خطبہ 37 نہج البلاغہ: اپنی استقامتِ دینی اور سبقتِ ایمانی کے متعلق فرمایا

میں نے اس وقت اپنے فرائض انجام دیئے جبکہ اور سب اس راہ میں قدم بڑھانے کی جرات نہ رکھتے تھے. اور اُس وقت سر اٹھا کر سامنے آیا. جب کہ دوسرے گوشوں میں چھپے ہوئے تھے اور اس وقت زبان کھولی جبکہ دوسرے گنگ نظر آتے تھے اور اس وقت نورِ خدا (کی روشنی) میں آگے بڑھا, جبکہ دوسرے زمین گیر ہو چکے تھے, گومیری آواز ان سب سے دھیمی تھی. مگر سبقت و پیش قدمی میں میں سب سے آگے تھا. میرا اس تحیک کی باگ تھامنا تھا , کہ وہ اڑ سی گئی. اور میں صاف تھا جو اس میدان میں بازی لے گیا. معلوم ہوتا تھا جیسے پہاڑ جسے نہ تند ہوائیں جنبش دے سکتی ہیں, اور نہ تیز جھکڑ اپنی جگہ سے ہلا سکتے ہیں. کسی کے لیے بھی مجھ میں عیب گیری کا موقع اور حرف گیری کی گنجائش نہ تھی. دباہوا میری نظروں میں طاقتور ہے. جب تک کہ میں اس کا حق دلوانہ دوں اور طاقت و ر میرے یہاں کمزور ہے جب تک کہ میں اس سے دوسرے کا حق دلوا نہ لوں. ہم قضائے الہی پر راضی ہو جکے ہیں اور اُسی کو سارے امور سونپ دیئے جائیں. کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ میں رسول اللہ پر جھوٹ باندھتا ہوں. خدا کی قسم میں وہ ہوں جس نے سب سے پہلے آپ کی تصدیق کی, تو اب آپ پر کذب تراشی میں کس طرح پہل کروں گا. میں نے اپنے حالات پر نظر کی, تو دیکھا کہ میرے لیے ہر قسم کی بیعت سےاطاعتِ رسول مقدم تھی اور ان سے کیے ہوئے عہد و پیمان کا جو میری گردن میں تھا.

تبصرے
Loading...