کو اپنے حق میں نزدیک دیکھ رہے تھے۔

خصوصا ”جاہلیت کی کچھ رسمیں“ جو بنی امیہ کے علاوہ کچھ لوگوں نے مختلف اسباب کی بنیاد پر دوبارہ زندہ کردی تھیں اس کی وجہ سے جاہلیت کے ایک قیام کے لئے راستہ ہموار ہوگیا، ان میں جاہلیت کی کچھ رسمیں مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ قوم پرستی کا مسئلہ جس کو اسلام نے ختم کردیا تھا ، بعض خلفاء کے ذریعہ دوبارہ زندہ ہوگیا اورعرب قوم کی غیر عرب کے اوپر ایک خاص برتری قائم کردی گئی۔

۲۔ مختلف طرح کی اونچ نیچ : روح اسلام کبھی بھی اونچ نیچ کو پسند نہیں کرتی ، لیکن بعض خلفاء نے اس کو دوبارہ آشکار کردیا اور ”بیت المال“ جو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ) کے زمانے میں مسلمانوں کے درمیان مساوی طور سے تقسیم ہوتا تھااس کو ایک دوسری شکل دیدی اور بہت سے امتیازات بغیر کسی وجہ کے کچھ لوگوں کو دیدئیے اور طبقاتی امتیاز دوبارہ ایجاد ہوگئے۔

۳۔ پوسٹ اور مقام جو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ) کے زمانے میں علمی ، اخلاقی لیاقت اور معنوی اہمیت کی بنیاد پر تقسیم کیا جاتا تھا ، اس کو قوم و قبیلہ میں بانٹ دیا گیا ، اور خلفاء کے خاندان و قبیلہ والوں میں تقسیم کردیا۔

اسی زمانے میںابو سفیان کا بیٹا ”معاویہ“ بھی حکومت اسلامی میں آگیا اور اسلامی علاقہ کی حساس ترین پوسٹ(شام) کی گورنری اس کو دیدی اور اس طرح جاہلیت کے باقی ماندہ افراد ، حکومت اسلامی پر قبضہ کرنے اور جاہلیت کی سنتوں کوقائم و دائم کرنے کیلئے تیار ہوگئے۔

تبصرے
Loading...