عظمت نسواں پردئہ اسلامی میں ہے مستور

پاپ ہر مذ ہب میں  شجر ممنوعہ اور بدی ہر دھرم میں  قابل نفریں  شئے رہی ہے ۔ تقریبا تمام ادیان و مذاہب نے خلاف فطرت واقعات پر پابندی لگانے کی کو شش کی ہے ۔ مذہب اسلام چونکہ ایک مکمل ضابطئہ حیات او رکامل سلیقئہ زندگی ہے ۔ بنا بریں  اسکی ہر تعلیم تحفظ و امن پر مبنی ہے اور اسکے ہر قانون میں  عدلو انصاف کا نمایا ں  عنصر نظر آتا ہے ۔

حجاب ، برقع ،پردہ ، جلباب اور گھونگھٹ سب کے سب  ایک ہی حقیقت کے پانچ الگ الگ  تعارفات ہیں  ۔ مقصد عیاشی کے

دروازوں  پرتالے ڈالنا اور بے ہودگی کی راہوں  کو مسدود کرنا ہے ۔ جنسی آبرو ریزی کے اخلاق باختہ واقعات اور فحاشی و بے حیائی کے ہوش

ربا سانحات سے معاشرئہ انسانی کو  نجات اور تحفظ فراہم کرنا ہے ۔ چنانچہ  عورتوں  کے ساتھ ہورہے چھیڑ چھاڑ اور انکی لٹ رہی نسوانی عظمتوں  پر مہر قطع ثبت کرنے کے لئے جب مذہب اسلام نے حجاب جیسی عظیم تعمت سے اس صنف نازک کو سر فراز کیا  اور لباس شرعی جب خواتین کے لئے رہنا ضروری قرار دے دیا گیا  تو عیا شی کے اڈوں  میں  ْخاک اڑنے لگی ،خواہش نفسانی کا شیش محل زمین بوس ہوگیا او ر نفسانی خواہشات کی بہیمانہ تکمیل ا یک شئے ناممکن بنکر رہ گئی ۔اسلام کی یہی وہ عادلانہ پابندیا ں  تھیں  جنکی وجہ سے شہوت رانی کی گرم با زاری

میں  کسادت ویکسر ٹھراو  کی سلطنت قائم ہوگئی ۔دین خداوندی کے یہی و ہ تحفظ پسند دفعات  ہیں  جنکے باعث مقاصد باطلہ کو سو فیصد ناکا می میسر ہوئی ۔ ورنہ بعثت نبویۖ سے پہلے اس خلق خدا کی حیثیت  چو پایوں  اور کھلونوں  سے بد تر تھی ، دنیا کی کسی سلطنت میں  عورت کو مناسب و موزوں  مقام حاصل نہ تھا یہودیت نے اسے حقارت کا پتلہ قراردیا تو عیسائیوں  نے اسے معصیت کا دروازہ ، سیئات کا سر چشمہ  اور مجسم پاپ گردانتے ہوئے رو حا نی ترقی کی راہ کا سب سے بڑاروڑہ بتلایا ۔یورپ میں  تو ایک عر صہ تک اسکے وجود پر شک کیا جا تا رہا ۔خود قدیم ہندوستان می شوہرکی چتا پر عور ت زندہ جلائی جاتی تھی تو عرب کی دھرتی ان بانیا ن خدا کے لئے اپنی تماتر وسعت و کشادگی کے باوجود تنگ غار اور ایک ایسی بے رحم قبر کا روپ دھار چکی تھی جس میں   انہیں  زندہ درگور کردیا جا تا تھا ۔ لڑکیوں  کی پیدائش کو یہا ں  وجہ ذلت و خواری

سمجھا جا تا تھا ۔اور حد تو یہ کہ بیوہ عورتیں   ترکوں  کی مانند تقسیم ہوجا یا کرتی تھیں  ۔حکیم سقراط نے تو عورت کو فتنہ و فساد کی جڑ سے تعبیر کیا ۔رومن امپائر میں  اسے ایک  حقیر و خسیس لونڈی کا درجہ حاصل تھا ۔جانوروں  کی  طرح اس سے کا م لیا جا تا تھا اور ذراذرا سی بات اسے ذبح کردیا

جا تاتھا ۔سہولت اور آسائش اس پر حرام تھی ۔ ملاعبت و مباشرت میں  جانوروں  کے مماثل حرکات پر خواتین کو مجبور کیا جا تا تھا ۔ مختصر یہ کہ مالک و بر و بحر کی اس ارض انسانی پر ایسے ایسے جابر و ظالم لوگ اور وحشی درندہ صفت انسان بستے تھے جنہوں  نے اس صنف نازک پر ایسے ایسے ظلم و جور کئے ،مصائب و مظالم کے پہاڑ توڑے  اور جبر و تشد د کی سر حدیں  پا ر کردی ہیں  کہ سنتے ہی روح انسانی کا نپ اٹھتی ہے ۔ مگر جونہی اسلا م

آیا باطل کے لہلہا تے جھنڈے گر پڑے اور اس صنف نازک پر ہو رہے لا متنا ہی ظلم و زیادتی کا سلسلہ تھما ۔ اسے معاشرہ میں  ہی نہیں  بلکہ عالمی سطح پر بلند ترین مقام عطا ہوا ۔ نا انصافی و حق تلفی کی دلدل میں  اس  حسن مجسم کو عدل و  انصاف کی خوش گوار فضاء میں  سانس لینے کا فطری حق

واپس دلایا ۔ اسے ہیرے اور جواہرکی طرح چھپا کر رکھنے کا حکم دیتے ہوئے بارئی کا ئنات نے ارشاد فرمایا : وقرن فی بیو تکنّ و لا تبرّجن تبرجن

الجاہلیة ا لا ولی ۔ ا سے حیا ء و شرم کی چادر مر حمت فرمائی گئی اور اسکی آبرو پر دست درازی کر نے والوں  کیلئے سزائے موت کا اعلان کیا گیا ۔اسکی جا نب غلط نظر اٹھا کر دیکھنے والوں  کو ان الفاظ میں  وارننگ دی گئی: قل للمئو منین ان یغضو ا من ابصارہم الخ ۔

حجاب  ایک ایسا شعار اسلام ہے جسکی مخالفت ہر دور او ر ہر زمانے میں  یہود و نصاری نے اپنی اپنی سطح پر خو ب کیا ہے ۔ کیونکہ یہ بات مسلم ہے کہ مسلم عورتیں  کا پردہ میں  ہو نا اہل مغرب کی بو کھلا ہٹ میں  اضافہ کر تا ہے ۔ وہ اس لئے کہ حجاب اسلام کا مظہر اور خرمن باطل کے لئے خدائی بجلی ہے یہی پردہ ایوان مغرب کے لئے اگر زلزلہ ہے تو یورپ کے شیش محل کے لئے زبردست تازیانہ بھی ۔لہذا اس نظام اسلام کے خلا ف صہیونی نظریات ،مغربی فلسفہ و تمدن اور یہودی لابیوں  نے  دنیا بھرکے یہود پرمشتمل  ١٨٩٢ء میں سوئزر لینڈ میں  ایک زبردست میٹنگ ہوئی ۔جس میں  اسلام کی پر زور نشرو اشاعت پر بند اور اس دین حنیف کی بڑھتی مقبولیت پر قابو پانے کے لئے دو قراداد منظور کی گئیں  ۔ ایک یہ کہ مسلم عورتوں  کی گودوں  سے اسلام کو خالی کردیا جا ئے اور انہیں  گھروں  سے باہر نکا لدیا جا ئے ۔ دوسرے یہ کہ انہیں  بے حجاب کردیا جا ئے ۔ چناچہ اس شیطانی منصوبہ کے نفاذکی انتھک کوششیں  کی گئیں  ۔فحاشیت و عریا نیت کے مراکز قائم کئے گئے ۔غداری و عیاری کی فیکٹریا ں  نصب کی گئیں  ۔ مختلف شہروں  اور علاقو ں  میں  سینما ھالس ا ورمتفرق مقامات پر تھیٹر وں  کی تعمیر عمل میں  لائی گئی ۔  بے حیائی ،قمار بازی اور شراب خوری کے اڈے  بنائے گئے ۔ بس پھر کیا تھا مسلم قوم کی ریڑ ھ کی ہڈیاں  یعنی نوجوانان مسلم عورتوں  کیننگی تصویریں  دیکھکر اپنے مقصد حقیقی کو بھول گئے نوجوان تو نوجوان حکمران و سلا طین بھی  دوشیزائوں  کے عاشق اور نوجوان کلیوں  کے دلدادہ ہوگئے ۔ بوجہ ایں  مغرب کی غلامی اس قوم مسلم کا مطمح نظر بن گیا ۔ اور وہ دن بھی آ یا کہ پورے عالم اسلام کے گلے میں  طوق غلامی پڑ گیا ۔ آخر کا ر بے پردگی ، صنفی احساسات ، جسمانی مطالبات ،مشتعل جذبات اور بگڑی ہوئی عادات نے مسلمانوں  سے فکری صلاحیت کو سلب اور تدبیری لیا قت کوچھین لیا ۔ آزادی نسواں  کا پر فریب نعرہ بلند کیا گیا ۔ نتیجة عورتیں  سڑکوں   اورشاہراہوں  پر لائی گئیں  ۔ فیشن کے نام پر بے لباس بھی ہوئیں  ۔ آج خوبصورت مانگ نکلے ہوئے سر ،شانوں  تک کھلی ہوئی باہیں  ،نیم عریاں  سینے اوربے باک نگاہیں  لئے دس سینٹی میٹرس کی بلائوزیں  اور جاذب نظر ساڑیاں  زیب تن کئے سڑکوں  پر پھرتی لڑکیاں  ،پارکوں  میں  ٹہلتی دوشیزائیں  اورہوٹلوں  چکر لگاتی نوخیزبچیاں  مذکورہ منصوبے کی تکمیل کے نمونے نہیں  تو اور کیا ہیں  ۔ کیا تاریخ کے قارئین کے لئے یہ بات حق نہیں  کہ ایک وقت ہندوستان میں  ٧١٣ء سے لیکر تقریبا ١٨٥٧ء  تک ایسا بھی گذراہے کہ پردوں  کا بلا تفریق مسلک و ملت اوردین و دھرم خو ب خوب اہتمام کیا جا تا تھا ۔

ہر طرف آنچل کے مہذب علم لہراتے تھے ۔ سچ  کہا ہے شاعر نے

قوت فکرو  عمل  پہلے فنا ہوتی ہے ۔۔۔جب کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے ۔

اب آئیے  ! مذکورہ بالا تحریرو ں  کو ذہن میں  رکھتے ہوئے آزادی نسواں  حقیقت یا فریب کا پتہ خود مغرب کی زبانی معلوم کریں  ۔ ایک امریکی یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق ” شہری خدمات پر ما مور ستر فیصدی امریکن لڑکیاں  جنسی استحصال ،مردوں کی تنگی و ترشی ،چھیڑ چھاڑاور انکی جنسی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بنتی ہیں ”۔ا(مجلہ ا لرائدشمارہ نمبر ٢٢ ۔ ٢٠١٠ئ)

یہی ہے نعمت حجاب سے رو گردانی کا نتیجہ اور مُہب اسلام کو گلے نہ لگانے کا منحوس ثمرہ ۔ مغربی تہذیب کے ہو س پرست علمبرداران کی شر پسند طبیعت کی اصلی خواہش کی تکمیل کا یہی سچا تعارف ہے ۔ چریا نیت کا لبافہ اوڑھنے والی خواتین کا یہی انجام ہو تاہے ۔ ننگا پہنا وا پہننے والی دو شیز ائوں  کی ہوش ربا منزل یہی ہو تی ہے ۔ پارکوں  کی زینت بننے والی لڑکیو ں  اور آفسوں  میں  اجنبی مردوں  کے ساتھ بے محابہ اختلاط رکھنے والی دختران قوم کا استقبال اسی طرح کیا جاتا ہے۔آزادی نسواں کی آڑ میں  نازک کلیوں  کے  استحصال کا پردہ چاک کرتے ہوئے ایک مغربی خاتون میشال انڈریہ ،صدر ” حقوق نسواں  کمیٹی فرانس” نے عورتوں  کی بد ترین صورتحا ل کا تذکرہ اس انداز میں  تحریر کیا ہے  کہ اھل مغرب ، روشن خیال بد دین مسلمان اور مخالفین پردہ کو ما رے ندامت و شر مندگی کے ڈوب مرنا چاہئے ۔لکھتی ہیں  ” یہاں  عورتوں  کے ساتھ جانوروں  سے بھی بدترین سلوک کیا جا تاہے ۔ بسا اوقات حیوانات کو بھی عورتوں  پر کئی گنا فضیلت و  فوقیت حاصل ہوتی ہے ۔ بنا بریں  اگر کوئی شخص سر عام کسی جانور کو زدو کوب کرے تو اسکے خلاف متعلقہ محکمہ کو شکا یت کی جا تی ہے اور کمیٹی برائے تحفظ حیوانات اس پر مقدمہ چلا تی ہے ۔ مگر جب کوئی مرد اپنی رفیق زندگی  یا عنوان حیات کو شاہراہ عام  پر بے دردی و  بے جگری سے کا ری ضرب لگا تا ہے  تو نہ تو کسی فرد کی رگ حمیت پھڑکتی اور نہ ہی کسی شخص میں  طاقت گفتار کی کوئی رمق ہی محسوس ہوتی ہے ”۔

ان جملہ سماجی خرابیوں  پر کسی مخالف اسلا م کی نظریں  کیوں  نہیں  اٹھتیں   ۔ روزانہ پیش آنے والے زنا با لجبر کے بے شمار واقعات پرکسی کی غیرت کیوں  نہیں  مچلتی ۔ بیٹیوں  کی آبرو  پر دست درازی کرنے والے باپوں  کے خلاف قانونی شکنجہ کیوں  نہیں  کسا جا تا ۔ان حیوانیت و درندگی کے ابتر مظاہرے  پر کسی کی حمیت  حرکت میں کیوں  نہیں  آتی ۔ کالجوں  اور یونیورسٹیوں  میں  پیش کئے جا نے والے اخلاق باختہ مناظر اور انسانیت سوز سانحات سے کسی کی آنکھیں  کیوں  نہیں  کھلتیں  ۔ ساری دنیا میں  ہورہی اس صنف نازک پر نا انصافی و حق تلفی کے خلاف آوازیں  کیوں  بلند نہیں  ہوتیں  ۔ بے پردگی و عریا نیت کی تباہ کا ریوں  کی تہ تک پہونچنے کی کوششیں  کیوں  نہیں کیجا تیں  ۔ کیا کسی خلق خدا کا خا تون ہونا ہی اتنا بڑا جرم ہے کہ اسے اشیا ء کی فروختگی کا اشتہار بنادیا جائے یا پھر انہیں  بی پی اوجیسی کمپنیوں  میں  ملازمت دیکر اپنی تشنہ نگا ہی کے لئے سائبان آسودگی فراہم کرلیا جا ئے ۔اسکی اہمیت وافادیت کو شب کے چند گھنٹوں  کے پیمانوں  میں  ہی کیوں  مقید کر دیا جا ئے؟؟؟ ۔

شرم آنی چاہئے ان مغربی درندوں  کو جو اسلامی تعلیمات کو عورتوں کے حق میں  باعث مضرت تصور کرتے ہیں  ۔ڈوب مرنا چاہئے ان مخالفین حجاب کو جنہوں  نے خواتین کو کانٹوں  بھرا تاج ،ایک بے چین ماحول اورایک غیر محفوظ دنیا دی ہے ۔ لہذ ا اس موقع ”یوم خواتین ،،پر میں  جمیع مسلم مائوں  او ر بہنوں  سے یہ عرض کرونگا  کہ و ہ حجاب کو حرز جاں  بنائیں  ۔ عریانیت  کی تہذیب کو پائوں  تلیروند دیں  ۔ نیم عریاں  لباسوں  کے رواج کو ختم او رغیرمحرموں  کے زینت و آرائش کے شوق کو بالائے طاق رکھدیں  ۔ سینما،برہنہ تصویروں  اور عشقیہ افسانوں  سے بڑھتی دلچسپیوں  کو دل سے نکا ل دیں  ۔ زیر مطالعہ صنفیات پر لکھے گئے گھٹیا  ترین قسم کے لٹریچرس کو خاکستر کردیں  ۔ شریعت اسلامیہ کی تابعداری کریں  اور تعلیمات نبوی کو لازم پکڑلیں  ۔اے بنات حوّا! اگر تم نے مندرجہ بالا گذارش کی آبرو ر کھ لی تو یقنا حسب روایت سابقہ  تمہاری ہی آغوش سے ایسے  جیالئہ اسلام پیداہونگے جو مغرب کی تابوت میں  اسلام کی آخری کیل ٹھونک دینگے ۔  اے کاش وہ وقت  آئے کہ ہم سب یک  زبان ہوکر یہ نعرہ لگائیں  ۔”یہ وہ مائیں  ہیں  جنکی گود میں  اسلام پلتا ہے ،،۔ مگر

جس سے سنبھلانہ گیا اپنے ہی سر کا آنچل ۔۔۔اس سے کیا خاک ترے گھرکی حفاظت ہوگی۔ 

تبصرے
Loading...