عفت كلام اور عفت كردار

 

عفت، تعفّف، عفاف، استعفاف جیسے كلموں میں تحقیق سے، پردہ پوشی، پاك دامنی اختیار كرنا، پاكدامنی اور پارسائی وبلند طبیعت كے مالك ہونے كی خواہش ركھنا جیسے معانی حاصل ہوتے ہیں ۔ 1

عفت كے بہت سے جلوے اور مظاہر ہیں كہ ہم انھیں تین حصوں میں جمع كر سكتے ہیں ۔ 2

1۔ عفت خیال

2۔ عفت كلام

3۔ عفت كردار 3

عفت خیال

شاعر عجم فردوسی كہتے ہیں۔

ز روز گذر كردن اندیشہ كن

پرستیدن دادگر پیشہ كن

ہر روز تیری عمر گذری جان لے

انصاف ورہی لائق سجدہ مان لے

انسان تفكر اور فكر وخیال كا مالك ہے ۔ فكر كرنا زمینہ كی فراہمی چا ہتا ہے ۔ ہر قسم كا اچھا یا بُرا واقعہ، حادثہ خاكہ، نقشہ، ڈیزائن ہماری فكر و سوچ كا موضوع قرار پاسكتا ہے یقینا كسی چیز كی سرو سامانی میں غور وفكر كرنے كا نیتجہ اچھا ہی ہوتا ہے جس طرح ناروا و ناجائز امور میں غور وفكر كے نتائج بُرے ہوا كرتے ہیں ۔ غور وفكر میں عفت اور خٰیال كی پاكیزگی یعنی فكر كو آلودہ اور نامناسب چیزوں میں غور وفكر سے دور ركھنا ہے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں:

من كثر فكرہ فی المعاصی دعتہ الیھا؛ 4 جو شخص گناہوں میں زیادہ غور وفكر كرتا ہے گناہوں كے بارے میں سوچتا ہے گنا ہ اسے اپنی طرف دعوت دیتے ہیں ۔

حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام فرماتے ہیں:

ان موسیٰ امركم ان لاتزنوا واناآمركم لاتحدثواانفسكم بالزنافضلاعن ان تزنوا؛ 5 حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تمہیں حكم دیا ہے كہ زنانہ كرو اور میں تمہیں حكم دیتا ہوں كہ اپنے فكر وخیال میں زنا كے بارے میں بھی نہ سوچو زنا كرنا تو دور كی بات ہے ۔

شاعر حافظ شیرازی كہتے ہیں:

گر مرید راہ عشقی فكر بدنامی مكن

شیخ صنعان خرقہ رھن خانہ خمار داشت

چل نكلا ہے عشق كے رستے پھر كاہے كو ڈرتا ہے

خرقہ تقویٰ نذر ساقی شیخ بھی كركے پیتا ہے

عفت كلام

زندگی كا سبق سكھانے والے مذہب اسلام نے گفتار وكلام كے لئے سعادت آفرین ساز و سامان اور اسلوب گفتگو پیش كئے ہیں قرآن مجید نے مختلف مكالموں اور كلام و بیان كے لئے گوناگون صفتیں بیان كی ہیں جیسے گفتار معروف 6 یعنی شائستہ گفتگو، گفتار حسن 7 یعنی اچھی گفتگو، گفتار احسن 8 یعنی بہترین گفتگو، گفتار لیّن 9 یعنی نرم وملایم گفتگو، گفتار بلیغ 10 یعنی رساو پاكیزہ گفتگو، گفتار سدید 11 یعنی محكم واستوار گفتگو، گفتار كریم 12 یعنی كریمانہ گفتگو ۔

عفت كلام كے میدان میں تین موضوعات پر جستجو و تفحص كرنا چاہئے آواز كیسی ہو؟ گفتگو كا انداز كیا ہو؟ اور گفتگو كا مضمون كیا ہو؟

الف) آواز كیسی ہو؟

اسلامی كلچر واخلاق میں آواز كے آہنگ اور اس كے اونچے نیچے ركھنے پر بھی بڑی توجہ دی گئی ہے اور گفتگو كے دوران عفت وادب كا پاس ولحاظ ركھنا اسلامی اخلاق كے بر ترین جلوؤں كا حصہ ماناگیا ہے ۔ جناب لقمان حكیم اپنے فرزند سے آواز كو نیچی ركھنے كے سلسلے میں فرماتے ہیں:

(واغضض من صوتك ان انكر الاصوات لصوت الحمیر) 13 اپنی آواز كو نیچی ركھو اس لئے كہ سب سے نا پسند یدہ اور مكروہ آواز گدھے كی آواز ہے اللہ تعالیٰ كا ارشاد ہے:

(لا ترفعوا اصواتكم فوق صوت النبی)؛ 14 اپنی آوازوں كو نبی كی آواز پر بلند نہ كرو ایك حدیث میں آیا ہے كہ:

(ولا ترفع صوتك فوق اصواتھما)؛ 15 اور تم اپنی آواز كو ان دونوں (ماں باپ) كی آواز پر بلند نہ كرو ۔ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اپنی دعا میں فرماتے ہیں:

(اللھم خفض لھما صوتی)؛ 16 خدایا! ان دونوں (ماں باپ) كے لئے میری آواز كو نیچی كردے۔

بے شك چیخنا چلانا، تیز تیز آواز سے بات كرنا، فریاد كرنا، عفت كلام كے جلوہ سے باہر پہلا قدم ہے البتہ یہ ضروری ہے كہ ہم اس استثناء كی طرف بھی اشارہ كرتے چلیں جس میں قرآن مجید فرماتا ہے:

(لا یحب اللہ الجھر بالسوء من القول الاّ من ظلم وكان اللہ سمیعا علیما)؛ 17 اللہ تعالیٰ كسی كی بُری گفتگو كا تیز آواز سے سننا پسند نہیں كرتا مگر جس پر ظلم ہوا ھو اور اللہ سب كی سننے والا اور سب كچھ جاننے والا ہے۔

شاعر نامدار شیخ سعدی فرماتے ہیں:

سخن بہ لطف وكرم بادرشت خوی مگوی

كہ زنگ خوردہ نگردد بہ نرم سوھان پاك

نرمی سے گفتگو نہ كرو بد مزاج سے

پانی سے مورچاكبھی صیقل نہیں ھوتا

ب) انداز گفتگو كیسا ہو؟

گفتگو كرنے كا انداز بھی متفاوت ہوا كرتا ہے كبھی گفتگو نرمی و عطوفت كے ساتھ ہوتی ہے تو كبھی غیض وغضب كے ساتھ، كبھی وقار واحترام بر قرار ركھنے كے ساتھ ہوتی ہے تو كبھی ناز و نخرہ كے ساتھ۔، ناز و نخرہ كے ساتھ نا محرموں سے گفتگو بلاشك و شبہ گفتار میں بے عفتی كا ایك مظہر ہے خدا وند متعال نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ آلہ وسلم كی ازواج كو خطاب كركے فرمایا ہے:

(فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض)؛ 18 ”دیكھو گفتگو ناز ونخرہ كے ساتھ نہ كرو كہ جس كے دل میں بیماری ہے وہ لالچ میں پڑجائے” ۔

ج) مضمون گفتگو كیا ہو؟

گفتگو كے دوران آواز كی كیفیت جاننے اور انداز گفتگو كی معرفت حاصل كرنے كے بعد اب ہم مضمون گفتگو كے بارے میں تفحص كریں گے ۔ ہر لفظ كسی ایك یا كئی معانی كا مظہر ہوتا ہے بعض معانی خو شایند اور پسندیدہ ہوتے ہیں اور بعض معانی منفور اور ناپسندیدہ ہوتے ہیں۔

كلمات كی پاكیزگی كو زیادہ تر اس كے معانی و مطالب سے مقایسہ كیا جاتا ہے دنیا كی ادبیات اور اسلامی ثقافت میں بہت سے كنایوں كے ظہور و وجود پانے كی حكمت “ادبی عفت” كا پاس ولحاظ ركھنے میں مضمر ہے قرآن مجید جو كہ عفت كلام كی تجلی گاہ ہے اس نے ناپسندیدہ معانی كے لئے مسلسل كنایوں سے كام لیا ہے 19 آج كی دنیا كے عالمی كلچر میں ایك بہت بڑی مصیبت عالمی ادبیات كا عفت بیان سے جدا ہونا ہے ۔ برہنہ الفاظ نے تحریر و نگارش كے میدان كو گندیدہ بنادیا ہے اسلام كی با عظمت ثقافت نے عفت كلام و بیان كی حفاظت كے لئے ایسے كلام سے جو عفت و پاكیزگی سے دور ہیں مقابلہ كیا ہے اب ہم آپ كی توجہ ان میں سے چند دستور كی طرف مبذول كراتے ہیں۔

پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ آلہ وسلم فرماتے ہیں:

(ومن فاكہ امراۃ لا یمكلھا حبسہ اللہ بكل كلمۃ كلمھا فی الدنیا الف عام)؛ 20 ”جو شخص كسی ایسی عورت سے مزاح كرے جو اس كی ملكیت میں نہ ہو (بیوی یا محرم نہ ہو) خدا وند متعال دنیا میں اس كی گفتگو كے ہر ہر كلمہ كے بدلے ہزار ہزار سال محبوس كردے گا”۔ 21

روایات میں آیا ہے: كسی عورت كے محاسن كی كسی مرد كے سامنے توصیف نہیں كرنی چاہئے كہ وہ فریفتہ ہو كر گناہ میں مبتلا ہوجائے ۔22

روایات میں آیا ہے: عورت كو اپنے شوہر كے ساتھ جنسی روابط سے متعلق اسرار سے كسی دوسری عورت كو باخبر نہیں كرنا چاہئے۔ 23

اس سے بہتر سبق كہ جسے قرآن مجید نے ہمیں سكھایا ہے وہ یہ ہے كہ: ان ناداروں كی عزت نفس كو جنھوں نے ثروتمندوں كے آگے ہاتھ پھیلاكر اپنی عزت وآبرو كو قربان نہیں كرتے ”عفت” سے تعبیر كیا ہے وہ اپنے نفس و جان پر فقر وتنگدستی كے دردناك زخموں كو برداشت كرتے ہیں لیكن لبوں كو دوسروں كے سامنے نہیں ہلاتے۔ یہ لوگ عفت كلام كے مالك ہیں اور یہ عاجزانہ درخواستیں ان كے حریم عفاف كو صدمہ پہنچا سكتی ھیں قرآن مجید كا ارشاد ہے:

(یحبسھم الجاھل اغنیاء من التعفف)؛ 24 ”عفت و پاكدامنی كی وجہ سے نادان لوگ انھیں ثروتمند سمجھتے ہیں ”۔

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

(العفاف زینۃ الفقر)؛ 25 ”فقرو فاقہ كا نہ بیان كرنا، ناداری و لاچاری كاقصہ نہ كہنا اپنی ضرورتوں كو نہ بیان كرنا حاجتوں كے آگے اپنے لبوں كو بند ركھنا، فقرو تنگدستی كی زینت اور كلام كی عفت ہے”۔

اسلامی اخلاقیات كی اہانت، تحقیر، استھزاء، لقب سے پكارنا، نمامی و چغلخوری، گالی گلوج، فحشاء منكرات كی نشر و اشاعت و غیرہ سے نبرد آزمائی، درحقیقت عفت كلام كا پاس و لحاظ ركھنے كے لئے ہے ۔26

عفت كردار

چال چلن میں تقویٰ اختیار كرنا، كردار میں عفت وپاكدامنی كا خیال ركھنا، فردی و اجتماعی زندگی كے مختلف مراحل كو شامل ہے، جیسے پہناوے میں عفت یعنی ایسے لباس اور پہناوے كو انتخاب كرنا جودینی تشخیص، اخلاقی اقدار، اور انسان كی عظیم اور معاشرتی پہلوؤں سے ساز گاری ركھتا ہو اور انسان كو بدن نمائی اور سلائی وغیرہ كے ماڈل كی نمائش دكھانے والے میں نہ تبدیل كردے۔ ثقافتی، اقتصادی، سیاسی میدان، ہوا وہوس كی عریانیت كاجلوہ گاہ نہ بن جائیں، اور عقلانی، دینی، اخلاقی اور انسانی تجلیوں كے بجائے بے لگام حیوانیت میدان میں نہ اتر پڑے۔

حجاب كا مسئلہ اسلام كی نظر میں وہی پہناوے میں عفت كا دوسرا نام ہے عفت كردار كا ایك اور شعبہ، جنسی عفت، اسلامی ثقافت میں مندر جہ ذیل پہلوؤں كی حامل ہے ۔

1۔ الودہ نگاہوں سے پرہیز 27

2۔ نامحرم كے ساتھ تنہائی میں بیھٹنے سے پرہیز 28

3۔ بدن كا كسی نا محرم سے مس نہ ہونا 29

4۔ غیر شرعی آمیزش یا استمناء سے پرہیز 30

5۔ معاشرہ میں تحریك آمیز جلوہ نمائیوں سے پرہیز 31

6۔ فحشاو منكرات كے لئے واسطہ نہ بننا 32

7۔ تحریك آمیز علل واسباب سے پرہیز 33

اسلامی روایات میں ان تمام پرہیزوں كو ”عفتِ فرج” یعنی شر مگاہ كی پاكدامنی كے عنوان سے یاد كیا گیا ہے ۔ عفت كے عملی مظاہر میں سے ایك عفتِ اقتصادی بھی اسلامی ثقافت میں شمار كیا گیا ہے كہ جسے اسلامی روایات میں “عفت بطن” یعنی شكم كی عفت سے یاد كیا گیا ہے ۔ 34

كراد كی مسیر بے عفتی

آج كل مغربی زندگی كی بنیادوں پر بے عفتی كے (كینسرے) نے اپنے پنجے گاڑ دیئے ہیں ۔ عریا نیت كا دیوپیكر كلچر تمام انسانی اخلاقی اقدار كو نگل رہا ہے اور تمام تر سعادتوں كو كھائے جا رہا ہے عریانت اور بے عفتی كے كلچر نے مغربی دنیا كی زندگی كے چار شعبوں پر اپنا سایہ سایہ پھیلا ركھا ہے ۔

1۔ شعبۂ ادب: رنساس، اور رومان نویسی كے پھیلاؤ كے بعد جنسی رومان جو كہ بیہودہ گو، بدزبان قلمكاروں كی بے ادبی اور عفت قلم سے بے پرواہی كا مظہر ہے بكتابیں ازار میں آگئیں اور دھڑا دھڑا ترجمہ ہونے لگیں ۔

2۔ شعبہ ھنر: نقاشی اور نمائش، جسمانی وغیر جسمانی ہنر نمائی بھی عریانیت كے ہمراہ ہو گئیں جشن اور ہنری میلے عفت سوز اور اخلاق و انسانیت سے دور ہوگئے تعجب خیز تو یہ ہے كہ حضر ت مریم علیہا السلام كی نیم عریاں تصویر بنا ڈالی گئی 35

3۔ شعبہ ورزش: آج كی دنیا میں چار قسم كے كھیل مرسوم ہیں، مشرقی كھیل جیسے پرانے زمانے كے كھیل كودمغربی كھیل جیسے فٹ بال، باسكٹ بال، جیمناسٹك، مغربی كشتی وغیرہ، مغربی كھیلوں كے خصائص میں سے ایك عریانی اور بدن كے بعض اندام كی خلافِ معمول نمایش اور بے عفتی ہے كہ ہم اس سلسلے میں “مغربی كلچر پر تبصرہ” كے عنوان سے گفتگو كریں گے ۔

4- شعبہ معماری: پرانی عمارتوں میں پردوں كا بڑا معقول انتظام ہوا كرتا تھا ایران كے بہت سے پرانے گھروں میں دو حصہ (بیرونی و اندرونی) ہوا كرتا تھا باہری حصہ مہمانوں یا بیگانوں كی آمد و رفت كے لئے فراہم ہوتا تھا اور اندرونی حصہ گھر والوں اور محرموں كی آسائش وآرام كے لئے بنایا جاتا تھا، گھروں كے دروازے پردو جداگانہ كنڈی ہوا كرتی تھی ایك مردوں سے مخصوص كنڈی ہوتی تھی تو دوسری عورتوں سے مخصوص ہوتی تھی ہر كنڈی كی خاص قسم كی آواز ہوتی تھی كہ جس كے ذریعہ كھٹكھٹانے والے كی تشخیص ہو جاتی تھی اور اہل خانہ سمجھ جاتے تھے كہ كھٹكھٹانے والا مر د ہے یا عورت اور اسی حساب سے مرد یا عورت دروازہ كھولنے كے لئے جاتا تھا لیكن مغربی كلچر كی آمد سے ادبیات، ہنر، ورزش وغیرہ كے ساتھ معماری بھی مغربی بے عفتی كا مظہر بن گئی ۔

پہلے عمارتوں كا خاكہ اس طرح تیار ہوا كہ دیوار كے بجائے آہنی سیڑھیوں سے استفادہ كیا جانے لگا ۔ دھیرے دھیرے تعمیری برہنگی گھروں كے اندر سرایت كر گئی پہلے باورچی خانے بغیر در و دیوار كے (open) ہوئے پھر دوسرے كمروں كی بھی دیواریں دھیرے دھیرے ختم كردی گئیں ۔ حقیقت تو یہ ہے كہ مشترك راستے لفٹ، دریچے، اور مسلسل مرد وزن كی باہمی رفت وآمد، فساد پیدا كرتی ہے 36

پاكدامنی و عفت كے ثمرات

عفت اور پاكدامنی كے بڑے زندگی ساز اور تابناك اثرات ہیں میں تو اس نتیجہ پر پہنچا ہوں كہ معاشرتی مسائل پر تحقیق كرنے والوں كو چاہئے كہ زیادہ سے زیادہ درج ذیل باتوں پر توجہ دیں۔

الف) روحی سكون

روحی پریشانیوں اور نفسیاتی آشفتگیوں كے عوامل واسباب میں سے ایك، بری نگاہ اور غیر شرعی روابط ہیں ۔ یہ ہوس سے لبریز نگاہیں ایك طرف توجنسی تحریك كاباعث ہوتی ہیں اور پے درپے شہوانی تحریك كی وجہ سے انسان نفسیاتی طوفان كاشكار ہوجاتا ہے اور ایسی صورت میں انسان كی عقل كا چراغ اس شمع كے مانند ہوجاتا ہے جو ہوا كے جھونكوں كی زد پر ہوتی ہے اور یہ طے ہے كہ ایسا آدمی نفسیاتی و روحی سكون نہیں پا تا اور نفسیاتی ہیجان اس كی رشد و ترقی اور آرام و چین كو چھین لیتی ہے، غیر شرعی روابط اور جنسی ہیجانات دم بدم اسے گناہوں كی طرف كھینچ لے جاتے ہیں، بدنامی كا خوف، سزا و قوانین كا خوف، وجدان اور ضمیر كا عذاب ایسے گناہ گار انسان كی روح و جان كو اس قدر ریزہ ریزہ كر دیتا ہے كہ اس كی پریشانی واضطراب اور خوف اپنی انتہا تك پہنچ جاتے ہیں ۔

عفت كا دامن تھامنا ہی ان تمام پریشانیوں سے سے نجات كا باعث ہے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:

(من غض طرفہ أراح قلبہ)؛ 37 “جس نے اپنی نگاہ كو نا محرموں سے بچالیا اس نے اپنے دل كو آرام وسكون بخش دیا ہے”۔

آپ(ع) ہی كا ارشاد ہے:(من غض طرفہ قل أسفہ وأمن تلفہ)؛ 38 “جس نے اپنی نگاہیں نا محرموں سے بند كر لیں اس كا رنج و غم كم ہو جاتا ہے اور تباہی سے آسودہ خاطر ہو جاتا ہے۔

دوسری طرف سے یہ نگاہیں ہوس آمیز عشق ومحبت كو وجود میں لاتی ہیں اور جب اس قسم كے عشق كادسترخوان بچھ جاتا ہے تو رنج وغم، بغض وحسد، خودكشی اورقتل غارتگری كی داستانوں كاآغازہوجاتا ہے، حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

(كم من صبابۃ اكتسبت من لحظۃ)؛ 39 “كتنے عشق، ایك نگاہ كی دین ہے “۔ 40

میری ایك ناقابل فراموش یاد داشت یہ ہے كہ: پہلوی كے زمانے میں ایك غیر ملكی اداكارہ تہران بلائی گئی تھی۔ جس وقت وہ تہران پہنچی اس نے پہلی بار كسی چادر والی عورت كو دیكھا بے حد متعجب ہوئی اور پوچھ بیٹھی: یہ كیا ہے؟ لوگوں نے كہا: چادر، ایرانی عورتوں كا پردہ ہے ۔ا س نے اپنے ساتھ والوں سے كہا كہ: میں گاڑی سے اترنا چاہتی ہوں اور اس عورت كے پہلو میں جا كر اپنے سر پر چادر ڈالنا چاہتی ہوں ۔

جس وقت اس اداكارہ نے پہلی بار اپنے سر پر چادر ڈالی اور ایرانی عورت كی طرح كاملاً با حجاب ہوگئی تو موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایك خبر نگار نے پوچھ لیا خاتون! اس وقت آپ كیسا احساس كر رہی ہیں؟ اس نے فوراً جواب دیا ” احساس آرامش” یہ اس اداكارہ كا پوری تاریخ كو جواب ہے تمام فیشن كے ماروں كو جواب ہے تمام اپنے آپ كو بھلا بیٹھنے والوں كو جواب ہے تمام مغرب نوازوں كو جواب ہے ۔ اللہ تعالیٰ كا ارشاد ہے: اور جب تم پیغمبر كی بیویوں سے كچھ مانگنا چاہو تو پشت پردہ سے مانگو كہ یہ كام تمہارے دلوں اور ان كے دلوں كے لئے زیادہ پاكیزہ ہے ۔ 41

ب) جسمانی سلامتی

اگرچہ موجودہ زمانہ میں بشر كی زندگی كچھ حد تك طبی اورعلاج معالجہ كے اعتبار سے ترقی پاگئی ہے اور خوراك كی سلامتی كھانوں كو گرم كرنے آفتوں سے دور ركھنے اور انھیں معتدل جگہوں پر ركھنے وغیرہ كے ذرائع كافی حد تك حاصل ہوچكے ہیں لیكن بڑی شرمندگی كے ساتھ ہمیں اعتراف كرنا پڑ رہا ہے كہ واضح تحقیقات اور علمی اسناد سے یہ كشف ہوجانے كے بعد كہ سوّر كا گوشت متعدد بیماریوں كو پیدا كرنے والا اور نہ جانے كتنے میكروب اور جراثیم كا پھیلانے والا ہے پھر بھی دنیا كے لوگوں كے غذائی لیسٹ میں آج بھی سوّر كا گوشت سرفہرست مرغوب غذا كے طور پر موجود ہے ۔

اگر چہ میدان زندگی، بكری، گائے، بھینس اور اونٹ سے خالی ہو چكا ہے اور یہ سارے محبت كے لائق جانور كہ جو بہترین مواد غذائی اور پروٹین فراہم كرتے ہیں شہروں سے باہر نكال دئے گئے ہیں لیك نجس كتا، كہ جو تمام ڈاكٹروں كے متفقہ بیان كے مطابق اس كا تھوك بلكہ اس كا پورا وجود جراثیم پیدا كرتا ہے مغربی زندگی كے پورے ماحول اور مغربی نوازوں كے ماحول كو پر كئے ہوئے ہے اور آپ ہوا كی آلودگی كو بھی اس پر اضافہ كرلیئجے اور پھر انسان كی منطقی تعریف یوں كیجئے كہ: “انسان ایك ایسی مشین ہے جو دھواں پیتا ہے اور آہ و نالہ باہر نكالتا ہے “۔

لیكن جنسی طبیات كا گراف آج كی دنیا میں تاریخ كے سب سے نچلے درجہ پر پہنچ چكا ہے پردۂ عفت كا چاك ہونا، خطر ساز نتائج اور زندگی سے ہاتھ دھونے كی حد تك، سوزاك، اور ایڈز مسلسل قربانیاں لے رہے ہیں اور غیر شرعی لذات حاصل كرنے والوں كو موت كی صف كے حوالے كر رہے ہیں ۔

ہاں۔ عفت وپاكدامنی ہی جنسی طبیات كو كامل طور پر پورا كرسكتا ہے ۔ قرآن مجید ایك متین اور زندگی بخش تعبیر میں بعض بے عفتی كے میدانوں جیسے ہمجنس بازی كو اسراف اور جسمانی طاقت اور انرجی كو ضایع كرنا سمجھتا ہے ارشاد ہوتا ہے ۔

(انكم لتاتون الرجال شہوۃ من دون النساء بل انتم قوم مسرفون) 42

“تم لوگوں از روئے شہوت عورتوں كے بجائے مردوں سے مباشرت كرتے ہو ہاں تم لوگ اسراف كرنے والی قوم ہو”۔

ج) اخلاقی سلامتی

اخلاقی اقدار كا پاس ولحاظ ركھنا پارسائی كا طالب ہے عفت شعاری كا خواہاں ہے جس وقت عفت وپاكدامنی كی عمارتیں ڈھے جاتی ہیں اخلاقی اقدار بھی انسانی زندگی سے رخصت ہو جاتے ہیں اور تباہی كے ڈگر پر سر مارمار كر ختم ہو جاتے ہیں۔

آلودہ نگاہیں قدم بہ قدم اخلاقی اقدار كو اپنے منھ كا نوالہ بنالیتی ہیں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

(من عفت أطرافہ حسنت أوصافہ؛ ) 43 “جس كی نگاہیں پاكیزہ ہو جاتی ہی اس كے صفات و اخلاق بھی پاكیزہ و قابل تحسین ہو جاتے ہیں”۔

حتی كہ عفت شعاری ۔ اخلاقی ترقی اور سیر وسلوك كی معراج بتلائی گئی ہے روایت میں آیا ہے:

(غضوا أبصاركم ترون العجائب) 44 “نگاہوں كو نیچی ركھو تو عجائب دیكھو گے” ۔ جناب امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں: عفیف اور پاكدامن آدمی قریب ہے كہ فرشتہ ہوجائے ۔ 45

د) نسلی سلامتی

سالم نسل، شائستہ اور اچھے گھرانوں میں پرورش پاتی ہے ۔ سالم نسل وہ نسل ہے كہ جس نسل میں درج ذیل خصائص پائے جائیں۔

1۔ گھریلواور خاندانی مہربانیوں سے سر شار ہو۔

2۔ پیدائشی اعتبار سے حلال زادہ ہو اور اپنے نسبی انتساب میں ننگ وعار نہ ركھتی ہو ۔

3۔ دلسوز اساتید اور مہربان مربیوں كی پروردہ ہو۔

4۔ اس كی مادی ضرورتیں پوری ہوتی ہوں۔

5۔ فكری، نفسیاتی، عقیدتی و مذہبی اور تربیتی ضرورتیں پوری ہوتی ہوں ۔

لیكن جنسی بے راہ روی ۔غیر شرعی نسل اور آفت زدہ اولاد كا باعث ہے ایسی نسل خاندانی پاكیزہ و مقدس مہربانیوں سے محروم ہے اپنے انتساب پر شرمندہ ہوتی ہے اور حقارت و ذلت كا شكار ہوتی ہے ایسی اولاد اپنے كو كسی سے منتسب نہیں سمجھتی نہ باپ ہوتا ہے نہ ماں نہ بھائی نہ بہن ۔ یہ تنہائی و غربت، یہ انقطاع ولا تعلقی كس قدر خطرناك اور وحشتناك ہوتی ہے ایسی نسل، سڑك چھاپ ہو كر رہ جاتی ہے جس كا كام لوٹ مار قتل و غارتگری ہو جاتا ہے، اور چونكہ اس نسل نے محبت نام كی چیز نہیں پائی ہے لہٰذا محبت سے بیگانہ ہوتی ہے ۔

پائیدار خوبصورتی

جوانی كی لطافت و خوبصورتی، عفت شعاری سے محفوظ رہتی ہے ۔ جنسی امور میں بے قید وبند رہنے سے پیری جلدی سے آپہنچتی ہے اور كبھی كبھی جنسی ناتوانی قبل از وقت ہویدا ہو جاتی ہے جب كہ عفت شعاری، جوانی و شادابی كو پائیدار بنا دیتی ہے ۔ حضرت امیر المومنین علی علیہ فرماتے ہیں:

(صیانۃ ألمراۃ أنعم لحالھا و أدوم لجمالھا)؛ 46 ” عورت كی حفاظت اس كے حالات كو بہتر اور اس كے جمال كو پائیدار بنا دیتی ہے ۔ اس لئے حجاب عورتوں كی حفاظت و تحفظ كا محاذ ہے ان كی لطافت اور پاكیزگی كا محاذ ۔ اس طرح كی كھلی فكر سے ہم اس نتیجہ پر پہنچ سكتے ہیں كہ پردہ قید وبند نہیں بلكہ عظمت كی نشانی ہے ۔ كیا آپ نے كبھی دیكھا ہے كہ چقندر، ٹماٹر اور شلغم كو تجوری میں حفاظت سے ركھا جاتا ہو یا كسی میوزیم میں نمایش كے طور پر ركھا گیا ہو ۔ صرف قیمتی اور نایاب چیزیں ہی پردہ میں یا حفاظت سے ركھی جاتی ہیں ۔ 47

خاندان كا استحكام

خاندان جو كہ معاشرہ كا ایك چھوٹا سا حصہ ہے ایك جسم كے مختلف سِل كے مانند ہے اگر بدن كے سِل پر كوئی آفت آجائے تو آدمی كا پورا جسم بیمار پڑ جاتا ہے خاندان كا استحكام اور اس كی سلامتی بہت سی فردی وسماجی خوش بختیوں كی بنیاد ہے، خاندان كے استحكام كا ایك بنیادی اور مہم ترین اصول ۔ پاكدامنی ہے بے عفت اور لا ابالی میاں بیوی ایك دوسرے سے بد بین ہو جاتے ہیں اور ایك دوسرے كا اعتماد كھو بیٹھتے ہیں بے عفت میاں بیوی كے درمیان مقدس عشق یعنی میاں بیوی كا رشتہ بر قرار نہیں رہ جاتا ۔بے عفت شوہر و بیوی اپنے بچوں پر بھی بدبین ہوجاتے ہیں اور باپ ہونے كے پاكیزہ و صاف وشفاش منصب كو كھو بیٹھتے ہیں ۔

سماجی امن وسكون

معاشرتی امن و سكون كا ایك بنیادی سبب عفت شعاری ھے، نگاہ كی بے تقوائی، لباس كی بد سلیقگی جنسی روابط میں زخنہ اور معاشرتی امنیت كو خطرہ میں ڈال دیتا ھے ایسی صورت میں جنسی تجاوز جو سب سے زیادہ دوسروں كے حقوق پر بے شرمانہ تجاوز ھے عروج پاجاتا ھے بیویوں اور لڑكیوں كا اغواء رائج ھو جاتا ھے پھر كوئی بھی اپنی ناموس كی نسبت آسودہ خاطر نہیں رہ جاتا، عفت و پاكدامنی، اجتماعی امنیت كی حفاظت كا بنیادی ترین ستون ھے۔

نیك نامی

جس طرح جنسی بے راہ روی رسوائی و بدنامی لاتی ہے اسی طرح عفت وپاكدامنی عفیف وپاكدامن انسان كی شہرت اور ناموری كا باعث ہے آپ تاریخ كے نامور لوگوں كی تاریخ كا مطالعہ كریں جیسے حضرت یوسف علیہ السلام، ابن سیرین، شیخ رجب علی خیاط، آقاجعفر مجتہدی وغیرہ كے نام ستاروں كی طرح چمك رہے ہیں ۔

1. لسان العرب، ج۹، ص۲۵۳؛ قاموس قرآن، ج۵، ص۱۸؛ منتخب اللغات، ص ۳۴۱۔

2. كہا گیا ہے “عفاف” (عین كوزبر كے ساتھ) اس معنی میں استعمال ہوا ہے اور اس لفظ كو زیر كے ساتھ اس معنی میں پڑھنا غلط ہے عفاف (اور عین كو جب زیركے ساتھ) پڑھیں گے تو دوا كا معنی دے گا (منتخب اللغات، ص۳۵۹)

زیادہ تحقیق كے لئے رجوع كریں كافی ج۳، ص۱۲۵ و۱۲۶؛ شرح ابن ابی الحدید ج۲۰، ص۲۴۱؛ وسائل الشیعہ، ج۱۱، ص۱۹۷؛ اخلاق ناصری، ص۷۴؛ الاسفار، ج۲، ص۳۸۔

عفت فقط عورت كی خاصیت نہیں ہے بلكہ یہ روش دوسرے لوگوں میں پائی جاتی ہے ۔

3. كلمہ “عفت” كے دوسرے مشتقات چار جگہ قرآن كریم میں استعمال ہو ئے ھیں سورۂ بقرہ، آیت ۲۷۳؛ سورۂ نساء، آیت۲۱؛ سورۂ نور، آیت ۳۲و ۶۰۔

4. غررالحكم، ج۵، ص۳۲۱۔

5. وسائل الشیعہ، ج۱۴، ص۲۴۰؛ كافی ج۴، ص۵۴۱۔

6. رجوع كریں، سورہ ٔ محمد آیت ۲۱؛ سورۂ بقرہ آیت ۲۳۵؛ سورۂ نساء، آیت ۵؛ سورۂ احزاب، آیت ۳۲۔

7. رجوع كریں، سورۂ نحل، آیت ۱۲۵؛ سورۂ نحل، آیت ۳۲۔

8. رجوع كریں، سورۂ نحل، آیت۱۲۵۔

9. رجوع كریں، سورۂ طہ، آیت ۴۴۔

10. سورۂ نساء، آیت، ۶۳۔

11. رجوع كریں، سورۂ نساء، آیت ۹؛ سورۂ احزاب، آیت ۷۰۔

12. رجوع كریں، سورۂ اسراء، آیت ۲۳۔

13. سورۂ لقمان، آیت ۱۹۔

14. سورۂ حجرات، آیت ۱۰۔

15. بحار الانوار، ج ۷۳، ص۴۰۔

16. صحیفہ سجادیہ، دعای ۲۴۔

17. سورۂ نساء، آیت ۱۴۸۔

18. سورۂ احزاب، آیت ۳۲۔

19. رجوع كریں، الاتقان فی علوم القرآن، ج۳، ص۱۵۹۔ ۱۶۱۔

20. وسائل الشیعہ، ج۱۴، ص۱۴۴۔ ۱۴۳۔

21. عاشقانہ خطوط، ناشائشتہ ٹیلفونی رابطے وغیرہ بھی اس كے دائرہ میں آتے ہیں یہ خطوط بے تقوائی اور بے عفتی كے مكتوب اسناد و مدارك ہیں ۔ بہت سے جوان لڑكے اور لڑكیاں شادی سے پہلے یا اس كے بعد اس قسم كے ارتباط ركھتے ہیں جس كی وجہ سے بہت سے گھریلو جھگڑوں، طلاق بد بینی سے دچار ہوتے ہیں اور ان كی زندگی تیرو تار اور تباہ و برباد ہوجاتی ہے ۔

22. وسائل الشیعہ، ج۱۴، ص۱۴۳۔

23. امالی شیخ صدوق، ص۴۲۳؛ بحار الانوار، ج۷۶، ص۳۲۹؛ ینا بیع الحكمہ۔ ج۵، ص۱۲۵۔

24. سورۂ بقرہ، آت ۲۷۳۔

25. نہج البلاغہ، حكمت۶۸۔

26. رجو ع كریں، وسائل الشیعہ؛ ج۱۱، ص۳۲۷و ۳۲۹۔

27. سورۂ نور، آیت ۳۱۔

28. حدیث كی كتابوں میں ایك باب ہے جو مرد و عورت نا محرم كو تنہائی میں بیٹھنے كو ناجائز قرار دیا ہے؛ رجوع كریں، وسائل الشیعہ، ج۱۴، ص ۱۳۳؛ فروع كافی، ج۲، ص۶۴؛ مكارم الاخلاق، ص۱۲۱۔

29. وسائل الشیعہ؛ ج۱۴، ص۱۴۲؛ كتاب من لایحضرہ الفقیہ، ج۲، ص۱۹۷۔

30. وسائل الشیعہ؛ ج ۱۴، ص۲۴۲۔

31. رجوع كریں، وسائل الشیعہ؛ ج۱۴، ص۱۳۴؛ فروع كافی؛ ج۲، ص۶۴؛ سورۂ نور، آیت ۳۱۔

32. وسائل الشیعہ؛ ج۱۴، ص ۱۴۳ و ص ۱۷۱؛ كتاب من لایحضرہ الفقیہ، ج۲، ص۱۴۰؛ وسائلہ الشیعہ؛ ج۱۴، ص۱۷۳ و۱۷۴، محرك عامل جیسے عورتوں كو آواز پر متوجہ رہنا جو نفس كا بھڑكانے والی ہو اور مرد و عورت كا ایك بستر میں سونا اور جوان عورت كو سلام كرنا وغیرہ ۔ ۔ ۔ ۔

34. وسائل الشیعہ؛ ج۱۱، ص۱۹۷و ۱۹۸۔

35. قرآن مجید نے عریانیت كو زمانۂ جاہلیت كی قدیم خصوصیات میں سے ایك سمجھا ہے ارشاد ہوتا ہے: زمانۂ جاہلیت كی عورتوں كی طرح خود نمائی نہ كرو اپنی خوبصورتیوں اور زیوروں كو نہ دكھلاؤ (سورۂ احزاب آیت ۳۳)ملا اسماعیل سبزواری كے بقول چار گروہ عریانیت سے شرم و حیا نہیں كرتے ۱۔ حیوانات، ۲۔ بچے، ۳۔جاھل اور وحشی انسان، ۴۔ بعض جدت پسند اور ترقی كے مدعی لوگ۔

36. عفت زندگی كے مختلف مراحل میں شامل ہے قرآن مجید پیر پٹك چلنے والی، پازیب پہنے اور زینتوں كا اظہار كرنے والی عورتوں كی مذمت كرتا ہے (سورۂ نور آیت۳۱) اس سلسلہ میں حضرت شعیب نبی علیہ السلام كی بیٹی كا عفت مآب راہ چلنے كا واقعہ بھی سبق آموز ہے (سورۂ قصص آیت ۲۵)(بحار الانوار؛ ج۱۳، ص۳۲)

37. مستدرك الوسائل؛ ج۱۴، ص۲۷۱۔

38. غررالحكم، ج۵، ص۴۵۰؛ مستدرك الوسائل؛ ج۱۴، ص۲۷۱۔

39. غررالحكم، ج۴، ص۵۴۹ ۔

40. دوسری حدیث میں آیا ہے كہ جس كی نگاہیں نا محرموں پر زیادہ پڑیں گی اس كا رنج واندوہ زیادہ ہو جائے گا۔

41. فرانٹس فانون فرانسوی كہتا ہے: جو عورت باہر كی دنیا دیكھتی ہے لیكن كوئی اسے نہیں دیكھ پاتا (پردہ دار ہے ) وہ خود بخود استعمار كے لئے محرومیت تحمیل كرتی ہے اس لئے استعمار بے عفتی كو رواج دینا چاھتا ھے۔(مغضوبین زمین ص۵)

42. سورۂ اعراف، آیت، ۸۱۔

43. میزان الحكمۃ؛ ج۳، ص۲۰۰۸۔

44. بحار الانوار؛ ج۱۰۴، ص۴۱۔

45. مجاہد اگر راہ خدا میں جہاد كرتے وقت شہید ہو جانے والے كا اجر ایك شریف نفس انسان سے زیادہ نہیں ھے؛ پارسا انسان گناہ كرنے كی موقعیت ركھتا ہے لیكن اپنے كو گناہ سے محفوظ ركھتا ہے گویا عفیف انسان ایك فرشتہ ہے۔(نہج البلاغہ، حكمت، ۴۷۴)

46. غررالحكم، ج۴، ص۲۰۰۔

47. قابل غور بات یہ ہے كہ عفاف، عظیم معنوی خوبصورتی ہے، عفت و پاكدامنی كا خدا پسند انہ اور عقلمندانہ كھچاؤ تمام ظاہری خوبصورتیوں سے دلچسپ ہے جب كہ عورتوں كا نا مناسب طریقہ سے معاشرہ میں اترنا بے حساب آرائشی مواد كے مصرف ہونے كے ساتھ ساتھ اقتصادی خرچ، چہرہ كی جلد فرسودگی، اور جلدی بڑھاپے كا باعث ہے۔ 

 

تبصرے
Loading...