غزوہ بدر كا عظیم معركہ

قریش كى ناكام سازش

نبى (ص) كریم كے مدینہ رہنے كے كچھ عرصہ بعد،جنگ بدر كے واقعہ سے پہلے،جن دنوں آنحضرت (ص) مدینہ میں تشریف فرما تھے، كفار قریش نے عبداللہ ابن ابى بن سلول اور اوس و خزرج كے بت پرستوں كو ایك دھمكى آمیز خط لكھا جس میں تحریر تھا :

” مدینہ والوں نے ہمارے ایك مطلوبہ آدمى كو پناہ دے ركھى ہے، حالانكہ مدینہ والوں میں تمہارى تعداد بہت زیادہ ہے یا تو تم لوگ اسے قتل كر ڈالو یا اسے نكال باہر كرو نہیں تو پھر ہم خدا كى قسم كھا كر كہتے ہیں كہ یا تو پورے عرب كو تمہارے بائیكاٹ پر اكٹھا كرلیں گے یا پھر ہم سب مل كرتمہارے اوپر چڑھائی كردیں گے اور اس صورت میں تمہارے تمام جنگجوؤں كو تہہ تیغ اور تمہارى عورتوں كو اپنے لئے حلال كردیں گے ” ۔

جب یہ خط عبداللہ بن ابى اور اس كے بت پرست ساتھیوں تك پہنچا تو انہو ں نے ایك دوسرے كے ساتھ رابطے كر كے سب كو اكٹھا كیا اور سب آنحضرت (ص) كے قتل پر متفق ہوگئے ۔ جب یہ خبر نبى (ص) كریم اور آپ(ص) كے اصحاب تك پہنچى تو انہوں نے ایك گروہ كى صورت میں ان لوگوں سے ملاقات كى اور كہا : ” قریش كى دھمكیوں سے تم بہت ہى زیادہ متاثر ہوگئے ہو ۔ وہ تمہارے خلاف اتنى بڑى چال نہیں چل سكتے جتنى بڑى تم خود اپنے خلاف چل رہے ہو ۔تم تو اپنے بیٹوں اور بھائیوں كو قتل كرنا چاہتے ہو ۔” پس جب انہوں نے نبى (ص) كریم كى زبانى یہ الفاظ سنے تو منتشر ہوگئے اور آپ(ص) كے قتل سے دستبردار ہوگئے ۔ اور جب یہ بات قریش تك پہنچى تو ( وہ بہت جزبز ہوئے اور آپ(ص) كے خلاف جنگ كى تركیبیں سوچنے لگے جس كے نتیجے میں ) جنگ بدر كا واقعہ رونما ہوا۔ (1)

بدر كى جانب روانگی

سترہ  رمضان المبارك 2 ہجرى میں مسلمانوں اور مشركین مكہ كے درمیان بدر عظمى كى جنگ ہوئی ۔اور وہ اس طرح كہ غزوة العشیرہ میں مسلمانوں نے قریش كے جس قافلے كا پیچھا كیا تھا وہ ان سے بچ بچا كر شام نكل گیا تھا ۔آنحضرت(ص) پھر بھى اس كى تاك میں تھے، یہاں تك كہ اس كى واپسى كا آپ(ص) كو علم ہوا ۔ یہ قافلہ ابو سفیان كى قیادت میں كم و بیش تیس یا چالیس یا زیادہ سے زیادہ سترہ  سواروں پر مشتمل تھا جس میں قریش كا تجارتى سامان بھى موجود تھا۔ اس كى مالیت كے بارے میں اتنا تك بھى كہا جاتا ہے كہ اس سامان كى مالیت پچاس ہزار دینار كے برابر تھى ۔ حالانكہ اس وقت پیسوں كى بہت زیادہ قیمت ہوتى تھی (2)۔

بہرحال جب آپ(ص) كو اس قافلے كى آمد كا علم ہوا اور آپ(ص) نے مسلمانوں كو اس قافلے كى طرف جانے كا كہا تو لوگوں نے تردید كے ساتھ آپ(ص) كى آواز پر لبیك كہا، كیونكہ بعض تو فوراً آمادہ ہوگئے لیكن كچھ لوگوں نے پس و پیش كیا ۔ شاید وہ قریش كے انتقامى حملے سے ڈرتے تھے كیونكہ انہیں اس بات كا احساس تھا كہ قریش كے بنیادى مفادات كو نشانہ بنانا ان كے غضب اور انتقام كا باعث بن سكتا ہے ۔

اس كے متعلق كئی مؤرخین كہتے ہیں :” نبى (ص) كریم كى حكم عدولى كركے بہت سے صحابہ مدینہ میں رہ گئے اور ان لوگوں نے اس مشن پر جانا گوارا نہیں كیا ۔ اس مشن پر جانے كى بات پر بہت اختلاف اور لے دے ہوئی۔ كئی صحابیوں كو آپ(ص) كا اس مشن پر جانا بھى اچھا نہ لگا اور بعض صاحب رائے اور با بصیرت افراد بھى اس مشن پر نہیں گئے، كیونكہ انہیں جنگ چھڑ جانے كا گمان بھى نہیں تھا، وہ تو یہ سمجھ رہے تھے كہ یہ لوگ مال غنیمت كے حصول كے لئے جا رہے ہیں۔ اور اگر انہیں یہ گمان بھى ہوتا كہ وہاں جنگ بھى چھڑجائے گى تو وہ ہرگز پیچھے نہ رہتے بلكہ آپ(ص) كے ساتھ نكل پڑتے ”(3)۔

1۔ المصنف صنعانى ج 4 ص 358 و 359۔

2)اس كى مالیت كا اندازہ اس بات سے بھى لگا یا جاسكتا ہے كہ وہ مال دو ہزار سے بھى زیادہ اونٹوں پر لدا ہوا تھا ۔ مترجم۔

3)ملاحظہ ہو، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحدید ج 14 ص 85، المغازى واقدى ج 1 ص 20 و 12، بحار الانوار ج 19 ص 328 و سیرہ حلبیہ ج 2 ص 143۔

تبصرے
Loading...