علامہ اقبال کا حضرت فاطمة الزہراء (س) کی بارگاہ میں ہدیۂ عقیدت(۲)

رسول اﷲ (ص) کی نورِ چشمنورِ چشم رحمة للعالمینآن امام اولین وآخرینحضرت زہراء (س) آپ(ص) کی نورِ چشم ہیں، نہ صرف بیٹی ہیں بلکہ قرة العین ہیں، نورِ چشم ِ رسول اللہ (ص) ہیں یعنی آپ امام اول وآخر اور امامِ مطلق ہیں یعنی رسول اکرم (ص) علی الاطلاق اولین وآخرین کے امام و پیشوا ہیں۔ باقی سب رسول اللہ (ص) کے مقتدی ہیں اس رسول اللہ (ص) کی آنکھوں کی ٹھنڈک زہراء (س) ہیں، یہ بہت خوبصورت تعبیر ہے، رسول اللہ (ص) کی اپنی تعبیر بھی ہے آپ(ص) نے فرمایا:’فاطمہ قرّة عینی’آنکھوں کی ٹھنڈکفاطمہ (س) میری آنکھوں ک

علامہ اقبال کا حضرت فاطمة الزہراء (س) کی بارگاہ میں ہدیۂ عقیدت(۲)

رسول اﷲ  (ص) کی نورِ چشمنورِ چشم رحمة للعالمینآن امام اولین وآخرینحضرت زہراء (س)  آپ(ص) کی نورِ چشم ہیں، نہ صرف بیٹی ہیں بلکہ قرة العین ہیں، نورِ چشم ِ رسول اللہ  (ص) ہیں یعنی آپ امام اول وآخر اور امامِ مطلق ہیں یعنی رسول اکرم  (ص) علی الاطلاق اولین وآخرین کے امام و پیشوا ہیں۔ باقی سب رسول اللہ  (ص) کے مقتدی ہیں اس رسول اللہ  (ص) کی آنکھوں کی ٹھنڈک زہراء (س)  ہیں، یہ بہت خوبصورت تعبیر ہے، رسول اللہ  (ص) کی اپنی تعبیر بھی ہے آپ(ص) نے فرمایا:’فاطمہ قرّة عینی’آنکھوں کی ٹھنڈکفاطمہ (س)  میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، آنکھوں کی ٹھنڈک محاورہ ہے، یہ قلبی کیفیت بتانے کیلئے بولا جاتا ہے چونکہ انسان کی قلبی کیفیات، اندرونی اور نفسانی کیفیات مختلف ہوتی ہیں ان کیفیات کا اثر انسان کے جسم میں بھی ظاہر ہوتا ہے جیسا کہ رنگ میں بھی ظاہر ہوتا ہے، رنگ ایک ذریعہ ہے انسان کے باطن کو دیکھنے کا، مثلاً اگر انسان خوفزدہ ہو تو ان کے چہرے کا ایک طرح کا رنگ ہوتا ہے اگر خوشحال ہو ایک اورطرح کا رنگ ہوتا ہے، خصوصاً چہرے کا رنگ تبدیل ہوجاتا ہے، خصوصاً جب انسان نااُمید اور مایوس ہوجائے تو سیاہ رنگ اس کے چہرے پر آجاتا ہے جس سے اس کی مایوسی کا پتہ چلتا ہے اور جب انسان کو غصہ آتا ہے تو اس کا رنگ سرخ ہوجاتا ہے اور جہاں خوف میں مبتلا ہوتا ہے اس کا رنگ زرد ہوجاتا ہے، یہ مختلف رنگ مختلف موقعوں پر بدلتے رہتے ہیں، یہ بدلتے رنگ کیا بتاتے ہیں؟ قلبی کیفیت بتاتے ہیں کہ اس کے اندر کیا ہورہاہے۔از جملہ انسان کے اندام واعضاء میں سے ایک عضو جو انسان کے باطن کی غمازی کرتا ہے، وہ آنکھ ہے جو انسان کے اندرونی حالات کی غمازی کرتی ہے۔ آنکھ کا ایک عمل یہ ہے کہ دیکھتی ہے لیکن اس کا دوسرا کام آنسو ہیں، آنکھوںمیں جو رطوبت ہے جو اس کی بقا کیلئے ضروری ہے، یہ رطوبت کبھی بڑھ جاتی ہے اور آنسو بن کر ٹپک پڑتی ہے، یعنی آنکھ کا پانی ایک حوض ہے اور خدا نے آنکھ کو اس حوض میں رکھا ہوا ہے۔ مخصوص پانی ہے جو اس کیلئے بنایا گیا ہے۔ یہ پانی جس کے اندر آنکھ رکھی گئی ہے اس کی بہت زیادہ خصوصیات ہیں، اگر ہم ان آنسوئوں کو سائنسی طور پر یا فزیکلی طور پر دیکھیں تو کچھ اور مسائل سامنے آئیںگے لیکن اگر ہم اسے نفسیاتی دید سے دیکھیں تو کچھ اور مسائل سامنے آتے ہیں، آنکھوں کی رطوبت میں جب طغیانی آجاتی ہے تو یہ آنسو بن کے ٹپک پڑتی ہے، یہ کب ہوتا ہے؟ ایک تو پیاز کاٹنے سے ہوتا ہے سب کی آنکھوں پر اس کا اثر ہوتا ہے چونکہ پیاز کے اندر ایسی خصوصیت ہے جس سے آنکھ کے اندر تیزابیت پڑتی ہے یا دیگر اس قسم کی چیزیں ہیں جن سے آنسو نکل آتے ہیں جیسے آنسو گیس وغیرہ لیکن یہ آنسو کے بیرونی عامل ہیں اندرونی نہیں ہیں۔  کبھی باہر سے کچھ نہیں ہوتا بلکہ انسان کے اندر ایک ایسی نفسانی، ذہنی اور قلبی کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ جس سے یہ حوض اُمڈ پڑتا ہے اور اس میں سیلابی حالت پیدا ہوجاتی ہے۔ خود اقبال کے بقول کہدرد کسی عضو میں ہو روتی ہے آنکھکس قدر سارے جسم کی ہمدرد ہوتی ہے آنکھجب جسم کا کوئی عضو دُکھتا ہے تو اس پر یہ آنکھ گریہ کرتی ہے، بہت ہمدرد ہے پورے بدن کی ہمدرد ہے، بال دُکھے تو آنکھ روتی ہے، ناخن دُکھے تو آنکھ روتی ہے لیکن جب آنکھ دُکھے تو کوئی بھی نہیں روتا، آنکھ دُکھے تو آنکھ ہی روتی ہے، اپنے اوپر بھی روتی ہے اور دوسروں کے اوپر بھی روتی ہے یہ رونا بہت معنی خیز ہے، یہ سیلاب انسان کے اندر بہت ساری کیفیات کی وجہ سے اُمڈ پڑتا ہے انسان کے اندر بہت ساری کیفیات ہیں جیسے خوف، غم، اندوہ، پریشانیاں اور خوشی ہے۔ خوشی اور غم کے آنسوآنسو دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک آنسو وہ ہوتا ہے جب غم کی کیفیت دل میں آتی ہے تو دل متأثر ہوتا ہے اور یہ قلبی کیفیت جسم پر اثرانداز ہوتی ہے کہ جسم کی رنگت تبدیل ہوجاتی ہے اور کبھی یہ قلبی کیفیت موجب بنتی ہے اور آنکھوں کے حوض میں طغیانی آجاتی ہے، ایک لڑی سی آنسوئوں کی بن جاتی ہے، بعض بہت روتے ہیں غم کاآنسو گرم ہوتا ہے، محسوس بھی ہوتا ہے جب گال پر ٹپکتا ہے پتہ چلتا ہے کہ گرم ہے، محسوس بھی ہوتا ہے جب گال پر ٹپکتا ہے پتہ چلتا ہے کہ گرم ہے، ہاتھ پر ٹپکے تو پتہ چلتا ہے کہ گرم آنسو ہے یہی آنسو خوشی کے وقت بھی ٹپکتا ہے یعنی انسان جب غیر معمولی خوشحال ہوتا ہے تو اس کے آنسو نکل آتے ہیں لیکن یہ آنسو معمولی خوشی پر نہیں نکلتے چونکہ یہ معمول کی تھوڑی سی خوشی ہے، اتنی نہیں کہ دل کو اُبھارے، اُکسائے، اتنا انبساط دل  میں پیدا کرے کہ دل اُچھلنے لگے اور قلبی کیفیت جسم کے اندر ظاہر ہو اور اس حوض میں طغیانی آجائے، لیکن جب غیر معمولی خوشی، غیر معمولی خوشحالی اور سرور انسان کو محسوس ہوتا ہے تو اس وقت یہ کیفیت جسم پر طاری ہوتی ہے پھر یہ حوض اُمڈ پڑتا ہے اور ٹپکنا شروع ہوجاتا ہے، اگر آپ خوشی کے وقت غور کریں تو جو آنسو ٹپکتا ہے وہ ٹھنڈا ہوتا ہے گرم نہیں ہوتا ہے، کیوں؟ اس لئے کہ غم کے وقت انسان کا ٹمپریچر زیادہ ہوجاتا ہے، آنکھ، حوض اور اس کا پورا نظام سارے کا سارا گرم ہوتا ہے لہٰذا وہ اس پانی کو بھی گرم کردیتا ہے۔ خوشی سے انسان میں خنکی ٹھنڈک آتی ہے حرارت نہیں آتی، ٹمپریچر بڑھتا نہیں ہے، خنکی محسوس ہوتی ہے، پورے بدن میں ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے تو یہ حوض بھی ٹھنڈا ہوجاتا ہے، اس کے اندر پانی بھی ٹھنڈا ہوجاتا ہے اور اس میں طغیانی آجاتی ہے جب یہ ٹپکتا ہے تو ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ سرد اور ٹھنڈے آنسو دلیل ہیں کہ انسان کو کسی چیز نے خوشحال کیا ہے۔ رسول اللہ  (ص) نے نماز کے بارے میں فرمایا:’الصلٰوة قرّة عینی’ نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، یعنی کیا؟ یعنی نماز سے مجھے فوق العادة خوشی محسوس ہوتی ہے، سرور محسوس ہوتا ہے، لطف اور مزہ آتا ہے۔ میری آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتی ہیں یعنی میرے دل پر سرور حاصل ہوتا ہے اور ایک یہ فرمایا کہ’فاطمة قرة عینی’حضرت زہراء (س)  کو دیکھ کر میری آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتی ہیں یعنی زہراء (س)  کو دیکھنے سے میرے اندرجو سرور پیدا ہوتا ہے وہ اس قدر فوق العادة اور غیر معمولی ہوتا ہے جس سے میری آنکھوںمیں ٹھنڈک پیدا ہوجاتی ہے، رسول اللہ  (ص) کا نفس کوئی احساساتی نفس نہیں ہے بلکہ آپ رسولِ کامل اور انسانِ کامل ہیں یعنی وہ ذات جس پر احساسات غلبہ نہیں کرتے۔ وہ رسول (ص) جب بیٹی کو دیکھتا ہے تو آنکھوں میں ٹھنڈک آجاتی ہے، ظاہر سی بات ہے کہ یہ احساساتِ پدرانہ نہیں ہیں۔ یہاں دو چیزیں ہیں ایک نگاہِ رسول اللہ  (ص) اور ایک وجودِ زہراء (س) ۔ حضرت زہراء (س)  کو بہت سارے لوگ دیکھتے تھے، آیا ان کو بھی ٹھنڈک محسوس ہوتی تھی، نہیں، کیوں؟ اس لئے کہ دیدِ رسول اللہ  (ص) غیر رسول اللہ  (ص) میں نہیں تھی، دیدِ رسول(ص) فقط رسول اللہ  (ص) میں تھی۔ کیونکہ رسول اللہ  (ص) جس کو دیکھتے ہیں الٰہی دید سے دیکھتے ہیں۔’ المومن ینظر بنور اﷲ’اس لئے زہراء (س) میں رسول اللہ  (ص) کو وہ چیزیں نظر آتی ہیں جو دوسروں کو نظر نہیں آتیں اور پھر رسول اللہ  (ص) کی ذات اور نفسِ رسول اللہ  (ص) پر زہراء (س)  اثر انداز ہوتی ہیں اور باعث سرورِ قلب رسول اللہ  (ص) بنتی ہیں۔آنکہ جان درپیکر گیتی دمیدروزگارِ تازہ آئین فریدوہ رسول اللہ  (ص) جس نے اس جہان کے اندر ایک تازہ روح پھونک دی، مردہ عالم کے اندر آکر ایک روح پھونک دی، اس جہان کے اندر ایک نیا اور تازہ آئین اور دین لے کر آئے اور اس کے ذریعے بشریت کو زندہ کیا۔ فاطمہ  بانوئے تاجدارِ ہل اتیٰبانوئے آن تاجدارِ ہل أتیٰمرتضیٰ  مشکل کشاء  شیرِ خدا دوسری نسبت یہ ہے کہ حضرت زہرا   اس تاجدار کی زوجہ ہے جس کے سر پر تاجِ ہل أتیٰ رکھا ہوا ہے، یعنی جس کے سر پر سورۂ دہر کا تاج رکھا ہوا ہے۔’ہل أتیٰ علی الانسان حین من الدھر’اس سورة کانام سورۂ انسان بھی ہے، جسے سورۂ دہر بھی کہتے ہیں۔ یہ وہ سورہ ہے جس میں انسان کا مقام و مرتبہ پیش کیاگیا ہے، اس سورہ کی آیات میں جو انسان مقصود ہے وہ ذاتِ گرامی ٔ امیرالمومنین  ـ ہے، یعنی یہ سورہ حضرتِ علی  ـ کی شان میں نازل ہوئی ہے، یہ تاجِ قرآنی( ھل اتیٰ) جس تاجدار کے سر پر ہے فاطمة الزہراء (س)  اس کی زوجہ اور اس کی بانو ہے۔  مرتضیٰ یعنی صاحبِ مقامِ رِ ضا، مشکل کشاء یعنی جو ہر ایک کی مشکلات حل کرنے والا ہے اور شیرِ خدا یعنی بہادر اور دلیر۔ اس تاجدار کی یہ زوجہ ہیں۔ یہ وہ رشتہ نہیں جس طرح سے معمولی رشتے ہوتے ہیں، بلکہ یہ رشتہ حکمِ خدا سے وجود میں آیا ہے غیر از امیرالمومنین (ع)حضرت زہراء (س)  کا کفو کوئی بھی نہیں تھا۔ ہمسری یعنی ہم پلہ ہونا، ہمسر کا معنی زوج نہیں ہوتا لیکن زوج کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ ہمسر یعنی ہم مرتبہ، ہمسری یعنی ہم مرتبہ ہونا یعنی دو ایسے افراد کہ جب وہ کھڑے ہوں تو ان کے سر برابر ہوں، اوپر نیچے نہ ہوں اگر ایک نیچے ہو اور ایک اوپر تو یہ ہمسر نہیں ہے ایک کوتاہ ہے اور ایک بلند ہے ہم پلہ اور ہم مرتبہ نہیں ہیں، دونوں ایک جیسے ہم مرتبہ اور ہم پلہ ہوں تو ان کو ہمسر یا کفو کہتے ہیں۔ اس تاجدار’ ھل اتیٰ’ کی بانو ہونے کیلئے، ہمسر بننے کیلئے ہم مرتبہ ہونا ضروری ہے، ہم پلہ ہونا ضروری ہے، ہم پلہ ہونے سے مراد صرف جسمانیت نہیں ہے بلکہ ہم پلہ یعنی کمالات اور فضائل جو امیرالمومنین  ـ کی ذات میں ہیں ان کا ایک نمونہ حضرت زہراء (س)  میں ہونا ضروری ہے ورنہ ہم پلہ، ہمسر اور کفو نہیں بن سکتے۔پادشاہ و کلبہ ایوان اویک حسام ویک زرہ سامان اوجس تاجدار کا ایوانِ بادشاہت اور اس کا قصرِ بادشاہی ایک کلبہ اور جھونپڑا ہے، کلبہ یعنی جھونپڑا اس بادشاہ کی کل متاع ہے اور تمام سامانِ زندگی کیا ہے؟ یک حسام ویک زرہ سامان اوایک شمشیر اور ایک زرہ کا مالک ہے، حسام شمشیر کو کہتے ہیں۔ یہ اس بادشاہ کی زوجہ ہے، اس بادشاہ کی ملکہ ہے جس کا قصرِ بادشاہی ایک جھونپڑا اور جس کا کل مادّی سامان ایک زرہ اور ایک تلوار ہے، یعنی اقبال یہ بتانا چاہتے ہیں کہ فضیلتِ انسانی ان اُمور سے حاصل نہیں ہوتی اور فضائل اپنے ساتھ منسوب کرنے سے انسان بڑے نہیں ہوتے۔ایک مصنف نے بڑی خوبصورت تعبیر کی ہے، بہت زیبا اور سنہری الفاظ سے لکھے جانے کے قابل جملہ ہے کہ کائنات کی عظیم ترین شخصیات مادّی دُنیا کے لحاظ سے غریب ترین گھر یعنی جھونپڑے میں پیدا ہوئے اور آج دُنیا کی عظیم ترین عمارتوں کے اندر گھٹیا ترین لوگ پیدا ہورہے ہیں۔ پس یہ نہ سمجھنا کہ ان چیزوں سے شخصیت بن جاتی ہے، گھروں، محلوں، پلاٹوں، گاڑیوں، لباس، زیورات اور اموال سے کسی کی شخصیت نہیں بنتی، یہ تاجدارِ ہل اتیٰ کا گھر، اس کا قصر ایک جھونپڑا ہے اور اس کا کل سامان ایک زرہ اور ایک تلوار ہے اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے لیکن تاجدارِ ہل اتیٰ ہے اور یہ اس کی بانو ہے، اس کی بانو کو بھی یوں نہ سمجھنا کہ اس کے پاس املاک ہیں، جاگیریںاور سرمایہ ہے کیونکہ یہ چیزیں تو باعث عظمت نہیں ہیں یہ دو نسبتیں تھیں۔ اب تیسری نسبت کی طرف اقبال آتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ زہراء (س)  کیا ہے؟فاطمہ زہراء (س) مادرِ مرکز پرکارِ عشقمادرِ آن مرک



source : abna

تبصرے
Loading...