عظمت ِعورت بہ حیثیت زوجہ

انداز میں ذکر کی گئی ہے ارشاد ہے کہ الجنة تحت اقدام الامہات ۔ جنت ما ں کے قدمو ں کے نیچے ہے ۔ نیزارشاد رب العزت ہے: وَإِذْ أَخَذْنَا مِیثَاقَ بَنِی إِسْرَائِیلَ لاَتَعْبُدُونَ إِلاَّ اللہ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا “او ر جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا ( اور کہا ) کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو او راپنے والدین پر احسان کرو ۔” ( سورہ بقرہ : ۸۳) پھر ارشاد رب العزت ہے : کُتِبَ عَلَیْکُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَکَ خَیْرَاًن الْوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ۔ “تمہارے لیے یہ لکھ دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے او روہ کچھ مال چھوڑے جا رہا ہو تو اسے چاہیے کہ والدین اور رشتہ دارو ں کے لیے مناسب طور پروصیت کرے۔” سورہ بقرہ: ۱۸۰ نیزارشاد رب العزت ہے : وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا وَإِنْ جَاہَدَاکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا “او رہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کاحکم دیا ہے اگر تیرے ماں باپ میرے ساتھ شرک پر مجبور کریں جس کا تجھے کو ئی علم نہ ہو توان دونوں کا کہنا نہ ماننا۔” (سورہ عنکبوت : ۸) اللہ تبارک وتعالیٰ نے بعض آیات میں اپنی عبادت اورشرک نہ کرنے کے فوراً بعد والدین کے ساتھ اچھے برتاؤ کا حکم دیا ہے ۔ جیساکہ ارشاد رب العزت ہے: وَاعْبُدُوا اللہ وَلَاتُشْرِکُوْا بِہ شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا۔ “او رتم لوگ اللہ ہی کی بندگی کرو او رکسی کو اسکا شریک قرار نہ دو او رماں باپ کے ساتھ احسان کرو۔” (سورہ نساء : ۳۶) اللہ نے دس حقوق انسانی کا تذکرہ کرتے ہوئے پہلے اپنے ساتھ شرک نہ کرنے اور والدین سے اچھائی کرنے کا حکم دیا ہے ۔ ارشاد رب العزت ہے: قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ أَلاَّ تُشْرِکُوْا بِہ شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا۔ “کہہ دیجئے آو ٴمیں تمہیں وہ چیزیں بتا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کر دی ہیں وہ یہ ہیں کہ تم لوگ کسی کو اللہ کا شریک نہ بناؤ اور والدین پر احسان کرو۔” (انعام: ۱۵۱) مزید ارشاد رب العزت ہے: وَقَضٰی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُوْا إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلَاہُمَا فَلَا تَقُلْ لَّہُمَا أُفٍّ وَّلَاتَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیرًا۔ “اورتمہارے کے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بوڑھے ہو جائیں تو خبر دار ان سے اف تک نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں بلکہ ان سے عزت و تکریم سے بات کرنا اور ان کیلئے خاکساری کے ساتھ کاندھوں کو جھکا دینا اور ان کے حق میں دعا کرتے رہنا کہ پروردگارا ان دونوں پر اسی طرح رحمت نازل فرما جس طرح کہ انہوں نے بچپنے میں مجھے پالا ہے۔” ( بنی اسرائیل :۲۳تا ۲۴) ماں باپ کی عظمت کا کیا کہنا اللہ کا فیصلہ ہے کہ میری عبادت کرواور پھر والدین کے ساتھ احسان کرو۔ پھر اف کہنے تک کی اجازت نہیں ہے بہرحال اس حکم میں ماں بھی شریک ہے جیساکہ انبیاء اور اولیاء بھی اپنی دعاوٴں میں باپ کے ساتھ ماں کا تذکرہ بھی کرتے ہیں ۔ جیساکہ حضرت نوح کے متعلق ارشاد رب العزت ہے: رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ۔ “پروردگار! مجھے اور میرے والدین ، اور جو ایمان کی حالت میں میرے گھر میں داخل ہو ، اور تمام مومن مردوں اور عورتوں کو معاف فرما ۔” (نوح :۲۸) اس دعا میں ماں اور ہر مومن عورت کا تذکرہ موجود ہے ۔ اسی طرح حضرت ابراہیم کے متعلق ارشاد رب العزت ہے: رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ۔ “پروردگار! مجھے ، میرے والدین اور ایمان والوں کو بروز حساب مغفرت سے نواز۔”(ابراہیم :۴۱) حضرت سلیمان بھی اپنے معصوم اورنبی باپ کے ساتھ اپنی والدہ کو بھی دعا میں شریک کر رہے ہیں جیساکہ ارشاد رب العزت ہے: رَبِّ أَوْزِعْنِیْ أَنْ أَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ أَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ۔ “پروردگار! مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جن سے تو نے مجھے اور میرے والدین (ماں باپ) کو نوازا ہے ۔”( احقاف :۱۵) اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ – کو ان پر ان کی والدہ پرکیے گئے احسان کا تذکرہ فرمارہا ہے: إِذْ قَالَ اللہ یَاعِیَسٰی ابْنَ مَرْیَمَ اذْکُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْکَ وَعَلی وَالِدَتِکَ ۔ “جب حضرت عیسیٰ بن مریم سے اللہ نے فرمایا:یاد کیجئے میری اس نعمت کو جو میں نے آپ اور آپ کی والدہ کو عطا کی۔” (مائدہ :۱۱۰) حضرت عیسیٰ اللہ سے اپنی ماں کے ساتھ نیکی کی خواہش کر رہے ہیں۔ وَبَرًّا بِوَالِدَاٰتِیْ وَلَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا۔ ( اللہ نے) مجھے اپنی والدہ کے ساتھ بہتر سلوک کرنے والا قرار دیا اورمجھے سرکش اور شقی نہیں بنایا۔” (مریم :۳۲) الٰہی کتاب قرآن مجید کی رو سے ، عورت اور مرد میں خلقت،اعمال، کردار،اخلاق ، نیکی ، بدی، جزا و سزا، انعام و اکرام ، حیات طیبہ ، وغیرہ میں سے کسی لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔ البتہ اللہ نے معیار ِتفاضل ، معیار ِ بہتری اور معیارِبلندی صرف تقویٰ اور خوف خدا کو قرار دیا ہے۔ اے انسان! عورت تیری طرح کی اورتیرے ہی جیسی انسان ہے۔وہ بیٹی بن کرتجھ پر رحمت برساتی ہے۔بیوی بن کر تیرے دین اور ایمان کی تکمیل کرتی ہے اور ماں بن کر تجھے جنت کا تحفہ پیش کرتی ہے۔ جب بیٹی بنے تو خوش ہو جا کہ تجھ پر رحمت خدا کا نزول ہوا ہے۔جب وہ زوجہ نہیں بنی تھی تو،تو اکیلا تھا لیکن اب تجھے دوست، شریک کار ،ساتھی،اور مشیر مل گیاہے ۔جب ماں بنی تو ،تو اس کے پاوٴں پکڑ کر خدمت کر کیونکہ تجھے جنت کا وسیلہ مل گیا ہے۔ خدایا تو ہم سب کو حقیقی مسلم اور موٴمن بننے کی توفیق عطا فرما۔ احکام و حقوق میں مرد و عورت کا اشتراک ارشاد رب العزت : وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ” اور عورتوں کو بھی دستور کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں۔” ( سورہ بقرہ آیت ۲۲۸) مدینہ سے بعض مسلمان مکہ آئے۔ مخفیانہ حضور کے دست مبارک پر بیعت کی ان میں دو عورتیں تھیں۔ نسیبہ بنت کعب ۔ اسماء بنت عمرو ابن عدی۔ فتح مکہ کے وقت عورتوں سے باقاعدہ علٰیحدہ بیعت لی گئی۔ ارشاد رب العزت ہے: یَاأَیُّہَا النَّبِیُّ إِذَا جَائَکَ الْمُؤْمِنَاتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰی أَنْ لَّایُشْرِکْنَ بِاللہ شَیْئًا وَّلَایَسْرِقْنَ وَلَایَزْنِینَ وَلاَیَقْتُلْنَ أَوْلاَدَہُنَّ وَلاَیَأْتِیْنَ بِبُہْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَہ بَیْنَ أَیْدِیْہِنَّ وَأَرْجُلِہِنَّ وَلاَیَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْہُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَہُنَّ اللہ إِنَّ اللہ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۔ “اے نبی جب مومنہ عورتیں اس بات پر آپ سے بیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرئیں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ زنا کا ارتکاب بنائیں گی اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ اپنے ہاتھ پاؤں کے آگے کوئی بہتان (غیر قانونی اولاد) گھڑ کر (شوہر کے ذمے ڈالنے) لائیں گی اور نیک کاموں میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی۔ تو ان سے بیعت لے لیں۔ اور ان کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کریں۔ اللہ یقینا بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ (سورہ ممتحنہ : ۱۲) اسلام کی نظر میں عورت کی پہچان ۔ اس عنوان سے ہے کہ اجتماعیت کا تکامل اسی وجہ سے ہے خواہ عورت بیٹی ہو ، زوجہ ہو یا ماں۔ اسلامی قانون میں عورتیں ، کسب معاش ، تجارت ، عبادت و وظائف میں مردوں کے مساوی ہیں۔ ارشاد رب العزت ہے: وََلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللہ بِہِ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا وَلِلنِّسَاءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ وَاسْأَلُوا اللہ مِنْ فَضْلِہ إِنَّ اللہ کَانَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا ۔ “اور جس چیز میں اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اس کی تمنا نہ کیا کرو۔ مردوں کو اپنی کمائی کا صلہ اور عورتوں کو اپنی کمائی کا صلہ مل جائے گا اور اللہ سے اس کا فضل و کرم مانگتے رہو یقینا اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔” ( النساء :۳۲) آسمان و زمین کی خلقت ،لیل و نہار کی آمد ، رات و دن عبادت خدا، خلقت عام میں تفکر، دعاؤں کا طلب کرنا، معارف اسلامی کی معرفت اور عملی عقیدہ ان سب امور میں۔ مرد و عورت شریک۔ ثواب و جزاء کے حق دار، کسب معارف، حمل امانت الٰہی میں سب برابر ہیں۔ ارشاد رب العزت ہے : یَوْمَ تَرَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ یَسْعٰی نُوْرُہُمْ بَیْنَ أَیْدِیْہِمْ وَبِأَیْمَانِہِمْ بُشْرَاکُمُ الْیَوْمَ جَنَّاتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیہَا ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ۔ “قیامت کے دن آپ مومنین و مومنات کو دیکھیں گے کہ ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا (ان سے کہا جائے گا) آج انہیں ان جنتوں کی بشارت ہے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ، جن میں تمہیں ہمیشہ رہنا ہوگا، یہی تو بڑی کامیابی ہے۔ ” (سورہ حدید:۱۲) نورکی موجودگی میں عورت مرد مساوی مدارج۔ عبادات اسلام و ایمان میں مساوی۔ ارشاد رب العزت ہے: إِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِیْنَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِیْنَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِیْنَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِیْنَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِیْنَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِیْنَ فُرُوْجَہُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاکِرِیْنَ اللہ کَثِیْرًا وَّالذَّاکِرَاتِ أَعَدَّ اللہ لَہُمْ مَّغْفِرَةً وَّأَجْرًا عَظِیْمًا ۔ “یقینا مسلم مرد اور مسلمہ عورتیں۔ مومن مرد اور مومنہ عورتیں۔ اطاعت گزار مرد اوراطاعت گزار عورتیں۔ راست باز مرد اور راست باز عورتیں صبر کرنے وال مرد اور صبرکرنے والی عورتیں۔ فروتنی کرنے والے مرد اور فروتن عورتیں۔ صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں۔ روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں ۔ اپنی عفت کے محافظ مرد اور اپنی عفت کی محافظ عورتیں خدا کو یہ کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور یاد کرنے والی عورتیں ۔وہ ہیں جن کے لئے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے۔ ” (احزاب ۳۵) حفظ قانون ، نظارت امن ، باہمی اجتماع کا وجود عورت و مرد دونوں کا وظیفہ قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد رب العزت ہے: وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ یَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنَ الْمُنْکَرِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلَاةَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکَاةَ وَیُطِیْعُوْنَ اللہ وَرَسُوْلَہ أُوَلَئِکَ سَیَرْحَمُہُمْ اللہ إِنَّ اللہ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ۔ ” اور مومن مرد و مومنہ عورتیں ایک دوسرے کے خیر خواہ ہیں وہ نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوة ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ رحم فرمائے گا۔ بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا حکمت والا ہے۔” (سورہ توبہ: ۷۱) ازواج نبی اعظم کو حکم ہے معارف قرآن کے حصول اور آپس میں مذاکرہ کرنے کا : وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ آیَاتِ اللہ وَالْحِکْمَةِ إِنَّ اللہ کَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا ۔ “اور اللہ کی ان آیات و حکمت کو یاد رکھو۔ جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت ہوتی ہے۔ اللہ یقینا بڑا باریک بین اور خوب با خبر ہے۔” (احزاب ۳۴) گویا ہر گھر میں موجود عورت کو حکم ہے معارف قرآنی کے حصول اس کی دوسری عورتوں کو ترغیب اور عمل پیرا ہونے کا۔ یہی اسلامی فریضہ ہے جو مرد و عورت دونوں نے بروئے کار لاناہے ۔ اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنا جس میں عورت مرد شریک ہیں ۔ ارشا د رب العزت ہے : وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلاَمُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَی اللہ وَرَسُولُہ أَمْرًا أَنْ یَّکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ أَمْرِہِمْ وَمَنْ یَّعْصِ اللہ وَرَسُولَہ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِیْنًا “اور کسی مومن مرد و مومنہ عورت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ جب اللہ اور اسکا رسول کسی معاملہ میں فیصلہ کریں تو انہیں اپنے معاملہ میں اختیار حاصل رہے۔اور جس نے اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی کی وہ صریح گمراہی میں مبتلا ہو گیا۔” (احزاب :۳۶) عزیز من !ان آیا ت سے معلوم ہو اکہ مرد و عورت کا امتیاز اعمال و کردار کی بلندی و پستی کی بدولت ہے جو اللہ سے زیادہ مربوط ہو گا وہی عالی درجہ پر فائز ہوگا ۔

عورت و مرد میں مساوات

معارف اسلامی، نظریات و عقائد اصول شرعیہ میں عورت و مرد برابر۔ اللہ پر ایمان واجبات کا بجا لانا محرمات کے ارتکا ب سے بچنا نماز و زکوٰة خمس وحج میں مساوی وضو و غسل تیمم نیز تعلیم و تعلم دونوں کا حق تجارت و ملکیت ،خرید و فروخت میں مساوات ،جزاو عقاب میں برابر۔ چوری، زنا کی خرابیوں میں مساوی غرضیکہ حکم الٰہی سب کے لیے عورت ہو یامردہو۔ انسان و انسانیت میں برابر لذا احکام الٰہی میں بھی مساوی! اسلام و خانوادہ (فیملی) خاندا ن وخانوادہ کی نشو ونما میں محبت ،الفت اورباہمی تعاون ایک دوسرے کے لیے تضا من دخیل ہیں گھر کے سکون گھر کے اطمینان کے لیے یہ چیزیں لازمی ہیں ۔ ارشادِ رب ِالعزت ہوتا ہے : وَاللہ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ م بُیُوْتِکُمْ سَکَنًا۔ ” اوراللہ نے تمہارے گھروں کو تمہارے لیے سکون کی جگہ بنایا ہے ۔” (سورہ نحل:۸۰) عورت بچے کی خواہش مردسے زیادہ اور گھر کی خوبی کا زیادہ احساس رکھتی ہے ۔ عورت ہی ہے جو گھر کوگھر بناتی ہے ۔ اپنے ہشا ش بشاش چہرے سے گھر کو جنت کا درجہ دے دیتی ہے ،مرد کا کا م گھر بنانا ہے عورت کا کام گھر سجانا ہے ۔گھر کی اہمیت اس قدر کہ فرمان رسولِ اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہے کہ مسجدکیطرف جانا پھر گھر کی طرف واپس آنا ثواب میں برابر ہیں ۔ (الخلق الکامل: جلد 2 ،ص 183 ) رہبانیت ۔ہر وقت مسجد و محراب میں عبادت کا تصور اسلام میں نہیں ۔ اسلام مسجد و گھر دونوں میں توازن کا قائل ہے ۔کسی نبی کے لیے بھی اہم ترین نعمت زوجہ اور اولاد ہے۔ ارشا د رب العزت ہے : وَلَقِدْاَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَھُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةً۔ ” بتحقیق ہم نے آ پ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیجے اور انہیں ہم نے اولا د و ازوا ج سے بھی نوازا۔” (رعد:۳۸) اللہ نے اپنی تعلیمات کا تذکرہ کرتے ہوئے اولا د کی نسبت ازواج کی طرف دے کر عورت کی اہمیت واضح کر دی ۔ ارشا د رب العزت ہے ۔: وَاللہ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجًا وَّجَعَلَ لَکُمْ مِّنْ أَزْوَاجِکُمْ بَنِیْنَ وَحَفَدَةً وَّرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبَاتِ أَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُوْنَ وَبِنِعْمَةِ اللہ ہُمْ یَکْفُرُوْنَ ” اوراللہ نے تمہارے لیے تمہاری جنس سے بیویا ں بنائیں اور اس نے تمہاری ان بیویوں سے تمہیں بیٹے اور پوتے عطا فرمائے اور تمہیں پاکیزہ چیزیں عنایت کیں تو کیا یہ لوگ باطل پر ایمان لائیں گے اور اللہ کی نعمت کا انکار کریں گے ؟ ” (سورہ نحل:۷۲) اولا د کی نسبت عورتوں کی طرف یعنی بیویوں کی طرف کیوں ظاہر ہے کہ مرد کا مقصد جماع سے ہر وقت بچہ ہی نہیں ہوتا۔ عورت ملی ہے کہ وہ قطرہ کو اپنے رحم میں جگہ دیتی ہے اور پھر وہ بچہ کی صورت میں پیدا ہوتاہے ۔ کھجوریں کھانے والا کھجوریں کھا کر اس کی گٹھلی پھینک دیتا ہے ۔ لیکن اسی سے کھجور پید اہوتی ہے اور مالک ِ زمین کی ملک ِ بن جاتی ہے۔ قطرہ کو کئی ماہ پیٹ میں رکھنا اپنا خون دینا اپنی انرجی صرف کرنا بے چاری زوجہ کا کام ہے ۔ مرد تو بعد از لذت و تلذذ اپنے آپ کو فارغ سمجھ لیتاہے۔ بیویوں کی نسبت مرد کی طرف کہ وہ تمہاری ہی جنس سے ہیں، وحدت و یگانگی کی بہترین مثال ہے اور پھر اولا دکی نسبت زوجہ کی طرف دینے سے انسان کو متوجہ کرنا ہے کہ جنت ماں کے قدموں میں ملے گی۔ گھر اللہ کا بنایا ہواایک حصار ہے جس میں محبت اور الفت و پیار کا دور دورہ گھر کو جنت معا شرہ کو مثالی بنا دیتاہے ۔ گھر مرد نے بنا یا اسکوجنت عورت نے بنانا ہے مرد کاکام حفاظت اور خوبصورتی پیداکرنا عورت کا کرشمہ ہے ۔ عورت و مرد ایک دوسرے کا لباس ایک دوسرے کی عزت و تکریم ہیں ۔کلکم راع و کلکم مسئول عن رعیتہ تم مردان کے محافظ ہوتم سے ان کے متعلق سوال کیاجائے گا۔ ارشاد رب العزت ہے : یَاأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا قُوْا أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَیْہَا مَلاَئِکَةٌ غِلاَظٌ شِدَادٌ لَّایَعْصُوْنَ اللہ مَا أَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ ۔ “اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچا و،جسکاایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ اس پر تند خواو ر سخت مزاج فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے ۔ اور جو حکم انہیں ملتاہے بجا لاتے ہیں ۔” (سورہ تحریم :۶) حدیث میں ارشاد ہے کہ اس مرد پرخدا کی رحمت ہے جو نماز شب کے لیے بیدار ہوتاہے ۔ اور اپنی زوجہ کو بیدار کرتاہے ۔ تاکہ وہ بھی نماز شب پڑ ھ سکے۔ خدا اس عورت پر رحیم کرتا ہے جو نماز شب کے لئے خود بیدار ہو اور شوہر کو بیدار کرے تاکہ وہ بھی نماز شب پڑھ سکے۔ درحقیقت یہ کام متوجہ کر رہاہے کہ عورت و مرد کا باہمی تعلق اس قدر قوی ہے کہ مرد چاہتاہے عورت بھی اس کی نیکی میں ساتھی بنے۔ ساتھی عورت خواہش کرتی ہے کہ مردبھی اس نیکی میں میرا ساتھ دے تاکہ پورے خانوادہ کے لیے جنت حق واجب بن جائے ۔ ارشادِ رب العزت ہے: وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُمْ بِإِیْمَانٍ أَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَمَا أَلَتْنَاہُمْ مِّنْ عَمَلِہِمْ مِّنْ شَيْءٍ کُلُّ امْرِءٍ بِمَا کَسَبَ رَہِیْنٌ ۔ “اور جو لوگ ایمان لے آئے اورانکی اولاد نے بھی ایمان لانے میں انکی پیروی کی تو ان کی اولاد کوبھی جنت میں ہم ان سے ملا دیں گے اور انکے عمل میں سے ہم کچھ بھی ضائع نہیں کریں گے ہرشخص اپنے عمل کا گروی ہے ۔” (طور :۲۱) حضرت نوح کی دعا جس میں گھر کی اہمیت اور عورت و مردکے لیے مغفرت کی خواہش ہے رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلاَتَزِدِ الظَّالِمِیْنَ إِلاَّ تَبَارًا ۔ “پروردگار! مجھے اور میرے والدین اور جو ایمان کی حالت میں میر ے گھر میں داخل ہو اور تمام ایماندار مردوں اورایماندار عورتوں کو معاف فر ما اور کافروں کی ہلاکت میں مزید اضافہ فرما۔” (سورہ نوح : ۲۸)

عورت اورحجاب

حجا ب کے متعلق آیات قرآنی (۱) قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ ذٰلِکَ أَزْکٰی لَہُمْ إِنَّ اللہ خَبِیْرٌم بِمَا یَصْنَعُوْنَ وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ وَلَایُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلاَّ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوبِہِنَّ وَلَایُبْدِیْنَ زِینَتَہُنَّ إِلاَّ لِبُعُوْلَتِہِنَّ أَوْ آبَائِہِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِہِنَّ أَوْ أَبْنَائِہِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِہِنَّ أَوْ إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِیْ إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِیْ أَخَوَاتِہِنَّ أَوْ نِسَائِہِنَّ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُنَّ أَوِ التَّابِعِیْنَ غَیْرِ أُولِی الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْہَرُوْا عَلٰی عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلاَیَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ وَتُوْبُوا إِلَی اللہ جَمِیْعًا أَیُّہَا الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔ “آپ مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کو بچا کر رکھیں یہ ان کے لیے پاکیزگی کا باعث ہے۔اور مومنہ عورتوں سے بھی دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کر یں اوراپنی شرمگاہوں کو بچائے رکھیں اوراپنی زیبائش کی جگہوں کو ظاہر نہ کریں سوائے اسکے جو خود ظاہر ہو اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنی زیبائش کو ظاہر نہ ہونے دیں سوائے اپنے شوہروں آبا ء شوہر کے آبا ء اپنے بیٹوں، شوہر کے بیٹوں اپنے بھائیوں بھائیوں کے بیٹوں بہنوں کے بیٹوں اپنی ہم صنف عورتوں، اپنی کنیزوں، ایسے خادموں جو عورتوں کی خواہش نہ رکھتے ہوں اور ا ن بچوں کے جو عورتوں کی پردے کی بات سے واقف نہ ہوں اور مومن عورتوں کو چاہیے کہ چلتے ہوئے اپنے پاوٴں زور سے نہ رکھیں کہ ان کی پوشیدہ زینت ظاہر ہوجائے ۔اور اے مومنو سب مل کر اللہ کے حضور توبہ کرو امید ہے کہ تم فلاح پا وٴ گے ۔ (سورہ نور :۳۰،۳۱) (۲ ) یَاأَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِّأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ ذٰلِکَ أَدْنٰی أَنْ یُّعْرَفْنَ فَلاَیُؤْذَیْنَ وَکَانَ اللہ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ۔ “اے نبی! اپنی ازواج اور بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی چادریں تھوڑی نیچی کر لیا کریں ۔ یہ امر ان کی شناخت کے لیے (احتیاط کے) قریب تر ہو گا ۔ پھرکوئی انہیں اذیت نہیں دے گا ۔ اور اللہ بڑا معاف کرنے والا مہربان ہے ۔” (سورہ احزاب :۵۹) (۳) وَإِذَا سَأَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَاءِ حِجَابٍ ذٰلِکُمْ أَطْہَرُ لِقُلُوْبِکُمْ وَقُلُوبِہِنَّ ۔ “اور جس وقت وسائل زندگی میں سے کوئی چیز عاریتاً ان رسول کی بیویوں سے طلب کرو درمیان میں پردہ حائل ہونا چاہیے یہ کا م تمہارے اور انکے دلوں کو زیادہ پاک رکھتاہے۔” ( سورہ احزاب :۵۳) (۴) وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَاتَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّةِ الْأُوْلَی ۔ “اور اپنے گھروں میں جم کر بیٹھی رہو اور قدیم جاہلیت کی طرح اپنے آپ کو نمایاں نہ کرتی پھرو ۔” ( سورہ احزاب :۳۳) (۵) وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللاَّ تِیْ لاَیَرْجُوْنَ نِکَاحًا فَلَیْسَ عَلَیْہِنَّ جُنَاحٌ أَنْ یَّضَعْنَ ثِیَابَہُنَّ غَیْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ م بِزِیْنَةٍ وَأَنْ یَّسْتَعْفِفْنَ خَیْرٌ لَّہُنَّ وَاللہ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ۔ “اور جو عورتیں ضعف السنی کی وجہ سے گھروں میں خانہ نشین ہو گئی ہوں اور نکاح کی توقع نہ رکھتی ہوں ان کے لیے اپنے حجاب کے اتار دینے میں کوئی حرج نہیں ۔ بشرطیکہ زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں ۔ تاہم عفت کاپاس رکھنا ان کے حق میں بہتر ہے اور اللہ بڑا سننے والا جاننے والا ہے ۔” ( سورہ نور:۶۰) پردہ ہر زمانہ میں شافت و عظمت کی نشانی سمجھا جاتا رہاہے اسلام نے اس کاحکم دے کرایک عورت کی عظمت کی حفاظت کی ہے ۔ پردہ چادر برقعہ دو پٹہ غرضیکہ ایسا کپڑ ا جس سے عورت کا بدن اور اس کے بال نظر نہ آئیں ۔ ۱)حکم ہے کہ نرم لہجہ میں ہنستے ہوئے غیر مردسے بات نہ کریں ۔ ارشاد رب العزت ہوتاہے : فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہِ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا۔ “نرم لہجہ میں بات نہ کرو کہیں وہ شخص لالچ میں نہ پڑ جائے جس کے دل میں بیماری ہے اور معمول کے مطابق باتیں کیا کرو۔” ( سورہ احزاب : ۳۲ ) ۲) میک اپ بن سنور کا بازار یاباہر کسی جگہ جاناممنوع ،زینت صرف شوہر وں کے لیے ہونا چاہیے۔ہاں محرموں کے سامنے آنے میں کوئی حرج نہیں۔ وَلاَیُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلاَّ لِبُعُوْلَتِہِنَّ ۔ “اپنی زیبائش کو ظاہر نہ ہونے دیں مگر شوہر وں اور محروں کے لئے ۔”(سورہ نور:۳۱) ۳) چلتے ہوئے کوئی ایسی علامت نہیں ہونی چاہیے جس سے لوگ متوجہ ہوں مثل پاؤں زور سے مارنا پا زیب یا اس طرح کا زیور جس سے آواز پید اہو پرفیوم عطریات جس سے لوگ خصوصی توجہ شروع کریں ۔ ارشاد رب العزت ہوتاہے : لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ ۔ “جس سے پوشیدہ زینت ظاہرہو جائے ۔ ” (سورہ نور:۳۱) ۴)ایسی چادر دوپٹہ اوڑھیں جس سے بدن کے اعضا سینہ گردن بال ظاہر نہ ہوں ۔ ارشاد ِرب العزت ہے : وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ ۔ “اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنی زیبائش ظاہر نہ ہونے دیں۔(نور:۳۱) ۵)ا رشادِ رب العزت ہے : یُدْنِینَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیبِہِنَّ ذَلِکَ أَدْنَی أَنْ یُعْرَفْنَ ۔ اپنی چادراور اوڑھنی اس طرح ڈالے رکھیں تاکہ ان کی پہچان ہو سکے ۔ ۶) ارشاد رب العزت ہے : فَاسْأَلُوہُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ۔ عورتوں سے ضرورت کی کوئی چیز طلب کرنا ہو تو پردہ یا دروازے کے پیچھے رہ کر طلب کرو۔ (احزاب :۵۳) ۷)بناؤ سنگھار کے ساتھ باہر نکلنا اسلام سے پہلے کا (جاہلیت)طور طریقہ ہے، اسلام کے بعد ایسا کرنا گویا جاہلیت کی طرف پلٹناہے ۔ ارشاد رب العزت ہوتاہے : وَلاَتَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّةِ الْأُوْلٰی “قدیم جاہلیت کی طرح اپنے آپ کو نمایاں نہ کرتی پھرو “۔(سورہ احزاب ۳۳) آخر بحث میں رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کافرمان وجناب سیدہ سلام اللہ علیھا کا جواب : قال رسول اللہ لابنتہ فاطمةعلیھا السلام ایُّ شیء خیر للمرئة قالت ان لا تری رجلا ولا یراھا رجل۔ رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اپنی بیٹی فاطمہ زہرا سے پوچھا کہ عورت کے لیے سب سے بہتر کیا ہے؟ عرض کیا عورت مرد کو نہ دیکھے او رمرد اس عورت کونہ دیکھ سکے ۔ عورت کی عظمت جناب سیدہ سلام اللہ علیہا جن کی تعظیم کے لیے رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )بنفس نفیس کھڑے ہو جاتے تھے ،اے بیٹی !اے ماں! جس قدر سیرت زہرا پرعمل ہوگا اسی قدر تیری عزت وعظمت ہوگی ۔ قرآن مجید و ازدواج ازدواج او رنکاح مرد و عورت کے درمیان اتصال۔ جس میں حدود شرعی کو مدنظر رکھتے ہوئے جسمانی وروحانی لذت کا حصول اورنسل انسانی کی بقاء مقصود ہوتی ہے ۔ النکاح سنتی فمن رغب عن سنتی فلیس منی فطری لذت بھی حاصل او رانسانیت کی بقاء بھی موجود ۔ فرمان رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) المحجة البیضاء جلدنمبر ۳ ص۵۴ نکاح میری سنت ہے میری سنت سے روگردانی کرنے والامیرا نہیں ہو سکتا۔ نکاح کا ذکر قرآن مجید میں ۲۴ دفعہ آیا ہے ۔ فطرت انسانی میں مرد بہ عنوان طالب او ر محب او رعورت پھول او رشمع کی حیثیت رکھتی ہے مرد۔ مائل جاتا ہے او رعورت اسکا مقصود بنتی ہے لذا اسی فطرت کے مطابق خطبہ ازدواج کی خواہش مرد کی طرف سے ہوتی ہے، ناز ونعم میں پروردہ عورت کے لیے افتخار مرد کی بار بار آمد تاکہ قبولیت ہوجائے۔ مرد محبت خرید رہا ہے ، محبت اور چاہت رکھتا ہے اس بیوی کو اپنے گھر میں لانا چاہتا ہے اوراس شمع سے اپنے گھر کو روشن چاہتا ہے ۔یہ ہے اظہار۔ محبت اسی میں عورت کا شرف او رعورت کی عظمت ہے ۔ پھر برات مرد کی طر ف سے جاتی ہے تاکہ عزت کے ساتھ اپنے گھر میں اس عظیم شخصیت اس محبوبہ کو لایا جاسکے تاکہ گھر میں رونق ہو گھرمیں چہل پہل ہو مرد کیلئے سکون واطمینان ہو۔ لیکن جب صیغہ نکاح پڑھاجاتا ہے تو عورت کی طرف سے ابتدا ہوتی ہے انشاء عورت کی طرف سے او رقبول مرد کی طرف سے یہ در حقیقت مرد کا استقبال ہے ۔ اپنی طرف سے رضا مندی کا اظہار ہے تا کہ مرد سمجھ لے کہ اسکی محنت رائگاں نہیں گئی ۔ مجھے محبت کاجواب محبت سے ملا ہے ۔کتنی چاہت کے ساتھ کتنی خوشی کے ساتھ مرد اس عورت کو اپنے گھرلے جاتا ہے ۔ جو گھر مرد کا تھا بنانے والے مرد کا تھا لیکن اب اس گھر کی سجاوٹ عورت ہے ۔ گھر کی زینت عورت ہے، گھرمیں روشنی عورت سے، گھر میں خوشبو عورت سے ۔مردگھر سے باہر ہوتے ہوئے بھی فورا گھر جانے کی خواہش رکھتا ہے تاکہ اپنے اس پھول کی خوشبو سے مستفید ہو ۔ یہ ہے خداکا عطیہ یہ ہے فطری ملاپ ملاپ بھی ایسا کہ ((تو من شدی من تو شدم)) کا مصداق ہیں۔ ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ ” وہ تمہارے لباس اور تم ان کے لبا س ہو ۔” (بقرہ:۱۸۷) ارشا د رب العزت ہے: وَمِنْ آیَاتِہ أَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْا إِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً إِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُوْنَ “اور یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے ۔ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے ازواج پید ا کیے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور مہربانی پیدا کردی۔ غور و فکر کرنے والوں کے لیے یقینا ان میں(خداکی) نشانیاں ہیں ۔” (روم :۲۱) عورت کی طرف سے محبت او رپیار مرد کی طرف سے محبت کے ساتھ رحمت و مہربانی تاکہ باہمی ارتباط مضبوط سے مضبوط تر ہو جائے خد ا کرے یہ شادی یہ خوشی دائمی ہو ساری زندگی ہی نہیں بلکہ آخرت میں بھی ملاپ و صل و ارتباط ہو۔ ارشادِ رب العزت : ہُمْ وَأَزْوَاجُہُمْ فِیْ ظِلَالٍ عَلَی الْأَرَائِکِ مُتَّکِئُوْنَ “وہ اور انکی ازواج سا یوں میں مسندوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے ۔” (یٰسین:۵۶) انسانی فطر ت میں اس محبت کوودیعت کیا گیاہے ۔ صحیح محبت حدود شرعی میں رہتے ہو ئے محبت فطری کہلائے گی۔ ارشاد رب العزت ہے: زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْث ” لوگوں کوان کی مرغوب چیزوں یعنی بیویوں، بیٹیوں ، سونے چاندی کے خزانے۔ عمدہ گھوڑوں اورمریشیوں اورکھیتوں کی الفت و زینت دکھا دی گئی ہے۔ ” (آل عمران:۱۴) لیکن یہ تو دنیا وی سامان ہے انجام و عاقبت میں بھی ازواج و عورت کی اہمیت واضح ہے ۔ ارشاد رب العزت ہے : قُلْ أَؤُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِکُمْ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّہِمْ جَنَّاتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا وَأَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَةٌ وَّرِضْوَانٌ مِّنَ اللہ وَاللہ بَصِیْرٌ بِالْعِبَادِ ۔ “کہہ دیجیے کیامیں تمہیں ان چیزوں سے بہتر چیز نہ بتادوں جو لوگ تقویٰ اختیار کرتے ہیں ان کے لیے ان کے رب کے پاس باغا ت ہیں جن کے نیچے نہریں جا ری ہیں ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ نیز ان کے لیے پاکیزہ بیویا ں ہیں اور اللہ کی خوشنودی ہوگی اورا للہ بندوں پر خوب نگاہ رکھنے والا ہے ۔”

تبصرے
Loading...