زندگی میں چند حقیقی نمازیں ضرور پڑھو

 اے جوانوں ،آپ کو چایہئے کہ  اپنی زندگی میں چند کامل اور حقیقی نمازیں ضرور  ادا کرو اور اس پاکیزہ عمل کو بے ریا اور بے نقص انجام دو اور اپنے بزرگوں سے بھی میری یہی گزارش ہے ۔اگر ہم نے پہلے اس عمل کو صحیح طریقہ سے انجام نہیں دیا ہے  یعنی نماز کی غلط تصویر بنائی ہے ۔تو آیئے اپنی زندگی کہ یہ جو چند دن یا چند مہینے یا چند سال ابھی باقی ہیں اور ملک الموت  نہیں آئے ہیں،ان میں دو  چار نماز یں  صحیح طریقہ سے ادا کرکے ان کی ایسی تصویر بنائیں جو کامل ہو ،جیسا کہ  رسول اکرماور امام صادق نے بھی یہی فرما یا ہے۔اگر ہم نے ایساکیا تو یقیناخداوند عالم ان کوقبول فرما ےگا اور کہے گا کہ تمہاری  صرف  ان  چار  کامل اور صحیح نمازوں کی برکت سے،میں نے تمہاری پچھلی تمام نمازوں کی غلطیوں کو  نظر انداز کر دیا اور ان  کو قبول کر لیا   ۔یہ بات کم نہیں ہے۔

یہاں تک تو ایک مثال کا ذکر تھا اب میں چاہتا ہوں آپ کے لئے  دو اور مثالوں کا ذکر کروں ،ان  میں سے ایک کا ذکر قرآن مجید میں ہے ۔آپ نےقرآن کریم میں    نورانی اور پرمعنی کلمہ حمد کا ذکر شروع سے آخر تک  دیکھا ہوگا اور اس بات کو مکرر ملاحظہ کیا ہوگا  کہ قرآن مجید میں  پرور دگار عالم نے ہمیں بارہا حمد کرنے کا حکم دیا ہے جیسے ارشاد ہوتا ہے:

“فسبح بحمد ربّک”  یہ ایک مثال ہے لیکن قرآن کریم میں حمد الھی کاحکم بہت زیادہ دیکھنے کو  ملتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ   حمد کے معنی  کیا ہیں؟ حمدکہ معنی اللہ کے  جلال وجمال  ،خوبصورت صفات و کمالات  کا اظھار اور اقرار کرنا اوراسکا شکر ادا  کرنا ہے،لیکن اس حمد خداوند کو کامل اور صحیح طریقہ سے انجام دینا چاہئے۔اب یہ سوال  پیدا ہوتا ہے کہ حمد کامل کیا  ہے ؟اگر میں خدا کی  ہر نعمت یا  ہر صفت  جمالیہ وکمالیہ  کے نزدیک ہو کر یہ کہوں “الحمد للہ ربّ العالمین “تو کیا یہ حمد کے لئے کافی ہے یانہیں  ؟اس فن کے استاد،عالم قرآن،ائمہ طاھرینؑ،اھل عقل،اھل حکمت،عارف لوگ حمد خدا کو کس طرح ادا کرتے ہیں؟ان کا کہنا ہے کہ آپ کی حمد اس صورت میں کامل کہلائگی کہ وہ  تین مرتبوں سے گزرے”مرتبہ قولی ومرتبہ فعلی ومرتبہ حالی” مرتبہ قولی فقط زبان تک محدود ہے  اور وہ یہ کہ جس طرح خدانے اپنی حمدبیان فرمائی ہے،جسطرح انبیاء (ع)اور ایمہ(ع) نے اس کی ستایئش کی ہے، ہم بھی اسی طرح اس خداوند عالم  کی حمد کریں ۔

مثال کے طور پر شب عاشورا امام حسین کی حمد ،آپ فرماتے ہیں”و احمدہ علی السّراء و الضّراء ” میں چاہیں ایک سر سبز باغ اورچشمہ یا نہر کے کنارےپر رہوں یا پھرآج جیسا کہ عاشورا ہے اور تیس ہزار بھیڑیوں کے درمیان گھرا ہوں اور صبح کو قطعہ قطعہ کردیاجاوں گا اور میرے اھل وعیال کو قیدی بنا لیا جائےگا ،اپنےخدا کی اسی طرح حمد کروں گا جیساکہ  میں اس سر سبز باغ ودریا کے کنارے کھڑے ہو کر کرتا۔دیکھیئے امام حسینخداوند کریم کی کیسی حمدادا کر رہے ہیں،  خداسے  یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ اگر ہمیں باغ میں لے جاکر بہترین غذا دے تو “الحمد للہ “زبان پر جاری ہوگا لیکن اگران بھیڑیوں کے درمیان گرفتار ہو جائیں تو پھر کیسا “الحمدللہ “؟بلکہ آپ فرماتےہیں”واحمدہ علی السراء والضراء”  نہ مجھے خوشی سے مطلب ہے نہ غم سے میں تو خدا کےمقدّس وجود کا عاشق ہوں جو  میری تمام نعمتوں کا مالک ہے۔

حمد قولی میں چاہیں” احمد “کہیں یا”الحمد للہ ربّ العالمین” کہیں چاہیں”الحمد للہ علی کلھاّ”یا” الحمد للّہ علی کلّ النعمہ”کہیں یا پھر  “الحمد لّلّہ الّذی اذھب عنّا الحزن انّ ربّنا لغفور شکور” کہیں ، جس طرح اس نے خود اپنی حمد کی ہےاسی طرح اس خدا  کی حمد کریں ،یہ حمد کا پہلا مرتبہ ہے اور حمد اس مرتبہ میں کامل نہیں ہوگی ۔ 

حمد کا دوسرا مرتبہ مرتبہ  فعلی کہلاتا ہے،مرتبہ فعلی یعنی کیا؟یعنی اس مرتبہ میں آنکھ،کان،زبان،ہاتھ،پیر  ،شکم اورخواہشات سب کے ذریعہ حمد الہی کی  جاے اور اس کا راستا یہ ہے کہ آنکھ اور تمام اعضاء کوتمام گناہوں سے بچا کر نیک کاموں میں لگایا جاے،یہی حمد فعلی ہے۔

لیکن حمد حالی یہ ہے کہ اپنے باطن کو تمام رزائل اخلاقی سےپاک کریں یہ حمد حالی ہے جو کہ حمدکا تیسرا مرتبہ ہے،  اب جب میں الحمد للّہ کہوں گااورمیرے تمام اعضاءبھی عملی طور سےحمد  خدا میں مشغول  ہوں گے اور اسی طرح میرا باطن بھی حمد خدا میں شامل ہوگا تب کہیں جا کر پروردگار کی خاص رحمت کا مستحق  قرار پاوں گا ،یہ قرآن کریم کی راہنمائی ہے۔ 

اسی کے ساتھ  میں الھی اور شیطانی نماز کے سلسلہ میں اپنی گفتگو کو یہاں ختم کرتا ہوں، جبکہ یہ موضو ع ہزار سال بات کرنے پر بھی ختم نہیں ہونے والا ہے ، قرآن و روایات میں انسان سازی کےبہت مطالب  بیان ہوے ہیں ۔

البتہ  غبار آلودہ دلوں اور باطن کی پاکیزگی کے لیئے کوئی راستہ اس سے بہتر نہیں ہے کہ گریہ کیا جائے اور وہ بھی امام حسین  پر،اس لئے نہیں کہ 

ہمارے رونے کی  کوئی قیمت ہے ،نہیں ،بلکہ یہ آنسو  چونکہ  امام حسین  سے وابستہ ہیں اسی لئے قیمتی  ہو گئے ہیں ،حقیقت میں ہم اپنے مولا پر آنسو بہا کر  اپنے  لیےیہ کام کرتے ہیں کہ حضرت کواپنےذہن ودل میں اتار لیتے ہیں اور آقا  سے یہ گزارش کرتے ہیں کہ مولا ہمارے اس آلودہ  دل و باطن کو پاک کر دیجئے  ،یقینا مولا  بھی اس کام کو انجام دے  دیتے ہیں ۔

تبصرے
Loading...